تفصیلی خطاب ملاحظہ فرمائیے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں تمام حق پسندوں، آزادی کے حامیوں، عظیم امت مسلمہ، عزیز و مومن ایرانی قوم اور جملہ حاضرین کو اس عید کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
بعثت کے واقعے کی یاد کسی تاریخی واقعے کی یاد کی مانند نہیں ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جو تاریخ انسانیت کے اس عظیم واقعے اور یادگار رويداد پر نظر ڈالتے وقت ہمیشہ ہمارے پیش نظر رہنا چاہئے۔ اس عظیم الشان واقعے کی جانب پر انہماک توجہ کی ضرورت در حقیقت ناقابل فراموش درس ہے امت مسلمہ کے لئے، جس میں عوام بھی شامل ہیں اور برجستہ شخصیات بھی سیاستداں بھی شامل ہیں اور دانشور و روشن خیال افراد بھی۔ اسی طرح یہ درس ہے کائنات کے ہر انسان کے لئے۔ یہ ایک درس کا اعادہ اور از سر نو مطالعہ ہے، یہ ایک سبق آموز واقعے کی یاد ہے۔
اس واقعے میں گوناگوں پہلو پنہاں ہیں، اگر کوئي واقعی چاہتا ہے کہ بعثت کے تمام پہلوؤں کو اجمالا ہی سہی خوش اسلوبی سے بیان کرے تو اس کے لئے گھنٹوں تقریر کی ضرورت ہوگی، کئی کتابیں تیار ہو جائیں گی۔ اس واقعے پر سرسری نظر ڈالنے سے بھی متعدد سبق ملتے ہیں۔ آپ غور کیجئے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام انسانی ضرورتوں اور ان کی تکمیل کے طریقوں پر محیط ایک جامع پیغام کے ساتھ ایسے معاشرے میں قدم رکھتے ہیں اور اپنی تحریک کا آغاز کرتے ہیں جس میں ان کما لات کا کہیں کوئي نام و نشان نہیں تھا۔
پیغمبر اسلام، پیغمبر علم بن کر اس معاشرے میں آئے جہاں علم عنقا تھا، اس معاشرے میں پیغام عدل و انصاف کے ساتھ آئے جسے انصاف چھو کر بھی نہیں گزرا تھا، وہاں تو طاقتور اور مالکان زور و زر کا بول بالا تھا، اس معاشرے میں آپ اخلاق و ایثار و مساوات و محبت کا پیغام لائے جہاں ان چیزوں کا کوئی معنی و مفہوم ہی نہ تھا۔ تشدد پسند اور استبداد کا خوگر معاشرہ، اخلاق و معنویت سے بے بہرہ سماج، علم و دانش سے پرے اور نفسانی خواہشات، جاہلانہ تعصب اور تکبر و غرور میں ڈوبے ہوئے لوگ۔
ایسی سخت اور دشوار صورت حال میں اور ایسے سنگ زار میں (اسلام کا) یہ پودا لگايا گیا۔ تیرہ سال تک دشوار ترین حالات میں اس کی آبیاری کی گئي اور تیرہ سال پورے ہونے پر ایک حکومت کی تشکیل عمل میں آئی اور علم و عدل و توحید و معنویت و اخلاق و کرامت کی بنیاد پر ایک معاشرہ معرض وجود میں آیا جس نے ذلت کو عزت میں، وحشی پنے کو اخوت میں، تعصب کو دانشمندی و ایثار میں اور جہل کو علم میں تبدیل کر دیا۔ ایک مستحکم بنیاد رکھی گئی جس کے سہارے مسلمانوں نے دنیا کی تہذیبوں کے نقطہ کمال پر قدم رکھے اور انہوں نے خود بھی نئی منزلوں اور نئی بلندیوں کو وجود بخشا جس کی تاریخ میں کوئی اور مثال نہیں ملتی۔ یہ حکومت دس سال سے زیادہ نہیں رہی۔ اگر آپ ایک قوم کی عمر کو پیش نظر رکھتےہوئے دس اور تیرہ، تیئیس سال کے عرصے کو دیکھئے تو ایک لمحے کی مانند محسوس ہوگا۔ اتنی سی مدت میں ایک عظیم تحریک معرض وجود میں آئی جس نے پوری تاریخ کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا، ایک حصہ ما قبل اسلام کا اور دوسرا ما بعد اسلام کا۔ اس نے انسانیت کو پیشرفت کے راستے پر گامزن کیا، اخلاقی بنیادوں کو استحکام بخشا اور انسانی معاشرے کو نا قابل فراموش درس دیا۔ آپ بعثت کی عظمت کو اس زاوئے سے دیکھئے۔
ان کامیابیوں کے پیچھے ایک دوسرے سے وابستہ بہت سے عناصر کارفرما تھے تاہم سب سے اہم اور پائيدار عنصر، توکل علی اللہ، صفا و معرفت اور روحانیت و معنویت سے سرشار وجود مبارک پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تھا۔ اعلان نبوت سے قبل بھی آپ مکے کے سب سے بڑے عقلمند اور دانا انسان سمجھے جاتے تھے۔ علاقے میں آپ کے اعلی کردار اور اخلاق و شرافت کا شہرہ تھا۔
اس معاشرے میں سب سے نمایاں خصوصیات کی اس عظیم ذات پر نزول برکات الہی ہوا اور آپ کے دوش مبارک پر عظیم فریضہ رکھ دیا گیا۔ کیونکہ اللہ تعالی آپ کو آزما چکا تھا۔ اللہ اپنے اس بندے سے بخوبی واقف تھا اور اسے بخوبی علم تھا کہ یہ سنگین ذمہ داری کس کے دوش پر رکھی جائے۔ پیغمبر اسلام نے بھی پائیداری کا ثبوت دیا۔ اپنے ہدف کی گہری معرفت کے ساتھ یہ پائيداری و استقامت، آپ کی جملہ کامیابیوں کی اساس و بنیاد بن گئی۔ یہ آپ کی عظیم تحریک کے لئے آب حیات بن گئی۔ فتح تو حق کی ہوتی ہے لیکن اس کی کچھ شرطیں بھی ہیں۔ حق کی فتح کی شرط، اس کا دفاع ہے۔ حق کی فتح کے لئے شرط، راہ حق میں استقامت و پائیداری ہے۔ بعثت کے پہلے مرحلے میں تین چار سال کے دوران، جب دعوت اسلام غیر اعلانیہ تھی، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تیس، چالیس افراد کم مسلمان بنا سکے تھے اس کے بعد حکم الہی ہوا کہ فاصدع بما تؤمر واعرض عن المشرکین انا کفیناک المستھزئين اب اعلانیہ دعوت دو، میدان میں جاؤ اور پرچم بلند کرو اور اپنے مشن کو عام کر دو۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میدان میں پہنچے اور اس کے بعد جو کچھ ہوا اس سے آپ واقف ہیں۔ بزرگان قریش اور معاشرے کے با اثر افراد کو اپنا مقام خطرے میں نظر آنے لگا۔ اس کے سد باب کے لئے انہوں نے سب سے پہلے تو لالچ دینے کی کوشش کی۔ جناب ابو طالب علیہ السلام کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یہ آپ کا بھتیجا اگر سرداری چاہتا ہے تو ہم اسے اپنا سردار بنانے کو تیار ہیں، اگر اسے دولت و ثروت چاہئے تو ہم اسے اتنی دولت دیں گے کہ وہ ہم سب سے زیادہ امیر ہو جائے گا، اگر ہو بادشاہ بننا چاہتا ہے تو ہم اسے اپنا بادشاہ ماننے کو تیار ہیں، بس وہ یہ کام کرے کہ جو باتیں کر رہا ہے وہ بند کر دے۔ حضرت ابو طالب علیہ السلام کو بھتیجے کے لئے خطرے کا احساس ہوا، انہیں سازش کی بو آنے لگی، پیغمبر اسلام کے پاس آئے اور فرمایا کہ بزرگان مکہ نے یہ پیغام بھیجا ہے۔ پیغبر اسلام نے جواب دیا کہ يا عمّ! واللَّه لو وضعوا الشّمس فى يمينى و القمر فى شمالى لاعرض عن هذا الامر لا افعله حتّى اظهره اللَّه او يذهب بما فيه اے چچا! اگر میرے داہنے ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند رکھ دیا جائے تاکہ میں اپنا ہدف و مقصد ترک کر دوں توبھی خدا کی قسم میں ایسا ہرگز نہیں کروں گا یہاں تک کہ اللہ تعالی مجھے فتح سے ہمکنار کرے یا ہم سب نابود ہو جائيں۔ اس کے بعد روایت میں ہے کہ ثم اغرورقت عیناہ من الدمع چشم مبارک پیغمبر اسلام میں آنسو آ گئے اور آپ اپنی جگہ سے کھڑے ہو گئے۔ جب حضرت ابو طالب علیہ السلام نے ایمان کا یہ انداز اور یہ پائيداری دیکھی تو آپ نے فرمایا یابن اخی اذھب و قل ما احببت بھتیجے! اپنے ہدف کی جانب بڑھو اور جو بھی دل چاہے کرو۔ واللہ لا اسلمنک بشئ خدا کی قسم میں تمہیں کسی بھی چیز کے بدلے نہیں دے سکتا۔ استقامت کا یہ انداز استقامت کا سرچشمہ بنتا ہے۔ پیغمبر اسلام کی اس استقامت سے حضرت ابو طالب کی استقامت و پائيداری میں اضافہ ہوا۔ ہدف کے تئيں یہ یقین، دشمن کے سامنے یہ بے خوفی، دشمن کی کسی بھی چیز کی لالچ میں نہ آنا، دشمن سے ملنے والی سہولتوں کی طمع میں نہ پڑنا جو وہ ہدف ترک کرنے کے لئے دینا چاہتا ہے، اس چیز سے پائيداری و استقامت کا چشمہ جاری ہوتا ہے، اس سے ثبات و سکون پیدا ہوتا ہے، اس سے ہدف اور اس ہدف کا تعین کرنے والے اللہ پر یقین کامل اور عقیدہ راسخ پیدا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ چالیس افراد رہے ہوں گے جنہوں نے مشکلات اور دشواریوں کے پہاڑ کا سامنا کیا اور روز بروز ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ وہ آئے دن دیکھتے تھے کہ مکہ میں عمار کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے، بلال کے ساتھ کیا برتاؤ کیا جا رہا ہے، سمیہ و یاسر کو کیسی کیسی ایذائيں دی جا رہی ہیں اور کس طرح انہیں قتل کیا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی ایمان لاتے تھے۔ تو حق اس انداز سے آگے بڑھتا ہے۔ امن و امان کی حالت کا انتظار کرکے آرام و سکون کے عالم میں حق کا پرچم بلند کرنے اور نعرے لگانے سے حق آگے نہیں بڑھتا۔ حق فتح کی سمت اس وقت بڑھتا ہے جب صاحب حق اور حق کا پیروکار راہ حق میں استقامت پائيداری کا مظاہرہ کرے۔
قرآن کریم میں ارشاد رب العزت ہے محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم اشداء علی الکفار کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ کفار سے ہمیشہ بر سر پیکار ہیں۔ اشداء اور شدت کے معنی استحکام و پائيداری کے ہیں، عدم تزلزل کےہیں۔ کوئی دھات ایسی ہوتی ہے جسے زنگ لگ جاتا ہے اور کھوکھلی ہوکر ختم ہو جاتی ہے جبکہ ایک دھات وہ ہوتی ہے جو صدیاں گزر جائیں زنگ زدہ نہیں ہوتی، کبھی کمزور اور ضائع نہیں ہوتی، اشداء جو کہا گيا ہے تو اس سے یہی مراد ہے۔ شدت کے معنی یہاں استحکام کے ہیں۔ استحکام کبھی میدان جنگ میں ہوتا ہے تو ایک الگ انداز سے سامنے آتا ہے، کبھی دشمن کے ساتھ دو بدو گفتگو میں استحکام ہوتا ہے تو اس کا انداز الگ ہوتا ہے۔ جنگوں کا آپ جائزہ لیجئے، آپ دیکھیں گے کہ جب بھی ضرورت ہوئی ہے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے حریف اور دشمن سے گفتگو فرمائی ہے۔ لیکن وقت گفتگو پیغمبر اسلام سراپا استحکام نظر آتے ہیں، کہیں تزلزل کا شائبہ تک نہیں۔ جنگ احزاب میں پیغمبر اکرم نے مد مقابل حریف سے گفتگو کی۔ لیکن واقعی کیا گفتگو فرمائی ہے! آپ تاریخ میں دیکھئے۔ جنگ ہوگی تو پورے استحکام کے ساتھ، گفتگو ہوگی تو وہ بھی پوری پائيداری کےساتھ، جو بھی معاملہ کیا جا رہا ہے پوری استقامت کے ساتھ، اشداء علی الکفار کے معنی یہ ہیں۔
رحماء بینھم یعنی وہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ الگ انداز سے ملتے ہیں، یہاں نرمی ہے، یہاں ہمدردی ہے، یہاں وہ شدت اور سختی نہیں، یہاں تو دلوں کا لین دین ہوتا ہے، یہاں تو ایک دوسرے کے تئيں محبت و عطوفت کا جذبہ ہے۔
بعثت کے اوائل کی استقامت، شعب ابو طالب میں تین سالہ بے مثال پائيداری پر منتج ہوتی ہے۔ مذاق نہیں ہے کہ مکے کے نزدیک ایک بے آب و گیاہ درے میں آگ برساتے سورج کے نیچے پیغمبر اسلام، حضرت ابو طالب، حضرت خدیجہ اور تمام مسلمان اور ان کے اہل خانہ پہاڑ کے اس چھوٹے سے شگاف میں تین سال گزار دیتے ہیں! سارے راستے بند، کہیں سے کھانے پینے کا سامان نہیں مل سکتا۔ سال کے ان ایام میں جو زمانہ جاہلیت میں ایام موسم کے نام سے موسوم تھے اور جن میں جنگ نہیں کی جاتی تھی، مسلمان شہر کے اندر جا سکتے تھے لیکن ابو جہل اور ابو لہب نے اپنے بیٹوں اور متعلقین کو یہ ہدایت کر دی تھی کہ یہ لوگ اگر کسی دکان سے کچھ خریدنا چاہیں تو تم فورا اس چیز کو دگنی قیمت پر خرید لو، انہیں سامان خریدنے کا موقع نہ دو، ایسے دشوار حالات میں تین سال گزار دئے، یہ معمولی بات ہے؟!
استقامت کی وہ پہلی بنیاد، خیمے کا وہ پہلا مستحکم ستون، اللہ تعالی کی ذات پر جذبہ توکل سے سرشار وہ دل استقامت اور پائيداری کا وہ سماں پیدا کر دیتا ہے کہ اس فضا میں سانس لینے والا ہر شخص پیکر استقامت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ بچے دن رات بھوک سے بلکتے تھے، بچوں کے رونے کی آوازیں کفار قریش کے کانوں تک پہنچتی تو ان میں بھی کچھ ایسے تھے جو یہ آوازیں سن کر پسیج جاتے تھے لیکن سرداروں کے خوف سے خاموش بیٹھ جاتے تھے۔ ادھر مسلمانوں کا یہ عالم تھا کہ اپنا بچہ بھوک سے تڑپ رہا ہے اور تڑپتے تڑپنے جان دے دیتا ہے لیکن ان کے پائے ثبات میں تزلزل پیدا نہیں ہوتا۔ امیر المومین حضرت علی علیہ السلام اپنے فرزند محمد حنفیہ سے فرماتے ہیں کہ تزول الجبال ولا تزل پہاڑ ہٹ جائیں لیکن تم اپنی جگہ سے نہ ہٹنا۔ یہ وہی پیغمبر اسلام کی نصیحت ہے۔ ہمارے لئے یہ پیغمبر اسلام کا سبق ہے، بعثت سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے۔
صرف بیٹھ کر یہ یاد کر لینے اور خوش ہو لینے سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے کہ حضرت جبرئيل آئے اور پغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مبعوث بہ رسالت ہو گئے ، فلاں فلاں افراد ایمان لائے اور فلاں ایمان نہیں لائے۔ ضرورت تو اس کی ہے کہ ہم پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حیات مبارکہ کے اس عظیم ترین واقعے سے درس حاصل کریں۔ آپ کی تیئيس سالہ نبوت کا ایک ایک لمحہ سبق آموز ہے۔
میں نے ایک موقع پر کہا بھی کہ پیغمبر اکرم کی زندگی کا، ایک ایک ملی میٹر کے حساب سے مطالعہ کرنا چاہئے۔ اس حیات مبارکہ کا ہر لمحہ کسی بڑے واقعے اور سبق پر محیط ہے۔ اس کا ہر لمحہ عظیم جلوہ انسانی ہے۔ یہ پورے تیئيس سال اسی انداز سے گزرے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو پیغمبر اسلام کی حیات طیبہ کا معتبر اور مستند کتب میں مطالعہ کرنا چاہئے اور جائزہ لینا چاہئے کہ اس کے ہر لمحے میں کیا واقعہ پنہاں ہے۔ اگر آج آپ کے سامنے ایک عظیم امت ہے، وہ عظیم امت کہ جو بہترین خیالات، بہترین روشوں، بہترین اسباق، اور بنی نوع بشر کے دکھ درد کے لئے بہترین راہ علاج کا سرچشمہ ہے تو یہ امت اس انداز سے معرض وجود میں آئی، پھلی پھولی اور مستحکم و مضبوط ہوئی ہے۔ ورنہ صرف یہ کہنے سے کہ ہم حق پر ہیں، ہمیں ترقی حاصل ہونے والی نہیں ہے۔ حق کے ساتھ استقامت و پائیداری لازمی ہے۔ میں بار بار حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا جنگ صفین کا یہ جملہ نقل کرتا ہوں لا یحمل ھذا العلم الا اھل البصر و الصبر اس پرچم کو صرف وہ لوگ اٹھا سکتے ہیں جو سب سے پہلے تو زیور بصیرت سے آراستہ ہوں اور انہیں پورا ادراک ہو کہ معاملہ کیا اور ہدف کیا ہے؟ اور دوسرے یہ کہ صبر کی توانائی ان میں ہو، صبر سے یہاں استقامت و پائيداری و ثابت قدمی مراد ہے۔ ہمیں بعثت سے یہ درس حاصل کرنا چاہئے۔
ہمارے بزرگوار امام (خمینی رہ) اسی چشمہ خروشاں کا ایک قطرہ تھے جو دنیا میں یہ عظیم بساط بچھانے میں کامیاب ہوئے۔ امام (خمینی رہ) کا دل بھی اپنے ہدف پر پختہ ایمان و یقین سے لبریز تھا جیسا کے قرآن میں ارشاد ہوتا ہے آمن الرسول بما انزل الیہ من ربہ والمومنون کل آمن باللہ و رسلہ و ملاکتہ یعنی اپنی اوپر نازل ہونے والی چیزوں پر سب سے پہلے خود پیغمبر اسلام ایمان لائے۔
ہمارے انقلاب کے سلسلے میں بھی یہی ہے، سب سے پہلے اس تحریک پر ہمارے بزرگوار امام (خمینی رہ) کا دل جذبہ یقین سے سرشار ہوا، انہیں اپنے ہدف کی حقانیت کا ایقان ہوا، انہیں بخوبی علم تھا اور وہ آگاہ تھے کہ کیا کرنے جا رہے ہیں، انہیں اپنے کام کی عظمت سے واقفیت تھی۔ اس کام کے لئے ضروری چیزوں سے بھی وہ آگاہ تھے، انہیں معلوم تھا کہ اس کام کے لئے سب سے پہلے اللہ تعالی کی ذات پر توکل کے ساتھ ثابت قدمی سے کھڑا ہو جانا ضروری ہے۔ وہ ثابت قدمی سےکھڑے ہو گئے۔ ان کی استقامت دیکھ کر ہماری قوم کے نوجوانوں میں بھی استقامت پیدا ہوئی۔ جب یہ چشمہ صبر و استقامت چھلکنے لگا تو عوام بھی اس کی لذت سے آشنا ہوئے اور پھر سب کے سب اسی سمت ٹوٹ پڑے۔ وہ اس آیہ قرآنی کے مصداق اتم بن گئے ھو الذی انزل السکینۃ فی قلوب المومنین لیزدادوا ایمانا مع ایمانھم جب یہ الہی سکینہ دلوں پر نازل ہوتا ہے تو انسان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے و للہ جنود السموات والارض ڈر کس بات کا؟ زمین و آسمان کی فوجیں خدا کی ہیں۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں پناہ لو، زمین و آسمان کی یہ افواج تمہیں مل جائیں گی، یہ سنت الہی ہے۔
دیکھئے اللہ تعالی نے ایک ہی وقت میں دو چیزیں خلق کی ہیں؛ ایک تو یہ عالم خلقت ہے، جس کے اپنے قوانین اور مخصوص اصول ہیں، دوسرے شریعت اور دین ہے جس کے اپنے مخصوص قوانین اور احکام ہیں۔ ان دونوں چیزوں کو ایک ساتھ پیدا کیا گيا ہے اور یہ ایک دوسرے سے ہم آہنگ بھی ہیں۔ اگر آپ احکام الہی یعنی شرعی اصولوں پر عمل کریں تو آپ کی زندگی خلقت کے قوانین اور اصولوں کے مطابق ہوگی جیسے کوئی کشتی ہوا کے رخ پر آگے بڑھتی چلی جائے اور ہوا سے اسے مدد ملے، پانی کے بہاؤ سے اسے مدد ملتی رہے۔ تو جو انسان اس راہ پر آگے بڑھتا ہے، قدرت اس کی مدد کرتی ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ آپ آگے بڑھئے۔ ملت ایران آگے بڑھی اور قدرت سے اسے مدد ملی ورنہ کون سوچ سکتا تھا کہ دنیا کے حساس ترین علاقے مشرق وسطی کے قلب میں واقع عالمی سامراج کی سب سے بڑی پٹھو حکومت یعنی حکومت شاہ، حکومت پہلوی کے مقابلے میں ایسے معاشرے میں جس کے بہت سے روشن فکر اور برجستہ افراد دسیوں سال سے مغربی ثقافت، آداب و رسومات اور وسوسوں کے اسیر تھے، اچانک پرچم اسلام بلند ہو اور امت مسلمہ کا یہ معاشرہ اسلام کا علمبردار بن جائے؟ کس کی نظر میں یہ چیز ممکن تھی؟ لیکن ایسا ہوا۔
اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جب کوئی گروہ اور کوئی قوم اس راہ میں آگے بڑھتی ہے تو موافق سمت میں بہنے والی الہی ہوائيں یعنی وہی قدرت کے قوانین، اس کے مدد گار بن جاتے ہیں اور یہ کارواں آگے بڑھتا ہے۔
یہ صرف ایران کا مسئلہ نہیں ہے۔ اس وقت عالم اسلام میں بیداری کی لہر پیدا ہو چکی ہے، آگاہی کی لہر پیدا ہو چکی ہے۔ ایک زمانے میں یہ تصور عام تھا کہ عالمی سطح پر غنڈہ گردی کرنے والی طاقت، جو آج امریکہ ہے اور اس سے پہلے سویت یونین تھا، جو چاہے گی وہی ہوگا۔ دیگر ممالک کے سیاستدانوں کو اسی کی مرضی کے مطابق اپنی پالیسیاں وضع کرنا ہوں گی۔ آج قوموں کی سطح پر یہ تصوربالکل ختم ہو چکا ہے۔ رہ گئی سیاستدانوں اور حکام کی بات تو ان میں بھی بہت سے ایسے ہیں جو اب اس خیال سے متفق نہیں ہیں۔ تو استقامت کی ضرورت ہے، پائيداری کی ضرورت ہے۔
میں ملت ایران اور بعثت محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیروکاروں کی خدمت میں عرض کرنا چاہوں گا کہ راہ حل یہی استقامت ہے۔ اسلامی جمہوری نظام نے اپنے امام (خمینی رہ) کی رہنمائی میں اسی راستے کا انتخاب کیا ہے اور ہمیں اس استقامت سے فائدہ پہنچا ہے، ہم نقصان میں نہیں رہے۔ دنیا کی تمام سامراجی طاقتیں جمع ہو گئيں اور سب نے مل کر گوناگوں استدلالوں کے ذریعے اسلامی جمہوری نظام اور ملت و حکومت ایران کو فلسطینیوں کی حمایت سے باز رکھنے کی کوشش کی، ملت ایران نے قبول نہیں کیا اور آئندہ بھی قبول نہیں کرے گی۔ ہم فلسطینی قوم کی حمایت کرتے رہیں گے۔
فلسطین قوم حق پر ہے، وہ حق بجانب ہے، مظلوم ہے۔ اس قوم پر ڈھائے جانے والے ان بے پناہ مظالم پر شرم آنی چاہئے آزادی اور انسانی حقوق کےبلند بانگ دعوے کرنے والوں کو۔ وہ اسے تو یکسر نظر انداز کر جاتے ہیں اور پھر انسانی حقوق کی حمایت کی رٹ لگاتے ہیں اور انہیں شرم بھی نہیں آتی۔ مجھے اس پر بڑا تعجب ہوتا ہے۔ فرض کیجئے کہ فلسطینی کسی ملک میں اقلیت کی حیثیت سے بھی ہوتے اپنے ملک کے مالک نہ بھی ہوتے بلکہ بالفرض مہاجر اور پناہ گزیں ہوتے تب بھی کیا کوئي انصاف پسند انسان ان پر مظالم کے یہ پہاڑ ٹوٹتے دیکھ سکتا تھا؟ کیا کوئی انصاف پسند شخص برداشت کرتا کہ ان کے گھروں کو ویران کر دیا جائے، ان کے نوجوانوں کا قتل عام کیا جائے، ان کے مردوں کو جیلوں میں بھر دیا جائے، انہیں مسلسل دھمکیاں دی جائيں، ان کے گھروں پر بمباری کی جائے، ان کی روزی روٹی چھین لی جائے، ان کا اقتصادی محاصرہ کر لیا جائے، ان کے باغات تباہ کر دئے جائیں، ان کی زندگی اجاڑ دی جائے۔ ایسے عالم میں حضرت بش انتہائی بے شرمی کا ثبوت دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم آزادی کے حامی و طرفدار ہیں! یہی آزادی ہے؟! آپ کو شرم آنی چاہئے! اسے کہتے ہیں آزآدی کی حمایت؟!
ایک قوم کو اس طرح ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جائے اور وہ بھی اس کے گھر میں گھس کر؟ عالم یہ ہے کہ دنیا کی طاقتیں جارح، قاتل اور دہشت گرد کی مسلسل حمایت کر رہی ہیں اور اس (فلسطینی) قوم پر ہونے والے تمام مظالم سے چشم پوشی کر لیتی ہیں اور پھر وہی راگ الاپنے لگتی ہیں کہ ہم تو آزادی کی حمایت کرتے ہیں اور فلاں کی حمایت کرتے ہیں!
ایرانی قوم بیدار ہے، یہ قوم حقائق سے آگاہ ہے۔ سامراج کا مزاج یہ ہے کہ اگر آپ ایک قدم عقب نشینی کرتے ہیں تو وہ ایک قدم آگے بڑھ آتا ہے۔ کوئی اس بھول میں نہ رہے کہ سامراج کے مقابلے میں عقب نشینی کی جائے اور صحیح و برحق موقف اور مطالبے سے دستبردار ہو جایا جائے تو سامراجی طاقتیں شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کہیں گی کہ یہ لوگ ایک قدم پیچھے ہٹ گئے ہیں تو ہم بھی ایک قدم پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ یہ سب ان کے یہاں نہیں ہوتا۔ آپ ایک قدم پیچھے ہٹیں گے تو وہ ایک قدم آگے بڑھ آئیں گی۔ آپ ایک محاذ چھوڑیں گے تو وہ آکر اس محاذ پر قابض ہو جائیں گی۔ امت مسلمہ کو اس انداز سے معاملات پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ عالم اسلام کے سیاستدانوں کو اس زاوئے سے اپنے ارد گرد رونما ہونے والے واقعات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ایرانی قوم ثابت قدمی کے ساتھ کھڑی ہے، اس نے اپنی حق بجانب بات کہہ دی ہے۔ ہمارا موقف کلمہ توحید اور توحید کلمہ ہے، ہمارا کہنا ہےکہ ہم صرف اللہ تعالی کی بندگی کریں، امریکہ کی نہیں۔ ہم غنڈہ گردی کرنے والی طاقتوں کے غلام نہ بنیں۔ ہم عصر حاضر کے فرعونوں کے بندہ بے دام نہ رہیں۔ زمانے کے ابو لہبوں اور ابو جہلوں کے غلام نہ رہیں۔ اس زمانے کا ابو جہل کون ہے؟ وہ ابو جہل تو مر کھپ گیا، لیکن پھر بھی ابو جہل آج بھی موجود ہے۔
رگ رگ است اين آب شيرين و آب شور
بر خلايق ميرود تا نفخ صور
آج بھی دنیا میں ابو جہل ہے، آج بھی ابو لہب ہے۔ اشتعال انگیزیاں کرنے والے بد دماغ جہلاء، اس وقت بھی دنیا میں موجود ہیں۔ زمانے کے ابو جہل کی شناخت کرنا ہوگی۔ اس زمانے کے ابو جہل وہ ہیں جو ایٹم بم بناتے ہیں، پوری دنیا کو دھمکیاں دیتے پھرتے ہیں اور ایک قوم کو تنگ کرتے ہیں کہ وہ ایٹمی توانائی کیوں حاصل کرنا چاہتی ہے؟ وہ تسلیم بھی کرتے ہیں کہ اس کا مقصد بجلی پیدا کرنا ہے، توانائی پر امن مقاصد کے لئے حاصل کی جا رہی ہے۔ لیکن چونکہ اس سے آپ کو ایک طاقت مل جائے گی اس لئے ہم ایسا نہیں کرنے دیں گے۔ ان غنڈوں، بد دماغوں، بے شعوروں کے سامنے جنہیں عقل و منطق سے کوئی سروکار نہیں، جو بے عقل لوفروں اور لفنگوں کی طرح بار بار اپنے بازو دکھاتے ہیں اپنی طاقت کی نمائش کرتے ہیں اور چیختے پھرتے ہیں، اگر آپ نے عقب نشینی کی تو آپ ہارے۔ ایرانی قوم اس کا تجربہ کر چکی ہے۔ تقریبا تیس سال سے ہم نے ان مسائل کا مقابلہ کرتے ہوئے حقیقت میں ہم نے پیشرفت کی ہے، ہم آگے بڑھے ہیں۔
ایرانی قوم کی موجودہ حالت کا بیس سال قبل کی صورت حال سے کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ اس کا علم، اس کی سائنس، اس کی ٹکنالوجی، اس کے تجربات، اس کی گوناگوں مہارتیں، اس کی کثیر الجھت قومی، سماجی اور معاشی ترقی، علاقے میں اس کی طاقت اور اثر و رسوخ کا بیس سال، پچیس سال قبل کی صورت حال سے موازنہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اسی استقامت کا ثمرہ ہے۔ یہ بعثت رسول اسلام سے ملنے والا سبق ہے۔ اسے ہم سب کو سمجھنا چاہئے۔ ہمیں پیغمبر اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہئے، ہمیں یہ احساس ہونا چاہئے کہ وہ دن بعثت رسول اسلام کا دن تھا اور آج امت مسلمہ کی بعثت کا وقت آ گیا ہے۔
اب امت مسلمہ کو بعثت کا احساس کرنا چاہئے۔ اسے خود کو مبعوث سمجھنا چاہئے۔ اسے بصیرت کے ساتھ آگاہانہ انداز میں آگے بڑھنا چاہئے۔ علم کے میدان میں پیشرفت کرنا چاہئے، اپنی توانائیوں میں اضافہ کرنا چاہئے، اپنے عالمی اتحاد و یکجہتی میں مضبوطی پیدا کرنا چاہئے۔ اس کے لئے اتحاد اور ہم آہنگی بہت ضروری ہے۔
یہ ملت ایران، اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام کا پیغام ہے۔ ہمارا مستقبل روشن ہے۔ اللہ تعالی کی مہربانی ہے کہ ہم بخوبی واقف ہیں کہ کیا کر رہے ہیں اور ہمیں علم ہے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ منزل تک پہنچنے کا طریقہ آگے بڑھنا اور پیش قدمی کرنا ہے، رک جانا اور پیچھے پلٹ جانا نہیں۔
اللہ تعالی کی بارگاہ میں یہ دعا ہےکہ اس قوم کو بعثت پیغمبر اسلام کی برکتوں سے مالامال کر دے، امت مسلمہ کے عز و شان میں روزافزوں اضافہ کرے، حضرت امام زمانہ علیہ السلام (ارواحنا فداہ) کے قلب مبارک کو ہم سے راضی اور شہدا اور ہمارے امام(خمینی رہ) کی ارواح مطہرہ کو ہم سے خوشنود کر دے۔
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته