قائد انقلاب اسلامی نے اپنے اس خطاب میں امام خمینی (رہ) کے رہنما وصیتنامے کے بنیادی نکات پر روشنی ڈالی اور مسئلہ فلسطین اور ایٹمی توانائی کے سلسلے میں مغربی ممالک کے دوہرے معیاروں کی پالیسیوں کو شدید تنقید کا ہدف قرار دیا، آپ نے مسئلہ فلسطین میں عرب اور مسلم ممالک کی حکومتوں کی دشمن نواز پالیسیوں پر نکتہ چینی کی۔ تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
والحمد للہ رب العالمین والصلاۃ و السلام علی سیدنا و نبینا ابی القاسم محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین
انیس برس ہو گئے کہ اس موقع پر ایرانی قوم اپنے عظیم رہبر سے والہانہ عقیدت اور عشق و محبت سے زمان و مکان کو معطر کرتی آ رہی ہے۔ ہماری قوم میں بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے جنہوں نے امام خمینی (رہ) کی بابرکت زندگی کے ایام نہیں دیکھے، یا تو وہ اس وقت پیدا ہی نہیں ہوئے تھے یا پھر اگر پیدا ہوئے تھے تو امام خمینی کی زندگی کے ان آخری اہم ترین اور بابرکت دس برسوں میں کم سن بچے تھے، لیکن آج ملک کے یہی نوجوان اپنے امام (خمینی رہ)، آپ کی یاد اور آپ کے نام کے ایسے پروانے اور دیوانے ہیں کہ گویا امام (خمینی رہ) کی ہمنشینی کی لذت اٹھا چکےہوں۔ جیسا کہ دعای سمات میں ہم پڑھتےہیں آمنا بہ و لم نرہ صدقا و عدلا اس عظیم شحصیت پر ایمان خالص رکھتے ہیں حالانکہ ان کی حیات طیبہ میں ان کی صحبت میں اٹھنے بیٹھنے کا موقع نہیں مل سکا۔ یہ چیز ہماری قوم تک ہی محدود نہیں ہے۔ دنیا کے بہت سے علاقوں اور مسلم ممالک میں، امام خمینی (رہ) کے تعلق سے یہی کیفیت پائی جاتی ہے۔ اس کے دو بنیادی اسباب ہیں، ایک تو امام (خمینی رہ) کی عظمت اور گوناگوں صفات کی حامل آپ کی شخصیت ہے جوعصر حاضر بلکہ ماضی قریب کی بھی بے مثال شخصیت ہے۔ دوسرے انقلاب کی عظمت۔ ہمارے بزرگوار امام (خمینی رہ) نے اپنے ایمان و ارادہ راسخ اور دور اندیشی سے تاریخ کے اس حصے میں جو کارنامہ انجام دے دیا یعنی اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل، اس کی عظمت بھی آپ کی عظمت پر دلیل ہے۔ یہ انقلاب ایک الہی مجعزہ تھا۔ دشمنوں نے اسلام اور امت مسلمہ کے خلاف تقریبا سو سال کے طویل عرصے تک پروپگنڈہ اور سازشیں کی تھیں، پچاس برس ہو چکے تھے کہ ملک کی مغرب نواز اور پٹھو حکومت قوم کے مفادات کو دشمنوں اور اغیار کی خوشنودی کی نذر کر رہی تھی اور اس نے ملک کو پوری طرح اغیار کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا۔ ان حالات میں امام (خمینی رہ) نے اسلام کا نعرہ اور سامراج اور تسلط پسندی کی نفی کا پرچم بلند کیا اور اپنی تحریک کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ اسلامی انقلاب، دنیا کے دیگر انقلابوں سے مختلف ہے۔ یہ محض روحانی اور ثقافتی انقلاب نہیں، یہ صرف اقتصادی یا سیاسی انقلاب نہیں بلکہ ایک جامع اور ہمہ گیر انقلاب ہے۔ یہ بالکل دین اسلام کی مانند ہے۔ اسلام میں اخلاقی، روحانی اور الوہی پلوؤں کے ساتھ ہی انسانی زندگی پر بھرپور توجہ دی گئی ہے، اسلام میں سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی سبھی پہلو شامل ہیں۔ اسلامی انقلاب کی پائداری اور علاقے و دنیا میں اس کی روز افزوں مقبولیت اور وسعت کا راز بھی انسانی زندگی کی ضروریات سے ہم آہنگ تمام پہلوؤں پر اس کا احاطہ ہے۔
امام (خمینی رہ) نے اپنی رفتار و گفتار سے امت کے لئے ایک دائمی سر چشمہ ہدایت جاری کر دیا ہے یعنی زندگی کے ہر نشیب و فراز میں اور ہر موڑ پر (اعانت و مدد کے لئے) امام (خمینی رہ) کا سہارا اور (رہنمائی کے لئے) آپ کی تعلیمات موجود ہیں۔ آپ کی بہترین اور موثر ترین میراث آپ کا وصیت نامہ ہے۔ عوام، حکام اور نوجوانوں کو تمام مواقع پر اس وصیت نامے سے مستفیض ہونا چاہئے، اس پر غور و خوض کرنا چاہئے۔ میں اس عظیم اجتماع اور آپ کے آگاہ و بیدار اذہان کو دیکھتے ہوئے اہم نکات سے بھرے امام (خمینی رہ) کے وصیت نامے کے چند نکات کی جانب اشارہ کرنا چاہوں گا۔
سب سے پہلا نکتہ یہ ہے کہ امام (خمینی رہ) نے اپنے وصیت نامے میں تاکید کے ساتھ فرمایا ہے کہ یہ انقلاب ایک الہی انقلاب ہے اور اس کے بنیادی ستون عوام ہیں۔ یعنی اس انقلاب کا تعلق عوام سے ہے۔ اس بات کے معنی یہ ہیں کہ کوئي بھی فرد، کوئي بھی طبقہ، اور کوئي بھی شخص اس انقلاب پر اپنی مالکیت کا دعوا نہیں کر سکتا، خود کو اس کا بلا شرکت غیرے مالک اور دوسروں کو اس انقلاب کا پناہ گزیں تصور نہیں کر سکتا۔ اگر انقلاب پر مالکیت کے دعوے کا تصور ہوتا تو سب سے پہلے مرحلے میں یہ انقلاب خود امام (خمینی رہ) کی ملکیت ہوتی جن کے عزم و ارادے اور جن کی شخصیت کے محور پر یہ انقلاب معرض وجود میں آیا ہے لیکن امام کا تو یہ عالم ہے کہ خود کو ہیچ اور اللہ تعالی کو سب کچھ قرار دیتے ہیں، آپ کی تقاریر اور آپ کے وصیت نامے میں یہ نکتہ پوری صراحت کے ساتھ بیان کیا گيا ہے۔ القصہ یہ کہ اس انقلاب کی مالک پوری قوم ہے۔ ہر کسی کے دوش پر اس عظیم الہی نعمت و امانت کی حفاظت و پاسبانی کی ذمہ داری ہے۔ قوم کو چاہئے کہ خود کو اس انقلاب کی محافظ سمجھے۔ انقلاب کے تشخص اور اس کی حقیقت کا دار و مدار انقلاب کے نعروں پر ہے، اس کے موقف پر ہے، اس کی قدروں اور اصولوں پر ہے۔ ایسے افراد ہمیشہ سے تھے، ہیں اور رہیں گے جو یہ بہانہ پیش کرکے کہ حالات بدل چکے ہیں، مطالبہ کرتے ہیں کہ انقلاب کے نعروں میں تغیر پیدا ہونا چاہئے یا یہ کہ دینی نعروں اور دینی پہلوؤں کو انقلاب سے علاحدہ کر دیا جانا چاہئے یا سماجی مساوات کا عنصر اس سے نکال دینا چاہئے یا اغیار کی مخالفت اور تسلط پسندی کی نفی کے خیال کو انقلاب سے علاحدہ کر دینا چاہئے یا استبداد کی مخالفت بند کر دینی چاہئے۔ مختلف بہانوں کے ساتھ مختلف رجحانات سامنے آ سکتے ہیں اور انقلاب کے نعروں کو بدل دینے کی کوششیں ہو سکتی ہیں۔ عوام کو ہوشیار رہنا ہوگا، یہ بات ذہن نشین رکھنی ہوگی کہ یہ انقلاب اپنے نعروں سے ہی زندہ ہے۔ تحریک کے دوران پرچم انقلاب پر جو اصلی اور بنیادی نعرے رقم کئے گئے تھے وہ اسلامی ماہیت کے نعرے ہیں، دین و دینی اصولوں پر عمل آوری کے نعرے ہیں۔ سامراج کی مخالفت کے نعرے ہیں، تسلط پسندی کی نفی کے نعرے ہیں، دنیا کے مظلوموں کی حمایت کر نعرے ہیں اور وہ بھی تمام مظلوموں کی مخلصانہ اور آشکارہ حمایت کے نعرے۔
اس انقلاب کے اہم ترین نعروں میں ایک، انقلاب کا تمام عوام سے متعلق ہونا ہے۔ انقلاب سے رابطے کے سلسلے میں کسی بھی طبقے کو دوسرے پر کوئي ترجیح اور برتری حاصل نہیں ہے۔ آج کے نوجوان بھی، مقدس دفاع کے ایام کے نوجوانوں کی ہی مانند اس انقلاب کے مالک ہیں۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جن لوگوں نے انقلاب کو وجود بخشا یا اس کے معرض وجود میں آنے کے عمل میں کردار ادا کیا ہے، انقلاب پر ان کا حق زیادہ ہے۔ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ بہت سے ایسے افراد تھے جنہوں نے انقلابی تحریک کی تشکیل میں شرکت نہیں کی لیکن مقدس دفاع کا موقع آیا تو جاں بکف وارد میدان کارزار ہوئے۔ انقلاب سے ان کی نسبت بھی کسی سے کم نہیں ہے۔ مقدس دفاع کے اختتام کے بعد ان بیس برسوں میں ایسے نوجوان سامنے آئے ہیں جو اپنی آگاہی و بیداری، اپنے غیر معمولی جوش و خروش، اپنے والہانہ لگاؤ، اپنے پاکیزہ جذبات، اپنی علمی کاوشوں اور سیاسی و سماجی کوششوں سے اس انقلاب کی بقا اور ترقی کے ضامن بن گئے۔ یہ بھی فرزندان انقلاب ہیں۔ یہ بھی انقلاب کے مالک ہیں۔ انقلاب سے ان کی نسبت انہی لوگوں کی مانند ہے جو صدر انقلاب میں موجود تھے۔ آئندہ بھی یہ سلسلہ رہے گا۔ نوجوان نسل، ایک کے بعد ایک آنے والی نسلیں سب کی انقلاب سے یکساں نسبت ہے۔ سب انقلاب میں شریک اور اس امانت کی حفاظت کی ذمہ دار ہیں۔
ہمارے آج کے نوجوان، موجودہ نوجوان نسل اور آئندہ نسلیں، یاد رکھیں کہ انقلاب کی راہ ایسی راہ ہے جس پر چلنے کے لئے عزم محکم، ایمان مستحکم اور ثبات قدم کی ضرورت ہے۔ کچھ میں یہ ثابت قدمی ہے، کچھ بیچ راستے سے پلٹ جاتے ہیں، البتہ یہ لوگ خود اپنا نقصان کرتے ہیں۔ فمن نکث فانّما ینکث علی نفسہ انقلاب کی راہ سے پلٹ جانے والوں کی مثال، تپتے موسم گرما میں روزہ رکھنے والے ان افراد کی ہے جو پورا دن روزہ رکھتے ہیں لیکن غروب آفتاب سے ایک دو گھنٹہ قبل ان کی طاقت جواب دے جاتی ہے اور وہ روزہ توڑ لیتے ہیں۔ یہ شخص تو سرے سے روزہ نہ رکھنے والے کے مترادف ہے۔ دن کے کسی بھی حصے میں روزہ باطل کرنا، روزے کو ختم کر دینا ہے۔ راہ انقلاب میں بھی اگر ثابت قدمی نہ ہو، سعی پیہم نہ ہو تو انسان کا انقلاب سے رابطہ منقطع ہو جاتا ہے۔ ہمارے امام (خمینی رہ) کی وصیت یہ ہے کہ ہمارے نوجوان، ہمارے عوام اور مختلف نسلیں حقیقت پسندانہ نظر رکھیں۔ بنیادی حقیقت انقلاب ہے، افراد نہیں۔ انقلابی ہونے کا انحصار، انقلاب سے رابطہ برقرار رکھنے اس پر عمل پیرا رہنے اور اس سے اپنے لگاؤ اور انسیت کی حفاظت پر ہے۔ یہ پہلا نکتہ۔
دوسرا نکتہ یہ کہ امام (خمینی رہ) نے اپنے وصیتنامے میں فرمایا ہے کہ اس انقلاب کا دائرہ بڑھتا جائے گا۔ عالم اسلام سے تسلط پسند طاقتوں کو باہر نکالتا جائے گا۔ یہ امام (خمینی رہ) کی پیشین گوئي ہے۔ آج ہم زمینی حقائق پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ چیز ہمیں صاف نظر آتی ہے۔ امام (خمینی رہ) کی نظر میں انقلاب کے دائرے کی وسعت دیگر ممالک میں فتنہ و آشوب برپا کرکے نہیں، لشکر کشی کے ذریعے نہیں، دہشت گردی کے ذریعے نہیں جیسا کہ بعض دیگر انقلابوں کا خاصہ رہا ہے، بلکہ انقلاب کے دائرے کی وسعت قوموں کے لئے اسلامی جمہوری نظام کے نمونہ عمل بن جانے کی شکل میں ممکن ہے۔ یعنی ملت ایران اسلامی جمہوری نظام کو اس مقام پر پہنچا دے کہ جب دیگر اقوام اس نمونے کو دیکھیں تو ان میں رشک اور اشتیاق کے جذبات پیدا ہوں، وہ اس کی پیروی کریں۔ اسلامی تعلیمات کی ترویج اور عالم اسلام کی مظلوم قوموں کی آشکارہ حمایت کے ذریعے، جو سامراجی طاقتوں کے ظلم و استبداد کا نشانہ بنی ہوئي ہیں، اس انقلاب کا دائرہ بڑھانا ہے۔
اس انداز سے اسلامی نظام کا دائرہ بڑھایا جا سکتا ہے۔
آج دنیا کی قوموں کی نگاہیں ملت ایران پر ٹکی ہوئی ہیں، انہیں ملت ایران سے حوصلہ ملتا ہے، جوش و جذبہ ملتا ہے، توانائي ملتی ہے۔ آج ملت ایران کے سامراج مخالف نعرے پورے عالم اسلام پر چھائے ہوئے ہیں۔ آج آپ عالم اسلام کے کسی بھی خطے میں جائيں، خواہ وہاں کوئي بھی حکومت اور کوئي بھی نظام ہو، آپ پائيں گے کہ قومیں، آپ کے وضع کردہ نعروں، آپ کے دلوں میں انگڑائياں لینے والے جذبات اور امنگوں کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔ ظلم کی نفی، تسلط پسندی کی مخالفت، مظلوموں کی حمایت، ملت فلسطین کا دفاع اور صیہونزم کے آکٹوپس کی آشکارہ مخالفت کے نعرے مسلم اقوام کی دلی خواہشات کے آئينہ دار ہیں۔ اسی کو کہتے ہیں انقلاب کے دائرے کی وسعت۔ حتی ملت ایران کا جوہری توانائي کے حصول کا نعرہ، دشمنوں کے دباؤ کا ڈٹ کر مقابلہ اور اپنے حق پر اصرار آج عالم اسلام میں اس درجہ زباں زد خاص و عام ہو چکا ہے کہ مسلم اور عرب ممالک کےترجمان اعلان کر رہے ہیں کہ جوہری توانائي کا مطالبہ عرب قوموں کا قومی اور عوامی نعرہ بن چکا ہے۔
ایرانی قوم کے دوست اور دشمن سب معترف ہیں کہ انقلاب کے دائرے کی جس وسعت کی پیشین گوئي امام (خمینی رہ) نے کی تھی آج عملی صورت میں نظر آ رہی ہے۔ اس کی ایک مثال مسئلہ فلسطین ہے۔ قوموں کے دل، ملت فلسطین کے لئے ایرانی قوم کی طرح دھڑکنے لگے ہیں۔ ایرانی قوم کی مانند دیگر قومیں بھی اسرائیل کو علاقے پر مسلط کردہ جعلی حکومت قرار دیتی ہیں۔ البتہ اس سلسلے میں حکومتیں قوموں کی ہم خیال نہیں ہیں اور افسوس کہ اسی چیز سے اسرائيل کی تقویت ہو رہی ہے۔ صیہونی حکومت کے اندر اپنی کوئي توانائي اور قوت نہیں ہے، اس میں تو ٹھیک سے کھڑے ہونے تک کی سکت نہیں ہے۔ دو بنیادی وجوہات ہیں جن کی بنا پر صیہونی حکومت کا وجود برقرار ہے۔ ایک تو اس نگوں بخت حکومت کے لئے امریکہ کی شرمناک حمایت اور دوسرے عرب اور مسلم حکومتوں کی جانب سے فلسطینی عوام کی حمایت کا فقدان۔ افسوس کہ آج بہت سی مسلم حکومتیں فسلطین کے سلسلے میں اپنے فریضے کی کما حقہ ادائگی نہیں کر رہی ہیں اور اپنی قوموں کا ساتھ نہیں دے رہی ہیں۔ اگر وہ بھی اپنی قوموں کی آواز سے آواز ملا دیں اور مظلوم فلسطینی قوم کی حمایت میں اتر آئيں تو علاقے کے حالات یکسر بدل جائیں گے۔ یہ قوموں کی دلی خواہش ہے اور یہ دائرے کی وہی وسعت ہے جس کی پیشین گوئي امام (خمینی رہ) نے کی تھی۔
امام (خمینی رہ) کے وصیت نامے کا تیسرا اہم نکتہ جو آپ کی زندگی کے ان (آخری) دس برسوں کے دوران آپ کی تقاریر میں بہت وسیع پیمانے پر نظر آیا اور جو قوم اور ہمارے نوجوانوں کے لئے بے حد اہم ہے، یہ ہے کہ اسلامی انقلاب قوم کی ترقی کا سہارا ہے، قوم کی خلاقیت و ابتکار عمل کا سہارا ہے، بالکل اس کے برخلاف جس کا اسلام دشمن طاقتیں برسوں سے پروپیگنڈہ کر رہی تھیں۔ اسلام دشمن طاقتیں یہ ظاہر کرتی تھیں کہ دینداری اور ترقی میں تضاد ہے۔ یہ ایک دوسرے کے منافی ہیں۔ اگر کوئي قوم ترقی کرنا چاہتی ہے تو اسے دین سے اپنا رشتہ توڑنا ہوگا، اسے مغربی طور طریقے اختیار کرنا ہوں گے اور خود کو مغربی رنگ میں رنگنا ہوگا تب ہی ترقی ممکن ہے۔ اس چیز کو دسیوں سال سے ایرانی قوم کو باور کرایا جا رہا تھا۔ امام (خمینی رہ) نے ابتداء انقلاب سے آخر تک اور اپنے وصیت نامے میں تاکید کے ساتھ فرمایا کہ انقلابی جذبہ، پیش رفت و ترقی کا جذبہ ہے، پیش قدمی کا جذبہ ہے، خلاقیت و ابتکار عمل کا جذبہ ہے۔ عملی میدان میں ایرانی قوم نے یہ ثابت بھی کر دیا۔
آج ملت ایران میں خود اعتمادی ہے۔ قوم علم و دانش کے میدان میں سرگرم عمل ہے، سیاست کے میدان میں سرگرمیاں انجام دے رہی ہے، یہ قوم جس میدان میں بھی قدم رکھتی ہے صف اول میں اپنا مقام بنا لیتی ہے۔ سائنسی خلاقیت، سیاسی قوت، عالمی احترام و عزت کے لحاظ سے قوم آج جس مقام پر ہے، انقلاب سے قبل کے دور سے اس کا کوئي مقابلہ ہی نہیں۔ یہ قوم بیدار ہو چکی ہے۔ اس کے اندر زندگی انگڑائیاں لے رہی ہے۔ یہ انقلاب کا ثمرہ ہے۔ یہ انقلابی روح اور جذبہ، قوم کے اندر جتنا زیادہ بڑھے گا خلاقیت اور ابتکار عمل کے جذبے میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔ جیسا کہ خود انقلاب بھی ایک بہت بڑا ابتکار عمل ہے۔ امام (خمینی رہ) نے اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کی شکل میں، پسماندگی اور مغرب زدگی کے بیچ کا راستہ پیش کیا۔
قومیں سمجھتی تھیں کہ یا تو پسماندگی کو قبول کر لیا جائے یا مغرب زدہ بن جایا جائے۔ امام (خمینی رہ) نے کہا کہ نہیں، ایک صراط مستقیم ایسا ہے جس پر چل کر انسان مغرب زدہ ہوئے بغیر پیش رفت و ترقی کی منزلیں سر کر سکتا ہے۔ ایرانی قوم اسی راستے پر چلی ہے۔ عزیز نوجوانو! اپنے وطن کی ترقی و پیش رفت کے لئے جتنا ممکن ہو اس راستے سے گہرا تمسک اختیار کرو۔ اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور اپنی صلاحیتوں پر بھرپور اعتماد کے ساتھ تم راستے کی تمام رکاوٹوں کو دور کر سکتے ہو۔
جوہری توانائي اور اسی طرح کے دیگر معاملاتے میں ایرانی قوم سے سامراج کی دشمنی اور عالمی سازشوں کی ایک وجہ یہی ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ امریکی سب سے آگے ہیں اور یورپی ان کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے ملت ایران کو جوہری توانائي سے محروم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ دھمکیاں دیتے ہیں، گیدڑ بھبکیاں دیتے ہیں، ان ممالک سے جوہری معاہدے کرتے ہیں جو سائنسی اور صنعتی لحاظ سے ایران سے کوسوں پیچھےہیں۔ اس کو کیا معنی پہنائے جا سکتے ہیں؟ اس کے معنی یہی ہیں کہ اگر جوہری توانائي کسی قوم کو ان کا دست نگر بنا دے ان پر اس کا انحصار بڑھا دے تو ان کی نظر میں اس قوم کے لئے جوہری توانائي کا حصول جائز ہے، وہ چیں بجبیں اس جوہری توانائي پر ہو جاتے ہیں جسے کوئي قوم اپنی خلاقی صلاحیتوں کو بروی کار لاتے ہوئے ان کی جانب دست نیاز دراز کئے بغیر اور پوری خود مختاری کے ساتھ حاصل کر لے۔ ہمارے عزیز نوجوانوں اور ہماری عظیم قوم کا طرہ امتیاز یہی ہے کہ اس نے سائنس و صنعت کی چوٹیاں اپنی ذاتی صلاحیتیں بروی کار لاکر فتح کی ہیں۔ اس قوم نے دوسروں پر انحصار کرنے کے بجائے انحصار کے خلاف اقدام کیا۔ یہی جوہری توانائي دنیا کی بعض قوموں کو دیکر سامراجی حکومتیں انہیں اپنا محتاج بنا رہی ہیں لیکن ملت ایران اپنی صلاحیتوں میں روز افزوں اضافہ کر رہی ہے، تخلیقی صلاحیتیں بروی کار لا رہی ہے، نئے راستے وضع کر رہی ہے۔ ملت ایران کے دشمنوں اور عالمی سامراج کو یہ برداشت نہیں ہو رہا ہے۔
امام (خمینی رہ) کے وصیتنامے میں ایک اور انتہائي اہم نکتہ دشمن کے نفسیاتی حربوں اور سرد جنگ سے چوکسی ہے۔ جب دشمن میدان میں بے بس ہو جاتا ہے تو نفسیاتی جنگ شروع کرتا ہے، مایوسی اور نا امیدی پھیلانے کے لئے، قوموں کے حوصلے پست کر دینے کے لئے دھونس دھمکیوں اور نفسیاتی جنگ کا سہارا لے کر قوموں کو پسپا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ دشمن عملی میدان میں ملت ایران کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔ یہ نفسیاتی جنگ انقلاب کے آغاز سے جس کو تیس سال کا عرصہ ہو رہا ہے، آج تک جاری ہے۔ کبھی کہتے تھے کہ یہ انقلاب دو مہینے سے زیادہ نہیں چلے گا۔ کبھی فرماتے تھے کہ دو سال میں اس کا کام تمام ہو جائے گا۔ آج تیس سال ہونے کو آئے اور انقلاب پوری آب و تاب کے ساتھ آگےبڑھ رہا ہے اور ملت ایران روز بروز زیادہ متحد، زیادہ پر امید اور زیادہ توانا ہوتی جا رہی ہے۔
اس وقت مختلف شکلوں میں سرد جنگ اور نفسیاتی حملے جاری ہیں۔ آج ملت ایران اور ایرانی نوجوانوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ سامراجی طاقتوں سے تعلقات کے بغیر کوئی کامیابی ملنے والی نہیں ہے۔ یہ بہت بڑا خطرہ ہے جس پر امام (خمینی رہ) نے ہمیشہ توجہ رکھی۔ دشمن ملت ایران کے عظیم کارناموں اور ترقی کا انکار کرتے ہیں۔ ان تیس برسوں میں انقلاب متعدد رکاوٹوں سے گزرا ہے۔ انقلابوں کی تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب اتنے بڑے مسائل اور اتنی بڑی رکاوٹیں ہوں تو انقلاب کا آگے بڑھ پانا نا ممکن ہو جاتا ہے۔ انقلاب ان رکاوٹوں کے سامنے بے دست و پا نظر آتے ہیں اور دب جاتے ہیں، لیکن ایک ملت ایران کا انقلاب ہے جو ان تمام خطروں، پابندیوں، دشمنیوں، حیلوں، مکاریوں اور غیر قانونی حرکتوں کا سامنا کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہی جا رہا ہے، نئی نئی چوٹیاں سر کر رہا ہے، اس کی نگاہیں بدستور بلندیوں پر ٹکی ہوئی ہیں اور وہ مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ دشمن ملت ایران کا یہ جوش و جذبہ اور بلند ہمتی ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ میں اپنے عزیز نوجوانوں، یونیورسٹیوں سے وابستہ نونہالوں، دینی تعلیمی مراکز کے مجاہدوں، صنعت و زراعت اور علم و ہنر کے میدان کے شہسواروں کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ ابھی بیچ راستے میں ہیں، اب تک جو راستہ آپ نے طے کیا ہے بہت دشوار گزار تھا لیکن آپ کامیاب رہے ہیں، اب باقی بچے راستے کو طے کرنا ہے اور دشمن ہرگز نہیں چاہتا کہ آپ یہ کامیابی حاصل کریں اور خود کو بلندیوں پر پہنچا دیں۔ آپ پختہ ارادے کے ساتھ یہ سفر پورا کر سکتے ہیں، آپ میں اس کی صلاحیت ہے اور آپ نے اپنی اس صلاحیت کا لوہا بھی منوایا ہے۔
آج ملت ایرانی با وقار انداز میں ثابت قدمی کے ساتھ، سامراجی طاقتوں کے مد مقابل کھڑی ہے۔ وہ کچھ بھی نہیں بگاڑ سکیں، ان سے جو کچھ بن بڑا ہمارے ملک کے گوشہ کنار میں انہوں نے کیا ہے کہ شائد اس ملک کا محاصرہ کرنے میں کامیابی حاصل ہو جائے لیکن ملت ایران کی دانشمندی و ہوشیاری، اتحاد و یکجہتی اور ایمان و دینداری کے نتیجے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی قوت و طاقت میں اضافہ ہوا جس کے معترف وہ خود بھی ہیں۔
امام (خمینی رہ) کے وصیتنامے میں ایک اور اہم نکتہ نوجوانوں کو دشمنوں کی ان سازشوں سے خبردار کرنا ہے جس کا ہدف صرف اور صرف یہی نوجوان ہیں۔ اگر کسی قوم کا نوجوان طبقہ اسے انجن کی طرح آگے لے جا رہا ہے تو اس کے لئے توانائي و تندرستی، بلند ہمتی اور پیش رفت و ترقی سے گہری دلچسپی ضروری ہوتی ہے۔ ایرانی نوجوانوں کے ان خصوصیات کو ختم کرنے کے لئے بد عنوانی، فحاشی، منشیات، منظم مافیا گروہوں اور دیگرسازشوں سے ایرانی نوجوانوں کو ورغلانے اور بہکانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایرانی نوجوان کو ہوشیار رہنا چاہئے۔ آج ایرانی حکام منشیات کا پوری سنجیدگی اور تندہی سے مقابلہ کر رہے ہیں تو یہ بہت بڑا جہاد ہے۔ یہ ملت ایران کی ترقی کی راہ پربہت بڑا قدم ہے۔ دشمن نہیں چاہتے کہ ایرانی نوجوان، تجربہ گاہوں میں، ورکشاپ میں، یونیورسٹی میں، علمی میدان میں اور صنعت و زراعت کے شعبے میں دلچسپی لے۔ اگر نوجوان، شہوانی مسائل سے دوچار اور منشیات کا اسیر ہو جائے تو نہ اس میں کام کرنے کی لگن رہ جائے گی اور نہ غور و فکر کرنے کی طاقت۔ وہ نہ تو محنت کر سکے گا اور نہ ہی کوئي خلاقیت۔ اس میں حوصلہ رہ جائے گا نہ محکم ارادہ۔ آج ایرانی نوجوانوں کو شہوانی خواہشات، منشیات اور اخلاقی انحطاط کی جانب دھکیلنے کے لئے بڑی منظم اور خطرناک سازشیں کی جا رہی ہیں۔ ان کا سد باب کرنے کی ذمہ داری سب سےپہلے مرحلے میں خود عوام بالخصوص نوجوانوں پر عائد ہوتی ہے، نوجوانوں کو ہوشیار رہنا چاہئے۔ دشمن کو علم ہے کہ ایرانی نوجوان کا تقوی و پرہیزگاری اور ایمان و دینداری، مختلف میدانوں میں اس کی پیش رفت و ترقی کی ضمانت ہے۔ وہ اسی پہلو کو کمزور کر دینا چاہتاہے۔
امام (خمینی رہ) نے نوجوانوں، یونیورسٹی سے وابستہ افراد، دینی تعلیمی مراکز کے طلبا اور پوری نوجوان نسل کو خبردار کیا ہے کہ بیدار و ہوشیار رہیں۔ نوجوانوں کو بے حوصلہ اور پست ہمت بنا دینے کا مطلب ایک قوم کو پسماندگی سے دوچار کر دینا ہے۔ پوری قوم کو اپنی ذمہ داری محسوس کرنی چاہئے۔ حکام کو بھی اس سلسلے میں پوری سنجیدگی سے کوششیں کرنی چاہئیں کہ یہ بہت بڑا جہاد ہے۔
امام (خمینی رہ) کے وصیتنامے اور خطابات کا ایک اور بنیادی نکتہ دنیا کی تسلط پسند طاقتوں کا مقابلہ ہے۔ یوں تو تاریخ کے ہر دور میں تسلط پسند طاقتیں موجود رہی ہیں لیکن سائنس و ٹکنالوجی کی ترقی اور جدید مواصلاتی نظام کے نتیجے میں ان طاقتوں کا کام آسان ہو گیا ہے۔ اب آپ دیکھ رہے ہیں کہ امریکی پوری دنیا کو حریص نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ کہہ کر کہ فلاں مقام پر ہمارے مفادات کو خطرہ لاحق ہے، وہ درآنہ گھس جاتے ہیں، گویا ان کے مفادات کے سامنے دنیا کے مفادات کی کوئی حیثیت اور وقعت ہی نہیں، قوموں کے مفادات در خور اعتنا ہی نہیں۔ اب اس غنڈہ گردی، بے حسی اور زبردستی پر کیا کرنا چاہئے؟ دو طریقے اختیار کئے جا سکتے ہیں۔ ایک تو سر تسلیم خم کر دینا اور دوسرے آستینیں چڑھا کر ڈٹ جانا ہے۔ اگر تسلط پسندوں کے سامنے ہتھیار ڈال دئے گئے تو ان کی جرئت اور بڑھے گي، قومیں، سیاستداں اور دانشور اگر دنیا کی سامراجی طاقتوں کے سامنے جھک گئے تو ان طاقتوں کے حوصلے اور بلند ہو جائيں گے، انہیں بڑھاوا مل جائے گا۔ لہذا قوموں کے پاس ایک ہی راستا بچتا ہے اور وہ ہے استقامت اور مزاحمت کا راستہ۔ موجودہ دور میں اگر کوئي قوم اور معاشرہ چاہتا ہے کہ تسلط پسند طاقتوں اور امریکہ کی شیطنت سے نجات حاصل کرے تو چاہئے کہ امریکہ کی زور زبردستی کے خلاف پوری طاقت سے ڈٹ جائے۔
آج آپ ذرا غور کریں کہ امریکی حکام، صدر اور ان کی ٹیم کے افراد کس لہجے میں گفتگو کرتے ہیں۔ ان کا انداز گفتگو ذہنی مریضوں جیسا ہے۔ کبھی دھمکی دینے لگتے ہیں، کبھی قتل کے احکامات جاری فرما دیتے ہیں، کبھی الزام تراشیاں کرتے ہیں، کبھی بے بسی کے عالم میں مدد مانگتے ہیں اور کبھی ایک قوم کے امن و ثبات پر حملے شروع کر دیتے ہیں۔ پاگلوں کی مانند ادھر ادھر سر مارتے ہیں۔ ان کی حرکتیں عقلمند اور باہوش سیاستدانوں جیسی نہیں ہیں۔ البتہ اس حالت کا ایک حصہ تو مختلف علاقوں میں امریکہ کی ناکامیوں کا رد عمل ہے۔ عراق اور افغانستان کی ناکامیوں کا رد عمل۔ یہ لوگ جمہوریت، آزادی اور انسانی حقوق کے وعدوں کے ساتھ عراق اور افغانستان میں داخل ہوئے، کئی سال گزر جانے کےبعد بھی آج ان ممالک کی یہ حالت ہے کہ کوئي بھی قوم نہیں چاہتی کہ اس کی زندگی میں ایسے دن آئیں۔ بد امنی، پسماندگی، غربت، سامراجی طاقتوں کا روز بروز مضبوط ہوتا قبضہ، قومی مفادات کی نابودی اور ان کے حقوق کی پامالی کے مناظر سامنے ہیں، البتہ سامراجی طاقتیں بھی اپنے اعلان شدہ اور خفیہ مقاصد کی تکمیل میں ناکام رہیں۔ ان ناکامیوں کے اثرات امریکی حکام کے مزاج اور برتاؤ میں صاف نظر آتے ہیں۔ ان کے اختلافات میں، فیصلوں میں اور تشویش میں ان کے اثرات نمایاں ہیں، تو یہ ہے دنیا کے تسلط پسندوں کی حالت۔ اب سوال یہ ہے کہ ان زور زبردستیوں پر کیا کرنا چاہئے؟ امام (خمینی رہ) کا مشورہ تو مزاحمت اور استقامت کا ہے۔ آج خوش قسمتی سے ہماری قوم کے مختلف سیاسی حلقے امام (خمینی رہ) کے موقف اور روش کی پیروی پر فخر کرتے ہیں۔ یہ بہت خوش آئند بات ہے۔ سبھی سیاسی حلقے امام (خمینی رہ) کی روش سے وفاداری کا اعلان کرتے ہیں تو انہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ایک اہم نکتہ جو امام (خمینی رہ) کے خطابات اور وصیت نامے میں صریحی الفاظ میں بیان کیا گيا ہے، سامراجی طاقتوں کے سامنے مزاحمت و استقامت ہے۔ ملک کے تمام حلقوں اور شخصیات کو، جو امام (خمینی رہ) کے افکار و نظریات کے پےرو ہیں، پوری شدت سے اس موقف کی حفاظت کرنی چاہئے۔ امام (خمینی رہ) نے کبھی بھی دنیا کی تسلط پسند طاقتوں کے لحاظ میں مظلوموں کی حمایت سے ہاتھ نہیں کھینچا۔ آپ نے ہمیشہ مسئلہ فلسطین کو کلیدی مسئلہ قرار دیا۔ امام (خمینی رہ) نے اپنے وصیتنامے اور بیانوں میں مظلوم قوموں کی طلب نصرت کی آواز پر توجہ دی۔ مظلوموں کے حقوق کا دفاع، فلسطینی عوام اور ہر مظلوم قوم کی کھل کر حمایت کی۔ یہ امام (خمینی رہ) کی روش ہے، یہ امام (خمینی رہ) کی راہ ہے، یہ امام (خمینی رہ) کا شیوہ اور سفارش و وصیت ہے۔ خوش قسمتی سے ملت ایران اور ہمارے حکام نے اسی روش کو اپنایا۔ تیس سال کے عرصے میں ایرانی قوم نے امریکی سامراج کو للکارا اور بار بار شکست سے دوچار کیا۔
البتہ دشمن نچلا بیٹھنے والا نہیں ہے۔ اس کے نفسیاتی حملے اور سیاسی سازشیں جاری ہیں۔ وہ بہتان باندھ رہا ہے۔ اب ملت ایران اور اسلامی جمہوریہ کے خلاف امریکیوں اور صیہونیوں کی الزام تراشیوں اور تہمتوں پر دنیا میں کوئي توجہ دینے والا نہیں ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزمات وہ بھی ان لوگوں کے منہ سے جن سے بڑا انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والا کوئي نہیں! جو مظلوموں کے قتل عام اور قوموں کے حقوق پر تجاوز کے نتیجے میں رسوائے زمانہ ہیں۔ بد ترین ریکارڈ رکھتے ہیں۔ یہ اسلامی جمہوریہ ایران اور ملت ایران پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے معاملے میں انگشت نمائی کرتے ہیں! اس کی کیا اہمیت ہے؟ جوہری توانائي کے مسئلے میں بھی ایرانی قوم نے بارہا اعلان کیا ہے کہ ہم ایٹمی ہتھیار نہیں بنا رہے ہیں۔ اس سے سب واقف ہیں۔ یہ منطقی بات بھی ہے۔ اس وقت جب امریکی ایران کے ایٹمی مسئلے پر اپنا موقف بیان کرنا چاہتے ہیں تو چونکہ صریحی طور پر ملت ایران کے حقوق کو نظر انداز نہیں کر سکتے اوریہ کہنے کی جرئت نہیں ہوتی کہ وہ ایک قوم کے حق کی نفی کرتے ہیں تو عالمی رای عامہ کو ورغلانے کے لئے ایران پر ایٹمی ہتھیار بنانے کا بے بنیاد الزام عائد کرتے ہیں۔ خود ان کو بھی بخوبی علم ہے کہ جھوٹ بول رہے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ دروغگوئي سے کام لے رہے ہیں۔ آج کوئي بھی سمجھدار قوم اور عقلمند عہدہ دار ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتا، جبکہ ملت ایران تو اسلامی اصولوں اور نظریات کی بنا پر بھی اس قسم کے ہتھیاروں کے خلاف ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور ان کے رکھ رکھاؤ پرآنے والے بڑے خرچ کے باوجود ان ہتھیاروں سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ایٹمی ہھتیار سے کسی قوم کو طاقت حاصل نہیں ہوتی، کیونکہ یہ قابل استعمال ہتھیار نہیں ہیں۔ جن کے پاس آج ایٹم بم ہیں وہ بخوبی آگاہ ہیں کہ اگر ذرا سی بے احتیاطی ہوئي اور انہوں نے جوہری ہتھیاروں کا استعمال کر لیا تو خود ان کی اپنی تباہی بھی یقینی ہے۔ جس طرح ایک زمانے میں دہشت گردوں کی تقویت کی گئی اور آخرکار یہ دہشت گرد، تقویت کرنی والی انہی طاقتوں کی جان کو آگئے۔ ہر آن اس کا اندیشہ ہے کہ یہ دہشت گرد کہیں ایٹمی ہتھیار حاصل کرکے سامراجی طاقتوں اور تمام قوموں کا چین و سکون چھین نہ لیں۔ انہیں خوب پتہ ہے کہ ایٹمی ہھتیار کارآمد نہیں ہیں، لیکن وہ ملت ایران کے خلاف الزام تراشیوں سے باز نہیں آتے۔ ملت ایران جوہری ہتھیاروں کی خواہاں نہیں وہ صرف پر امن مقاصد کے لئے جوہری توانائي چاہتی ہے اور یہ قوم اس موقف پر اصرار کے ساتھ اپنا ہدف حاصل کرکے رہے گي اور دشمن حسرت و یاس سے دیکھتے ہی رہ جائيں گے۔
امام (خمینی رہ) کی یاد، ملت ایران کے وقار اور بیداری کی یاد تازہ کر دیتی ہے۔ تمام مسلمان اور مظلوم قوموں کے لئے ملت ایران کے مثالی نمونے میں تبدیل ہو جانے کی یاد تازہ کرتی ہے۔ امام (خمینی رہ) کی یاد سے خاص توانائي حاصل ہوتی ہے۔ امید ملتی ہے۔ اس یاد اور تذکرے کو ہمیشہ زندہ رکھنا ہے۔ امام (خمینی رہ) کے افکار و نظریات، فرامین و ہدایات اور اصول و تعلیمات کی ہمیشہ قدر کرنا ہے۔ سب سے بڑھ کر نوجوانوں اور حکام کو چاہئے کہ امام (خمینی رہ) کی ہدایات اور وصیتنامے کو دستور العمل کے عنوان سے دیکھیں۔
آج تینوں شعبے (مقننہ، مجریہ، عدلیہ) ملک کے فوجی، سیول ، سیاسی اور سماجی حکام سب امام (خمینی رہ) کے وصیتنامے اور ہدایات کو اپنا دستور العمل قرار دیں۔ ملت ایران کی عزت، پائدار امن، مادی پیش رفت و ترقی، اخلاقی اور روحانی بلندی، انہی ہدایات پر عمل آوری کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
پروردگارا! تجھے شہدا کی ارواح طیبہ اور ائمہ معصومین علیھم السلام کا واسطہ ملت ایران کو اس راستے پر گامزن رہنے کی توفیق عطا فرما۔ ملت ایران کی عزت و وقار میں روز افزوں اضافہ فرما۔ پروردگارا! اس اجتماع، عوام کے دلوں اور ہماری زبانوں اور قلوب سے ہمارے امام (خمینی رہ) کی روح طاہرہ کے لئے روحانی سوغات لے جا۔ ہمارے امام (خمینی رہ) کی روح طیبہ کو اپنی رحمت و مغفرت اور فضل و کرم کا سائے میں قرار دے۔
پروردگارا شہدا کو جو اس راہ کے پیش رو ہیں اپنے اولیائے کرام کےساتھ محشور فرما۔ پروردگارا! اس راہ حق و حقیقت کے تمام خدمت گزاروں، تمام محنت کشوں اور ایثار پیشہ افراد کو اپنی نصرت و مدد اور ہدایت و رہنمائي کے نعمت سے بہرہ مند فرما۔ پروردگارا! امام زمانہ (ارواحنا فداہ) کے قلب مبارک کو ہم سے راضی و خوشنود رکھ۔ ہمیں حقیقی معنی میں ان کا سپاہی قرار دے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ