بسم اللہ الرحمن الرحیم
عزیز بھائي بہنوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ عدلیہ کے محترم عہدہ داروں کو بھی اور شہدا کے صابر بازماندگان کو بھی۔
یہ ایک اہم نکتہ ہے کہ یوم عدلیہ یا ہفتہ عدلیہ کو ایک عظیم شخصیت کی شہادت کی یاد اور اس کے نام سے جوڑ دیا جائے۔ اسلامی جمہوریہ کی برجستہ شخصیات کی شہادت کہ جن میں عزیز آیت اللہ بہشتی اور عدلیہ اور دیگر اداروں کے حکام کی شہادت کی تاریخ کے ساتھ یوم عدلیہ کا جڑ جانا اس شہادت کی یاد تازہ رکھنے کے لئے بہت اچھا اقدام ثابت ہوا۔ سات تیر مطابق اٹھائیس جون کا سانحہ اور ڈاکٹر بہشتی اور ان کے دیگر ساتھیوں کی شہادت، اسلامی انقلاب کی تحریک میں ایک اہم موڑ ثابت ہوئي اور یہ تحریک، ان تمام سازشوں کا ناکام بناتے ہوئے اپنے اہداف کی سمت بڑھی جو اس تحریک کو اس کے اصلی اہداف کے راستے سے ہٹانے کے لئے کی جا رہی تھیں۔
یہ شہادتیں، پیش قدمی کی ضمانتیں ہیں، لہذا اپنی کارکردگی اور ذمہ داریوں کی ادائگی کے وقت ہمیشہ ہمارے ذہن میں ایثار کے عظیم اقدامات رہنے چاہئیں۔ یہ ذہن میں رہنا چاہئے کہ آج اگر ہم کو عدلیہ، مقننہ یا مجریہ اور دیگر اداروں کی سطح پر اسلامی جمہوری نظام اور ملت ایران کی خدمت کا موقع ملا ہے تو یہ انہیں شہادتوں کا نتیجہ ہے۔ یہ ایثار پیشہ رہنماؤں کے ایثار کا ثمرہ ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ آج ہمارے پاس جو ہے وہ آسانی سے ہمیں نہیں ملا ہے۔ اس کے لئے بڑی اہم قربانیاں دی گئي ہیں۔ بڑے بڑے اور عظیم انسانوں نے اس کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ بڑا قیمتی خون زمین پر بہا ہے، اور اسی بے مثال آبیاری کا نتیجہ ہے کہ شجر نظام اسلامی آج تناور درخت بن چکا ہے۔ یہ سارے مواقع، یہ وسائل اور یہ فرائض جو آج ہمارے پاس ہیں ان کی ہمیں قدر کرنا چاہئے۔ میں ان دونوں مناسبتوں کو بہت اہم سجھتا ہوں اور اٹھائیس جون کے شہدا اور اسی طرح اسلام اور انقلاب اور مقدس دفاع کے تمام شہدا پر درود بھیجتا ہوں، اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعاگو ہوں کہ ہمیں ان (عظیم شہدا) کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔ اسی سمت میں ہمارے قدم بڑھیں اور اس کے لئے ہم عملی اقدام کریں۔ یہ نکتہ ہمیشہ ہمارے ذہنوں میں رہنا چاہئے۔
عدلیہ کے سلسلے میں میں پہلے بھی بہت کچھ عرض کر چکا ہوں۔ عدلیہ کے حکام اور دیگر ماہرین نے بھی اپنے اپنے نظریات بیان کئے ہیں۔ اس اہم اور موثر شعبے کے سلسلے میں بھی اور اس کے راستے میں پیش آنے والے مسائل و مشکلات کے سلسلے میں بھی، اسی طرح موثر تدبیروں اور طریقوں کے بارے میں بھی جو مسائل کے حل میں کام آ سکتے ہیں۔ سب سے پہلے تو ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اسلامی نظام میں عدلیہ کا شعبہ کس لئے ہے اور اس سے کیا توقعات وابستہ ہیں۔ ہمیں ہمیشہ محاسبہ کرنا چاہئے کہ ہماری پیشرفت کتنی رہی، کیا جدید کام انجام پائے، کون سے مفید اقدامات کئے گئے، ہم کتنا آگے بڑھے؟ اور دوسری طرف یہ کہ ہم سے کیا توقعات وابستہ ہیں۔ یہ چیز ہمیشہ ہمارے ذہنوں میں رہنی چاہئے۔ ہمیں بے فکر نہیں ہو جانا چاہئے۔ الحمد للہ ان چند برسوں میں عدلیہ کی سطح پر بڑے فیصلے کئے گئے۔ بہت سے بڑے کام انجام پائے، بعض کام تو کلیدی حیثیت کے حامل تھے جو مستقبل میں قابل رشک پیشرفت کی نوید دے رہے ہیں۔ عدلیہ کے سربراہ کی جانب سے مجھے حالیہ برسوں میں انجام پانے والے اقدامات کی فہرست دی گئی ہے۔ اس میں بڑے عظیم کام شامل ہیں۔
اہم نکتہ یہ ہے کہ منزل مقصود تک رسائی ہو جانے تک یہ سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔ ایک عیب جو عموما انساسی مزاج کا حصہ ہوتا ہے یہ ہے کہ بڑے جوش و خروش سے کوئی کام شروع کیا جاتا ہے اور پھر جب جوش تھوڑا سا ٹھنڈا پڑا تو محنت بھی کم ہو جاتی ہے اور کام آگے جاری نہیں رہ پاتا۔ یہ نہیں ہونا چاہئے۔ مثال کہ طور پر عدلیہ کی تمام فائلوں اور دستاویزات کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کا مسئلہ ہے۔ جو قوانین اور امور ایسے ہیں جن سے مسلسل رجوع کرنا ہوتا ہے ان کو کمپیوٹرائزڈ کیجئے۔ یہ چیزیں سر دست مہیا رہیں۔ تو کمپیوٹرائزڈ کرنے کا سلسلہ بہت اچھا ہے لیکن یہ مفید اسی صورت میں واقع ہوگا جب اسے آخری مرحلے تک پہنچایا جائے۔ اگر پچاس فیصد اور ساٹھ فیصد کام ہو، تو یہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ کام کو پورا کرنا ضروری ہے۔ عدلیہ میں مقدمے کی کاروائي کو تیز کرنے اور کم وقت میں نمٹانے کا مسئلہ ہے یا پھر جیلوں کا موضوع ہے یہ سب عدلیہ کے انتہائی اہم امور ہیں۔ ان امور کے لئے اچھے منصوبے تیار کئے گئے ہیں ان میں کچھ پر تو عملدرآمد بھی شروع ہو گيا ہے ان امور کو انجام تک پہنچانا ضروری ہے۔ کام میں تسلسل اور تندہی کی بڑی اہمیت ہے۔
ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ ہم یہ سارے کام اس لئے انجام دے رہے ہیں کہ عدلیہ کو اسلامی معاشرے، عوام اور حقیقی انسانی زندگی میں اس کا شایان شان مقام مل سکے۔ میں گزشتہ برسوں کے دوران اس سلسلے میں تفصیل سے گفتگو کر چکا ہوں کہ عدلیہ کے تعلق سے عوام میں تحفظ اور اطمینان کا جذبہ بیدار ہونا چاہئے۔ عملی میدان میں عدلیہ کا نصب العین یہ ہے کہ عدالتی نظام ایسا ہو جائے کہ اسلامی معاشرے میں ہر وہ شخص، جسے یہ احساس ہو کہ کوئي اس پر ظلم کرنا چاہتا ہے یا اس کے ساتھ نا انصافی ہوئي ہے تو اس کی بابت پوری طرح مطمئن ہو کہ وہ عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹائے گا تو سب کچھ حل ہو جائے گا۔ عوام میں یہ احساس عام ہونا چاہئے۔ سب کو یہ اطمینان ہونا چاہئے کہ عدلیہ سے رجوع کرنے پر انہیں ان کا حق مل جائے گا۔ اسلامی معاشرے میں یہ صورت حال قائم ہونا چاہئے۔
جن امور میں عدلیہ سے رجوع کیا جاتا ہے اگر صد فیصد نہ سہی اسی فیصد بھی منصفانہ روش پر عمل کیا جائے تو عوام میں یہ احساس اور اطمینان یقینی طور پر پیدا ہو جائے گا۔ یعنی عوام کو یقین ہو جائے گا کہ عدلیہ معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام کی ذمہ داری پوری کر رہی ہے۔ یہ ضروری ہے، یہ ساری تیاریاں اور کوششیں اسی ہدف کے لئے انجام پا رہی ہیں۔ اگر ہم نے بھرپور کوششیں کر لیں، ہر ممکن اقدام کر لیا لیکن عوامی سطح پر یہ مطلوبہ احساس پیدا نہ ہو سکا تو ہمیں اس کا یقین رکھنا چاہئے کہ کہیں نہ کہیں کوئي کمی ضرور رہ گئی ہے۔ ہمیں اس کمی کو تلاش کرنا چاہئے۔ مشکل کو دور کرنا چاہئے۔ کارکردگی کا معیار یہی ہونا چاہئے۔ اس کے لئے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے۔ البتہ اس کے لئے باایمان، باتقوی اور ماہر افراد کی ضرورت ہے اور عدلیہ کے شعبے میں ہمارے پاس بحمد اللہ ایسے افراد کی کمی نہیں ہے۔ با ایمان، اہل علم، فرض شناس، اور دلچسپی سے کام کرنے والے افراد، عدلیہ میں مختلف سطحوں پر بحمد اللہ موجود ہیں۔
اس وقت عدلیہ، عالم و فاضل شخصیت اور تمام بنیادی اصولوں اور ضوابط پر مکمل ملکہ رکھنے والے جناب شاہرودی کی قیادت میں کام کر رہی ہے۔ یہ بڑا اچھا موقع ہے۔ عدلیہ میں ایسی برجستہ اور ممتاز شخصیات کی موجودگی سنہری موقع ہے۔
اگر قانون سازی کی ضرورت ہے تو قانون سازی کی جائے۔ اگر کچھ ایسے شعبے ہیں جن کی صلاحیتوں سے اب تک استفادہ نہیں کیا گیا ہے تو ان سے استفادہ کیا جائے۔ آپ کے حکم پر ایک کمیٹی تشکیل پائي جو عدلیہ کے نظام کا جائزہ لینے اور اس کی سطح کو مزید بہتر بنانے کے امکانات پر غور کرنے پر مامور کی گئی۔ کمیٹی نے بڑی اچھی رپورٹ تیار کی۔ رپورٹ کا ایک نسخہ عدلیہ کے سربراہ کو اور یہ نسخہ مجھے پیش کیا گیا۔ اس میں بڑی اچھی تجاویز دی گئی ہیں۔ میں نے رپورٹ کے آگے چند نکات کا اضافہ کر دیا جن میں ایک نکتہ یہی تھا کہ ہم اس بات کا بھی جائزہ لیں کے بنیادی پالیسیوں کے نفاذ میں ہم کس حد تک کامیاب رہے ہیں۔ یہ کام عدلیہ کی سطح پر انجام پانا چاہئے۔ ہم نے عدلیہ کی مناسبت سے بہت مفید اور کارآمد پالیسیاں وضع کیں۔ ان میں بیشتر پالیسیاں تو خود عدلیہ کی تجویز پر زیر غور آئيں۔ یہ بہت اچھی پالیسیاں تھیں۔ ہمیں ہمیشہ نگرانی رکھنی چاہئے کہ یہ پالیسیاں کس حد تک نافذ ہوئی ہیں۔ کیونکہ یہ چیز کارکردگي کا معیار ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ ان پالیسیوں سے عدلیہ کے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ کس حد تک پورے ہوئے؟ ہم کس مقام پر پہنچے؟ جائزے کے اس عمل سے ہمیں پیشرفت کرنے میں مدد ملے گی۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان محسوس کرتا ہے کہ اس نے سو کلومیٹر کی مسافت میں سے ساٹھ ستر کلومیٹر کا فاصلہ طے کر لیا ہے، وقت بھی بہت ہے لہذا کچھ آرام کر لینے میں کوئي مضائقہ نہیں، بیٹھ کر ایک چای پی جا سکتی ہے۔ لیکن دفعتا وہ محسوس کرتا ہے کہ نہیں حساب میں غلطی ہوئي ابھی تو میں صرف پندرہ یا بیس کلومیٹر کا فاصلہ ہی طے کر سکا ہوں تو اب اسے بے چینی کا احساس ہوتا ہے اور وہ زیادہ سرعت کے ساتھ راستہ طے کرنا شروع کر دیتا ہے۔ تو اس چیز کی بڑی اہمیت ہے کہ ہمیں اپنی صحیح پوزیشن کا علم ہو۔ یہ میری نظر میں عدلیہ کی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہئے۔ خاص طور پر عدالتی سنوائي کے سلسلے میں۔
ایک اور اہم نکتہ کہ جو ترجیحات کا حصہ ہے وہ یہ ہے کہ فیصلہ سنانے کا مرحلہ بہت باریک بینی اور پوری توجہ سے طے پانا چاہئے۔ نچلی عدالتوں کے فیصلے اپیل کورٹ اور ایپکس کورٹ میں بدل دئے جانے کے واقعات کم از کم ہونے چاہئیں یعنی فیصلہ سنانے کا عمل اتنے صحیح طریقے سے انجام پائے کہ اس میں کوئی نقص رہ جانے کا امکان نہ رہے۔ اگر بڑی تعداد میں نچلی عدالتوں کے فیصلے اپیل کورٹ میں بدلے جا رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئي نہ کوئی مشکل ضرور ہے۔ تو یہ چیز بھی ترجیحات میں شامل ہے۔
ایک اور نکتہ، جیلوں کے مسائل کا حل ہے۔ ان مسائل کو بہت زیادہ سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ جیلوں کا نظام ایسا ہونا چاہئے کہ یہ جیلیں حقیقی معنی میں کار نیکو کی درس گاہ بن جائيں۔ اسے بہت اہم منصوبے کا درجہ دیا جانا چاہئے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کا براہ راست عدلیہ سے تعلق ہے۔ متعلقہ شعبوں کو چاہئے کہ ہر ممکن کوشش کریں۔
ہمیں عدلیہ کی عظیم صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے، کیونکہ جیسا کہ میں نے عرض کیا ہماری عدلیہ کا نظام ڈھانچے اور قوانین کے لحاظ سے جدید، پیشرفتہ اور بڑا منطقی نظام ہے۔
جن امور پر میں خاص تاکید کرنا چاہتا ہوں ان میں ایک مالی بد عنوانی کا مسئلہ ہے۔ مالی بد عنوانی کو صرف خلاف قانون کام کی حیثیت سے نہیں دیکھنا چاہئے۔ کیونکہ اگر اس پر سخت نگرانی نہ رکھی جائے، اس کی جڑوں کا پتہ نہ لگایا جائے اور ملک کے تمام ادارے مل کر اسے نابود کر دینے کے در پے نہ ہوں تو اس سے پورے ملک پر ضرب لگ سکتی ہے۔ مالی بدعنوانی کے ساتھ ہی ثقافتی مسائل بھی سماج میں پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس سے اخلاقی مسائل بھی سر ابھارنے لگتے ہیں۔ مالی بد عنوانی کا ایک سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ اداروں کے اچھے اراکین کے لئے مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں۔ مالی بد عنوانی کے بہت سے ایسے معاملے سامنے آئے ہیں کہ جن میں مجرم نے اپنے ذاتی مفادات کے لئے کسی ادارے میں پہلے اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے اور ادارے کے بعض افراد کے ساتھ ساز باز کرنے کی کوشش کی۔ اداروں میں کام کرنے والے تو مومن افراد ہیں لیکن شیطان ان پر لالچ اور طمع کا حربہ آزماتا ہے ایسے میں ہر ایک خود کو قابو میں نہیں رکھ پاتا، بعض کے قدم لڑکھڑا جاتے ہیں۔ یہ مالی بد عنوانی کا بہت برا نتیجہ ہے۔
مالی بد عنوانی، معاشرے میں اچھی سرمایہ کاری کا راستہ بند کر دیتی ہے۔ اس سلسلے میں عدلیہ کا کردار بہت اہم ہے۔ میں نے مجریہ کو اس سلسلے میں جو ہدایات دیں اور جو سفارشات کیں وہ تو اپنی جگہ ہیں ہی، خود آپ خواتین و حضرات بھی جو یہاں تشریف فرما ہیں اور عدلیہ کا حصہ ہیں یہ یاد رکھیں کہ مالی بد عنوانی کے سد باب کے سلسلے میں آپ کی ذمہ داری بہت اہم ہے۔
جرائم کے وقوع کو روکنا بھی عدلیہ کی ذمہ داری ہے، آپ آئين میں ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ عدلیہ کے لئے یہ ذمہ داری رکھی گئي ہے اور جہاں تک جرائم کے وقوع کو روکنے کا مسئلہ ہےتو اس کے لئے وسائل بھی ضروری ہیں، عدلیہ سکیورٹی کے شعبوں اور انٹیلیجنس کے شعبے کا استعمال کر سکتی ہے۔ ان سب کی مدد سے جرائم کے امکانات کو ختم کر دینے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ایک اسلامی ملک میں اگر کوئی خود غرض انسان، بد عنوان، لالچی اور چالاک شخص ملک کی دولت کا، جو ملک کے تمام طبقات کی ملکیت ہے، ایسے عالم میں کہ جب ملک میں بہت سے ضرورتمند بھی موجود ہیں، غلط استعمال کرتا ہے تو اس کے خلاف سخت اقدام کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالی ان کاموں کے سلسلے میں ہماری مدد فرمائے۔ ہمارا فریضہ ہے کہ ہم اپنی پوری کوشش کریں، اللہ تعالی سے برکت کی دعا کریں اور اس بات کا پورا یقین رکھیں کہ ایسا ضرور ہوگا۔ اگر ہم خلوص نیت، پاکیزہ ارادوں اور بھرپور جوش و جذبے کے ساتھ کام شروع کریں تو اللہ تعالی ہمارا کام آسان کر دے گا۔ جیسا کہ آج تک ہم مسلسل پیشرفت کرتے آئے ہیں۔ مستقبل میں ہماری کامیابیوں میں اور بھی اضافہ ہوگا۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ سب کی مدد فرمائے اور آپ کی خدمتوں اور پر خلوص کوششوں کو قبول فرمائے۔ امام زمانہ (ارواحنا فداہ) کی دعائیں آپ کے شامل حال رہیں اور امام (خمینی رہ) اور شہدا کی پاک ارواح ہم سب سے راضی و خوشنود رہیں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ