بسم‏ اللّه ‏الرّحمن ‏الرّحيم

یوم استاد اور ہفتہ اساتذہ ہر سال میرے لئے اہم باتوں اور ذمہ داریوں سے بھرے ہوئے ایام ہوتے ہیں ۔ اس برس ایسا اتفاق ہوا ہے کہ اساتذہ سے شیراز میں ملاقات ہو رہی ہے اور یہ توفیق حاصل ہوئی کہ آپ فارس صوبے سے تعلق رکھنے والے شیرازی اساتذہ بھائی بہنوں سے ملاقات ہوئی۔ یہ بہت اچھا موقع ہے اور در حقیقت کہنا چاہئے کہ آپ کے صوبے اور آپ کے شہر نے بہت سے مواقع پر دوسروں کے لئے استاد و معلم کا کردار ادا کیا ہے ۔ بہت کم ایسے علماء ہوں گے جو شیراز کے علماء و اساتذہ سے فیضیاب نہ ہوئے ہوں چاہے فقہ کا موضوع ہو یا فلسفے کا میدان، ادب و شعر و فن میں یا پھر دیگر موضوعات ۔
یوم اساتذہ آپ لوگوں کا دن اور ایک لحاظ سے تمام ایرانی قوم کا دن ہے کیونکہ استاد کی ذاتی شناخت کے علاہ ایک تعلیمی شناخت بھی ہوتی ہے جس کا تعلق ان تمام لوگوں سے ہوتا ہے جو اس سے تعلیم حاصل کرسکتے ہیں ۔ استاد کی سماجی شناخت بھی ہوتی ہے تاہم ایک استاد کی اہمیت اس کی اسی تعلیمی شناخت کی وجہ سے ہوتی ہے اور ہمیں یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ اس سلسلے میں ہم نے کم کام کیا ہے اور عملی طور پر ہم اس ثقافت اور ماحول سے متاثر ہوگئے جس میں استاد کی اہمیت مادی پہلو _ یعنی رقم کے مقابلے میں درس _ پر منحصر ہوتی ہے ۔ مادی تہذیب کی سوچ یہ ہے ۔ کسی چیز کی قدر سمجھنے کا معیار ہر چیز کو رقم میں بدلنے کی صلاحیت ہے اور اس ثقافت میں استاد جنتی دولت بنا سکے اتنی ہی اس کی عزت ہوتی ہے ، ہم یعنی ایرانی استاتذہ کا سماج اس غلط ثقافت سے متاثر ہو ہوا ہے جبکہ اسلام کی نظر میں مسئلہ اس سے کہیں بالاتر ہے ، تعلیم و تربیت ، ایک انسان کو زندگی عطا کرنا اور اسے نیا وجود بخشنا ہے ، اسلام کا یہ نظریہ ہے آپ لوگ کوشش کریں، سعی کریں کہ زمین کے اس حصے میں جو بظاہر خشک دکھائی دیتا ہے ، کھدائی کریں تاکہ وہاں سے چشمہ جاری ہو جائے ، آپ معمولی سے دکھنے والے ایک بیج کو زرخیز زمین میں بوئيں اور اس کی آبیاری کریں تاکہ وہاں سے سر سبز پودا اگ جائے اصل بات یہ ہے ، چاہے وہ دولت میں بدل پائے یا نہ بدلے ۔
اسلام استاد اور تعلیم و تربیت کو اس نظر سے دیکھتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہيں ہے کہ میں استاتذہ کی ماضی و حال کی مادی ضروریات کو نظر انداز کر رہا ہوں نہيں ، بات یہ نہیں ہے کچھ امیدیں ہیں ، کچھ ضرورتیں ہیں جن میں سے اکثر صحیح بھی ہیں ۔ متعلقہ حکام بھی ہیں اور مجھے کہنا چاہئے کہ متعلقہ حکام کو اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ یہ نئے وزیر جو ہیں اور جن کی تقریر آپ نے سنی یہ بھی جیسا کہ میں نے دیکھا اور سمجھا ایک سرگرم ، جدو جہد کرنے والے اور محنتی آدمی ہیں اور ہمیں امید ہے کہ انشاء اللہ اس میدان میں بھی وہ اپنے فرائض پر عمل کریں گے لیکن میری بات اس سے آگے کی ہے اور میری مراد صرف آپ اساتذہ سے ہی نہيں ہے بلکہ میں یہ بات پوری ایرانی قوم سے کہہ رہا ہوں ، ان تمام لوگوں سے کہہ رہا ہوں جن کے لئے آپ نے تعلیم و تربیت کے دروازے کھولے ہيں تاکہ وہ لوگ اس میں وارد ہو سکیں ۔ یہ ایک ایسے کام ، ایک ایسے اقدام ایک ایسی شناخت کی قدردانی ہے جس کی اہمیت ہماری نظر میں جس طرح سے پہچانی جانی چاہئے تھی پہچانی نہیں گئ ، ماضی میں ، ہاں ماضی میں قبل اس کے کہ ہمارے ملک میں مغربی تہذیب کا عمل دخل ہو یعنی گیارہ بارہ سو برس قبل اور اسلام کے بعد سے کہ جب مختلف زمانوں میں ہمارے ملک میں تعلیم و تربیت کے ابواب کھلے تھے تو اس وقت معنوی اعتبار سے استاد کی بہت اہمیت تھی ۔ اسلامی تعلیمی مراکز میں ، تعلیم و تربیت کی روش یہی تھی کہ کبھی کسی نے یہ نہيں دیکھا کہ کوئی شاگرد اپنے استاد کے سامنے پیر پھیلا کر بیٹھے ۔ ہم بھی ایسے ہی تھے جب ہم تعلیم حاصل کر رہے تھے تو اس وقت کے طلبہ ایسے ہی تھے ۔ شاگردوں کی نظر میں استاد کی حقیقی معنوں میں عزت ہوتی تھی جس کی کچھ علامتیں آج بھی ہمارے دینی مدارس میں باقی ہيں کیونکہ دینی مدارس ثقافتی میدان میں مغربی تہذیب سے کم متاثر ہوئے ہيں ۔ اس بنا پر آج بھی دینی مدارس میں یہی روش ہے اور استاد کی ایک خاص عزت اور اس کے لئے ایک خاص قسم کا احترام پایا جاتا ہے۔ اس کی ہیبت _ جو ڈر کی وجہ سے نہيں بلکہ اس کی عظمت کی وجہ سے ہوتی ہے _ شاگردوں کے دلوں میں بیٹھی ہوتی ہے البتہ یہی شاگرد درس کے وقت اعتراض بھی کرتا ہے ۔ ہمارے دینی مدارس میں شاگرد جتنا استاد پر اعتراض کرتا ہے اتنا ہماری یونیورسٹیوں میں رائج نہیں ہے ۔ اس کے لئے اجازت کی بھی ضرورت نہیں ہوتی ، کہ استاد ! اجازت ہے ؟ نہیں ، استاد بول رہا ہوتا ہے، استاد پڑھانے میں مصروف ہوتا ہے اسی وقت وہاں بیٹھا ایک طالب علم اعتراض کر دیتا ہے اور استاد بھی اس کا اعتراض سنتا ہے کبھی شاگرد تندی بھی کرتا ہے یعنی شاگرد  جسارت کے ساتھ کسی علمی مسئلے پر استاد سے بات کرتا ہے لیکن یہی شاگر اپنے اسی استاد کے ساتھ بڑے احترام سے پیش آتا ہے اس کے ہاتھ چومتا ہے ۔ اس کے سامنے پیر نہيں پھیلاتا، اسے ، تم کہہ کر مخاطب نہیں کرتا ، بارہ تیرہ سو برسوں تک ہم نے اپنے ملک میں استاد و شاگرد کے درمیان اسی قسم کا رشتہ دیکھا ہے یہاں تک کہ ہمارے ملک میں مغربی ثقافت و اقدار آئيں ۔ آپ دیکھیں اس دوران کتنے اساتذہ نے شاگردوں کے ہاتھوں سے مار کھائي ! کتنے اساتذہ کا کلاس میں شاگردوں نے مذاق اڑایا ! کتنی بری باتیں سنی ، کتنے اساتذہ اپنے شاگردوں کے ہاتھوں قتل ہو گئے ! کیونکہ استاد نے کم نمبر دئے تھے ۔ یہ سارے مسائل تھے البتہ قدیم تہذیب کی وجہ سے یہ مسئلہ ہمارے ملک میں کم تھا لیکن کچھ جگہوں پر بہت زیادہ اور شدت کے ساتھ ہے ۔ ان جگہوں میں جنہيں مغربی تہذیب کا مرکز کہا جاتا ہے ۔ میری کوشش یہ ہے کہ استاد کی اہمیت وہی ہو جو اسلام نے اسے دی ہے ۔ ہمارے سماج کو استاد کی عزت کی ضرورت ہے اس کا احترام کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر شاگرد کے سرپرست صحیح معنوں میں اساتذہ کا احترام کریں تو وہ شاگرد  کلاس میں اور کلاس کے بعد بھی استاد کو اسی نظر سے دیکھے گا ۔ ہمیں اس کی ضرورت ہے یہ آپ لوگوں کے لئے تمام مادی سہولتوں سے زيادہ اہم ہے ۔ ہمارے بزرگوار امام ، صاحب حکمت تھے امام ، قرآنی معنوں میں صاحب حکمت تھے ۔ صاحب حکمت یعنی وہ جو ایسے حقائق کا مشاہدہ کرتا ہو جو دوسروں کی نظروں سے پوشیدہ رہتے ہوں ۔ اس کی باتیں ہو سکتا ہے بظاہر عام سی لگیں لیکن جتنا آپ غور کریں اتنی ہی تہیں اس میں موجود ملیں گی امام (خمینی رہ)اسی طرح تھے۔ آپ دیکھيں قرآن میں ، جہاں حکمت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے: «ذلك ممّا اوحى اليك ربّك من الحكمة»، یہ بظاہر معمولی نصیحت ہے وہی بات جو ہم ہمیشہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں لیکن آپ جتنا غور کریں دیکھیں گے کہ اس میں بہت گہرائی ہے مثال کے طور پر ماں باپ کا احترام حکمتوں کا ایک حصہ ہے ۔ ماں باپ کے احترام کی ، اس کے فوائد و برکتوں کے لحاظ سے ، کوئي حد نہیں ہے آدمی اس پر جتنا غور کرتا ہے اتنا اسے لگتا ہے کہ اس میں گہرائی ہے حکمت یہ ہے ۔ امام جو ایک حکیم تھے انہوں نے کہا ہے کہ تعلیم دینا ، انبیاء کا کام ہے یہ  بہت بڑی بات ہے ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک حدیث  بھی ہے ،ان آیتوں کے علاوہ  جن میں : «يزكّيهم و يعلّمهم الكتاب و الحكمة» بار بار دہرایا گیا ہے،جس میں تعلیم کو انبیاء سے منسوب کیا گیا ہے : «انّ اللّه‏ لم يبعثنى معنّتا و لا متعنّتا ولكن بعثنى معلّما ميسّرا»؛ خدا نے مجھے استاد کی شکل میں مبعوث کیا ہے معلم میسر یعنی آسان بنانے والا ، میں زندگی کو اپنے شاگردوں کو اپنے تعلیمات کے ذریعے آسان بناتا ہوں اور امور کو ان پر آسان کرتا ہوں ۔ یہ آسان بنانا ، آسان سمجھنے سے مختلف ہے اس کا مطلب لاپروائی نہیں ہے میں معنت و متعنت نہیں ہوں یعنی نہ خود کو زندگی کے دشوار پیچ و خم میں پھنساتا ہوں اور نہ ہی لوگوں کو ، بلکہ اپنی تعلیمات سے لوگوں کو صحیح اور سیدھے راستے یعنی صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہوں ۔ آسان بنانے کا مطلب یہ ہے ۔ کبھی آدمی کسی مقصد کا حصول چاہتا ہے لیکن اسے راستے کا علم نہيں ہوتا ۔ کنکر پتھر ، سانس پھلا دینی والی چڑھائیاں ، مسلسل اوپر جا ئے ، مسلسل نیچے آئے آخر میں معلوم نہیں  پہنچتا  بھی  ہے یا نہیں ۔ اسے تعنت یعنی خود کو پریشانی میں ڈالنا کہتے ہیں لیکن کبھی اس سے کچھ مختلف ہوتا ہے ، کوئی باخبر آدمی اس کے ساتھ جاتا ہے اور وہ باخبر شخص اس سے کہتا ہے جناب ادھر سے جائيں ! یہ راستہ ہموار بھی  ہے اور نزدیک بھی اور یقینا آپ کو مقصد تک پہنچا بھی دے گا «معلّماً ميسّرا» کا یہ مطلب ہے ، استاد کی شان یہ ہے ۔ یہ میری اصل بات ہے میں چاہتا ہوں آپ لوگوں سے جو  خود استاد ہیں ، آپ لوگ اپنی منزلت اور مقام کو اچھی طرح سے پہچانیں اور اسی طرح عوام سے بھی عرض کرنا چاہتا ہوں بلکہ اصل میں میرے مخاطب عوام ہیں کیونکہ عام طور سے اساتذہ کو اپنی قدر و منزلت کا علم ہوتا ہے ۔ ایک آگاہ استاد ، جس کے پاس حقیقت میں علم ہوتا ہے اور وہ دوسروں کو علم عطا کرتا ہے ، اسے علم ہوتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے ، ایک بند تالا ہوتا ہے جس کی ایک چابی ہوتی ہے استاد، وہ چابی شاگرد کو دیتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ اس چابی کو اس طرح سے تالے میں لگاؤ ۔ اسے تعلیم کہتے ہیں ۔یہ ایک ایسا معما ہے جسے کسی بھی صورت میں حل نہیں کیا جا سکتا سوائے اس راستے سے ۔ اس لئے استاد _ اپنے مختلف مراتب کے ساتھ _ خود جانتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے اسی لئے عام لوگوں سے خاص طور پر میں یہ بات کہہ رہا ہوں ۔ میں چاہتا ہوں کہ ہمارے سماج میں تعلیم و تربیت کا وہی مقام ہو جو اسے اسلام نے عطاکیا ہے ۔ یہ جو حدیث نقل ہوئی ہے کہ : «من علّمنى حرفا فقد صيّرنى عبدا» _ البتہ مجھے نہیں معلوم کہ اس روایت کی سند کیا اور کیسی ہے اور کتنی قابل اعتماد ہے لیکن بات صحیح ہے _ حقیقت یہی ہے کہ آدمی کسی سے کچھ سیکھ کر در اصل ایک ایسے مرحلے سے گزر جاتا ہے جس کی وجہ سے مناسب ہے کہ وہ خود کو اس رہنما اور تعلیم دینے والے کا غلام سمجھے ۔ اصل بات یہ ہے ۔
یہاں پر ایک اور نکتہ ہے اور وہ بھی اہم ہے اسے بھی بیان کرتا ہوں یہ خاص طور سے آپ اساتذہ کے لئے ہے اور وہ بات یہ ہے کہ اسلام کی نظر میں جس طرح سے استاد کا احترام کیا جانا چاہئے اسی طرح سے شاگردوں کی بھی عزت کی جانی چاہئے ، شاگرد کا بھی احترام کیا جانا چاہئے ، اس کی بے عزتی نہيں کی جانی چاہئے ۔ اس کا ایک نہایت گہرا تربیتی پہلو ہے ۔ اس سلسلے میں بھی ایک روایت ہے : «تواضعوا لمن تعلّمون منه و تواضعوا لمن تعلّمونه»؛ جس سے سیکھتے ہو اس کے سامنے انکساری کرو اور جو تم سے سیکھے اس کے ساتھ بھی انکساری سے پیش آؤ ، «و لا تكونوا جبابرة العلماء». جابر کی دو قسمیں ہوتی ہیں سیاسی جابر اور علمی جابر ، علمی جابر نہ بنو ۔ جبار عالم ، نہ بنیں ۔ فرعون کی طرح ۔ میں نے خود اپنے ہی ملک کی ایک یونیورسٹی میں ، کئ برس قبل شاید چالیس پینتالیس سال پہلے ایسا ایک استاد دیکھا ہے جو اپنے شاگردوں سے ایسے بات کرتا تھا اور اس طرح سے انہیں پڑھاتا تھا اور ان کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کرتا تھا جو فرعونیت سے بھرا ہوتا تھا ، اس میں باپ کی بیٹے کے لئے شفقت جیسی کوئی چیز نہيں تھی ۔ استاد ہو سکتا ہے سختی کرے لیکن سختی تحقیر سے مختلف چیز ہے ، بے عزتی کرنے سے مختلف ہے ۔ شاگردوں کا احترام کیا جانا چاہئے ۔ آپ سب لوگوں کو یقینا بہت تجربہ ہوگا جن شاگردوں کا آپ نے احترام کیا ہوگا ان میں اس کے اثرات نظر آئے ہوں گے اور اس کی تربیت آسان تر ہو گئ ہوگی ۔ گالی دینا ، بے ‏عزتی کرنا بلکہ مارنا اچھی بات نہيں ہے حالانکہ پرانے زمانے سے مشہور ہے کہ سیکھانے کے لئے مارنا چاہئے یہ عام بات تھی لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ نہيں ، مارنا ٹھیک نہیں ہے میرا بھی یہی ماننا ہے کہ شاگرد کو موم کی طرح ہاتھ میں لیکر شکل دینی چاہئے لیکن نرمی کے ساتھ ، استاد کا فن اسی میں ہے ۔ اس مسئلے کا ایک رخ یہ بھی ہے ۔
استاد اور تعلیم و تربیت کے سلسلے میں بہت سے مسائل ہیں میں نے بھی مختلف برسوں میں اسی مناسبت سے اساتذہ سے ہونے والی ملاقاتوں میں کچھ باتیں کہی ہیں اور اب بھی اعلی ثقافتی انقلاب کونسل میں اور تعلیم و تربیت کے وزیر سے ملاقات میں بھی بہت سی باتیں کہی ہیں جو میری ذاتی رائے نہيں ہے بلکہ تقریبا ان ساری باتوں پر ماہرین نے کام کیا ہے اور تعلیم و تربیت کے میدان سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی اس کی تصدیق کی ہے ۔ میں نے ان سب باتوں پر عمل کا مطالبہ کیا اور خوش قسمتی سے میں نے دیکھا کہ وزیر صاحب نے یہ جو ابھی رپورٹ دی ہے اس میں کہا ہے کہ ان میں سے کچھ کاموں کو یا تو شروع کر دیا ہے یا پھر اس کے لئے اقدامات کر دئے ہيں ، اچھی بات ہے ۔ لیکن اسی پر اکتفا نہیں کی جا سکتی بلکہ ہمیں تعلیم و تربیت کے میدان میں وسیع کاموں کی ضرورت ہے ۔
میں نے گذشتہ برس ، تہران میں اساتذہ سے اسی موقع پر ملاقات میں ، تعلیم و تربیت کے میدان میں بڑی تبدیلی کی بات کی تھی ۔ بڑی تبدیلی کا کیا مطلب ہے ؟ بارہا میں نے کہا ہے کہ ہمیں مغرب والوں یا کسی بھی دوسرے سے سیکھنے میں کوئی شرم نہیں ہے ، ایسا کرنے سے انکار بھی نہیں کرتے ۔ ہم ایک ادارتی روش ، ایک تعلیمی روش ، یا کوئی تکنیک و ایجاد کو دوسرے ملکوں سے سیکھیں اس میں ہمیں عار نہيں محسوس ہوتی ، ہم اس سے پیچھے بھی نہيں ہٹتے ، اس کے لئے کوشش بھی کرتےہیں ۔ شاگرد بنتے ہیں لیکن یہاں پر دو نکات ہیں ۔ سیکھتے وقت بڑے افسوس کی بات ہے ، ثقافتی تبدیلی کے وقت _ یعنی پہلوی دور میں جو ہمارے ملک میں ثقافتی تبدیلی کا دور ہے _ ان دو نکات پر توجہ نہیں کی گئ ۔ آنکھیں بند کر لی گئيں ، ہاتھ پھیلا لئے گئے ، جو بھی آیا ، جو بھی ملا ، اسے ان لوگوں نے لے لیا ۔ ان دو نکات میں سے ایک نکتہ یہ ہے کہ ہم جو بھی لیں اس کا پہلے جائزہ لیں ، دیکھیں کہ ہمارے کام کی چیز ہے بھی یا نہيں ۔ اگر صد فی صد ہمارے کام کی چیز ہو تو صد فی صد اسے قبول کر لیں ، اگر صد فی صد ہمارے کام کی چیز نہ ہو بلکہ نقصان دہ ہو تو اسے صد فی صد مسترد کر دیں اور اگر ان دونوں کے بیچ کی صورت ہو تو جتنا ہمارے کام کی ہو اتنا ہی لیں اور باقی کو مسترد کر دیں یہ تو پہلا نکتہ ہے ۔ میں نے مثال دیتے ہوئے کہا تھا کہ جو شخص ، کوئی چیز ، کوئي پھل کوئي کھانے کی چیز یا کوئي دوا دیکھتا ہے ، اس کے بارے میں جانتا ہے اور اپنے ہاتھ سے اپنی مرضی سے کھاتا ہے اور اسے اٹھا کر اپنے منہ میں رکھتا ہے تو وہ شخص اس آدمی سے الگ ہوتا ہے جس کے ہاتھ پیر باندھ کر کوئی چیز زبردستی اس کے بدن میں انجیکشن کے ذریعے ڈال دی جائے ۔ ان دونوں صورتوں میں فرق ہے ۔ پہلی صورت صحیح ہے ، دوسری صورت غلط ہے ۔ ہمارے ساتھ ایسا نہیں ہونا چاہئے ، ہمیں منتخب کرنا چاہئے ۔ اس نکتے کی جانب توجہ نہيں دی گئ ۔ جو کچھ بھی لائیں ، اس کے سلسلے میں ہم بے ہوش اور گہری نیند میں سوتے آدمی کی طرح نہ ہوں کہ جو چاہیں ہمارے اندر ٹھونس دیں ۔ ثقافتی تبدیلی کے زمانے میں ہم اپنے حلق میں ہر چیز ڈالنے کا انتظار کرتے تھے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ شاگرد اور استاد کا قصہ قیامت تک نہ چلے ۔ جی ہاں ہم شاگرد بننے پر تیار ہیں اس کے جسے اس بات کا علم ہو جس کا ہمیں نہيں ہے لکن قیامت تک تو آدمی کو شاگرد ہی بنے نہیں رہنا چاہئے ، ہمیں خود بھی استاد بننا چاہئے ۔ ان دو نکات پر توجہ نہیں دی گئ ۔ ایک چیز جو ہم نے سیکھی تعلیم و تربیت سے تعلق رکھتی ہے ۔ تعلیم و تربیت کا ان کا طریقہ کار اچھا تھا جسے ہم نے ان سے سیکھ لیا ۔ جہاں تک یہ بات ہے کہ پرائمری نظام، پہلے والے نظام سے بہتر تھا ، ہائی اسکول جیسی تقسیم اچھی تھی ہم اس کا انکار نہیں کرتے ۔ یہ فائدہ مند ہے لیکن کتنا ، کس طرح سے ، اس روش کے ساتھ ، ہم نے ان باتوں پر دھیان نہیں دیا بس سب کچھ اکٹھا ہی قبول کر لیا ، انہوں نے کہا چھے کلاس ایسی ہوں چھے کلاس ویسی ہوں ہم نے وہی نظام چلا دیا اس کے بعد ان لوگوں نے اپنا طریقہ کار بدل لیا پانچ کلاس ، تین کلاس وغیرہ ۔ ہم نے بھی یہی سیکھا اس پر عمل کیا ٹھیک ہے لیکن یہ تو نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنے مختلف نصاب کی کتابوں کو لائيں اور ہم سے کہیں اسے پڑھائيں ۔ ہم نے اسی طرح سے تعلیم حاصل کی تعلیم و تربیت کا نظام ، ڈھانچے اور مضامین کے لحاظ سے ، پوری طرح تقلیدی ہے ۔ یہ صحیح نہيں ہے ہمیں غور کرنا چاہئے یہ دیکھنا چاہئے کہ ہمیں کس چیز کی ضرورت ہے یہ جو روش ہے اس میں کیا خرابی ہے ، اس میں کچھ خرابیاں ہيں جن میں سے ایک سمجھنے کے بجائے رٹنے کو اہمیت دینا ہے ، ہمارا تعلیمی نظام رٹنے پر استوار ہے بچوں کو ہمیشہ رٹنا پڑتا ہے ۔ میں آپ لوگوں سے جملہ معترضہ کے طور پر کہتا ہوں کہ یاد رکھنے کے لئے رٹنا بری بات نہيں ہے ، بچوں کا رٹنا ، ان کا پڑھنا اور زیادہ پڑھنا بری بات نہیں ہے یہ تو اچھی بات ہے کیونکہ یاد کی ہوئی چیزيں باقی رہ جاتی ہیں ۔ البتہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ چیزیں ان کی سمجھ میں ہی نہ آئيں ۔ جب ہم پڑھتے تھے تو ہمارا اسکول ذرا مختلف تھا ۔ وہاں کا نصاب اس وقت رائج تعلیمی نصاب سے مختلف تھا ۔ وہاں ہمیں گلستان پڑھائی جاتی تھی ۔ مجھے گلستان کے کچھ اشعار اور عبارتیں اسی زمانے سے آج تک یاد ہیں جب ہم گلستان پڑھتے تھے تو اس کے معانی ہماری سمجھ میں نہیں آتے تھے ۔ دھیرے دھیرے وقت گزرنے کے ساتھ ہی ان اشعار و جملوں کے معانی ہماری سمجھ میں آ گئے یہ اچھی بات ہے ۔ آدمی ممکن ہے کچھ باتوں کو صحیح طور پر نہ سمجھ پائے لیکن یاد کی ہوئی یہ چیزیں ذہنی کاوش کا ماحول بناتی ہیں ۔ حفظ کرنا اچھا ہے لیکن اس کو سب سے زيادہ اہمیت دینا برا ہے یعنی ساری کوشش رٹنے اور یاد کرنے کے لئے ہو بلکہ اہمیت سمجھے کو دی جانی چاہئے بھلے ہی اس کے ساتھ رٹ بھی لیا جائے جی تو یہ ایک بہت بڑی برائی ہے اسے دور ہونا چاہئے-
ہم نے اگر آج اس غلطی کو نہ سدھارا تو پھر کون سدھارے گا ؟ وہ ثقافتی دور ، مرحوم آل احمد غربزدگی کے بقول مغربی تمدن کی چمک دمک کے سامنے حیرت و تعجب کا زمانہ گزر گیا ، آج اس سجے ہوئے چمکتے دمکتے چہرے کی حقیقت ہمارے اور دنیا کے بہت سے لوگوں کے سامنے کھل گئ ہے ، اس کی برائیاں ، کمیاں ، بری صورت سب کچھ واضح ہو چکا ہے ۔ آج ہمیں ایسی بہت سی باتوں کا علم ہے جن کا پچاس برس قبل علم نہيں تھا ایرانی قوم کو آج اس قسم کے بہت سے حقائق کا علم ہے ۔ ہمیں آج اس کی اصلاح کرنی چاہئے ۔ یہ کام کون کرے گا ؟ اصل ذمہ دار ، تعلیم و تربیت کا ادارہ ہے ۔ لیکن مجھے کہنے دیں صحیح ہے کہ تعلیمی ادارے میں اس کے لئے ایک شعبے کی تشکیل ہوئي ہے یہ ضروری بھی ہے کے تعلیمی ادارہ اس سلسلے میں آگے بڑھے لیکن ، تعلیمی شعبوں کے ذمہ دارو! اصلی بات تو ماہرین کا نظریہ ہے ۔ آپ لوگ اعلی ثقافتی انقلاب کونسل یا دوسری جگہوں پر جو ماہرین ہیں ان کے نظریات و خیالات سے محروم نہ رہیں ، ان سے استفادہ کریں اور ایرانی قوم اور آئندہ نسلوں کے لئے ایک اہم اور بڑا کام کریں تاکہ یہ ہمیشہ باقی رہنے والی اچھائی بن جائے ۔ یہ ایک ایسی بات ہے جو میری نظر میں بہت اہم ہے ۔
دوسری بات ، اساتذہ اور تعلیمی شعبے میں تعلیم دینے والوں کی ٹریننگ اور تربیت ہے ۔ یہ بہت اہم ہے اس سلسلے میں _ خوش قسمتی سے ہمارے تعلیمی ادارے میں اساتذہ کی ٹریننگ کے بہت سے وسائل ہیں جن سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جانا چاہئے _ میرا خیال ہے کہ اس کے لئے یونیورسٹیوں کے وسائل سے بھی استفادہ کیا جانا چاہئے اور باہر والوں کے لئے دروازے بند نہیں کرنا چاہئے تمام وسائل سے فائدہ اٹھایا جانا چاہئے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی کے پاس یونیورسٹی کی ڈگری نہ ہو لیکن کسی مضمون یا کام میں اسے مہارت ہو ۔ مشہد میں کچھ ایسے اہل شعر و ادب تھے جن کے پاس یونیورسٹی بلکہ کچھ لوگوں کے پاس یونیورسٹی سے نیچے کی بھی تعلیم نہیں تھی لیکن وہ استاد تھے ، انہيں ناصر خسرو ، مسعود سعد سلمان ، سعدی ، حافظ ، صائب جیسی ہستیوں پر عبور حاصل تھا یونیورسٹیوں میں ادب کی تعلیم حاصل کئے ہوئے بہت سے اساتذہ سے کئ گنا زیادہ ! یہی صورت حال دیگر علوم میں بھی ہو سکتی ہے ان لوگوں سے محروم نہیں رہنا چاہئے ۔ اسی طرح میں دوسرے فریق سے بھی کہنا چاہتا ہوں تعلیمی ادارے کی ذمہ داری ہے کہ تمام سطحوں پر پڑھے لکھے لوگ سماج کو دے لیکن اگر ہم یہ سمجھيں کہ تعلیمی ادارے کے تحت چلنے والے اسکول ہر حالت میں یونیورسٹی میں جانے کا مقدمہ ہیں تو یہ غلط ہے ۔ جی نہیں ، کچھ لوگوں نے دنیا و آخرت کی کامیابی کو یونیورسٹی میں داخلے پر منحصر کر لیا ہے ۔ آپ نے سنا ہوگا ۔مثلا یونیورسٹی میں داخلے کے کمپٹیشن میں فیل ہونے والے کسی طالب علم نے الٹا سیدھا قدم اٹھا لیا یا ذہنی دباؤ کا شکار ہو گیا ۔ یا ماں باپ نے اس کے ساتھ سخت رویہ اختیار کیا ؟ جی نہیں جناب یونیورسٹی علمی ترقی و تحقیق کا راستہ ہے ، ٹھیک ہے ، یہ ملک کے لئے ضروری ہے ۔ آپ لوگوں کو علم ہے کہ میں تعلیم میں توسیع و گہرائی کا قائل ہوں اور اس پر زور بھی دیتا ہوں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمیں اچھے دکاندار کی ضرورت نہيں اچھے ڈرائیور کی ضرورت نہیں ، اچھے تاجر کی ضرورت نہيں ، اچھے ٹیکنیشئن کی ضرورت نہيں ہے ۔ پورے ملک کے تمام مرد عورتوں کا ہر حالت میں یونیورسٹی جانا ضروری نہیں ہے لیکن ابتدائی تعلیم کی ضرورت ہے اس طرح سے ابتدائی تعلیم جس کا ذمہ دار تعلیمی ادارہ ہے ، ضروری نہیں ہے کہ صرف یونیورسٹی میں جانے کا مقدمہ اور اس کی راہ ہموار کرنے والی ہو ۔ جی نہيں ، یونیورسٹی اچھی ہے ، ضروری ہے لیکن ابتدائی تعلیم کے ذمہ دار تعلیمی ادارے کا دائرہ اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے ۔ آپ کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ تعلیمی ادارے کے ذریعے ایسے افراد تیار کئے جائيں جنہيں ضروری حد تک علم و مہارت ہو تاکہ وہ جہاں بھی کام کریں اس حد تک علم و معلومات سے بہرہ مند ہوں ۔ اب کچھ لوگوں میں صلاحیت ہے ، اشتیاق ہے وہ یونیورسٹی چلے جاتے ہیں لیکن کچھ لوگ نہيں جاتے ، یا جانے کا شوق نہیں ہوتا یا حالات نہيں ہوتے تو وہ نہيں جاتے ۔
البتہ یہ ، انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کی بات سے مختلف ہے ۔ وہاں ہمیں ایسا کچھ کرنا چاہئے جس سے انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں یعنی اگر کسی کو شوق ہو ، صلاحیت بھی ہو لیکن مادی وسائل نہ ہوں تو ہمیں اس کی مدد کرنی چاہئے تاکہ وہ یونیورسٹی تک پہنچ سکے ۔ یہ انصاف ہے ۔ یعنی یہ سہولت سب کو حاصل ہونی چاہئے ۔ ایک بار میں نے تعلیم چھوڑ دینے والے ایک نوجوان سے اپنی عادت کے مطابق پوچھا : پڑھائی کیوں چھوڑ دی ، کیوں آگے کی تعلیم حاصل نہیں کی اور کام میں مصروف ہو گئے ؟ اس نے مجھے یونہی ایک جواب دے دیا میں نے تھوڑا اصرار کیا _ اس نے جو کام شروع کیا تھا وہ اچھا کام تھا _ وہ نوجوان اپنے خاص مشہدی لہجے میں کہنے لگا : یہ کام میرے خون میں ہے ۔ وہ کام اس کے خون میں تھا اس کے وجود میں ہے یہاں پر کہنا چاہئے ٹھیک ہے کوئي کام یا دکانداری اگر کسی کے خون میں ہے تو اسے جانے دیں کیا ضروری ہے کہ وہ ہر حالت میں یونیورسٹی جائے ، اس سے یہ اصرار کی کیا ضرورت ہے کہ نہيں تم ضرور یونیورسٹی جاؤ ۔ یہ اس معاملے پر صحیح نظریہ ہے ۔
دوسری بات ، تربیتی سرگرمیاں ہیں جیسا کہ میں نے کہا ، انقلاب کے بعد جو اچھے کام کئے گئے _ جس کے بانی مرحوم شہید با ھنر تھے خدا ان پر اپنی رحمتیں نازل کرے _ ان میں سے ایک تربیتی ادارے کا قیام ہے ۔ اسے مختلف بہانوں سے بند کر دیا گیا میں اس معاملے پر بد ظنی کے ساتھ نظر نہيں ڈالنا چاہتا لیکن بہرحال کج فکری تھی اس لحاظ سے کہ تربیت ، مختلف اساتذہ کے ذریعے کلاس میں ہونی چاہئے اسے الگ نہیں ہونا چاہئے ۔ اس مرکز کو ، جو تربیتی امور سے مخصوص تھا ، بند کر دیا گیا ۔ جی ہاں ، میرا بھی یہی خیال ہے ، میرا بھی یہی خیال ہے کہ آپ جو فزیک ، ریاضیات ، الجبرا ، ادب ، سماجیات یا جس علم کے بھی استاد ہيں ، آپ دینی امور اور اخلاقیات کے استاد اور اپنے شاگردوں میں اخلاقی اقدار کو مضبوط بنانے والے بن سکتے ہيں ۔ کبھی ایک ریاضی کا استاد ، کوئی مسئلہ حل کرتے وقت ایسی بات کہہ دیتا ہے کہ جس کے اثرات شاگرد کے دل کی گہرائی پر پڑتے اور ہمیشہ باقی رہتے ہیں اسے ہر استاد کو اپنا فرض سمجھنا چاہئے اور میں آپ لوگوں سے جو یہاں پر تشریف فرما ہیں اور تمام اساتذہ سے _ وہ چاہے جو پڑھاتے ہوں _ عرض کرتا ہوں کہ اس طرف سے غافل نہ ہوں کہ تربیت بھی آپ کے کام کا حصہ ہے اور اس سے بہتر کیا ہوگا کہ آپ استاد کے مقام اور شاگردوں پر اپنی باتوں کے اثرات سے اس سلسلے میں فائدہ اٹھائيں اور اپنے شاگرد کے دل میں ایک نورانی و روشن نقطہ پیدا کر دیں ، ممکن ہے خدا کے سلسلے میں ایک بات ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں کوئي بات ، قیامت کے بارے میں کوئی بات ، معنویت و خدا کی طرف توجہ و اس سے محبت کے بارے میں کوئی بات ، ریاضیات ، ادب ، پہلی یا دوسری کلاس کے استاد کی حیثیت سے آپ کے منہ سے نکل جائے جو اس بچے ، نوجوان اور آپ کے شاگردون کی شخصیت کو مناسب شکل عطا کر دے اور اس کے اثرات دوسری شکلوں میں سو گھنٹے بولنے سے زیادہ ہوں ۔ یہ تو اپنی جگہ پر ایک فرض ہے لیکن یہ اس بات کے منافی نہیں ہے کہ ہم تعلیمی ادارے میں ایک ایسا شعبہ بھی بنائيں جو پابندی و ذمہ داری کے ساتھ تربیتی پہلو کا خیال رکھے کیونکہ ہمیں معلوم ہے تربیت کہ بغیر تعلیم کا کوئي فائدہ نہيں ہے ۔ بغیر تربیت کے تعلیم سے انسانی سماج اسی مصیبت میں گرفتار ہو جائے گا جس میں آج ، سو ڈیڑھ سو یا اس سے زیادہ وقت کے بعد مغربی سماج پھنسے ہوئے اور اسے محسوس کر رہے ہیں ۔ یہ وہ امور ہیں جن کے اثرات دس بیس برس میں ظاہر نہیں ہوتے ۔ جب ہوش آئے گا تو نظر آئے گا کہ ایک نسل برباد ہو چکی ہے اور اب اس کا کچھ نہيں کیا جا سکتا ، ایک نسل مایوس کن ہے ۔ اس سلسلے میں میرے پاس بہت معلومات اور دہلا دینے والے اعداد و شمار ہیں _ یہاں پر ان کے ذکر کی جگہ نہيں ہے البتہ کچھ مقامات پر میں نے ان کا ذکر کیا ہے _ صریح و کھلے ہوئے اعترافات ۔ یہ نہ سوچيں کہ ہم یہاں اتنی دور بیٹھ کر یہ بات یونہی کہہ رہے ہيں جی نہیں ، یہ خود ان کی باتیں ہیں وہ انتباہ ہے جو خود وہ اپنے آپ کو دے رہے ہيں ۔ یہ واقعہ مغرب میں پیش آ چکا ہے اور یہ وہی سیلاب ہے جو گھر کو بنیاد سمیت اکھاڑ کر تباہ کر دیتا ہے ۔ بغیر تربیت کے علم ایسا ہے ۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب کسی سماج میں علمی ترقی ہوتی ہے لیکن تربیت کا انتظام نہیں ہوتا ۔ آپ مغرب کے ایٹم بم کو چھوڑیں ، مختلف قسم کی سیاسی عدم شفافیت کو چھوڑیں ، ان کے مختلف جھوٹ کو چھوڑیں ، بڑی بڑی کمپنیوں اور تنظیموں کی جانب سے فائدہ کے لئے ہاتھ پیر مارنے کو چھوڑيں ، ان کا الگ قصہ ہے تاہم وہ بھی اسی کا نتیجہ ہے ۔ اصل بات ، انسانی نسل کا ضیا‏ع ہے ۔ اس بنا پر تربیتی امور کا معاملہ بہت اہم ہے وہ بھی ایک طاقتور و مفید ادارے اور شعبے کی شکل میں ، صرف ظاہری نہیں ۔
دوسرا ایک مسئلہ تعلیم بالغاں کا ہے اور ہمیں تعلیم سے محرومیت کی اس مصیبت کو ملک سے ختم کرنا چاہئے ۔ پہلی بات تو ملک کے کچھ علاقوں میں دیکھا جاتا ہے کہ بچہ ، تعلیم شروع کرنے کی عمر میں _ وہ بچے جن کی عمر تعلیم حاصل کرنے کی ہو گئ ہے _ اسکول نہیں جاتے یہ بہت خطرناک ہے ۔ بہت بری بات ہے ۔ کچھ ایسا انتظام کیا جانا چاہئے کہ ابتدائی تعلیم حاصل کرنا سب کے لئے ضروری ہو جائے ، کم سے کم ابتدائی تعلیم کی ڈگری سب سے کے لئے ضروری قرار دی جائے ، شناختی کارڈ کی طرح ، ڈرائوینگ لائسنس کی طرح یہ ڈگری سب کے پاس رہے ۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے کہ جس کی طرف توجہ نہیں دی جاتی اور ہماری یہ عدم توجہ باعث بنتی ہے کہ ملک کے کچھ علاقوں میں کچھ لوگ اس سے غلط فائدہ اٹھائيں ۔ بچوں کو تعلیمی ادارے کے چینل سے گزرنا چاہئے اور اس مرحلے کو پورا کرنا چاہئے اس کے بعد جو بھی کریں وہ الگ بات ہے لیکن اس حد تک ضروری ہونا چاہئے ۔ تعلیمی شعبے اور تعلیم بالغاں تحریک کے ذمہ داروں کو بیٹھ کر ایک حد کا تعین کرنا چاہئے ۔ مثال کے طور پر پچاس برس یا پچپن یا ساٹھ برس سے کم عمر کے لوگ ۔ اس کے لئے ایک مدت کا تعین کریں مثال کے طور پر پانج برس کہ اس کے دوران پورے ملک میں تمام لوگوں کو تعلیم یافتہ ہو جانا چاہئے ۔ اب جو لوگ اس عمر سے زيادہ کے ہوں ان پر کم سختی کے ساتھ دھیان دیا جائے ۔ نہ یہ کہ مکمل طور پر انہیں چھوڑ دیا جائے لیکن جو لوگ پچاس یا پچپن سے کم کے ہوں چاہے مرد ہوں یا عورت ، انہيں ہر حالت میں تعلیم یافتہ ہونا چاہئے تاکہ اس معنی میں ہمارے ملک میں کوئی ناخواندہ نہ رہے ، تو جو اہم مسائل ہمارے ذہن میں تھے ہم نے انہیں آپ کے سامنے بیان کر ديئے اور میرا خیال ہے کہ ہمارے ملک کی موجودہ نئ نسل جس نے انقلاب کو دیکھا ہے ، مقدس دفاع کا مشاہدہ کیا ہے ، کسی حد تک اس وقت کے ماحول کو محسوس کیا ہے _ ان سے ہم دور نہیں ہوئے _ بہت ہی با صلاحیت ہے ۔ یہ نسل بہت سے کام کر سکتی ہے ۔ ہمیں اب بھی اپنے کاموں میں امام خمینی رضوان اللہ تعالی کی تائید محسوس ہوتی ہے ، ان کا وہ مضبوط ارادہ وہ عزم راسخ ، ملکی معاملات پر مدبرانہ و خدائی نگاہ ہمیں آج بھی محسوس ہوتی ہے ۔ایک طرح سے وہ زندہ ہیں ہم نے امام کی جو بیعت کی ہے ، انقلاب کی جو بیعت کی ہے اس کی عزت کرنی چاہئے جو لوگ امام سے ، انقلاب سے اور اسلامی جہموریہ سے کیا گیا عہد توڑتے ہیں وہ خود اپنا نقصان کرتے ہیں : «فمن نكث فانّما ينكث على نفسه و من اوفى بما عاهد عليه اللّه‏ فسيؤتيه اجرا عظيما» اس عہد کو ہمیں یاد رکھنا چاہئے ، سنبھالے رہنا چاہئے اور موجودہ نسل کے اس عہد کی بدولت _ جو خوش قستی سے پر جوش نوجوانوں سے بھری ہے _ بہت بڑے بڑے کام کئے جا سکتے ہيں جس کا ایک نمونہ ایٹمی انرجی کا معاملہ ہے جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ایرانی قوم نے پوری دنیا کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی ہے ، یہ صحیح ہے کہ سیاست داں اور تشہراتی مہم چلانے والے برا بھلا کہتے ہيں لیکن آپ کو جان لینا چاہئے کہ اقوام عالم آپ کی تعریف کرتی ہیں خود وہ سیاست داں بھی دل ہی دل میں ایران کی تعریف کرتے ہیں ۔ مختلف مذاکرات کی _ چاہے آئی اے ای اے میں ہوں چاہے دیگر سیاسی حلقوں میں _ جو تفصیلات ہمارے سامنے پیش ہوتی ہیں ان میں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ مزاحمت ، علم کے شوق اور اس قومی و علمی افتخار کے تحفظ پر ایرانی قوم کے اصرار کی تعریف کرتے ہیں تعجب میں پڑ جاتے ہيں ۔ ہمارے پاس یہ جو رپورٹیں ہیں ان سب سے یہ بات ثابت ہوتی ہے یہ ایک نمونہ ہے ۔
اگر بیس برس قبل اس ملک میں کوئي کہتا کہ ایک دن ایرانی نوجوان ، باہر کہیں تعلیم حاصل کئے بغیر صرف ادھر ادھر کی تعلیمات اور اپنی ذہنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر سینٹری فیوج مشین بنانے میں کامیاب ہو جائيں گے اور یورینئم کی افزودگی شروع کر دیں گے اور یورینئم سے بجلی پیدا کریں گے تو ایک ہزار میں سے ایک آدمی بھی اس پر یقین نہ کرتا اور سب سے پہلے جو لوگ انکار کرتے وہ خود ماہرین اور پڑھے لکھے لوگ ہوتے وہ کہتے جی نہيں! یہ نہيں ہو سکتا ۔ کیا ایسا ممکن ہے ؟ کیا یونہی ہی ہے ؟ ملت ایران نے ثابت کر دیا کہ وہ تمام میدانوں میں ایسی ہی ہے لیکن یہ معاملہ ظاہر ہو گیا ہے اور پوری دنیا کو علم ہو گیا ہے ، ایرانی قوم تمام شعبوں میں اس بات کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ اس کا شوق بھی ہے اور ان میدانوں میں اترنے کی جرات بھی اس میں ہے ۔ اچھا یہ تو واضح ہو گیا ، اس کا انکار کرنے والے پر لعنت لیکن کچھ اور چیزیں بھی آپ کا مسلمہ حق ہیں ! ( یہاں پر حاضرین ، ایٹمی انرجی ہمارا مسلمہ حق ہے کے نعرے لگاتے ہیں )
میں نے تنوع کی جو بات کی ہے وہ یہ ہے کہ تنوع کی سوچ کے ساتھ ، تنوع کے راستے پر ، اپنے نوجوانوں کی خلاقیت و تنوع پسندی کے سہارے ، ہماری قوم ، فکری و ذہنی میدانوں میں سرگرم افراد کو جن میں آپ اساتذہ بھی شامل ہیں ، آگے بڑھے خدا بھی انشاء اللہ مدد کرے گا ۔
خدا وند عالم ! اس قوم کو توفیق دے اور اس کی مدد کر ! پروردگار ! ہمارے روئے ، ہمارے اعمال اور اقدامات سے امام زمانہ ارواحنا فداہ کو راضی کر ۔ پروردگار ! ایرانی قوم کی خوشیوں میں روز بروز اضافہ کر ____

والسّلام عليكم و رحمه‏ اللّه