1395/08/26 ہجری شمسی مطابق 16 نومبر 2016
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بدھ 16 نومبر کو اصفہان کے ہزاروں لوگوں سے خطاب میں صوبہ اصفہان کو شہادت و پیش قدمی، استقامت و پائيداری، علم و ثقافت، دین و ولایت اور عمل و ابتکار عمل کا صوبہ قرار دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دیکر کہا کہ امریکا کے صدارتی انتخابات کے بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران کوئی رائے قائم نہیں کرنا چاہتا اور اس ملک نے امریکا کی دونوں بڑی پارٹیوں سے ہمیشہ دشمنانہ روئے کا ہی مشاہدہ کیا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ آج ملک کی سب سے اہم ضرورت خاص طور پر دانشوروں اور حکام کی سب سے اہم احتیاج سیاسی بصیرت، دشمن کی سازشوں سے ہرگز غافل نہ ہونا، انقلابی جذبے اور روش کو قائم رکھنا، استقامتی معیشت کے میدان میں اقدام و عمل، علمی نمو کے راستے پر تیز رفتاری سے آگے بڑھتے رہنا، قومی اتحاد و یکجہتی اور روحانی و باطنی استحکام کی حفاظت ہے۔
اصفہان کے عوام کی رہبر انقلاب اسلامی سے یہ ملاقات 16 نومبر 1982 کو 'محرم آپریشن' کے 370 شہیدوں کی اصفہان کے عوام کے ہاتھوں تشییع جنازہ کی برسی کے موقع پر انجام پائی۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس ملاقات میں فرمایا کہ صوبہ اصفہان کے عوام کی ایک نمایاں خصوصیت شہادت پسندی اور استقامت کا جذبہ ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے ہر موڑ پر دشمن کی سا‌زشوں اور منصوبوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت پر زور دیا اور دشمن کے سامنے نرم پڑ جانے سے اجتناب کی نصیحت کی۔ آپ نے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کے اصولوں پر ثابت قدم رہنا ملک کی اہم ضرورت ہے اور انقلاب کے اصول وہی معیارات و ضوابط ہیں جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تقاریر اور آپ کے وصیت نامے میں بیان کئے گئے ہیں۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے سیاسی بصیرت کو پورے ملک اور خاص طور پر دانشور طبقے کی بہت اہم احتیاج قرار دیتے ہوئے کہا کہ بصیرت نہ ہو تو انسان ایسی چیزوں پر فریفتہ ہو جاتا ہے جن میں در حقیقت کوئی کشش نہیں ہے، چنانچہ کچھ لوگ امریکا پر فریفتہ ہیں جبکہ یہ فریفتگی بے بنیاد ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم‌ الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم
و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلوة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّة الله فی الارضین و لعنة الله علی اعدائهم اجمعین.

یہ میری خوش قسمتی ہے کہ لطف خداوندی سے اس حسینیہ (تہران میں واقع حسینیہ امام خمینی) میں آپ عزیز اصفہانی عوام سے ایک اور ملاقات کا موقع ملا۔ ویسے تو اصفہان اور اہل اصفہان سے مجھے بہت کچھ کہنا ہے، لیکن یہ ملاقات 25 آبان (مطابق 15 نومبر) کی مناسبت سے ہوئی ہے، لہذا میں اپنے معروضات کا آغاز یہیں سے کرنا چاہوں گا۔ پچیس آبان (مطابق 15 نومبر) سے لیکر آبان مہینے کی آخری تاریخ تک کے ایام ایسے ہیں کہ جنھیں اصفہان ہی نہیں بلکہ پورے ملک اور ہماری تاریخ کو کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ 25 آبان 1361 ہجری شمسی (مطابق 16 نومبر 1982 عیسوی) کو ایک دن کے اندر اہل اصفہان نے 360 شہیدوں کی تشییع جنازہ کی۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ تقریبا 360 شہیدوں کے جنازے ایک ہی دن میں اصفہان پہنچے اور عوام نے اپنے کندھوں پر یہ جنازے اٹھائے۔ آپ نوجوان اس وقت نہیں تھے، آپ نے وہ دن اپنی آنکھ سے نہیں دیکھا، وہ جوش، وہ جذبہ نہیں دیکھا۔ میں نے جو عرض کیا کہ آبان مہینے کے آخری تک تو اس کی وجہ یہ ہے کہ چند ہی دن بعد یعنی ابھی آبان کی تیس تاریخ نہیں ہوئی تھی کہ مزید 250 شہیدوں کے جنازے اصفہان پہنچے اور عوام نے ان کی بھی تشییع جنازہ کی۔ عوام نے یہ جنازے بھی اپنے کاندھوں پر اٹھائے اور بڑی ہمت کا مظاہرہ کیا۔ اس کے لئے صبر کی طاقت چاہئے، بڑی گہرائی کی ضرورت ہے۔ روحانی عمق جسمانی اور سماجی عمق سے بہت بالاتر ہوتا ہے۔ ایک شہر کے عوام اپنے بچوں کو، اپنے نوجوانوں کو، اپنے مثالی نوجوانوں کو جنازے کی صورت میں اپنے دوش پر بلند کریں اور پیشانی پر بل نہ پڑنے دیں تو یہ بہت عظیم قربانی ہے۔ اگر اس طرح کے واقعات تاریخ میں ہوتے اور ہم نے کتابوں میں ان واقعات کو پڑھا ہوتا تو ہم آسانی سے ان پر یقین نہ کر پاتے، لیکن ہم نے تو یہ واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ وہ اپنے اندر اتنا حوصلہ کہاں سے لائے؟ اسی دن اور اس کے بعد والے دن جب 360 شہیدوں کے جنازوں کو سپرد خاک کیا گیا، اسی شہر میں نوجوان صفوں میں کھڑے تھے محاذ پر جانے کے لئے اور وہ گئے بھی! صوبہ اصفہان کے مرکزی شہر اصفہان اور دیگر شہروں میں دو اہم فوجی بریگیڈ تھیں امام حسین علیہ السلام بریگیڈ اور نجف بریگیڈ۔ یہ دونوں بریگیڈ دوبارہ مومن و جاں نثار نوجوانوں سے بھر گئیں۔ نہ ماں باپ نے نوجوانوں کو روکا اور نہ نوجوانوں کو کوئی تردد ہوا۔ دوبارہ یہ دونوں صف شکن بریگیڈز جنھوں نے اتنا بڑا جانی نقصان اٹھایا تھا، جوانوں سے بھر گئیں۔ محرم آپریشن میں بیشتر شہدا کا تعلق اصفہان سے تھا۔ یہ ہے اصفہان۔ اسے کبھی فراموش نہ ہونے دیجئے۔
میرے عزیزوں! آپ یاد رکھئے اس ملک کے دشمنوں اور اس انقلاب کے دشمنوں کے بڑے حملوں میں ایک حملہ یہ ہے کہ ان اہم اور نمایاں چیزوں کو کم رنگ کر دیا جائے۔ اس پر ان کی بڑی توجہ ہے کہ لوگوں کے ذہنوں سے یہ چیزیں پھسل جائیں، بھلا دی جائیں۔ آپ دیکھئے کہ آگر کسی مغربی ملک میں، کسی یورپی ملک میں کوئی شخص شہید ہوتا ہے، اب مجھے اس بارے میں بحث نہیں کرنا ہے کہ وہ کس طرح درجہ شہادت کو پہنچا، کس جذبے اور عزم کے تحت وہ قتل ہوا، بہرحال وہ اس شہید کا نام کتابوں سے ہٹنے نہیں دیتے، دلوں سے اس کی یاد مٹنے نہیں دیتے۔ تو پھر ہم اصفہان کے عوام کا یہ عظیم کارنامہ کیوں فراموش ہو جانے دیں؟ یہ ہے اصفہان۔
اس سال یہ مناسبت امام حسین علیہ السلام کے چہلم کے موقع پر آئی ہے۔ آپ اس جلوس کو دیکھ رہے ہیں؟ نجف و کربلا کے درمیان یہ عظیم ملین مارچ؟ اس جوش و جذبے کو آپ دیکھ رہے ہیں؟ اس عمل کو دیکھ رہے ہیں؟ اگر خطرات سامنے ہوں تب بھی ہماری قوم کے اندر، ہمارے عوام کے اندر، ہمارے نوجوانوں کے اندر یہ جذبہ اور یہ جوش و خروش متلاطم ہوتا ہے۔ اس خصوصیت کو اسی طرح قائم رکھنا چاہئے۔ یہ ملک کی بقا کی ضمانت ہے۔
جناب طباطبائی صاحب نے ابھی اشارہ کیا، آپ نے میرے تعلق سے فرمایا کہ اصفہان کے بارے میں اور اصفہان کے عوام کے بارے میں میری کچھ باتیں ہیں، کچھ نظریات ہیں، تو انھوں نے بجا فرمایا۔ اصفہان شہر علم ہے، شہر دین ہے، شہر ولایت ہے، شہر عمل و اختراع ہے، شہر فن و ثقافت اور شہر شہادت ہے، بلکہ پورا صوبہ، صوبہ شہادت ہے۔ جب ہم شہر اصفہان کہتے ہیں تو اس سے ہماری مراد اس قدیمی اور قابل فخر شہر کی مرکزیت والا پورا صوبہ اصفہان ہوتا ہے۔ خمینی شہر بھی صوبہ اصفہان کا ایک شہر ہے۔ اس شہر نے اکیلے ہی بعض صوبوں سے زیادہ شہدا کی قربانی پیش کی ہے۔ حال ہی میں وہاں دو ہزار سے زائد شہدا کی یاد میں پروگرام رکھ گیا۔ اصفہان کے ایک شہر نے بعض صوبوں سے زیادہ شہیدوں کی قربانی دی ہے۔ اس میں گہرے مفاہیم مضمر ہیں۔ کیوں شہید ہوتے ہیں؟ کیوں محاذ جنگ پر جاتے ہیں؟ کس جذبے کے تحت جاتے ہیں؟ یہ کون سا جذبہ ہے؟ یہ پیش گام شہر ہے۔
جناب طباطبائی نے استقامتی معیشت کے سلسلے میں اصفہان کے عوام کی سرگرمیوں اور تعاون کا ذکر کیا۔ جی ہاں بالکل، میرا بھی یہی خیال ہے۔ اصفہان کے عوام انفاق کرنے میں، راہ خدا میں اپنا مال خرچ کرنے میں ایسے دست و دل باز واقع ہوئے ہیں کہ دوسروں سے آگے نکل جاتے ہیں، لیکن روز مرہ کی اپنی زندگی میں کفایت شعاری سے کام لیتے ہیں اور اس پہلو سے بھی وہ دوسروں سے آگے ہیں۔ یہ دونوں ہی چیزیں بہت اچھی ہیں۔ پیسہ جب اپنی ذاتی زندگی پر خرچ کرنے کی بات آتی ہے، روز مرہ کی زندگی پر صرف کرنے کا موقع ہوتا ہے تو ہم کفایت شعاری سے کام لیں، یہ اصفہانیوں کی خصوصیت ہے اور جب ہم راہ خدا میں اور رفاہ عامہ کے لئے خرچ کرنے پر آئیں تو فراخدلی کا مظاہرہ کریں، یہ بھی اصفہانیوں کی خصوصیت ہے۔ اصفہان میں مختلف میدانوں میں کام کرنے والے خیّر افراد ایسے ہی ہیں۔ یہ ظرافت و نفاست کا شہر ہے، فن و ہنر کا شہر ہے، عظیم و نامور شہدا کا شہر ہے، ایک طرف آیت اللہ بہشتی جیسے شہدا ہیں اور دوسری طرف شہید خرازی، شہید ہمت، شہید کاظمی، شہید ردّانی پور اور دیگر معروف شہدا ہیں جن میں سے ہر ایک شہید پوری ملت کے راستے کو روشن کرنے والی شمع کا مرتبہ رکھتا ہے۔ یہ فضیلتیں ہیں، یہ آپ کی شناخت ہے، یہ اصفہان کے عوام کی پہچان ہے۔ راہ حق یعنی انقلاب کے راستے میں استقامت کا مظاہرہ کرنا، انقلاب کی کامیابی سے پہلے طاغوتی (شاہی) دور میں دس پندرہ شہروں میں مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔ اصفہان میں دوسرے شہروں سے کئی مہینہ پہلے ہی مارشل لا لگا دیا گیا تھا۔ یہ ہے اصفہان۔ یہ ہے اصفہان کی شناخت۔ یہ شہر انقلاب ہے، شہر دین ہے، شہر ولایت ہے، شہر خدمت ہے، شہر عمل ہے، شہر علم ہے، افرادی قوت کا گہوارا ہے۔ میں اس کمرے میں ابھی دوستوں سے یہی عرض کر رہا تھا کہ مختلف شعبوں میں اصفہان کے تربیت یافتہ افراد کی شراکت نمایاں، روشن اور آشکار ہے۔ اس خصوصیت کو اسی طرح قائم رکھئے، اس کی حفاظت کیجئے۔
ہمارے تمام عزیز نوجوانوں کو یہ ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ دشمن کبھی بھی سکون سے نہیں بیٹھتا، وہ ہمیشہ سازشیں رچنے میں مصروف رہتا ہے۔ آپ کا کمال یہ ہے کہ آپ دشمن کی چالوں کو، اس کی سازشوں کو اور دشمن کے نشانے پر آنے والے امور کو پہلے ہی سمجھ لیں اور مقابلے کے لئے، اس کے سامنے ڈٹ جانے کے لئے، دشمن کی سازشوں کو نقش بر آب کر دینے کے لئے منصوبہ بنائیں، مقابلے کا جذبہ مستحکم کریں اور اس کا مناسب آئیڈیا تیار کریں۔ دشمن کے مقابلے میں ہتھیار ڈال دینا تمام مشکلات و مسائل کی جڑ ہے جو کسی بھی ملک کو اپنے چنگل میں جکڑ لیتے ہیں۔ ہم اسلام کی برکت سے اپنے ملک کو اوج پر لے جانا چاہتے ہیں۔ ہم ملت ایران کو اس مقام پر لے جانا چاہتے ہیں کہ جو اس ملت کے شایان شان ہے، جہاں پہنچ کر یہ قوم مثالیہ اور نمونہ عمل بن جائے۔ صرف دنیائے اسلام کے لئے نہیں، صرف مسلم اقوام کے لئے نہیں بلکہ تمام بشریت کے لئے۔ ظاہر ہے یہ بڑا کام ہے، اس کے لئے دشوار اور طولانی راستہ طے کرنا پڑے گا۔ دشمنان اسلام نہیں چاہتے کہ اسلام کو یہ عظمت ملے، یہ شکوہ حاصل ہو۔ شیعہ دشمن طاقتیں بھی یہ نہیں چاہتیں۔ بنابریں وہ مستقل طور پر سازشیں رچنے میں مصروف رہتی ہیں، سرگرمیاں انجام دیتی ہیں، منصوبے تیار کرتی رہتی ہیں۔ ان کی سازشوں کی طرف سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔
میری نظر میں اس وقت کی اہم ضرورت ہے انقلاب کے اصولوں پر ثابت قدمی سے ڈٹے رہنا۔ انقلاب کے اصول وہی ہیں جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے وصیت نامے اور آپ کی تقاریر میں موجود ہیں۔ یہی اصول، انقلاب کے ستون اور بنیادیں ہیں۔ میں نوجوانوں کو یہ سفارش کروں گا کہ امام خمینی کے وصیت نامے کو پڑھئے۔ آپ نے امام خمینی کو نہیں دیکھا ہے تاہم امام خمینی کی شخصیت اسی وصیت نامے کی صورت میں اور آپ کی تقاریر کی صورت میں مجسم ہے۔ وہ امام خمینی جنھوں نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ان کی شخصیت کے عناصر ترکیبی یہی چیزیں ہیں جو اس وصیت نامے کے اندر اور ایسی ہی دیگر تحریروں میں موجود ہیں۔ امام خمینی کی شخصیت کے بارے میں تفسیر بالرائے نہیں کی جا سکتی۔ امام خمینی کی جو حقیقی شخصیت ہے اس سے الگ ہٹ کر آپ کی تصویر کشی نہیں کی جا سکتی۔ آپ کے بیانات موجود ہیں۔ تو انقلاب کے اصولوں پر ثابت قدمی اور اصرار ضروری ہے۔
میں نے اس دن یہیں پر ممتاز اور الیٹ نوجوانوں سے بھی کہا کہ یہ بے جا ضد نہیں ہے، یہ جاہلانہ تعصب اور اصرار نہیں ہے، اس تاکید کی وجہ یہ ہے کہ اگر یہ ملک صدیوں تک مسلط رکھی جانے والی پسماندگی کی غبار اپنے سر و جسم سے جھاڑنا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ اس راستے پر چلے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک کی مشکلات حل ہوں، اگر ہماری خواہش ہے کہ اس ملک کے وقار کو چار چاند لگے، رفاہ حاصل ہو، روحانی، مادی، اخلاقی اور ثقافتی ترقی کے اعتبار سے یہ ملک مثالیہ بن جائے تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ انقلاب کے راستے پر اپنا سفر جاری رکھیں۔ اسلامی انقلاب اس ملک کا واحد علاج تھا، ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔
اس وقت ایک چیز جو عملی طور پر بہت اہم ہے، اقتصادیات کا معاملہ ہے۔ دشمن نے ہمارے ملک کی معیشت پر نظریں مرکوز کر رکھی ہیں۔ دشمن کی نگاہ میں ہمارے ملک کی معیشت وہ کمزور پہلو ہے جس کے ذریعے وہ ہمارے وطن عزیز کے بارے میں اور اسلامی جمہوریہ کے بارے میں اپنے شوم مقاصد کی تکمیل کر سکتا ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ اقتصادی میدان میں کام کیا جائے۔ میں نے استقامتی معیشت کی بات کہی۔ یعنی ایسی معیشت جو داخلی طور پر پنپے اور نمو پائے، اغیار پر انحصار کو کم کرے اور بیرونی جھٹکوں کے سامنے وطن عزیز کو مستحکم بنائے رکھے۔ یہ ہے استقامتی معیشت کا مفہوم۔ استقامتی معیشت، اقدام اور عمل (رواں ہجری شمسی سال 1395 کے لئے رہبر انقلاب کی جانب سے معین کردہ نعرہ) یہ اقدام اور عمل عوام کے سامنے آنا چاہئے، عوام اسے خود دیکھیں۔ حکام سے ہماری یہ توقع اور گزارش ہے کہ عوام کو باخبر رکھیں۔ ہم یہ بات حکام سے ہمیشہ کہتے رہتے ہیں۔ اقدام و عمل کے انڈیکیٹرز نمایاں ہونے چاہئے۔
آج جن چیزوں کی سخت ضرورت ہے ان میں ایک ہے سیاسی بصیرت ہے۔ سیاسی شعور! دیکھئے جب بصیرت ہوگی تو انسان اپنے گرد و پیش کے حالات کو اور قریب و دور کے ماحول کو بخوبی سمجھ سکے گا۔ بصیرت سے یہ مراد ہے۔ جب بصیرت نہیں ہوتی تو انسان ایسی چیزوں کا بھی شیدائی ہو جاتا ہے جس کے اندر در حقیقت کوئی کشش نہیں ہوتی۔ کچھ لوگ امریکا کے بڑے عاشق ہیں۔ لیکن یہ فریفتگی جھوٹی اور بے بنیاد ہے، کیونکہ اس کے اندر حقیقت میں کوئی کشش نہیں ہے۔ ہم یہ بات بار بار کہتے رہے ہیں۔ بعد میں آپ نے دیکھا کہ اس بار کے انتخابات میں اس ملک کی سب سے نمایاں سیاسی شخصیات نے بھی آکر وہی باتیں کہیں جو ہم بیان کرتے تھے، بلکہ اس کا دگنا یا کئی گنا زیادہ بیان کیا۔ امریکا میں جو صدر منتخب ہوا ہے (2)، اس کا کہنا ہے کہ چند سال کے دوارن جو پیسہ ہم امریکیوں نے جنگ پر خرچ کیا اگر اسے امریکا کے اندر خرچ کرتے تو ہم دو بار امریکا کی تعمیر کر سکتے تھے۔ امریکا میں یہ ٹوٹی ہوئی سڑکیں، ٹوٹے ہوئے پل، خراب پڑے ڈیم، ویران پڑے شہر اور اس کثیر تعداد میں غریب نہ ہوتے۔ جو لوگ ایک خیالی تصویر بنا کر اس کے شیدائی بنے بیٹھے ہیں کیا ان حقائق کو سمجھنے کے لئے تیار ہیں؟ اس ملک کہ اندر یہ تمام کمیاں موجود ہیں، مگر ملک کا پیسہ غیر شرافت مندانہ کاموں پر خرچ ہو رہا ہے۔ یہ جنگیں جن کے بارے میں اس صدر کا کہنا ہے کہ کئی ٹریلین ڈالر ہم نے خرچ کئے، کئی ہزار ارب ڈالر حرچ کئے، کیا شرافت مندانہ جنگیں تھیں؟ جنگیں بھی دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک جنگ شرافت مندانہ جنگ ہوتی ہے جس میں انسانی قوانین و ضوابط کا پاس و لحاظ رکھا جاتا ہے۔ کسی دشمن نے ایک شخص پر حملہ کیا ہے اور اب وہ شخص دفاعی جنگ کرنے پر مجبور ہے۔ یہ دفاعی جنگ شرافت مندانہ جنگ ہے۔ لیکن وہ جنگ جو امریکہ نے ان گزشتہ برسوں کے دوران اس علاقے میں لڑی ہے، شرافت مندانہ جنگ نہیں تھی۔ امریکہ نے عام انسانوں کے گھروں کو مسمار کیا، دسیوں ہزار بے گناہوں کا قتل عام کیا، عورتوں کو قتل کیا، بچوں کی جانیں لیں، بمباری کی، تعزیتی جلسے اور شادی کی تقریب پر بم برسائے، کئی ملکوں کی بنیادی تنصیبات کو مسمار کر دیا۔ آپ غور کیجئے کہ انھوں نے لیبیا کے ساتھ، شام کے ساتھ، عراق کے ساتھ، یمن کے ساتھ اور افغانستان کے ساتھ کیا کیا ہے؟! یہ کئی ٹریلین ڈالر کی رقم انھیں کاموں پر خرچ ہوئی ہے۔ یہ باتیں ایسی ہیں جنھیں ہم ہمیشہ بیان کرتے تھے۔ بصیرت کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو بخوبی اندازہ ہونا چاہئے کہ آپ کا واسطہ کس سے ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ آپ کے بارے میں کیا سوچ رکھتا ہے، آپ کو بخوبی معلوم ہونا چاہئے کہ جیسے ہی آپ کی نظر چوکی اور آپ نے غفلت برتی یہ فریق مقابل آپ پر وار کر دے گا۔ اسے کہتے ہیں بصیرت۔ ملک کے سیاسی و غیر سیاسی مفکرین اور دانشوروں سے ہمیں یہی توقع ہے کہ بصیرت سے آراستہ رہیں۔ عوام کے اندر بحمد اللہ یہ بصیرت موجود ہے۔ تعجب کی بات ہے! عام شہری، ملک کے عوام کے اندر یہ سیاسی بصیرت موجود ہے، لیکن ہمارے بعض دانشور اپنے کچھ توہمات کی بنیاد پر اس بصیرت سے محروم ہیں۔
البتہ امریکا میں جو انتخابات ہوئے ان کے بارے میں میری کوئی رائے نہیں ہے۔ امریکا تو امریکا ہے۔ یہ پارٹی ہو یا وہ پارٹی ہو، جو بھی اقتدار میں آئی ہمیں تو کوئی بھلائی نظر نہیں آئی دونوں نے شر انگیزی کی۔ ایک نے پابندیاں لگائیں، ایک نے مسافر طیارے کو مار گرایا، ایک نے آئل جیٹی پر حملہ کیا، ایک نے ہمارے دشمنوں کی مدد کی۔ ہمیں کوئی تشویش نہیں ہے۔ توفیق خداوندی سے ہم ہر طرح کی صورت حال کا سامنا کرنے کے لئے پوری طرح آمادہ ہیں۔ دنیا میں کچھ لوگوں پر سوگ طاری ہے کہ امریکا میں انتخابات کا یہ نتیجہ کیوں سامنے آیا۔ کچھ لوگوں کو بڑی خوشی ہے اور وہ جشن منا رہے ہیں۔ مگر ہمیں نہ تو افسوس ہے اور نہ خوشی ہے۔ ہمارے لئے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔ ہمارا تو سارا ہم و غم یہ ہے کہ کیسے وطن عزیز کو ممکنہ مشکلات سے بچایا جائے۔ عوام کو اسی نکتے پر غور کرنا چاہئے۔ ملک کے لئے ممکنہ طور پر پیش آنے والی تمام طرح کی مشکلات کو عبور کرنے کا راستہ، اس دور میں بھی اور دس سال کے بعد کے دور میں بھی، پچاس سال بعد کے دور میں بھی، ملک کو اندر سے مستحکم بنانا چاہئے۔ آپ غور کیجئے کہ یہ استحکام کیسے حاصل ہو سکتا ہے۔ نظام کا داخلی استحکام بہت بنیادی چیز ہے۔ سیاسی استحکام بھی، اقتصادی استحکام بھی، ثقافتی استحکام بھی اور سب سے بڑھ کر عوام اور بالخصوص ملک کے اعلی حکام کا ذہنی و فکری استحکام کیسے حاصل ہو سکتا ہے۔ اگر یہ استحکام پیدا ہو جائے تو پھر ملک کو کوئی خطرہ نہیں رہے گا۔ ملک تمام خطرات کا سامنا کرنے کے لئے آمادہ ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو چاہئے کہ انقلابی جذبے کے اس مبارک نمو و ارتقاء کے سلسلے کو جاری رکھیں۔ معمولی اور جزوی بحثوں میں پڑنا، ہنگامہ برپا کرنا یہ سب ملک کے اہم مسائل نہیں ہیں۔ ملک کا بنیادی معاملہ ہے انقلابی جذبہ۔ ملک کا بنیادی قضیہ ہے انقلابی سمت میں آگے بڑھنا۔ عملی لحاظ سے اور منصوبہ بندی کے لئے ملک کے سامنے سب سے اہم میدان اقتصادی میدان ہے، جس کے بارے میں میں بارہا کہہ چکا ہوں، علمی پیشرفت کے بارے میں بھی بارہا اپنی بات عرض کر چکا ہوں، قوم کے اتحاد و یکجہتی کے بارے میں بھی بارہا گفتگو کر چکا ہوں۔ یہی ملک کے اصلی مسائل اور امور ہیں۔
بحمد اللہ اصفہان کے عوام ماضی میں بھی اور حال کے ایام میں بھی امتحانوں میں کامیاب اور سرخرو ہوکر باہر نکلے۔ ماضی میں اصفہان کے عوام کو پیش آنے والے سخت امتحانات بڑے تعمیری امتحانات تھے۔ امتحان کا مطلب ہوتا ہے مشق، الہی آزمائش کا مطلب ہے مشق۔ مشق انسان کو اس کی خامیوں اور کمزوریوں سے باخبر کرتی ہے اور وہ اس کمی اور کمزوری کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے، اسے مضبوطی میں بدلنے کی کوشش کرتا ہے۔ ملت ایران کے ساتھ یہی ہوا ہے۔ بحمد اللہ اس میدان میں اصفہان پیش پیش رہا ہے۔ دعا کرتا ہوں کہ ہمیشہ پیش پیش رہے۔ میرے عزیزو! آپ یاد رکھئے اس ملک کا مستقبل، زمانہ حال سے بدرجہا بہتر ہوگا۔ فضل و نصرت خداوندی سے، انقلاب کی برکت سے، آیات الہیہ کی برکت سے، قرآن، اسلام اور ائمہ علیہم السلام کی تعلیمات پر ایمان کی برکت سے یہ ملک ان شاء اللہ تمام مشکلات پر غلبہ حاصل کرے گا اور آگے بڑھے گا۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ ایسا ہی ہو۔ آپ عزیز بھائیوں اور بہنوں کی زیارت کرکے بہت خوش ہوں۔ آپ ہمارا سلام تمام اصفہانی بھائیوں اور بہنوں کو پہنچائیے۔

و السّلام علیکم و رحمة الله

۱) اس ملاقات کے آغاز میں جو نومبر 1982 میں محرم فوجی آپریشن کے 370 شہیدوں کی تشییع جنازہ کی برسی کے موقع پر ہوئی اصفہان کے امام جمعہ اور ولی امر مسلمین کے نمائندے آیت اللہ سید یوسف طباطبائی نے تقریر کی۔
۲) ڈونالڈ ٹرمپ