بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں نے غم اور افتخار کے ملے جلے جذبات اور کبھی امڈ آئے اشکوں کی پشت سے اس کتاب کو پڑھا، کبھی اس صبر و بلند ہمتی اور پاکیزگی و صفائے باطن اور کبھی اچھی اور بری باتوں اور رنج و مسرت کی تصویر کشی کی اس فنکاری پر صد آفرین کہا۔ مجاہدین اور آزادی پانے والے جنگی قیدیوں کی سرگزشت اور یادوں کے یہ ذخیرے عظیم اور گراں بہا خزانے ہیں جو تاریخ کو ثمربخش اور تعلیمات کا دائرہ وسیع تر کرتے ہیں۔ یہ بہت بڑی خدمت ہے کہ انہیں ذہنوں اور یادداشت کی گہرائی سے باہر نکالا جائے اور قلم و فن اور تصویر کشی کے مرحلے تک پہنچایا جائے۔
یہ بھی ان تحریروں میں سے ایک ہے جن کا ترجمہ ضروری ہے۔ اس کتاب کی چاروں چیمپیئن خواتین بالخصوص اس کی مصنفہ اور ماہر فن راقم کی خدمت میں سلام و تہنیت پیش کرتا ہوں۔
5/7/92 (ہجری شمسی مطابق 27 ستمبر 2013)