بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
ماہ محرم اور شجاعت و ولولے سے معمور عشرہ محرم کی آمد کے طفیل میں حقیر کو یہ موقع ملا کہ آپ عزیز علما و خطبا و مقریرین و مبلغین کی زیارت کروں۔ میں آپ لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے زحمت کی اور تشریف لائے۔ خصوصا ان عزیزوں کا جو قم سے تشریف لائے ہیں۔ میں چند باتیں عاشور اور تبلیغ کے سلسلے میں عرض کروں گا۔
عاشور کا واقعہ ایک ثقافت اور ایک ابدی تحریک کا سرچشمہ
عاشور کے سلسلے میں یہ عرض کرنا ہے کہ عاشور کا واقعہ ایک خالص تاریخی واقعہ نہیں ہے بلکہ امت اسلامیہ کے لئے ایک ثقافت اور ایک ابدی تحریک کا سرچشمہ اور ایک پائدار نمونۂ عمل ہے۔ حضرت ابوعبداللہ الحسین (ع) نے اپنی تحریک کے ذریعےجس کی اس دور میں شدید ضرورت تھی ملت اسلامیہ کے لئے ایک لائحہ عمل پیش کیا۔ یہ صرف درس شہادت ہی نہیں بلکہ بے شمار تعلیمات کا خزینہ ہے۔ حضرت امام حسین (ع) کی تحریک کے بنیادی عناصر تین ہیں منطق و عقل کا عنصر ، شجاعت و حمیت کا عنصر اور مہر و محبت کا عنصر ۔
واقعہ کربلا میں عقل و منطق کا عنصر
اس تحریک میں عقل و منطق کا عنصر امام کے بیانوں میں جلوہ گر ہے۔ تحریک کے آغاز سے قبل، مدینے سے لے کر شہادت تک کے ان نورانی بیانات کا ایک ایک جملہ ایک قوی منطق کو بیان کرتا ہے اور اس منطق کا نچوڑ یہ ہے کہ جب حالات سازگار ہوں تو مسلمان کا فرض اقدام کرنا ہے۔ چاہے اس اقدام میں انتہائي خطرہ ہی کیوں نہ ہو۔ انسان مکمل خلوص کے ساتھ خود اپنے اعزاء و اقارب ، بیوی بچوں، بھائي بہنوں کو میدان میں لے آئے قید کے لئے تیار ہو جائے۔ یہ ایسی چیزيں ہیں کہ جن کو اس قدر زیادہ دہرایا گيا ہے کہ ہمیں معمولی نظر آتی ہیں حالانکہ ان میں سے ہر ایک لفظ انقلابی تاثیر کا حامل ہے۔ بنابریں جب اقدام ناگزیر ہو تو انسان کو اقدام کرنا چاہئے، دنیا انسان کو اس سے روک نہ سکے۔ مصلحت پسندی اور بے جا احتیاط انسان کے سد راہ نہ ہو، جسمانی لذت و سکون اور آسائش و آرام انسان کے سدراہ نہ ہو ، انسان کو بڑھنا چاہئے انّ رسول اللہ (ص) قال : من رای سلطانا جائرا مستحلا لحرم اللہ و لم یغیّر علیہ بفعل و لاقول کان حقّا علی اللہ ان یدخلہ مدخلہ منطق یہ ہے کہ جب دین خطرے میں ہو ، اگر آپ ان دگرگوں حالات کا اپنے کلام یا عمل کے ذریعے مقابلہ نہ کریں تو اللہ کا یہ حق ہے کہ بے اعتنائي برتنے اور اپنی ذمے داری ادا نہ کرنے والے شخص کو اسی سزا سے دوچار کرے جس کا سامنا دوسرے فریق یعنی مستکبر اور ظالم کو ہوگا ۔
حسین بن علی (ع) نے مکے میں ، مدینے میں ، راستے کے مختلف حصوں میں اپنے مختلف فرامین اور محمد بن حنفیہ سے اپنی وصیت میں اس فرض کو بیان فرمایا۔ حسین ابن علی اس کام کے انجام کو جانتے تھے: یہ تصور نہیں کرنا چاہئے کہ آپ اقتدار کے حصول کے لئے اپنی آنکھیں بند کرکے انجام سے بے خبر آگے بڑھے۔ نہیں تحقیقی جائزہ ہمیں اس نتیجے تک نہیں پہنچاتا، اس اقدام کا انجام کیا ہوگا اس کا پورا علم امام حسین (ع) کو تھا، وہ علم لدنی اور خداداد فہم و فراست کے ذریعے انجام کا قبل از وقت مشاہدہ کرنے پر قادر تھے لیکن مسئلہ تھا دین کی بقا کا، اس عظیم ہدف پر فخر کائنات حسین بن علی (ع) نے اپنی جان قربان کی۔ یہ مسلمانوں کے لئے قیامت تک کے لئے درس ہے اور یہ عملی درس ہے۔ یہ ایسا درس نہیں ہے جو وقت گزرنے کےساتھ طاق نسیاں کی زینت بن جائے۔ نہیں، یہ وہ درس ہے جو تاریخ اسلام کے افق پر سورج کی مانند ضو فشاں ہے۔ آپ کی آواز استغاثہ پر آج تک انسانی ضمیر صدائے لبیک بلند کر رہا ہے۔ 1961 ع کے محرم میں امام خمینی نے اس درس سے استفادہ کیا اور پھر وہ چار جون کا عظيم واقعہ پیش آيا۔ 1968 کے محرم میں بھی امام خمینی (رہ) نے دوبارہ اسی واقعے کو سامنے رکھتے ہوئے فرمایا : خون کو تلوار پر فتح حاصل ہوتی ہے اور وہ بے مثال واقعہ، یعنی انقلاب اسلامی، رونما ہوا۔ یہ ہمارے اپنے زمانے کا واقعہ ہے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا ہے جو ماضی میں بھی ہماری ملت کے لئے فتح و کامیابی کا ضامن رہا ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ منطق کا یہ حصّہ عقلی ہے اور اس میں استدلال ہے۔ بنابریں امام حسین (ع) کے اقدام کی تشریح صرف جذبات پر مبنی زاویہ نگاہ کے ذریعے نہیں کی جا سکتی ہے، اس زاویہ نگاہ سے اس مسئلے کے تمام پہلوؤں کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔
واقعہ کربلا کا شجاعت کا پہلو
دوسرا عنصر شجاعت و حمیت کا ہے یعنی جہاد، اسلام کی عزت و سربلندی کے لئے ہونا چاہئے۔ کیونکہ العزۃ للہ و لرسولہ و للمؤمنین ۔ مسلمان کو اس تحریک کے راستے میں اور اس جہاد کے دوران بھی اپنی اور اسلام کی عزت کا تحفظ کرنا چاہئے۔ انتہائي مظلومیت کے عالم میں بھی آپ کربلا والوں کے چہروں پر عزت و توقیر کی چمک دیکھیں گے۔ بہت سے افراد ایسے ہیں جنہوں نے تحریک چلائی ہے جنگ بھی کی ہے لیکن اپنی عزت اور اپنے وقار کی حفاظت نہیں کر سکے۔ حسین ابن علی کا کارنامہ ایسا نہیں ہے۔ ان کا ہر قدم با وقار اور عمل پر افتخار ہے۔ جب حسین بن علی (ع) ایک رات کی مہلت حاصل کرتے ہیں تب بھی اپنے عز و شان پر کوئي آنچ نہیں آنے دیتے۔ جب آپ نے "ھل من ناصر" کہہ کر نصرت طلب کی تو بھی اپنا وقار مجروح نہیں ہونے دیا۔ جب مدینے سے کوفے تک کے سفر میں مختلف لوگوں سے ملاقات ہوئی اور ان سے باتیں کیں اور ان میں سے بعض کو مدد کے لئے کہا تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ آپ خود کو کمزور محسوس کر رہے تھے۔ یہ بھی ایک دوسرا نمایاں عنصر ہے۔ یہ عنصر عاشور کے پیروؤں کو اپنے منصوبوں میں شامل رکھنا چاہئے۔ جہاد کے تمام اقدامات، چاہے سیاسی اور تشہیراتی ہوں یا جان قربان کرنے کا مقام ہو، عزت کے ساتھ طے ہونے چاہئیں۔ عاشور کے دن مدرسہ فیضیہ میں امام خمینی کے چہرے پر نظر ڈالیں۔ ایسا عالم دین کہ جس کے پاس نہ مسلح افراد ہیں اور نہ جنگی ساز و سامان لیکن ایسے پر وقار انداز میں شعلہ بیانی کرتا ہے کہ دشمن کے ہوش اڑ جاتے ہیں۔ یہ مقام عزت و وقار ہے۔ تمام حالات میں امام کا طرز عمل یہی تھا ۔ آپ اکیلے تھے آپ کے پاس ساز و سامان اور ساتھی نہیں تھے لیکن آپ باوقار رہے۔ یہ ہمارے امام خمینی کی عظیم شخصیت تھی۔ ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہم ایک ایسے زمانے میں پیدا ہوئے جس میں امام کی شکل میں کربلائی تحریک کا مجسم نمونہ سامنے آیا اور ہمیں اس کی زیارت کرنے، اس کے گہربار فرامین کو سننے اور ان پر عمل کرنے کا موقع ملا ۔
کربلا مہر و محبت کا حقیقی مظہر
تیسرا عنصر مہر و محبت کا ہے یعنی اس واقعے کے دوران اور پھر اس کے بعد کی منزلوں میں مہر و محبت کے جذبے نے فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔ اسی جذبے نے عاشور کی تحریک کو ایک الگ تشخص عطا کر دیا ہے۔ واقعہ کربلا جنگ و جدل، قتل و خونریزی ہی نہیں بلکہ مہر و محبت اور عشق و مودت کے پلؤوں پر استوار ہے۔ مہر و محبت کا درجہ بہت عظیم ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمیں محبت حسین میں گریہ کرنے کا حکم ہے ۔زينب کبری (س) کوفہ و شام میں منطقی باتیں کرتی ہیں لیکن ساتھی ہی مصائب بھی بیان کرتی ہیں۔ مصائب بیان کرنے کا یہ سلسلہ آج تک جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گا تا کہ محبت و مودت کے جذبات ہمیشہ بیدار رہیں۔ بہت سے حقائق ایسے ہیں جنہیں عطوفت اور عشق و محبت کے ماحول میں ہی سمجھا جا سکتا ہے، اس ماحول سے دور رہ کر اس کا ادراک ممکن نہیں۔ یہ تین عناصر حسین بن علی (ارواحنا فداہ ) کی عاشورائي تحریک کے بنیادی عناصر ہیں ۔ان کے بیان کے لئے ایک ضخیم کتاب درکار ہے جبکہ یہ عاشورائے حسینی کی تعلیمات کا صرف ایک چھوٹا سا پہلو ہے ۔
حسینی تحریک سے دینی تبلیغ کا موقع ملا
ہم مبلغین! حسین بن علی (ع) کے نام پر تبلیغ کرتے ہیں اور یہ عظیم موقع اس عظيم ہستی کے تذکرے کے طفیل میں مبلغین کو میسر ہوا ہے کہ وہ مختلف سطحوں پر دین کی تبلیغ کریں۔ ہماری تبلیغ میں ان تینوں میں سے ہر عنصر کا کردار نمایاں ہونا چاہئے ۔ صرف جذباتیت کو بیان کرنا اور واقعۂ کربلا میں موجود عقلی و منطقی پہلو کو نظر انداز کرنا اس واقعے کی اہمیت کم کرنے کے مترادف ہے۔ اسی طرح شجاعت و حمیت کے پہلو کو نظر انداز کرنا بھی اس عظیم واقعے کے ساتھ نا انصافی ہے۔ اس مسئلے کا ذاکروں اور خطیبوں سب کو خیال رکھنا چاہئے۔
تبلیغ کے کیا معنی ہیں؟ تبلیغ کے معنی پہنچانے کے ہیں۔ آپ کو پہنچانا ہے۔ کس تک؟ کہاں تک؟ کانوں تک نہیں بلکہ دلوں کی گہرائیوں تک۔ ہماری بعض تبلیغات حتی ٹھیک طرح سے کانوں تک بھی نہیں پہنچ پاتی ہیں۔ کان ان کو قبول کرتے ہیں نہ ہی منتقل کرتے ہیں۔ کان بات حاصل کرنے کے بعد دماغ تک منتقل کرتا ہے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اس کو دل تک پہنچنا چاہئے اور اس کا اثر ہم اور سامع دونوں پر نظر آنا چاہئے۔ یہ ہے تبلیغ کا مقصد۔ ہم تبلیغ صرف اس لئے نہیں کرتے ہیں کہ کوئی بات بس بیان کر دی جائے بلکہ تبلیغ کا مقصد یہ ہے کہ جو تبلیغ کا موضوع ہے وہ مخاطب کے دل میں اتر جائے۔ وہ موضوع کیا ہے؟ موضوع ایسی تمام چیزیں ہیں جن کی حفاظت کے لئے حضرت امام حسین (ع) نے اپنا بھرا گھر لٹا دیا۔ تمام انبیاء و اولیاء نے بھی یہی طرز عمل اختیار کیا البتہ اس روش کا اوج حسین بن علی (ع) ہیں۔ میری خواہش ہے کہ دین کی مدلل تعلیمات اور اصولوں کو ایسے پیش کیا جائے کہ مخاطب کا ذہن و دل اسے قبول کرے اور یہ چیزیں اس کی شخصیت کا جز بن جائیں۔
شخصیت کی تعمیر
ان تعلیمات میں سے ایک اسلامی حکومت کی تشکیل ہے۔ میں یہ عرض کر دوں کہ اسلامی حکومت کی تشکیل کسی معجزے سے کم نہیں ہے لیکن حکومت تشکیل دینے کے ساتھ ہی افراد کی شخصیت کو سنوارنا بہت اہم ہے ۔ نبی اکرم نے پہلے انسانوں کی تربیت کی۔ پہلے پاکیزہ شخصیت کی بنیاد رکھی اور پھر آپ نے اس بنیاد پر دین کی عمارت کو تعمیر کیا۔ دس سال کے عرصے میں کہ جس میں سو برسوں کا کام انجام دیا گيا تھا، پیغمبر (ص) نے کبھی بھی لوگوں کی شخصیت کی تعمیر کے پہلو کو نظر انداز نہیں کیا۔ معرکہ کارزار ہو، محراب عبادت ہو یا کوئي اور مقام ہر وقت اس نقطے پر آپ کی توجہ مرکوز رہی۔ پیغمبر (ص) نے خندق ، بدر اور احد جیسی خطرناک جنگوں میں بھی انسان سازی کا کام انجام دیا۔ قرآن کریم کی آیات کا مطالعہ کیجئے۔ انسان سازی اس تبلیغ کا مقصد ہے اور یہ ایک بہت بڑا کام ہے۔
سیاسی مسائل کی اہمیت
ہمیں دینی تبلیغ کے وقت بھی سیاسی مسائل کو اپنی گفتگو، کوشش اور جد وجہد کے دائرے سے خارج نہیں ہونے دینا چاہئے ۔ دشمنوں نے اس سلسلے میں دسیوں سال تک کام کیا لیکن اسلامی انقلاب رونما ہو گيا اور ان کی ساری کوششوں پر پانی پھر گیا۔ انقلاب نے سیاسی گفتگو اور نظریات کو دینی سرگرمیوں کے دائرے میں داخل کر دیا۔ دوسری اہم بات مخاطب کے جذبات کی قدر کرنا اس کی شخصیت کی اہمیت کا خیال رکھنا ہے۔ ہم پر لازم ہے کہ اس کے افکار و نظریات کی تعمیر کریں اسے آباد اور سیراب کریں۔ البتہ اس کے لئے ایک باطنی سرچشمے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے اپنے اندر ایک چیز موجود ہونی چاہئے تاکہ مخاطب پر اس کا اثر ہو سکے ورنہ نہیں ہوگا ۔ اس باطنی سرمائے میں فکر و منطق کا عنصر ہونا چاہئے۔ ہم کو صحیح فکر و منطق سے لیس ہونا چاہئے تا کہ بات کمزور نہ ہو، جن افراد نے کہا ہے کہ مؤثرترین حملہ، کمزور اور ناقص دفاع ہے انہوں نے بالکل ٹھیک کہا ہے۔ اگر دین کا دفاع کمزور اور نادرست ہو تو اس کا اثر دین پر حملے سے بھی زیادہ تباہ کن ہوتا ہے۔ ہمیں اس بات سے خدا کی پناہ حاصل کرنا چاہئے۔ مبادا ہماری باتوں، تقریر اور تبلیغ میں یعنی جو چیز ہم تبلیغ کے نام پر انجام دے رہے ہیں، کوئی کمزور ، غیر منطقی اور غیر مسلّم بات ہو۔ بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جو کتابوں میں تحریر ہیں لیکن ان کی کوئی سند نہیں ہے۔ یہ دل میں اتر جانے والی حکمت اور اخلاقی مسائل پر مشتمل باتیں ہیں۔ ان کی سند کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم ان کو بیان کر سکتے ہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک ایسی بات ہے جو مخاطب کے ذہن میں اترنے والی نہیں ہے۔ اس کا قبول کرنا اس کے لئے مشکل ہے تو یہ بات بیان نہیں کرنی چاہئے ۔کیونکہ یہ بات اس کو اصل مسئلے سے دور کر دے گی اور اس کے ذہن میں دین اور مبلغ کی ساکھ خراب ہوگی۔ وہ خیال کرے گا کہ یہ بات منطق سے خالی ہے حالانکہ ہمارے کام کی بنیاد منطق ہے۔ بنابریں منطق، ہماری تبلیغ کا اصل عنصر ہے ۔
عمل، قول کی تاثیر کی ضمانت
اس کے بعد ہمارے عمل کی نوعیت کی باری آتی ہے۔ ہم فلاں شہر یا دیہات میں تبلیغ کے لئے جاتے ہیں تو ہمارا کردار ، اٹھنا ، بیٹھنا ، ملنا جلنا ، ہماری عبادت ، دنیوی نعمتوں سے ہمارا لگاؤ یا عدم لگاؤ ، کھانا پینا اور ہمارا سونا ہماری تبلیغ میں ممد ومعاون بھی بن سکتا ہے اور ہماری تبلیغ کو بے اثر بھی بنا سکتا ہے ۔ اگر یہ کام ٹھیک ہوں تو یہی تبلیغ ہیں اگر غلط ہوں تو تبلیغ کے منافی ہیں۔ ہم سماجی ماحول اور زندگي کے میدان میں لوگوں کو اپنی گفتگو سے کیسے مطمئن کر سکتے اور کس طرح ان کا اعتماد حاصل کرسکتے ہیں جبکہ ہم دنیوی خواہشات کی مذمت میں باتیں تو کرتے ہیں لیکن ہمارا اپنا عمل خدا نخواستہ اس کے خلاف ہے تو کیونکر ممکن ہے کہ ایسی باتیں مؤثر واقع ہوں؟ یا تو بالکل مؤثر واقع نہیں ہوں گي، اگر موثر ہوئیں بھی تو ان کا اثر دیر پا نہیں ہوگا۔ جب ہمارے عمل کی حقیقت سامنے آئے گي تو ان باتوں کا الٹا اثر ہوگا۔ بنابریں عمل بہت اہم ہے ۔ تیسرا عنصر فن بیان ہے۔ میں فن تقریر کا بہت قائل ہوں ۔آج کے دور میں انٹرنیٹ ، سیٹیلائٹ ، ٹیلی ویژن جیسے مواصلاتی ذرائع ہیں لیکن تاثیر میں کوئی ایک بھی تقریر کے ہم پلہ نہیں ہے ۔ تقریر یعنی لوگوں کے سامنے اور ان کے ساتھ بات کرنا ۔اس کا ایک واضح اور نمایاں اثر ہوتا ہے اور دوسرے کسی بھی مواصلاتی ذریعے میں یہ اثر نہیں پایا جاتا ہے ۔اس کا تحفظ کیا جانا چاہئے ۔یہ گرانقدر چیز ہے ۔البتہ اس کو فن کے ساتھ ادا کرنا چاہئے تا کہ مؤثر واقع ہوسکے ۔
خوف الہی کی ضرورت
ایک نکتہ اسی تبلیغ کے بارے میں بیان کروں۔ صحیفۂ سجادیہ کی ایک دعا میں حضرت سجاد (ع) اپنی جانب سے خداوند تعالی سے عرض کرتے ہیں کہ تفعل ذلک یا الہی بمن خوفہ اکثر من رجائہ لا ان یکون خوفہ قنوطا میرا خوف رجاء سے زیادہ ہے۔ یہ اس لئے نہیں کہ میں ناامید ہوں۔ یہ ایک باضابطہ دستور العمل ہے۔ خوف کو امید کے ساتھ دلوں میں ضرور پھونکئے البتہ خوف کا پہلو غالب رہے۔ یہ کہ ہم رحمت الہی سے متعلق آیات پڑھیں کہ جن میں سے بعض آیات اور بشارتیں خاص مؤمنین کے گروہ کے ساتھ مختص ہیں اور ان کا ہم سے کوئی تعلق نہیں نتیجے میں بہت سے افراد واجبات اور محرمات سے غافل ہو جائیں یہ درست نہیں ہے اللہ کا خوف سب کو ہونا چاہئے قرآن میں خوشخبری مؤمنین سے مختص ہے لیکن انذار کا تعلق سب سے ہے ۔ مؤمن اور کافر سب کے لئے ہے۔ پیغمبر خدا گریہ کر رہے تھے ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ (ص) اللہ تعالی نے فرمایا ہے : لیغفر لک اللہ ما تقدم من ذنبک و ماتاخر ۔تو یہ گریہ کس لئے ہے آپ (ص) نے فرمایا : او لا اکون عبدا شاکرا یعنی تو کیا میں شکر بھی ادا نہ کروں، اگر اس مغفرت کا شکر ادا نہ کروں تو اس مغفرت کی بنیاد کمزور ہوجائے گی۔ ہرحالت میں انذار کو ہمارے اور ہمارے سامع کے دل پر حکمفرما ہونا چاہئے۔ راستہ بہت کٹھن ہے۔ انسان کو یہ راستہ طے کرنے اور اس کی منزل تک پہنچنے کے لئے تیار ہونا چاہئے۔ تبلیغ کا کام، بہت عظیم، حساس اور مؤثر کام ہے۔ آج ہم سابق تبلیغات کی برکات و نتائج دیکھ رہے ہیں اور آپ لوگوں کی آج کی تبلیغات کی برکات معاشرہ آئندہ دیکھے گا ان شاء اللہ ۔ تبلیغ کا اثر اچانک اور فورا نہیں ہوتا ہے بلکہ طویل مدت میں ہوتا ہے ۔ دین کا مبلغ اگردیکھے کہ ظواہر غیر دینی ہیں تو اس کو مایوس نہیں ہونا چاہئے ۔ یہ افواہیں جو بعض لوگ پھیلا رہے ہیں کہ جوان دین سے منہ موڑ چکے ہیں ، ان سب باتوں کو آپ نفسیاتی جنگ سمجھئے یہ افواہ ہے حقیقت نہیں۔ ہمارے نوجوانوں کے دل دین کی طرف مائل ہیں ، وہ حقائق کے پیاسے ہیں اور ان کے دل پیاسے ہیں ۔ ہر پاک فطرت جو ان اسی طرح ہے۔ آپ کی محنتوں کانتیجہ آئندہ نسلوں کو ملے گا۔ آج پہلے کی محنتوں کے نتیجے میں ماحول سازگار ہے لوگ علوم و تعلیمات اہل بیت کے پیاسے اور آپ کی باتیں سننے کے لئے تیار بیٹھے ہیں آپ اپنے بیان سے انہیں بہرہ مند کیجئے
اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعاگو ہوں کہ وہ ہم سب کو تبلیغ دین اور اس صراط مستقیم کی قدردانی کی توفیق عطا فرمائے کہ جو انقلاب نے ہمارے سامنے رکھا ہے اور ہمیں اس بات کی بھی توفیق دے کہ ہم سنگین فرائض کو پورا کر سکیں ۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ