بسم اللہ الرحمن الرحیم
دوستو اور بھائیو! خوش آمدید!
بنیادی نکتہ اور اہم ترین بات یہ ہے کہ گورنر ہر صوبے میں اپنے مقام کو صحیح طرح سے پہچانے اور حقیقی معنی میں اس مقام کی ذمہ داریوں کو اپنے کندھوں پر محسوس کرے۔ میرے خیال میں کسی بھی صوبے میں گورنر اس صوبے کے سربراہ کا کردار ادا کرتا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ گورنر کہے کہ فلاں شعبے نے اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کیا اس وجہ سے یہ کام پیچھے رہ گیا۔ جی نہیں! گورنر کو اپنی کوششوں سے اور مرکز و حکومت سے رابطے کے ذریعے ایسا کام کرنا چاہیے کہ اس صوبے میں مختلف شعبے اپنا اپنا کام انجام دے سکیں۔ گورنر کے لیے ضروری ہے کہ وہ امور پر نظر رکھے تاکہ تمام کام مکمل ہو سکیں۔ --- تو پہلی بات یہ ہے کہ گورنر کو اپنے مقام اور اس ذمہ داری کا پوری طرح سے ادراک ہونا چاہیے جسے اس نے قبول کیا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس بات پر توجہ رکھیے کہ اس وقت ہمارا ملک کام کے لیے تیار ہے۔ بحمداللہ آج ہمارا ملک پوری توانائی اور ہمہ گیر آمادگی کے ساتھ اور روز افزوں امید کے ساتھ لوگوں کے دلوں میں بسا ہوا ہے۔ آج خوش قسمتی سے لوگ امید، مثبت نقطہ نگاہ اور ملک و حکومت کی مرکزیت سے وابستگی کے ایک احساس کے ساتھ آپ یعنی حکومت کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں کیونکہ جب ہم ذمہ داریوں کے لحاظ سے حکومت کا تجزیہ کریں اور نچلی سطح پر آئیں تو ابتدائی مراحل میں وہ گورنروں تک پہنچتی ہے۔ لوگ آمادہ ہیں اور راہ مکمل طور پر ہموار ہے۔ حکومت کی موجودہ صورتحال، صدر مملکت کی ذاتی خصوصیات اور لوگوں کے ساتھ رفتار و گفتار کے سلسلے میں حکومت کے رویے نے بہت بہتر انداز میں راہ ہموار کردی ہے اور لوگوں میں حقیقی معنی میں امید پیدا ہو گئي ہے۔ اگر آپ لوگوں کی جانب سے رابطہ کیے جانے کی جگہوں پر جائیں تو مجھے اطلاع ہے کہ اس وقت لوگوں کی شکایتیں کم ہو گئي ہیں، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مسائل ختم ہوگئے ہیں، نہیں، اگر مسائل کم بھی ہو گئے ہوں تو اتنے کم نہیں ہوئے ہیں کہ لوگوں کی شکایتیں ختم ہو جائيں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں میں امید پیدا ہو گئي ہے۔ امید اپنا کردار ادا کرتی ہے، لوگ محسوس کرتے ہیں کہ کاموں میں پیشرفت ہو رہی ہے۔
عزیز بھائیو! جب سے انقلاب کامیاب ہوا اور یہ نظام بر سر اقتدار آیا، ہمیں اپنے ملک میں ایک متوقع چیلنج کا سامنا کرنا پڑا جو اب بھی ہمارے سامنے ہے اور مدتوں تک ہمارے سامنے رہے گا۔ اگر کوئي یہ سوچتا ہے کہ ہم ان معیاروں اور مقررہ حدود کے مطابق اسلامی جمہوری نظام کے مالک ہوں گے اور دنیا پر مسلط طاقتیں، جو ان معیارات کی ضد ہیں، اپنی جگہ پر بیٹھی رہیں گي اور نہ صرف یہ کہ ہمارے خلاف جارحیت نہیں کریں گی بلکہ ہماری مدد بھی کریں گی تو یہ ایک بیجا توقع ہے۔ اس کی قطعی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ ہم بین الاقوامی انصاف، معنویت کی جانب رجحان، بنی نوع انسان کی تعظیم اور دین خدا، معنویت اور اخلاقیات کی جانب رجحان کے معیار کے ساتھ بر سر اقتدار آئے ہیں، ہم عالمی سطح پر تسلط پسند طاقتوں کی توسیع پسندی اور اقتدار پرستی کے آگے نہ جھکنے کے معیار کے ساتھ آئے ہیں۔ یہ سب اسلامی جمہوریہ کے معیارات ہیں۔ واضح ہے کہ جب آپ کی بنیاد ہی زور زبردستی کے خلاف استقامت ہو تو دنیا کے جارحین آپ سے صلح نہیں کریں گے بلکہ مقابلہ آرائي پرتلے رہیں گے۔ یہ مقابلہ آرائی انقلاب کے آغاز سے ہی تھی، اب تک ہے اور مستقبل میں بھی تب تک باقی رہے گی جب تک وہ مایوس نہیں ہو جاتے۔ آپ اپنے آپ کو اور ملک کو ایسے مقام تک پہنچا دیجیے کہ وہ مایوس ہو جائيں۔ اس وقت بھی یہ مقابلہ آرائي ہوگي لیکن بہت کم اثرات کے ساتھ۔ بنابریں ہمیشہ اپنے آپ کو چیلنجوں اور توسیع پسندوں سے مقابلے کے میدان میں سمجھئے اور اس نظریے کے ساتھ اپنے مسائل کا جائزہ لیجئے۔
جن لوگوں کے ساتھ اسلامی نظام کی مقابلہ آرائی ہے وہ اپنا مفاد کس چیز میں سمجھتے ہیں؟ ایران میں اسلامی جمہوری نظام کے قائم رہنے سے امریکہ اپنا مفاد کس میں دیکھتا ہے؟ وہ اپنا مفاد لوگوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے اور آج عوام کے درمیان جو اتحاد و یکجہتی آپ دیکھ رہے ہیں اسے ختم کرنے اور ملک کی علمی و سائنسی تحریک کو روک دینے میں سمجھتا ہے کیونکہ علم اور علمی برتری؛ کسی بھی ملک کے اقتصادی، سیاسی، فوجی شعبوں اور اقتدار میں پیشرفت کا راز ہوتی ہے۔ ہم نے یہ کام برسوں پہلے شروع کر دیا ہے اور بہت بہتر انداز میں پیشرفت کر رہے ہیں، ہماری تحریک کئی گنا تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے، اگرچہ ان کا دل تو یہی چاہتا ہے کہ یہ تحریک ختم ہوجائے کیونکہ ان کا مفاد ،لوگوں کی خدمت کرنے کی جو لہر اٹھی ہے، اسے رکوانے میں ہے۔ لوگوں کی خدمت کا نعرہ جو کئی سال قبل ملک میں پیش کیا گيا تھا آج ایک شعار بن گيا ہے۔ موجودہ حکومت بھی اسی شعار کی بنیاد پر اقتدار میں آئي ہے اور اس نے اسی گفتگو کے تحت اقتدار سنبھالا ہے۔ یہ لوگ ( سامراجی طاقتیں ) چاہتے ہیں کہ لوگوں کی خدمت کا عمل رک جائے۔ ان کا مفاد بدامنی پیدا کرنے میں ہے اور بدامنی پیدا کرنے کے محرکات بہت زیادہ ہیں۔ آپ کے پاس بھی رپورٹیں ہیں اور ہمارے پاس بھی بہت زیادہ رپورٹیں ہیں کہ مختلف طریقوں سے بدامنی پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کا مفاد حکومت کو سیاسی گروہ بندی اور لفاظیوں میں الجھانے میں ہے، ان کا مفاد لوگوں کو مایوس کرنے اور ان نعروں اور اس راہ کی سچائي پر ان کے ایمان کو سلب کرنے میں ہے، لوگوں کو پژمردہ کرنے میں ہے۔ یہ سب ایسے کام ہیں جو فطری طور پر واضح ہیں۔ اگر ہمارے پاس ایک بھی رپورٹ نہ ہو تب بھی ہم جانتے ہیں کہ امریکہ، صیہونی طاقتوں اور ہمارے خلاف محاذ بنانے والوں کی مصلحت ان کاموں میں ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس ایسی رپورٹیں بھی ہیں جن سے ان باتوں کی تصدیق ہوتی ہے اور پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگ حقیقت میں اس طرح کے کام کرنا چاہتے ہیں۔
آپ لوگ اپنے صوبے کے سربراہ ہیں۔ ان مسائل کے سلسلے میں آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ یہی کام کا معیار ہے۔ اپنی ترجیحات اور روش کو انہیں چیزوں کے مد نظر منتخب کیجیے۔ یہ باتیں جو آپ لوگوں نے کہیں، بہت اچھی تھیں۔ وہ باتیں بھی جو محترم گورنروں نے بیان کیں اور وہ باتیں بھی جو وزیر محترم نے کہیں۔اب آپ لوگ کیا کریں گے؟ اسے عملی طور پر ظاہر کیجیے اور جو بھی کام کرنا ہو اسے معین کیجیے۔ کام کے پیچھے پڑ جائیے اور اسے بالکل ترک نہ کیجیے۔ کام کو معمولی نہ سمجھیے اور نہ اس سے اکتائیے۔ وقت بہت تیزی سے گزر جاتا ہے۔ یہی دیکھیے کہ آپ لوگوں کو اپنا عہدہ سنبھالے ہوئے چھے مہینے کا عرصہ گزر گيا۔ آپ کے کام کی مدت چار سال ہے۔ یعنی آپ کے کام کی مدت کا آٹھواں حصہ گزر چکا ہے اور صرف سات حصے بچے ہوئے ہیں اور وہ بھی بہت تیزی سے گزر جائیں گے۔ اس مدت میں، جو زیادہ نہیں ہے، بہت زیادہ کام کرنے کی کوشش کیجیے کہ اگر اگلے دورے میں خود آپ ہی گورنر رہے تو آپ اپنے ہی کام کو آسان بنائیں گے اور اگر کوئی دوسرا آپ کی جگہ پر آئے گا تو وہ آپ کے کاموں کو دیکھ کر اگر، اس نے زبان سے آپ کی تعریف نہ کی توکم از کم اپنے دل میں ضرور کہے گا کہ یہاں کتنا اچھا گورنر تھا اور اس نے کتنے اچھے کام کیے ہیں نتیجتا آج ہم ان کاموں کو جاری رکھ سکتے ہیں۔ ہمیں اس طرح سے آگے بڑھنا چاہیے۔
مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کو امن عامہ کے مسئلے کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ لوگوں کی خدمت تو اہم ہے ہی اور لوگوں کی رضامندی کو بھی بہت زیادہ سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ جناب صدر اور ان کی کابینہ کے صوبوں کے دورے بہت اچھے کاموں میں شامل ہیں۔ لوگوں کے درمیان جانا اور براہ راست ان کی بات سننا، اس شخص کو ترغیب دلانے میں بہت مؤثر ہے جسے کام کرنا ہے۔ البتہ اس کام کے ساتھ ہی دو باتوں کو ضرور انجام دیجیے۔ ایک تو یہ کہ کسی غیر سنجیدہ بات کے ذریعے اس امید کو لوگوں کے درمیان مت جگائیے جو ناممکن ہو یا جس کے عنقریب انجام پانے کا امکان نہ ہو تاکہ لوگوں کوقول اور فعل کی یکسانیت ناممکن نہ لگے۔ دوسرے یہ کہ لوگوں کی خدمت، کہ جو نقد کام اور سکوں بخش دوا کی مانند ہے، آپ کو بنیادی اور ضروری کاموں سے نہ روک دے۔ ہمیں دونوں کاموں کی ضرورت ہے۔ ایسا نہ ہو کہ صرف بنیادی کاموں میں ہی مشغول ہو جائیں اور لوگوں کی روز مرہ کی ضروریات کی طرف سے غافل ہو جائیں کہ جو بہت ہی خطرناک چیز ہے اور نہ ہی اس کے برخلاف ہونا چاہیے کہ ہم لوگوں کے فوری، ضروری اور امدادی کاموں میں مصروف ہو جائیں اور ان چیزوں کی طرف سے غافل رہیں جنہیں ہماری طویل مدت توجہ کی ضرورت ہے۔ ان دونوں باتوں پر ضرور توجہ دی جانی چاہیے۔
آپ کا رویہ عوام پسندانہ، منصفانہ اور منکسرانہ ہونا چاہیے۔ لوگوں سے گرمجوشی سے ملیے، ان کے ساتھ انکساری سے کام لیجیے، جہاں ضرورت پڑے لوگوں کے گھروں میں بھی جائیے۔ گورنری کا عہدہ آپ پر چھا نہ جائے، آپ پر غلبہ نہ کر لے۔ یہ بہت ہی زیادہ اہم ہے۔ لوگوں کو پتہ چلنا چاہیے کہ کوئي انہیں میں سے ہے؛ ایسی صورت میں گورنر کی شان و منزلت زیادہ باقی رہے گی۔ کبھی یہ مت سوچیے گا کہ اگر کوئی لوگوں سے الگ رہے گا تو اس کی زیادہ شان ہوگی؛ نہیں، شان و منزلت حکام کے لیے اچھی ہے یہ شان و منزلت لوگوں کو محسوس ہونی چاہیے اور یہ شان و منزلت آپ کے معنوی رویے سے حاصل ہوگی۔ جب آپ صحیح ہوں گے، اپنے ذاتی مفادات کی فکر میں نہیں رہیں گے، اپنے آرام کو لوگوں کے آرام پر قربان کر دیں گے، خدا کے لیے کام کریں گے اور خلوص کے ساتھ کام کریں گے تو خداوند متعال لوگوں کے دلوں میں آپ کی محبت اور ہیبت دونوں پیدا کر دے گا۔ میں نے ایسے افراد کو بھی دیکھا ہے جنہوں نے اپنے آپ کو لوگوں سے الگ کر لیا، یہ سوچ کر کہ یہ کام ان کے لیے ایک شان ہے ایک الگ پہچان ہے لیکن لوگ ایسے لوگوں کو ذرہ برابر بھی اہمیت نہیں دیتے تھے یعنی لوگوں کی نظروں میں ان کی کوئي عزت نہیں تھی، تو لوگوں کے ساتھ رہیے۔
مخلص اور ماہر افرادی قوت کی جانب سے غافل مت رہیے۔ پورے ملک میں ایسی افرادی قوت ہے جو ممکن ہے، مرکز میں رہنے والوں یعنی ہم لوگوں کے لیے جانی پہچانی نہ ہو لیکن اس میں ضروری مہارت اور اخلاص ہے۔ ایسے لوگوں کو کام کے دائرے میں شامل کیجیے اور ان کی صلاحیت سے استفادہ کیجیے۔ اسی طرح سے نظام اور حکومت کے بنیادی اہداف یعنی قومی ترقی کے پانچ سالہ منصوبے اور پنج سالہ پروگرام کو جو کہ منظور ہو چکا ہے، اپنے پروگراموں میں مدنظر رکھیے۔ آپ کے پروگراموں میں یہ ضرور دکھائی دینا چاہیے، اسی کے تناظر میں آگے بڑھیے۔
میری نظر میں ان تمام امور میں بنیادی نکتہ، اخلاص، خدا کے لیے کام کرنا، خدا سے رابطے کے لحاظ سے اپنا خیال رکھنا اور اپنے اندر معنوی پہلو کو مضبوط بنانا ہے۔ میں دیکھا رہا ہوں اور میرا خیال ہے کہ جو کوئی کام اور لوگوں کی خدمت کے لیے اہتمام کرتا ہے اگر وہ خدا سے اس رابطے کو مضبوط بناتا ہے تو خداوند عالم اس کی مدد کرتا ہے اور اس کے سامنے راستے کھول دیتا ہے۔ ان شاء اللہ خدا آپ کو اس بات کی توفیق دے گا کہ آپ نے جن کاموں کی ذمہ داری قبول کی ہے، انہیں انجام دیں۔ ایسا بننے کی کوشش کیجیے کہ اگر ایک بار پھر ہم آپ سے ملے تو اس ملاقات میں جو کچھ آپ کہیں وہ یہ ہو کہ: ہم نے یہ کام کیا، یہ بڑا قدم اٹھایا اور اس قدر پیشرفت کی۔
خدمت کے لیے راہ بہت ہی ہموار ہے اور آپ لوگ خدمت گزار ہیں۔ اس میدان میں کمر ہمت مضبوطی سے باندھ لیجیے اور دشمن سے بالکل مت گھبرائیے، دشمن سے خوفزدہ ہونے کی کوئي ضرورت نہیں ہے۔ یہ دشمن جنہوں نے بظاہر ایک متحدہ محاذ تشکیل دیا ہے بباطن اور درحقیقت یہ لوگ انتشار کا شکار ہیں۔ یہ لوگ ان بھیڑیوں اور کتوں کی طرح ہیں جنہوں نے اسلامی امت اور اسلامی معاشرے کے خلاف ایک گلہ تیار کیا ہے لیکن در حقیقت ان کے دل و جان بھی ان کے جسم کی مانند ایک دوسرے سے الگ ہیں؛ مگر بظاہر یہ ہمارے ملک میں اسلام اور سربلند اسلامی پرچم کے خلاف ایک متحد محاذ میں ہیں، ان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان سے ہرگز مرعوب نہ ہوئیے، یہ لوگ کچھ نہیں کر سکتے۔ اگر ہم اپنے آپ کو اس صراط مستقیم پر محفوظ رکھ سکیں اور استقامت کا مظاہرہ کر سکیں تو وہ کچھ بگاڑ نہیں سکیں گے۔ ان کی چالیں یہی ہیں جو آپ دنیا میں دیکھ رہے ہیں، یہ سب ناکام چالیں ہیں۔ آپ دیکھیے کہ آج امریکی، عراق میں اپنی مصلحت اختلافات پیدا کرنے اور عوام کے ذریعے برسراقتدار آنے والی حکومت کو نااہل ظاہر کرنے میں دیکھ رہے ہیں اور اسی لیے وہ اختلاف اور قبائلی جنگ شروع کرانے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کی ایک مثال پچھلے دنوں سامرا میں رونما ہونے والا وہ المناک واقعہ ہے۔ اس سے قبل بھی انہوں نے مسلمانوں کے جذبات بھڑکانے اور اپنے مختلف سیاسی اہداف کے حصول کے لیے توہین آمیز خاکوں کی شکل میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اہانت کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ دونوں کام ایک ہی نوعیت کے ہیں؛ یعنی لوگوں کے مقدسات کی اہانت کے میدان میں قدم رکھنا تاکہ اس سے پیدا ہونے والے ہیجان سے پورے پروگرام کے ساتھ اپنے مدنظر اہداف کو حاصل کیا جا سکے۔ نتیجہ کیا ہوا؟ وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ آج توہین آمیز خاکوں کا مسئلہ عالم اسلام میں ایک عمومی تحریک اور سامراج کے خلاف عالم اسلام میں نفرت پھیلنے پر منتج ہوا ہے جبکہ سامرا کے واقعے کے سبب دنیا کے بہت سے علاقوں میں شیعوں اور سنیوں کے درمیان اتحاد ہوا ہے۔ شیعہ اور سنی علماء ایک ساتھ بیٹھے انہوں نے مل کر بیان جاری کیا اور اس واقعے کی مذمت کی۔ بنابریں دشمن میں اتنی صلاحیت نہیں ہے۔ اس کی سازشیں جانی پہچانی اور گھسی پٹی ہیں۔ انہوں نے برسوں تک ان سازشوں پر کام کیا ہے لیکن آج عالم اسلام بیدار ہو چکا ہے اور عالم اسلام کی بیداری کے بعد وہ کوئي کام نہیں کر سکتے۔ البتہ اس بیداری کو محفوظ رکھا جانا چاہیے۔ شیعہ اور سنی بھائیوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا چاہیے؛ امت مسلمہ کے دلوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا چاہیے۔ دشمن کے اہداف کو مسلم رائے عامہ کے سامنے بیان کرنا چاہیے کہ وہ ( دشمن ) فتنہ پھیلانا اور مذہبی اختلافات پیدا کرنا چاہتا ہے؛ چاہے وہ عراق میں ہو یا دنیا کے دوسرے علاقوں میں۔ لوگوں کو یہ بھی بتایا جانا چاہیے کہ آج عراقی حکومت کو، جو امریکہ کی شکست کی مظہر ہے، ایسے لوگوں کے درمیان سے، جو اسلام کے عاشق و شیدا ہیں، ایک عوامی جمہوریہ نہیں بنانے دیا جا رہا ہے، کیونکہ امریکی اس کام کے لیے عراق میں نہیں آئے تھے۔ وہ اس لیے آئے تھے کہ عراق میں ایک ایسی حکومت کو بر سر اقتدار لے آئيں جو ان کی پٹھو ہو اور ان کے مفادات کا تحفظ کر سکے وہ یہ تو نہیں چاہتے تھے کہ ایک اسلام پسند گروہ آ جائے جو مرجع تقلید کی نگاہوں اور علمائے دین کے اشارے سے قدم آگے بڑھائے یا رک جائے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ایسی کوئی حکومت بر سر اقتدار آئے لیکن عراقی عوام کی یہی خواہش تھی اور یہ ہو گيا۔ اب وہ عراق میں، جو مشرق وسطی میں امریکی پالیسیوں کی شکست کا مظہر ہے، کسی نہ کسی طرح اختلافات پیدا کرنا چاہتے ہیں تاکہ عراقی حکومت جو عوام کی رائے اور ان کے ووٹوں سے برسر اقتدار آئي ہے، اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہ کر سکے۔ ان شاء اللہ وہ ناکام رہیں گے اور ایرانی عوام کی مانند عراقی عوام فہم و فراست سے ان کا جواب دے دیں گے ۔
ہم خداوند متعال سے دعا کرتے ہیں کہ وہ آپ لوگو کی مدد اور دستگیری کرے۔ آپ لوگوں کی رہنمائی کرے کہ آپ لوگ پورے عزم و حوصلے کے ساتھ لوگوں میں نشاط اور امید پیدا کر سکیں۔ بہترین طریقے سے کام انجام دے سکیں اور یہ بات محسوس کر سکیں کہ کام میں پیشرفت ہو رہی ہے؛ یعنی جب آپ زمینی طور پر اور عملی میدان میں دیکھیں تو خود آپ کو محسوس ہو کہ کام آگے بڑھ رہا ہے۔ خداوند متعال آپ سب کو کامیاب کرے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ