تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے۔
خطبہ اول
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
و الحمد للَّه ربّ العالمين نحمده و نستعينه و نستغفره و نتوكّل عليه و نصلّى و نسلّم على حبيبه و نجيبه و خيرته فى خلقه حافظ سرّه و مبلّغ رسالاته سيّدنا و نبيّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على اله الأطيبين الأطهرين المنتجبين المعصومين سيّما بقيّةاللَّه فىالأرضين و صلّ على أئمّة المسلمين و هداة المؤمنين و حماة المستضعفين.
رمضان کا مہینہ، جمعہ کا دن، شب قدر کا موقع اور یہ روزے کا عالم، عزیز بھائیو اور بہنو! بڑی سازگار فضا ہے جس میں ہمیں چاہئے کہ نماز جمعہ سے قبل چند منٹ کی گفتگو میں اپنے قلوب کو رحمت و فضل الہی کے سرچشمے سے وابستہ اور اپنے دلوں میں تقواے الہی کے پودے کی آبیاری کریں۔
شب قدر، دعا و مناجات اور ذکر پروردگار میں ڈوب جانے کی شب ہے۔ پورا ماہ رمضان المبارک بالخصوص شبہای قدر، ذکر پروردگار اور خضوع و خشوع کی بہار ہے۔ اسی طرح یہ بہترین موقع ہے اپنے ذہن و دل کو امیر المومنین، سید المتقین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ملکوتی مقام و منزلت سے آشنا کرنے اور درس لینے کا۔ اس مبارک مہینے کی فضیلت اور اس مہینے میں بندگان صالح کے وظائف کے تعلق سے جو کچھ بھی بیان کیا جا سکتا ہے امیر المومنین علی علیہ السلام کی ذات میں وہ سب کچھ اپنی کامل ترین صورت میں جلو فگن ہے۔ میں خطبہ اول میں اپنی بات کا آغاز امیر المومنین علی علیہ الصلاۃ و السلام کے تذکرے سے کرنا چاہتا ہوں تاکہ کسی حد تک آپ کی معرفت کا اندازہ ہو سکے۔ یوں تو آپ کے فضائل کے سلسلے میں جو کچھ بیان کیا گیا ہےاور جو کچھ لوگوں نے سنا ہے وہ آپ کی حقیقی منزلت و مقام کے مقابلے میں بہت معمولی اور محدود ہے۔ ہم نہ آپ کی مجاہدانہ زندگی کی توصیف کر سکتے ہیں، نہ تقرب الہی کے لئے کی جانے والی آپ کی سعی پیہم کی تصویر کشی کر سکتے ہیں، نہ آپ کی سختیوں اور رنج و غم کا اندازہ لگا سکتے ہیں اور نہ ہی آپ کے عمل کی عظمتوں کا ادراک کر سکتے ہیں۔
حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی ذات سے سبق حاصل کرنے کے لئے آپ کے کثیر الجہت اقدامات کے ایک پہلو کے سلسلے میں چند باتیں عرض کروں گا، یہ پہلو اخلاقیات کا ہے۔ جب حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام اسلامی معاشرے میں بر سر اقتدار آئے تو حالات رحلت پیغمبر اسلام کے وقت کے حالات سے بہت مختلف ہو چکے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت اور حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کے دور حکومت کے درمیان پچیس سال کے عرصے میں بہت سارے واقعات رونما ہوئے جن کا اسلامی معاشرے کے افکار و اخلاق و برتاؤ پر بڑا گہرا اثر پڑا۔ تغیرات سے پوری طرح متاثر اس معاشرے کی باگڈور حضرت امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام کے ہاتھ میں آئی۔ آپ نے تقریبا پانچ سال حکومت کی اور ان پانچ برسوں کا ایک ایک دن اہم درس کا حامل ہے۔ آپ کے اہم ترین اقدامات میں معاشرے کی اخلاقی تربیت شامل ہے۔ معاشرے میں پیدا ہونے والے تمام انحرافات کی جڑ اخلاقیات میں پنہاں ہوتی ہے۔ انسان کا اخلاق، اس کا مزاج اور اس کی خصلتیں اس کے افعال کو رخ اور سمت عطا کرتی ہیں۔ اگر ہم کسی معاشرے یا دنیا میں کجروی دیکھ رہے ہیں تو اس کی وجہ ہمیں لوگوں کے نا پسندیدہ اخلاق و کردار میں تلاش کرنی چاہئے۔ اس حقیقت کو واضح کرنے کے لئے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے ایک اور حقیقت سے پردہ ہٹایا کہ تمام بری خصلتوں اور برے کردار کی جڑ دنیا پرستی اور دنیا طلبی ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ الدنیا راس کل خطیئۃ دنیا تمام خطاؤں کی جڑ ہے۔ ان خطاؤں کا ہماری انفرادی زندگی میں گہرا اثر ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دنیا طلبی کیا ہے؟ اور دنیا کیا ہے؟
دنیا سے مراد تو یہی عظیم الشان طبیعت اور کائنات ہے جسے خلق کرکے پروردگار عالم نے ہم انسانوں کے اختیار میں دے دیا ہے۔ دنیا یہ ہے۔ روی زمین پر اللہ تعالی نے یہ جو بے شمار اشیاء و مخلوقات پیدا کی ہیں یہ سب دنیا کے عناصر ہیں۔ ہماری عمر، ہماری محنت کے ثمرات، یہ سب دنیا کے اجزا ہیں، اولادیں دنیا ہیں، مال دنیا ہے، علم دنیا ہے، قدرتی ذخائر دنیا کے اجزا ہیں، یہ پانی، یہ زمین دوز ذخائر اور کون و مکاں میں نظر آنے والی تمام اشیاء اور وہ تمام چیزیں جن سے ہماری اس دنیا کی زندگی چل رہی ہے یہی دنیا ہے۔ اس میں تو کہیں کوئی برائی نہیں ہے۔ ہماری دینی تعلیمات میں بھی کہا گیا ہے کہ دنیا کو آباد کرو خلق لکم ما فی الارض جمیعا روی زمین کی تمام چیزیں تمہارے لئے خلق کی گئ ہیں۔ بڑھو دنیا کو آباد کرو، اپنے اور دیگر افراد کے لئے دنیا کی نعمتوں سے بہرہ مند ہونے کی راہ ہموار کرو۔ کچھ روایتوں میں ہے کہ الدنیا مزرعۃ الآخرۃ متجر عباد اللہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے، بندگان خدا کی جائے تجارت ہے۔ ان روایات میں دنیا کو مثبت نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی بعض روایات ہیں جن میں دنیا کو خطاؤں کی جڑ اور برائیوں کا سرچشمہ قرار دیا گيا ہے۔ ان دو قسموں کی تعلیمات سے بڑا واضح پیغام ملتا ہے۔ یوں تو یہ بڑی علمی اور تجزیاتی بحث ہے جس کے سلسلے میں کام ہونا چاہئے اور کام ہوا بھی ہے اور بڑی اچھی بحثیں کی گئی ہیں اس کا لب لباب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کے لئے کائنات کا دسترخوان بچھا دیا ہے اور انسانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اس قدرتی دسترخوان کو خوب سجائیں سنواریں بھرپور استفادے کے قابل بنائيں، پھر خود بھی اس سے بہرہ مند ہوں اور دیگر افراد کو بھی مستفیض ہونے کا موقع دیں لیکن اس پورے عمل کے لئے کچھ اصول و ضوابط بھی وضع کر دئے گئے ہیں۔ کچھ چیزوں کی ممانعت بھی ہے۔ قابل ستائش دنیوی زندگی وہ ہے جس میں انسان قدرتی دسترخوان کی نعمتوں سے ان اصولوں اور ضوابط کے مطابق بہرہ مند ہو جو اللہ تعالی کی جانب سے معین کئے گئے ہیں۔ ان اصولوں اور ضوابط کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ ممنوعہ حدود میں قدم نہ رکھا جائے۔ قابل مذمت دنیوی زندگی یہ ہے کہ انسان اللہ تعالی کے عطیات سے خوب جی بھر کے استفادہ کرے اور اپنے حق سے زیادہ نعمتوں کا مطالبہ کرے اور دوسروں کے حصے کی نعمتوں کی جانب دست درازی کرے۔ چیزوں کی چاہت اس پر اس انداز سے سوار ہو جائے کہ وہ حب الشیء یعمی و یصم یہ چاہت اسے اندھا اور بہرہ بنا دے۔ وہ اس حد تک آگے بڑھ جائے کہ اپنی مطلوبہ اشیاء کے حصول کے وقت نہ کسی ممانعت پر توجہ دے اور نہ حدود کو تسلیم کرے۔ یہ مذموم دنیوی زندگی ہے۔ دنیا کی چاہت میں ڈوب جانا اور اپنے حق سے زیادہ کا مطالبہ، مذموم ہے۔ یوں تو مال و منال دنیوی شیء ہے، عہدہ و مقام دنیوی شیء ہے، طاقت و قوت دنیوی شیء ہے، نعمتیں دنیوی چیزیں ہیں، لذتیں دنیوی چیزیں ہیں اور اسلام اور دیگر ادیان نے ان چیزوں کو مباح قرار دیا ہے۔ لیکن اگر کوئی شیء کسی دوسرے کا حق ہے تو اس کی سمت دست درازی کرنا، قدرتی قوانین و ضوابط کو توڑنا، دوسروں پر ظلم، دنیوی لذتوں میں گم ہوکر اپنے بنیادی ہدف و مقصد خلقت سے غافل ہو جانا ان ادیان کے نزدیک جائز نہیں ہے۔ یہ دنیا معنوی ترقی و بلندی و سرافرازی کا وسیلہ ہے۔ اس وسیلے کو ہدف نہیں بنانا چاہئے۔ اگر غفلت نے گھیرا تو دنیا مذموم ہو جائے گی۔
یہ برائی عالم اسلام میں مولائے متقیان کے حکومت کے دور میں بھی نظر آئی۔ اسی وجہ سے حضرت امیر المومنین علیہ السلام جیسی ملکوتی شخصیت کے سلسلے میں تنازعہ کھڑا کر دیا گيا تھا۔ لوگوں نے آپ کے علمی و روحانی مقام کو نظر انداز کر دیا۔ آپ کی بے مثال صلاحیتوں کی نا قدری کی۔ اسلامی معاشرے کا نظم و نسق چلانے کی آپ کی مہارت و لیاقت کو نظر انداز کر دیا۔ یہی نہیں بلکہ آپ کے خلاف محاذ کھول دیا گیا۔ اس کی وجہ دنیا پرستی تھی۔ آپ آج دنیا کو دیکھئے یہی سب کچھ آپ کو پھر نظر آئے گا۔ جب بھی دنیا کی باگڈور تسلط پسند، موقع پرست، جاہ طلب اور جارح طاقتوں کے ہاتھ میں ہوگی تو وہی سب کچھ ہوگا جو آج آپ کی نظروں کے سامنے ہے۔ اس بے کراں دسترخوان الہی پر ایک دوسرے کا حق نظر انداز کیا جائے گا۔ دنیا پرست عناصر اپنے اہداف کے حصول کے لئے فتنہ و فساد برپا کرنے کی کوشش کریں گے۔ جنگیں، جھوٹے پروپیگنڈے، بزدلانہ سیاست یہ سب کچھ دنیا طلبی کا نتیجہ ہے۔ معاشرے میں فتنہ غبار آلود فضا کی مانند ہے۔ جب معاشرے میں یہ پیدا ہو جاتا ہے تو لوگوں کی فکریں آلودہ ہو جاتی ہیں اور انسان دو قدم آگے کی چیزیں بھی دیکھنے اور سمجھنے میں دقت محسوس کرتا ہے۔ اس قسم کی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی حالت میں لوگ غلطیاں کر بیٹھتے ہیں۔ دور اندیشی کی صلاحت ختم ہو جاتی ہے۔ اس فضا اور ماحول میں تعصب پھیلتا ہے اور دنیا تسلط پسندوں کے ارد گرد گھومنے لگتی ہے۔ اس فضا میں بسا اوقات وہ افراد بھی جو دنیا پرست نہیں ہیں، دنیا پرستوں کے اہداف کے لئے کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ حالات اس طرح بدل جاتے ہیں۔ یہاں پر یہ بات صادق آتی ہے الدنیا راس کل خطیئۃ دنیا سے قلبی وابستگی تمام برائیوں اور گناہوں کی جڑ ہے۔ امیر المومنین علی علیہ السلام نے اس نکتے پر توجہ دی اور اسے اخلاقی تربیت کے اہم نکات میں قرار دیا۔
آپ نہج البلاغہ کو شروع سے آخر تک دیکھئے، آپ کو محسوس ہوگا کہ مولائے کائنات نے دنیا سے بے رغبتی، دنیا کے سلسلے میں عدم دلچسپی، اور زہد و تقوی کے سلسلے میں جتنی نصیحتیں اور ہدایتیں کی ہیں وہ نہج البلاغہ میں بیان کی گئی دیگر تمام باتوں اور مضامین سے زیادہ ہیں۔ اس کی وجہ بھی واضح ہے۔ امیر المومنین علی علیہ السلام دنیا سے کٹ کر گوشہ نشینی کی زندگی گزارنے والے انسان نہیں تھے۔ وہ دنیا سے الگ تھلگ نہیں تھے۔ وہ تو دنیا کی تعمیر و ترقی کی لئے بے تکان جد و جہد کرنے والے شخص تھے۔ ظاہری خلافت کا زمانہ ہو یا اس سے قبل کا دور، امیر المومنین ہمیشہ کاموں میں مصروف دکھائی دئے۔ آپ کے بارے میں مشہور ہے کہ جب آپ مدینہ منورہ میں تھے اور ابھی آپ کو خلافت نہیں ملی تھی تو آپ نے باغ لگائے اور باغوں اور نخلستانوں کی آبیاری میں مصروف رہتے تھے۔ دنیا اور ان قدرتی مناظر کے بارے میں غور کرنا جو اللہ تعالی کی صناعی کے مظہر ہیں اور لوگوں کی معیشت پر توجہ دینا، ان کے مالی امور کو چلانا، ان کی خوشحالی کے لئے وسائل فراہم کرنا، یہ سب پسندیدہ اور لازمی امور ہیں۔ یہی نہیں بلکہ یہ امور ایک مسلمان اور ایک اسلامی عہدہ دار کے فرائض میں شامل ہیں۔ آپ ان خصوصیات کی حامل شخصیت کے مالک تھے لیکن دنیا کی چاہت اور دنیا پرستی کا جہاں تک سوال ہے تو اس کا کہیں کوئی شائبہ بھی آپ کے اندر نظر نہیں آیا۔ یہ ہے آپ کی شخصیت اور آپ کی اخلاقی تربیت۔
امیر المومنین علی علیہ السلام نے خطبہ متقین میں دنیا پرستی کا علاج بھی بیان فرمایا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے عظم الخالق فی انفسھم فصغر ما دونھ فی اعینھم (یعنی متقین وہ ہیں جن کے دل میں خالق حقیقی کی عظمت سمائی ہوئی ہوتی ہے اور ما سوا اللہ کوئی چیز ان کی آنکھوں کو بھاتی ہی نہیں) دنیا پرستی اور دنیا طلبی سے نجات کا راستہ یہ ہے کہ انسان تقواے الہی اختیار کرے کیونکہ تقوی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ عظم الخالق فی انفسھم انسان کے دل و جان میں کچھ اس طرح اللہ تعالی کی محبت بھر جاتی ہے کہ ساری چیزیں اسے ہیچ نظر آنے لگتی ہیں۔ یہ دنیوی مقام، یہ مال و دولت، یہ رنگینیاں اور چمک دمک، یہ مادی زندگی کے جلوے اور یہ گوناگوں لذتیں انسان کی نظر میں بے معنی ہو جاتی ہیں۔ چونکہ اس کا دل عظمت پروردگار کے احساس سے محظوظ ہو چکا ہوتا ہے اس لئے ہر چیز اسے معمولی نظر آتی ہے۔ یہ تقوی کی خصوصیت ہے۔ امیر المومنین علی علیہ السلام کی ذات ان خصوصیات کا حقیقی مظہر تھی۔ معروف خطبہ نوف بکالی میں جس کے بارے میں میں بعد میں چند فقرے عرض کروں گا، مذکور ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام ایک پتھر پر کھڑے ہوئے تھے۔ بہت معمولی سا لباس آپ کے زیب تن تھا اور کھجور کے درخت کی چھال سے بنی جوتی آپ کے پیروں میں تھی۔ جبکہ اس وقت آپ عظیم امت مسلمہ کے حاکم تھے۔ آپ اس انداز سے زندگی بسر کرتے تھے اور آپ کی زبان سے علم و دانش کے دریا بہتے تھے۔
جنگ صفین کے دوران ایک شخص آپ کے پاس آکر سقیفہ سے متعلق امور کے بارے میں سوال کرتا ہے۔ آپ نے سخت لہجے میں اسے جواب دیا یا اخا بنی اسد انک لقلق الوضین ترسل فی غیر سدد تمہیں نہیں معلوم کب کیا بات کرنی چاہئے۔ تم کو موقع و محل کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔ اس اہم ترین سیاسی و فوجی واقعے کے بیچ میں تم گزشتہ باتوں کے بارے میں سوال کر رہے ہو کہ سقیفہ کا مسئلہ کیا تھا؟! لیکن آپ پھر بھی اختصار کےساتھ اس کا جواب دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ بہرحال تمہیں سوال کرنے کا حق حاصل ہے۔ تم نے کچھ پوچھا تو یہ تمہارا حق تھا اور مجھے اس کا جواب دینا ہے۔ فانّها كانت اثرة شحّت عليها نفوس قوم و سخت عنها نفوس آخرين یہ ایک جاہ طلبی تھی۔ کچھ نے اس پر آنکھیں بند کر لیں اور کچھ نے اسے جھپٹ لیا۔ دنیا پرستی اور جاہ طلبی امیر المومنین علی علیہ السلام کی نگاہ میں انتہائي مذموم ہے اور آپ ہمیں اپنی اسی نظر اور طرز فکر سے آشنا کروانا چاہتے ہیں۔ ہمیں امیر المومنین علیہ السلام سے یہ درس لینا چاہئے۔ ذکر خدا اور پروردگار سے مناجات امیر المومنین علیہ السلام کی نظر میں اس (دنیا طلبی اور جاہ پرستی) کا بہت موثر علاج ہے۔
ہمیں ان دنوں اور راتوں کی قدر کرنا چاہئے۔ ہمیں ان دعاؤں کی اہمیت کو سمجھنا چاہئے۔ ان دعاؤں کے مفاہیم پر غور کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ ہماری نفسانی بیماریوں کا علاج ہے جن سے انسان ہمیشہ دوچار رہتا ہے۔ جہاں تک ہو سکے خود کو اس بیماری اور اس درد سے نجات دلائیں۔ اللہ تعالی کی ذات پر ذہن و دل کا ارتکاز اور اس کی عظمتوں کا تذکرہ (ان بیماریوں کا) بہترین علاج ہے۔ آپ امیر المومنین علیہ السلام کی دعاؤں کو دیکھئے، سب سے زیادہ پر جوش دعائيں یہی ہیں۔ تمام ائمہ معصومین علیہم السلام سے ماثور دعائيں بہت اعلی مفاہیم کی حامل ہیں اور ان میں عشق حقیقی کا سوز و گداز موجود ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام سے منقول دعائیں، یہی دعائے کمیل یا مناجات شعبانیہ، دونوں ہی حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے منقول ہیں آپ کی یہ مناجاتیں اور یہ تضرع اور خضوع و خشوع، ان دعاؤں کو توجہ سے پڑھنے والے شخص کو بالکل مختلف دنیا میں پہنچا دیتا ہے۔ میں درخواست کروں گا کہ ہمارے نوجوان ان دعاؤں کے کلمات کے معنی کو سمجھنے کی کوشش کریں، ان پر غور کریں۔ دعا میں مذکور کلمات بھی فصیح و بلیغ اور بہت دلچسپ ہیں لیکن ان کےمعانی اور بھی بلند اور گہرے ہیں۔ ان راتوں میں اللہ تعالی سے مناجات کرنا چاہئے۔ اس سے دعا مانگنا جاہئے۔ اگر انسان ان دعاؤں کے معانی سے واقف ہو جائے تو وہ دیکھے گا کہ ہر حاجت اور ہر خواہش ان دعاؤں میں موجود ہے۔ شبہائے قدر میں دعائے ابو حمزہ ثمالی میں ماہ رمضان کی با برکت راتوں میں اور ماثور دعاؤں میں انسان کو اس کا ہر مدعا مل جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص ان دعاؤں کےمعانی سمجھنے سے قاصر ہے تو اپنے الفاظ میں دعا کرے، وہ خود اللہ سے ہم کلام ہو۔ ہمارے اور خدا کے درمیان کوئی حجاب حائل نہیں ہے۔ وہ ہمارے بالکل قریب ہے۔ ہماری باتوں کو سنتا ہے۔ ہم خود اللہ تعالی کی بارگاہ میں اپنی حاجت رکھنا چاہتے ہیں۔ اس سے اپنی مرادیں مانگنا چاہتے ہیں تو(ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ) اللہ تعالی کی ذات سے انس، اس کا ذکر اور اس کی بارگاہ میں توبہ و استغفار بہت معجز نما عمل ہے۔ انسان کے دل پر اس کے بڑے معجزاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور مردہ دل میں بھی زندگی کی حرارت پیدا ہو جاتی ہے۔
میں آپ کی شہادت کی مناسب سے یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ جس طرح آپ کی مناجاتوں میں سوز و گداز ہے اسی طرح آپ کے مرثئے بھی دل دہلا دینے والے ہیں۔ جہاں آپ نے اپنے رفقاء کے فقدان کی بات کی ہے، جہاں ان شہیدوں کو یاد کیا ہے جو پغمبر اسلام کے زمانے میں آپ کی ہمراہی میں جنگوں میں شریک ہوئے یا جو خود آپ کے دور حکومت میں رونما ہونے والی جنگوں جیسے جنگ صفین اورجنگ جمل میں مجاہدانہ انداز سے لڑے اور دلیری سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ انہیں یاد کرکے مولا فرماتے ہیں این عمار، این ابن التیھان، این ذو الشھادتین واین نظرائھم من اخوانھم الذین تعاقدوا علی المنیۃ کہاں ہیں وہ عظیم شخصیتیں جنہوں نے عہد و پیمان شجاعت باندھا، راہ خدا میں جہاد کیا اور اسی عالم میں اس دنیا سے اپنا رخت سفر باندھا۔ و ابرد برؤوسھم الی الفجرۃ وہ لوگ جو راہ خدا میں شہید ہوئے، جن کے سر قلم کرکے فاسق و فاجر حکام کے لئے بطور ہدیہ پیش کئے گئے۔ کہاں ہیں وہ جانباز؟ امیر المومنین علی علیہ السلام نے اپنے ان عزیزوں کے فراق میں آنسو بہائے۔ آپ نے سب سے زیادہ گریہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فراق میں کیا۔ آپ بار بار آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یاد کرکے روتے تھے۔ یہ غم انگیز باتیں اور جملے جو حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی زبان پر جاری رہتے تھے ماہ رمضان کی انیسویں شب گزرنے کے بعد صبح کے وقت ضربت لگ جانے کے بعد تھم گئے۔ مسجد کوفہ کے در و دیوار اور وہاں جمع ہونے والے مومنین نے آپ سے بارہا یہ مناجاتیں اور دعائیں سنیں اور ان دعاؤں پر آپ کو روتے دیکھا تھا۔ مسجد کے در و دیوار اور مومنین آپ کی پر خلوص عبادت، آپ کے عارفانہ بیان، اور کبھی کبھی اندوہناک شکوؤں کے گواہ تھے۔ لوگوں نے انیسویں شب کو اچانک آپ کی مانوس آواز سنی۔ آپ کی زبان پر فزت و رب الکعبۃ کا فقرہ بار بار آتا تھا۔ خائن ہاتھ نے رات کی تاریکی میں امیر المومنین کے فرق اقدس کو نشانہ بنایا تھا۔ کوئی اجالے میں علی کے سامنے کھڑے ہونے کی جرئت نہیں کر پاتا تھا، لڑنا اور مقابلہ کرنا تو دور کی بات ہے۔ کس میں اتنا دم تھا کہ امیر المومنین علیہ السلام پر سامنے سے حملہ کرتا۔ رات کی تاریکی میں، محراب عبادت میں جب آپ محو نماز تھے تب آپ پر حملہ ہوا اور لوگوں نے آپ کے زخمی ہونے کی یہ جانکاہ خبر سنی۔ لوگ دوڑتے بھاگتے مسجد میں پہنچے، تو وہاں عجیب عالم نظر آیا۔ آپ خون میں نہائے زمین پر پڑے ہوئے تھے۔ صلّى اللَّه عليك يا اميرالمؤمنين!
پروردگارا! تجھے حضرت امیر المومنین کا واسطہ ہمیں ان کے محبین اور پیروکاروں میں قرار دے۔ خدایا ! ہمیں تقوا و پرہیزگاری کی راہ میں جو امیر المومنین علیہ السلام کا سب سےبڑا درس ہے، ثابت قدم رکھ۔ پروردگارا! اخلاق حسنہ سے ہمیں آراستہ فرما۔ خدایا! ہمیں بری عادتوں سے نجات دے۔ خدایا! ہمیں راہ حق اور ان چیزوں کی دعا میں صبر و استقامت سے کام لینے کی توفیق عطا فرما جو تو اپنے صالح بندوں کے پاس دیکھنا چاہتا ہے۔ خدایا! ملت ایران کو اس کے تمام مقاصد میں کامیاب فرما۔ خدایا! ہمارے شہدا اور ہمارے امام (خمینی رہ) کو ہمارے ملک کی روش سے راضی و خوشنود فرما۔ ان پر اپنی رحمت کا سایہ رکھ۔ ہمارا سلام ہمارے امام زمانہ علیہ السلام کی بارگاہ میں پہنچا اور ان کی دعائیں ہمارے شامل حال کر۔
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
قل هو اللَّه احد. اللَّه الصّمد. لم يلد و لم يولد. و لم يكن له كفوا أحد.
خطبهى دوم
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
و الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على اله الأطيبين الأطهرين المنتجبين الهداة المهديّين المعصومين المكرّمين سيّما علىّ اميرالمؤمنين و الصّدّيقة الطّاهرة و الحسن و الحسين سيّدى شباب اهل الجنّة و علىّبنالحسين و محمّدبنعلىّ و جعفربنمحمّد و موسىبنجعفر و علىّبنموسى و محمّدبنعلىّ و علىّبنمحمّد و الحسنبنعلىّ و الخلف القائم المهدىّ حججك على عبادك و امنائك فى بلادك و صلّ على أئمّة المسلمين و حماة المستضعفين و هداة المؤمنين.
اس دوسرے خطبے میں سب سے پہلے تو میں ان نوجوانوں کو مبارکباد پیش کروں گا جو اس سال سن تکلیف کو پہنچے اور احکام الہی کے مخاطب قرار پائے۔ بالخصوص ان بچیوں کو جو کمسنی میں ہی شرعی فرائض کی ادائیگی کا آغاز کرتی ہیں اور جو اس سال کے گرم اور طولانی دنوں میں روزے رکھ رہی ہیں۔ یہ لوگوں کے لئے ایک بہترین آزمائش ہے۔ ہمارے نوجوان، نوجوانی کے عالم میں شرعی ریاضت کے مرحلے سے گزرتے ہیں۔ ایک مہینے تک بھوک اور پیاس، لذات دنیوی سے بے رغبتی اور حرام قرار دی جانے والی چیزوں سے دوری لوگوں بالخصوص نوجوانوں کے لئے بہت اہم ہے۔ یہ در حقیقت تقوی کی منزل پر فائز ہونے کی ابتدائی مشق ہے جسے لڑکے اور لڑکیاں سن بلوغ کو پہنچنے کے بعد شروع کر دیتے ہیں۔ میں ان نوجوانوں اور اس سال روزے کا آغاز کرنے والوں کو خصوصی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ بحمد اللہ ہمارے معاشرے میں معنوی اور روحانی فضا حکم فرما ہے اور ماہ رمضان میں یہ معنویت اور بڑھ جاتی ہے۔ لوگوں میں نیک خصلتیں بڑھنے لگتی ہیں۔ یہ جو غریبوں کی مدد کی جاتی ہے، یہ جو ہفتہ احسان منایا جاتا ہے یا یہ جو مختلف شہروں میں مساجد اور دیگر عوامی مقامات پر افطاری کا اہتمام کیا جاتا ہے اور لوگ روزہ افطار کرتے ہیں یہ بڑے مستحسن اعمال ہیں۔ ان اعمال سے اخوت و محبت اور صفا و پاکیزگی میں اضافہ ہوتا ہے اور در حقیقت اس طرح رمضان کا حق ادا کیا جاتا ہے۔ کیونکہ لوگوں پر رمضان کا ایک حق اپنے بھائيوں کے ساتھ نیکی اور ایک دوسرے کی مدد کرنا ہے۔ یہ قابل ستائش چیزیں ہیں۔ یہ چیزیں قدیم ایام سے چلی آ رہی ہیں اور آج بھی اس کا دستور ہے۔ وعظ و نصیحت کے پروگرام، دعائیہ جلسے، تلاوت کلام پاک کی محفلیں یہ سب بہت قابل قدر چیزیں ہیں۔ ان کی مزید ترویج کی جانی چاہئے اور انہیں مزید با معنی اور مفید بنایا جانا چاہئے۔ جلسے کا دستور العمل ہی کافی نہیں ہے بلکہ اسے حقیقی معنی میں مفید اور موثر بنانا چاہئے۔ ہم سب کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ ان محافل اور پروگراموں سے کما حقہ استفادہ کریں۔
چونکہ یوم قدس نزدیک ہے اس لئے اس مناسبت سے بھی چند جملے عرض کرتا چلوں کہ بحمد اللہ ملت ایران اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سے آج تک ایک راہ مستقیم پر گامزن ہے اور یہ صراط مستقیم در حقیقت اسلامی اصولوں اور اقدار کی پابندی کا راستہ ہے۔ ملت ایران رجعت پسند اور بنیاد پرست قوم نہیں ہے۔ یہ قوم زمانے اور حالات کے تقاضوں سے بخوبی واقف ہے۔ یہ قوم صاحب علم و دانش اور تحقیق و تجسس ہے۔ ہر زمانے کے اپنے خاص تقاضے ہوتے ہیں اور ہماری قوم نے ان تقاضوں کو پورا کیا ہے۔ مقدس دفاع کا زمانہ بڑا سخت اور دشوار زمانہ تھا لیکن قوم اتحاد کا نمونہ پیش کرتے ہوئے میدان عمل میں اتری۔ نوجوان آگے بڑھے، بوڑھوں نے قدم بڑھائے اور ماؤں نے بڑھ کے سہارا دیا۔ ہر ایک نے اپنے اپنے انداز میں اپنی خدمات پیش کیں اور معاشرے کے ہر طبقے نے اپنی توانائی کے مطابق ہر ممکن تعاون کیا۔ جب سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں تحقیق اور پیش رفت کا مرحلہ آیا، جب ملک کی تعمیر و ترقی کی منزل آئی اور جب ملک کے لئے کارہائے نمایاں انجام دینے کی بات آئی تب بھی عوام نے پوری تندہی سے کام کیا۔ جب جب دشمنوں کی سیاسی و تشہیراتی یلغار میں شدت آئی اور دشمن نے ملک کے اندر اختلاف اور تفرقے کو ہوا دینے کی کوشش کی تو ہماری قوم نے آگے بڑھ کر ان کوششوں کو ناکام بنایا۔ ان گزشتہ برسوں پر ایک نگاہ تو ڈالئے۔ جب اغیار کے اشاروں پر چلنے والے عناصر نے عوام کے درمیان تفرقہ پیدا کرنا چاہا تو عوام نے اتحاد کا فلک شگاف نعرہ بلند کیا اور مختلف شکلوں میں اپنی یکجہتی کو پايہ ثبوت تک پہنچایا۔ جب دشمن کی جاسوس تنظیموں نے اپنے سیٹیلائٹس کے ذریعے کچھ فتنہ پرور عناصر کو تہران اور بعض دیگر علاقوں میں خلفشار پیدا کر دینے کے لئے سڑکوں پر بھیجا تو سکیورٹی فورسز سے پہلے عوام نے میدان عمل میں آکر اس کا سد باب کیا۔ جب ایٹمی معاملے اور دیگر امور میں دشمن کی تشہیراتی مہم میں شدت آئی اور عوام کی جانب سے رد عمل کی ضرورت پیش آئی تو عوام نے مختلف مناسب مواقع پر اپنا رد عمل ظاہر کیا۔ عوام کی اکثریت کے اقدام کو قومی اقدام قرار دیا جاتا ہے۔ اگر ہم اس تناظر میں آغاز انقلاب سے اب تک کے ان تیس برسوں پر ایک سرسری نظر ڈالیں تو ہم دیکھیں گے کہ ملک کو جب بھی ضرورت پڑی ہے اور عوام نے اس ضرورت کو محسوس کیا ہے، بھرپور شوق و رغبت کے ساتھ آگے بڑھ کر اپنا تعاون پیش کیا ہے۔ تو حقیقت تو یہ ہے کہ ہمیشہ یہ صورت حال رہی ہے اور امید ہے کہ آئندہ بھی یہ سلسلہ بدستور جاری رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک ہماری حکومت اور حکام پر دشمن نے دباؤ ڈالنے کی جتنی بھی کوششیں کیں بے اثر رہیں۔ دشمن دھمکیاں تو دیتے ہیں، بڑی بڑی باتیں تو کرتے ہیں لیکن ان دھمکیوں سے اور اس پروپگنڈے سے وہ ایران کے خلاف اپنے مفادات حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ قوم اپنے راستے پر آگے بڑھتی رہی ہے۔ یہ راستہ ترقی و سربلندی کا راستہ ہے۔ ہمارا یہ دعوا نہیں ہے کہ ہم اس انقلاب کے مقررہ اہداف تک پہنچ چکے ہیں جن میں حقیقی اسلامی تعلیمات پر عمل آوری سر فہرست ہے۔ یہ ہمارا دعوی نہیں لیکن اتنا تو ہے کہ ہم اسی راستے پر گامزن ہیں اور آگے بڑھ رہے ہیں اور اللہ تعالی نے چاہا تو اسلامی انقلاب کا چوتھا عشرہ کہ جس کے دہانے پر ہم پہنچ چکے ہیں بیک وقت مساوات و ترقی کا عشرہ ثابت ہوگا۔ یعنی ملک کی سطح پر ترقی اور مساوات دونوں با قاعدہ محسوس کی جائیں گی۔ منصوبہ بندی اسی تناظر میں ہونی چاہئے اور اس طرح ہمارا ملک اور ہماری قوم اتنی مضبوط ہو جائے گی کہ اسے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔
البتہ دشمن تو پھر دشمن ہے۔ جن دشمنوں کو اسلام سے نقصان پہنچا ہے، جنہوں نے اسلام سے زخم کھائے ہیں، ان سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اسلامی نظام کے سلسلے میں خاموش بیٹھے رہیں۔ ان کی جانب سے مخاصمانہ اقدامات یقینی ہیں۔ اس کی تو توقع رکھنی چاہئے لیکن ساتھ ہی دشمن کے مقابلے کے لئے ، قومی مفادات کی حفاظت کے لئے اور عوامی مفادات کے تحفظ کے لئے پوری دانشمندی اور ہوشیاری کے ساتھ مناسب راستے کا انتخاب بھی ضروری ہے۔
میری نظر میں ماضی کی مانند اس وقت بھی ملک کے لئے سب سے ضروری چیز اتحاد ہے، بنیادی اصولوں کے سلسلے میں عوام کا اتحاد، اہم شخصیات کا اتحاد اور اعلی حکام کا اتحاد۔
ایک چیز جو ہمارے ملک کے لئے واقعی بہت اہم ہے یہ ہے کہ عوام میں نفسیاتی اور سیاسی تحفظ کا احساس پیدا ہو۔ معاشرے کی نفسیاتی فضا میں بے چینی نہ ہو۔ بے چینی پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ چیز ہے اور یہ اسلامی نظام کے مخالفین کی پالیسی کا حصہ ہے لیکن بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ نادانستہ طور پر ہم خود بھی اس بے چینی میں اضافہ کر دیتے ہیں۔ میں یہ کہنا چاہوں کہ اس وقت ہمارے عوام بحمد اللہ اس سلسلے میں بہت محتاط ہیں۔ حتی سیاسی حلقوں میں جو بسا اوقات چیمیگوئیاں ہوتی ہیں اسے بھی عوام پسندیدگی کی نظروں سے نہیں دیکھتے۔ ہمیں اس کا اندازہ اس سلسلے میں عوام کی شکایتوں سے ہوتا ہے۔ دو تین چیزیں ہیں جن کے ذریعے بے چینی پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جن کی طرف میں اشارہ کرنا چاہوں گا۔
ایک شخص آکر اسرائيل میں بسنے والے افراد کے بارے میں اظہار خیال کرتا ہے۔ ویسے یہ اظہار خیال ہے تو غلط، یہ کہنا کہ اسرائیل کے عوام ہمارے لئے دنیا کے دوسرے خطوں کے عوام کی مانند ہیں، درست نہیں ہے۔ یہ غیر معقول بات ہے۔ کیونکہ سوال یہ اٹھتا ہے کہ اسرائيلی عوام کون لوگ ہیں؟ یہ وہی لوگ ہیں جن کے ذریعے زمینیں، کھیتیاں، تجارت اور دیگر اسباب و وسائل غصب کئے جا رہے ہیں۔ یہی صیہونزم کے رنگروٹ ہیں۔ ملت اسلامیہ ان افراد کو جو عالم اسلام کے دشمنوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں، نظر انداز نہیں کر سکتی۔ یہودیوں سے ہمارا کوئی جھگڑا نہیں ہے، عیسائيوں سے ہمارا کوئی اختلاف نہیں ہے، دنیا کے دیگر مذاہب کے ماننے والوں سے ہمیں کوئی مشکل نہیں ہے۔ لیکن جہاں تک سوال ہے سر زمین فلسطین کے غاصبوں کا تو ان سے یقینا ہمارا جھگڑا ہے۔ غاصب صرف صیہونی حکومت نہیں ہے۔ یہ اسلامی نظام کا موقف ہے، یہ انقلاب کا موقف ہے اور یہ عوام کا موقف ہے۔ اگر کسی کے منہ سے کوئی غلط بات نکل جاتی ہے تو اس پر رد عمل سامنے آنا فطری ہے۔ لیکن اس مسئلے کو اب یہیں پر ختم کر دینا چاہئے۔ کوئی کچھ کہہ رہا ہے، دوسرا کچھ اور کہہ رہا ہے، تیسرا کسی انداز سے استدلال کر رہا ہے اور چوتھا کسی اور انداز سے جواب دے رہا ہے، یہ درست نہیں ہے۔ یہ تو مسئلے کو طول دینے والی بات ہے۔ ایک غلط بات کہہ دی گئی تھی لیکن اب یہ قصہ ختم ہو چکا ہے۔ یہ جو بات کہی گئی تھی وہ حکومت کا موقف نہیں ہے۔ یہ لوگ دنیا کے ان افراد سے مختلف ہیں جو کسی غصبی سر زمین پر آباد نہیں ہیں۔ یہودی بستیاں اس وقت انہی لوگوں سے بھری ہوئی ہیں جنہیں اسرائيلی عوام کہا جاتا ہے۔ غیر قانونی صیہونی حکومت نے انہی افراد کو فلسطینیوں کے خلاف مسلح کیا ہے تاکہ فلسطینی ان کی بستیوں کے نزدیک جانے کی ہمت نہ کریں۔ بہرحال یہ غلط بات تھی، نادرست بیان تھا لیکن اسے ماحول میں خلفشار پیدا کرنے کا بہانہ نہیں بنانا چاہئے۔ میں سب سے درخواست کروں گا کہ اس طرح کی باتوں کو جو کسی کے منہ سے نکل جائيں، اس طرح ہوا نہ دی جائے کہ پورے ملک میں بحثوں کا سلسلہ شروع ہو جائے، کچھ اس کی حمایت میں بولیں اور کچھ اس کی مخالفت کریں اور بات ہو بالکل بے بنیاد اور کھوکھلی۔ اسلامی نظام کا موقف ظاہر ہے اور یہ مسئلہ ختم ہو چکا ہے۔
ایک بات اور آج کل نظر آ رہی ہے اور میں ذمہ دار افراد سے درخواست کروں گا کہ اس پر توجہ دیں۔ یہ بات ہے موجودہ حکومت کی کارکردگی کے تعلق سے۔ ویسے یہ چیز انتخابات کے نزدیک آنے کے پیش نظرکہ جو بہت نزیک نہیں ہیں، ابھی تقریبا نو مہینے کا وقت ہے، فطری لگتی ہے۔ انتخابات کی خاصیت یہ ہے کہ ( اس کے نزدیک آنے پر) سرگرمیاں تیز ہو جاتی ہیں اور بحثیں شروع ہو جاتی ہیں، اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، باتیں ضرور ہوں لیکن آج کل ہونے والی باتوں کو سن کر یہ محسوس ہو رہا ہے کہ تھوڑی نا انصافی سے کام لیا جا رہا ہے۔ اگر کسی کے پاس ملک کے مستقبل کو سنوارنے اور مسائل کو حل کرنے کے لئے منصوبے اور تجاویز ہیں تو انہیں پیش کرے۔ اگر کسی کے ذہن میں موجودہ مشکلات مثلا گرانی کے سلسلے میں کوئی مناسب تجویز ہے تو اسے بیان کرے۔ یہ ہرگز مناسب نہیں ہے کہ حکام اور حکومت کی شبیہ خراب کرنے کی کوشش کی جائے۔ یوں تو دنیا کے بعض ممالک میں جمہوریت کے نام پر اور آزادی کے نام پر لوگوں کی عزت نیلام کی جاتی ہے، بعض افراد کو رسوا و بدنام کیا جاتا ہے لیکن اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ تو ان لوگوں کا شیوہ ہے۔ جس طرح دوسرے بہت سے کام انہیں سے مختص ہیں۔ جو باتیں اقتصادی یا دیگر شعبوں کے سلسلے میں ہو رہی ہیں، سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ان پر متعلقہ ماہرین سے رای لی جائے، عوامی حلقوں میں انہیں نہ اچھالا جائے۔ بعض اوقات ایسی باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ صاف محسوس ہوتا ہے کہ زیادتی کی جا رہی ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ بری عادت نہیں آنی چاہئے۔ ہمیں نا انصافی سے کام نہیں لینا چاہئے۔ بالخصوص برجستہ اور علمی شخصیات کو چاہئے کہ ہر بات انصاف کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کریں۔ کسی کی شبیہ بگاڑنا درست نہیں ہے۔ اگر کچھ لوگ کسی ایک شخص اور جماعت کے حامی ہیں اور دوسرے اس کے مخالف ہیں تو اس کی کیا ضرورت ہے کہ ایک دوسرے کو بدنام کرنے کی کوشش کی جائے؟ یہ تو درست نہیں ہے۔ جو بھی بات ہے منطقی انداز میں کہی جائے۔ جو بھی تنقید ہے مناسب انداز میں کی جائے۔ میں اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ہمارے اسلامی نظام کی وجہ سے ملک کی فضا ایک کھلی ہوئی اور آزادی کی فضا ہے۔ لوگوں کو اپنی بات کہنے اور اپنا خیال ظاہر کرنے کی پوری آزادی ہے۔ اہم شخصیات بھی اپنی بات کہہ سکتی ہیں۔ لوگ یہ ساری باتیں سن کر ان کا ایک دوسرے سے مقائسہ کرتے ہیں اور جو بات انہیں صحیح لگتی ہے اسے قبول کر لیتے ہیں۔
مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے کہ باتیں ہو رہی ہیں اور کسی پرتنقید کی جا رہی ہے۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ ایک شخص تنقید کرتا ہے تو دوسرا اس کا جواب دے سکتا ہے۔ میرے لئے تشویش کا باعث معاشرے میں زیادتی اور نا انصافی کے رواج کا مسئلہ ہے۔ بہت سی خدمات انجام دی گئی ہوں لیکن انسان کسی ایک نقص کو پکڑ کر بیٹھ جائے تو یہ کہاں سے درست ہے؟ میں یہ بات تمام افراد سے کہہ رہا ہوں۔ سب اس کی کوشش کریں کہ ایک دوسرے کو بدنام نہ کریں۔ کیونکہ یہ طرز عمل اچھا نہیں ہے، عوام کو بھی یہ چیز پسند نہیں ہے۔
ہمارے خطے کی سطح پر آج بھی سب سے بڑا مسئلہ، وہی قدیمی مسئلہ فلسطین ہے۔ یہ بہت بنیادی اور اہم مسئلہ ہے۔ غاصب صیہونی حکومت نے فلسطینیوں کے خلاف اقدامات میں مزید شدت پیدا کر دی ہے اور یہ طرز عمل ان کی اندرونی کمزوری و ضعف اور شکست و ریخت کا غماز ہے۔ وہ اپنا وہ طلسم برقرار نہ رکھ سکے جو انہوں نے جھوٹ بول بول کر قائم کیا تھا۔ انہوں نے عرب قوموں کے دلوں میں جو اپنا خوف بٹھا دیا تھا فلسطین کے جانثار مجاہدین کے جہاد سے ختم ہو چکا ہے۔ فلسطینی عوام کے لئے دشوار ترین حالات پیدا کئے جا رہے ہیں، غزہ میں موجود حکومت جو ایک قانونی حکومت ہے، حماس کی اسی قانونی حکومت کو جو انتخابات میں عوام کے ووٹوں کے سہارے وجود میں آئی ہے، دنیا والوں کی حمایت حاصل ہونی چاہئے تھی لیکن تہذیب و تمدن کے بلند بانگ دعوے کرنے والے کہ حقیقت میں جن کے پاس سے نہ تو تہذیب و تمدن کا گزر ہوا ہے اور نہ ہی انسانیت کا غزہ کے عوام کے ساتھ غاصب صیہونیوں کے اس برتاؤ اور فلسطینی عوام کے شدید محاصرے کے تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ویسے غزہ تو اس کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہے، غرب اردن میں بھی حالات اس سے مختلف نہیں ہیں۔ فلسطینیوں پر ہر جگہ عرصہ حیات تنگ ہے لیکن اس سلسلے میں ان (تہذیب و تمدن کے دعویداروں) پر سکوت طاری ہے، کوئي چوں نہیں کر رہا ہے بلکہ الٹے صیہونیوں کی حمایت بھی کی جا رہی ہے۔
عالم اسلام کو چاہئے کہ اس تلخ حقیقت کے سلسلے میں اپنی بات منظر عام پر لائے اور اپنا کردار طے کرے۔ اس کے لئے یوم قدس بہت مناسب موقع ہے۔
اللہ تعالی کی رحمتیں نازل ہوں ہمارے بزرگوار امام (خمینی رہ) پر جنہوں نے اس (یوم قدس) کو ملت فلسطین کی حمایت اور دفاع کا دن قرار دیا۔ امید کرتا ہوں کہ ہمارے ملک کے عوام اور عالم اسلام کا بڑا حصہ اس موقع سے بھرپور استفادہ کرے گا اور فلسطینی بھائیوں کے تعلق سے اپنے فریضے کو ادا کرے گا۔ انشاء اللہ مسلم حکومتیں بھی فلسطینی عوام اور فلسطین کی حماس حکومت کی حمایت کے اپنے اہم ترین فریضے کو ادا کریں گی۔
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
و العصر. إنّ الإنسان لفى خسر. إلّا الّذين امنوا و عملوا الصّالحات و تواصوا بالحقّ و تواصوا بالصّبر.
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته