امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کے موقعے پر مختلف عوامی طبقات اور خاص طور پر مغربی صوبے ایلام کے ہزاروں لوگ تہران میں حسینیہ امام خمینی پہنچے اور قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔
اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کی مبارک باد پیش کی اور آپ کے لا محدود فضائل میں سے کچھ کا ذکر کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے دور حکومت میں مادی پیشرفت کے ساتھ ساتھ عوام الناس کی سعادت و خوشبختی کے لئے طے کئے گئے اعلی ہدف سمیت آپ کی زندگی کے چار اہم ترین ابواب کا ذکر کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ معاشرے کی حقیقی خوش بختی کو یقینی بنانے کے لئے مولا علی کی زندگی سے ملنے والا اہم ترین سبق عوام الناس کی اقتصادی مشکلات کو دور کرنے اور ان کی معیشت کو بہتر بنانے کی سعی و کوشش کا سبق ہے اور موجودہ حالات میں یہ ہدف بے شمار داخلی صلاحیتوں کو فعال کرنے کے لئے صحیح منصوبہ بندی اور ملک کے نوجوانوں کی توانائیوں پر بھروسہ کرنے سے ممکن ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ اس طرح کی صورت حال ہو تو ملک مادی و روحانی و اخلاقی اعتبار سے بھی اور عالمی وقار و عزت اور خود اعتمادی کے اعتبار سے بھی ترقی کرے گا اور غیر ملکی دشمنوں کے احسانات اور مغرور انداز برداشت کرنے پر بھی مجبور نہیں ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے حضرت علی علیہ السلام کے ان فضائل کو جن کا ادراک ذہن انسانی کے امکان میں ہے چار حصوں، روحانی مدارج، مجاہدت و ایثار، شخصی، سماجی اور حکومتی برتاؤ، اور عوام الناس کے لئے اعلی ہدف کے تعین میں تقسیم کیا۔ آپ نے امیر المومنین علی علیہ السلام کے روحانی مدارج کے بارے میں فرمایا کہ حضرت علی علیہ السلام کے ملکوتی مقامات جیسے آپ کا عقیدہ توحید، عبادت کی منزلت، تقرب الہی کا مرتبہ، اخلاص کی کیفیت یہ سب بحر بیکراں کی مانند ہیں جس کے بیشتر پہلو اب تک ناشناختہ ہیں اور علماء اور بڑی ہستیاں بھی ان کے مکمل ادراک سے اظہار عجز کر چکی ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلام قبول کرنے کے وقت سے لیکر مکے کے مختلف حالات و مراحل، ہجرت، مدنیہ منورہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حکومت کے دور تک اور پھر پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد اور عہدہ خلافت قبول کرنے کے مرحلے میں حضرت علی علیہ السلام کے ایثار و مجاہدت کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے ان تمام مراحل میں ایثار و مجاہدت کی اس بلندی پر خود کو فائز کیا کہ اسے دیکھ کر ہر انسان مبہوت رہ جاتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے بقول حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کا ایک عدیم المثال پہلو آپ کا شخصی، سماجی اور حکومتی برتاؤ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جس زمانے میں حضرت علی علیہ السلام ایک بڑے اور طاقتور حاکم اور وسیع و عریض اور دولت مند قلمرو کے مالک تھے، اس زمانے میں بھی ایک غریب انسان کی طرح انتہائی معمولی گھر میں زندگی بسر کرتے تھے اور حق و انصاف کے قیام اور احکام الہیہ کے نفاذ کے لئے استقامت فرماتے تھے اور بڑے عظیم کارنامے سرانجام دیتے تھے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ حضرت علی علیہ السلام کی زندگی کا چوتھا اہم ترین باب حکومت کے دوران عوام الناس کے لئے حضرت علی علیہ السلام کے مد نظر رہنے والا اعلی ہدف ہے۔ آپ نے فرمایا کہ امیر المومنین علیہ السلام کی نظر میں یہ ہدف انسانوں کو بہشت بریں تک پہنچانا اور لوگوں کو فکری، روحانی و قلبی میدانوں اور سماجی زندگی میں تعمیری رول ادا کرنے کے قابل بنانا تھا جو بہت اہم مسئلہ اور حاکم اسلامی کا اہم ترین فریضہ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس نظرئے پر کہ اسلامی حکومت کی ذمہ داری لوگوں کے لئے بہشت بریں کا راستہ ہموار کرنا ہے، کی جانے والی تنقیدوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی حاکم کی اصلی ذمہ داری عوام الناس کو حقیقی سعادت کی منزل تک پہنچانا ہے، البتہ اس کا مطلب لوگوں پر کچھ مسلط کرنا نہیں بلکہ سعادت و کامرانی کی جانب فطرت انسانی کے میلان کو دیکھتے ہوئے سازگار ماحول بنانا چاہیئے تاکہ اس ہدف تک رسائی کا عمل آسان ہو جائے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ اگر اسلامی معاشرہ مادی وسائل، علمی و صنعتی پیشرفت، سماجی تعلقات، قومی عزت و وقار اور عالمی ساکھ کے اعتبار سے اپنے اوج پر ہو مگر جب موت کی گھڑی آئے اور دنیائے آخرت میں قدم رکھنے کا موقعہ آئے تو وہ انسان کی روسیاہی کا موقعہ ثابت ہو تو وہ معاشرہ حقیقی سعادت و کامرانی کی منزل میں ہرگز نہیں پہنچا ہے۔ لوگوں کو حقیقی سعادت و خوش بختی تک پہنچانے کا سازگار ماحول تیار کرنے کا راستہ بیان کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ عوام کے معیشتی حالات کو بہتر بنانے اور غربت، بے روزگاری، طبقاتی فاصلوں اور تفریق و امتیاز کو ختم کرنے کے لئے محنت و جفاکشی سب سے بہترین راستہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ آج لطف خداوندی سے ملک کے حکام، عوام کی معاشی مشکلات کو حل کرنے کی فکر و کوشش میں مصروف ہیں مگر ضروری ہے کہ فکروں کو منظم کیا جائے اور صحیح راستے کی نشاندہی ہو۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے استقامتی معیشت کی کلی پالیسیوں پر عملدرآمد اور داخلی صلاحیتوں اور توانائیوں پر تکیہ کئے جانے کو اقتصادی مسائل کے حل کا صحیح راستہ قرار دیا اور فرمایا کہ جہاں بھی ہم نے جوش و جذبے سے سرشار، با اخلاص و با ایمان نوجوانوں کی صلاحیتوں اور خلاقانہ جدت عملی پر تکیہ کیا اور ان کی قدر و قیمت کو سمجھا، وہاں ترقی کے خروشاں چشمے ابلنے لگے، چنانچہ ایٹمی و طبی شعبوں، اسٹیم سیلز، نینو ٹکنالوجی اور دفاعی صنعتوں کے میدانوں کی زبردست ترقی اس حقیقت کے عملی نمونے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے کہا کہ انہی حقائق اور زمینی سچائی کے مد نظر امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے اس جملے کا مطلب سمجھا جا سکتا ہے کہ 'امریکا ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا'۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اگر ہم داخلی صلاحیتوں کو حرکت میں لائیں اور مقامی توانائيوں پر تکیہ کریں تو امریکا اور دیگر بڑی طاقتیں عسکری و غیر عسکری کسی بھی سطح پر ہمارا کچھ نہیں بگاڑ پائیں گي اور دباؤ ڈال کر ملت ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کر سکیں گی۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ بڑی طاقتوں کو جان لینا چاہئے کہ ملت ایران کبھی گھٹنے ٹیکنے والی نہیں ہے کیونکہ یہ ایک زندہ قوم ہے اور ملک کے نوجوان بالکل صحیح سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملک کے نوجوانوں کے بارے میں کچھ لوگوں کی تنگ نظری اور غیر حقیقی نقطہ نگاہ پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا کہ ملت ایران اور نوجوانوں کا عمومی مزاج دینی اور اسلام و قرآن و روحانیت و وطن و ملت سے گہری رغبت کا مزاج ہے اور اس مسئلے کو کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ آپ نے فرمایا کہ ہمارے ملک کے نوجوان بہت اچھے ہیں، ہمیں یہ کوشش کرنا چاہئے کہ ہمارے نوجوان اچھے بنے رہیں، صحیح راستے پر چلیں اور ملک کے مستقبل کے لئے مفید واقع ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں صوبہ ایلام کے عوام، اہم شخصیات اور علما کی اسلامی انقلابی تحریک کے مختلف مراحل اور مقدس دفاع کے دوران استقامت و افتخار آمیز کارکردگی کی تعریف کی۔