سیکڑوں یونیورسٹی اساتذہ نے بدھ 2 جولائی کی شام قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات میں علمی، ثقافتی، سماجی، اقتصادی و سیاسی مسائل نیز یونیورسٹیوں کے امور کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔
دو گھنٹے تک جاری رہنے والی نشست کے آغاز میں سات یونیورسٹی اساتذہ نے اپنے اپنے نظریات اور تجاویز بیان کیں جس کے بعد قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں ملک کے اندر علمی تحریک کے پوری سرعت و وسعت اور سنجیدگی کے ساتھ جاری رہنے پر زور دیتے ہوئے اسے ایران اور عالم اسلام کے مستقبل کو سنوارنے والا اہم عامل قرار دیا اور فرمایا: اس عظیم ہدف کی تکمیل ان افراد کی مجاہدانہ جدوجہد کی متقاضی ہے جو وطن عزیز اور قوم کی پیشرفت سے گہرا لگاؤ رکھتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے یونیورسٹی اساتذہ سے ملاقات کو انتہائی شیریں اور دلنشیں ملاقاتوں میں سے ایک قرار دیا جس کا مقصد ملک کے دانشوروں اور علمی و فکری شخصیات کے احترام کو ظاہر کرنا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اساتذہ کے ذریعے بیان کئے جانے والے نکات کو حد درجہ اہم اور مفید قرار دیتے ہوئے فرمایا: ان شاء اللہ بیان کی گئی باتوں کو منصوبہ بندی اور حکام سے گفتگو میں مورد توجہ قرار دیا جائےگا اور ان نکات کے اثرات کا ظاہر ہونا ضروری ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس تمہیدی گفتگو کے بعد چند انتہائی اہم نکات کی جانب اشارہ کیا۔ آپ نے ملک میں جاری علمی تحریک کو کسی بھی صورت میں کند یا متوقف ہونے سے بچانے اور اسے مزید تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھائے جانے کی ضرورت پر زور دیا۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ علمی تحریک کا مسئلہ ملک، سماج بلکہ عالم اسلام کے مستقبل کے لئے بڑا اساسی مسئلہ ہے۔ قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ علمی و تحقیقی کاموں پر برسوں کی تاکید کے بعد اب ملک کے اندر علمی مہم کو اہم کامیابیاں ملی ہیں اور عالمی سطح پر بھی اسے ایک شناخت ملی ہے ، بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی علمی تحریک کی عالمی سطح پر رونمائی عمل میں آئی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملک کی علم و سائنس کے میدان کی ترقی کے بارے میں ایک اہم تشویش کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایا کہ سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ ملک کی یہ علمی تحریک برسوں کی زحمتوں، مجاہدتوں اور کاوشوں کے بعد اب بیچ راستے میں پہنچ کر کہیں کند نہ پڑ جائے۔ آپ نے فرمایا کہ اس سفر میں کسی طرح کا بھی وقفہ یا سست روی پسماندگی کا باعث بنے گی۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اگر علم و سائنس کے شعبے کی تیز رفتار مہم رک گئی تو پھر اسے دوبارہ پٹری پر لانا بہت دشوار ہوگا، لہذا سب کو چاہئے کہ پوری توانائی صرف کرکے ملک کی علمی پیشرفت کے عمل میں مدد اور تعاون کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ایران کی علمی پیشرفت کے عمل کو روک دینا اسلامی نظام کے دشمنوں کی دیرینہ خواہش اور سازش ہے۔ آپ نے دشمن کا لفظ بار بار استعمال کئے جانے کے سلسلے میں فرمایا کہ بعض افراد دشمن کا لفظ استعمال کئے جانے اور اسے بار بار دہرائے جانے کے بارے میں معترض ہیں، حالانکہ قرآن کریم میں شیطان اور ابلیس کا لفظ مکرر ذکر ہوا ہے اور اس سے یہ پیغام دینا مقصود ہے کہ شیطان اور دشمن کی جانب سے ہرگز غافل نہیں ہونا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ دشمن کا ذکر کرنے کا مطلب داخلی عیوب اور مشکلات کو نظر انداز کرنا نہیں ہے، لیکن بیرونی دشمن سے غفلت بہت بڑی اسٹریٹیجک غلطی ہوگی جو ہمیں بڑا نقصان پہنچا سکتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اگر دشمن کی سازشوں اور معاندانہ چالوں کا مقابلہ کرنا ہے تو اس کے لئے علمی میدان میں مجاہدانہ انداز سے کام کرنے اور امور کو منظم بنانے اور یونیورسٹیوں کے عہدیداروں اور اساتذہ کی طرف سے صحیح اور دانشمندانہ مقابلے کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے وزارت تعلیم اور یونیورسٹیوں کے عہدیداروں اور اساتذہ کو ملک کی علمی و سائنسی پیشرفت کے عمل کی سرعت پر سنجیدگی سے نظر رکھنے کی سفارش کی اور فرمایا کہ افسوس کی بات ہے کہ بعض اوقات ہمیں یونیورسٹیوں میں ناخوش گوار مثالیں دیکھنے کو ملیں اور ممتاز صلاحیت رکھنے والے نوجوانوں کو ترک وطن کی ترغیب دلائی جاتی تھی، کچھ سال ایسے بھی گزرے جن میں وزار ت تعلیم کے اندر موجود عہدیداروں نے ملک کی علمی و سائنسی پیشرفت کے عمل میں رکاوٹ کھڑی کر دی۔ یہ چیزیں اب دوبارہ ہرگز دہرائی نہ جائيں۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا: یونیورسٹی ایسے افراد کے ہاتھ میں نہیں ہونی چاہئے جو ملک کی سائںسی پیشرفت کو کوئی وقعت نہ دیں، یونیورسٹی ایسے افراد کے ہاتھ میں ہونی چاہئے جو ایران کی علمی پیشرفت کے عاشق ہوں اور ملک و قوم کے مستقبل کے لئے اس کی اہمیت و کلیدی حیثیت کا ادراک رکھتے ہوں۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملک کی علمی پیشرفت کو کوتاہ اور میانہ مدت کے زاویئے سے بھی پابندیوں کو بے اثر بنانے سمیت متعدد امور کے لئے گراں قدر اثرات کی حامل بتایا اور فرمایا کہ دشمن پابندیوں کا حربہ استعمال کرکے ملت ایران کے قومی وقار کو مجروح اور عوام کی تحقیر کرنا چاہتا ہے لیکن علمی پیشرفت کا یہ سلسلہ اور مہم جاری رہنے کی صورت میں یہ سازش نقش بر آب ہو جائے گی۔
قائد انقلاب اسلامی نے نالج بیسڈ کمپنیوں پر توجہ دیئے جانے کی تاکید کی اور اسے علم و صنعت و زراعت کو ایک دوسرے سے جوڑنے کے سلسلے میں بہت موثر قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ جو کمپنیاں ضروری اسٹینڈرڈ اور معیارات کے مطابق حقیقت میں نالج بیسڈ کپمنیوں کے زمرے میں شامل ہیں وہ علمی پیشرفت کی مہم میں موثر کردار ادا کر سکتی ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے پلیٹ فارم رکھنے والے ایسے کچھ افراد کی جانب اشارہ کیا جو علمی و سائنسی پیشرفت کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اس قسم کی باتیں ناواقفیت کا نتیجہ ہیں، اس قسم کے افراد کو مختلف شعبوں کا معائنہ کرنے کی ضرورت ہے تا کہ وہ طبی، نیوکلیائی، نینو، اسٹم سیلز اور دیگر میدانوں میں حاصل ہونے والی قابل تحسین پیشرفت کا ادراک کر سکیں اور لاعلمی والی باتیں کرنا بند کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملک کے جامع علمی روڈ میپ کو بڑا اہم مسئلہ اور مختلف شعبوں کے لئے تیار کی جانے والی علمی دستاویزات کی بنیاد قرار دیتے ہوئے فرمایا: ضرورت اس بات کی ہے کہ اس جامع علمی روڈ میپ میں یونیورسٹیوں کا کردار معین کیا جائے تاکہ علمی مراکز اپنی صلاحیتوں اور خصوصیات کے مطابق اپنی ذمہ داریوں پر عمل کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے علمی سرگرمیوں کو ملک کی احتیاجات سے زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ کئے جانے کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ ایرانی اساتذہ کے ریسرچ پیپر جو دنیا میں علمی سند قرار پاتے ہیں یقینی طور پر باعث افتخار اور ایران کی پیشرفت کی دلیل ہیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ریسرچ پیپر اور دیگر تحقیقاتی سرگرمیاں داخلی ضرورتوں کی تکمیل پر مرکوز ہوں تاکہ یونیورسٹیاں ملکی نظم و نسق کے سلسلے میں اپنے حصے کا تعاون کر سکیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اساتذہ سے اپنے خطاب میں ایک اور اہم نکتہ طلبہ پر اساتذہ کی رفتار و گفتار اور کردار و اطوار کی گہری تاثیر کے سلسلے میں بیان کیا۔ آپ نے فرمایا کہ استاد کی علمی برتری، طالب علم کے ذہن اور شخصیت میں استاد کے لئے خاص مقام و مرتبہ پیدا کرتی ہے اور اس مقام و مرتبے کو جوش و جذبے سے سرشار، امید و نشاط کے جذبے سے مالامال، شجاع، مثبت سوچ رکھنے والے، مستقبل پر نظر رکھنے والے، خود اعتمادی سے آراستہ، نظام کی بنیادوں پر عقیدہ رکھنے والے، خدمت کے جذبے سے مزین اور روحانی و وطن پرستانہ جذبات کے تئیں پابند نوجوانوں کی تربیت کے لئے استعمال کیا جانا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مغربی ثقافت سے مرعوب اور مغلوب فکر کا ناقدانہ جائزہ لیتے ہوئے فرمایا: یہ فکر ایسی ہر چیز کی براہ راست یا بالواسطہ طور پر تحقیر اور تضحیک کرتی ہے جو ملی اور مقامی ہو، اور طلبہ کے اندر قنوطیت اور ناپسندیدگی کے جذبات ابھارتی ہے جو بالکل غلط ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے یونیورسٹیوں میں دینی موضوعات کی تعلیم کو بہت گراں قدر موقع قرار دیا اور فرمایا کہ اگر دینی علوم کے اساتذہ دانشمندی کے ساتھ اور عمیق و جدید معلومات کا احاطہ کرکے طالب علم کے سامنے جائیں تو اس سے ملک اور معاشرے کو بہت زیادہ فائدہ پہنچے گا، چنانچہ یونیورسٹیوں مین متعلقہ ادارے کو چاہئے کہ اس مسئلے پر توجہ دے اور اس کے لئے ضروری منصوبہ بندی کرے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ہیومن سائنسز یا بشریات کے سلسلے میں بنیادی اصلاحات کو بہت اہم ضرورت قرار دیا اور فرمایا کہ بشریات میں اصلاح کا مطلب مغرب والوں کے علمی کاموں اور تحقیقات سے صرف نظر کر لینا نہیں ہے۔ آپ نے ہیومن سائنسز میں اصلاحات کی ضرورت کے بارے میں بتایا کہ مغرب میں ہیومن سائنسز کی بنیاد غیر دینی اور مادہ پرستانہ ہے جبکہ انسان اور سماج کو ہیومن سائنسز سے اسی وقت فائدہ پہنچے گا جب وہ دینی و اسلامی آئيڈیالوجی پر استوار ہوں اور ضروری ہے کہ اس میدان میں تساہلی اور عجلت پسندی دونوں سے اجتناب کرتے ہوئے مناسب رفتار سے کام کیا جائے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنی تقریر کے آخر میں ایک بار پھر انتہائی اہم نکتے پر مکرر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ یونیورسٹیوں کے عہدیداران اور متعلقہ ذمہ دار افراد کو چاہئے کہ پوری سنجیدگی سے یہ کوشش کریں کہ علمی مراکز سیاسی حلقوں کی جولان گاہ نہ بننے پائيں۔ قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ یونیورسٹیوں کا سیاسی اکھاڑوں میں تبدیل ہو جانا ملک کی علمی تحریک کے لئے سم قاتل ثابت ہوگا۔ آپ نے فرمایا کہ افسوس کا مقام ہے کہ ایک زمانے میں ہم اس زیاں بار صورت حال کا مشاہدہ کر چکے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے مطابق طلبہ کے درمیان سیاسی فکر، فہم و ادراک اور شعور لازمی ہے مگر علمی مراکز کا سیاسی دھڑوں کی جولان گاہ بن جانا بالکل الگ چیز ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یونیورسٹیوں میں پرسکون ماحول، ملک کی علمی تحریک کا مقدمہ اور اس میں رفتار پیدا کرنے والا عامل ہے اور اگر خدانخواستہ اس پرسکون ماحول کو نقصان پہنچا تو علمی پیشرفت کی مہم رک جائے گآ اور ایران پسپائی سے دوچار ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں رمضان کے مبارک مہینے کے پاکیزہ روحانی ماحول اور صدق و اخلاص کی فضا کا ذکر کرتے ہوئے سب کو اس بابرکت مہینے سے زیادہ سے زیادہ فیضیاب ہونے، اللہ سے رابطہ مستحکم کرنے اور سماجی روابط میں اعتماد، محبت اور خیر خواہی کا جذبہ پیدا کرنے کی سفارش کی۔