ہماری کوشش یہ نہیں ہونی چاہئے کہ طلبا کا ماحول فیصلے پر عملدرآمد کا ماحول ہو کیونکہ یہ نہ تو طلبا کے حق میں بہتر ہے اور نہ ہی اس عمل کے سلسلے میں مناسب۔ طلبا کی فضا فیصلہ کرنے اور نظریہ قائم کرنے یعنی گفت و شنید کی فضا ہو

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یہ بڑا دلچسپ اور دل آویز اجتماع ہے۔ ایک تو یونیورسٹی کی فضا اور وہ بھی شہر شیراز کے اندر، شیراز تو خود ہی تاریخ میں دارالعلوم کی حیثیت سے معروف رہا ہے۔ شیراز میں یونیورسٹی یعنی دارالعلوم کے اندر دار العلوم، ایک مرکز کے قلب میں واقع مرکز، اس کے علاوہ طلبا کی جو یہ تعداد یہاں تشریف فرما ہے اور محترم اساتذہ جو محفل کی رونق میں چار چاند لگا رہے ہیں سب نے مل کر اس اجتماع کو حقیقی معنی میں ایک علمی، سیاسی اور سماجی محفل میں تبدیل کر دیا ہے۔ میں خود بھی نوجوانوں کے اجتماعات بالخصوص طلبا کے درمیان، نوجوانی کے جذبے سے معمور اس فضا میں خود کو جوان محسوس کرنے لگتا ہوں۔سن رسیدہ افراد سبھی کا یہی عالم ہے۔ نوجوانوں کے درمیان جوانی اور جوش و خروش کا احساس کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں عزیز طلبا، خواہ وہ ممتازین ہوں یا طلبا یونیونوں کے نمایندگان ان کی باتیں سنتے ہوئے ہرگز تھکن کا احساس نہیں کرتا اسی طرح آپ کے درمیان بولنے سے بھی تھکن کا احساس نہیں ہوتا۔ واحد مشکل کھلا آسمان اور شہر شیراز میں ماہ اردیبہشت (اپریل، مئی) کی تمازت آفتاب ہے کہ جسے برداشت کرنا ذرا سخت کام ہے۔ میں تو سائے میں بیھٹا ہوا ہوں لیکن یہاں بھی گرمی کا احساس ہو رہا ہے جبکہ آپ دھوپ میں تشریف فرما ہیں بالخصوص محترم خواتین جو چادریں بھی پہنے ہوئے ہیں اور گرمی کی شدت برداشت کر رہی ہیں۔
سب سے پہلے تو میں نظر ڈالنا چاہوں گا ان باتوں پر جو ہمارے پیارے طلبا نے بیان کی ہیں۔ یہاں کچھ باتوں کا ذکر ضروری ہے، البتہ اکثر باتیں وہی ہیں جن کا میں خود بھی قائل ہوں اور یہی باتیں میں طلبا، اساتذہ، اور یونیورسٹیوں کے ذمہ داران کے درمیان عرض کر چکا ہوں تاہم جو باتیں ہمارے عزیزوں نے بیان کی ہیں ان میں سے کچھ کا جائزہ لینا مناسب ہوگا۔ بتایا گیا کہ ممتاز طلبا کی حمایت اور مدد کے سلسلے میں کوتاہی کی جاتی ہے، آپ کی توجہ اس نکتے پر بھی رہنا چاہئے کہ اس مسئلے سمیت تمام امور میں کچھ ضابطے کی کارروائیاں ہوتی ہیں کچھ دفتری مراحل ہوتے ہیں، یہ بیوروکریسی اور افسرشاہی نہیں بلکہ با قاعدہ نظم و نسق اور فکری مرکز اور ادارے کے وجود کی علامت ہے۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں گزشتہ ایک دو سالوں میں یہ کام بنحو احسن انجام پایا ہے۔ یونیورسٹی کی ایک شخصیت کو نائب صدر کی سطح پر رکھا گيا ہے اور جہاں تک مجھے علم ہے اور جہاں تک مجھے اطلاعات مل رہی ہیں، اس سلسلے میں بڑے اچھے اقدامات انجام پا رہے ہیں۔ البتہ آپ کی گفتگو میں جیسا کہ خود جوانی میں میں بھی کرتا تھا، فی الفور کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ ہر جگہ اس لفظ کی قید مناسب نہیں ہے۔ بعض کام ہوتے ہیں ایسے ہیں کہ ان میں سرعت نہیں اختیار کی جا سکتی۔ اگر اس میں سرعت آئي تو اپنے ساتھ کچھ خامیاں بھی لائے گي۔ تو ہمیں چاہئے کہ ہر کام کو اس کی فطری شکل میں انجام پانے دیں۔
یہ نکتے کی جانب اسٹوڈنٹ بسیج (رضاکار فورس) کے نمائندے نے کہی جو کو خود میرا بھی مطالبہ ہے۔ گزشتہ ایک دو سال کے دوران ایرانی، اسلامی ترقی کے نمونے کی بات میں نے بھی کئی بار کہی، سوال ہوتا ہے کہ اس پر کس حد تک عمل ہوا؟ بالکل صحیح ہے، یہ سوال مناسب ہے۔ طلبا کے تحقیقاتی مرکز کی جو تجویز پیش کی گئي میرے خیال میں بہت مناسب ہے۔ بہتر ہوگا کہ اعلی تعلیم کی وزارتوں کے عہدہ داران اس سلسلے میں ضروری اقدامات کریں، یہ بڑا اچھا نظریہ ہے۔ طلبا کو یہ موقع ملے کہ اگر ان کے پاس وقت ہے اور ان کے لئے ممکن ہے تو تحقیقی مرکز اور تحقیقی فیکلٹی میں سرگرمیاں انجام دیں، اچھا خیال ہے اس پر کام کیا جا سکتا ہے۔
فیصلے کی صلاحیت اور فیصلہ کرنے کے عمل کا تذکرہ ہوا۔ یہاں میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ قوت فیصلہ بہت اچھی چیز ہے تاہم اگر فیصلہ کرنے کا عمل ایک ایسی مشکل بھی ہے کہ جو اگر یونیورسٹی کی فضا میں داخل ہو گئي تو بہت سے اچھے امور درہم برہم ہو جائیں گے۔ یہ ہمارا تجربہ کہتا ہے۔ ہمیں طالب علم کو یہ موقع دینا چاہئے کہ اپنی فکر، اپنی زبان، اپنی آزادی،اور اپنی گفتار و رفتار سے فیصلے کے مقدمات فراہم کرے۔ فیصلے کرنے کا کام اسے سونپا جائے جو جوابدہی کر سکتا اور ذمہ داری اٹھا سکتا ہے۔ ہماری کوشش یہ نہیں ہونی چاہئے کہ طلبا کا ماحول فیصلے پر عملدرآمد کا ماحول ہو کیونکہ یہ نہ تو طلبا کے حق میں بہتر ہے اور نہ ہی اس عمل کے سلسلے میں مناسب۔ طلبا کی فضا فیصلہ کرنے اور نظریہ قائم کرنے یعنی گفت و شنید کی فضا ہو۔ دیکھئے جب میں نے سافٹ ویئر کی تحریک کا موضوع اٹھانا چاہا تو دس سال قبل میں نے یہ موضوع طلبا ہی کے درمیان اٹھایا۔ میں نے نہ تو اس پر وزآرت خانوں سے بات کی تھی، نہ ہی اس وقت کے صدر سے اس پر بات ہوئي تھی اور نہ ہی اساتذہ سے اس پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ سب سے پہلے امیر کبیر یونیورسٹی میں میں نے یہ موضوع چھیڑا تھا، آج آپ دیکھئے یہ ایک عمومی خیال اور عام مطالبہ ہے۔ یہ ملک کی تمام یونیورسٹیوں کا مطالبہ ہے۔ میں جہاں بھی جاتا ہوں طلبا کی زبان پر یہ مطالبہ نظر آتا ہے۔ اور کسی دوسرے مرحلے میں اساتذہ یا یونیورسٹی کے ذمہ داران کی زبانی اس پر عملدرآمد کی نوید سننے کو ملتی ہے۔ اس پر عملدرآمد ہو رہا ہے۔ یہی علمی اور سائنسی ایجادات بڑی حد تک اس نعرے سے وابستہ ہیں کہ فیصلے کی مقدمات فراہم کیجئے موضوع پر بھرپور بحث کیجئے۔ ایسا ہونے کی صورت میں ذمہ دار افراد اور انتظامیہ فیصلہ کرنے کے لئے آگے آتے ہیں اور اس پر عملدرآمد ہوتا ہے۔ ڈاکٹریٹ کی طالبہ کے بیان میں ایک نکتہ میرے لئے بڑا دلچسپ یہ تھا کہ میڈیکل سائنس کی طالبہ نے بیسک سائنسز کے طلبا کی حمایت کی۔ یہ بہت مناسب بھی ہے۔ بیسک سائنسز پر خصوصی توجہ دئے جانے پر میں کئي برسوں سے تاکید کرتا آيا ہوں اور میں نے اس موضوع پر متعلقہ حکام سے متعدد بار گفتگو کی ہے۔ میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ بیسک سائنسز خزانے کا درجہ رکھتی ہیں۔ جبکہ فنکشنل سائنسز کی مثال جیب خرچ کے پیسوں ہے۔ اگر بیسک سائنسز نہ ہوں تو ہمارا سرمایہ ختم ہو جائے گا۔ میں اس طالبہ کے اس درس کو قابل غور سمجھتا ہوں جس پر طلبا کو توجہ دینا چاہئے۔ ان کی توجہ اس نکتے پر ہونی چاہئے کہ ملک کی ضروریات کیاں ہیں۔ میڈیکل سائنس کی یہ طالبہ بیسک سائنسز کی حمایت کرے یہ میرے لئے بہت دلچسپ ہے۔
شیراز یونیورسٹی کی اسلامی یونینوں کے نمائندے نے بھی اپنے بیان میں بڑے اہم نکات کا ذکر کیا یہ تو میرے اپنے دل کی باتیں ہیں۔ میں اس پر بھی چند جملے عرض کرنا چاہوں گا۔ دیکھئے آپ کہتے ہیں کہ ہم مساوات کی بات کرتے ہیں لیکن ایک اسٹوڈنٹ کو گرفتار کر لیا جاتا ہے لیکن مساوات پر ضرب لگانے والے کا ہاتھ نہیں روکا جاتا، عدلیہ ایسی ہے یا فلاں ادارہ ویسا ہے، ٹھیک ہے ایسے میں آپ اپنی تیزی دکھائيں، عدل و مساوات کے مطالبےسے ایک لمحے کے لئے بھی غفلت نہ کریں۔ یہ آپ کی شان ہے۔ نوجوان، طالب علم اور مومن کی یہی شان ہے کہ عدال و انصاف کا مطالبہ کرے۔ اس نظرئے کی میں اپنے پورے وجود سے حمایت کروں گا۔ اللہ کا شکر ہےکہ آج نظام موجود ہے۔ البتہ ممکن ہے کہ کہیں کچھ خلاف ورزی بھی کی جائے لیکن آپ کا فن یہ ہے کہ مساوات کی نعرہ بلند کیجئے ہاں کسی کا نام اچھالنا اور کسی کی ذاتیات کو موضوع بحث بنانا درست نہیں ہے۔ اگر آپ نے کسی ایک شخص کو مد نظر رکھا تو ایک تو اس کا بھی امکان ہے کہ تشخیص کی غلطی ہوئي ہو میں تو دیکھ ہی رہا ہوں، یونیورسٹی نہیں بلکہ سماجی اداروں میں کہ بد عنوانی، سیاسی کجروی یا بے راہ روی کے نام پر کسی شخص کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ مجھے الگ سے بخوبی علم ہے کہ ایسا نہیں ہے جو لوگ اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں۔ لہذا جب آپ کسی ایک شخص کا نام لیں گے تو ممکن ہے کہ آپ غلطی پر ہوں اور اس طرح آپ اس قانون شکن قانونداں کو کہ جس میں بارے میں میں عرض کر چکا ہوں کہ قانون شکن قانون داں زیادہ خطرناک ہوتا ہے، کوئي ایسا بہانہ مل جائے گا جسے وہ آپ کے خلاف استعمال کر لے گا۔ آپ ایک جج سے کیا شکایت کر سکتے ہیں؟ اگر کسی نے کسی شخص کی شکایت کی کہ اس نے میرے خلاف الزام تراشی کی ہے تو اب یہ جج کا کام تو نہیں ہے کہ معاملے کی تحقیقات شروع کر دے؟ اگر الزام تراشی کی گئی ہے تو متعلقہ قانون جج پر یہ فریضہ عائد کرتا ہے کہ وہ قانونی کارروائي کرے تو ہم اس جج کی شکایت نہیں کر سکتے۔ آپ عقلمندی دکھائیں کسی کا نام نہ لیں کسی خاص شخص پر وار نہ کریں۔ آپ پرچم بلند کریں۔ جب آپ پرچم بلند کریں گے تو مجریہ کا متعلقہ شعبہ اس جانب متوجہ ہوگا اور ضروری اقدامات انجام دے گا۔ ایسا ہونے پر اس شخص کو اطمینان حاصل ہوگا جس نے آواز بلند کی ہے اور معاملہ آگے بڑھ جائے گا۔ بنابریں میری نظر میں آپ کا کام اپنی جگہ بالکل درست ہے۔ آپ باایمان نوجوان ہیں آپ سے یہی توقع ہے۔ جو بھی نعرہ بلند کیا جاتا ہے اس کے سلسلے میں اللہ تعالی کی ذات کے بعد کہ جس کے اختیار میں تمام دل، زبانیں اور ارادے ہیں، آپ پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ امیدیں آپ نوجوانوں سے وابستہ ہیں، آپ اس سے آگاہ رہیں۔ آپ نے اپنے ہم وطن کا شعر بھی پڑھاہے کہ،
وفا کنیم و ملامت کشیم و خوش باشیم
کہ در طریقت ما کافری است رنجیدن
تو آپ رنجیدہ نہ ہوں، کام کے لئے کوشش کرتے رہیں۔ میں یہی بات میں اپنے اس عزیز برادر کی خدمت میں عرض کروں گا جہنوں نے اسلامی معاشرے کے نمائندے کی حیثیت سے بڑھے اچھے اور اہم نکات بیان فرمائے۔ یہ باتیں ہماری خواہش ہے تاہم ہمارے اور آپ کے درمیان فرق یہ ہے کہ زمانے سے ہمارے یہ تجربہ ملا ہے کہ انسان کو تھوڑا تحمل سے کام لینا چاہئے۔ آپ تازہ تشریف لائے ہیں آپ میں جوش ہے جلدبازی اور بے صبری ہے۔ سب کچھ ٹھیک ہے سوائے اس بے صبری کے۔ البتہ اس کا کوئي حل نہیں ہے۔ میں یہ ہرگز نہیں کہتا کہ اسے آسانی سے دور کیا جا سکتا ہے۔ ہم تو خود بھی آپ کے اس دور سے گزر چکے ہیں۔ ہمیں اس کا خود اندازہ ہے تاہم میں آپ سے بس یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ آپ نے جتنی بھی باتیں کہیں اور جن کے نعرے ملک میں گونجے انشاء اللہ خدا وند عالم کی مدد سے ان پر عملدرآمد ہوگا۔
پیام نور یونیورسٹی کے سلسلے میں بھی اس عزیز طالبہ نے ایک شکایت کی کہ جس پر عہدہ داران کی توجہ کی ضرورت ہے، اگر مدد کی ضرورت ہے تو مدد کی جانی چاہئے۔
اب یہاں میں چند باتیں عرض کرنا چاہوں گا جو در حقیقت پہلے دن عوام کے اجتماع میں جو باتیں میں نے عرض کی تھیں انہی کی تھوڑی تفصیل ہے۔ ایک بات تو انقلاب پر وسیع نظر ڈالنے کی ضرورت کا نکتہ ہے۔ ہم (انقلاب کے) چوتھے عشرے میں داخل ہونے جا رہے ہیں۔ تقریبا تیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس مرحلے پر پہنچ کر جب انقلاب جیسے عظیم واقعے پر نظر ڈالی جاتی ہے تو وہ کارکردگی پر ناقدانہ نظر ہوتی ہے۔ حالانکہ کی تیس سال گزرنے کے بعد انقلاب عنفوان جوانی کو پہنچا ہے اور بلا شبہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے انقلاب کی طاقت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے، تاہم جب انسان پیچھے مڑ کر ان تیس برسوں پر نظر دوڑاتا ہے تو کارکردگی، افادیت اور ثمرات کے بارے میں کوئي نہ کوئي نتیجہ اس کے ذہن میں ضرور آتا ہے۔ نتیجہ اخذ کرنے کے اس عمل میں ہمیں غلطی نہیں کرنا چاہئے۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم انقلاب پر وسیع نظر ڈالیں۔
میں اس سلسلے میں چند باتیں عرض کروں گا یوں تو میں اس موضوع پر تفصیل سے گفتگو کرنا چاہتا تھا تاہم تمازت آفتاب کو دیکھتے ہوئے میں زیادہ تفصیلات میں نہیں جاؤں گا۔ میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں اور نوجوانوں کو اس کا بخوبی علم ہے، آپ مجھے پہچانتے ہیں۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ جو کچھ میں کہتا ہوں وہ قرآنی آیت نہیں ہے میری کہی بات کوئي وحی نہیں ہے ۔ میں اپنا نظریہ بیان کرتا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ اس پر طلبہ کے درمیان گفتگو ہو، میرا مقصد یہ ہے کہ اس پر گفت و شنید ہو۔ ممکن ہے کہ آخر تک میں اپنی بحث کو نہ سمیٹوں بلکہ یہ کام آپ کے حوالے کر دوں، آپ یونینوں اور اسٹوڈنٹ حلقوں کی سطح پر اس پر گفتگو کریں۔
اگر ہم وسیع نظر کے ساتھ انقلاب کی کامیابی اور اسلامی جمہوریہ کی تشکیل پر توجہ دیں اور جزوی باتوں تک محدود نہ رہیں تو ہم کبھی بھی غلط نتیجے پر نہیں پہنچیں گے۔ جزوی باتوں تک محدود رہنے اور معاملے کو شروع سے آخر تک نہ دیکھنے کی صورت میں گمراہی کا اندیشہ رہتاہے۔ اس طرح کبھی کبھی انسان اپنا راستا اور منزل سب کچھ فراموش کر دیتا ہے۔ میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ تفصیلات میں بالکل نہ جائيں، نہیں ایسا نہیں ہے تفصیلات میں جانا ہی تو در حقیقت منصوبہ بندی ہے اور میں اس کی اہمیت کا منکر نہیں ہوں۔ منصوبہ بندی میں تمام پہلوؤں اور مراحل پر نگاہ ڈالی جاتی ہے اسی کو جزوی باتوں کا جائزہ کہتے ہیں۔ میرے کہنے کا یہ مقصد ہے کہ جزوی باتوں اور تفصیلات میں اس طرح گم نہ ہو جائیں کہ بنیادی ہدف اور اصل منزل کی نظروں سے غائب ہو جائے۔ کیونکہ پورے مسئلے پر نظر رکھنا ہمارے لئے اہم ہے

میں اس موضوع پر مرحلہ وار گفتگو کرنا چاہوں گا۔ سب سے پہلا مرحلہ ہے انقلاب کے ہدف کا، دیکھنا یہ ہے کہ انقلاب کا ہدف کیا تھا؟ انقلاب کا ہدف ایسی خصوصیات کے حامل ایران کی تعمیر کرنا تھا جنہیں میں عرض کرنے جا رہا ہوں، آزادی و خود مختاری، دولت و ثروت، امن و سلامتی، اخلاقیات و دینداری اور انسانی معاشرے میں رائج علمی مقابلوں میں کامیابی اور پیش قدمی، ازل سے اب تک کی تمام اہم کامیابیوں میں برابر کی شراکت، تمام شعبوں میں حقیقی معنی میں آزادی، اسلامی انقلاب کا مطمح نظر یہ خصوصیات اور ان خصوصیات کے حامل ایران کی تعمیر تھی۔ آزادی صرف سماجی آزادی نہیں ہے، سماجی اور معاشرتی آزادی حقیقی آزادی کا ایک پہلو ہے، تو سماجی آزادی بھی مد نظر تھی، اغیار کی مداختلوں سے نجات اور رہائي بھی پیش نظر تھی، کیونکہ کبھی کبھی ملک بظاہر تو آزاد ہوتا ہے تاہم دوسروں کے زیر اثر رہتا ہے۔ اسی طرح روحانی اور معنوی آزادی کہ جس کے معنی انسان کی نجات، اخلاقی بلندی اور روحانی سرفرازی کے ہیں انقلاب کا سب سے بڑا ہدف تھا۔ یہ سارے کے سارے کام کمال انسانی اور عروج انسانی کا مقدمہ ہیں۔ اسلامی معاشرے میں یہ نکتہ بالکل واضح ہونا چاہئے۔
ان خصوصیات والا ایران، انقلاب کا نصب العین تھا۔ اب اگر کوئي سوال کرے کہ انقلاب میں کہاں ان باتوں کا تذکرہ ہے؟ اور کب ان اہداف کی تدوین کی گئی؟ تو میں یہی عرض کروں گا کہ ان کا سرچشمہ انقلاب کے ساتھ جڑا ہوا لفظ اسلامی ہے۔ اسلام کہتے ہی اسے ہیں۔ جو کوئي ان خصوصیات سے خالی اسلام کی تلاش میں ہے در حقیقت اس نے اسلام کو پہچانا ہی نہیں ہے۔ جو اس خیال میں ہے کہ اسلام صرف روحانی پہلوؤں اور وہ بھی خاص حدود و قیود کے ساتھ یعنی عبادات، زہد و تقوی کے دائرے تک محدود ہے تو اس نے صحیح معنی میں اسلام کو سمجھا نہیں ہے۔ اسلام ایسا نہیں ہے۔ اسلام میں یہ چیزیں تو ہیں لیکن دوسری باتیں بھی جن کا میں نے تذکرہ کیا ہے یعنی عدل و انصاف، امن و سلامتی، رفاہ و آسائش، ثروت و دولت، آزادی و خودمختاری، اسی طرح آخرت سے متعلق چیزیں یعنی نجات و رستگاری، تقوی پرہیزگاری، اخلاقی بلندی و تکامل انسانی یہ سب کچھ لفظ اسلامی کے وسیع دائرے کے اندر آتا ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ و لو ان اھل القری امنوا واتقوا لفتحنا علیھم برکات من السماء والارض اگر ایمان و تقوی ہو تو زمین و آسمان کی برکتوں کا نزول شروع ہو جائے گا۔ لفظ فتحنا سے آسمانی برکتوں کے جاری ہونے کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ رحمت الہی کا حوالہ دیا گیا ہے۔ یہی قرب الہی کی منزل ہے۔ روی زمین پر بسنے والے بندگان خدا کے لئے آسمان کے ملائکہ کے توبہ و استغفار کا مطلب یہی ہے۔ برکات ارضی سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں جو انسان کی زمینی زندگی سے مربوط ہیں۔ یعنی آزادی، رفاہ و آسائش، یعنی خود مختاری و آزادی، امن و سلامتی، روزی میں برکت و وسعت، صحت و سلامتی وغیرہ۔ اگر ایمان و تقوی ہے تو یہ برکتیں بھی اور وہ برکتیں بھی وجود انسانی کا احاطہ کر لیں گی۔ تو اب اگر ہم نے اسلامی کا لفظ استعمال کیا ہے تو اس کی خصوصیات یہیں ہیں جن کی جانب اشارہ کیا گیا۔
اسلامی انقلاب کا نصب العین یہی تھا۔ ہم ایسے ایران کی تعمیر کرنا چاہتے تھے جو ان خصوصیات کا حامل ہو۔ یہاں میں یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ مسئلہ صرف ایران کا نہیں تھا۔ پہلے مرحلے میں ایران کو دیگر مسلم معاشروں کے لئے نمونہ بناکر پیش کرنا اور دوسرے مرحلے میں دیگر معاشروں میں اسی نہج کی تبدیلی ہمارا مقصد تھا۔ ہم، یعنی ملت ایران یہ چاہتی تھی کہ انقلاب اور انقلابی ان خصوصیات کے حامل ایران کی تعمیر کریں اور اسے دنیا کی نظروں کے سامنے رکھ دیں اور واضح طور پر کہہ دیں کہ اسلام کا منشا یہی ہے۔ دنیا کے لوگوں کے لئے یہی آسان اور قابل تقلید نمونہ ہے۔ بعض افراد تھے جو دل کے بہت اچھے بھی تھے لیکن کہتے تھے کہ آپ کیوں اتنا پریشان ہو رہے ہیں اس سے کیا فائدہ؟ کہتے تھے کہ آپ کی باتیں صد فیصد درست، لیکن ان کو عملی جامہ پہنانا ممکن نہیں ہے۔ انقلاب کا پیغام دنیائے اسلام کے گوشے گوشے میں آباد لوگوں کے لئے یہ تھا کہ اس عظیم مقصد کی تکمیل ممکن ہے۔ اور اسلامی انقلاب کی شکل میں نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ اول روز سے ہمارا یہ ہدف تھا اور آج بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گا یہ پائدار اور دائمی ہدف ہے۔ تو یہ رہا پہلا مرحلہ۔
انقلاب کا دوسرا اہم مرحلہ تھا ان رکاوٹوں اور مشکلات کا جو اسلامی انقلاب کے سرراہ تھیں۔ ہم خلا میں تو زندگی گزارتے نہیں۔ ہم تو زمینی حقائق کے درمیان جی رہے ہیں۔ اب یہ زمینی حقائق اسلامی انقلاب کے لئے رکاوٹ اور مانع ایجاد کرتی تھیں یا اس کے لئے ممد و معاون ثابت تھیں؟ یہ بھی قابل غور نکتہ ہے۔ یقینا اگر رکاوٹیں اور موانع کا وجود نہ ہوتا تو ہدف تک رسائی کے لئے زیادہ وقت درکار نہیں تھا۔ شائد پانچ دس سال کے اندر ایک طاقتور اور منظم گروہ یہ مہم سر کر سکتا تھا۔ لیکن جب راستے میں رکاوٹیں ہوں تو وہیں سے جد و جہد اور سعی پیہم جیسے مفاہیم کو مصداق ملتے ہیں اور انسان کی تگ و دو کو جہاد کا درجہ۔ ورنہ اگر موانع اور رکاوٹیں نہ ہوں تو جہاد کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ جہاد کے معنی ہی مسائل اور چیلنجوں کے مقابلے میں پر مشقت جد و جہد کے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ رکاوٹیں کیا تھیں؟ ہمارے سامنے دو قسم کی رکاوٹیں تھیں۔ اندرونی اور بیرونی۔ اندرونی رکاوٹیں یعنی وہ چیزیں جو خود ہم انسانوں کی ذات میں ہیں۔ اب خواہ ان کا تعلق فیصلہ کرنے اور سمت کا تعین کرنے والے اہم افراد سے ہو، عوام سے ہو یا انقلاب کی تحریک سے باہر رہ کر ماجرا کا مشاہدہ اور تماشا کرنے والوں سے ہو۔ یہ ہیں اندرونی رکاوٹیں۔ اندرونی رکاوٹوں میں فکری کمزوریوں، عقلی خامیوں، آرام طلبی، بے توجہی اور غفلت کا نام لیا جا سکتا ہے۔ یہ راستے کی اہم رکاوٹیں ہیں۔ کام اور متعلقہ رکاوٹوں کے سلسلے میں صحیح اندازے کی ضرورت ہے جو حقیقت کے مطابق یا کم از کم اس کے بالکل نزدیک ہو۔ غفلت راستے کی اہم رکاوٹ ہے۔ چیلنجوں سے فرار بھی اندرونی کمزوری ہے۔ چیلنجوں سے فرار کو کبھی عافیت پسندی کا نام دیا جاتا ہے لیکن یہ غلط ہے، عافیت پسندی کا شمار تو صفات حسنہ میں ہوتا ہے۔ عافیت نعمت الہی ہے۔ جیسا کہ دعا کی جاتی ہے، یا ولی العافیۃ نسئلک العافیۃ عافیۃ الدنیا و الآخرہ لیکن عافیت کے معنی کسی بھی کام میں ہاتھ ڈالنے سے گریز کے نہیں ہیں۔ عافیت کے معنی ہیں صحیح قدم اٹھانے اور درست کام انجام دینے کے۔ عافیت کے معنی ہیں صحیح موقع پر ضرب لگانے اور مناسب موقع پر عقب نشینی کے۔ بلاؤں سے عافیت گویا گناہ سے دوری ہے۔ لہذا عافیت پسندی کوئي بری چیز نہیں ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ چیلنجوں اور بڑے کاموں سے فرار کو عافیت پسندی کہا جانے لگا ہے جو در حقیقت مترادف ہے آرام طلبی کے اور جس کے معنی ہیں مشکلات کا سامنا کرنے سے دوری اور گریز اور چیلنجوں کے لئے کبھی تیار نہ ہونا، یہ تو قبیح صفت ہے۔
ایک اور اندرونی کمزوری، معاشرے میں رائج عادتیں اور خاص سماجی تربیت ہے جو کبھی ایرانی معاشرے میں بھی تھی۔ شائد نوجوانوں کے ذہن میں آغاز انقلاب کے وقت عوام کی نفسیاتی کیفیت اور عادات و اطوار کی صحیح تصویر نہ ہو۔ آج ہم ہر کسی میں ہمت مرداں مدد خدا کا جذبہ اور یقین دیکھ رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر آج کسی فنکار سے کہا جائے کہ جناب آپ دنیا کے معروف فنکار کو اپنے فن و صلاحیت سے شکست دے سکتے ہیں؟ فورا جواب ملے گا جی ہاں کیوں نہیں؟ اگر کمر ہمت باندھ لی جائے، محنت کی جائے تو یہ نا ممکن نہیں ہے۔ حقیقت میں اسلامی جمہوریہ کا دانشمند نوجوان خود کو ہر کام پر قادر سمجھتا ہے۔ ابتداء انقلاب میں یہ صورت حال نہیں تھی۔ پہلے کی ذہنیت اور تربیت اس کے بالکل بر عکس تھی۔ جب بھی کسی اہم کام کی بات ہوتی یہی جواب ملتا کہ ہمارے تو بس کی بات نہیں ہے۔ اگر کہا جاتا کہ فلاں چیز بنا ڈالئے جواب ملتا ہمارے تو بس سے باہر ہے۔ اگر کہا جاتا کے دنیا میں رائج فلاں نظرئے کا مقابلہ کیا جائے تو جواب ملتا کہ ہم میں اتنا دم کہاں۔ یہ بھلا ہم کیسے کر سکتے ہیں؟! آج جس انداز سے ہر زبان پر ہم کر سکتے ہیں کا نعرہ ہے کل ہمارے بس کی بات نہیں کا خیال اسی طرح عام تھا۔ جو ماضی بعید سے چلی آ رہی ذہنیت اور تربیت کا نتیجہ تھا۔
ڈانٹ ڈپٹ سننا، ظلم سہنا، معاشرے میں عہدہ داروں کے اندر عدل و انصاف اور طہارت و پاکیزگی کے بجائے فسق و فجور کا مشاہدہ معمول کی بات تھی۔ یعنی انقلاب سے قبل، عالم یہ تھا کہ اگر لوگوں کو یہ بتایا جاتا کہ جناب ملک کا سب سے بڑا عہدہ دار کہ جو اس وقت خود شاہ تھا یا کوئی وزیر عیاشی کا مرتکب ہو رہا ہے آشکارہ گناہیں انجام دے رہا ہے، غیر اخلاقی حرکتیں کر رہا ہے تو کسی کو تعجب نہ ہوتا۔ سبھی یہی کہتے کہ بھئی یہ تو ہو ہی رہا ہے۔ یہ کس کو نہیں معلوم؟! یعنی لوگ حکام کو جن کا فرض اولیں پاکیزگي ہے، گناہوں میں غرق دیکھنے کی عادت ہو گئی تھی۔ ہمارے لئے بڑے تعجب کی بات تھی کہ صدر اسلام میں کیسے خلیفہ نے نشے کے عالم میں نماز پڑھا دی؟! یہ واقعہ خلیفہ کے بارے میں بھی ہے اور خلیفہ کی جانب سے منصوب امیر کے سلسلے میں بھی منقول ہے۔ اس کا تذکرہ تاریخ اسلام میں ہے اور یہ مشہور واقعہ ہے۔ نماز صبح دو رکعت ہے، لیکن چونکہ وہ بد مست تھا دو کے بجائے چھے رکعت نماز پڑھ ڈالی۔ نمازیوں نے اعتراض کیا کہ جناب آپ نے نماز زیادہ پڑھا دی۔ تو خلیفہ کا جواب تھا کہ ہاں، کیونکہ میں بہت اچھے موڈ میں ہوں، کہئے تو اور پڑھا دوں۔ یہ تاریخ میں مذکور ہے۔ مسلمان دیکھ رہے تھے کہ خلیفہ اس انداز سے فسق و فجور میں غرق ہے لیکن برداشت کر رہے تھے اور اس مسئلے کو نظر انداز کر دیتے تھے۔ ہمارے یہاں بھی یہی عالم تھا۔ شاہ کے طاغوتی دور میں یہی صورت حال سامنے تھی۔ لوگوں کو اس پر تعجب نہیں ہوتا تھا کہ ایک اسلامی ملک کا بادشاہ فاسق و فاجر ہے، شرابخور ہے، بد عنوانیوں میں مبتلا ہے۔ شائد میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ تبریز کے ایک بڑے عالم دین جن کا شمار بہت اہم علما میں ہوتا تھا اور میں بھی ان سے واقف تھا وہ ہمارے والد کے استاد تھے۔ کافی سن رسیدہ تھے بہت بڑے عالم تھے لیکن بہت سادہ زندگی گزارتے تھے۔ ایک دفعہ میرا تبریز جانا ہوا، وہاں ان کے شاگردوں اور عقیدتمندوں نے بتایا کہ محمد رضا (شاہ ایران) اپنے جوانی کے ایام میں تبریز گيا انہی سے ملنے۔ اس نے اس عالم دین کو بہت عزت دی۔ محمد رضا اس مدرسے میں گیا جہاں یہ عالم دین درس و تدریس میں مصروف تھے۔ وہ عالم دین جو واقعی بڑے عالم اور متقی و پرہیزگار لیکن سادہ لوح انسان تھے، شاہ سے بہت متاثر ہوئے اور اس کی تعریفیں کرنے لگے۔ لوگوں نے عالم دین کو بتایا کہ آپ جس شخص کی اتنی تعریفیں کر رہے ہیں اس نے بہت بڑے جرائم اور گناہ انجام دئے ہیں۔ لوگوں نے عالم دین کو شاہ کی شرابخوری اور قماربازی کے بارے میں بتایا جو ان کے نزدیک واقعی بہت قبیح اور مذموم فعل تھا لیکن انہوں نے کہا کہ بھئی یہ تو شہنشاہ ہے کیا آپ چاہتےہیں کہ وہ بھی شرابخوری نہ کرے؟! لوگوں نے کہا کہ جواری ہے۔ عالم دین نے کہا کہ بھئی وہ ٹھہرا شاہ تو اگر وہ جوا نہ کھیلے گا تو کیا کھیلے گا؟! تو عالم دین کا خیال یہ تھا کہ شاہ اور وزیر کو فسق و فجور کا حق ہے، گناہ کا ارتکاب اس کے لئے جائز ہے۔ تو ہمارے معاشرے کا یہ عالم تھا۔ یہ ہیں اندرونی رکاوٹیں اور مشکلات۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جو کسی بلند ہدف تک رسائي کی کوششوں میں رخنہ اور خلل پیدا کرتی ہیں۔ بے قابو غصہ اور شہوانی خواہشات، موروثی خرافات اور گمراہ کن نظریات و عادات سے وابستگی اسی طرح دینی تعلیمات کے سلسلے میں کج فہمی اندرونی رکاوٹیں اور مشکلات ہیں۔ بعض افراد بہت سی چیزوں کو سمجھ نہیں پاتے تھے ان سے نمٹنا پڑا۔ بعض افراد کچھ روایات کی بنیاد پر جن میں کہا گیا ہے کہ حضرت مہدی (ارواحنا فداہ) سے قبل بلند ہونے والے پرچم کا ٹھکانہ جہنم ہے، انقلابی تحریک کے مخالف تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ امام زمانہ علیہ السلام سے قبل آپ جہاد شروع کرنا چاہتےہیں؟! یہ علم جہاد جو آپ بلند کرنا چاہتے ہیں اس کی جگہ تو جہنم ہے۔ ان افراد نے در حقیقت حدیث کو صحیح طور پر سمجھا نہیں تھا۔ صدر اسلام میں ائمہ معصومین علیھم السلام کے زمانے میں ایک شخص نے کہ جو حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے سلسلے میں سن چکا تھا کہ آپ ظہور فرمائيں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے، مہدویت کا دعوی کر دیا۔ بعض افراد شک و شبہے کی کیفیت سے دوچار تھے۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ بنی امیہ میں بھی کچھ افراد نے مہدویت کا دعوا کیا ہے۔ یہی حال بنی عباس کا بھی ہے۔ بنی عباس کے زمانے میں اور اس کے بعد آج تک متعدد افراد نے مہدویت کا دعوا کیا ہے۔ تو یہ بالکل صحیح ہے کہ اگر کوئي مہدویت کا دعوی کرتا ہے اور حضرت مہدی ہونے کے جھوٹے دعوے کے ساتھ پرچم بلند کرتا ہے تو وہ یقینا جہنم میں جائے گا لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عوام ظلم و استبداد کی مخالفت نہ کریں۔ اگر اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جائے کہ لوگ اسلامی معاشرے الہی معاشرے اور علوی سماج کی تشکیل کے لئے بھی قیام نہ کریں تو اس کا مطلب ہوگا کہ حدیث کو صحیح طور پر سمجھا نہیں گیا ہے۔ آپ نے ملاحظہ فرمایا؟ یہ ساری اندرونی مشکلات اور رکاوٹیں تھیں جن کا سامنا کرتے ہوئے ملت ایران کو اپنے ہدف کی سمت بڑھنا تھا۔ ان میں سے ہر ایک، اہم رکاوٹ تھی۔ البتہ یہ مشکلات قابل حل تھیں۔ ایسا نہیں تھا کہ لا ینحل رہی ہوں۔ بہت سے مسائل تو مدلل بیان سے دور ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی جد و جہد میں مدلل بیان کی بڑی اہمیت ہے۔ اسلامی جد و جہد میں ہر آن حقائق کی وضاحت سچائي کا انکشاف، تبلیغ اور تشریح بہت اہم ہے۔ اس سلسلے میں کبھی بھی غافل نہیں ہونا چاہئے۔ بر خلاف مارکسسٹ نظرئے کے جو اس وقت رائج تھا اور حقائق کی تشریح کو کوئي اہمیت نہیں دیتا تھا۔ اس نظرئے کے پیروکاروں کا کہنا تھا کہ کہ جد و جہد ایک روایت رہی ہے جو آپ چاہیں یا نہ چاہیں، کہیں یا نہ کہیں، ہر حال میں عملی جامہ پہنتی ہے۔ یعنی انہوں نے جس ڈائلکٹک سسٹم اور قدرتی تلازم کی بات کی تھی اس کا ما حصل یہ تھا کہ اس جد و جہد کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔ انچاس سال قبل مشہد کا رہنے والا ایک نوجوان جس سے میری آشنائي تھی۔ انہی گروہوں میں سے کسی ایک سے وابستہ تھا جو اس وقت سر ابھار رہے تھے۔ یہ لوگ کمیونسٹ تھے۔ ایک جگہ وہ مجھ سے ملا اور اس نے تفصیل سے بتایا کہ وہ یہ کام کرنا چاہتا ہے۔ میں نے کہا کہ معاشرتی شعبے میں یہ طریقہ مناسب نہیں ہوگا۔ کچھ عوام سے بھی تو بات کی جائے انہیں بھی اعتماد میں لیا جائے انہیں بھی تو بتایا جائے کہ آپ کیا کرنے جا رہے ہیں۔ اس نے لا پروائی سے جواب دیا وہ اسلامی روش ہے۔ جی ہاں اسلامی روش یہی ہے۔ اسلامی روش عوام کو اعتماد میں لینے کی روش ہے۔ انہی وضاحتوں کے نتیجے میں اسلامی انقلاب ان غلط اور گمراہ کن نظریات اور کوششوں پر غالب آیا۔ البتہ بعض امور میں ابھی مکمل غلبہ حاصل نہیں ہو سکا ہے۔ جن کے پیچھے کچھ دیگر عوامل کار فرما ہیں۔ جیسے صارف کلچر اور اسراف و فضول خرچی۔ یہ چیزیں جیسا کہ کہا جاتا ہے، ماضی سے ملنے والی میراث ہے اور بد قسمتی سے ہم نے یہ میراث محفوظ رکھی ہے۔ ہم ملت ایران کو چاہئے کہ اپنے بدن سے یہ کریہ المنظر لباس اتار پھینکیں۔ ہم بہت بری طرح صارف کلچر اور اسراف کا شکار ہیں۔ اس مسلئے کو حل کرنا ہوگا۔ ہم سب کو مل جل کر اس مشکل سے نکلنا ہوگا۔ البتہ اس سلسلے میں ریڈیو اور ٹی وی کے ادارے کی بھی اہم ذمہ داری ہے۔ تو یہ ہیں اندرونی مسائل اور مشکلات۔
اس زمانے میں بیرونی مسائل اور رکاوٹیں بھی بے شمار تھیں۔ جس شخص کو بھی انقلاب یا اس کے اہداف سے کسی طرح کا کوئي نقصان پہنچنے والا ہوتا تھا وہ انقلاب کی مخالفت پر اتر آتا تھا۔ سلامتی کے مسئلے سے کچھ لوگوں کو نقصان پہنچنے کا امکان تھا تو کچھ کو سماجی مساوات اور عدل و انصاف سے بیر تھا۔ کچھ ایسے تھے جو شاہ کی طاغوتی حکومت کی مخالفت کو اپنے حق میں نقصان دہ سمجھ رہے تھے۔ کچھ ایسے تھے جنہیں غیر ملکیوں کی مخالفت کئے جانے سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا۔ ان باتوں سے آپ آگاہ ہیں، زیادہ وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔ کون افراد تھے جو عدل و انصاف، خودمختاری و آزادی یا اس جیسے دیگر امور سے نالاں تھے؟ یہی وہ افراد تھے جو انقلاب کے سامنے صف آرا ہو گئے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
انقلاب کے اوائل کی باتیں آپ نوجوانوں کو یاد نہیں ہوں گی۔ انقلاب کے پہلے سال کے دوران، فرقہ پرستی کے نام پر ملک کے چاروں گوشوں میں جنگ کے مراکز قائم ہو گئے۔ بلوچستان میں، کردستان میں، ترکمن صحرا میں اسی طرح دیگر علاقوں میں فرقہ پرستی کا مسئلہ گرم کیا گيا۔ شر پسند عوامل نے جب دیکھا کہ مختلف فرقوں کو اسلام اور اسلامی انقلاب سے کوئی اختلاف نہیں، میں تو خود بلوچستان میں رہ چکا تھا، میں نے وہاں جلا وطنی کی زندگی گزاری، مجھے مکمل واقفیت تھی کہ بلوچوں کو انقلاب پر کوئي اعتراض نہیں ہے لیکن کچھ لوگ بلوچوں کے نام پر اپنی سازش کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اسلامی انقلاب سے بھڑ گئے۔ یہی صورت حال کردستان اور ترکمن صحرا میں بھی پیش آئي۔ بعد میں اصل محرکات سامنے آئے اور پتہ چلا کہ سارے جھگڑے کی جڑ کیا ہے۔ تو یہ سب رکاوٹیں تھیں جو انقلاب کو آگے نہیں بڑھنے دیتی تھیں۔ ایسا نہیں تھا کہ انقلاب، مسطح راستے پر چلنے والی گاڑی کی مانند آسانی سے حرکت میں آیا اور آگے بڑھتا چلا گیا۔
فرقہ واریت اور نسل پرستی کے علاوہ بھی بہت سے مسائل پیش آئے۔ مسلط کردہ جنگ کا سامنا ہوا۔ آپ خود غور فرمائيں کہ ملت ایران نے دشمن کے مقابلے میں کس شجاعت و توانائی کا مظاہرہ کیا اور کس طرح دشمن کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ صدام ہی نہیں بلکہ صدام کے پس پشت جو طاقتیں کارفرما تھیں وہ بھی اسلامی انقلاب کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پرمجبور ہوئيں۔ یہ ساری توانائي جنگ کے بجائے اگر ملک کی تعمیر و ترقی پر صرف ہوتی تو آج ہم کہاں ہوتے؟! البتہ مسلط کردہ جنگ سے ہمیں فائدے پہنچے ہیں۔ ہم نے خطرات اور پابندیوں کو خود کفالت اور ترقی کے مواقع میں تبدیل کر دیا۔ ملت ایران نے خطرات کو واقعی، اہم مواقع میں تبدیل کر دیا۔ بہت بڑا امتحان اور بڑی سخت آزمائش تھی لیکن ہم اس سے سرخرو ہوکر نکلے۔ البتہ حقیقت تو یہی ہے کہ کسی ملک پر جنگ مسلط کر دی جاتی ہے تو وہ متعدد مسائل میں پھنس جاتا ہے۔ اسی مقصد کے تحت ایک طرف تسلط پسند عالمی طاقتیں تو دوسری طرف اندرونی شر پسند عناصر، ایک طرف بڑی طاقتوں بالخصوص امریکہ کی سازشیں جو اب تک جاری ہیں تو کہیں اسلامی انقلاب کے بعد ایران سے بے دخل کر دی جانے والی طاقتوں کا سیاسی، تشہیراتی اور اقتصادی جال، یہ سب اسلامی انقلاب کے راستے کی اہم ترین رکاوٹیں تھیں۔ ان مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے اب آپ اس بات کا جائزہ لیجئے کہ اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کس انداز سے اپنے اہداف کی جانب بڑھا ہے۔ اسلامی انقلاب کی کارکردگی اور تاثیر بے مثال رہی ہے۔ یہ کارکردگی قابل تعریف ہے۔ اتنے مسائل و مشکلات کے بعد کس میں دم ہے کہ آگے بڑھ سکے یا اپنا وجود برقرار رکھ سکے۔ ہمارے زمانے کے دوران افریقہ، ایشیا اور دیگر بہت سے مقامات پر اقتدار کی منتقلی کے لئے ایسی ہی سازشیں ہوئيں اور ان سازشوں کا سد باب کوئي نہیں کر سکا۔ اس سے قبل بھی فرانس اور سویت یونین کے انقلاب آئے لیکن شروع میں ہی لڑکھڑا گئے حوادث زمانہ نے انہیں اصل اہداف سے منحرف کر دیا۔
عوامی، اسلامی ماہیت اور امنگوں پر مرکوز ہونا یا یہ کہ انقلابی نوجوان آج تیس سال بعد بھی کھڑا ہوکر انقلاب کے اہداف اور امنگوں کو اپنی دلی خواہش اور اہداف کے طور پر پیش کرے یہ سب اسلامی انقلاب کی بہت بڑی خصوصیتیں ہیں، بہت بڑی کامیابیاں ہیں۔ دوسرے انقلابوں میں یہ خصوصیتیں نظر نہیں آتیں۔ آپ انیسویں صدی کے فرانسیسی ادب پر نظر ڈالئے، اٹھارہویں صدی کے اواخر میں فرانس کا عظیم انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا اور انیسویں صدی کے اوائل میں نپولین کو اقتدار حاصل ہو گیا، آپ اگر انیسویں صدی کے تیسرے اور چوتھے عشرے کو دیکھئے تو آپ کو فرانس کے ناولوں اور اشعار میں جو حالت نظر آئے گی وہ انقلاب کے تیس ہی سال بعد مطلق العنان استبداد، وسیع پیمانے پر پھیلے فساد اور وحشت ناک امتیاز و نسلی تفریق کی غماز ہوگی۔ جبکہ وہاں بھی مساوات کے نعرے تھے، عدل و انصاف کےنعرے تھے۔ استبداد کی نفی کے نعرے تھے۔ سویت یونین کے انقلاب کا انجام تو اس سے بھی بدتر ہوا۔ ہمارے زمانے میں بھی انقلاب کے نام پر کچھ واقعات ہوئے البتہ ان میں بیشتر فوجی بغاوتیں تھیں۔ یعنی مسلح گروہ نے آکر ملک کی باگڈور اپنے ہاتھ میں لے لی۔ جیسا کہ کیوبا یا دیگر مقامات پر ہوا۔ ان میں اکثر کا انجام وہی ہوا جو میں نے عرض کیا، یعنی یہ انقلاب مشکلات اور رکاوٹوں کے سامنے ٹک نہیں سکے۔
اب ایک نظر ڈالئے ان مشکلات پر۔ یہ تمام مشکلات قدرتی ہیں۔ ان سے روبرو ہونا کوئي اتفاق نہیں ہے۔ یہ تو ہمیشہ سے چلا آ رہا ہے۔ یعنی سعی و کوشش کے سامنے ہمیشہ رکاوٹیں اور مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو جہاد کو مصداق کیسے ملتا۔ ( و کذالک جعلنا لکل نبی عدوا شیاطین الانس والجن یوحی بعضھم الی بعض زخرف القول غرورا) انبیاء علیھم السلام نے جب بھی اپنا پیغام پیش کیا جن و انس کی شکل میں دشمن اور رکاوٹیں سامنے آئیں۔ جیسا کہ ایک اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے (و كذلك جعلنا فى كلّ قرية اكابر مجرميها ليمكروا فيها و ما يمكرون الّا بانفسهم) معاشروں میں جن طبقات کی وجہ سے فتنہ اور فساد پھیلتا تھا جو ہمیشہ مکر و حیلے میں مصروف رہھتے تھے ان کا وجود فطری بات تھی۔ یعنی انبیاء نے کبھی بھی ایسا نہیں کہا کہ جب راستا صاف ہو جائے گا کوئي رکاوٹ نہیں ہوگ تب ہم آگے بڑھیں گے۔ انہوں نے تو انہی دشواریوں اور مسائل کا سامنا کرتے ہوئے اپنی تحریک شروع کی۔ جیسا کہ اسلامی جمہوریہ اور اسلامی انقلاب نے بھی اسی نہج پر اقدام کیا ہے۔ البتہ دوسری جانب یہ بھی سنت الہی رہی ہے کہ الہی تحریک جس کا ایک مصداق اسلامی جمہوریہ اور اسلامی انقلاب ہے آگے بڑھنے کے عمل کو جاری رکھتی ہے اپنے اہداف کے لئے تگ و دو میں کوئي کمی نہیں کرتی تو بالآخر فتح اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ یہ بھی سنت الہی اور قدرتی عمل ہے۔ سورہ فتح میں ارشاد ہوتا ہے کہ (و لو قاتلكم الّذين كفروا لولّوا الادبار ثمّ لايجدون ولىّ و لا نصيرا. سنّة اللَّه الّتى قد خلت من قبل و لن تجد لسنّة اللَّه تبديلا) اگر وہ ڈٹ جائيں، استقامت کریں، ہدف سے توجہ نہ ہٹنے دیں، اگر سعی و کوشش بند نہ کریں تو کامیابی ان کے قدم چومے گی ۔ آپ عزیز نوجوانوں سے میری اس گفتگو کا ما حصل یہی ہے۔
اول روز سے انقلاب کے خلاف جو صف بندی کی گئی، وہ آج بھی موجود ہے، کچھ سازشوں کی شکلیں بدل گئيں ہیں، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کچھ نئے محاذ بھی کھل گئے ہیں۔ جیسا کہ ہمارے عزیز نوجوانوں نے بتایا آج صارف کلچر پوری سرعت کے ساتھ پھیل چکا ہے پیسے کمانے کی دوڑ شروع ہو گئی ہے، پیسے کی ہوس کے نتیجے میں ایک نیا طبقہ معرض وجود میں آیا ہے۔ اسلامی نظام دولت کمانے اور بنانے کا مخالف نہیں ہے ثروتمندی اور خوشحالی کے خلاف نہیں ہے بلکہ اسلام تو اس کی ترغیب دلاتا ہے۔ اگر دولت نہ کمائي جائے گی تو معاشرے کے وجود و بقا کے لئے خطرات پیدا ہو جائیں گے۔ معاشرے کو ضروری قوت حاصل نہیں سکے گی۔ یہ تو اسلام میں اہم ہے لیکن یہ کہ تمام افراد میں پیسے کمانے اور جمع کرنے کی دوڑ اور رقابت شروع ہو جائے، رئیسانہ شان و شوکت کا شوق عام ہو جائے تو یہ کہیں سے بھی درست نہیں ہے۔ یہی بری چیز ہمارے اندر پیدا ہو گئی ہے۔ یعنی اسراف، فضول خرچی اور وسیع پیمانے پر صارف کلچر۔
بیرونی مسائل بھی اپنی جگہ برقرار ہیں۔ آج آپ مشاہدہ فرما رہے ہیں کہ امریکہ ملت ایران کے مد مقابل کھڑا ہے۔ وہ اپنی پوری طاقت صرف کر رہا ہے، اس کی سیاسی، اقتصادی اور عالمی طاقت و قوت اتنہی ہی ہے۔ بعض افراد کا خیال ہے کہ امریکہ میں حکومتوں کو اپنی سرحدوں سے باہر ایک بڑے دشمن کی اشد ضرورت رہتی ہے۔ امریکی حکام اسلامی جمہوریہ کو بہت بڑے دشمن اور خطرے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ البتہ یہ حقیقت بھی ہے۔
امریکی حکام کی ایک پالیسی یہی ہے کہ اندرونی مسائل، نسلی تفریق و امتیاز، عجیب و غریب عدم مساوات، بے شمار عوامی مسائل سے رای عامہ کی توجہ ہٹانے کے لئےایک بیرونی دشمن تیار رکھتے ہیں یہ بات تو ہم بھی سمجھ چکے ہیں اور اس کی پوری اطلاع ہمیں ہے لیکن ایران کے مسئلے کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرنا، امریکہ کے تسلط پسند حکام کے طرز فکر اور روش کا اہم نکتہ ہے۔ واقعی ایسا ہی ہے۔ ان کا گویا وجود ہی دنیا میں کبھی یہاں تو کبھی وہاں برتری اور بالا دستی قائم کرنے پر ٹکا ہوا ہے۔ انہوں نے حکومتوں کو مطمئن اور قوموں کو خاموش رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔ آج ان کی مخالفت کا واحد پرچم، اور ان کو للکارنے والی واحد حکومت اور قوم کون سی ہے؟ ظاہر ہے کہ اسلامی جمہوریہ کا پرچم اور ایرانی قوم اور حکومت ہی ہے جو تسلط پسند طاقتوں کی منشا کے مطابق عمل نہیں کرتی۔ ایرانی عوام، حکومت، صدر، کابینہ ملک کے حکام سب، کھل کر ظلم کی نفی کر رہے ہیں، تفریق کی مخالفت کر رہے ہیں، استبداد کی نفی کر رہےہیں۔ یہ اس طاقت کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے جو اپنے قومی دائرے اور اپنی سرحدوں تک محدود رہنے کو تیار نہیں ہے۔ وجہ یہ ہےکہ اس (ایرانی) قوم کی آواز اور اس کا قیام دیگر اقوام کو بیدار کر رہا ہے متنبہ کر رہا ہے۔ یہ سلسلہ آج تک چلا آ رہا ہے، آج بیداری کی لہر پھیل رہی ہے تو ظاہر ہے بڑی طاقتوں کو اس سے تکلیف ہے۔ انہوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ہے لیکن پھر بھی ملت ایران، یہ عزیز نوجوان اور یہ طلبا مل کر ان طاقتوں کا مقابلہ اور ان پر فتح حاصل کر سکتے ہیں۔ البتہ اس کے لئے چند شرطیں ہیں۔ بیس سال اور تیس سال قبل کی بنسبت آج ہم بہت آگے پہنچ چکے ہیں، ہمارا تجربہ زیادہ ہو چکا ہے۔ ہماری انتظامی صلاحیتوں میں پختگی آ چکی ہے۔ ہماری سائنسی اور علمی توانائیوں اور صلاحیتوں پر نکھار آ گیا ہے، ہماری اقتصادی قوت میں کئي گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ پیش رفت و ترقی کے تعلق سے آج ہمارا نظریہ بہت بہتر ہو چکا ہے۔
انقلاب کے پہلے عشرے میں بہت سے انقلابی بھی پیش رفت و ترقی کے لئے بائيں بازو سے تعلق اور وابستگي کو لازمی سمجھتے تھے بائیں بازو سے مراد سن اسی کے عشرے کا سوشلسٹ نظریہ تھا۔ اگر کويی اس خیال کی مخالفت کرتا تو اس پر کوئي نہ کوئي الزام عائد کر دیا جاتا اس میں کوئی نقص اور عیب تلاش کر لیا جاتا تھا۔ بعض حکام ایسے تھے جو اسلامی جمہوریہ کی سطح پر حکومت کے مکمل اقتدار اور حکومت کی مالکیت کے حامی تھے۔ بہرحال یہ نظریہ درست نہیں تھا۔ ملک کی ترقی کے لئے مشرقی سوشیلسٹ طرز فکر کو محور قرار دیا جاتا تھا جو کہ غلط تھا۔ ویسے اس نظرئے کی عدم افادیت جلد ہی واضح ہو گئي اور حتی وہ افراد بھی جو اس زمانے میں ان افکار کے حامی و مروج تھے ان میں اچانک ایک سو اسی درجے کی تبدیلی ہوئي اور وہ اسی شد و مد اور انتہا پسندی کے ساتھ مخالف سمت میں چل پڑے۔
ایک زمانہ آیا جب ترقی کے لئے مغربی طور طریقے کو لازمی قرار دیا جانے لگا۔ یعنی یہ کہا گيا کہ ہمیں بھی اسی راستے پر چلنا ہوگا جس پر مغرب کے لوگ گامزن ہیں۔ یہ لوگ خود کو برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی ترقی کو اپنی پہنچ سے باہر تصور کرتے تھے، ان کی نظریں جنوبی کوریا جیسے ممالک پر تھیں کہ اس سطح تک کسی طرح پہنچا جا سکتا ہے۔ خیر یہ نظریہ بھی طاق نسیاں کی زینت بنا۔ آج حکام، عوام، دانشوروں، مفکرین اور اہم شخصیات کی سطح پر مغربی انداز کی ترقی کا خیال غلط ثابت ہو چکا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ مغربی انداز کی ترقی پر آج مشرقی ممالک ہی نہیں، ہم ہی نہیں بلکہ خود مغربی دانشور اور مفکرین نکتہ چینی کر رہے ہیں۔ خواہ وہ سیاسی شعبے کی ترقی ہو یا اقتصادی اور اخلاقی شعبے کی۔ جس لبرل ڈیموکریسی پر وہ کبھی نازاں تھے آج اسی پر تنقیدیں کر رہے ہیں۔ معلوم ہوا یہ بھی ترقی کا صحیح روڈمیپ اور خاکہ نہیں ہے۔ ہم ان باتوں سے آج پوری طرح واقف ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ترقی کا اسلامی و ایرانی روڈمیپ کیا ہے؟ یہ روڈمیپ تدوین کیا جانا چاہئے، اس کے خد و خال واضح کئے جانے چاہئيں۔ اس کا خاکہ پوری تفصیلات کے ساتھ تیار کیا جانا چاہئے۔ یہ کام پوری طرح سے اب تک انجام نہیں پایا ہے لہذا اسے انجام دیا جانا چاہئے۔ البتہ یہ بھی کوئی معمولی تبدیلی اور کامیابی نہیں ہے کہ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اسلامی و ایرانی روڈمیپ کی سمت لوٹنا چاہئے۔
تو جناب یہ ہے پیش رفت و ترقی کا راستہ، پیشرفت کا راستا، نہ تو مغرب کا راستہ ہے اور نہ ہی مشرقی بلاک کا متروک اور منسوخ راستہ۔ مغربی ممالک میں جو بحران پیدا ہوئے، وہ ہمارے پیش نظر ہیں۔ ہمیں اندازہ ہے کہ یہ بحران ہر اس ملک کو اپنی لپیٹ میں لیں گے جو مغربی انداز میں ترقی کر رہے ہیں، لہذا حالات کا تقاضہ ہے کہ ہم ترقی کے لئے اپنا اسلامی - ایرانی راستہ اختیار کریں اور پوری سرعت کے ساتھ اس پر رواں دواں ہو جائیں۔
ان مقدمات اور شرائط کو پیش نظر رکھتے ہوئے آپ اپنا راستہ تلاش کریں۔ آپ کو خود کسی نتیجے پر پہنچنا ہے تاہم رہنمائی کے عنوان سے میں بس اتنا عرض کروں گا کہ سعی و کوشش، میں تسلسل اور صبر و تحمل ضروری ہے۔ آپ یونیورسٹیوں سے وابستہ ہیں، آپ کی سرگرمیاں یونیورسٹی کے تناظر میں ہیں۔ آپ کو چاہئے کہ پوری دلجمعی سے تعلیم حاصل کریں، تحقیق کریں، ہمیشہ نئے نظریات کی فکر میں رہیں۔ مغربی نظریہ پردازوں سے متاثر ہوکر ان کے افکار کی ترجمانی کرنا غلط اور خطرناک ہے۔ عمرانیات اور سیاسیات جیسے شعبوں میں ہمیں نظریہ پردازی کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی اور اقتصادی میدانوں میں بھی دنیا کے بہت سے واقعات انہی علوم کے ماہرین کے افکار و نظریات کے زیر اثر رہتے ہیں۔ عمرانیات، سائیکالوجی، فلسفہ اور دیگر علوم میں یہی مفکرین نئے نئے شعبے متعارف کراتے ہیں۔ ان علوم میں ہمیں خود بھی چاہئے کہ اپنے نظریات سامنے رکھیں۔ کوشش کریں، محنت کریں۔ طالب علم کو کڑی محنت کرنی چاہئے۔ طلبا اور یونیوسٹی سے متعلق حلقوں کی نظر انقلاب کے طویل المیعاد اہداف پر ہونی چاہئے۔
ان اہداف کی جانب پیش قدمی ہونی چاہئے۔ ساتھ ہی بہت زیادہ ہوشیاری برتنے کی بھی ضرورت ہے کہ یونیورسٹی، طلبا اور اساتذہ کے حلقے کو دشمن اپنے مفاد کے لئے استعمال نہ کرنے پائے۔ اس چیز پر میں خاص طور سے تاکید کرتا ہوں۔ کہیں کوئي معمولی سا واقعہ ہو جائے مثلا اسی آپ کی یونیورسٹی میں ہی ممکن ہے کہ بعض طلبا کچھ چیزوں سے اتفاق نہ کرتے ہوں، معترض ہوں۔ اتنی سی بات ذرا سی دیر میں دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں آ جاتی ہے اور اس پر تجزیہ و تبصرہ شروع ہو جاتا ہے۔ اب ان کا تبصرہ اور تجزیہ اس سمت میں تو ہوگا نہیں جس سمت میں طلبا نے اقدام کیا یا جو طلبا کی منشا ہے۔ بلکہ تبصرہ بالکل برعکس صورت حال پیش کرتا ہے۔ یعنی یہ کہ اقتدار اعلی، اسلام اور اسلامی نظام پر سوالیہ نشان لگا دئے جاتے ہیں۔ لہذا بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ یونیورسٹیوں میں یہ احتیاط سب سے زیادہ ضروری ہے۔
ایک اور اہم نکتہ جو میں نوجوانوں سے عرض کرنا چاہتا ہوں دینداری ہے۔ عزیزو! امکان بھر دینداری اور دینی اصول و احکامات کی پابندی الہی نوازشوں کا مقدمہ ہے۔ انسانی کمالات کی بنیاد ہے، پیش رفت و ترقی کا راستہ ہے۔ اسے معمولی نہ سمجھئے۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ اگر ریاضیات کا کوئي قانون، یا کوئی کیمیاوی مادہ، یا پھر کوئي نئي چیز دریافت کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو اس لمحہ آپ کی توجہ اگر خداوند عالم کی سمت ہوگی تو یقینا وہ آپ کی مدد فرمائے گا۔ یوں بھی اللہ ہی کا کرم ہے کہ آپ کچھ کرنے پر قادر ہیں، سب کچھ اللہ تعالی کے دست قدرت میں ہے۔ شاید میں نے پہلے بھی کبھی یہ بات کہی ہے کہ جس زمانے میں ہمارے نوجوان سائنسداں بنیادی خلیوں (اسٹم سیلز) پر تحقیق کر رہے تھے، تحقیقاتی ادارے رویان کے ڈائرکٹر انجینیر کاظمی مرحوم، اللہ ان کی مغفرت فرمائے، محققین کے ساتھ میرے پاس تشریف لائے تھے، انہوں نے بتایا کہ میں نے ایک بار انجینیر جوانی کو فون کیا جو اس پروجیکٹ پر کام کر رہے تھے تاکہ یہ معلوم کروں کہ تحقیق کہاں تک پہنچی کیونکہ انہوں نے ایک دن قبل کہا تھا کہ کل کام مکمل ہو جائے گا، ان کی اہلیہ نے ٹیلیفون رسیو کیا اور جواب دیا کہ انجینیر جوانی اس آخری نتیجے پر پہنچ گئے اور جیسے ہی تحقیق کا نتیجہ حاصل ہوا وہ بے ساختہ سجدے میں گر گئے اور اب تک ان کا گریہ بند نہیں ہوا ہے۔ جب انجینیر کاظمی یہ واقعہ نقل کر رہے تھے تو خود بھی رو رہے تھے اور اس نوجوان محقق پر بھی رقت طاری تھی۔ کامیابی حاصل ہوئي تو رو پڑے! روحانیت و معنویت کے پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
اللہ تعالی سے لو لگاکر، اس کا قرب حاصل کرکے، اس کے وسیلے کی دعا کرکے اور اس کی عنایتوں کی التجا کرکے بہت سے دشوار ترین کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ آپ ابھی نوجوان ہیں، ہم لوگوں سے مختلف ہیں، آپ کی خدمت میں عرض کروں کے اس لحاظ سے آپ ہم سے بہت آگے ہیں۔ آپ کے دل پاکیزہ، نورانی، آلايشوں سے پاک، خود غرضی سے دور اور اس صاف شفاف آئينے کی مانند ہیں جس میں نور پوری آب و تاب سے منعکس ہوتا ہے۔ ابھی یہ دل آلودہ نہیں ہوئے ہیں، اس چیز کی قدر کیجئے۔ اللہ تعالی سے رابطہ مضبوط کیجئے۔ نماز، مستحبات، تلاوت کلام پاک، دعا و مناجات اور صحیفہ سجادیا کے مندرجات کا سہارا لیجئے۔ صحیفہ سجادیہ اعلی دینی تعلیمات کا ذخیرہ ہے۔ اسی روش کے ذریعے اپنی دینی اور انقلابی بنیادوں کو بھی آپ مضبوط کر سکیں گے۔ ہمارے نوجوانوں کی اگر دینی بنیاد مضبوط و مستحکم ہو تو وہ افراد جو اسی شہر شیراز، اسی صوبہ فارس اور پورے ملک میں اذہان کو مختلف سمتوں کی جانب منحرف کرنے کے لئے سازشوں میں مصروف ہیں اور جس کی ہمیں پوری اطلاعات ہیں، ہمارے نوجوانوں کے استحکام کو دیکھنے کے بعد مایوس ہو جائيں گے۔ آپ کے اسی شہر میں اور دیگر مقامات پر جن کی تفصیلات میں جانے کا موقع نہیں ہے، شاید آپ بھی بخوبی واقف ہوں کہ بعض عناصر فرومایہ مادیاتی نظریات، منسوخ ادیان، بظاہر دینی لیکن بباطن سیاسی تنظیموں سے وابستہ ہیں، ایڑی چوٹی کا زور لگار رہے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ کی عظیم توانائي کو جتنا ممکن ہو کم کر دیں۔ ایسے عالم میں اگر ہمارے نوجوان کا دینی نظریہ اور عقائد مستحکم ہوں گے تو یہ عناصر مایوس ہو جائيں گے اور پھر ان نوجوانوں سے دوری اختیار کر لیں گے۔ یہ استحکام صحیفہ سجادیہ کی دعاؤں، اللہ تعالی کی بارگاہ میں التجا و مناجات اور گریہ و زاری سے پیدا ہوگا۔ ان دعاؤں میں صرف یا رب، یا رب کی تکرار نہیں ہے، ان میں تو اسلامی حقائق اور تعلیمات کا وہ ذخیرہ پنہاں ہے جو انسان کے عقیدے کو پختگی عطا کرتا ہے۔ تلاوت کلام پاک میں بھی یہ خصوصیت ہے، خود نماز میں بھی یہ خصوصیت ہے۔ آپ تمام نوجوانوں کے لئے یہ میری سفارش ہے۔
آپ اپنے اتحاد کو برقرار رکھئے، ملت ایران کی سطح پر بھی اتحاد بہت اہم ہے۔ ملک کے طلبہ کے طبقے کے لئے بھی اتحاد لازمی ہے، ایک شہر اور صوبے کے طلبا کی سطح پر بھی اتحاد بہت ضروری ہے۔ خیالات میں فرق آپ کے درمیان ٹکراؤ کی صورت حال پیدا نہ کرنے پائے۔ ایک زمانہ تھا کہ جب بعض عناصر کے شوم مفادات کا انحصار یونیورسٹیوں میں سیاسی ٹکراؤ اور جھڑپوں پر تھا۔ الحمد للہ آج یہ صورت حال نہیں ہے۔ آپ طلبا یونینوں کو ایک دوسرے کی دشمن بننے کا موقع نہ دیجئے۔ رقابت اور مقابلے میں کوئي مضایقہ نہیں، لیکن یہ رقابت مثبت ہونی چاہئے۔
ایک طالب علم نے ابھی کہا تھا کہ ہم تیار ہیں، آپ ہمیں تحقیقی مرکز مہیا کرائيں یا یہ موقع دیں کہ ہم خود تحقیقی مرکز قائم کر لیں تاکہ مثال کے طور پر سولر انرجی یا کسی دوسرے شعبے میں ہم سرگرمیاں انجام دے سکیں۔ اسی طرح طلبا کا کوئي اور گروہ کسی اور مسئلے اور میدان میں رقابت کرے۔ مثبت رقابت اور مقابلہ اسے کہتے ہیں۔ مثبت مقابلہ یعنی دوڑنے کا مقابلہ، (سابقوا الی مغفرۃ من ربکم) نیک کام میں مقابلہ، پیداواری امور میں مقابلہ، ائيڈیا اور نظریات کو تجرباتی مرحلے سے گزارنے اور عوامی زندگی کے لئے رفاہ و آسائش کی فراہمی کا مقابلہ، یہ قابل تعریف مقابلہ ہے۔ دست بگریباں ہو جانا، جھگڑا لڑائی، وہ بھی چھوٹی چھوٹی اور معمولی باتوں پر، یہ درست نہیں، یہ ہمیں پسند نہیں۔ وہ یونیورسٹی کا ماحول ہویا ملک گیر فضا ہو، علما کا حلقہ ہو یا کوئي اور میدان، یہ چیز کہیں بھی پسندیدہ نہیں ہے۔
علم و دانش بنیادی محور ہے، اتحاد بنیادی محور ہے۔ دینداری بنیادی محور ہے اور ملک کی معاشیات بھی بنیادی محور ہے۔ اگر ہم موجودہ دور میں خلاقیت کے نعرے کو جو یقینی طور پر پیش رفت پر منتج ہوتا ہے، عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہو گئے تو انہی چند محوروں کے ذریعے ہم دشمن کو پسپا کر سکتے ہیں، اس میں کسی شک کی کوئي گنجائش نہیں ہے۔
البتہ اقتصادی سرگرمیاں اور معاشی کوششیں، مساوات کے معیار سے ہم آہنگ ہونی چاہئيں۔ مساوات نہ ہو تو ہر اقتصادی کوشش نقصان دہ ثابت ہوگی۔ مساوات کا یہ مطلب نہیں ہےکہ سرمایہ کاری نہ کی جائے اور سرمایہ دار کو سرمایہ کاری کا موقع نہ دیا جائے۔ یہ غلط تصور ان لوگوں کی دین ہے جو ایک زمانے میں خود کو مساوات کا بڑا حامی اور طرفدار کہتے تھے۔ ہرگز نہیں، سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع پیدا کرنا کار خیر ہے، عبادت ہے، بہت بڑا کام ہے، ضرور انجام دیا جانا چاہئے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم مسئلہ اچھا مینیجمنٹ ہے۔ عدلیہ ہو، مقننہ ہو یا مجریہ، ہر شعبے میں مینیجمنٹ اچھا ہونا چاہئے تاکہ کسی کا حق نہ مارا جائے۔ کوئي بھی اپنی حد سے تجاوز نہ کرے۔ یہ کارواں اپنے تمام اراکین کے ساتھ، اللہ تعالی کی مرضی کے مطابق، آگے بڑھے۔
پروردگارا ! ہم نے جو کچھ کہا اور سنا اسے اپنی راہ حق سے وابستہ قرار دے۔ پروردگارا! ہمیں ان کاموں کی توفیق عطا کر جو تیری مرضی کے مطابق ہوں۔ پروردگارا! ہمارے ملک کو دن دونی رات چوگنی ترقی دے۔ ان پاکیزہ سرشت نوجوانوں کو ملک کے مستقبل کی اس انداز سے تعمیر کرنے کی توفیق دے جو مطلوب اور پسندیدہ ہے۔ خدایا! ان جوانوں کو اس ملک اور قوم کو بخش دے۔ خدایا! حضرت امام زمانہ (ارواحنا فداہ) کے قلب مبارک کو ہم سے راضی و خوشنود رکھ۔
والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ