قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے نئے ہجری شمسی سال 1394 (مطابق 21 مارچ 2015 الی 20 مارچ 2016) کے آغاز پر مقدس شہر مشہد میں فرزند رسول حصرت امام علی رضا علیہ السلام کے روضہ اقدس میں خدام اور زائرین کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب کیا۔ روضہ اقدس میں امام خمینی رواق اور ملحقہ صحنوں میں دسیوں ہزار لوگوں کے اجتماع سے خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے اس سال کے نعرے؛ 'حکومت اور عوام، ہمدلی و ہم زبانی' کی تشریح کی اور حکومت اور عوام کے فرائض پر روشنی ڈالی۔ قائد انقلاب اسلامی نے عوام سے قانونی حکومت کی حمایت اور حکومتی عہدیداروں سے تنقیدوں کے سلسلے میں شرح صدر کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی۔ آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی نظام کے چار بنیادی ستونوں اور اسلامی نظام کو در پیش مسائل اور اس کے پاس موجود مواقع کا جائزہ لیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: اقتصادی ترقی و نمو کے لئے حکام کی جانب سے منصوبہ بندی اور اہداف کا تعین جبکہ عوام اور خاص طور پر اقتصادی شعبے کے افراد اور ذرائع ابلاغ کی جانب سے ملکی معیشت کی مدد و اعانت عمومی فریضہ ہے اور آج اقتصادی میدان ایک خاص طرح کا میدان کارزار ہے جہاں توانائیوں کو مجتمع کرکے، داخلی خلاقانہ صلاحیتوں، وسائل، تدابیر اور اس میدان کی خاص حکمت عملی کے تحت مجاہدانہ اقدامات کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایٹمی مذاکرات کے سلسلے میں زور دیکر کہا کہ ایران میں کوئی بھی شخص ایٹمی مسئلے کے سفارتی حل کا مخالف نہیں ہے، تاہم دوسری جانب ملت ایران، ہمارے حکام اور مذاکراتی ٹیم کے ارکان امریکا کی زور زبردستی اور مرضی مسلط کرنے کی کوششوں سے متاثر ہونے والے نہیں ہیں۔ بلکہ اس عظیم امتحان سے بھی وہ اپنی استقامت کے ذریعے سرخرو ہوکر باہر نکلیں گے۔
قائد انقلاب اسلامی نے قرآن مجید کی آیہ کریمہ کی روشنی میں چار ستونوں 'نماز، زکات، امر بالمعروف اور نھی عن المنکر' کو اسلامی نظام کی شناخت اور عناصر ترکیبی سے تعبیر کیا۔ آپ نے فرمایا: اللہ تعالی نے وعدہ کیا ہے کہ جس قوم کے پاس بھی یہ چار خصوصیتیں ہوں گی، اللہ اس کی نصرت فرمائے گا اور ظالم طاقتوں کے تسلط سے اسے نجات دلائے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ ان چاروں میں سے ہر ستون کے کچھ شخصی اور کچھ سماجی پہلو ہیں جو اسلامی نظام کی تشکیل میں موثر کردار رکھتے ہیں۔ آپ نے نماز کے شخصی پہلوؤں یعنی مومن انسان کی سعادت و نجات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کے ساتھ ہی نماز کے سماجی پہلو بھی ہیں اور یہ ایک ہی وقت میں، مرکز واحد کی جانب مسلمانوں کے دلوں کے ارتکاز اور اتصال کا مقدمہ بنتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے زکات سے انسان کے اندر جذبہ ایثار کی تقویت کا راستہ ہموار ہونے کا ذکر کیا اور زکات کے سماجی پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایا: سماجی زاوئے سے زکات اس بات کی علامت ہے کہ اسلامی معاشرے، فقرا، کمزوروں اور ضرورت مندوں کے مسئلے میں انسان خود کو لا تعلق نہیں سمجھتا۔
قائد انقلاب اسلامی نے امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کو تمام اسلامی احکامات کی بنیاد قرار دیا اور زور دیکر کہا کہ دنیا کے ہر گوشے میں تمام مسلمانوں کا فرض ہے کہ معاشرے کو نیکی اور اچھائی کی جانب لے جائیں اور پستی و برائی سے روکیں۔ آپ نے مزید فرمایا: جس چیز پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ زیادہ بڑی نیکیوں یعنی اسلامی نظام کی تشکیل اور اس کی حفاظت کا حکم ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے دوسری بڑی نیکیوں کا ذکر کرتے ہوئے ملت ایران کے وقار کی حفاظت، ثقافت کے ارتقاء، اخلاقی ماحول کی صحتمندی، خاندانی فضا کے تحفظ، ملک کو ترقی کی راہوں پر لے جانے والی نوجوان نسل میں اضافہ اور اس کی تربیت، اقتصاد اور پیداوار کی رونق بڑھانے، اسلامی اخلاقیات کی ترویج، سائنس و ٹکنالوجی کی نشر و اشاعت، عدالتی اور اقتصادی مساوات کے قیام، اسلامی اتحاد کے لئے جدوجہد، قوم کی سربلندی اور امت اسلامیہ کی قوت و طاقت میں اضافے پر تاکید کی اور سب کو ان اہداف کی تکمیل کے سلسلے میں ذمہ دار قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسی طرح زیادہ بڑے 'منکرات' کے مصادیق کا ذکر کرتے ہوئے ثقافتی بے راہروی، دشمنوں کی مدد، اسلامی نظام اور اسلامی ثقات کو کمزور کرنے اور معیشت و سائنس و ٹکنالوجی کو نقصان پہنچانے کی کوششوں کا نام لیا اور فرمایا: ذات اقدس باری تعالی اولیں اور پھر اس کے بعد پیغمبر اسلام اور ائمہ اطہار علیہم السلام برتر اور سب سے بڑے امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کرنے والے ہیں اور ضروری ہے کہ تمام مومنین دنیا بھر میں وہ جہاں کہیں بھی ہوں اللہ تعالی کی جانب سے معین کردہ اس فریضے پر عمل پیرا ہوں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے نئے ہجری شمسی سال 1394 مطابق 21 مارچ 2015 الی 20 مارچ 2016 عیسوی کے لئے معین کردہ اپنے نعرے یعنی 'حکومت و عوام ہمدلی و ہم زبانی' کی تشریح کی اور فرمایا کہ اس نعرے کا انتخاب انہی چار اصلی ستونوں کی بنیاد پر اور اسلامی نظام میں عوام کے درمیان سماجی و قومی یکجہتی کے تناظر میں عمل میں آیا ہے۔ آپ نے فرمایا: اسلام تمام سماجی حلقوں سے باہمی اتحاد، تعاون اور امداد باہمی کا مطالبہ کرتا ہے، بنابریں ہر حکومت اور ہر اسلامی نظام کو سارے عوام کی حتی ان افراد کی جنہوں نے اس کے حق میں ووٹ نہیں دیا ہے، حمایت و پشت پناہی حاصل ہونی چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے عوام الناس اور حکومت کے درمیان اتحاد کو خاص طور پر ایسے مواقع پر جب ملک کو اہم مسائل در پیش ہوں، ناگزیر قرار دیا اور فرمایا: آج عوام کا فریضہ ہے کہ ملکی اور حکومتی عہدیداروں کی مدد اور ان کی حمایت کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے ہر دور میں حکومت کی مدد اور اس سے تعاون کو اپنا دائمی اور مستقل اصول قرار دیا اور اس کی ضرورت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: تمام حکومتوں کی اصلی فکر اور اساسی تشویش ملک اور عوام کی مشکلات کا حتی المقدور ازالہ کرنا ہے۔ بنابریں سب کے لئے ضروری ہے کہ ان مشکلات کے حل کے لئے حکومتوں کی مدد کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے عوام کی جانب سے ملنے والی ووٹوں کی اکثریت کو حکومتوں کی قانونی حیثیت کی ضمانت قرار دیا اور فرمایا: اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ ایک صدر کو کتنی بڑی اکثریت حاصل ہوئی ہے، بلکہ جو بھی حکومت جس اکثریت سے بھی عوام کی جانب سے منتخب ہو، آئین کے مطابق قانونی حکومت ہے اور عوام کو چاہئے کہ حتی الوسع قانونی حکومت کی مدد کریں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ تعاون اور باہمی امداد کے ماحول میں دو طرفہ حقوق بھی ہوتے ہیں۔ آپ نے ناقدین، تنقید کی کیفیت اور ناقدین سے پیش آنے کی روش کا بھی جائزہ لیا۔
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ ہر حکومت کے سامنے فطری طور پر ناقدین کا ایک گروہ بھی ضرور رہا ہے۔ آپ نے فرمایا: ماضی کی حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت کے بھی کچھ ناقدین ہیں اور اس میں کچھ مضائقہ بھی نہیں ہے کہ کچھ لوگ جو حکومت کی روش، طرز کار، بیانوں اور پالیسیوں کو پسند نہیں کرتے، تنقیدیں کریں لیکن تنقید عقل و منطق کے دائرے میں ہونی چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا: مختلف حکومتوں پر خود میں بھی تنقید کرتا رہا ہوں اور جو معاملہ بھی قابل تنقید تھا میں نے انتباہ دینے سے اجتناب بھی نہیں کیا، مگر میں نے انتباہ مناسب موقع و محل پر اور مناسب انداز میں دیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس کے بعد منطقی تنقید کا خاکہ کھینچتے ہوئے فرمایا: تنقید اس طرح نہیں ہونی چاہئے کہ کام میں مصروف حکام سے عمومی اعتماد سلب ہونے کا باعث بنے اور لوگوں میں بے اعتمادی پیدا ہو جائے، اسی طرح تنقید توہین آمیز اور خشمگیں انداز میں بھی نہیں ہونی چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی کے مطابق اسلامی اخوت، ہمدلی و تعاون کی بنیاد پر اور ہمدردانہ نگاہ کے ساتھ پیش آنا منطقی تنقید کا لازمی معیار ہے۔ آپ نے فرمایا: البتہ یہ سفارشات دو طرفہ ہیں اور تینوں شعبوں (مجریہ، عدلیہ، مقننہ) میں مصروف خدمت ملک کے حکام کو بھی چاہئے کہ ان حدود کو ملحوظ رکھیں اور اپنے ناقدین کی تحقیر و توہین سے اجتناب کرتے ہوئے شائستگی کے ساتھ پیش آئیں۔ کیونکہ عہدیداران کی جانب سے ناقدین کی توہین حکمت و تدبر کے منافی ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دیکر کہا: میں اپنے عزیز عوام کو ہرگز لا تعلق ہو جانے اور نگرانی ترک کر دینے کی دعوت نہیں دے سکتا بلکہ انہیں ملکی مسائل پر بھرپور توجہ رکھنے کی سفارش کرتا ہوں، ساتھ ہی تاکید کے ساتھ کہتا ہوں کہ عوام یا حکام کسی کی بھی جانب سے برتاؤ تخریبی انداز میں اور توہین و تحقیر آمیز انداز میں نہیں ہونا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: یہ کوئی جرم نہیں ہے کہ ملک میں کچھ لوگ کسی اہم مسئلے کی بابت تشویش میں مبتلا ہوں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن یہ تشویش زحمتوں اور خدمات کو نظر انداز کر دینے کا باعث نہ بنے اور دوسری جانب حکومت اور اس کے طرفدار بھی تشویش اور فکرمندی کا اظہار کرنے والوں کی توہین سے اجتناب کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے ماضی کی تمام حکومتوں کی حمایت کرنے کی اپنی دائمی روش کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ میں موجودہ حکومت کی بھی حمایت کر رہا ہوں، لیکن میں نے کسی کو بھی 'بلینک چیک' دستخط کرکے نہیں دیا ہے، بلکہ کارکردگی کی بنیاد پر فیصلہ اور عمل کروں گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے مشہد مقدس میں اپنے اس اہم سالانہ خطاب میں ملک کے پاس موجود بڑے مواقع اور در پیش مسائل کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایا: مواقع اور توانائیوں کا صحیح استعمال کرکے اور درست منصوبہ بندی کے ذریعے، توفیق خداوندی سے مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ماہر، خلاقانہ صلاحیت رکھنے والی اور نوجوان اکثریت والی افرادی قوت اور اسلامی نظام سے نوجوانوں اور عوام کے بھرپور تعاون کو ملک کے پاس موجود سنہری مواقع سے تعبیر کیا اور فرمایا: اغیار کے ذرائع ابلاغ کی جانب سے ہمارے ملک کے نوجوانوں پر بہت وسیع ابلاغیاتی بمباری کے باوجود جو وہ نوجوانوں میں مستقبل کے تعلق سے مایوسی پھیلانے یا انہیں اسلامی نظام کے مقابل کھڑا کر دینے یا پھر ہر چیز سے لا تعلق بنا دینے کے لئے کر رہے ہیں، 22 بہمن (مطابق 11 فروری اسلامی انقلاب کی سالگرہ) کے دن کروڑوں کی تعداد میں یہی نوجوان سڑکوں پر آتے ہیں اور اسلامی نظام اور امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ سے اپنی گہری محبت و عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے پابندیوں کے زمانے میں سائنسی شعبے کی ترقی کو بھی سنہری موقع قرار دیا اور فرمایا کہ حالیہ برسوں میں مختلف علمی و سائنسی شعبوں میں حاصل ہونے والی پیشرفت منجملہ جنوبی پارس (گیس اینڈ آئل فیلڈ) کے بارہویں فیز جیسے بڑے اور پیچیدہ پروجیکٹ کا افتتاح اور مسلح فورسز کی مشقوں میں دشمن کو مبہوت کر دینے والے جدید وسائل اور اسلحہ جات کی رونمائی سب کچھ ایسے دور میں ہوا جب بدخواہوں نے بخیال خویش ایران کو کمر شکن پابندیوں کی زد پر رکھا تھا۔
قائد انقلاب اسلامی نے موجودہ پابندیوں کو بھی ان کی تمام تر سختیوں کے باوجود ایک موقع قرار دیا اور پھر اسلامی نظام کو در پیش بعض مسائل کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایا: ملک کے سامنے اس وقت ایک بنیادی ترین مسئلہ قومی معیشت کا مسئلہ اور عوام کی اقتصادی و معاشی مشکلات کے تصفیہ کا معاملہ ہے اور اس کے لئے موثر اقدام اور بڑے پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے چند سال قبل دئے گئے اپنے انتباہ کی یاددہانی کرائی جس میں آپ نے کہا تھا کہ دشمن نے معیشت کو نشانہ بنایا ہے لہذا حکام کو چاہئے کہ اس کے تدارک کے لئے تیار ہو جائیں۔ آپ نے فرمایا: ملت ایران کے بدخواہوں نے آشکارا کہا ہے کہ اقتصادی دباؤ ڈال کر وہ ایک سیاسی ہدف کے حصول یعنی عوام میں ناراضگی اور عوام کو حکومت اور نظام کے مقابلے پر لاکر ملک میں سیکورٹی کے نظام کو درہم برہم کر دینے کے در پے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس مسئلے کے تدارک کے لئے تمام فورسز اور حکام کی ہمدلی و باہمی تعاون اور معیشت پر بھرپور توجہ ضروری ہے۔ آپ نے اس سلسلے میں چار نکات پر تاکید کی۔
پہلے نکتے کے طور پر قائد انقلاب اسلامی نے اقتصادی کارزار کے میدان میں امریکا کی معاندانہ پالیسیوں کے مقابلے میں مجاہدانہ اقدام کی ضرورت پر زور دیا اور اس سلسلے میں اقتصادی مشکلات و مسائل کے تصفیئے کے لئے ملک کے اندر موجود دو الگ الگ نظریات کا جائزہ لیا۔ آپ نے فرمایا کہ ملک میں ایک نظریہ یہ ہے کہ اقتصادی رونق و پیشرفت کے لئے ملک کی داخلی توانائیوں اور صلاحیتوں پر توجہ مرکوز کی جائے جن پر اب تک بہت کم توجہ دی گئی یا یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔ آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے مزید فرمایا کہ اس کے برخلاف دوسرا نظریہ یہ کہتا ہے کہ بیرونی دنیا پر توجہ مرکوز کرکے اقتصادی پیشرفت و رونق کا ہدف پورا ہو سکتا ہے، بنابریں ہمیں چاہئے کہ خارجہ پالیسی تبدیل کریں، استکباری طاقتوں سے سمجھوتا کریں، ان کی زور زبردستی کو قبول کر لیں تاکہ ہماری مشکلات حل ہو جائیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ یہ دوسرا موقف بالکل غلط، بے نتیجہ اور لا حاصل ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے دوسرے نظرئے کے غلط ہونے کی وجہ کی تشریح میں فرمایا: ملت ایران کے خلاف مغرب کی موجودہ پابندیاں باہری دنیا کی مدد سے اقتصادی پیشرفت حاصل کرنے کے نظریئے کے غلط ہونے کی دلیل ہیں۔ کیونکہ باہری طاقتیں منمانی اور اپنی مرضی مسلط کرنے کے مسئلے میں کسی حد پر رکنے والی نہیں ہیں اور ساتھ ہی کچھ ناگہانی اور غیر متوقع اقدامات جیسے تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی کر دینا اور ملکی معیشت پر ضرب لگانا، بھی وہ انجام دے سکتی ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: آج ملت ایران کے بدخواہوں کی کوشش دوسرے نظرئے کو تقویت پہنچانے کی ہے اور اسی وجہ سے امریکی صدر اپنے پیغام نوروز میں ایران کے عوام کو مخاطب کرکے کہتے ہیں کہ جوہری مذاکرات میں اگر آپ ہمارے مطالبات مان لیں تو ایران میں روزگار، سرمایہ کاری اور اقتصادی رونق میں اضافہ ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ اقتصادی مشکلات کے حل کے لئے بیرونی دنیا سے آس لگانا کبھی بھی نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا، لہذا ہمیشہ ملک کی داخلی توانائیوں کو بروئے کار لانے کی فکر میں رہنا چاہئے اور خود کفیل معیشت جس کا تمام اقتصادی ماہرین نے خیر مقدم کیا ہے، ملک و ملت کی اندرونی توانائیوں اور صلاحیتوں پر ہی مرکوز ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اقتصادی مسائل کے بارے میں اگلے نکتے کے طور پر حکام کی جانب سے دائمی بنیادوں پر اہداف کے تعین اور پالیسی سازی کا سلسلہ جاری رہنے اور روزمرہ کی باتوں میں الجھ کر رہ جانے سے اجتناب پر زور دیا۔ آپ نے فرمایا کہ اس سال جس ہدف پر عوام اور حکام کی بہت زیادہ توجہ ضروری ہے وہ داخلی پیداوار کا فروغ اور اس میں اضافہ ہے۔
داخلی پیداوار کو تقویت پہنچانے کے طریقوں پر روشنی ڈالتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ چھوٹے اور اوسط درجے کے اقتصادی مراکز کی حمایت، نالج بیسڈ کمپنیوں کی سرگرمیوں کی تقویت، خام مال فروخت کرنے کے سلسلے کو محدود کرنے کی مہم، سرمایہ کاری کے عمل کو آسان بنانا، استعمال کی اشیاء کے امپورٹ میں کمی، اسمگلنگ کا مقابلہ، داخلی پیداوار کو فروغ دینے کے راستے ہیں۔ البتہ اس معاملے میں بینک پشت پناہ کا کردار بھی ادا کر سکتے ہیں اور ان کا تخریبی رول بھی ہو سکتا ہے لہذا ملک کے بینکنگ شعبے کے اعلی حکام کو چاہئے کہ اس مسئلے پر خاص توجہ دیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دیکر کہا کہ ان طریقوں پر عمل کرنا اور انہیں عملی جامہ پہنانا سخت کام ہے تاہم حکام کو چاہئے کہ ان دشوار کاموں کو انجام دیں کیونکہ اقتصاد اور اقتصادی رونق کا معاملہ بہت اہم ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے قومی پیداوار کے فروغ میں عوام اور سرمایہ کاروں کے کردار کو بہت اہم اور انتہائی موثر قرار دیا اور فرمایا کہ سرمایہ کاری کو پیداواری شعبے کی جانب لے جانا، ملک کے اندر تیار ہونے والی مصنوعات کے استعمال کی ترویج اور فضول خرچی سے اجتناب بھی قومی پیداوار کی تقویت کے طریقے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے قومی معیشت کے تعلق سے آخری نکتہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: ملت ایران کا مقابلہ کرنے کے لئے دشمن کے پاس واحد حربہ پابندیاں ہیں، بنابریں اگر درست تدابیر کے ساتھ اور داخلی توانائیوں پر بھروسہ کرتے ہوئے منصوبہ بندی اور منصوبوں پر عملدرآمد ہو تو پابندیوں کا اثر محدود اور آخرکار ختم ہو جائے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اگر حکومتی عہدیداران، عوام الناس اور اقتصادی شعبے کے افراد ہمت سے کام لیں اور ذرائع ابلاغ عامہ بھی مدد کے لئے آگے آئیں تو ہم دیکھیں گے کہ پابندیاں ملت ایران کی پیشرفت کے عمل کو متاثر کرنے سے قاصر ہیں۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں ایٹمی مذاکرات پر مزید گفتگو کرتے ہوئے کچھ اہم نکات بیان کئے۔ آپ نے مذاکرات میں شامل مد مقابل فریق اور بنیادی طور پر امریکا کی منصوبہ بندی اور باریکی سے تیار کی جانے والی پالیسیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکیوں کو ان مذاکرات کی شدید احتیاج ہے اور ان کا داخلی اختلاف اس وجہ سے ہے کہ موجودہ امریکی حکومت کا حریف حلقہ اس کوشش میں ہے کہ مذاکرات کا کریڈٹ اپنی حریف جماعت کو نہ جانے دے۔
قائد انقلاب اسلامی نے امریکی صدر کے پیغام نوروز اور اس پیغام میں ان کی غیر صادقانہ باتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر اپنے پیغام نوروز میں کہتے ہیں کہ ایران میں کچھ افراد ہیں جو ایٹمی مسئلے کے سفارتی حل کے مخالف ہیں، یہ جھوٹ ہے، کیونکہ ایران میں کوئی بھی ایٹمی مسئلے کو مذاکرات سے حل کئے جانے کا مخالف نہیں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ملت ایران جس چیز کی مخالفت کر رہی ہے وہ امریکی حکومت کی منمانی اور اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش ہے جس کے مقابلے میں قوم ثابت قدمی سے کھڑی ہوئی ہے۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ نہ تو حکام، نہ مذاکرات کار اور نہ ملت ایران کوئی بھی امریکا کی زور زبردستی کو ہرگز قبول نہیں کرےگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ اس وقت امریکا سے ہونے والے مذاکرات صرف ایٹمی مسئلے تک محدود ہیں اور کسی دوسرے موضوع کے بارے میں گفتگو نہیں ہو رہی ہے۔ آپ نے فرمایا: ہم داخلی اور علاقائی مسائل میں اور ہتھیاروں کے معاملے میں کسی بھی صورت میں امریکا سے مذاکرات نہیں کریں گے، کیونکہ امریکا کی اسٹریٹیجی علاقے میں بدامنی پھیلانا، علاقے کی اقوام اور اسلامی بیداری کی لہر کا مقابلہ کرنا ہے جبکہ یہ اسلامی جمہوریہ ایران کی مرکزی پالیسیوں کے بالکل برعکس ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امریکی حکام کے بار بار آنے والے ان بیانوں کا حوالہ دیا جن میں وہ کہتے ہیں کہ معاہدہ ہو جانے اور ایران کی کارکردگی اور روئے کا جائزہ لینے کے بعد پابندیاں ہٹائی جائیں گی۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسے دھوکا قرار دیتے ہوئے فرمایا: یہ بات ناقابل قبول ہے، کیونکہ پابندیوں کی منسوخی مذاکرات کا حصہ ہے، مذاکرات کا نتیجہ نہیں۔ لہذا جیسا کہ ہمارے صدر محترم نے بھی واشگاف الفاظ میں اعلان کر دیا ہے؛ معاہدہ ہونے کے بعد فوری طور پر پابندیاں کالعدم ہو جانی چاہئے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امریکیوں کے اس بیان کا بھی حوالہ دیا کہ ممکنہ معاہدے میں ایران کے فیصلے ناقابل تبدیل ہونے چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ بات بھی ناقابل قبول ہے کیونکہ اگر وہ اپنے لئے یہ حق محفوظ سمجھتے ہیں کہ ممکنہ معاہدے کے بعد وہ کسی بھی وجہ سے دوبارہ پابندیاں لگا سکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم ایسے اقدامات پر رضامندی ظاہر کر دیں جن میں واپسی کا کوئی راستہ نہ ہو۔
قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ ایران کی ایٹمی صنعت ایک مقامی اور عوامی صنعت ہے جسے پیشرفت کی منزلیں طے کرنی ہیں اور ترقی ہر صنعت و ٹکنالوجی کی لازمی صفت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امریکیوں کے اس الزام کا بھی ذکر کیا کہ ایران ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکی خود بھی جانتے ہیں کہ ان مذاکرات میں ہم نے اپنے بین الاقوامی وعدوں پر عمل کیا اور سیاسی اخلاقیات کے اصولوں پر بھی کاربند رہے، ہم نے عہد نہیں توڑا، تلوّن مزاجی بھی نہیں دکھائی۔ جبکہ دوسری جانب امریکیوں نے عہد شکنی بھی کی، دھوکے بازی بھی کی اور اپنے بیانوں اور موقف میں دوغلے پن اور تلون مزاجی کا بھی ثبوت دیا۔
ایٹمی مذاکرات کے دوران امریکیوں کے روئے کو قائد انقلاب اسلامی نے عوام کے لئے عبرت قرار دیا اور فرمایا کہ ملک کے اندر روشن خیال برادری کے لئے بھی امریکیوں کا رویہ مایہ عبرت ہے اور اس سے وہ سمجھ سکتے ہیں کہ مذاکرات میں ہمارا واسطہ کیسے فریق سے ہے اور امریکا کا طرز عمل کیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے امریکیوں کی ان دھمکیوں کا حوالہ دیا کہ معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں پابندیوں میں اضافہ ہوگا اور فوجی اقدامات کے بھی امکانات بڑھ جائیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ دھمکیاں ملت ایران کو ہراساں نہیں کر سکتیں کیونکہ یہ قوم ثابت قدمی سے ڈٹی ہوئی ہے اور اس بڑی آزمائش سے مکمل کامیابی کے ساتھ سرخرو ہوکر باہر نکلے گی۔
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ اس راہ میں ملت ایران کی کامیابیوں کی اصلی وجہ نصرت خداوندی اور توفیقات الہیہ ہیں۔ آپ نے فرمایا: حکومت اور عوام کے دوش پر بہت بڑے کاموں کی ذمہ داری ہے، ان میں اسلامی اتحاد کا مسئلہ، مستضعفین کی مدد کا معاملہ اور علاقے میں اسلام کے معنوی و روحانی اثر و نفوذ کا موضوع ہے جس کا پرچم آج ملت ایران کے ہاتھوں پر بلند ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں نوروز کی قدیمی تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے نوروز کی موجودہ تقریب کو دانشمندانہ اسلامی جدت عملی قرار دیا اور فرمایا کہ روایتی نوروز، بادشاہوں کی تقریب تھی اور یہ حکام و سلاطین کے لئے عوام کے سامنے اپنی عظمت و جلالت کے مظاہرے کا موقع ہوتا تھا، جبکہ مسلمان ایرانیوں نے بڑی دانشمندی سے اپنے فا‍ئدے کے مطابق اس کی شکل و صورت کو تبدیل کر دیا۔
آپ نے فرمایا کہ اس وقت نوروز وہ قدیمی نوروز نہیں رہا بلکہ ایرانی نوروز اور مسلمان ملت کا نوروز بن گیا ہے اور اس تقریب کی اس نئی شکل سے قوم نے روحانی اہداف کی جانب پیش قدمی کے لئے سرمایہ تیار کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس وقت نوروز کے ایام میں اور تحویل سال کے موقع پر اس وسیع و عریض ملک میں سب سے زیادہ ازدہام کی جگہیں ائمہ اور امام زادوں کے مقدس روضے ہوتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس سال ایام شہادت حضرت فاطمہ کے موقع پر نوروز کی آمد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ نوروز کے سلسلے میں ایرانی قوم کی دانشمندانہ فکر کے مد نظر اس سال نوروز کی رسومات میں کوئی بھی چیز عالم اسلام کی عظیم خاتون حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم شہادت کے احترام و عقیدت کے منافی نہیں ہونی چاہئے اور یقینی طور پر کوئی بھی منافی عمل انجام نہیں دیا جائے گا۔