بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
پہلی بات تو یہ ہے کہ اس جلسے کا سب سے اہم پہلو اس کا علامتی ہونا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے دل میں استاد اور ایک عالم کا جو احترام ہے وہ معاشرے کی سطح پر منعکس ہو۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے معاشرے میں دانشور، سائنسداں اور استاد کا خاص احترام ہو۔ علم و دانش کی ترویج کے لئے حوصلہ افزائی کا بہترین طریقہ صاحب علم کی توقیر کرنا ہے۔ ہمارے اساتذہ اور علمی و تحقیقاتی مراکز کی برجستہ شخصیات ان افراد کے زمرے میں آتی ہیں جو پورے ملک کی سطح پر اہم علمی شخصیت کے طور پردیکھے جاتے ہیں۔ بنابریں ہمارے اس جلسے کا سب سے بنیادی مقصد یہی ہے اور اس طرح کے جلسوں سے یہ مقصد پورا بھی ہو رہا ہے۔ آپ عزیز بھائیوں اور بہنوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ میں صاحب علم اور علم کا خاص احترام کرتا ہوں اور میرے دل میں ایسے افراد کے لئے بڑی جگہ ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ پورے ملک میں عوام سے لیکر حکام تک ہر سطح پر یہی جذبہ نظر آئے اور برتاؤ میں بھی ظاہر ہو۔ ویسے یہ جذبہ اور برتاؤ نظر بھی آ رہا ہے۔ اس کےساتھ ہی ساتھ اس جلسے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ علم و دانش، درس و تدریس، اور تعلیم و تربیت سے متعلق امور کے بارے میں علمی شخصیات ایک کھلی فضا میں اپنے نظریات اور تجاویز پیش کریں۔ یہ بہت ضروری اور اہم چیز ہے۔ اس جلسے میں ہمارے احباب نے جو کچھ بیان کیا میرے لئے بہت معلوماتی اور مفید باتیں تھیں، بعض افراد نے نہایت اہم نکات کی جانب اشارہ کیا جن پر توجہ دی جانی چاہئے۔ یہ نکات ایک کھلی فضا میں اہل علم و دانش اور متعلقہ حکام کے سامنے بیان کئے گئے ہیں اور انشاء اللہ جب یہ باتیں ٹی وی اور ریڈیو پر نشر کی جائیں گی تو عوام تک پہنچیں گی اور لوگ استفادہ کریں گے۔
میں چاہوں گا کہ متعلقہ افراد اس بات پر غور کریں کہ اگر یونیورسٹی کے اساتذہ، دانشوروں اور محققین کے عمومی اجلاس ہر سال منعقد کریں اور اجتماع میں اسی طبقے کے افراد تقریریں کریں اور اپنے مد نظر مسائل بیان کریں تو حکومت، پارلیمنٹ، یونیورسٹیوں اور وزارت خانوں کی سطح پر بہت سے امور میں فیصلے کرنے کے عمل میں بڑی مدد ملے گی۔
میں یہاں آپ کی خدمت میں چند باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔
ایک بات تو یہ ہے کہ میں جو کچھ عرض کرنے جا رہا ہوں اس کو ان باتوں کو ذہن میں رکھ کر مورد توجہ قرار دیا جائے کہ علمی پیشرفت و ترقی ملک کی بنیادی اور اہم ترین ضرورت ہے۔ ویسے علوم میں بھی درجہ بندی ہے جس کی جانب میں بعد میں اشارہ کروں گا۔ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ علمی پیشرفت، دیگر ممالک اور پیشرفتہ تحقیقاتی مراکز سے مدد لینے سے ہی ممکن ہے لیکن علم کا حصول اپنی جگہ اہم ہے اور نئے علم اور ٹکنالوجی کی تخلیق ایک اور چیز ہے۔ علم کے سلسلے میں یہی کافی نہیں کہ ہم اپنے ڈبے کو مغرب کے انجن سے جوڑ دیں۔ ویسے اس وابستگی کے نتیجے میں بھی ترقی تو ہوگی اس میں کوئی شک نہیں ہے لیکن ہمیشہ پیچھے پیچھے دوڑنا، ابتکار عمل سے بے بہرہ رہنا اور دائمی ما تحتی اس وابستگی کا لازمہ ہوگی اور یہ مناسب نہیں ہے۔ بنابریں ہمیں علم اور ٹکنالوجی کی تخلیق کی فکر کرنا چاہئے اس پودے کو اگانا چاہئے۔ علم کے میدان میں انسان جیسے جیسے زینے طے کرتا ہے اگلے زینے پر قدم رکھنے کے لئے تیار ہوتا جاتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اس عمل کو اپنے فکری ذخائر اور ثقافتی میراث کے سہارے اندرونی سطح پر شروع کریں اور آگے بڑھائیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ یہ علمی پیش رفت خود اعتمادی، کامیابی کی پوری امید اور بھرپور جد و جہد اور تندہی کے ساتھ ہونی چاہئے۔ کیونکہ ہمارا نصب العین وہ علمی ترقی ہے جو مقامی بنیادوں اور ہماری اپنی ثقافت پر استوار ہو۔ ہماری ثقافت یعنی اسلام اور ہماری پسندیدہ قومی میراث (پر مبنی ہو)۔ اسی طرح یہ ترقی ملک کی ضرورتوں سے ہم آہنگ ہو۔ ہماری علمی پیش قدمی میں ان عناصر کی شمولیت ہونی چاہئے۔ ممکن ہے کوئی اعتراض کرے کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟ لیکن ہمیں اپنے اندر یہ یقین اور خود اعتمادی پیدا کرنا ہوگی۔ ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینا ہوگی کہ جب پیش قدمی شروع ہو گئی تو کامیابی کا امکان بھی بھرپور ہے۔ اس سلسلے میں اس بات کا بھی خیال رہے کہ سستی اور لاپروائی کا آپ کے پاس سے گزر بھی نہ ہونے پائے۔ اس معاملے میں کاموں کے ایک دوسرے پر چھوڑ دینا جائز نہیں ہے۔ مجاہدانہ انداز سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جہاد صرف میدان جنگ میں نہیں ہوتا، علم کے میدان میں اسی طرح دیگر شعبہای زندگی میں بھی جہاد لازمی امر ہے۔ جہاد کے معنی ہیں بے وقفہ کوشش اور جد و جہد کرنا، ایک معقول حد تک جوکھم اٹھانا اور بھرپور امید کے ساتھ آگے بڑھنا۔ یہ چیزیں پیشگی شرط کا درجہ رکھتی ہیں اور چونکہ اس پر بہت دفعہ اور پوری تفصیل کے ساتھ بحث ہو چکی ہے اس لئے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ نکات ہمارے سائنسدانوں اور علمی میدان کے شہسواروں کے ذہن نشین ہو چکے ہوں گے۔ آج یہاں جن افراد نے تقریریں کیں انہوں نے بھی حالیہ برسوں کی ضرورتوں پر روشنی ڈالی اور ساتھ ہی ان بیانات سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ علمی ترقی، علم کی نئی بلندیوں کوسر کرنا، علم و دانش کے میدان میں خلاقانہ انداز سے قدم رکھنا وغیرہ ان امور میں ہیں جو علمی طبقے میں با قاعدہ مورد توجہ بنے ہوئے ہیں اور اب اس میں کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں ہے۔
اب ان چیزوں کی بنیاد پر استاد کا کیا کردار ہے؟ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ استاد کا بہت اہم کردار ہے۔ یونیورسٹیوں میں بھی اور تحقیقاتی مراکز میں بھی استاد کا کردار بہت وسیع ہے۔ اسی طرح انتظامیہ اور حکومتی اداروں کی بھی ذمہ داریاں ہیں۔ ہم صرف حکومتی اداروں کے سلسلے میں بھی نہیں کہہ سکتے کہ ساری ذمہ داریاں ان کی ہیں اور نہ ہی اساتذہ اور تعلیمی مراکز کے ذمہ داروں سے کہہ سکتے ہیں کہ سب کچھ آپ کو ہی کرنا ہے۔ کیونکہ استاد کے کردار کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح متعلقہ حکومتی اداروں کی اہمیت کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ملک میں ایک عظیم پروجیکٹ پر کام ہونا ہے۔ یہ پروجیکٹ ہے علمی ترقی کا، علم کے میدان میں سرفرازی و سربلندی کا۔ اس کی نگرانی اور ضروری وسائل کی فراہمی کی ذمہ داری حکومتی اداروں، وزارت تعلیم، وزارت صحت عامہ اور دیگر متعلقہ اداروں کے دوش پر ہے۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ اس پروجیکٹ کو اپنے ہاتھ میں لیں، اس کے لئے منصوبہ بندی کریں، ضروری وسائل فراہم کریں۔ ہمارے جن دوستوں نے ابھی اپنی تقاریر میں کچھ مطالبات رکھے ہیں وہ در حقیقت حکومتی اداروں کی انہی ذمہ داریوں کا حصہ ہیں جبکہ ان کے ساتھ ہی ان کے کچھ اور فرائض بھی ہیں۔ بنابریں ہر ادارے کے اپنے فرائض ہیں اور اپنا رول ہے۔ اب میں یہاں استاد یا حکومتی اداروں کے رول اور کردار کی وضاحت نہیں کروں گا کیونکہ یہ بحث بہت طولانی ہو جائے گی لیکن کچھ سفارشات ضرور کرنا چاہوں گا۔
میری ایک سفارش تو یہ ہے کہ متعلقہ ادارے اور اساتذہ یونیورسٹیوں کے اندر خود اعتمادی کے جذبے کو عام کریں۔ جو نوجوان آپ کے پاس زیر تعلیم و تربیت ہےاس میں خود اعتمادی ہونا چاہئے، قومی خود اعتمادی ہونی چاہئے جس کی جانب میں نے اشارہ کیا ہے۔ یہاں یہ مراد نہیں ہے کہ انسان کو اپنی ذات پر اعتماد ہو۔ نہیں بلکہ نوجوانوں کو اپنے قومی عادات و اطوار، قومی وسائل و ذخائر، ثقافتی میراث اور تمدنی ورثے پر بھی پورا اعتماد ہونا چاہئے۔ اسی کو ہم قومی خود اعتمادی کہتے ہیں۔ یہ جذبہ ہمارے ہر نوجوان میں ہونا چاہئے۔ یعنی ہمارا نوجوان جب لب کھولے تو اس کی خود اعتمادی صاف محسوس ہو، کیونکہ نوجوان امیدوں کا مظہر ہے۔ طلبا سے بھی میری ملاقات ہونے والی ہے۔ نوجوان ہمارے پاس آتے ہیں اور اپنی باتیں بیان کرتے ہیں۔ ان کی باتوں میں کہیں بھی مطلوبہ اہداف تک رسائی کے سلسلے میں شک و شبہے اور نا امیدی کا شائبہ تک نہیں ہونا چاہئے۔ نوجوان کو امید کا مظہر ہونا چاہئے۔ حقائق کا تقاضا یہی ہے۔ اس سلسلے میں آپ کی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں۔ ویسے اس سلسلے میں بہت سے سماجی اور سیاسی عوامل اثر انداز ہوتے ہیں لیکن کلاس، ورکشاپ اور تجربہ گاہ میں استاد طلبہ پر بہت گہرا اثر چھوڑتا ہے۔ نوجوان کے وجود میں خود اعتمادی اور مستقبل کے تعلق سے امید کا جذبہ بھرا ہونا چاہئے۔
میری دوسری سفارش یہ ہے کہ ہم علمی اور سائنسی ضرورتوں اور ترجیحات کا تعین کریں اور تعلیمی منصوبے تیار کرتے وقت ان کا خیال رکھیں، وہ آرٹس کے موضوعات ہوں یا سائنس کے شعبے، اگر بغور جائزہ لیا جائے تو بہت ممکن ہے کہ کچھ ترجیحات سامنے آ جائیں۔ ان کا لحاظ رکھا جانا چاہئے۔ جب ہمارے پاس وسائل محدود ہیں اور ضرورتوں کی فہرست طویل ہے تو ایسے میں یہ کسی ایسے کام میں سرمایہ کاری جو ترجیحات میں شامل نہیں ہے مناسب نہیں ہوگی۔ فکری سرمایہ کاری، مالی سرمایہ کاری، وقت اور انسانی صلاحیتوں کی سرمایہ کاری( ان کے لئے ترجیحات کا تعین ضروری ہے) تو یہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔
ایک اور مسئلہ طالب علم کے اندر تجسس، تحقیق اور تلاش کے جذبے کی تقویت کرنا ہے۔ ملک کے تعلیمی نظام میں اصلاح کا موضوع تو ایک اہم اور طولانی موضوع ہے جس پر جلسوں میں بحث ہونی چاہئے لیکن اس وقت اس کا موقع نہیں ہے۔ میں بس یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ تعلیمی نظام میں اصلاح کے سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ یہ تغیر اس انداز سے انجام پائے کہ ہمارے طالب علم تحقیق اور علمی گہرائيوں تک جانے میں دلچسپی محسوس کریں۔ ہم اپنے یہاں کی یونیورسٹیوں میں دیکھتے ہیں کہ استاد طالب علم کو دو تین سو صفحات ازبر کر لینے کا حکم دیتا ہے۔ یہ کیوں ہوتا ہے؟ طالب علم کو ایسی باتوں کے مطالعہ کرنے اور رٹ لینے کے لئے کیوں کہا جاتا ہے جن کے بارے میں معلوم نہیں کہ کس کا کتنا فائدہ اور کیا افادیت ہے۔ اس سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ چنندہ شخصیات سر جوڑ کر بیٹھیں اور ایسا تعلیمی نظام وضع کریں جس میں طالب علم خود سے علمی گہرائیوں میں اتر جانے اور تحقیق کرنے میں دلچسپی لے۔ اس میں دو رای نہیں کہ ہمارے نوجوان اعلی صلاحیتوں سے سرشار ہیں۔ ہمارے نوجوانوں میں علمی استعداد کی اوسط سطح بہت بلند ہے۔
ہمارے ہاں ایک بحث پرانے، تجربہ کار اور تازہ دم اساتذہ کی بھی ہے۔ یہ مسئلہ اختلاف کا باعث نہیں بننا چاہئے۔ اگر مجھ سے پوچھا جائے تو میں تو یہی کہوں گا کہ ہمیں تجربہ کار اساتذہ کی بھی ضرورت ہے اور تازہ دم اساتذہ کی بھی۔ ہمیں ان دونوں کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں یہ مناسب نہیں کہ جو افراد پہلے سے ہیں وہ ایک دائرہ کھینچ لیں اور اس کے اندر کسی نووارد کو آنے کی اجازت نہ دیں۔ علمی اور تعلیمی میدان میں ایسی صورت حال پیدا نہیں ہونا چاہئے۔ نئے اساتذہ کو میدان میں اترنے کا موقع دیا جانا چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی پرانے اور تجربہ کار اساتذہ کے تجربات سے استفادہ کرنا چاہئے۔ یہ اساتذہ نظام کا ذخیرہ ہیں۔ اب ان دونوں قسموں کے اساتذہ کو ایک ساتھ جمع کرنا چاہئے جن میں ایک تجربہ کار ہے اور برسوں مختلف موضوعات کی تعلیم دینے کا تجربہ رکھتا ہے اور دوسرا نووارد استاد ہے جس نے حال ہی میں پی ایچ ڈی کی ہے اور اب پورے جوش و جذبے کے ساتھ میدان عمل میں اتر جانے کے لئے تیار ہے۔ ان دونوں میں سے کسی بھی ذخیرے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں پرانے استاد کے قیمتی تجربات کی بھی ضرورت ہے۔ اور اس تازہ دم استاد کے جوش و جذبے اور جرئت عمل کی بھی ضرورت ہے۔ منصوبہ بندی اس انداز سے کی جائے کہ دونوں کی توانائیوں سے استفادہ کیا جا سکے۔ ہمیں افرادی قوت کی ضرورت ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم تعلیمی اور تحقیقاتی مراکز کے فروغ پر توجہ دیں تو دونوں کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اورساتھ ہی تعلیمی دور میں کام کرنے میں دلچسپی رکھنے والے طلبہ کے لئے کام کے مواقع بھی پیدا کئے جا سکتے ہیں۔ نابغہ افراد کے لئے کشش پیدا کی جا سکتی ہے۔ یہ بھی اہم کاموں میں ہے۔
میں آپ سب کا بہت شکر گزار ہوں کہ آپ یہاں تشریف لائے اور یہ دلنشیں جلسہ منعقد ہوا۔ جلسے میں جو سفارشات کی گئیں انشاء اللہ ان کی درجہ بندی کرکے انہیں متعلقہ افراد کو سونپا جائے گا۔ جن کا تعلق مجھ سے ہے انہیں میں دیکھوں گا اور جن مطالبات و سفارشات کا تعلق انتظامیہ سے ہے انتظامیہ ان پر توجہ دے گی۔
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته