سب سے پہلے تمام مؤمن و دیندار انسانوں کی آمیدوں اور آرزوؤں کی محور اس مژدہ آفریں عید سعید کی آپ سبھی بھائیوں اور بہنوں خصوصا ولایت اہلبیت (ع) پر یقین رکھنے والوں اور ظلم و ستم سے بر سر پیکار تمام حریت نواز بیدار و باخبر انسانوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔
نیمۂ شعبان کا دن امیدوں کا دن ہے ، یہ امید شیعیان آل محمد (ص) سے مخصوص نہیں ہے حتی امت مسلمہ سے بھی مخصوص نہیں ہے عالم بشریت کے ایک روشن و درخشاں مستقبل کی آرزو اور پوری دنیا میں انصاف قائم کرنے والے ایک عدل گستر ، منجی عالم موعود کے ظہور پر تقریبا وہ تمام ادیان اتفاق رکھتے ہیں جو آج دنیا میں پائے جاتے ہیں ، دین اسلام ، عیسائیت اور یہودیت کے علاوہ حتی ہندوستان کے ادیان میں ، بودھوں اور جینیوں یہاں تک کہ ان مذہبوں نے بھی کہ جن کے نام دنیا کے زیادہ تر لوگوں کے ذہنوں میں بھی نہیں ہیں اپنی تعلیمات میں ایک اس طرح کے مستقبل کی بشارت دی ہے ، یہ سب کچھ در اصل تاریخ کے طویل دور میں تمام انسانوں کے اندر امید کی شمع روشن رکھنے اور تمام انسانوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے والی ایک حقیقت کے لئے امیدوار رہنے کے لئے بیان ہوا ہے ۔
اللہ کے بھیجے آسمانی ادیان نے جو زيادہ تر الہی اور آسمانی جڑوں کے حامل ہیں ، لوگوں میں بلاوجہ امیدوں کی جوت نہیں جگائی ہے ، ایک حقیقت کو انہوں نے بیان کیا ہے انسانوں کی خلقت اور بشریت کی طویل تاریخ میں ایک حقیقت موجود ہے اور وہ حقیقت یہ ہے کہ حق و باطل کے درمیان یہ مقابلہ آرائی ایک دن حق کی کامیابی اور باطل کی ناکامی پر ختم ہوگی اور اس دن کے بعد انسان کی حقیقی دنیا اورانسان کی منظور نظر زندگی شروع ہوگی اس وقت مقابلہ آرائی کا مطلب جنگ و دشمنی نہیں بلکہ خیر و خیرات میں سبقت کا مقابلہ ہوگا ۔ یہ ایک حقیقت ہے جو تمام ادیان و مذاہب میں مشترک ہے ۔
ہم شیعوں کے عقیدے کی خصوصیت یہ ہے کہ اس حقیقت کو مذہب تشیع میں صرف ایک آرزو اور ایک تخیلاتی چیز سے ایک زندہ حقیقت میں تبدیل کردیا گیا ہے اور اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ شیعہ جس وقت مہدی موعود کے انتظار کی بات کرتے ہیں اور اس نجات دہندہ ہاتھ کے انتظار کا ذکر کرتے ہیں تو انتظار کے وقت صرف تخیلات میں غوطہ زنی نہیں کرتے بلکہ ایک ایسی حقیقت کی جستجو کرتے ہیں جو اس وقت موجود ہے ، حجت خدا کی صورت میں لوگوں کے درمیان زندہ ہے اور موجود ہے ، لوگوں کے ساتھ زندگي گزار رہا ہے ، لوگوں کو دیکھ رہا ہے ان کے ساتھ ہے ، ان کے دردوں کو ، ان کی تکلیفوں کو محسوس کرتا ہے انسانوں میں بھی جو لوگ اہل سعادت ہوں ، جن میں صلاحیت و ظرفیت پائی جاتی ہو ، بعض اوقات ناآشنا اور ناشناس کےطور پر ان کی زیارت کرتے ہیں ، وہ موجود ہے ، ایک حقیقی اور مشخص و معین انسان کے عنوان سے جو خاص نام رکھتا ہے جس کے ماں باپ معلوم ہیں ، لوگوں کے درمیان رہتا ہے اور ان کے ساتھ زندگی بسر کررہا ہے ۔یہ ہم شیعوں کے عقیدہ کی خصوصیات میں سے ہے ۔وہ لوگ بھی ، جو دوسرے مذاہب کے ہیں اور اس عقیدہ کو قبول نہیں کرتے ، آج تک کبھی کوئی ایسی عقل پسند دلیل پیش نہیں کرسکے جو اس فکر اور اس عقیدہ کو رد کرتی ہو اور خلاف حقیقت ہونا ثابت کرتی ہو بہت سی روشن و واضح ، مضبوط دلیلیں، جن کی بہت سے اہلسنت نے بھی تصدیق کی ہے ، پورے قطع و یقین کے ساتھ اس عظیم انسان ، خدا کی اس عظیم حجت اور اس تابناک و درخشاں حقیقت کے وجود پر ان ہی خصوصیات کے ساتھ جو ہم اور آپ جانتے ہیں ، دلالت و حکایت کرتی ہیں اور آپ بہت سی بنیادی کتابوں میں بھی جو شیعوں کی نہیں ہیں ، اس کا مشاہدہ کرسکتے ہیں ۔
امام حسن عسکری علیہ الصلوۃ و السلام کے پاک نہاد، فرزند مبارک کی تاریخ ولادت معلوم ہے ان سے مرتبط تمام تفصیلات معلوم ہیں ان کے معجزات معین و مشخص ہیں خدا نے ان کو طولانی عمر دی ہے اور دے رہا ہے اور یہی ذات دنیا کی تمام امتوں ، تمام قبیلوں ، تمام مذہبوں ، تمام نسلوں ، تمام دوروں اور زمانوں کی آرزوؤں کو مجسم کرتی ہے اور اس اہم مسئلے کے بارے میں مذہب شیعہ کی یہ ایک خصوصیت ہے ۔
مسئلۂ مہدویت کے سلسلے میں ایک بات یہ ہے کہ آپ اسلامی آثار میں شیعی کتابوں میں حضرت مہدی موعود ( عج ) کے ظہور کے انتظار کو انتظار فرج سے تعبیر کیا گيا ہے ، اس فرج کا کیا مطلب ہے ؟ فرج یعنی گرہیں کھولنے والا؛ انسان کب کسی گرہ کھولنے والے کا انتظار کرتا ہے ؟ کب کسی فرج کا منتظر ہوتا ہے ؟ جب کوئی چیز الجھی ہوئی ہو ، کہیں کوئی گرہ پڑگئی ہو ، جب کوئی مشکل پھنسی ہوئی ہو ، کسی مشکل کی موجودگي میں انسان کو فرج یعنی گرہ کھولنے والے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی اپنے ناخن تدبیر کے ذریعہ الجھی ہوئی گرہ کھول دے کوئی ہو جو مشکلوں اور مصیبتوں کے عقدے باز کردے ۔ یہ ایک بڑا ہی اہم نکتہ ہے ۔
انتظار فرج کا مطلب یا دوسرے الفاظ میں ظہور کا انتظار یہ ہے کہ مذہب اسلام پر ایمان اور اہلبیت علیہم السلام کے مکتب پر یقین رکھنے والا ،حقیقی دنیا میں موجود صورتحال سے واقف ہو ، انسانی زندگي کی الجھی ہوئی گرہ اور مشکل کو جانتا ہو ، حقیقت واقعہ بھی یہی ہے اس کو انتظار ہے کہ انسان کے کام میں جو گرہ پڑی ہوئي ہے ، جو پریشانی اور رکاوٹ ہے وہ گرہ کھل جائے اور رکاوٹ برطرف ہوجائے ، مسئلہ ہمارے اور آپ کے شخصی اور ذاتی کاموں میں رکاوٹ اور گرہ پڑجانے کا نہیں ہے امام زمانہ علیہ الصلوۃ و السلام پوری بشریت کی گرہ کھولنے اور مشکلات برطرف کرنے کےلئے ظہور کریں گے اور تمام انسانوں کو اٹکی ہوئي پریشانی سے نجات دیں گے انسانی معاشرے کو رہائی عطا کریں گے بلکہ انسان کی آئندہ تاریخ کو نجات بخشیں گے ۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ آج ہورہا ہے اور اس وقت پایا جاتا ہے انسانی ( ہاتھوں کا بنایا ہوا) یہ غیر منصفانہ نظام ، یہ انسانی نظام کہ جس میں بے شمار انسان مظلومیت کا شکار ہیں بے شمار دلوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے بے شمار انسانوں سے بندگی کے مواقع چھین لئے گئے ہیں اس صورت حال کے خلاف احتجاج اور اعتراض ہے جو امام زمانہ کے ظہور کا منتظر ہے ۔ انتظار فرج کا مطلب ہے اس صورت حال کو مسترد کردینا اور نہ ماننا جو انسانوں کی جہالت اور انسانی زندگی پر حکمران بشری اغراض و مقاصد کے زیر اثر دنیا پر مسلط کردی گئی ہے،انتظار فوج کا مفہوم یہی ہے ۔آج آپ لوگ دنیا کے حالات پر نظر ڈالیں وہی چیز جو حضرت ولی عصر ( ہماری جانیں جن پر فدا ہوجائیں ) کے ظہور سے متعلق روایات میں ہیں ، آج دنیا پر حکمراں ہیں ، دنیا کا ظلم و جور سے بھرجانا، آج دنیا ظلم و ستم سے بھرگئی ہے ولی عصر ( عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف ) سے متعلق روایتوں ، دعاؤں اور مختلف زیارتوں میں ملتا ہے : یملا اللہ بہ الارض قسطا و عدلا کما ملئت ظلما و جورا ویسے ہی جیسے ایک دن پوری دنیا ظلم و جور سے بھری ہوئی ہوگی ، جس زمانہ میں ظلم و جور پوری بشریت پر حکمراں ہوگا اسی طرح خداوند عالم ان کے زمانے میں وہ صورت حال پیدا کردے گا کہ پورے عالم بشریت پر عدل و انصاف حکمراں نظر آئے گا ۔وہ وقت یہی ہے ، اس وقت ظلم و جور بشریت پر حکمراں ہے آج انسانی زندگي عالمی سطح پر ظلم و استبداد کے ہاتھوں میں مغلوب و مقہور ہے ( اور ظالموں کے قہر و غلبہ کا شکار ہے ) ہر جگہ ظلم و جور کا ماحول ہے آج عالم بشریت ظلم کے غلبہ کے سبب،انسانی خواہشوں اور خود غرضیوں کے تسلط کے باعث بے پناہ مشکلات میں گرفتار ہے ۔آج کی دنیا میں دو ارب بھوکے انسانوں کا وجود اور دسیوں لاکھ انسان جو حرص و ہوس سے مغلوب طاغوتی قوتوں کے طاغوتی نظاموں میں زندگي گزار رہے ہیں ، حتی فی سبیل اللہ جہاد کرنے والے مؤمنین و مجاہدین اور راہ حق میں برسر پیکار ملتیں منجملہ ایرانی قوم ، جس نے ایک محدود ماحول میں ، ایک معین و مشخص دائرے میں عدل و انصاف کا پرچم بلند کررکھا ہے،اس پر اور مجاہدین راہ خدا پر فشار اور دباؤ پوری دنیا پر ظلم و جور کا جال بچھا ہونے کی کھلی نشانیاں ہیں ۔ اس انتظار فرج کا مفہوم، مختلف ادوار میں انسانی زندگي کی موجودہ کیفیات بیان کرتی ہیں ۔
آج ہم کو فرج یعنی گرہ گشائی کا انتظار ہے یعنی ہم سب ایک عدل گستر قوی و توانا دست قدرت کے منتظر ہیں کہ وہ آئے اور ظلم و جور کے اس تسلط کو توڑدے کہ جس نے پوری بشریت کو محروم و مقہور بنا رکھا ہے ، ظلم و ستم کی ان فضاؤں کو دگرگوں کردے اور انسانوں کی زندگي ایک بار پھر نسیم عدل کے جھونکوں سے تازہ کردے تا کہ تمام انسانوں کو عدل و انصاف کا احساس ہو یہ ایک آگاہ و باخبر زندۂ و بیدار انسان کی دائمی ضرورت ہے ہر وہ انسان جو خود اپنے وجود میں سر ڈال کر نہ بیٹھا ہوا ہو ، صرف اپنی زندگی میں مست نہ ہو ، وہ انسان جو وسعت نظر سے کام لے کر انسانوں کی عام زندگی کو دیکھ رہا ہو ، قدرتی طور پر انتظار کی حالت اس کے یہاں پائی جائے گی ،انتظار کا یہی مطلب ہے ۔انتظار یعنی انسانی زندگی کی موجودہ صورت حال کو قبول نہ کرنا اور ایک قابل قبول صورت حال کی فکر و جستجو میں رہنا چنانچہ مسلمہ طور پر یہ قابل قبول صورت حال ولی خدا حضرت حجۃ ابن الحسن مہدی آخر الزمان صلوات اللہ علیہ و عجل اللہ تعالی فرجہ و ارواحنا فداہ کے قوی و توانا ہاتھوں سے ہی عملی جامہ پہنے گی ۔لہذا خود کو ایک جانباز سپاہی اور ایک ایسے انسان کے عنوان سے تیار کرنا چاہئے جو اس طرح کے حالات میں مجاہدت اور سرفروشی سے کام لے سکے ۔
انتظار فرج کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا رہے اور کوئی کام انجام نہ دے کسی طرح کی اصلاح کا اقدام نہ کرے صرف اس بات پر خوش رہے کہ ہم امام زمانہ علیہ الصلوۃ و السلام کے منتظر ہیں ۔ یہ تو انتظار نہ ہوا ۔انتظار کس کا ہے ؟ ایک قوی و مقتدر الہی اور ملکوتی ہاتھ کا انتظار ہے کہ وہ آئے اور ان ہی انسانوں کی مدد سے دنیائے ظلم و ستم کا خاتمہ کردے حق کو غلبہ عطا کرے اور لوگوں کی زندگي میں عدل و انصاف کو حکمراں کردے ، توحید کا پرچم لہرا کر انسانوں کو خدا کا حقیقی بندہ بنادے ، اس کام کی آمادگي ہونی چاہئے اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل اس عظیم تاریخی انقلاب کے مقدمات میں سے ہے عدل و انصاف کی برقراری کی طرف اٹھنے والا ہر قدم اس عظیم الشان ہدف کی طرف ایک قدم ہے انتظار کا مطلب یہ ہے ، انتظار تحرک اور انقلاب کا نام ہے انتظار تیاری اور آمادگي کو کہتے ہیں اس آمادگی کو خود اپنے وجود میں ، خود اپنے گرد و پیش کے ماحول میں محفوظ رکھنا ہمارا فریضہ ہے یہ خداوند متعال کی دی ہوئي نعمت ہے کہ ہماری عزیز و باوقار قوم اور ملت ایران نے یہ عظیم قدم اٹھانے میں کامیابی حاصل کی ہے اورحقیقی انتظار کا ماحول فراہم کیا ہے ،انتظار فرج کا یہی مطلب ہے ، انتظار فرج یعنی کمرکس لینا ، تیار ہوجانا ، خود کو ہر رخ سے، وہ ہدف کہ جس کے لئے امام زمانہ علیہ الصلوۃ و السلام انقلاب برپا کریں گے آمادہ و تیار کرنا ، وہ عظیم تاریخی انقلاب جس ہدف و مقصد کے لئے برپا ہوگا وہ عدل و انصاف قائم کرنے ، انسانی زندگي کو الہی زندگي بنانے اورخدا کی بندگي رواج دینے سے عبارت ہے اور انتظار فرج کا یہی مطلب ہے۔
آج بحمداللہ ہماری قوم مہدویت اور امام مہدی سلام اللہ علیہ کے وجود اقدس کی طرف ہمیشہ سے زیادہ متوجہ ہے روزبروز ہر انسان محسوس کرسکتا ہے جوانوں کے دل میں ،ملت کی ایک ایک فرد کے یہاں ، حضرت حجت علیہ السلام کے وجود اقدس کے سلسلے میں عشق و ارادت ، اشتیاق اور ذکر و یاد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔یہ بھی خود ان ہی بزرگوار کی برکتوں میں سے ہے ہماری اس ملت پر ان کی نگاہ لطف و رحمت کا نتیجہ ہے جس نے ان کے قلوب اس روشن و تابناک حقیقت کی طرف جھکادئے ہیں خود یہ چیز بھی امام ( ع ) کی خصوصی توجہ کی نشانی ہے اور اس کی قدر کرنی چاہئے ۔
البتہ تمام حقائق کی طرح ، جو مختلف ادوار میں مفاد پرستوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنتے رہے ہیں یہ حقیقت بھی کبھی کبھی مفاد پرستوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن جاتی ہے یہ لوگ جو خلاف واقعہ دعوے کیا کرتے ہیں ، دیدار و ملاقات کے دعوے ، شرفیابی کے دعوے حتی بالکل واہیات شکل میں آپ کی اقتدا میں نماز ادا کرنےکے دعوے جو واقعا بڑے ہی شرم انگیز دعوے ہیں ، یہ سب وہی باطل طریقے اور وطیرے ہیں جو اس روشن حقیقت کو ممکن ہے پاک نہاد انسانوں کے دل و نگاہ میں مخدوش کردیں لہذا اس کی اجازت نہیں دینا چاہئے ۔
یہ تعلق اور ارتباط اور امام (ع) کی خدمت میں تشرف اور حاضری کے دعوے اور آپ سے حکم و فرمان حاصل کرنے کی باتیں ، کچھ بھی قابل تصدیق نہیں ہیں ہمارے بزرگوں ، عظیم ہستیوں اور ممتاز و باوقار انسانوں نے کہ جن کی حیات کا ایک ایک لمحہ ، ہم جیسے انسانوں کی زندگي کے دنوں ، مہینوں اور برسوں کی زندگي اور پوری پوری عمر سے زیادہ قیمت رکھتا ہے اس طرح کا ادعا نہيں کیا ہے ممکن ہے کسی خوش نصیب انسان کی نگاہ اور دل میں وہ ظرفیت و صلاحیت پیدا ہوجائے کہ آپ کے جمال مبارک سے پرنور ہوجائے لیکن اس طرح کے لوگ دعوے نہیں کرتے ان سے ان سے کہتے نہیں پھرتے ، اپنی دوکان نہیں چمکاتے ، یہ لوگ جو اس وسیلے سے اپنی دوکانیں چلارہے ہیں ، ان کے لئے انسان پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں اور افترا سے کام لیتے ہیں ، اس روشن و درخشاں عقیدہ کو اس اعتقادی آفت سے دور و محفوظ رکھنا چاہئے ۔
آج خوش قسمتی سے ہماری اس بزم میں کچھ اہل ثقافت بھی ہیں اہل سفارت بھی ہیں اہل تعلیم و تربیت بھی تشریف رکھتے ہیں ، ادارۂ جوانان سے وابستہ کچھ ممتاز و نامور جوان بھی موجود ہیں اور کچھ مہدیت پر کام کرنے والے اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی ہیں چنانچہ علم و ثقافت سے وابستہ بیدار و آگاہ تمام بھائیوں اور بہنوں سے اس مناسبت کے تحت جو کچھ میں عرض کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ ہمارے اسلامی عقائد خاص طور پر شیعی اعتقادات پاکیزہ ترین و منطقی ترین و مستحکم ترین عقائد کا حصہ ہیں وہ توحید جو ہم مجسم کرتے ہیں نبی (ص) کی شخصیت جو ہم مجسم کرتے ہیں ، امامت جو ہم مجسم کرتے ہیں ، اعتقادی مسائل اور دینی معارف جو آئین تشیع میں ہم پیش کرتے ہیں ایسی روشن و واضح منطقی تصویریں ہیں کہ کوئی بھی فعال ذہن اور تحقیق و جستجو رکھنے والا دماغ ان اعتقادات کی حقانیت ، صحت و درستی اور باریک بینی کو دیکھ اور سمجھ سکتا ہے شیعہ عقائد بہت ہی مستحکم عقائد ہیں اور تاریخ کے ہر دور میں شیعہ عقائد کے سلسلے میں یہی تصور رہا ہے دوسروں حتی مخالفین نے مقام احتجاج اور مقام استدلال میں ، کلامی بحث و گفتگو میں ، ائمہ علیہم السلام سے ماخوذ عقائد امامیہ کے استحکام کا اعتراف کیا ہے اور ائمہ علیہم السلام نے قرآن کریم کے کہنے کے مطابق ہم کو غور و فکر اور تامل و تدبر اور عقل و خرد کے استعمال کا حکم دیا ہے ، یہی وجہ ہے ان عقائد میں فکر و نظر اور تعقل و خرد اندیشی آشکار ہے جبکہ ائمہ علیہم السلام کی رہنمائیاں بھی ہدایت و آگہی سے آراستہ ہیں اور غلطیوں سے حفاظت کرتی ہیں ۔
ان عقائد کو پہلے صحیح طور پر سمجھنا چاہئے پھر دوسرے مرحلے میں غور و فکر کے ذریعہ اس میں گہرائی پیدا کرنا چاہئے اور اس کے بعد تیسرے مرحلے میں صحیح صحیح دوسروں تک منتقل کرنا چاہئے تمام ثقافتی مجموعوں کو یہی روش اپنانی چاہئے تعلیم و تربیت کے میدان میں ایک معلم کو ،تعلیمی اور تربیتی اداروں کے منتظمین کو بہترین انداز میں اس سنہرے موقع سے ، جب جوانوں کی ایک عمران کے اختیار میں ہوتی ہے ، بھر پور فائدہ اٹھانا چاہئے دینی اور مذہبی عقائد ، نہ صرف دینی تعلیمات کے گھنٹوں میں بلکہ تمام موضوعات کا درس دیتے وقت جہاں کہیں بھی موقع مناسب ہو عقل و ہوش اور دقت نگاہ سے کام لے کر اپنے متعلم کے دل و جان میں پوری سنجیدگي سے راسخ کردینا چاہئے تا کہ طالبعلم کو موقع مل سکے کہ وہ اپنے عقائد دل و دماغ میں پروان چڑھائے ۔
دوسری قوموں اور ملک سے باہر دوسرے ملکوں میں مشغول ثقافتی مراکز اور ان سے وابستہ اداروں کا اہم ترین کام یہ ہے کہ ان حقائق کو مختلف طریقوں اور عنوانوں سے چاہنے اور جستجو رکھنے والوں کی چشم و نگاہ کے سامنے لائیں اور پیش کریں اسی قدر کافی ہے کہ وہ واقف ہوجائیں ۔اسی مہدویت کے مسئلے میں ، اہلسنت کے وہ حضرات یا حتی غیر مسلم عالموں اور دانشوروں کے درمیان کہ جنہوں نے مہدویت سے متعلق شیعہ عقائد کا مطالعہ کیا ہے اور معلومات حاصل کرنے کے بعد تصدیق و تائید کی ہے کہ تورات و انجیل اور دیگر مذاہب میں بھی جو بشارتیں ذکر ہوئی ہیں اسی مہدویت سے مطابقت رکھتی ہیں جو شیعوں کے یہاں پائي جاتی ہے، اس کا اعتراف کرتے ہیں ، وہ لوگ جو شیعہ عقائد سے ناواقف ہیں یا اس کی بگڑی ہوئي شکل ان تک پہنچی ہے اچھا، تو ٹھیک ہے وہ اس سلسلے میں صحیح فیصلہ نہیں کرسکتے ، ان تک صحیح عقیدہ پہنچانا چاہئے اس وقت آپ دیکھیں گے کہ باخبر علما اور پڑھے لکھے دانشوروں کا فیصلہ اس عقیدہ کے حق میں ہوگا اور وہ سب تائید و تصدیق کریں گے اور اس کی طرف مائل ہوں گے ۔اس بات پر ہمارے جوانوں ، ہمارے جوان و رعنا فرزانوں ، اسکول اور کالج کے بچوں ، یونیورسٹیوں اور حوزوں کے فاضل طلاب اور محققین کو بھی توجہ دینی چاہئے اور ان اداروں اور مرکزوں کو بھی پیش نظر رکھنی چاہئے جو شعبہ تعلیم و تعلم ، تبلیغ و نشر و اشاعت اور افکار و اذہان کی تربیت کے ذمہ دار ہیں کہ اپنے مخاطبین کے سامنے اس روشن حقیقت کی نشان دہی کرنا جو مذہب امامیہ کے اختیار میں ہے اور پیروان اہلبیت علیہم السلام جس پر عمل پیرا ہیں ، اسی وقت مفید ہے جب وہ مخاطب کو قبول کرنے پر آمادہ کرسکے اور مخاطب اس کی تائید و تصدیق کرسکے ۔حقیقت کو دکھانا چاہئے لیکن کوشش یہ کرنی چاہئے کہ وہ ہر قسم کی بناوٹ، تہمت و افترا ، خرافات ، جھوٹے دعووں ، کج فکریوں اور کج بیانیوں سے پاک و صاف ہو ،اس سلسلے میں علمائے دین ، ممتاز مبلغین اور روشن فکر محققین و دانشور کا کردار یقینا بڑی اہمیت کا حامل ہے اور ہماری قوم نے اہلبیت علیہم السلام کی تعلیمات اور قرآنی ہدایات پر عمل کرکے انقلاب کے دوران بھی، ( آٹھ سالہ ) دفاع مقدس کے زمانہ میں بھی اور ہمارے ملک کو در پیش طرح طرح کے حادثوں اور المیوں سے دوچار ہوتے وقت بھی ان تعلیمات کی حقانیت کو ثابت کیا ہے ۔دنیا کے بہت سے لوگ مقدس دفاع کے دوران تشیع کی حقانیت سے آشنا ہوئے اور اس کی طرف قلبی میلان کے ساتھ اس کو مانا اور قبول کیا ہے چنانچہ بہت سے عالمی مندوبین نے دفاع مقدس کے دوران اور اسلامی انقلاب کے دوران ، ہمارے عظیم الشان قائد امام خمینی رضوان اللہ علیہ اور ان کے حواریوں کے عمل اور طرز عمل کو دیکھ کر، جو یہی راہ خدا میں جہاد کرنے والے مجاہد و سرفروش جوان تھے ، اسلام کی حقانیت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے ہیں بہت سی وہ ملتیں جو مسلمان تھیں لیکن اسلام کی حقیقت سے غافل تھیں، جاگی اور بیدار ہوئي ہیں ، دین و مذہب کی صحیح حقیقت کو پیش کرنا خاص طور پر عمل کے ذریعہ مذہبی حقائق کو نمایاں کرنا اسی طرح کی معجز نما خصوصیت کا حامل ہوتا ہے۔
ہماری دعا ہے کہ ملت عزیز حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا فداہ کی پاکیزہ و مقبول دعاؤں کی مستحق قرار پائے اور انشاء اللہ آپ کے ظہور کے انتظار کے سلسلے میں اس ملت کے عشق و ارادت اور انس و اشتیاق میں روز بروز اضافہ ہوتا رہے اور انشاء اللہ دلوں اور نگاہوں میں اور دنیا میں امام عصر (عج) کے عظیم و پرشکوہ الہی انقلاب کی صلاحیت و ظرفیت پیدا ہوجائے ۔