قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے ہفتے کی شام ایک ہزار سے زائد یونیورسٹی طلبہ سے چار گھنٹے کی طویل، بے تکلفانہ اور محبت آمیز ملاقات میں طلبا کی تجاویز، مطالبات، تنقیدوں اور تشویشوں کو سنا اور گوناگوں مسائل منجملہ اعلی اہداف اور اصولوں کی پابندی، طلبہ یونینوں کے اثرات کو بڑھانے کے لازمی تقاضوں، علاقائی مسائل، استکبار کے خلاف ملت ایران کی مجاہدت کے تسلسل اور طلبہ کو در پیش مسائل پر سیر حاصل گفتگو کی۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں جو شام چھے بجے شروع ہوئی اور نماز مغربین اور افطاری کے بعد تک جاری رہی، ماہ رمضان کے آخری دنوں کی حسرت کا ذکر کیا اور فرمایا: روحانیت و صفائے باطن کی اس بہار میں جو انسان بھی لطف و رحمت خداوندی کی بارش سے اپنے دل کو معطر کر لے وہ مستقبل میں اس روحانی کھیتی کی فصل سے بہرہ مند ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے روحانی ارتقا کے طریقوں کے بارے میں نوجوانوں کے دائمی سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: میں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ روحانی ارتقا کا بہترین راستہ تقوی اور گناہ سے اجتناب ہے۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے دینی واجبات کی ادائیگی بالخصوص نماز کو اول وقت اور حضور قلب کے ساتھ اور حتی المقدور با جماعت ادا کئے جانے کو گناہ سے اجتناب کا تکملہ قرار دیا۔ آپ نے فرمایا: اس گراں بہا مجموعے کو روزانہ کم از کم چند آیتوں کی تلاوت کے ذریعے زینت بخشئے۔
دینی فرائض سے بحث کرنے کے بعد قائد انقلاب اسلامی نے طلبہ کے فرائض کا جائزہ لیا۔ آپ نے طلبا کی صنف کو ممتاز صنف قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ طلبہ کا اہم ترین فریضہ اعلی اہداف اور مقاصد کا طالب ہونا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اعلی اہداف و مقاصد کی خواہش کو حقیقت پسندی کے مخالف قرار دینے والے نظرئے کو مسترد کرتے ہوئے فرمایا کہ اعلی اہداف کی خواہش در حقیقت رجعت پسندی کی مخالفت کا نام ہے حقیقت پسندی سے روگردانی نہیں۔ آپ نے مزید تشریح کرتے ہوئے رجعت پسندانہ طرز عمل کو ہر حقیقت کے سامنے ہتھیار ڈال دینے کے مترادف قرار دیا اور فرمایا کہ اعلی اہداف و مقاصد کی خواہش کا مطلب ہے مثبت حقائق کا درست استعمال اور بڑے اہداف تک رسائی کے لئے منفی حقائق کا مقابلہ کرنا۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی معاشرے کی تشکیل اور سیاسی اسلام کے نظرئے کے احیاء کو اہم ترین ہدف اور مقصد قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ خود اعتمادی اور 'ہم کر سکتے ہیں، کے جذبے جیسے اعلی اہداف و مقاصد ملک و معاشرے کی تعمیر و ترقی میں فیصلہ کن اثر رکھتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے طلبہ برادری کے فرائض پر اپنی بحث میں تیسرے فریضے کے طور پر استکبار اور عالمی سامراجی نظام کے خلاف جدوجہد جاری رکھنے پر زور دیتے ہوئے فرمایا: ملت ایران سے دنیا کی منہ زور طاقتوں کی دشمنی کی اصلی وجہ دنیا کو سامراجی اور سامراج کا شکار ملکوں میں تقسیم کرنے والے نظام کو تسلیم کرنے سے اسلامی جمہوریہ ایران کا انکار ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے انصاف و مساوات کے مطالبے، اسلامی طرز زندگی، مغربی انداز کی نہیں بلکہ حقیقی معنی میں حریت پسندی، سعی و کوشش، تساہلی سے اجتناب اور یونیورسٹیوں کو اسلامی رنگ میں ڈھالنے کو طلبہ یونینوں کے دیگر اعلی اہداف و مقاصد کا جز قرار دیا۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس کے بعد طلبہ کے طبقے کی ایک بنیادی تشویش کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان اعلی اہداف و مقاصد کے ذریعے کس طرح ملک کے حکام کے فیصلوں پر اثر انداز ہوا جا سکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں آپ نے پوری صراحت اور تاکید کے ساتھ فرمایا: ان مطالبات کو بار بار پیش کیجئے، پوری سنجیدگی کے ساتھ ان پر اصرار کیجئے یہاں تک کہ وہ طلباء کے درمیان اور پھر عمومی سطح پر ایک رائج بحث اور مطالبے میں تبدیل ہو جائے، ایسا ہو جانے کے بعد حکام اور حکومتی مراکز پر یقینا اثر پڑے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملک کے مختلف مراکز کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کے طلبہ کے طریقوں کی تشریح کرتے ہوئے کچھ لازمی تقاضوں کا بھی ذکر کیا اور طلبہ یونینوں کو ان پر پابندی سے عمل کرنے کی دعوت دی۔
قائد انقلاب اسلامی نے سطحی فکر سے اجتناب کرتے ہوئے اسلامی مفاہیم پر گہرائی کے ساتھ کام کو طلبہ یونینوں کے لئے اہم تقاضہ قرار دیا۔ آپ نے اس سلسلے میں بعض نعروں اور بیانوں پر تنقید کی جو بظاہر تو اسلامی مگر باطنا بالکل مختلف ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے ایک مصداق پیش کرتے ہوئے فرمایا: ان دنوں 'اسلام رحمانی' کی اصطلاح بہت رائج ہو گئی ہے جو دو خوبصورت الفاظ کا مرکب ہے لیکن سوال یہ ہے اس کا حقیقی مفہوم کیا ہے؟ کیا اس سے مراد یہ ہے کہ قرآن کے برخلاف جو انسانوں کو مومن و کافر اور دوست و دشمن کے درمیان تقسیم کرتا ہے، تمام انسانوں کے ساتھ صرف مہر و محبت کا رویہ اختیار کیا جائے؟ جو لوگ اسلام اور ملت ایران کے دشمن ہیں ان کے ساتھ بھی فرمان خداوندی کے برخلاف محبت و الفت کا برتاؤ کیا جائے؟
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ اس طرح کے کام جو بغیر غور و فکر کے سطحی انداز میں کئے جاتے ہیں، غلط اور گمراہ کن ہیں۔ آپ نے فرمایا: کیا 'اسلام رحمانی' کی اصطلاح مغربی لبرل ازم سے ماخوذ نہیں ہے؟ اگر اسی سے ماخوذ ہے تو یہ نہ تو اسلامی ہے اور نہی ہی اس میں رحمانی اور جذباتی پہلو ہے۔ کیونکہ لبرل ازم کا بنیادی ڈھانچہ یعنی ہیومن ازم وجود پروردگار کی نفی اور روحانیت کے انکار پر استوار ہے اور طاقتور گروہوں کے مفادات کی حفاظت کے ارد گرد گردش کرتا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس بحث کو جاری رکھتے ہوئے ان مسائل کا جائزہ لیا جو امریکی اقدار سے موسوم ہیں۔ آپ نے فرمایا: سامراجی نظام کی دنیا کو ہڑپ کر جانے کی ہوس کی جڑ یہی امریکی اقدار ہیں، جبکہ ان اقدار کے اچھے پہلو امریکی حکام کی توسیع پسندانہ روش میں بالکل معدوم ہو چکے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اگر 'اسلام رحمانی' کی اصطلاح کا اشارہ اس طرح کے نظریات کی جانب ہے تو پھر یہ سو فیصدی غلط ہے اور اس کا حقیقی اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے طلبہ یونینوں کو موثر بنانے کے ایک اور تقاضے کا ذکر کرتے ہوئے قوت کشش میں اضافے پر زور دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے طلبہ کے ماحول میں موسیقی، کنسرٹ اور لڑکے اور لڑکیوں کی مشترکہ کیمپنگ جیسے غلط طریقوں سے کشش پیدا کرنے کی روش کو یکسر مسترد کرتے ہوئے زور دیکر کہا کہ جو افراد قوم کے طلبہ و طالبات کو کشش اور دلچسپی پیدا کرنے کے نام پر مشترکہ سیر و تفریح کے لئے یورپ لے جاتے ہیں وہ طلبہ کے ماحول کے ساتھ بلکہ آئندہ نسل کے ساتھ خیانت کر رہے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے طلباء کے ماحول کی کشش بڑھانے کے صحیح طریقوں کی تشریح کرتے ہوئے نئی نئی دینی، سیاسی اور سماجی باتوں اور موضوعات کو پیش کئے جانے پر زور دیا اور فرمایا کہ قرآن اور نہج البلاغہ کے گہرے مطالعے سے نئی اور پرکشش باتیں پیش کرنے کے امکانات فراہم ہو جاتے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے طلبہ کے تھیئیٹر، کیریکیچر کے مقابلوں، طنز نگاری، صوتی نشریات، شعر کی محفلوں وغیرہ کی بھی سفارش کی۔
قائد انقلاب اسلامی نے طلبہ کے ماحول اور طلباء یونینوں کو پرکشش بنانے کے تیسرے تقاضے کا ذکر کرتے ہوئے فکری آسودگی اور جبرا کوئی بات مسلط کئے جانے سے اجتناب پر زور دیا۔ آپ نے فرمایا: ذہنی طور پر مطمئن کئے بغیر دینی فکر کو منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ ممکن ہے کہ جذبات و ہیجانی کیفیت کے زیر اثر کچھ باتیں ذہنی و فکری اطمینان کے بغیر بھی قبول کر لی جائیں مگر چونکہ فکری اطمینان کے ساتھ ان باتوں کو قبول نہیں کیا گيا ہے لہذا ان میں دوام نہیں ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے لوگوں کو مطمئن کئے بغیر جبرا اپنے نظریات مسلط کرنے کی مارکسسٹ اور کمیونسٹ گروہوں کی روش کا ذکر کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر بعض یونیورسٹیوں میں مارکسسٹ حلقوں کے دوبارہ سرگرم ہو جانے سے متعلق کچھ رپورٹیں صحیح ہیں تو یقینی طور پر ان حلقوں کی مالیاتی مدد امریکا کی طرف سے ہو رہی ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ طلبہ میں انتشار پیدا ہو اور ان کے حصے بخرے ہو جائیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے طلباء یونینوں کو یہ سفارش بھی کی کہ اقدار پر یقین رکھنے والے اساتذہ کی مدد لی جائے اور غیر مطمئن افراد کی ملک و قوم کے لئے خدمات لینے سے گریز کیا جائے۔ آپ نے فرمایا: ایسے عناصر جنھوں نے سنہ 2009 میں آشوب برپا کر دیا تھا اور بغیر عقلی و منطقی دلیل کے انھوں نے نظام کی اسلامی اور جمہوری پہچان کی مخالفت شروع کر دی تھی، ہرگز بھروسے کے لایق نہیں ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی کا یہ بھی کہنا تھا کہ طلباء یونینوں کو اگر موثر بنانا ہے تو اس کا ایک اور تقاضہ یہ ہے کہ ملکی حقائق کو بخوبی سمجھا جائے۔ قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ حکام سے زیادہ محنت اور کام کی توقع رکھنا بالکل بجا اور درست ہے، لیکن مثبت حقائق کو بھی مد نظر رکھا جانا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اعلی اہداف کی امنگوں کے زیادہ نمایاں ہونے اور امام خمینی کے اہداف و مقاصد کو حاشئے پر ڈال دینے کی بعض حلقوں کی کوششوں کو ملک کے اندر موجود قابل توجہ حقائق قرار دیا۔ آپ نے یاد دلایا کہ امام خمینی کی رحلت کے بعد ایک گروہ نے غلطی سے امام خمنیی کے اعلی اہداف کو حاشئے پر ڈال دینے کے اپنے خفیہ منصوبے کو آشکارا کر دیا، مگر اب چونکہ ان افراد میں زیادہ پختگی آ گئی ہے لہذا اپنے اس ہدف کے بارے میں واضح طور پر بات تو نہیں کرتے لیکن عمل اسی انداز سے کرتے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا: ملک کے اندر اور باہر اس گروہ کی مربوط کوششوں کے باوجود اور اس مقصد کی برآری کے لئے فکری، سیاسی اور فنی عناصر کو استعمال کئے جانے کے باوجود ملک کے اندر اعلی اہداف کے تعلق سے امنگوں میں اضافہ ہوا اور وہ نوجوان بھی جنھوں نے امام خمینی کے زمانے کے پرکشش حقائق کو اور مسلط کردہ جنگ کو اپنی آنکھ سے نہیں دیکھا ہے، اسلام اور انقلاب کے اعلی اہداف کے گرویدہ ہو گئے ہیں۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے علاقے میں ایران کے حیرت انگیز فکری اثر و نفوذ کو بھی اہم حقیقت قرار دیا اور طلباء یونینوں کو اس حقیقت پر توجہ مرکوز رکھنے کی دعوت دی۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مجھے اطلاع ہے کہ امریکی اور علاقے کے رجعت پسند حکام خفیہ اجلاسوں میں علاقے میں ایران کے اثر و نفوذ پر ایک دوسرے کا غم بانٹنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر ان کے بس میں اب کچھ بھی نہیں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے یمن پر سعودی عرب کی سو دنوں سے جاری بمباری اور ان حملوں میں مظلوم و بے گناہ عوام کے قتل عام کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: لبرل مغربی دنیا جو آزادی کی حمایت کے دعوے کرتی ہے، سعودیوں کے ان جرائم پر مہر بلب ہے اور سلامتی کونسل نے اپنی ایک انتہائی شرمناک قرارداد میں بمباری کرنے والوں کے بجائے بمباری کا نشانہ بننے والوں کی سرزنش کی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے مطابق یمن کے عوام کے گھربار پر جاری اس بمباری کی اصلی وجہ علاقے میں ایران کا اثر و نفوذ بڑھنے پر سعودیوں اور ان کے حامیوں کی برہمی ہے۔ آپ نے فرمایا: جو دعوے کئے جا رہے ہیں ان کے بالکل برخلاف علاقے میں اسلامی مملکت ایران کا اثر و نفوذ ایک خداداد عطیہ ہے، یہ کوئی مادی اور اسلحوں کے زور پر ملنے والی کامیابی نہیں ہے اور ہم بھی شہید بہشتی کی طرح اس قوم کے دشمنوں سے یہی کہیں گے کہ تم اپنے اسی غم و غصے میں مر جاؤ!
قائد انقلاب اسلامی نے طلبہ یونینوں کو سفارش کی کہ علاقائی و عالمی مسائل منجملہ، یمن، عراق اور شام کے مسائل پر کام کریں۔ آپ نے فرمایا کہ الیکشن کے وقت طلباء یونینیں بنا کر انھیں استعمال کرنا طلباء کی صنف کی توہین ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ان ڈسپوزیبل یونینوں کے بجائے اسلامی اور گہرا لگاؤ رکھنے والی طلباء یونینیں ملک کی عمومی پیشرفت کے عمل میں بہت موثر اور مفید واقع ہو سکتی ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے طلباء یونینوں اور تنظیموں کی نمائندگی کرنے والے 9 طلباء کی گفتگو سننے کے بعد جب تقریر شروع کی تو ایک طالب علم کے ذریعے بیان کئے گئے اس نکتے کا حوالہ دیا کہ عمل کے بغیر نعرہ بے سود ہے، آپ نے فرمایا کہ بیشک پرمغز اور مضمون کا حامل نعرہ جو توسیع کی صلاحیت رکھنے والی فکری حقیقت کی عکاسی کرتا ہو، وہ لوگوں کو میدان عمل میں لاکر انھیں مطلوبہ سمت اور جذبہ عطا کر سکتا ہے۔
ایک طالب علم نے انقلابی طلبا تنظیموں کے ساتھ کی جانے والی سختی پر تنقید کی جس کے جواب میں قائد انقلاب اسلامی نے وزرائے علوم و صحت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: انقلابی و اسلامی طلبا تنظیموں کا موقف ہمارا موقف ہے، جو لوگ یونیورسٹیوں میں اہم عہدوں پر ہیں، ان تنظیموں کے ساتھ کسی طرح کی سختی نہ کریں اور ان کی سرگرمیوں کا دائرہ محدود کرنے کی کوشش نہ کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے نوجوانوں کو غیر محفوظ ماحول کی جانب لے جانے والے اقدامات کو دشمنوں کی سازش قرار دیا اور فرمایا کہ ایٹمی اور نینو ٹیکنالوجی جیسے اہم اور حساس میدانوں میں ملک کے موجودہ پرافتخار علمی کارواں کے پیشرو افراد دیندار اور انقلابی نوجوان رہے ہیں اور آج بھی ہیں، جبکہ دشمن کی منشا یہ ہے کہ یونیورسٹیوں میں ڈاکٹر شہریاری اور ڈاکٹر چمران جیسی ہستیوں کی پرورش رک جائے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دیکر کہا کہ وزیر علوم اور وزیر صحت دونوں میرے معتمد ہیں، لیکن وہ متوجہ رہیں کہ ان کی ماتحتی میں کام کرنے والے سسٹم کے اندر کچھ افراد اپنے غلط اقدامات اور پروگراموں کے ذریعے طلبہ کو اسلامی، انقلابی اور روحانی رجحانات سے دور نہ کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو میں حقیقی معنی میں آزادانہ رایزنی کے پلیٹ فارم تشکیل دئے جانے کے سلسلے میں ایک طالب علم کے مطالبے کے جواب میں فرمایا کہ میں اس تجویز سے پوری طرح اتفاق کرتا ہوں اور انقلابی و مومن طالب علم کو چاہئے کہ تحمل کے ساتھ اور استدلال کی قوت سے مخالفین کے دلائل کا جواب دے اور آج اس کی صلاحیت موجود ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کی جانب سے منصوب کئے جانے والے بعض افراد اور طلباء کے بیانوں اور انھیں رہبر انقلاب کے نظرئے کی حیثیت سے پیش کئے جانے کے تعلق سے ایک طالب علم کے سوال کا جواب دیتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے کہا کہ ان افراد کے ذریعے بیان کی جانے والی باتیں ان کی اپنی باتیں ہیں، میری باتیں آپ میری زبان سے سنئے۔ آپ نے فرمایا کہ رہبر انقلاب کی جانب سے منصوب کردہ افراد ممکن ہے کہ بعض سیاسی و سماجی مسائل میں اس حقیر سے اختلاف نظر رکھتے ہوں اور اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے، کیونکہ اصلی موضوع کلی اور انقلابی طرز فکر ہے۔ تاہم آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر کوئی شخص اس حقیر کے حوالے سے کوئی خلاف حقیقت بات بیان کرتا ہے تو اسے متنبہ کیا جائے گا اور یہ ہدایت دی جائے گی اس مسئلے کی اصلاح کرے۔
ایک طالب نے ایٹمی مذاکرات کے بعد سامراج کے خلاف جدوجہد کی نوعیت کے تعلق سے سوال کیا جس کے جواب میں رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ استکبار اور تسلط پسندانہ نظام کے خلاف جدوجہد، قرآنی تعلیمات کی بنیاد پر کبھی بھی ختم ہونے والی نہیں ہے اور آج امریکا استکبار کا سب سے مکمل مصداق ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مذاکرات کرنے والے حکام سے بھی ہم نے کہہ دیا ہے کہ آپ کو صرف ایٹمی مسئلے میں گفتگو کرنے کا حق ہے، حالانکہ مذاکرات کے دوران امریکی فریق کبھی کبھی علاقائی مسائل منجملہ شام اور یمن کا موضوع بھی اٹھاتا ہے لیکن ہمارے عہدیداران یہی جواب دیتے ہیں کہ ان مسائل کے بارے میں ہم گفتگو نہیں کریں گے۔
قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ استکبار کے خلاف جدوجہد انقلاب کے بنیادی اصولوں کا جز اور اساسی مہم ہے، بنابریں آپ خود کو سامراج کے خلاف جدوجہد جاری رکھنے کے لئے آمادہ کیجئے۔
ایک طالب علم نے رہبر انقلاب سے درخواست کی کہ وہ والدین سے نوجوانوں کی شادی آسان اور کم خرچ بنانے کی سفارش کریں۔ اس پر قائد انقلاب اسلامی نے نوجوانوں کے ماں باپ سے سفارش کی کہ سخت گیری نہ کریں کیونکہ اللہ تعالی نے قرآن میں وعدہ کیا ہے کہ شادی کے بعد اپنے فضل سے نوجوانوں کو مالدار بنائے گا اور مشکلات کو برطرف کرے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے طلبا سے اپنی اس ملاقات پر قلبی مسرت کا اظہار کیا اور ملک کے گوناگوں میدانوں میں ایرانی نوجوانوں اور طلباء کی پرجوش و بانشاط شرکت کو بہت اہم قرار دیا اور اسے ان رپورٹوں کے برخلاف زمینی سچائی سے تعبیر کیا جو شماریات کے بعض سازشی مراکز پیش کرتے ہیں اور ان میں ایرانی نوجوانوں کے اندر ڈپریشن بڑھنے کا دعوی کرتے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ خباثت آمیز اور نرا جھوٹ ہے اور یہ بے راہروی کی ترویج کا بہانہ ہے۔ قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ ایرانی نوجوان جوش و جذبے سے سرشار بہت فعال اور زندہ دل نوجوان ہے، جبکہ اس کے برخلاف یورپی نوجوانوں کی خود کشی کے اعداد و شمار دیکھے جائیں تو اس سے مغربی دنیا میں پھیلے ڈپریشن کا پتہ چلتا ہے۔
قائد انقلاب نے چند سال قبل ایک یورپی نوجوان کے حملے میں تقریبا اسی بچوں کے قتل اور خود کش حملے کے ذریعے اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کے مقصد سے داعش میں شامل ہونے کے یورپی نوجوانوں کے بڑھتے رجحان کو یورپی نوجوانوں کے ڈپریشن کا نمونہ قرار دیا۔ آپ نے زور دیکر کہا کہ شب قدر میں رات بھر عبادت کے بعد اگلے دن روزہ رکھ کر شدید گرمی میں یوم القدس کے جلوسوں میں شرکت کرنے والا ایرانی نوجوان زندہ دل اور امید و نشاط سے بھرا ہوا نوجوان ہے جو ڈپریشن سے کوسوں دور ہے۔