خطبہ اول
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمہ للہ الذی خلق السموات والارض و جعل الظلمات والنور ثم الذین کفروا بربھم یعدلون ۔نحمدہ و نستعینہ و نستغفرہ و نؤمن بہ و نتوکل علیہ و نصلی و نسلم علی' حبیبہ و نجیبہ و خیرتہ فی خلقہ حافظ سرہ و مبلغ رسالاتہ بشیر رحمتہ و نذیر نقمتہ سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی' آلہ الاطیبین الاطھرین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین و علی' صحبہ المنتجبین۔
عید سعید فطر کی پورے عالم اسلام کے تمام روزہ دار مؤمنوں اور مسلمانوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں؛ خاص طور پر ایران کی مؤمن اور غیور قوم اور آپ نماز گزار بہنوں اور بھائیوں کو۔
عید الفطر درحقیقت عید شکر ہے، ضیافت الہی کا ایک مہینہ کامیابی سے گزارنے کا شکر، روزہ داری کا شکر، عبادت، ذکر، خشوع اور بارگاہ کبریائی سے توسل کی توفیق کا شکر، حقیقت میں اس شکر کے لیے بھی مؤمن انسان کو عید منانی چاہیے۔ میرے پاس جو ٹھوس اور باوثوق معلومات ہیں ان کے مطابق ایران کی عزیز قوم نے اس مہینے (رمضان ) سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ ہماری قوم نے حقیقتا رمضان المبارک کے مہینے سے فائدہ اٹھایا ہے، معاشرے کے تمام طبقے، مختلف رجحانات رکھنے والے لوگ اور وہ لوگ کہ جن کی روزمرہ کی زندگی، ان کے طرزعمل،لباس اور طور طریقوں میں ایک دوسرے کے ساتھ قدرے فرق پایا جاتا ہے، سب آئے۔ خدا کا اس عظیم نعمت پر کہ جو مسلمان قوم کے ایمان اور اس کے دین اور دینی و اسلامی حقائق پر قلبی ایمان کی نعمت ہے، بہت زیادہ شکر ادا کرنا چاہیے۔ یہ ہماری قوم کی ایک اہم نمایاں خصوصیت ہے۔ جو کچھ ذرائع ابلاغ مثلا ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخبارات میں لوگوں کی دینداری کے بارے میں بتایا جاتا ہے، بلاشبہ وہ لوگوں کے خلوص اور خضوع و خشوع کا ایک گوشہ ہے۔ وطن عزيز میں، ان تمام شہروں میں، ان تمام دیہاتوں میں، ہزاروں مساجد، امام بارگاہوں اور مختلف مراکز میں اس مہینے کی شبہائے قدر اور دیگر راتوں میں یہ لوگ، یہ نوجوان، یہ بچے اور بچیاں جمع ہوئے، توسل کے لیے ہاتھ بلند کیے، خدا سے حاجت طلب کی، خدا سے ہم کلام ہوئے اور رازونیاز کیا؛ یہ انتہائی قابل قدر ہے ۔
اس مہینے میں ہمارے لیے بہت سے سبق ہیں؛ اس قسم کے سبق نہیں جو انسان استاد یا کتاب سے سیکھتا ہے، بلکہ اس قسم کے درس جو انسان ایک عملی مشق میں، ایک عظیم اجتماعی کام کے دوران سیکھتا ہے۔ پہلا سبق خدا سے تعلق اور ذات احدیت اور حضرت حق کے ساتھ قلبی رشتہ قائم رکھنے کا سبق ہے۔ اس سبق کی لذت آپ نے چکھی ہے کہ کس طرح آسانی کے ساتھ خدا سے رابطہ قائم کیا جا سکتا ہے (( و ان الراحل الیک قریب المسافۃ و انک لا تحتجب عن خلقک الا ان یحجبھم الاعمال دونک ))خدا کی راہ نزدیک ہے۔ اس کا مشاہدہ آپ نے شب قدر میں کیا؛ توسل، زیارت اور دعا کے موقع پر دیکھا؛ آپ نے رازونیاز کیا؛ اپنا دل خدا کے لیے تحفے میں لے کر گئے اور خدا سے اپنی محبت کو مضبوط کیا اور اسے استحکام بخشا۔ اس یہ سرور اپنے وجود میں برقرار رکھئے۔اس رابطے اور تعلق کو منقطع نہ ہونے دیجیے، یہ ہے پہلا سبق۔
ایک اور سبق مختلف طور طریقوں کے باوجود قوم کا دین اور توحید کے محور پر اکٹھا ہو جانا ہے۔ یہ جو ہم کہتے ہیں قومی اتحاد، یہ جو ہم کہتے ہیں ایرانی قوم میں یکجہتی ہے، یہ اتحاد و یکجہتی بلا سبب نہیں ہے، صرف ایک نصیحت، ایک حکم اور فرمان کی بنا پر نہیں ہے؛ اس اتحاد کی بنیاد مذہب و ایمان ہے، دین اور اعتقاد ہے جو ہم سب کو ایک مرکز کی طرف لے جاتا ہے؛ وہ مرکز باری تعالی کی ذات اقدس ہے۔ یہ ہماری قومی یکجہتی کا باعث ہے؛ دلوں کو ایک دوسرے کے قریب کرتا ہے، عطر آگیں کرتا ہے۔ نماز جماعت میں، نماز جمعہ میں، شبہائے قدر میں عبادت، قرآن سر پر رکھنے، دعا اور گریہ و زاری کرنے میں آپ اایک دوسرے کے ہمراہ ہوتے ہیں خواہ وہ کوئي بھی ہو، کسی بھی طرزفکر اور معاشرے کے طبقے سے تعلق رکھتا ہو، کیسے ہی حلیے کا ہو، آپ کا بھائی ہے؛ آپ کے ہمراہ ہے، پروردگار عالم کی بارگاہ میں آپ کا ہمراز ہے۔ اس قلبی رابطے کو قائم رکھیے؛ یہ بھی ایک درس ہے۔
ایک اور درس خود پر جبر اور سختی کرنا اور دوسروں پر خرچ کرنا ہے۔ یہ بھوک اور پیاس برداشت کرنا، اذان صبح سے لے کر اذان مغرب تک روزہ رکھنا، یہ خود پر جبر اور سختی کرنا ہے۔ہمارے بہت سے لوگوں نے روزہ رکھ کر خود پر جبر اور سختی کی ہے اور دوسروں پر انواع و اقسام کا انفاق کیا ہے۔انسان کتنی لذت محسوس کرتا ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ نیمہ ماہ رمضان کو امام حسن مجتبی (علیہ الصلواۃ والسلام) کی شب ولادت میں ایک تنور کے سامنے بورڈ لگا ہوتا ہے کہ آج رات امام حسن کے عشق میں اس تنور پر روٹی صلواتی(مفت)ہے؛جو چاہتا ہے روٹی لے جائے۔ اس قسم کے انفاق، اپنا نام ظاہر کیے بغیر افطار کا انتظام اور مساجد میں افطار کا بند و بست، یہ عمل ہمارے عوام نے انجام دیا ہے۔یہ ایک اور سبق ہے۔ایک اور مشق ہے۔اپنے اوپر سختی اور جبر کریں اور دوسروں پر انفاق کریں۔ میں اس نکتے پر تھوڑی روشنی ڈالوں گا؛ کیونکہ یہ ہمارے ملک اور معاشرے کا ایک اہم مسئلہ ہے۔
ہم اسراف(فضول خرچی) کرنے والے لوگ ہیں؛ ہم اسراف کرتے ہیں؛ پانی میں اسراف، روٹی میں اسراف، مختلف وسائل اور خشک میوے میں اسراف، پٹرول میں اسراف، تیل پیدا کرنے والا ایک ملک پٹرولیم مصنوعات یعنی پٹرول درآمد کرتا ہے! یہ باعث تعجب نہیں ہے؟ ہرسال اربوں خرچ کرکے پٹرول درآمد کریں یا دوسری چیزیں درآمد کریں اس لیے کہ ہمارے ملک اور قوم کے کچھ لوگ فضول خرچی کرنا چاہتے ہیں! کیا یہ درست ہے؟ اسے قومی سطح پر عیب و نقص کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ اسراف بری چیز ہے؛ حتی راہ خدا میں انفاق کے بھی اصول و ضوابط ہیں۔خداوند متعال قرآن میں اپنے پیغمبر سے فرماتا ہے (لا تجعل یدک مغلولۃ الی عنقک ولا تبسطھا کل البسط)خدا کے لیے انفاق میں بھی اسی طرح عمل کرو۔افراط و تفریط نہ کرو۔میانہ روی؛ خرچ کرنے میں میانہ روی لازمی ہے ہمیں قومی سطح پر میانہ روی کو ایک کلچر میں تبدیل کر دینا چاہیے۔قرآن فرماتا ہے(والذین اذا انفقوا) اور وہ لوگ کہ جو، جب انفاق کرتے ہیں،(لم یسرفوا ولم یقتروا)نہ اسراف یعنی زیادہ روی کرتے ہیں، نہ کنجوسی کرتے ہیں۔ خود کو مصیبتوں سے دوچار کر لینا مناسب نہیں اسلام یہ نہیں کہتا۔اسلام یہ نہیں کہتا کہ لوگ ضرور ریاضت اور زہد کے ساتھ اس طرح کی زندگي گزاریں؛ نہیں، معمولی زندگی گزاریں، متوسط زندگی گزاریں۔یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ بعض ممالک اور دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانے والے لوگ مسلسل کئی برسوں سے ہماری قوم کو دھمکیاں دے رہے ہیں کہ بائيکاٹ کر دیں گے، بائيکاٹ کر دیں گے، بائيکاٹ کر دیں گے۔ کئی بار بائیکاٹ کر چکے ہیں۔ یہ اس لیے ہے کہ ان کے لیے امید کی کرن ہماری یہی بری عادت ہے۔ ہمارا شمار اسراف اور فضول خرچی کرنے والے لوگوں میں ہو تو ممکن ہے کہ یہ بائیکاٹ، اسراف اور فضول خرچی کرنے والے کے لیے بھاری اور سخت ہو؛ لیکن اس قوم کے لیے نہیں جو اپنا حساب کتاب رکھتی ہو، جو اپنی آمدنی اور خرچ کا حساب رکھتی ہو،جو اپنے فائدہ و نقصان کا حساب رکھتی ہو،جو زیادہ روی اور افراط نہیں کرتی، اسراف نہیں کرتی۔ اچھا، بائیکاٹ کر دیں۔ان خصوصیات کی حامل قوم کو بائیکاٹ سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ماہ رمضان سے اس نکتے کو سیکھیں اور انشاءاللہ اس پر عمل کریں۔
والسلام علیکم و وحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
والعصر ۔ ان الاانسان لفی خسر ۔ الا الذین آمنوا و عملوا الصالحات وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر
خطبہ دوم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین والصلواۃ والسلام علی سیدنا و نبینا ابی القاسم محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین سیما علی امیرالمؤمنین والصدیقۃ الطاہرۃ والحسن والحسین سیدی شباب اھل الجنۃ و علی بن الحسین زین العابدین و محمد بن علی باقر علم النبیین و جعفر بن محمد الصادق موسی بن جعفر الکاظم وعلی بن موسی الرضا و محمد بن علی الجواد و علی بن محمد الھادی والحسن بن علی الزکی العسکری والخلف القائم المھدی حججک علی عبادک و امنائک فی بلادک و صل علی ائمۃ المسلمین حماۃ لمستضعفین ھداۃ المؤمنین ۔اوصیکم عباداللہ بتقوی اللہ۔
دوسرے خطبے میں سب سے پہلے یوم القدس کے جلوسوں میں شرکت پر ایرانی قوم کا شکریہ ادا کرناچاہوں گا۔ دل سے یہی آواز نکلتی ہے: سلام ہو ایرانی قوم پر! آپ نے دنیا کو اپنی عظمت، اپنا اسلامی تشخص پر رقار انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا۔ان جلوسوں کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔استعماری طاقتوں نے جب فلسطین پر قبضہ کیا تو ان کا مقصد یہ تھا کہ فلسطین کے نام و نشان کو مٹا دیں اس مسئلے کو طاق نسیان کی زینت بنا دیں؛ دنیا کے لوگ اور بعد کی نسلیں بھول جائیں کہ کبھی دنیا میں فلسطین نام کی کوئی سرزمین اور ملک بھی تھا؛ ان کا مقصد یہ تھا، لیکن وہ ایسا نہ کر سکے اور فلسطینی قوم کی عظیم تحریک نے، چاہے وہ انتفاضہ اول ہو یا انتفاضہ مسجد الاقصی، ایک بار پھر دنیا میں مسئلے کو زندہ کر دیا۔ قوموں، عوام اور دنیا کے انصاف پسندوں حلقوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا، انہوں نے اس کا علاج یہ ڈھونڈا کہ وہ اس سرزمین میں واقع عرب فلسطین کو ایک زندان بنا دیں؛ محصور کر دیں۔شاد و آباد اور نعمتوں سے مالامال ملک فلسطین اور اس اسٹراٹیجک اہمیت کے حامل خطے کو مکمل طور پر صیہونیوں کے حوالے کر دیں۔ اس کو صیہونی علاقہ بنا دیں۔ عربوں کو غزہ اور مغربی ساحل کی طرف دھکیل دیں۔
آج بھی آپ صیہونیوں کے طرز عمل کو دیکھیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ ان کا مقصد یہ ہے کہ جس قدر ہو سکے فلسطینی عوام میں استقامت و پائیداری کے جذبات کو ختم کر دیں؛ ان کے تمام کام اسی سیاست کے تحت انجام پا رہے ہیں کہ استقامت کا جذبہ ختم کر دیا جائے۔ لیکن فلسطینی عوام ڈٹے ہوئے ہیں۔اول تو یہ کہ انہوں نے جدوجہد ترک نہیں کی، دوسری بات یہ کہ انہوں نے اپنے ووٹوں سے ایک حکومت منتخب کی ہے کہ جس کا نعرہ قابضوں کے خلاف جدوجہد اور استقامت و پائیداری ہے۔ تمام تر دباؤ کے باوجود جو گذ شتہ ایک دو برسوں کے دوران حماس حکومت اور اس علاقے کے عوام پر ڈالا گيا ہے، یہ لوگ مضبوطی سے ڈٹے ہوئے ہیں؛ مزاحمت کر رہے ہیں لیکن ایک گوشے میں الگ تھلگ محصور قوم کے پاس جس کا دنیا بھر سے رابطہ ٹوٹ گیا ہے، خدا سے امید کے علاوہ کوئی اور روشنی کی کرن ہونی چاہیے۔ فلسطینیوں کے حق میں مسلمان قوموں کا یہ عظیم نعرہ انہیں جذبہ عطا کرتا ہے؛ ان کے دلوں کو استقامت و پائیداری کے لیے مزید آمادہ کرتا ہے،اس کے علاوہ عالمی رائے عامہ کو فلسطینی کاز کی حقانیت سے آشنا کرتا ہے۔
ایرانی قوم نے ان ( یوم قدس کے) جلوسوں سے اسلامی جمہوریہ کو عزت و آبرو بخشی ہے؛ ایران اور ہر ایرانی کو سربلند کر دیا ہے۔ یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ بدستور فلسطین اور فلسطینی قوم کے ساتھ ہیں۔ اسلامی امہ کے دفاع کے لئے صف اول میں موجود ہیں۔یہ انتہائی قابل قدر ہے ۔
فلسطین کےمسائل کے سلسلے میں آج یہ سازش ہو رہی ہے کہ ایک بار پھر امن کے نام پر فلسطینی عوام پر کچھ اور مسلط کر دیا جائے۔اب تک امن کے نام پر جو اجلاس منعقد ہوئے ہیں، ان کا نتیجہ فلسطینی عوام کے خلاف اور ان کے نقصان میں رہا ہے۔ پھر امریکیوں نے ایک اور کانفرنس کی تجویز پیش کی، جسے فلسطینی قوم ٹھکرا چکی ہے۔ اس کانفرنس کو جس کا نام انہوں نے خزاں کانفرنس رکھا، فلسطینیوں نے مسترد کر دیا۔ جب فلسطینی اپنے تعلق سے کوئی کام، کوئی اقدام کرتے ہیں تو دوسری حکومتیں اس کو مسترد کر دیتی ہیں، پھر کس طرح فلسطینی اس کانفرنس کو قبول کر سکتے ہیں۔ جب وہ ( فلسطینی ) اس کانفرنس کو نیرنگ و فریب سمجھتے ہیں تو دوسرے بھی فریب سمجھیں۔ یہ اقدامات درحقیقت صیہونیوں کو نجات دلانے کے لیے ریاستہائے متحدہ امریکہ کی حکومت کے اقدامات ہیں۔ وہ صیہونی کہ جن کی حکومت اور فوج نے گذشتہ سال لبنان کی بہادر اور فداکار تنظیم حزب اللہ سے شکست کا تلخ مزہ چکھا اور اسی طرح فلسطین کی حکومت _ حماس کی حکومت _ کی انکار کی بلند دیوار کا انہیں سامنا ہوا ہے۔ وہ اس ذلت و رسوائی داغ اپنی پیشانی سے صاف کرنا چاہتے ہیں۔اس وقت وہ فلسطینی کے مقابلے میں فلسطینی کو کھڑا کررہے ہیں۔ میں اگر فلسطینی بھائیوں کو پیغام دینا چاہوں تو ایک جملہ کہوں گا :بھائیو! ایک دوسرے کے مقابل نہ آؤ۔ دشمن آپ کے گھر میں ہے۔ دشمن آپ کے درمیان فتنہ انگيزی کر رہا ہے۔ فلسطینی عوام کو فلسطین بچانا ہوگا، اسلامی امہ کو بھی ان کی حمایت کرنا ہوگي۔ فلسطینی عوام، فلسطینی قوم کومتحد ہونا چاہیے۔
مسئلہ فلسطین ایک مسئلہ ہے۔ مسئلہ عراق عالم اسلام کا ایک اور مسئلہ ہے۔ ہمارا دل عراق کے لیے خون کے آنسو روتا ہے۔ عراقی قوم کے دشمنوں کی طرف سے تائید و حمایت یافتہ اس اندھی دہشت گردی نے عراقی قوم کی حالت تباہ کر کے رکھ دی ہے۔یہاں بھی پہلی غلطی غاصبوں کی ہے۔ وہ خود امن و امان قائم نہیں کرتے؛ یا نہیں کر سکتے، یا کرنا نہیں چاہتے۔ عراقی عوامی حکومت کو بھی یہ موقع نہیں دیتے کہ سکیورٹی کے انتظامات اپنے ہاتھ میں لے لے اور وہ خود کام کرے۔ وہ (غاصب) قصوروار ہیں۔آج عراق میں جو بھی المیہ رونما ہوتا ہے _ انسانی المیہ،سماجی المیہ،سیاسی المیہ _ اس کے پہلے قصوروار اور ذمہ دار غاصبین ہیں؛ یعنی پہلے درجے میں امریکہ اور اس کے بعد اس کے وہ اتحادی ذمہ دار ہیں جو عراق پر فوجی قبضے میں شریک ہیں۔
پروردگارا ! اسلامی امہ کو دشمنوں کے شر سے نجات دے۔ پروردگارا ! اسلامی قوموں اور حکومتوں کو بیدار کر، انہیں طاقت و توانائي عطا فرما۔پروردگارا ! ہمیں اس چیز کی ہدایت و رہنمائی فرما جس میں تیری رضا ہے؛ ہمیں اسے انجام دینے کی توفیق عطا فرما۔ پروردگارا! شہدائے اسلام، اسلامی جمہوریہ اور مسلط کردہ جنگ کے شہدا اور امام خمینی(رہ) کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور فرما۔ پروردگارا ! ہمارے حق میں حضرت بقیۃ اللہ(ارواحنا فداہ)کی دعا مستجاب فرما اور اس عید کے دن ہمارا سلام اس بزرگوار ( امام زمانہ ع ) کی خدمت میں پہنچا-
والسلام علیکم و وحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انا اعطیناک الکوثر۔فصل لربک وانحر۔ان شانئک ھو الابتر