بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں آپ حضرات اور آپ کے اہل خانہ، سب کا خیر مقدم کرتاہوں۔ میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے جنگي معذور حضرات ، ان کے والدین اور ان کے بیوی بچوں سے ملاقات کا موقع فراہم کیا۔ یہ میرے لئے بہت بڑی توفیق ہے ۔
ہمارا ایک مقصد یہ ہے کہ اسلامی جمہوری نظام میں جنگی معذور حضرات کو ایک مستقل شناخت کے ساتھ باقی رکھا جائے۔ یہ معذور حضرات حقیقت میں ایسے زندہ شہید ہیں جن کو خداوند عالم نے یہ موقع دیا ہے کہ وہ اپنی زندگی کا ایک حصہ جہاد اور سخت آزمائش میں بسر کریں۔ جنگ میں اپنے جسمانی اعضا کا نذرانہ پیش کر دینے والے ہمارے یہ عزیز، ہمارے شہید بھائیوں کی طرح ہیں۔ ایک علاقے میں کسی محاذ پر ایک واقعہ رونما ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک بم دھماکہ ہوتا ہے یا دشمن کی طرف سے گولوں اور بموں سے حملہ ہوتا ہے۔ اس واقعہ میں ایک شخص شہید ہوتا ہے اور ایک زخمی ہوجاتا ہے۔ ان دونوں افراد کےلئے ایک ہی حکم ہے۔ دونوں ہی ایک مقصد اور ایک نیت سے راہ خدا میں جہاد کرنے گئے۔ دونوں نے ہی زندگي کو خطرے میں ڈالا ، دونوں کی آزمائش بھی ایک ہی تھی ۔اب ایک شہید ہوگیا اور اس کی جد وجہد کا سلسلہ ختم ہوگیا البتہ اس کے اجر وثواب کا سلسلہ ختم نہیں ہوا ہے بلکہ اس کی کوشش ، اور جد وجہد کا باب بند ہوا ہے۔ جبکہ دوسرا زندہ رہتا ہے اور اس کی جد وجہد اور کوششوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوا ہے ۔
اگر کوئی جنگی معذور اپنی زندگي میں الہی قوانین کی پابندی کرتے ہوئے پرہیزگاری پر باقی رہے تو خدا کے نزدیک اس کا اجر بہت زیادہ ہے جسے خدا نے اجر عظیم سے تعبیر کیا ہے۔ واضح ہے کہ جسے خدا خود اجر عظیم سے تعبیر کرے وہ کتنا عظیم اجر ہوگا۔ معذوری کے بعد ہر طرح کی مشکل آپ کے لئے ایک نیکی شمار کی جائے گي۔ زندگي میں ہر طرح کا رنج وغم اور مشکلات کاایک اجر ہے۔ بعض اوقات مشکلات کے وقت ہم جو صبر کا دامن چھوڑدیتے ہیں وہ اس لئے ہے کہ ہم کو یہ نہیں معلوم کہ ان مشکلات کو برداشت کرنے میں ہمیں آخرت میں کیا ملے گا۔ ان مشکلات میں سے ہر ایک کا کوئي نہ کوئي اجر ہے ۔
روایت میں ملتا ہے کہ قیامت کے دن جب تمام مخلوقات کے سامنے دنیا میں مشکلات برداشت کرنے والوں کو اس کا اجر دیا جائے گا تو لوگ رشک کریں گے کہ خداوند عالم نے مشکلات برداشت کرنے والوں کے لئے کیسا اجر رکھا ہے۔ اس اجر کو دیکھ کر دوسرے افراد ہی نہیں بلکہ خود اجر پانے والے یہ لوگ بھی آرزو کریں گے کہ کاش دنیا میں وہ اپنے جسم کو مشکلات پر قربان کر دیا ہوتا اور اس کا بدلا ان کو یہاں پر ملتا۔ یہ بات ہم سے اور آپ سے اس لئے کہی گئي ہے کہ ہم اور آپ اس بات کو درک کریں کہ دنیا کی ہر مشکل کا اجر خدا کے پاس ہے۔ لہذا اپنی اس حالت اور کیفیت کی اہمیت کو سمجھیں اور اس کے لئے خدا کا شکر ادا کریں ۔ البتہ آپ کی خدمت کے تعلق سے دوسروں پر جو ذمہ داریاں ہیں وہ اپنی جگہ ہیں اور ان کا ثواب بھی اپنی جگہ محفوظ ہے ۔
دوسرا نکتہ جنگی معذوروں کی شریک حیات سے متعلق ہے۔ میں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے رضاکارانہ طور پر جنگي معذور کی زندگي میں خود کو شامل کیا ہے اور مشکلات مول لی ہیں۔ اس کام کا ان کو خدا کی بارگاہ میں عظیم اجر ملے گا۔ جنگی معذوروں کی بیویوں کا اجر بہت زیادہ ہے اور حقیقت میں ہمیں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ البتہ ان کو بھی جاننا چاہئے کہ یہ معذور ان کے ہاتھوں میں خدا کی ایک نعمت ہے جوان کے لئے رضایت خدا اور اجر الہی کا ایک وسیلہ ہے ۔ رضائے الہی کوشش اور زحمت سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ دنیا کی ہر اچھائی کے حصول کا اصول یہی ہے۔ کوئی بھی شخص بنا کسی زحمت اور مشکل کے کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتا۔ انسان معنوی یا پھر مادی لحاظ سے جو کچھ بھی حاصل کرتا ہے وہ زحمتیں برداشت کرکے ہی حاصل کرتا ہے۔ علم، مال و ثروت یا نیک نامی و غیرہ سب کچھ مشکلات برداشت کرکے ہی حاصل ہوتا ہے۔ آرام اور آسائش سے کچھ بھی نہیں ملتا۔ قومیں کامیابی یا عزت کو مصائب برداشت کرکے ہی حاصل کرتی ہیں۔ آخرت کے حصول کا بھی یہی قانون ہے۔ خدا کی رضامندی ، ثواب آخرت اور بہشت سب کچھ زحمتوں سے ہی ملتا ہے بغیر دشواریوں کے نہیں۔ انسان کو کوشش اور جد و جہد کرنی چاہئے۔ ان کوششوں اور زحمتوں میں سے ایک یہی ہے جو جنگي معذوروں کی شریک حیات برداشت کررہی ہیں۔
تیسرا نکتہ جنگي معذوروں کی اولاد کے بارے میں ہے۔ میں جنگ میں معذور ہوجانے والے افراد کے بچوں سے جو یہاں پر موجود ہیں ، پورے ملک کے جنگی معذوروں کے بچوں اور ان کے والدین یعنی خود معذوروں اور ان کی بیویوں سے یہ کہتا ہوں کہ آپ لوگوں کو اس بات پر فخر کرنا چاہئے کہ ہم ان کی اولاد ہیں جنہوں نے الہی اور اسلامی مقاصد کے حصول کے لئے اپنی زندگي کو داؤ پر لگادیا ۔
ایک وقت ایسا تھا کہ جب یہ ملک ، مشکلات اور شدید ترین حملوں کی زد میں تھا۔ ایسے میں کچھ لوگ تو بھاگ گئے، میدان جنگ جانا تو دور کی بات ہے بہت سے لوگ سختیوں کو دیکھ کر بھاگ کھڑے ہوئے لیکن کچھ لوگ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر آگے بڑھے ، انہوں نے دشمنوں کو روکا۔ ملک، قوم اور ناموس عزت و حرمت کی پاسبانی کی۔ ان میں سے کچھ شہید ہوگئے جبکہ کچھ زخمی ہونے کےبعد معذور ہوگئے۔ آپ کے والد بھی ان لوگوں میں سے ایک ہیں جن کو یہ عظیم شرف حاصل ہوا ہے۔ جنگ میں معذور ہونے والے لوگوں کی اولاد کو اسی نقطہ نظر سے دیکھنا چاہئے کیوں کہ یہی نقطہ نظر درست ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں مفروروں کے بارے میں فرمایا ہے کہ جب کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ ڈر کے مارے چوہوں کی طرح بلوں میں گھس جاتے ہیں لیکن جب مصیبت ختم ہوجاتی ہے تو پھر وہ شیر بن جاتے ہیں اور سینہ سپر ہوکر اپنا حق مانگتے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے جنگي معذوروں، شہیدوں کے اہل خانہ، مجاہدین اور معاشرہ کے بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے مشکلات اور سختیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اس کا مظہر یہی جنگی معذور ہیں جو اس وقت زندہ ہیں یہ ملت ایران کے عظیم جہاد کا ثبوت ہے۔ مجھ کو امید ہے کہ خداوند عالم آپ کو کامیاب اورکامران کرے اور ہمیں بھی یہ توفیق دے کہ آپ کے بارے میں ہماری جو ذمہ داریاں ہیں ان کو پورا کرسکیں ۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ