خطاب حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الطّیّبین الطّاھرین المعصومین سیّما بقیّۃ الله فی الارضین.

عزیز بھائیو اور عزیز بہنو! آپ سب کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہتا ہوں۔ ہم نے ان محترم بھائیوں کے پیش کردہ پروگرام سے بہت فیض اٹھایا۔ ان کے بامعنی اور پُرمغز اشعار نے اس محفل کو تازگی اور عصرِ حاضر سے ہم آہنگی عطا کی۔ بہت سی محفلیں ایسی ہوتی ہیں جن میں ہجوم تو ہوتا ہے، مگر وہ اپنے زمانے سے مربوط نہیں ہوتیں؛ لیکن یہ نشست، واقعی آج کے زمانے کی نشست ہے۔ آپ کے اشعار، آپ کے حرکات، آپ کی باتیں، آپ کے بیانات، آپ کا اجتماع اور آپ کا جوش و خروش، سب نے مل کر اس مجلس کو عصر حاضر سے ہم آہنگی عطا کی۔

میں حضرت سیّدۃ النساء، صدّیقۂ طاہرہ سلام اللہ علیہا کی ولادت باسعادت، نیز ہمارے عزیز و بزرگوار امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی ولادت پر دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ حضرت صدّیقۂ طاہرہ کے بارے میں میں بہت مختصر عرض کرنا چاہوں گا؛ اس لیے کہ اس عظیم آسمانی خاتون کے فضائل، مناقب اور بلند پایہ اوصاف ایسے نہیں کہ ہم اپنی زبان و بیان میں ان کا احاطہ کر سکیں۔ وہ ہماری فہم، ہمارے تصور اور ہمارے ادراک سے کہیں بلند تر ہیں۔ تاہم اتنا کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک کامل اسوہ تھیں۔ کیا ہم عمل نہیں کرنا چاہتے؟ کیا ہم فاطمی طرزِ زندگی نہیں اپنانا چاہتے؟ وہ اسوہ تھیں؛ اور اسوہ کے مطابق ہی چلنا اور عمل کرنا چاہیے۔ وہ دینداری کا نمونہ تھیں، عدل و انصاف کی علمبردار تھیں، اور جہاد کا اعلیٰ ترین نمونہ تھیں۔ حضرت فاطمۂ زہرا سلام اللہ علیہا کا جہاد مشکل ترین جہادوں میں شمار ہوتا ہے۔ اگر کوئی موازنہ کرے تو شاید رسولِ اکرم کی تمام غزوات ایک طرف اور حضرت فاطمۂ زہرا کا جہاد ایک طرف ہے۔ وہ جہاد کی اسوہ تھیں۔ وہ تبیین و تشریح کی اسوہ تھیں؛ مسجدِ النبی میں دیا گیا ان کا وہ درخشاں خطبہ ایک بے مثال، روشن اور سبق آموز تبیین تھا۔ وہ نسوانی ذمہ داریوں کا بھی نمونہ تھیں: شوہرداری، اولاد کی پرورش، زینبؑ پروری اور دیگر بے شمار اسلامی اقدار۔ یہ سب وہ ظاہری پہلو ہیں جو ہماری نگاہ میں آ سکتے ہیں؛ جب کہ ان کے باطنی اور عرشی مقامات ہماری نظر سے بلند اور ہمارے بیان سے باہر ہیں۔

اور اب چند کلمات 'مدّاحی' کے موضوع پر عرض کرنا چاہتا ہوں۔ آج میری گفتگو کا محور یہی ہے۔ آج مدّاحی ایک نہایت اہم پلیٹ فارم بن چکی ہے، مناسب ہے کہ اس کے بارے میں تحقیق و مطالعہ کیا جائے۔ مدّاحی اب صرف آنا، پڑھنا اور لوگوں کو رُلا دینا نہیں رہی؛ ہمارے ملک میں یہ ایک ایسا سماجی و ثقافتی مظہر بن چکی ہے جو گہرے مطالعے کا تقاضا رکھتا ہے۔ تحقیق سے مراد کیا ہے؟ یعنی گہرائی تک پہنچنا؛ یہ جاننا کہ ان اشعار، نظموں، دھنوں اور حرکات کے پسِ پشت کیا فکر اور کیا پیغام کارفرما ہے۔ اسی طرح ’’نقص شناسی‘‘ بھی ضروری ہے؛ تاکہ ممکنہ کمزوریوں کی نشاندہی ہو سکے۔ نیز ترقی کے راستوں کی تلاش، کہ مدّاحی کو کس طرح نشوونما کی راہ پر ڈالا جائے اور کمال کی سمت بڑھایا جائے۔ یہ سب ایسے امور ہیں جن پر اہلِ تحقیق کام کرسکتے ہیں اور آج اس کی شدید ضرورت ہے۔

یقیناً ماضی میں بھی مدّاحی موجود تھی؛ ہماری نوجوانی کے زمانے میں بھی مدّاح تھے، البتہ نہ اس وسعت کے ساتھ، نہ اس تعداد میں، نہ اس آگہی اور نہ اس علمی سطح پر، لیکن تھے۔ البتہ ان میں کچھ اہم خصوصیات بھی تھیں، مثلاً وہ طویل قصائد ازبر پڑھا کرتے تھے۔ تاہم مجموعی طور پر ہمارے دور کی مدّاحی اور آج کی مدّاحی میں بہت بڑا فاصلہ ہے۔ آج مدّاحی ہمارے معاشرے میں ایک حیرت انگیز حقیقت بن چکی ہے۔ میں یہ باتیں اس لیے عرض کر رہا ہوں تاکہ ہمارے عزیز مدّاح اس بات سے آگاہ رہیں کہ وہ کس قدر اہم کام انجام دے رہے ہیں۔ اگرچہ آپ خود جانتے ہیں؛ آج کے اشعار اور آج کے مضامین سے واضح ہے کہ مدّاح اپنی ذمہ داریوں اور اپنے مقام سے باخبر ہیں۔ کئی دہائیوں کے بعد یہ اہم حقیقت اب ایک مؤثر عنصر کی صورت میں ہمارے ملک میں نمایاں ہوچکی ہے۔ ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایسے اثرگذار عوامل کو مضبوط کرنا ہے جو اذہان، افکار اور دلوں پر اثر ڈالتے ہیں؛ پہلے انہیں پہچانیں، پھر انہیں تقویت پہنچائیں۔ یہی میری اصل بات ہے جسے میں آگے بیان کروں گا۔

یقیناً تمام مدّاحیاں ایک ہی درجے کی نہیں ہوتیں؛ ان میں کمی بیشی ہوتی ہے۔ تمام فنون کا یہی حال ہے: کچھ اعلیٰ درجے کے ہوتے ہیں، کچھ متوسط۔ مگر مجموعی اور معتدل انداز میں کہا جاسکتا ہے کہ آج مدّاحی ’’ادبیاتِ مزاحمت‘‘ کے اہم مراکز میں سے ایک ہے۔ آج مدّاحی مزاحمت کی ادبیاتِ کا ایک مضبوط ستون بن چکی ہے۔ اگر کوئی فکر موجود ہو مگر اس کے مطابق ادبیات نہ ہوں تو وہ فکر مر جاتی ہے اور مٹ جاتی ہے۔ فکر و نظریے کے مطابق ادبیات کی تخلیق ایک عظیم فن ہے۔ ان مراکز میں سے ایک جہاں ادبیاتِ مزاحمت مرتب ہوتی ہے، پھیلتی ہے اور منتقل کی جاتی ہے، وہ مدّاحی اور انجمن کا یہی پلیٹ فارم ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ’’قومی مزاحمت‘‘ سے کیا مراد ہے؟ جب ہم ’’قومی ادبیاتِ مزاحمت‘‘ کی بات کرتے ہیں تو قومی مزاحمت کیا ہوتی ہے؟ آج ’’مزاحمتی محاذ‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے؛ یہ کس چیز کے مقابلے میں مزاحمت کر رہا ہے؟ قومی مزاحمت سے مراد یہ ہے کہ انسان کی زندگی کے مختلف شعبوں میں دشمن جو دباؤ ڈالتا ہے کہ ایک قوم کو جھکنے پر مجبور کر دے، اس کے مقابلے میں تحمل، استقامت اور ڈٹ کر کھڑے رہنے کی طاقت۔ مزاحمت سے ہماری مراد یہی ہے: دباؤ کے آگے نہ جھکنا، برداشت کرنا، مقابلہ کرنا، ثابت قدم رہنا، دشمن کی پیش قدمی کو روک دینا اور اس کے ہاتھ کاٹ دینا۔

یہ دباؤ جس کا ہم ذکر کر رہے ہیں، کسی بھی نوعیت کا ہوسکتا ہے؛ فرق نہیں پڑتا۔ کبھی یہ عسکری دباؤ ہوتا ہے، جسے ہم نے دیکھا ہے؛ نئی نسل نے شاید پہلے نہ دیکھا ہو، مگر اب وہ بھی دیکھ رہی ہے؛ ہم نے تو چالیس برس پہلے بھی اس کا تجربہ کیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ اسلامی جمہوریہ کو زبردستی کسی مسلط کردہ بات کو قبول کرنے پر مجبور کیا جائے۔ یہ دباؤ فوجی ذرائع سے بھی ہوسکتا ہے، معاشی وسائل کے ذریعے بھی، یا شور اور ہنگامہ کرکے، پروپیگنڈے اور میڈیا کی فضا سازی کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔ ذرا سوشل میڈیا پر نظر ڈالیں، غیر ملکی ریڈیو نشریات کو دیکھیں، صرف صحافیوں اور نامہ نگاروں ہی کے نہیں بلکہ دنیا بھر کے اعلیٰ عسکری اور سیاسی حکام کے بیانات ملاحظہ کریں؛ یہ سب ایک ہی مرکز اور ایک ہی ٹارگٹ کی طرف متوجہ ہیں، اور وہ ہے قوموں کی استقامت اور مزاحمت کو نشانہ بنانا—اور اس میں سرِفہرست ملتِ ایران ہے۔ آج صورتِ حال یہی ہے۔ لہٰذا یہ دباؤ کبھی عسکری ہوتا ہے، کبھی معاشی، مثلاً پابندیوں کی شکل میں، کبھی میڈیا کے ذریعے، کبھی سوشل میڈیا کے میدان میں، کبھی جاسوس تیار کرکے، اور کبھی اس جیسے دیگر طریقوں سے۔

اس دباؤ کا مقصد بھی مختلف ہوسکتا ہے: کبھی علاقائی توسیع پسندی، جیسا کہ آج کل امریکہ بعض لاطینی امریکی ممالک کے ساتھ کر رہا ہے؛ کبھی زیرِ زمین وسائل پر قبضہ، مثلاً کسی ملک کے تیل کے ذخائر پر ہاتھ ڈالنے کے لیے دباؤ ڈالنا؛ کبھی ثقافتی اور دینی معاملات؛ کبھی طرزِ زندگی کو بدلنے کی کوشش، جو زیادہ تر میڈیا کے آلات کے ذریعے انجام پاتی ہے؛ اور ان سب سے بڑھ کر، قومی شناخت کو تبدیل کرنے کی کوشش۔ گزشتہ سو برس سے مغربی طاقتیں—جو قاجاری دور کے آخری زمانے میں ایران میں داخل ہوئیں—ملتِ ایران کی شناخت بدلنے کی کوشش میں لگی رہی ہیں: اس کی دینی شناخت، اس کی تاریخی شناخت اور اس کی ثقافتی شناخت۔ رضا خان نے اس سمت پہلا قدم اٹھایا، مگر کامیاب نہ ہوسکا؛ اس کے بعد آنے والوں نے زیادہ سیاسی مہارت کے ساتھ اقدامات کیے، مگر وہ بھی کامیاب نہ ہو سکے؛ پھر اسلامی انقلاب آیا اور ان سب کوششوں کو بہا لے گیا۔ یہ سب ملتِ ایران کی شناخت بدلنے کا دباؤ تھا۔ بہرحال، ان تمام صورتوں میں مقاومت ناگزیر ہے۔ ہم نے کہا کہ مقاومت کیا ہے؟ یعنی برداشت، ثابت قدمی، ڈٹ کر کھڑے رہنا، تسلیم نہ ہونا، اور دباؤ ڈالنے والے کو ناکام بنانا؛ یہی مقاومت کا مفہوم ہے۔ آج جب ہم بار بار محورِ مقاومت کی بات کرتے ہیں تو اس سے یہی مراد ہے۔ ایک وقت تھا جب صرف ایران تھا؛ آج یہ مقاومت خطے کے ممالک تک بلکہ بعض مواقع پر خطے سے باہر کے ممالک تک پھیل چکی ہے؛ مقاومت بتدریج وسعت اختیار کر چکی ہے۔

یقیناً ہماری قوم نے اسلامی جمہوریہ کے قیام اور انقلابِ اسلامی کی کامیابی کے آغاز ہی سے مقاومت کا مظاہرہ کیا، ڈٹ کر کھڑی رہی اور دشمن کے دباؤ کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ دشمن نے ہر طرح کے ہتھکنڈے آزمائے—جن کی تفصیل ہم بارہا بیان کر چکے ہیں، اس لیے دہرانا نہیں چاہتا۔ بعض اقدامات ایسے تھے کہ اگر وہ کسی اور قوم یا ملک کے خلاف کیے جاتے تو وہ تہس نہس ہو جاتا؛ مگر ملتِ ایران مضبوطی سے کھڑی رہی، اور اسلامی جمہوریہ نے کامل استقامت اور بھرپور مقاومت کے ساتھ اپنا موقف برقرار رکھا۔

مدّاحی بھی انقلاب کے آغاز ہی سے اسی سمت میں آگے بڑھی؛ اگرچہ سب نہیں، مگر یہ رجحان شروع ہو گیا تھا، اور جنگ کے زمانے میں اپنے عروج کو پہنچ گیا۔ جنگ کے دنوں میں ہر ایک شہید، مدّاحوں کی بدولت ملتِ ایران کے لیے ایک پرچم بن گیا۔ یہ مدّاح ہی تھے جنہوں نے یہ کردار ادا کیا۔ اگر شہید کا جسد آتا اور اس کے ساتھ مدّاح نہ ہوتا، اگر وہ حماسی شاعری فضا میں گونجتی نہ اور دلوں کو اپنی گرفت میں نہ لیتی، تو وہ شہید فراموش ہو جاتا۔ انہوں نے زینبی کردار ادا کیا؛ جیسے حضرت زینبؑ نے کربلا کو تاریخ میں زندہ رکھا، ویسے ہی۔ یہ عمل انقلاب کے آغاز سے شروع ہوا، آج تک جاری ہے، اور آج بھی موجود ہے۔ اگرچہ میں جانتا ہوں کہ تمام مدّاحی کی مجالس آج کی اس مجلس جیسی نہ تھیں اور نہ ہیں، لیکن پھر بھی ہر مجلس میں کسی نہ کسی درجے میں مقاومت کے مفہوم اور اس کی عملی صورت کی طرف ایک جھکاؤ، ایک نظر اور ایک حرکت ضرور پائی جاتی ہے۔

اب میری بات کا خلاصہ یہ ہے—اور میں بس یہی ایک جملہ عرض کرنا چاہتا ہوں—کہ آج ہم محض عسکری تصادم سے آگے بڑھ چکے ہیں؛ اگرچہ وہ موجود رہا ہے، آپ نے دیکھا ہے، اور اس کے دوبارہ ہونے کا خدشہ بھی مسلسل ظاہر کیا جاتا ہے، بلکہ بعض لوگ دانستہ اس آگ کو ہوا دیتے ہیں تاکہ عوام کو خوف اور اضطراب میں مبتلا رکھیں—ان شاء اللہ وہ اس میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ اصل بات یہ ہے کہ آج ہم ایک شدید تبلیغی اور میڈیا جنگ کے مرکز میں کھڑے ہیں؛ اور یہ جنگ کس کے ساتھ ہے؟ ایک وسیع محاذ کے ساتھ۔ ہم ایک فکری اور معنوی جنگ میں ہیں۔ دشمن یہ بات سمجھ چکا ہے کہ اس مقدس اور معنوی سرزمین پر فوجی طاقت اور دباؤ کے ذریعے قبضہ ممکن نہیں۔ اس نے یہ بھی جان لیا ہے کہ اگر اسے کسی قسم کی مداخلت یا کامیابی حاصل کرنی ہے تو دلوں کو بدلنا ہوگا، ذہنوں اور افکار کو تبدیل کرنا ہوگا؛ چنانچہ وہ اسی راستے پر چل پڑا ہے۔ اگرچہ ہم اس کے مقابل مضبوطی سے کھڑے ہیں، لیکن آج خطرہ یہی ہے، محاذ یہی ہے، اور دشمن کا ہدف یہی ہے۔ دشمن کا مقصد ہمارے ملک میں انقلابی مفاہیم کی روشن اور تابندہ نشانیاں مٹانا ہے؛ اس کا ہدف یہ ہے کہ بتدریج لوگوں کو انقلاب کی یاد سے، انقلاب کے مقصد سے، انقلاب کے کارناموں سے اور امامِ انقلاب کی یاد سے غافل کر دے۔ اسی کے لیے وہ سرگرم ہے، اسی کے لیے کوششیں کر رہا ہے، اربوں خرچ کر رہا ہے—وہ کہتے نہیں، مگر ہم جانتے ہیں۔ وہ مصنفین، فنکاروں، کتاب نویسوں، ناول نگاروں، ہالی وُڈ اور دیگر ذرائع کو استعمال میں لا رہا ہے، مختلف ہتھیاروں اور وسائل سے کام لے رہا ہے تاکہ ایرانی نوجوان کے ذہن کو بدل دے۔ اس میدان میں ہمارے مقابل ایک نہایت وسیع اور فعال محاذ کھڑا ہے؛ جس کا مرکز امریکہ ہے، اس کے گرد بعض یورپی ممالک ہیں، اور اس کے حاشیے میں وہ کرائے کے لوگ، غدار، بے وطن عناصر ہیں جو یورپ اور دیگر علاقوں میں جمع ہو کر محض روزی روٹی اور مفاد کے لیے یہ راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ہم ان سب کے مقابل کھڑے ہیں۔

لہٰذا محاذِ انقلاب اور مزاحمت کے کارگزاروں کو دشمن کی اس صورتِ حال کو اچھی طرح پہچاننا چاہیے اور اپنی صف بندی دشمن کے اسی نظم اور اسی مقصد کو مد نظر رکھتے ہوئے ترتیب دینی چاہیے۔ جیسے عسکری میدان میں ہماری صف آرائی دشمن کے ہدف پر منحصر ہوتی ہے؛ جب ہم دیکھتے ہیں کہ دشمن کسی خاص پوائنٹ پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو ہم ایسی عسکری ترتیب اختیار کرتے ہیں جو اسے ناکام بنا دے۔ یہی کام تبلیغ و ابلاغیات کے میدان میں بھی ہونا چاہیے۔ تشہیراتی صف بندی کو اسی سمت متوجہ ہونا چاہیے جسے دشمن نے اپنا ہدف بنایا ہے، اور وہ ہیں: معارفِ اسلامی، معارفِ شیعی اور انقلابی معارف۔ دشمن نے انہی کو نشانہ بنایا ہے؛ اس لیے ان کے مقابل ڈٹ کر کھڑا ہونا ضروری ہے۔ یقیناً یہ کام آسان نہیں، لیکن خوش قسمتی سے آج ہمارے پاس حوزہ علمیہ میں ایسے بہت سے فاضلین موجود ہیں جنہوں نے ان موضوعات پر غور و فکر کیا ہے، کام کیا ہے اور قیمتی علمی سرمایہ فراہم کیا ہے، جس سے ملک کے مدّاحی کے حلقے بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

آپ مدّاح حضرات جن انجمنوں سے وابستہ ہیں، انہیں انقلاب کے اقدار اور دیگر اسلامی اقدار سے وابستگی کا مرکز بنا سکتے ہیں؛ خصوصاً آج جبکہ خوش قسمتی سے نوجوانوں کا رجحان انجمنوں کی طرف بہت بڑھ گیا ہے۔ آج انجمنوں سے نوجوانوں کی وابستگی نہایت زیادہ ہے؛ ماضی میں ایسا نہیں تھا۔ آج مختلف شہروں میں نوجوان، جیسا کہ ہمیں رپورٹوں سے، ٹیلی وژن کے ذریعے یا خبروں سے معلوم ہوتا ہے، پورے شوق سے ان سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں اور محنت کر رہے ہیں۔ اس رجحان کی قدر کرنی چاہیے اور نوجوان نسل کو اس ضدی، مکار اور بدقسمتی سے بے پناہ وسائل سے لیس دشمن کے منصوبوں سے محفوظ بنانا چاہیے۔

میری آپ سے سفارش ہے کہ اہلِ بیتِ اطہار (علیہم السلام) کی مدّاحی میں معارف کی تبیین کو نمایاں کریں۔ میرے نزدیک ائمۂ معصومین (علیہم السلام) نے بنیادی طور پر دو بڑے کام انجام دیے: ایک، معارف کی وضاحت اور تبیین، جس کے نتیجے میں اسلامی معارف محفوظ رہے؛ اگر وہ معارفِ اسلامی کی تبیین نہ کرتے تو آج اسلام اور اس کے حقیقی معارف میں سے کچھ بھی باقی نہ رہتا۔ دوسرا، جدوجہد اور مقابلہ۔ ائمۂ اطہار مسلسل مقابلہ کرتے رہے۔ اس موضوع پر میں برسوں سے گفتگو کرتا رہا ہوں۔ امیرالمؤمنینؑ کے بعد—چاہے امام حسنؑ کا دور ہو، امام حسینؑ کا زمانہ ہو یا بعد کے ائمہ کا دور—سب کے سب کسی نہ کسی انداز میں جدوجہد میں مصروف رہے؛ خلافت کے خلاف، حق کے دشمنوں کے خلاف، ہر ایک نے اپنے اپنے اسلوب سے؛ طریقے مختلف تھے، مگر مقصد ایک تھا۔ یہ پہلو ائمۂ اطہار کی سیرت اور ان کی زندگی کے بیان میں اجاگر ہونا چاہیے۔ لہٰذا ایک اہم سفارش یہ ہے کہ دینی معارف کے ساتھ ساتھ جدوجہد اور انقلابی معارف کی بھی تبیین تشریح کی جائے۔

ایک اور سفارش یہ ہے کہ دشمن کے مقابلے میں محض اس کے پیدا کردہ شبہات کا جواب دینے پر اکتفا نہ کریں۔ جواب دینا یقیناً ضروری ہے اور دشمن کے پیدا کردہ شبہات کا جواب دینا بھی لازم ہے، مگر دشمن کے اندر بہت سی کمزوریاں بھی ہیں؛ ان کمزوریوں کو نشانہ بنائیں، ان پر حملہ کریں، اور شعری مفاہیم کے ذریعے ان پر یلغار کریں۔ خوش قسمتی سے آج بعض بھائیوں نے اس میدان میں بھی اپنی اچھی صلاحیتوں کا اظہار کیا ہے۔

مزید ایک سفارش یہ ہے کہ مدّاحی کے منبر کو اسلام کی طاقتوں اور مضبوط پہلوؤں سے بھر دیں، خواہ وہ انفرادی زندگی کے مسائل ہوں، سماجی امور ہوں، سیاسی میدان ہو یا دشمن کے ساتھ پیش آنے کا طریقہ۔ اسلام کے پاس ان تمام میدانوں میں گہرے معارف اور مضبوط نکات موجود ہیں۔ آپ کی گفتگو اور آپ کے پروگرام سننے والا شخص قرآن اور اس کے مفاہیم سے بھرپور استفادہ کرے۔ مدّاحی کو دین کی ترویج، دینی مفاہیم اور انقلابی مسائل کے فروغ کا ایک مؤثر اور اہم ذریعہ بنائیں۔ یہ کام اس وقت بھی کسی حد تک ہو رہا ہے؛ اسے مزید پھیلائیں، مضبوط کریں، عام کریں اور ہر جگہ رائج کریں۔ بسا اوقات ایک خوش ساخت اور خوش مضمون نوحہ، جو آپ منبر پر پڑھتے ہیں، سامع کے دل پر ایک یا دو منطقی، فلسفیانہ اور استدلالی خطبات سے کہیں زیادہ گہرا اور دیرپا اثر چھوڑ جاتا ہے۔

اور خوش آہنگی کی بات آئی تو اس پہلو میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے، تاکہ طاغوتی دور کے نغمے اور دھنیں ہمارے دینی مفاہیم میں سرایت نہ کرنے پائیں؛ کبھی کبھار انسان کو ایسے نمونے سننے کو مل جاتے ہیں۔ اس سے بچیے! مدّاحی کی دھن، آپ کی اپنی دھن ہونی چاہیے، آپ کی تخلیق اور آپ کا ابتکار عمل؛ وہ دھنیں، جو آپ کے دشمنوں سے وابستہ ہیں، جن کے خلاف آپ نے قیام کیا اور جن کے غلط ثقافتی اور فکری نظام کے خلاف آپ کی قوم اٹھ کھڑی ہوئی، آپ کے کلام اور بیان میں سرایت نہ کرنے پائیں۔

لہٰذا جو بات میں محسوس کرتا ہوں اور دیکھتا ہوں وہ یہ ہے کہ خوش قسمتی سے ملک کی ترقی کے اہم ذرائع میں مدّاحی کا ایک نمایاں اور خاص مقام ہے۔ آپ لوگ محنت کر رہے ہیں، کوشش میں لگے ہوئے ہیں، اور جیسا کہ عرض کیا، اس میدان میں تحقیق کی ضرورت ہے؛ اس کی کمزوریوں کی نشاندہی ہونی چاہیے، اس کی تکمیل اور ارتقا کے راستے تلاش کیے جانے چاہئیں، اور اس مقصد کے لیے موزوں مضامین بلکہ مناسب دھنیں بھی تیار کی جانی چاہئیں۔ مدّاحی کو محفوظ رکھیں، اسے باقی رکھیں، اسے ارتقا بخشیں اور اس سرمائے سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔

آخر میں میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ توفیق الٰہی سے اسلامی جمہوریہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ ہمارے پاس کمیاں بہت ہیں؛ خوزستان کی گرد و غبار کا مسئلہ تو جس کا ذکر کیا گیا، ان میں سے ایک معمولی سی مثال ہے؛ اس سے کہیں بڑی کمزوریاں بھی ملک میں موجود ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ملک آگے بڑھ رہا ہے۔ ملتِ ایران روز بروز اسلام کی ساکھ اور آبرو میں اضافہ کر رہی ہے اور یہ ثابت کر رہی ہے کہ اسلام کا مطلب استقامت ہے، اسلام کا مطلب قوت ہے، اسلام کا مطلب سچائی اور اخلاص ہے، اسلام کا مطلب خیر خواہی اور عدل و انصاف ہے۔ ملتِ ایران بتدریج ان حقائق کو عملی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کر رہی ہے۔ یقیناً ملک میں بڑی تبدیلیاں فوراً نظر نہیں آتیں، کیونکہ وہ تدریجی ہوتی ہیں اور طویل مدت میں وقوع پذیر ہوتی ہیں؛ وہ ایک لمحے میں انجام نہیں پاتیں کہ فوراً دکھائی دینے لگیں۔ لیکن میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ توفیق الٰہی سے ہمارا معاشرہ بتدریج ترقی کر رہا ہے۔ آج کا نوجوان دینی مسائل کے حوالے سے، ابتدائی ایامِ انقلاب کو چھوڑ کر، تمام درمیانی ادوار کے مقابلے میں کہیں زیادہ آگے ہے، اور ان شاء اللہ آئندہ بھی مزید آگے بڑھے گا۔

شہیدوں کی مقدس ارواح امام بزرگوار (امام خمینی) کی روح مقدسہ خوش رہے جنہوں نے ملت ایران کے لئے یہ راستہ تعمیر کیا۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ

  1. اس ملاقات کے آغاز میں کچھ مداحان و قصیدہ خوانان اہل بیت نے اشعار پڑھے اور مدح سرائی کی۔
  2. خوزستان کے ایک 'مداح' کے اشعار کی طرف اشارہ۔