قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اتوار کی صبح عدلیہ کے سربراہ، اعلی عہدیداروں اور ججوں سے ملاقات میں عدلیہ کے سربراہ آیت اللہ آملی لاری جانی کے نئے پانچ سالہ دور کے لئے چھ اہم ترجیحات بیان کرتے ہوئے اہم قومی مسائل اور مفاد عامہ کے امور میں عدلیہ، مقننہ اور مجریہ کے درمیان ہم آہنگي، اتحاد اور تعاون کو ضروری قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے عراق کی تازہ صورت حال کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ عراق میں فتنہ انگیزی اور آتش افروزی کے پس پردہ مغرب کی تسلط پسند طاقتیں اور ان میں سر فہرست امریکی حکومت ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران عراق کے داخلی مسائل میں امریکا کی ہر طرح کی مداخلت کی بھرپور مخالفت کرتا ہے اور تہران کا ماننا ہے کہ عراق کے عوام، حکومت اور دینی قیادت موجودہ آتش افروزی پر قابو پانے کی توانائی رکھتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ہفتم تیر مطابق 28 جون کے دہشت گردانہ حملے کے شہیدوں اور خاص طور پر عدلیہ کے سربراہ آيت اللہ بہشتی شہید کو یاد کیا اور آيت اللہ قدوسی شہید کو بھی خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ ملک کے دیگر اداوں کی نسبت عدلیہ کی انفرادی خصوصیت اسلامی نظام کے تمام اداروں میں حق و انصاف کے تقاضوں کی تکمیل کو یقینی بنانا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہی وجہ ہے کہ عدلیہ سے بڑی توقعات وابستہ ہیں اور اس شعبے کے سربراہ کی نمایاں صلاحیتوں اور توانائیوں کو دیکھتے ہوئے جو فاضل، دیندار، مجتہد، خوش فکر، انقلابی شجاع اور مسائل سے آگاہ عالم دین ہیں، مطلوبہ اہداف کا حصول اور توقعات کی تکمیل دائرہ امکان میں محسوس ہوتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے گزشتہ پانچ سالہ دور میں عدلیہ کے سربراہ اور دیگر اعلی عہدیداروں کی خدمات اور کاوشوں کی قدردانی کرتے ہوئے نئے دور کے لئے چھے ترجیحات بیان کیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے پہلی ترجیح کے طور پر پالیسیوں کے اجراء کے لئے واضح اور خصوصی نظام اور مکینزم کا ذکر کیا اور فرمایا کہ عدلیہ سے متعلق پالیسیوں کے نفاذ، ان پالیسیوں کو منصوبوں میں تبدیل کرنے اور پھر ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنائے جانے کے عمل پر مکمل نگرانی کے لئے واضح اور خصوصی نظام اور سسٹم تیار کیا جانا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی کے مطابق عدلیہ کے لئے دوسری اہم ترجیح ججوں اور دیگر عہدیدروں کی کارکردگی کی نگرانی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ نگرانی اتنی سنجیدہ اور ہمہ گیر ہونی چاہئے کہ کارکردگی کے سلسلے میں شکایتیں اور خامیاں کمترین سطح تک پہنچ جائيں۔
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ عدلیہ کی تیسری ترجیح عدالت کے حکم اور فیصلے کے نفاذ میں عدم تاخیر کو یقینی بنانا ہے، آپ نے فرمایا کہ بعض فیصلوں کے نفاذ میں طولانی التواء کچھ خامیوں کا نتیجہ ہے جنہیں نشاندہی کے بعد برطرف کیا جانا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے انصاف دلانے کے عمل کی طوالت کے سلسلے میں ایک اہم نکتے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ عدالتی عمل کی طوالت کی شرح میں کمی کا عندیہ دینے والے اعداد و شمار اچھے ہیں مگر اس بات پر توجہ دی جانی چاہئے کہ ایک معینہ وقت میں کتنے مقدمے نمٹائے جاتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اچھا کیڈر تیار کرنے اور متبادل افراد کی تربیت کو چوتھی ترجیح قرار دیا اور جرائم کی پیشگی روک تھام کو پانچویں ترجیح قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ جرم کی پیشگی روک تھام کا مسئلہ ایک وسیع مسئلہ ہے لہذا عدلیہ کو چاہئے کہ جرائم کی پیشگی روک تھام کے لئے اس مسئلے سے تعلق رکھنے والے دیگر اداروں سے اپنے رابطے کو مستحکم کرے اور ان اداروں سے اپنے اشتراکات کو مضبوط بنائے
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ جرائم کی پیشگي روک تھام ایک علمی موضوع ہے لہذا ضروری ہے کہ جرم کے محرکات کی شناخت اور جرم کے منفی اثرات کے بارے میں اس شعبے کے ماہرین اور اہل نظر افراد سے تعاون اور مشاورت کی جائے۔
قائد انقلاب اسلامی نے چھٹی اور آخری ترجیح کے طور پر تینوں شعبوں یعنی عدلیہ، مجریہ اور مقننہ کے درمیان تعاون میں توسیع کا ذکر کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ تینوں شعبوں کے سربراہوں کے لئے میری دائمی سفارش اور تاکید باہمی تعاون کی توسیع سے متعلق ہے، یہ تعاون شعبوں کے داخلی مسائل میں بھی اور ملک کے بڑے امور میں بھی ہونا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی نظام کی سطح پر مختلف مسائل کے بارے میں تینوں شعبوں کے سربراہوں کی ہم خیالی صاف دکھائی دینی چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے گوناگوں مسائل میں عدلیہ کے سربراہ آيت اللہ آملی لاری جانی کے اچھے، محکم، مدلل اور منطقی موقف کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ تینوں شعبوں (عدلیہ، مقننہ، مجریہ) کے سربراہوں کی ہم خیالی اور تعاون مختلف حکومتی اداروں میں اسی انداز کے موقف کی ترویج کا باعث بنے گی۔ آپ نے فرمایا کہ قومی مفادات کو تمام امور پر فوقیت حاصل ہے اور تینوں شعبوں کے سربراہوں کو چاہئے کہ اپنے مشترکہ اجلاسوں کی تعداد میں اضافہ کریں کیونکہ یہ اجلاس مشکلات کے ازالے، امور کی پیشرفت اور گلے شکوے دور ہونے میں مددگار واقع ہوں گے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملک کے اہم مسائل کے سلسلے میں فرمایا کہ ملک کے اندر جو مشکلات ہیں اسی طرح بعض لوگوں نے جو خیالی مشکلات فرض کر رکھی ہیں سب کو حل کیا جا سکتا ہے لیکن اس کی بنیادی شرط یہ ہے ہم تھوڑا اپنے اوپر اور ملک کی داخلی توانائیوں پر اعتماد کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ملک کے سامنے ایک بڑا چیلنج مغرب کے تسلط پسندانہ نظام کی جانب سے اسلامی نظام کی مخالفت ہے، اس حقیقت کو سمجھنا اور اس کا ادراک کرنا ضروری ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر ہم سامراجی نظام کے عناد سے غافل ہو جائیں تو ملکی مسائل کے تجزیئے میں غلطیاں کریں گے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ جو لوگ دشمن محاذ کے معاندانہ اقدامات کو دیکھنے پر تیار نہیں وہ ان لوگوں کی مانند ہیں جو دشمن کو عمدا نظر انداز کرتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران سے سامراجی نظام کی دشمنی کی اصلی وجہ اسلامی نظام کا ایک نئی بات اور نئے پیغام کا حامل ہونا اور سامراجی نظام کی بنیادوں کا کمزور ہونا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے عراق کے واقعات و تغیرات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ عراق کے مسئلے میں مغرب کی تسلط پسند حکومتوں اور خاص طور پر ریاستہائے متحدہ امریکا کی حکومت نے کچھ بکے ہوئے عناصر کی جہالتوں اور تعصب کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش شروع کر دی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ عراق کے واقعات کے پس پردہ اصلی ہدف اس ملک کے عوام کو ان ثمرات سے محروم کر دینا ہے جو انہوں نے امریکا کی مداخلتوں اور موجودگی کے باوجود حاصل کر لیا اور ان میں سر فہرست عوامی نظام حکومت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ عراق کی موجودہ روش یعنی عوام کی بھرپور شراکت سے انتخابات کے انعقاد اور عوام کے مورد اعتماد دھڑے کے منتخب اور معین ہونے سے ناخوش ہے کیونکہ امریکا کی کوشش یہ تھی کہ عراق اس کے زیر تسلط رہے اور اسی کے تابعدار افراد اقتدار میں پہنچیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عراق کے تنازعے کو مسلکی اور فرقہ وارانہ جنگ قرار دینے پر مبنی امریکی حکام کے حالیہ بیانوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ عراق میں جو کچھ ہوا ہے وہ شیعہ سنی جنگ نہیں ہے بلکہ سامراجی ںطام صدام حکومت کی باقیات کو اصلی مہروں اور متعصب تکفیری عناصر کو پیادوں کی حیثیت سے استعمال کرکے عراق کے امن و ثبات اور ارضی سالمیت کو خطرات سے دوچار کر دینا چاہتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ عراق میں جاری فتنے کے ذمہ دار عناصر اس ملک کی خود مختاری سے محبت رکھنے والے مومن اہل سنت سے بھی اتنی ہی دشمنی رکھتے ہیں جتنی دشمنی انہیں شیعوں سے ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ عراق میں جاری تنازعے میں ایک محاذ ان لوگوں کا ہے جو چاہتے ہیں کہ عراق امریکی خیمے سے وابستہ ہو جائے اور دوسرا محاذ ان لوگوں کا ہے جو ملک کی خود مختاری کے حامی ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ خود عراقی قوم اس فتنہ پروری اور جنگ افروزی کا مقابلہ اور اسے ختم کرنے پر قادر ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہم عراق کے داخلی مسائل میں امریکیوں اور دوسری حکومتوں کی مداخلت کے مخالف ہیں، ہم اس کی ہرگز حمایت نہیں کریں گے کیونکہ ہمارا موقف یہ ہے کہ عراق کی حکومت، عوام اور دینی قیادت کے اندر اس فتنے کو ختم کرنے کی صلاحیت ہے اور ان شاء اللہ وہ اس فتنے کو ختم کر دیں گے۔
اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل عدلیہ کے سربراہ آیت اللہ آملی لاری جانی نے اپنے پانچ سالہ دور کی رپورٹ پش کرتے ہوئے کہا کہ افرادی قوت میں معیار اور تعداد کے اعتبار سے ارتقاء، ملازمت کے شروعاتی مرحلے اور ملازمت کے بیچ میں اہلکاروں کی تربیت، قم اور تہران میں تحقیقاتی مراکز قائم کرکے عدلیہ کے اہلکاروں کی علمی صلاحیتوں میں اضافہ، عدلیہ کے مختلف شعبوں کی کارکردگی کی نگرانی کے سسٹم کی تقویت وہ اہم اقدامات ہیں جو گزشتہ پانچ سال میں انجام دیئے گئے۔