قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے یکم شوال چودہ سو انتیس ہجری قمری مطابق پہلی اکتوبر سن دو ہزار آٹھ عیسوی کو تہران کی مرکزی عیدگاہ میں نماز عید فطر کی قیادت فرمائی۔ آپ نے نماز عید کے خطبوں میں مسئلہ فلسطین سمیت اہم ترین سیاسی مسائل پر روشنی ڈالی اور دینی و معنوی نکات کی جانب بھی اشارہ فرمایا۔ نماز عید فطر کے خطبوں کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
الحمد للَّه ربّ العالمين. الحمد للَّه الّذى خلق السّموات و الأرض و جعل الظّلمات و النّور ثمّ الذّين كفروا بربّهم يعدلون.نحمده و نستعينه و نؤمن به و نتوكّل عليه و نصلّى و نسلّم على حبيبه و نجيبه و خيرته فى خلقه سيّدنا أبىالقاسم المصطفى محمّد و على اله الأطيبين الأطهرين المنتجبين سيّما بقيةاللَّه فى الأرضين. و صلّ على أئمّة المسلمين و حماة المستضعفين و هداة المؤمنين
تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے تمام آسمانوں اور زمین کو خلق کیا اور تاریکیاں اور نور قرار دئے۔ ہم اسی کی تعریف کرتے ہیں اور اسی سے مدد طلب کرتے ہیں، اسی پر ایمان رکھتے ہیں اور اسی پر بھروسہ کرتے ہیں، ہم درود و سلام بھیجتے ہیں اس کے حبیب پر، تمام مخلوقات میں اس کے منتخب بندے اور اپنے سید و آقا حضرت ابو القاسم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر اور ان کے پاک و مطہر، منتخب و برگزیدہ آل پر خصوصا روی زمین پر حجت خدا قرار پانے والے حضرت ولی عصر علیہ السلام پر ہم درود بھیجتے ہیں تمام مسلمانوں کے اماموں، مستضعفین عالم کے پشتپناہوں اور مومنین کے رہنماؤں پر۔
میں تمام بھائیوں، بہنوں اور عزیز و محترم نمازیوں کو عید فطر کی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اسی طرح ایران کی پوری قوم، تمام مسلمان اقوام اور پوری دنیا میں پھیلی ہوئی عظیم امت اسلامیہ کو(تہنیت پیش کرتا ہوں)
عید فطر کا دن دو ممتاز خصوصیتوں کا حامل ہے۔ پہلی خصوصیت عبارت ہےطہارت و پاکیزگی اور نظافت و صفائی کی اس حالت سے جو ماہ رمضان المبارک کی الہی اور شرعی ریاضتوں کے زیر اثر ایک مومن کے یہاں پیدا ہوئی ہے۔ چنانچہ روزہ انہی ریاضتوں میں سے ایک ریاضت ہے جو انسان اپنے پورے اختیار و ارادے کے ساتھ کئی گھنٹوں تک تمام مادی لذتوں سے پرہیز کرکے انجام دیتا ہے اور روزہ رکھ کر طویل ایام کے دوران اپنی نفسانی خواہشوں اور ہوس پر قابو رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ قرآن حکیم سے انس، کلام پروردگار کی تلاوت، قرآنی مفاہیم اور تعالیمات سے واقفیت اور اس کے ساتھ ہی ذکر و دعا اور گریہ و زاری کی یہ حالت اور وہ عشق و انس جو ایک انسان خدا وند متعال کے ساتھ ماہ مبارک کے دنوں اور راتوں میں خصوصا قدر کی مبارک شبوں میں پیدا کرتا ہے۔ یہ تمام چیزیں دل کو نورانیت عطا کرتی ہیں اور انسان کی روح و جان کو ایک نظافت و پاکیزگی بخش دیتی ہیں۔ چنانچہ ماہ رمضان المبارک کے یہ اہم اعمال ہمارے لئے عظیم سبق رکھتے ہیں اور ہمیں ان اسباق سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔
ایک سبق یہ ہے کہ اپنے خدا کی جستجو رکھنے والے ایک انسان کا ارادہ، نفس انسانی کو اپنی جانب کھینچنے والی تمام مادی خواہشوں، لذتوں اور ہوس پر غلبہ حاصل کر لیتا ہے۔ یہ نکتہ ہمارے لئے بہت اہم ہے۔ بعض اوقات انسان اپنے آپ سے کہتا ہے کہ مجھے اپنی نفسانی خواہشات پر غلبہ نہیں مل سکتا اور وہ خود کو ہوس اور خواہشات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے۔ ماہ رمضان کے روزے انسان پر یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ کر سکتا ہے، بس ارادہ کرنے کی دیر ہے۔ اگر وہ قوی ارادے اور عزم راسخ کے ساتھ میدان عمل میں اتر جائے تو ہوس اور نفس پر اسے غلبہ مل سکتا ہے۔ دلوں کو اغوا کر لینے والی جلوہ سامانیاں، بری اور ناپسندیدہ عادتیں جو ہمارے اندر پائی جاتی ہیں، اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور محکم ارادے کے ذریعے قابو میں رکھی جا سکتی ہیں اور ان سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہ قوی و مستحکم ارادہ اور فیصلے ہمارے لئے جن کی تاثیر خود ایک بڑا سبق ہے خواہ وہ ذاتی قسم کی ناپسندیدہ عادتیں ہوں یا سماجی سطح کی برائياں ہوں جو مادی و معنوی میدانوں میں ہماری پسماندگی کا باعث ہوتی ہیں ہم کو ان سے الگ ہونے اور تمام رکاوٹوں پر غلبہ پانے کا درس دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں ماہ مبارک میں انسانوں کی مدد کرنے کا جذبہ اور لوگوں کے ساتھ تعاون اور ہمدردی کا جذبہ فروغ پاتا ہے۔ خود غرضی ایثار میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ خوش قسمتی سے ادھر کچھ برسوں کے دوران کس قدر افراد نے نام و نمود کے بغیر مسجدوں حتی مختلف علاقوں میں سڑکوں اور گلیوں کے اندر روزہ داروں کی میزبانی کا اہتمام کیا۔ افطاری کے دسترخوان لگائے گئے اور لوگوں کو اس دسترخوان پر آنے کی دعوت عام دی گئی۔ یہ دعوتیں ہر طرح کے تکلفات سے عاری تھیں۔ تعاون و ہمدردی کی یہ کیفیت اور انسان دوستی کا یہ جذبہ بہت قابل قدر ہے جو انسان کی نفسانی طہارت پر منتج ہوتا ہے۔ اس مہینے میں حاجتمندوں کی بہت مدد کی گئی۔ حتی ماہ رمضان المبارک میں لوگوں نے خون کا عطیہ بھی دیا۔ جی ہاں جس وقت حکام نے اعلان کیا کہ بیماروں کے لئے تازہ خون کی ضرورت ہے، بڑی تعداد میں لوگوں نے ماہ مبارک میں خون کا عطیہ دیا۔ اسی کو کہتے ہیں خود غرضی پر جذبہ ایثار کا غالب آ جانا۔ دوسروں کے مفادات کو اپنے مفادات پر ترجیح دینا۔ یقینا یہ جذبہ بڑی حد تک ماہ رمضان المبارک کی ایجاد کردہ اس معنویت کا نتیجہ ہے جو بحمد اللہ اس سال بھی گزشتہ برسوں کی مانند پوری فضا میں رچی بسی رہی۔ بلکہ سننے میں یہاں تک آیا ہے کہ اس سال ملک کی فضا عام طور پر ذکر و دعا اور گریہ و مناجات سے معمور رہی۔ خاص طور پر شبہای قدر کے برکتوں سے سرشار لمحات میں تمام افراد خصوصا نوجوانوں نے ذکر الہی اور دعا و مناجات سے محفلوں کو گرم رکھا۔ مختلف سیاسی، سماجی اور دیگر طبقوں سے تعلق رکھنے والے الگ الگ طرز فکر کے افراد نے ان محافل و اجتماعات کو رونق بخشی۔ سب آئے اور سب نے اپنے ہاتھ دعا کے لئے بلند کئے اور قلوب کو خالق یکتا کی جانب متوجہ کیا۔ یہ توجہ اور یہ ارتکاز بھی اپنی جگہ پر لطف الہی ہے۔ یہ خود پروردگار کی نگاہ کرم کا نتیجہ ہے۔ جیسا کہ ماہ رمضان المبارک کی دعائے وداع میں امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ؛ تشکر من شکرک و انت الھمتھ شکرک یعنی جو تیرا شکر ادا کرتا ہے تو اس کے شکر کی جزا دیتا ہے اگرچہ شکر کا یہ جذبہ تو ہی دل میں ودیعت کرتا ہے۔ و تکافی من حمدک و انت علمتھ حمدک اور جو بھی تیری حمد کرتا ہے اس کو تو بدلا دیتا ہے حالانکہ تونے ہی اسے حمد کی توفیق دی ہے اور حمد کرنا سکھایا ہے۔ شاعر کے بقول؛
گفت آن اللہ تو لیبک ماست وان نیاز و درد و سوزت پیک ماست
(تیرا وہ اللہ کہنا ہی تو ہے میرا جواب میرے ہی قاصد ہیں سب وہ تیرے سوز و اضطراب)
در حقیقت یہی کہ تم اللہ کو آواز دیتے ہو، یہی کہ انسان اللہ تعالی سے انس رکھتا ہے، خدا سے باتیں کرتاہے ایک طرح کا لطف الہی اور توفیق پروردگار ہے جو اللہ تعالی جانب سے انسان کو عطا ہوئی ہے۔ یا اللہ کی صدا جو منہ سے نکلتی ہے وہ اجابت پروردگار کی ضمانت ہے۔ یہ معنوی لذت آپ لوگوں خصوصا نوجوانوں نے حاصل کی ہوگی۔ یہ معنوی لذت آپ نے ہر طرح کی آلودگیوں سے پاک اپنے نورانی قلوب کے ساتھ محسوس کی ہے۔ اس لذت اور ذائقے کو ہاتھ سے جانے نہ دیجئے گا۔ اس سے محرومی نہ ہونے پائے۔ پنج وقتہ نمازیں، قرآن کی تلاوت، مسجد میں آمد و رف، دعائیں، مناجاتیں اور صحیفہ سجادیہ سے استفادہ جاری رہنا چاہئے تاکہ نورانیت و طہارت کا یہ سلسلہ جاری رہے۔ یہ عید فطر کی ممتاز خصوصیت ہے جو ماہ رمضان المبارک کے نتیجے کے طور پر ہمیں ملتی ہے۔
دوسری خصوصیت آپ کی اسی نماز سے عیاں ہے۔ عید الفطر کا دن قوم کے حقیقی اتحاد اور قلبی یکجہتی کی نمائش کا دن ہے۔ قوم کا اتحاد اور اجتماعی شکل میں حبل اللہ سے تمسک اور وابستگی وہ چیز ہے جس کی بڑی قیمت ہے۔ اس کو رمضان المبارک کے ایک درس کی حیثیت سے ہم کو خود اپنے لئے محفوظ رکھنا چاہئے۔ یہ بھی در حقیقت ماہ رمضان المبارک کے معنوی ثمرات ہیں۔ خصوصا اس لئے بھی کہ بانی انقلاب اسلامی امام خمینی کی برکت سے ہم مسلمانوں اور ہم ایرانیوں کے لئے ماہ رمضان المبارک کے ساتھ ہی یوم قدس کی آمد ہوتی ہے۔
یوم قدس جو عالم اسلام کے حقیقی اتحاد و یکجہتی کی جلوہ گاہ ہے۔ اس سال یوم قدس کو ملت ایران کے عظیم مظاہروں نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو اپنی جانب حتمی طور پر متوجہ کیا ہوگا۔ ملت ایران نے ایک آواز ہوکر ملت فلسطین کی حمایت میں نعرے بلند کئے۔ میں یوم قدس کو عظیم بیداری کا مظاہرہ کرنے والی ایرانی قوم کا فردا فردا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
محترم و معزز نماز گزار بھائيو اور بہنو! ایرانی قوم کے فرزندو! ماہ رمضان المبارک کی برکتوں کو خود اپنے سلسلے میں، اپنے متعلقین کےسلسلے میں، اسلامی معاشرے کے سلسلے میں، جہاں تک ممکن ہو باقی و جاری رکھئے اور اس الہی ذخیرے کی جو خدا کی بہت بڑی نعمت ہے حفاظت کیجئے۔
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
والعصر. انّ الانسان لفى خسر. الّا الّذين امنوا و عملوا الصّالحات و تواصوا بالحقّ و تواصوا بالصّبر.
خطبهى دوم
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على اله الأطيبين الأطهرين سيّما علىّ اميرالمؤمنين و الصّدّيقة الطّاهرة سيّدة نساء العالمين و الحسن و الحسين سبطى الرّحمة و امامى الهدى و علىّبنالحسين و محمّدبنعلىّ و جعفربنمحمّد و موسىبنجعفر و علىّبنموسى و محمّدبنعلىّ و علىّبنمحمّد و الحسنبنعلىّ و الخلف القائم المهدىّ صلوات اللَّه و سلامه عليهم اجمعين و صلّ على أئمّة المسلمين و حماة المستضعفين و هداة المؤمنين. اوصيكم عباد اللَّه بتقوى اللَّه.
میں آپ سے خدا وند عالم کو پیش نظر رکھنے کی سفارش کرتا ہوں۔ جو کچھ بھی کہیں، سنیں اور انجام دیں، تمام حالات میں تقوائےالہی یعنی اللہ کو سامنے رکھیں، خداوند عالم سے اس کے لئے توفیق کی دعا کریں۔
اس سال کے یوم قدس کے سلسلے میں ایک بات یہ کہنی ہے کہ یہ عظیم اقدام عالم اسلام میں روز بروز جگہ بناتا جا رہا ہے اور اس میں اور زیادہ وسعت آتی جا رہی ہے۔ اس سال دنیائے اسلام کے گوشے گوشے میں مظاہرے ہوئے۔ عالم اسلام کے مشرقی حصے یعنی انڈونیشیا سے لیکر عالم اسلام کے مغرب یعنی افریقی ملک نائیجیریا تک مسلمان ملکوں میں ہر جگہ ایک ایک فرد کو یوم قدس میں اپنی خواہش اور ارادے کو ظاہر کرنے کا پورا موقع ملا۔ لوگوں کا جم غفیر آیا اور یہ ثابت ہو گیا کہ قدس کے مسئلے میں عوام کے احساسات کیا ہیں۔ حتی وہ مسلمان جو یورپ میں رہ رہے ہیں، وہ اقلیتیں جو یورپی اداروں اور حکومتوں کے سخت دباؤ میں زندگی گزار رہی ہیں، انہوں نے بھی یوم قدس کے مظاہروں میں شرکت کی۔ یہ اس بات کی نشانی ہے کہ فلسطین کا مسئلہ فلسطین کے غاصبوں اور ان کے حامیوں کی خواہش کے برخلاف دنیائے اسلام میں روز بروز اور زیادہ زندہ اور تازہ ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے چاہا تھا کہ فلسطین کا نام مسلمان قوموں کے ذہنوں سے سے مٹا دیں۔ انہوں نے یہی فیصلہ کیا تھا اور ان کا مقصد یہی تھا کہ فلسطین کے نام سے کسی ملت اور ملک کا نقشہ عالم اسلام کے جغرافیا میں کہیں نظر نہ آئے۔ انہوں نے اپنی تمام تر کوششیں اس پورے ساٹھ سال کے دوران ، جو اس عظیم المئے کے وجود میں آنے کے بعد گزرے ہیں، اسی کام پر مرکوز رکھی ہیں۔ لیکن نتیجہ اس کے بالکل بر عکس نکلا ہے۔ آج عالم اسلام فلسطین کے مسئلے میں پہلے سے بہت زیادہ حساس اور بہت زیادہ پرجوش ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اسلامی دنیا میں بیداری آ گئی ہے۔ اگر یہ بیداری انیس سو اڑتالیس عیسوی میں، جب فلسطین پر با قاعدہ طور پر غاصبانہ قبضہ ہوا ہےاور اس کو صیہونیوں کے حوالے کیا گیا ہے، پیدا ہو گئی ہوتی تو یقینا حالات کا رخ کچھ اور ہوتا اور عالم اسلام کا یہ تلخ و ناگوار حادثہ اور امت اسلامیہ کے پیکر پر یہ کاری زخم نہ ہوتا۔ آج مسلمان بیدار ہیں اور متوجہ ہیں۔ توفیق پروردگار شامل حال رہی تو روز بروز اور زیادہ بیداری آتی جائے گی۔ میں یہ عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ عالمی سطح پر اس حمایت و پشتپناہی میں توسیع کا سبب خود ملت فلسطین کی شجاعانہ استقامت اور پائيداری ہے۔ ہم ملت فلسطین کو سلام کرتے ہیں۔ حق و انصاف کی بات تو یہ ہے کہ اس قوم نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ مسلمان اور زندہ قوم کہلانے کے قابل ہے۔ میں اسی جگہ سے تمام مسلمان ہستیوں کے سامنے فلسطینی عوام کو، فلسطین کی قانونی حکومت کو اور اپنے برادر مجاہد جناب ہنیہ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ سب اچھی طرح سمجھ لیں کہ ملت ایران نے آپ کو نہ تنہا چھوڑا ہے اور نہ کبھی تنہا چھوڑے گی۔
دوسری جانب صیہونی دشمن کے حوصلے پست ہو گئے ہیں اور اس کا ڈھانچہ کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ آج صیہونیوں کے بڑے بھی اعتراف کر رہے ہیں کہ وہ کمزوری اور شکست و ریخت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ عالم اسلام وہ دن ضرور دیکھے گا اور ہمیں توقع ہے کہ فلسطینی قوم کی یہی موجودہ نسل اس دن کا آنکھوں سے نظارہ کرے گی کہ فلسطین، فلسطینی عوام اور فلسطینی قوم کے ہاتھوں میں ہوگا جو اس کی اصلی مالک ہے اور فلیسطینی اپنی سرزمین پر اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کریں گے۔
ایک اور بات یہ عرض کرنا ہے کہ آج عالم اسلام، دشمنان اسلام کی جانب سے ہمہ جہت سیاسی، ثقافتی اور تشہیراتی یلغار کے نشانے پر ہے۔ اس بات کو پورا عالم اسلام، لوگوں کی ایک ایک فرد، خصوصا ممتاز ہستیاں علی الخصوص روشن خیال دانشور اور علمائے دین ، سیاسی شخصیات ہرگز فراموش نہ کریں۔
آج ہر رخ سے اسلام اور مسلمانوں کے مقدسات پر یلغار جاری ہے اور یہ اس لئے نہیں ہے کہ دشمن قوی ہو گیا ہے بلکہ اس لئے ہے کہ دشمن عظیم اسلامی تحریکوں کے سامنے کمزوری کا احساس کر رہا ہے لہذا طرح طرح کی نفسیاتی جنگوں، طرح طرح کی یلغاروں اور مسلمان قوموں اور ملکوں کو ایک دوسرے سے ڈرانے اور ایک دوسرے کے خلاف پروپگنڈہ کرنے میں لگ گيا ہے۔ (اس سے مقابلے کی) راہ یہ ہے کہ عالم اسلام اپنا اتحاد قائم رکھے۔ میں ایک بار پھر ملت ایران کی جانب سے دنیا بھر میں پھیلے اپنے مسلمان بھائيوں کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ اپنے اتحاد کو محفوظ رکھئے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ مشترکہ دشمنوں کے ہاتھ کا کھلونا بن جائیں اور عرب و عجم کے نام پر یا شیعہ سنی کے نام پر آپ کو اختلافات سے دوچار کردیا جائے۔ وہ لوگ نہ شیعوں کے دوست ہیں اور نہ سنیوں کے۔ وہ تو اسلام کے دشمن ہیں اور اسلام کو کمزور کر دینے کے در پے ہیں۔ ان کے پاس ایک یہی راستہ ہےکہ مسلمانوں کو ایک دوسرے کی جان کا دشمن بنا دیں۔ ملکوں کو ایک دوسرے سے خوفزدہ کر دیں۔ یہاں جو اسلام کا پرچم لہرا رہا ہے اور اسلامی نظام قائم ہے اس سے مختلف بہانوں کے ذریعے دیگر ملکوں اور حکومتوں کو ہراساں کریں۔
ہم سب آپس میں بھائی ہیں۔ ملت ایران اسلام کی ترقی و سربلندی کی راہ پر گامزن ہے اور پروردگار کی توفیقات سے تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ یہ قوم اپنی پیشرفت کو تمام عالم اسلام کا حق سمجھتی ہے۔ اپنے شرف کو عالم اسلام کا شرف اور اپنی ترقیوں کو امت اسلامیہ کی ترقی شمار کرتی ہے۔
ایک بات میں اس ملک میں بسنے والے عزیز بھائیوں سے عرض کرنا چاہتا ہوں۔ یہ اتحاد و یکجہتی کی سفارش جس میں پورے عالم اسلام کو مخاطب قرار دیا جا رہا ہے ملک کے اندر بھی اس پر عمل آوری ضروری ہے۔ عظیم ملت ایران کو چاہئے کہ اس اتحاد و یکجہتی کی حفاظت کرے۔ آج تک آپ کو جو کچھ حاصل ہوا ہےاسی اتحاد و یکجہتی کا نتیجہ ہے۔ اتحاد و یکجہتی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سب لوگ ایک ہی انداز اور ایک ہی مزاج کے بن جائیں۔ اتحاد و اتفاق یہ ہے کہ مختلف ذوق اور طرز فکر کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھیں، ہاتھ میں ہاتھ دیکر کام کریں، قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دیں۔ خود غرضی کو اپنی زندگی اور سیاست میں داخل نہ ہونے دیں۔ ویسے اس سلسلے میں ماہ رمضان المبارک بہت معاون ثابت ہوگا جو خود غرضی اور نفس پرستی کو کچلنے کا درس دیتا ہے۔ یہ ایام وہ ایام ہیں جن میں ملت ایران بڑے عظیم اقدامات انجام دے رہی ہے، ایسے بڑے کارنامے کر رہی ہے کہ دنیا کے انصاف پسند افراد عش عش کر رہے ہیں۔
بحمد اللہ اسلامی انقلاب کے چوتھے عشرے کے دہانے پر ملت ایران پورے سرور و نشاط اور تیاری و آمادگی نیز جوش و جذبے سے سرشار اور پوری طرح بیدار نوجوان انقلابی نسل کے ساتھ میدان میں کھڑی ہے۔ ہر ایک کچھ کر دکھانے کے لئے آمادہ ہے اور آپ آج اس کا نتیجہ دیکھ رہے ہیں۔ سائنس کے میدان میں ٹکنالوجی کے میدان میں، طرح طرح کی سماجی سرگرمیوں کے میدان میں اور سیاست کے نشاط انگیز میدان میں (ہر جگہ ہمارے نوجوان موجود ہیں) ان سب کو غنیمت جانئے تاکہ ملت ایران کی ان کامیابیوں کی حفاظت ہو سکے۔ ایک ایک شحص کے لئے خصوصا سیاسی اور سماجی شخصیات اور ممتاز ہستیوں کے لئے لازم ہے کہ یاد رکھیں کہ اتحاد و یکجہتی کی حفاظت، ان تمام چیزوں سے جو ایک انسان کی نگاہ میں کسی گروہ اور جماعت کے دائرے میں اہم ہو سکتی ہیں، زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ اس اتحاد کو باقی رکھنا چاہئے۔ خد وند عالم فرماتا ہےکہ
تلك الدّار الاخرة نجعلها للّذين لايريدون علوّا فى الارض و لا فسادا و العاقبة للمتّقين
یعنی نیکیوں کا بدلا (آخرت کا گھر) ان لوگوں سے تعلق رکھتا ہے جو پرہیزگار ہیں اور خود کو ان امور سے الگ رکھتے ہیں جن سے اللہ تعالی نے منع کیا ہے۔ خود غرضی سے کنارہ کش ہوکر خدا کی راہ میں خدا کی خوشنودی کے لئے قومی مفادات کی راہ میں کلمہ اسلام کی سربلندی و سرفرازی کے لئے کوشش کرتے ہیں۔
پروردگارا! ہم سب کو کامیابی عطا فرما۔ پروردگارا! امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی روح پاک اور شہدا کی ارواح طیبہ کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور کر۔ پروردگارا! ہماری قوم کو روز بروز اور زیادہ سربلندی و کامیابی عطا فرما۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتھ