آپ نے حکام کے لئے مختلف حالات میں صبر و تحمل سے کام لینے اور جلد اکتا جانے اور تھک جانے کی عادت سے دور رہنے کو ضروری قرار دیا۔ آپ نے عوام اور اسلامی نظام کی خدمت کے تعلق سے حکام کے فرائض کی ادائیگی پر تاکید فرمائی۔ تفصیلی خطاب پیش نظر ہے۔

بسم‏اللَّه‏الرّحمن‏الرّحيم‏
الحمدللَّه رب العالمين والصّلاة والسّلام على سيّدنا و نبيّنا ابى‏القاسم المصطفى محمّد و على اله الاطيبين الاطهرين المنتجبين سيّما بقيةاللَّه فى الارضين

اس حسینیہ میں اس دوستانہ، برادرانہ اور معنوی فضا میں اس اجلاس کے توفیق پر اللہ تعالی کی بارگاہ میں شکر ادا کرتا ہوں۔ اللہ تعالی کی مہربانی ہے کہ ملک کے لئے جذبہ ہمدردی سے سرشار اور انقلاب کے خدمت گزار بھائیوں اور بہنوں سے اس دوستانہ فضا میں ملاقات کا موقع ملا جن کی گرانقدر خدمات سے ملک بہرہ مند ہوتا رہا یا ہو رہا ہے۔
یہ اجلاس در حقیقت اسلامی نظام کے خدمت گزاروں اور عہدہ داروں کے درمیان اتحاد و یکجہتی کا نمونہ و مظہر ہے اور امید کرتا ہوں کے اس اجلاس کے نتیجے میں خدمت گزاری کے جذبے میں مزید شدت پیدا ہوگی اور ملک و انقلاب سے قلبی لگاؤ رکھنے والے ان افراد میں جذبہ اخوت و برادری اور اتحاد و یکجہتی اور بھی مضبوط ہوگا۔
یہ آیۃ شریفہ یا یوں کہا جائے کہ قرآن کریم کا یہ فقرہ مبارکہ استعینوا بالصبر و الصلاۃ سورہ بقرہ میں دو جگہ آیا ہے۔ ایک جگہ اہل کتاب سے خطاب ہے واستعینوا بالصبر و الصلاۃ و انھا لکبیرۃ الا علی الخاشعین ایک اور مقام پر مومنین سے خطاب پروردگار ہے یا ایھا الذین آمنوا استعینوا بالصبر و الصلاۃ ان اللہ مع الصابرین یہاں یہ نکتہ بالکل واضح ہے کہ صبر و صلاۃ پر خصوصی توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔ ان دونوں چیزوں کی اہمیت اس لئے ہے کہ یہ ان اعلی اسلامی اہداف تک رسائی میں ممد و معاون ہیں جن کے لئے اسلامی معاشرے کی تشکیل عمل میں آئی۔ دوسری بات یہ کہ صبر اور صلاۃ یعنی استقات و پائيداری اور خالق حقیقی سے قلبی رابطے کے درمیان پایا جانے والہ تعلق اس آیت کا ما حصل ہے۔ خاص طور پر یا ایھا الذین آمنوا والی آیت سے یہی نتیجہ حاصل ہوتا ہے۔ اس آیت سے قبل فاذکرونی اذکرکم واشکروا لی و لا تکفرون ہے جس میں ذکر و شکر کی بحث کی گئی ہے جبکہ اس آیہ شریفہ کے بعد والی آیت میں جہاد کا ذکر ہے ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات بل احیاء و لکن لا تشعرون اس کے بعد بڑی معروف آیت ہے و لنبلونکم بشی ء من الخوف والجوع و نقص من الاموال والانفس و الثمرات و بشر الصابرین الذین اذا اصابتھم مصیبۃ قالوا انا للہ و انا الیھ راجعون اولئک علیھم صلوات من ربھم و رحمۃ آئی ہے۔ ان آیات سے صبر و صلاۃ کے درمیان پائے جانے والے رابطے کا مفہوم واضح ہو جاتا ہے۔ ان دونوں چیزوں کی الگ الگ بھی عظیم منزلت ہے اور ان کے باہمی رابطے کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ میں صبر کے بارے میں بعد میں چند باتیں عرض کروں گا۔
جہاں تک صبر و صلاۃ کے درمیان رابطے کا تعلق ہے تو سب سے پہلی بات یہ ہے کہ صلاۃ سے مراد وہ عمل ہے جو قلبی توجہ، حقیقی حشوع اور ذکر و اذکار پر مشمتل ہو، صرف شکل سے نماز نظر آنے والا اور قلبی خشوع و ذکر سے خالی عمل مراد نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس آیہ شریفہ میں صلاۃ کا ذکر ہے اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے و لذکر اللہ اکبر ان الصلاۃ تنھی عن الفحشاء و المنکر یہ نماز کی خاصیت ہے لیکن برائیوں اور گناہوں سے روکنے سے بڑھ کر نماز کی خصوصیت اس ذکر الہی کی بنا پر ہے جس پر نماز مشتمل ہوتی ہے۔
یہ نماز اور اس میں شامل ذکر الہی، خضوع و خشوع اور اللہ تعالی سے قلبی رابطہ، صبر کی طاقت میں اضافہ کرتا ہے۔ اس طرح صبر و تحمل کی اہمیت جس سے آپ حضرات بخوبی واقف ہیں جب قرآن و روایات کی روشنی میں واضح ہو جاتی ہے تب کسی حد تک اس کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ صلاۃ کا کیا مقام ہے۔ ذکر خدا کی کیا منزلت ہے اور یہ کس طرح ہمارے دلوں، ہماری روح، ہماری زندگی اور ہمارے افکار میں استحکام و ثبات کا اضافہ کرتا ہے۔ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے واصبر وما صبرک الا باللہ ویسے قرآن میں واصبر کا لفظ بار بار آیا ہے اور اگر غور کیا جائے تو ہر مقام پر اس کے اندر معرفتوں کا ایک سمندر موجزن نظر آئے گا۔ آیہ کریمہ واصبر و ما صبرک الا باللہ یعنی تم اللہ کی مدد سے ہی صبر کر سکتےہو، یہ پیغام دیتی ہے کہ استقامت اس وقت لا زوال ہو جاتی ہے جب ذکر الہی کے ابدی سرچشمے سے متصل ہو جائے۔ اگر ہم صبر کو جس سے مراد پائیداری و استقامت ہے ذکر الہی کے عظیم سرچشمے سے متصل کر دیں تو پھر یہ صبر کبھی تمام ہونے والا نہیں ہے اور جب صبرکو دوام مل جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کمالات کے اوج کی سمت پیش قدمی کا عمل ہرگز متوقف نہیں ہوگا۔ ہم جس اوج کی بات کررہے ہیں اس میں دنیا و آخرت دونوں جہان کے کمالات شامل ہیں۔ اس میں علم و دانش، دولت و ثروت، سیاسی اقتدار و قوت، روحانیت و معنویت، خود سازی و تہذیب نفس اور عالم ملکوت کی سمت پیشرفت کا نقطہ کمال شامل ہے۔ کسی بھی میدان میں پیش قدمی کا عمل ایک لحظہ بھی رکےگا نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ہماری پیش قدمی میں آنے والا وقفہ بے صبری کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جب دو فوجیں روبرو صف آرا ہوں تو جس فوج کا صبر و تحمل جلد ختم ہو گا شکست اس کا مقدر بن جائے گی جبکہ دائمی صبرکی مالک فوج کی استقامت جاری رہے گی اور وہ فتح سے ہمکنار ہوگی۔ یہ بالکل سامنے کی مثالیں ہیں جو ہر میدان میں نظر آتی ہیں۔
جب بھی مشکلات و مسائل در پیش ہوں اور رکاوٹیں انسان کی حرکت تکامل میں حائل ہو جائیں تو اگر انسان میں صبر کی طاقت ہے تو وہ رکاوٹیں دور کر لے گا۔ یہ جو نعرہ ہے کہ فتح اسلام کا مقدر ہے اس سے یہی مراد ہے۔ اللہ تعالی کا جو ارشاد گرامی ہے کہ وان جندنا لھم الغالبون اس کے معنی یہی ہیں۔ جنداللہ، حزب اللہ اور عباد اللہ، الہی سرچشمے سے اپنے اتصال کی وجہ سے تمام مشکلات کو رفع کرتے جاتے ہیں، مسائل کا ڈٹ کا مقابلہ کرتے ہیں۔ جب یہ فریق استقامت کا مظاہرہ کرے گا تو مسائل بہرحال دور ہوں گے۔ اگر ہم نام کے تو جند اللہ اور حزب اللہ ہیں لیکن الہی سرچشمے سے ہمارا رابطہ نہیں ہے تو پھر صورت حال کچھ اور ہوگی۔ بنابریں یہ رابطہ اور اتصال ضروری ہے۔ نماز کی اہمیت اسی مقام پر آکر واضح ہوتی ہے۔ ذکر خدا کی منزلت کا یہاں پر اندازہ ہوتا ہے۔ رمضان کے مبارک مہینے میں ملنے والے سنہری موقع کی اہمیت یہاں پر عیاں ہوتی ہے۔ خود سازی، تقوی اور دل کو جذبہ ایمان سے سرشار بنانے کی ضرورت کا اندازہ اسی موقع پر ہوتا ہے۔ تو ہمیں ان مواقع کی قدر کرنی چاہئے۔ جب ہم ان چیزوں کی قدر و منزلت سمجھ لیں گے تو اسلامی معاشرہ اور امت مسلمہ میں صبر و ضبط کی طاقت و توانائی بھی پیدا ہو جائے گی اور بندہ مسلمان اس مقام پر پہنچ جائے گا کہ مشکلیں اس کے آگے سر جھکائیں گی۔ یہ فضا قائم ہو جائے گی تو معاشرہ سیاسی، اقتصادی، اخلاقی اور معنوی تمام میدانوں میں ترقی کرے گا۔ یہ اٹل حقیقت ہے، ہمیں خود کو اس حقیقت سے نزدیک کرنا چاہئے۔
صبر کے بارے میں آپ نے یقینا وہ معروف روایت سنی ہوگی جس میں بتایا گيا ہے کہ صبر تین طرح کا ہوتا ہے۔ اطاعت پروردگار پر صبر، معصیت و گناہ پر صبر اور مصیبت پر صبر۔ اس مضمون کی متعدد روایتیں منقول ہیں جو آپ نے پڑھی اور سنی ہوں گی۔
اطاعت پروردگار پر صبر کے معنی یہ ہیں کہ جب آپ کوئی ضروری اور واجب عمل انجام دینا چاہتے ہیں اور اللہ تعالی کی اطاعت کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس عمل کے طویل ہونے سے گھبرائیے اور اکتائیے نہیں۔ اسے ادھورا نہ چھوڑ دیجئے۔ مثلا عبادت کے سلسلے میں کبھی ایسا ہو کہ آپ کوئی طولانی مستحب نماز یا دعا پڑھنا چاہتے ہیں تو اسے اس انداز سے پڑھئے کہ آپ کا شوق کم نہ ہو اور آپ پر تھکن طاری نہ ہونے پائے۔ اس کو کہتے ہیں اطاعت پروردگار پر صبر۔ رمضان کے روزے، واجب نمازیں، قرآن میں تدبر و غور و خوض انسان کو تھکا نہ دے۔ اس کا شوق بر قرار رہے۔ یہ ہے اطاعت پروردگار پر صبر۔
صبر بر معصیت سے مراد ہے ضبط نفس، یعنی یہاں بھی وہی استقامت و استحکام درکار ہے جو اطاعت کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ معصیت و گناہ کے مقابلے میں استحکام و استقامت کے معنی یہ ہیں کہ انسان بہک نہ جائے۔ بے خود نہ ہو جائے۔ شہوانی خواہشات سے مغلوب نہ ہو جائے۔ کبھی جنسی شہوت ہوتی ہے تو کبھی پیسہ ہوتا ہے اور کہیں عہدہ وشہرت و مقبولیت کی بات ہوتی ہے۔ یہ سب شہوانی خواہشات کے زمرے میں آتی ہیں۔ لوگ الگ الگ شہوانی خواہشات سے مغلوب ہوتے ہیں۔ انسان ان خواہشات کی تکمیل چاہتا ہے لیکن اس کی تکمیل کے لئے کسی حرام فعل کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ مثلا کوئی بچہ شیرینی کی پلیٹ لینا چاہتا ہے اور بیچ میں جگ اور گلاس رکھا ہوا ہے۔ اسے صرف مٹھائی سے مطلب ہے اور وہ دوسری کسی چیز کے بارے میں کچھ سوچنا سمجھنا نہیں چاہتا۔ وہ جگ اور گلاس گراتا اور توڑتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔ خواہشات سے مغلوب شخص کا رویہ بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ وہ اس پر غور کرنے کو تیار نہیں ہوتا کہ ہدف کے حصول کے لئے اسے کیا کچھ کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ خطرناک صورت حال ہے۔ کیونکہ وہ غفلت کا شکار ہے۔ وہ متوجہ نہیں ہے اور اپنی اس بے توجہی کا بھی اسے علم نہیں ہے۔ بچہ کو اپنی غفلت کا اندازہ نہیں ہے۔ اسے یہ نہیں معلوم ہے کہ قیمتی گلدستے یا شیشے کے جگ کو وہ ٹھوکر مارنے جا رہا ہے۔ معلوم ہوا کہ ہمیں اپنی آنکھیں کھلی رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس کا خیال رکھنا ہے کہ اپنی غفلت کی جانب سے بے توجہی کا شکار نہ ہوں اور یہ نہ فراموش کر دیں کہ ہم غفلت کا شکار ہو گئے ہیں۔ تو یہ ہے معصیت پر صبر۔
اب رہا مصیبت پر صبر تو اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کی زندگی میں تلخ واقعات رونما ہوتے ہیں۔ لوگوں کا فراق، موتیں، تنگ دستی، بیماری، رنج و غم، دکھ درد اوردیگر سانحے اور حادثے درپیش ہوتے ہیں تو انسان ان سے اتنا کبیدہ خاطرہ نہ جائے کہ اسے دنیا تاریک نظر آنے لگے۔ یہ صبر کی تین صورتیں ہیں اور ان میں ہر ایک کی خاص اہمیت ہے۔ قرآن میں جو یہ آیا ہے کہ اولیک علیھم صلوات من ربھم وہ در حقیقت ان تینوں مرحلوں پر صبر کا مظاہر کرنے والے نیکوکاروں کےلئے ہے جنہیں اللہ تعالی اپنی رحمت و مغفرت کا مستحق قرار دیتا ہے۔
یہاں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ صبر کی یہ تینوں صورتیں کبھی کبھی بالکل ذاتی مسائل میں پیش آتی ہیں اور کبھی مسائل ذاتی نہیں سماجی اور عمومی ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ وہ ایسے مسائل ہوتے ہیں جن پر ایک گروہ، ایک قوم اور ایک ملک کے مستقبل کا دار و مدار ہوتا ہے۔ فرض کیجئے کہ کسی ایسے مسئلے میں اطاعت پروردگار کرنی ہے جس کا تعلق ایک ملک کے مستقبل سے ہے مثلا راہ خدا میں جہاد۔ مقدس دفاع کے دوران محاذ پر جانا ظاہر ہے کہ یہ ایک طرح کی اطاعت تھی۔ ملک اور نظام کے دفاع کے لئے استقامت اور پائمردی ایک اطاعت تھی لیکن اس کا تعلق صرف کسی ایک شخص کے مستقبل اور انجام سے نہیں تھا۔ ہر مجاہد اپنے شجاعانہ اقدام سے در حقیقت ملک کے مستقبل کے تعین میں اپنا کردار ادا کر رہا تھا۔ تو کھبی اطاعت اس انداز کی بھی ہوتی ہے۔ اسی طرح آپ مثال کے طور پر پارلیمنٹ کے رکن ہیں یا وزیر ہیں یا فوجی افسر ہیں یا کسی ثقافتی اور علمی ادارے میں عہدہ دار ہیں تو ہر شخص اپنے محکمے میں جو فرائض انجام دے رہا ہے اسے اطاعت کہا جائے گا۔ یہ ہے اللہ تعالی کی اطاعت اور بندوں کی خدمت۔ یہ اسلامی نظام میں اطاعت پروردگار کا ایک طریقہ ہے۔ اس نظام کے عہدہ دار اور خدمت گزار جو کام انجام دے رہے ہیں وہ در حقیقت الہی فریضے ہیں۔ ابتدا سے انتہا تک۔ اگر آپ تھک گئے، آپ پولیس فورس سے وابستہ ہیں اور کام نے آپ کے حوصلے پست کر دئے یا آپ معاشی شعبے میں سرگرم عمل ہیں اور سخت کوشی کے بعد آپ کی ہمت جواب دے گئی یا سیاسی بھاگ دوڑ نے آپ کو تھکا دیا تو آپ سمجھ جائیے کہ آپ بے صبری کا شکار ہو گئے ہیں۔ یہ حالت واستعینوا بالصبر و الصلاۃ صبر سے مدد حاصل کیجئے کی ہدایت کے منافی ہے۔
اسی طرح بعض گناہ ایسے ہیں جن کے برے نتائج صرف آپ کی ذات تک محدود نہیں ہیں واتقوا فتنۃ لا تصیبن اللذین ظلموا منکم خاصۃ کبھی انسان سے کوئي خطا سرزد ہو جاتی ہے، کوئی نا مناسب بات اس کے منہ سے نکل جاتی ہے، غلطی سے کسی دستاویز پر دستخط ہو جاتے ہیں، ہم عہدہ داروں کی حالت کچھ ایسی ہی ہے، تو اس غلطی کی لپیٹ میں پورا ملک، پوری قوم یا ایک بڑا گروہ آ جاتا ہے۔ اسے کہتے ہیں معصیت۔ اس منزل میں صبر کی عظمت دو بالا ہو جاتی ہے۔ یہ صبر اس صبر سے مختلف ہے جو آپ رشوت کی پیشکش کو ٹھکرا کر اور اپنے نفس کو ضبط کرکے، کرتے ہیں۔ یہ صبر بھی بہت عظیم اور لائق ستائش ہے لیکن بہرحال یہ انفرادی گناہ کے مقابلے میں صبر ہے جبکہ اس کے مقابلے میں اس صبر کا مقام بلند بلند اور عظیم ہے جو ایسے گناہ کے مقابلے میں کیا جائے جس کی لپیٹ میں بہت سے لوگ آ جائیں۔ معلوم ہوا کہ گناہ کے مقابلے میں صبر کے کئی مراحل ہیں۔
مصیبت پر صبر بھی ایسا ہی ہے۔ کبھی انسان کو ذاتی طور پر مصیبتوں کا سامنا ہوتا ہے اور کبھی عمومی مصیبتوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر اس وقت ہمارے ملک کے حکام کے خلاف گوناگوں سازشیں کی جا رہی ہیں، الزامات عائد کئے جا رہے ہیں، ان کی توہین کی جا رہی ہے، انہیں برا بھلا کہا جا رہا ہے اور انہیں بدنام کیا جا رہا ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ عالمی ذرائع ابلاغ کی ان خبروں، مقالوں اور تبصروں میں کس طرح اسلام کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے اور اسلام کی وجہ سے اسلامی جمہوریہ پر کیسے کیسے حملے ہو رہے ہیں، انقلاب کی وجہ سے اسلامی جمہوریہ کے خلاف محاذ کھلے ہوئے ہیں، سامراج کو نا پسند انقلاب کی امنگوں کے خلاف کس انداز سے فتنہ پروری ہو رہی ہے۔ اسلامی جمہوریہ پر مختلف جہات اور سمتوں سے حملے ہو رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان پر صبر و ضبط کا مظاہرہ کرنا آسان نہیں ہے۔
تو صبر کی اہمیت یہ ہے۔ ذاتی و انفرادی مسائل میں بھی ہم لوگوں کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ صبر و ضبط سے کام لینا چاہئے اور سماجی و عمومی مسائل میں بھی ہمیں صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے کیونکہ یہ ہماری ذمہ داری ہے عوام کی نہیں۔ یہ چیزیں آپ حکومتی افراد کے فرائض میں شامل ہیں، عدلیہ کے فرائض میں شامل ہیں، مقننہ کے فرائض میں شامل ہے۔ حکام کے فرائض میں شامل ہے۔ دونوں ہی سطح پر صبر سے مدد لینے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک بنیادی اصول کا درجہ رکھتا ہے۔
عزیز بھائيو اور بہنو! آپ اس نظام کے خدمت گذار ہیں۔ یہاں اس اجتماع میں سیاسی، ثقافتی اور سماجی شعبے کی برجستہ شخصیات موجود ہیں۔ ملک کے اعلی رتبہ حکام تشریف فرما ہیں۔ سوال یہ ہے کہ میں اور آپ اس نظام کے لئے کیوں کام کر رہے ہیں؟ کیا اپنے مشن میں ہم اس کوشش میں تھے کہ ایک حکومت تشکیل پائے اور ہم اس میں صدر، وزیر یا کوئی اور عہدہ دار بن جائیں؟ کیا ہمارا ہدف یہ تھا؟ اگر ہدف یہ تھا تو میں عرض کر دوں کہ ہم جو محنت کر رہے ہیں، طاقت فرسائی کر رہےہیں اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں اس کی کوئی جزا نہیں ہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ ہماری یہ کوششیں ناپید ہوتی جائیں گی۔ دنیا کے دیگر ممالک میں منظر عام پر آکر حکومت کا تختہ پلٹ دینے اور اقتدار کی باگڈور اپنے ہاتھوں میں لے لینے والے گروہوں اور ہم میں فرق یہ ہے کہ ہم نے اسلامی معاشرہ تشکیل دینے کے لئے حکومت تشکیل دی۔ ہم اپنے ملک اور اپنی قوم کے لئے اسلامی حیات طیبہ کے نظرئے کو مجسم کرنے کے لئے سامنے آئے بلکہ یوں کہا جائے کہ چونکہ ہمارے ملک میں اسلامی حیات طیبہ کے خیال کو عملی جامہ پہنانا اور پھر اس ملک کو عالم اسلام کے لئے نمونے کے طور پر پیش کرنا ممکن ہے اس لئے ہم در حقیقت عالم اسلام کو اسلامی حیات طیبہ کی اس بیش بہا حقیقت کی جانب متوجہ کرنے کے لئے آئے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارا کوئی اور ہدف نہ تھا اور نہ ہے۔
اسلامی نظام، اسلامی اصولوں پر استوار ہے۔ حتی المقدور ہم نے اپنے نظام کو اسلامی آداب سے ہم آہنگ بنانے کی کوشش کی ہے۔ یہ قابل ستائیش ہے۔ جہاں ہم اپنی اس کوشش میں اب تک کامیاب نہیں ہوئے ہیں وہاں ہمیں مزید تندہی سے اس ہدف کے حصول کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس ہدف سے کنارہ کشی نہیں کرنی چاہئے۔
سامراج اسی وجہ سے ہماری دشمنی پر کمربستہ ہے۔ اسے علم ہے کہ اسلام، اسلامی نظام، اسلامی حکومت اور اسلامی معاشرہ ظلم کے خلاف ہے، سامراج کا مخالف ہے۔ عوام کی زندگی میں بے جا مداختلوں کے خلاف ہے، قوموں پر جارحیت کے خلاف ہے، بڑی طاقتوں کی فرعونیت کو برداشت نہیں کرتا، دنیا کے ممالک کے اندرونی ظلم و جور کی طرح عالمی استبداد کا مخالف ہے۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ مخالفت صرف قلبی اور ذہنی حدود تک محدود نہیں بلکہ عملی میدان میں حسب ضرورت ظاہر ہوتی ہے۔ یہ باتیں سامراجی طاقتوں کو معلوم ہیں اور وہ اسلامی جمہوریہ کے اس طرز عمل کا مشاہدہ بھی کر رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جارح اور قوموں کے حقوق اور سرمائے کو لوٹنے والی طاقتیں یہ زمانے کے فرعون، یہ شیطانی قوتیں اسلامی جمہوری نظام کی دشمن بنی ہوئی ہیں۔
میں نے حال ہی میں ایک اجتماع میں عرض کیا کہ یہ کہنا کہ ہمارے اور بڑی طاقتوں کے درمیان بد گمانیاں ہیں، درست نہیں ہے، اس معاملے میں بد گمانی اور غلط فہمی نہیں ہے۔ وہ ہمیں خوب پہچانتی ہیں، اسی طرح ہم بھی ان سے بخوبی واقف ہیں۔ ہم سامراج کی خصلت اور مزاج سے باخبر ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ مخملیں غلاف میں پوشیدہ ان کے خون آلود پنجوں کا رخ کس طرف ہے۔ ہم اس سے آگاہ ہیں، ہم با قاعدہ دیکھ رہے ہیں۔ ہم ان کی جذاب ظاہری شکل کے فریب میں آنے والے نہیں ہیں کیونکہ ہم ان کے باطن سے واقف ہیں۔ وہ خود ہی وقتا فوقتا اپنے اس باطن سے پردہ چاک کر دیتے ہیں، گوانتانامو میں، ابو غریب میں عراق میں، افغانستان میں، ان بمباریوں میں، رعونت آمیز برتاؤ میں، تمام امور میں جاری مداخلتوں میں، خود اپنی قوم کو لوٹنے کے لئے کی جانے والی ان کی گروہ بندی میں (ان کا باطن ہویدا ہے)۔ یہ ہم سے واقف ہیں اور ہم ان کی حقیقت جانتے ہیں۔ ان کو معلوم ہے کہ جو اسلامی جمہوری نظام، انقلاب کے ذریعے وجود میں آیا، امام (خمینی رہ) نے جس نظام کی تشکیل کی وہ ظلم و استبداد اور تسلط و جارحیت کا سخت مخالف ہے۔ وہ اس سے واقف ہیں اسی لئے کینہ توزی میں مصروف ہیں۔
تو یہ ہے ہمارے نظام کی ماہیت۔ اب ہمیں اور آپ کو جو اس نظام کے ذمہ دار اور عہدہ دار ہیں اس کے بنیادی اصولوں کے سلسلے میں صبر و ضبط سے کام لینا ہوگا۔ ہمیں میدان نہیں چھوڑنا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اگر اسلامی تعزیرات و قصاص، اسلامی معاشیات، اسلامی حکومت اور ہمارے آئین کے بارے میں دنیا میں ہنگامہ آرائی ہونے لگے تو ہم گھبرا جائیں۔ ہرگز نہیں، ہمیں اپنے اصولوں کا پابند رہنا ہے۔ ہمارے اصول، بندگی پروردگار سے عبارت ہیں، بندگان خدا کی خدمت سے عبارت ہیں، اللہ تعالی کے دشمنوں کے خلاف دشمنی سے عبارت ہیں۔ یہ ہمارے نعرے ہیں اور یہ اسلامی نظام کے اصول ہیں۔ اسلامی جمہوری نظام انہی اصولوں پر استوار ہے۔ یہ دانشمندی پر مبنی نظام ہے، یہ عقل و منطق سے ہم آہنگ نظام ہے۔ اس نظام میں ہر سطح پر دانشمندی اور عقل و منطق حکمفرما ہونی چاہئے۔ لیکن دانشمندی کا مطلب ہتھیار ڈال دینا نہیں، شکست قبول کر لینا نہیں ہے۔ دانشمندی کا مطلب ہے پیش قدمی کرنا اور مطلوبہ اہداف تک رسائی کے لئے نئے نئے راستے تلاش کرنا۔
بعض افراد ہیں جو عقل پسندی اور اعتدال کے نام پر، عالمی سطح کی ہنگامی آرائی سے نجات کےنام پر انقلاب کی بنیادوں اور بنیادی اصولوں کے سلسلے میں سہل انگاری کے حق میں ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے۔ یہ تو بے صبری کا مظاہرہ ہے، یہ تو تھکن کی علامت ہے۔ کبھی یہ عناصر جو خود صبر کی طاقت نہیں رکھتے اپنی اس تھکن کو عوام سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عوام اب تھک چکے ہیں۔ جی نہیں، عوام کا تو یہ عالم ہے کہ جب ملک کے کسی اعلی عہدہ دار کو مومن و عبادت گزار پاتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں کیونکہ یہ عوام مسلمان ہیں۔ عوام نے یہ کارنامہ اسی لئے کیا ہے۔ کیا یہ وہی عوام نہیں ہیں جنہوں نے انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کیا؟ انقلاب کے نعرے کیا تھے؟ کیا یہ وہی عوام نہیں ہیں جنہوں نے مظلومیت کے عالم میں آٹھ سالہ جنگ پوری کامیابی سے لڑی؟ کیا یہ لوگ بدل گئے ہیں؟ کارہائے نمایاں انجام دینے والے اس ملک کے عوام کے علاوہ کون ہے جس نے ایسے عظیم کارنامے انجام دئے ہوں؟
بڑے افسوس کی بات ہے کہ میں بعض جرائد میں دیکھتا ہوں کہ ملت ایران کی عظیم کامیابیوں اور ترقیوں کو زیر سوال لایا جاتا ہے۔ یہ ہرگز مناسب نہیں ہے۔ یہ تو عوام کی توہین ہے۔ یہ تو عوام میں غلط طریقے سے مایوسی پھیلانے کی کوشش ہے۔ آج کون ملک کی علمی و سائنسی ترقیوں کا انکار کر سکتا ہے؟ اس ترقی کی اہمیت یہاں پر اجاگر ہوتی ہے کہ سائنس و ٹکنالوجی کے ان شعبوں میں دنیا کے معدودے چند ممالک ہی ہیں جو ہمارے مساوی ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ابھی ایک مہینہ قبل اسی حسینیہ میں ایک نمائش کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں سیکڑوں ایجادات و اختراعات میں سے اکاون باون ایجادات کو پیش کیا گیا۔ ان میں بعض سرکاری پروجکٹ تھے اور بعض غیر سرکاری۔ بتایا گیا کہ ان میں بعض ایجادات ملک کی سطح پر اور بعض عالمی سطح پر بے نظیر ہیں۔ دو یا تین ایجادات ایسی تھیں جو دنیا میں اس سے پہلے کہیں نہیں ہوئیں۔ آیا اس کا بھی انکار کرنا مناسب ہے؟! گزشتہ سال یا اس سے کچھ اور قبل کی بات ہے کہ یہاں پر ایک ایک سائنسی موضوع پر بڑی کانفرنس ہوئی۔ میں اس کی تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ کانفرنس میں کئی ممالک کے نمایندوں نے شرکت کی اور ہماری سائنس و ٹکنالوجی کے شعبے کی ترقی و پیشرفت کو دیکھا۔ بعد میں ان افراد نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ اگر ہم نے اپنی آنکھوں سے نہ دیکھا ہوتا تو ہرگز یقین نہ کرتے کہ ایران اتنی ترقی کرچکا ہے۔ ایسا ایک دو بار ہی نہیں ہوا ہے۔ ایٹمی ٹکنالوجی کا مسئلہ تو صرف ایک نمونہ ہے۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ ایسے متعدد نمونے ہمارے پاس ہیں۔ یہ سب ہماری سائنسی ترقی ہے۔
تعمیراتی اور ترقیاتی منصوبے کامیاب ہوئے ہیں، عوام کی زندگی میں خوشحالی آئی ہے ان میں سے کس چیز کا انکار کیا جا سکتا ہے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ بعض جرائد بے بنیاد دلیلوں کے ذریعے ان پر بھی سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔ ملت ایران کی یہ مہم بہت با ارزش ہے۔ انقلاب آئے تیس سال کا عرصہ ہو چکا ہے اور اس انقلاب کے بانی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی رحلت کو بیس سال ہو چکے ہیں لیکن آج بھی ہم انقلاب کے پر جوش نعروں کی گونج سن رہےہیں۔ ہمارے نوجوان، جو انقلاب کے وقت نہیں تھے اور جنہوں نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو بھی نہیں دیکھا اور نہ ہی جنگ کے زمانے میں وہ تھے، اپنے اشعار، اپنے فن پاروں، اور بیانوں میں ان بلند اہداف کا فخریہ ذکر کرتے ہیں جو ملت ایران نے حاصل کئے۔ یہ کوئی معمولی بات ہے؟ اس کا کون انکار کر سکتا ہے؟