رہبر انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں ایران اور ہنگری کے درمیان اقتصادی و غیر اقتصادی تعلقات کی نیچی سطح کو غیر اطمینان بخش قرار دیا اور فرمایا: ہنگری کے سلسلے میں ملت ایران میں کسی طرح کی کوئی ناگوار یادیں نہیں ہیں اور آپ کے ساتھ جو اعلی سطحی وفد آیا ہے اس کے پیش نظر ہم یہ امید کرتے ہیں کہ عزم و ارادہ موجود ہونے کی صورت میں یہ سفر تعاون کے فروغ کی تمہید قرار پائے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی منطقی روش تمام انسانوں اور اقوام سے تعاون پر استوار ہے، البتہ واضح وجوہات کی بنا پر کچھ استثنا‏ئات بھی ہیں اور ہم ان مخصوص موارد کے علاوہ پروقار پالیسیوں اور جذبات کا جواب سچے جذبات کے ذریعے دیں گے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مہمان وزیر اعظم کے اس جملے کا حوالہ دیا کہ قوموں اور حکومتوں کے مابین تعاون کی بنیاد بننے والا باہمی ادراک و شناخت ضروری ہے، رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اقتصادی، علمی، ثقافتی اور تعلیمی تعاون اور رشتوں کے لئے اصولی قالب اور ڈھانچہ تیار ہونا چاہئے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ بہت سی دشمنیوں اور کینہ توزیوں کی وجہ صحیح باہمی شناخت و ادراک کا فقدان ہے، آپ نے فرمایا: آج دنیا پر حکمفرما تشہیراتی ماحول میں حقائق کو دگرگوں کرکے دکھایا جاتا ہے اور یہ غبار آلود فضا انسانیت و بشریت کے لئے زیاں بار ثابت ہوگی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے عالم اسلام و عیسائیت کے درمیان گفتگو کا سلسلہ قائم کئے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ مشترکات میں وسعت لانے اور حقائق کو آشکارا کرنے کے ان مواقع سے استفادہ صحیح شناخت حاصل کرنے کی سمت ایک قدم ہے جس کا اسلام نے حکم بھی دیا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے گزشتہ چار عشروں کے دوران اسلامی انقلاب کے خلاف وسیع پیمانے پر چلائی گئی تشہیراتی مہم کا حوالہ دیتے ہوئے اسے دنیا کے حقائق کے سلسلے میں تشہیراتی اداروں کی جانب سے فریب آمیز رویہ اختیار کئے جانے کا ایک نمونہ قرار دیا اور فرمایا کہ مفکرین اور دانشوروں کی گفتگو اور ان کی آمد و رفت کا سلسلہ حقائق کے مفاد میں ان کے نمایاں ہونے میں مددگار ہے، اسی لئے ہم اس قسم کے رشتوں کی حمایت کرتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو میں اقتصادی اور دفاعی میدانوں میں مغرب کے ناموافق حالات اور ثقافتی مشکلات و اخلاقی بحرانوں کے سلسلے میں ہنگری کے وزیر اعظم کے تجزئے کو انتہائی ماہرانہ اور حقیقت کے قریب تجزیہ قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ بعض دردمند مغربی مفکرین برسوں سے اس خطرے کو بھانپ چکے ہیں اور اس کے سلسلے میں انتباہات دیتے رہے ہیں۔ آپ نے مزید فرمایا کہ اس وقت یورپ میں بھی اور امریکا میں بھی نوجوانوں کی مرکزیت کے ساتھ ایک نامحسوس روحانی و اخلاقی لہر وجود میں آ رہی ہے اور مستقبل میں ممکن ہے کہ یورپ مادی، سائنسی اور ٹیکنالوجیکل ترقی اور روحانیت کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائے۔
تہران کے دورے پر آنے والے ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربن نے رہبر انقلاب اسلامی سے اپنی ملاقات میں اپنے سفر پر خوشی ظاہر کی اور کہا کہ ہم ایران سے دو طرفہ تعلقات کو فروغ اور تقویت دینے کے لئے ایک بڑے تجارتی اور اقتصادی وفد کے ساتھ تہران آئے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کے بہت سے مواقع موجود ہیں۔
ہنگری کے وزیر اعظم نے تعاون کے ڈھانچے کی تقویت پر زور دیا اور کہا کہ باہمی ادراک و شناخت پائیدار تعاون کی بنیاد اور اساس ہے اور عالمی امور میں ایران کے نمایاں اور پروقار مقام کو دیکھتے ہوئے ہم امید کرتے ہیں کہ آپ کی حمایت سے ہم مختلف سطحوں پر باہمی تعاون کے مواقع ایجاد کرنے میں کامیاب ہوں گے۔
ہنگری کے وزیر اعظم نے تشہیراتی اداروں کی جانب سے حقائق کو مسخ کر دینے سے متعلق رہبر انقلاب اسلامی کے تبصرے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ خود اور ان کی کابینہ کے ارکان غاصبانہ قبضے کے خلاف جدوجہد کرنے والے انقلابی عناصر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جب تک ہم انقلابی تحریک چلا رہے تھے، اس وقت تک ہمارے سامنے کوئی مشکل نہیں تھی لیکن جیسے ہی لوگوں کو پتہ چلا کہ ہم ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے ایک نیا نظام تشکیل دینے جا رہے ہیں، ہمارے خلاف منفی پروپیگنڈا شروع ہو گیا۔ وکٹر اوربن کا کہنا تھا کہ عالمی تعلقات تبدیلی کے دور سے گزر رہے ہیں اور ان تیز رفتار تبدیلیوں نے اس خیالی تصویر کو جو مغرب اور عالمی طاقتوں نے اپنے سلسلے میں قائم کر رکھی تھی جھٹکا دیا ہے اور انھیں سخت ناموافق نفسیاتی حالات سے دوچار کر دیا ہے۔
ہنگری کے وزیر اعظم نے کہا کہ ترقی کو سارا ہم و غم بنا لینے کی وجہ سے اخلاق، سیاست اور دین سے متعلق مغرب کے تمام اقدار اور معیارات انحطاط کا شکار ہو گئے اور بڑے سخت و دشوار حالات پیدا ہو گئے۔
ہنگری کے وزیر اعظم نے آبادی کی قلت، خاندانی اقدار کی نابودی، غیر اخلاقی طور پر کنبے کی تشکیل، پے در پے اقتصادی بحرانوں، سیکورٹی اور دفاعی توانائی میں گراوٹ اور دہشت گردوں کی موجودگی کو یورپ کی معروضی مشکلات قرار دیا اور کہا کہ ان بحرانوں نے مغرب کو اس بات پر مجبور کر دیا ہے کہ اپنے طرز فکر اور طرز عمل کو مشرقی معاشروں کے قریب کرے تاکہ روحانی و اخلاقی اقدار کی بحالی کے ذریعے اپنی مشکلات کا حل تلاش کر سکے۔