قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بدھ کی صبح مقدس شہر قم سے آنے والے ہزاروں افراد سے خطاب کرتے ہوئے اسلامی انقلاب کے حقائق میں تحریف کرنے اور انیس دی 1356 ہجری شمسی مطابق 9 جنوری 1978 اور 9 دی 1388 ہجری شمسی مطابق 30 دسمبر 2009 کو رونما ہونے والے واقعات کو بھلا دئے جانے کی اغیار کی کوششوں کا حوالہ دیا اور فرمایا: ملت ایران سے عالمی استکبار کی دشمنی کبھی ختم ہونے والی نہیں ہے، لہذا حکام کو چاہئے کہ داخلی توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ناقابل بھروسہ دشمن کے ہاتھ سے پابندیوں کا حربہ چھین لیں اورحقیقی معنی میں روشن وسائل سے امیدیں وابستہ کرکے اسلامی انقلاب اور قوم کی درخشاں امنگوں کی تکمیل کے راستے میں اپنے فرائض کو عملی جامہ پہنائیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے پیغمبر عظیم الشان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت سترہ ربیع الاول کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے قم کے عوام کے 19 دی 1356 ہجری شمسی مطابق 9 جنوری 1978 کے قیام کو عظیم تاریخی اور فیصلہ کن واقعہ قرار دیا اور فرمایا: ایسے ارادے اور عزائم موجود ہیں جو اسلامی انقلاب کی تحریک اور گزشتہ تین عشروں کے فیصلہ کن اور تاریخ ساز واقعات و ایام کو ذہنوں سے مٹا دینا چاہتے ہیں لیکن جب تک یہ قوم زندہ ہے اور زیور ایمان سے آراستہ قلوب اور حق گو زبانیں موجود ہیں، ایسا ہرگز نہیں ہونے پائے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے 19 دی 1356 ہجری شمسی مطابق 9 جنوری 1978، 22 بہمن 1357 ہجری شمسی مطابق 11 فروری 1979 عیسوی، 9 دی 1388 ہجری شمسی مطابق 30 دسمبر 2009 اور ملت ایران کی دیگر فیصلہ کن تاریخوں اور واقعات کی یادیں زندہ رکھنے کو مجاہدانہ مشن قرار دیتے ہوئے فرمایا: اسلامی نظام کے دشمن محاذ نے اسلامی انقلاب کی دوسری اور تیسری نسلوں سے امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں کہ انہیں اسلامی انقلاب کے راستے سے منحرف کر سکےگا مگر اسی تیسری نسل اور ملک کے نوجوانوں نے 9 دی مطابق 30 دسمبر 2009 کو تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا اور فتنہ و آشوب کی مدد سے اسلامی انقلاب کا رخ موڑنے کی کوشش کرنے والوں کے منہ پر زوردار طمانچہ جڑ دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے 19 دی 1356 ہجری شمسی مطابق 9 جنوری 1978 عیسوی کے تاریخی واقعے کی اہمیت پر مزید تاکید کرتے ہوئے فرمایا: 19 دی کی تاریخ ملک میں ایک عمومی تحریک کا سرآغاز ثابت ہوئی اور اس نے ملت ایران کو طاغوتی حکومت کے خلاف میدان میں اتر پڑنے کی ترغیب دلائی اور آخر کار اس ملک میں ظالم شاہی حکومت کی بساط سمیٹ دی گئی۔
قائد انقلاب اسلامی نے پہلوی حکومت کے دور کے حقائق میں رد و بدل کے عزائم کا حوالہ دیتے ہوئے اس حکومت کی چند خاص باتوں کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا: سیاہ آمرانہ نظام، جیلوں میں حد درجہ بربریت آمیز برتاؤ اور وحشیانہ ترین ایذارسانی پہلوی حکومت کی ایک خصوصیت تھی اور آج انسانی حقوق کے بلند بانگ دعوے کرنے والے اسی حکومت کی حمایت کرتے تھے۔
قائد انقلاب اسلامی نے شاہی حکومت کے دور میں خطرناک خفیہ ایجنسی ساواک کی تشکیل اور ملک میں خوف و دہشت کا ماحول پیدا کرنے میں امریکیوں اور صیہونیوں کے کردار کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: امریکا میں سی آئی اے کی ایذارسانی اور خفیہ جیلوں کے بارے میں حالیہ انکشاف سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اظہار خیال کی آزادی کی حمایت کے امریکیوں کے دعوے میں سچائی نہیں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے بیرونی طاقتوں پر ذلت آمیز انحصار کو بھی پہلوی حکومت کی ایک خصوصیت قرار دیتے ہوئے فرمایا: اس دور میں بیرونی طاقتوں بالخصوص امریکا کے مفادات کا جو تقاضہ ہوتا تھا یہ حکومت داخلی، علاقائی اور عالمی سطح کی اپنی پالیسیوں اور اقدامات میں اسے مد نظر رکھتی تھی اور ملت ایران کی تحقیر کرتی تھی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ ملت ایران اور اسلامی انقلاب سے امریکیوں کی دشمنی اور بغض و کینے کی وجہ یہ ہے کہ اسٹریٹیجک محل وقوع اور بے شمار خصوصیات رکھنے والا ملک ایران اسلامی انقلاب کی وجہ سے ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے پہلوی حکومت کی تیسری خصوصیت بیان کرتے ہوئے حکومت میں اعلی سطح تک بھیلی گوناگوں جنسی، مالیاتی اور اخلاقی بدعنوانیوں کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ اس خبیث اور بد عنوان حکومت میں عوام کی کوئی وقعت نہیں تھی اور قوم کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی تھی، حکومت سے عوام کا رابطہ بالکل منقطع ہو چکا تھا۔
قائد انقلاب اسلامی نے پہلوی حکومت کے مزید کالے کرتوتوں کا ذکر کرتے ہوئے علمی و سائنسی پیشرفت سے بے اعتنائی، احساس کمتری کی ترویج، مغربی ثقافت کی تعریف میں مبالغہ آرائی، قومی پیداوار کو فروغ دینے کے بجائے عوام کو امپورٹڈ اشیاء کے استعمال کا خوگر بنانے، زراعت اور قومی صنعتوں کو نابودی کے دہانے پر پہنچا دئے جانے کا حوالہ دیا۔ آپ نے فرمایا کہ ایران کی دانشمند اور ذی فہم قوم جو اس تحقیر، ظلم اور کرپشن کو دیکھ رہی تھی، ایک مرد الہی یعنی ہمارے عظیم الشان امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی قیادت میں میدان میں اتر پڑی اور آخرکار فتح سے ہمکنار ہوئی۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: موجودہ کامیابیاں اور پیشرفت، ملت ایران کی بیداری اور علاقے میں نمایاں پوزیشن سب کچھ ظالم و بدعنوان اور اغیار کی آلہ کار پہلوی حکومت کی شکل میں موجود سب سے بڑی رکاوٹ کو راستے سے ہٹا دئے جانے کی وجہ سے ممکن ہو سکا ہے۔
اسلامی انقلاب کے بعد ملت ایران سے عالمی استکباری محاذ کی دشمنی اور عناد کا سلسلہ شروع ہو جانے کا ذکر کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ کوئی بھی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ دشمن اپنی مخاصمانہ کارروائیوں اور خباثت سے باز آ جائے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں مزید فرمایا: جب بھی آپ دشمن سے غافل ہوکر اس پر اعتماد کر لیں گے، اسے ملک کے اندر اپنے مقاصد کی تکمیل کا موقع مل جائے گا، لیکن اگر آپ ہمیشہ محکم، آمادہ اور دشمن کی طرف سے ہوشیار رہے تو استکبار مجبور ہوکر اپنی معاندانہ کارروائیوں کو روک دیگا۔
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ اس وقت ملت ایران پر دنیا کی تسلط پسند طاقتوں کی جانب سے ڈالے جانے والے دباؤ کی وجہ کبھی نہ ختم ہونے والی اس کی دشمنی ہی ہے۔ آپ نے فرمایا: حالانکہ ابھی سماجی انصاف اور اسلامی اخلاقیات کی مکمل ترویج اور اس پر صحیح معنی میں عمل آوری کی منزل کافی دور ہے مگر بعض لوگ ملت ایران کی ناکامیوں کے بارے میں جو باتیں کرتے ہیں، ان کے برخلاف یہ قوم اپنے اعلی اہداف و مقاصد کے راستے پر آگے بڑھتے ہوئے عظیم حصولیابیوں تک پہنچنے میں کامیاب رہی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے علم و سائنس کے میدان میں بڑی کامیابیوں سمیت ملت ایران کی مختلف میدانوں کی پیشرفت کو نظر انداز کرنے والوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے فرمایا: آپ کیوں غیر عاقلانہ انداز میں ان حصولیابیوں کا بھی جن کا اعتراف دنیا کے سائنسی مراکز کو بھی ہے، انکار کرتے ہیں اور اپنی ان غلط اور غیر منصفانہ باتوں سے اس قابل فخر سفر کے بارے میں جو عوام نے طے کیا ہے اور مجبورا جس کی تعریف دشمن بھی کرتے ہیں، شک و شبہ پیدا کرتے ہیں؟
قائد انقلاب اسلامی نے صدر اسلام کے دور کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اس زمانے میں بھی تمام اہداف پورے نہیں ہو پائے تھے مگر سب سے اہم بات یہ تھی کہ اہداف کی تکمیل کی سمت میں پیش قدمی کا عمل جاری رہا اور آج ہماری قوم بھی اسی راستے پر مضبوطی، ثابت قدمی اور احساس فخر کے ساتھ رواں دواں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے ملک و معاشرے کی ترجیحات کا جائزہ لیا اور قومی اتحاد و اتفاق کو وقت کی سب سے اہم ضرورت قرار دیا۔ آپ نے زور دیکر کہا کہ عوام الناس کے درمیان تفرقہ ڈالنا اور انہیں تقسیم کرنا خواہ وہ کسی بھی عنوان سے اور کسی بھی توجیہ کی بنیاد پر ہو، قومی اہداف اور اعلی مقاصد کے منافی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے عہدیداروں اور حکومت سے تعاون کو سب کا فریضہ قرار دیا اور داخلی توانائیوں پر توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ حکومتی عہدیدار بھی ذہن نشین کر لیں کہ واحد راستہ جو انہیں فرائض منصبی کی ادائیگی میں کامیاب کر سکتا ہے، عوام پر تکیہ اور داخلی توانائیوں پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ظالمانہ پابندیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: پابندیوں نے وطن عزیز کے لئے مشکلات پیدا کیں، لیکن اگر دشمن ان پابندیوں کو ہٹانے کے لئے کسی اہم مسئلے یا کسی اساسی ہدف منجملہ اسلام، خود مختاری اور سائنسی پیشرفت سے دست بردار ہو جانے کی شرط رکھتا ہے تو یقینی طور پر کسی بھی عہدیدار کی غیرت اسے قبول نہیں کرے گی۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: البتہ فی الحال دشمن واضح طور پر ہمارے اعلی اہداف سے تعرض نہیں کر رہا ہے لیکن اگر اس وقت پسپائی اختیار کی گئی تو اگلے مرحلے میں وہ اعلی اہداف کا رخ کرے گا، لہذا ضروری ہے کہ بڑی ہوشیاری کے ساتھ دشمن کے اقدامات، تجاویز اور باتوں میں پنہاں ہدف کو سمجھا جائے۔
قائد انقلاب اسلامی نے انتہائی کلیدی نکتے پر زور دیتے ہوئے ایران کو پابندیوں کے سامنے مستحکم اور محفوظ بنا دینے کو دشمن کی ریشہ دوانیوں کے سد باب کا واحد راستہ قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ مزاحمتی معیشت کا حقیقی مفہوم یہی ہے اور اس ہدف کا حصول ملکی حکام کی سب سے اہم ذمہ داری ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے تیل کی آمدنی پر انحصار کو ختم کئے جانے پر ایک بار پھر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ملک کے عہدیداروں اور حکومت کو اغیار سے امیدیں نہیں وابستہ کرنا چاہئے بلکہ انہیں یہ سمجھنا چاہئے کہ ایک قدم کی بھی پسپائی اسی مقدار میں دشمن کی چڑھائی کا باعث بنے گی، لہذا کسی مستقل چارہ کار کے بارے میں سوچنا ہوگا اور عوام پر تکیہ اور داخلی توانائیوں پر بھروسہ کرکے اس طرح عمل کرنا ہوگا کہ اگر دشمن پابندیاں نہ ہٹائے تب بھی عوام کی ترقی، پیشرفت اور رفاہ پر کوئی منفی اثر نہ پڑے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسی سلسلے میں مزید فرمایا: دشمن کے ہاتھ سے پابندیوں کا حربہ چھین لینا چاہئے کیونکہ اگر دشمن سے آس لگائی گئی تو یہ پابندیاں اسی طرح باقی رہیں گی، چنانچہ امریکی آج بھی بڑی بے شرمی سے کہہ رہے ہیں کہ اگر ایٹمی مسئلے میں ایران پسپائی اختیار کر لیتا ہے تب بھی ساری پابندیاں ایک ساتھ ختم نہیں ہوگی۔
قائد انقلاب اسلامی نے یہ سوال اٹھایا کہ ان حقائق کے باوجود کیا ایسے دشمن پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ میں مذاکرات کے خلاف نہیں ہوں لیکن میرا یہ نظریہ ہے کہ امیدیں صحیح جگہ اور صحیح شعبے سے وابستہ کی جائیں، خیالی وسائل سے نہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا کہ ملکی حکام لطف خدا سے مصروف خدمت ہیں، لہذا سب کو چاہئے کہ حکومت سے تعاون کریں، مگر حکومتی عہدیدار بھی اعتراض کا موقع نہ دیں، اور غیر ضروری بیان دینے سے اجتناب کریں، محاذ بندی نہ کریں اور اس کوشش میں رہیں کہ عوام الناس کے اتحاد، ایمان اور ہمت و حوصلے کا صحیح استعمال ہو۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے وطن عزیز ایران کے مستقبل کو انتہائی درخشاں قرار دیا اور فرمایا کہ فضل پروردگار سے اعلی اہداف و مقاصد کی تکمیل کے راستے پر سفر جاری رہے گا اور ملک کے نوجوان وہ دن دیکھیں گے جب سرکش اور ظالم دشمن ان کے سامنے سر تسلیم خم کرنے پر مجبور ہو جائيں گے۔