آپ نے مغربی ممالک کی علمی ترقی سے استفادے کا مشورہ دیا لیکن مغربی رہن سہن اور ثقافت سے دور رہنے کی ہدایت فرمائی۔ تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں آپ تمام نوجوان دوستوں کا بہت شکر گزار ہوں کہ حسینیہ امام خمینی (رہ) میں آپ نے اپنی آمد سے نوجوانی کے جوش و جذبے سے آراستہ ایک فکری فضا قائم کر دی۔ مجھے توقع ہے کہ آپ کے یہ جذبے دین کی طلب و جستجو اور تقوا و پرہیزگاری کے احساس سے جس قدر آمیختہ ہوں گے، معاشرے میں پیش آنے والے مسائل کو اتنی ہی آسانی سے حل کیا جا سکے گا۔ امید ہے کہ یونیورسٹی اور اسکولوں سے تعلق رکھنے والے آپ طلبا میں یہ جذبات روز بروز پروان جڑھیں گے۔
اس اجتماع میں جن دوستوں نے تقریریں فرمائیں انہوں نے بڑے اچھے نکات کی جانب اشارہ کیا۔ یہاں جو کوئی بھی جو کچھ بھی کہتا ہے میں پوری توجہ سے اسے سنتا ہوں، خواہ وہ اسکول اور کالج کے طلبہ ہوں یا عام لوگ یا پھر کسی اور طبقے اور جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد۔ جو لوگ یہاں اس گفتگو میں شریک ہوتے ہیں یا پھر کسی اور جگہ لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے تو میری دلی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی باتیں بغور سنوں۔
آپ لوگوں کی آج کے باتیں بہت مفید اور با معنی لگیں۔ ان باتوں سے اسکول اور کالج کے طلبا کی ذہنیت اور ان کے طر‌ز فکر کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ لوگ ملک کے تمام طلبا کی نمایندگی کر رہے ہیں لیکن بہرحال یہ تو اندازہ کیا ہی جا سکتا ہے کہ مسائل و مشکلات کا ادراک اور ان کے حل کی کوشش ہماری یونیورسٹیوں اور کالجوں میں موجود ہے اور یہ میرے لئے بڑی خوش آئند بات ہے۔
آپ نے بعض نکات کی جانب اشارہ فرمایا جبکہ کچھ باتیں میں بیان کرنا چاہوں گا۔ البتہ پہلے ان باتوں کا سرسری تذکرہ جو آپ نے بیان فرمائی ہیں، میرے خیال میں نا مناسب نہ ہوگا۔
ہمارے ایک دوست نے کہا کہ نئی نسل کا ظہور ہو رہا ہے۔ یہ بات بالکل صحیح ہے۔ البتہ یہ وہ پہلی نسل نہیں ہے جس نے خود کو انقلاب کی خدمت کے لئے پیش کیا ہے۔ آپ سے قبل کی ایک نسل نے انقلاب کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ اس نسل نے بھی اپنے زور بازو اور فکری صلاحیتوں کو انقلاب کے لئے وقف کر دیا۔ وہ بھی انقلاب کی خدمت گزار نسل تھی۔ اس نوجوان نسل نے جو انقلاب کے وقت پندرہ سال، سولہ اور اٹھارہ سال کے افراد پر مشتمل تھی انقلاب کے میدان میں آزمائش سے سرخرو ہوکر نکلی ہے۔ اس کے بعد مقدس دفاع کے دوران بھی نوجوان نسل نے ایک نا قابل یقین فضا قائم کر دی۔ وہ نسل بھی انقلاب ہی کی پیداوار تھی اور آپ کے بقول جو نوجوان نسل اس وقت ابھر کر سامنے آ رہی ہے اس کی صلاحیتوں کو بھی میں تسلیم کرتا ہوں اس کی تصدیق کرتا ہوں اور اس کو باقاعدہ محسوس کرتا ہوں۔
یہاں یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ اس نوجوان نسل کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اسے کیا کرنا چاہئے؟ کون اس نسل کو آگے بڑھائے اور کون اس کی رہنمائی کرے؟ یہ سوالات بہت اہم ہیں اور میری نگاہ میں یہ سوالات، جواب طلب تو ہیں لیکن ان میں کسی طرح کا کوئی ابہام نہیں ہے۔ ان کے جوابات بالکل واضح ہیں۔ انقلاب صرف ایک حکومت کی جگہ دوسری حکومت قائم کرنے کے لئے نہیں برپا ہوا ہے بلکہ ایک نظام تشکیل دینے اور ایک خاص طرز فکر کی بنیاد پر ایک معاشرے کو وجود بخشنے کے لئے لایا گيا۔ وہ طرز فکر در حقیقت اسلامی زاویہ نظر ہے۔ یہ ہمارا دعوا ہے اور ہم اس کو ثابت بھی کر رہے ہیں۔ بلکہ یہ دعوی ثابت ہو بھی چکا ہے۔ یہ یقین کے مرحلے میں پہنچ چکا ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ انسانوں کی کامیابی و کامرانی انبیا علیھم السلام کی تعلیمات پر چلنے میں ہے جس کی کامل ترین شکل اسلامی اصول ہیں۔ انسان اگر خود کو انبیاء کی تعلیمات سے پوری طرح الگ اور دور کر لے تو مادی میدانوں میں بھی وہ ترقی کی ان منزلوں تک نہیں پہنچ سکتا جہاں آج وہ کھڑا ہے اور جہاں تک معنوی اور روحانی بلندی و کمال کی بات ہے تو وہ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔
معاشرے میں انبیاء علیھم السلام کے افکار کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک طویل المدت منصوبے اور اقدام کی ضرورت ہے۔ یہ انقلاب اسی مقصد کے لئے آیا ہے کہ ایک اسلامی معاشرہ اور ایک اسلامی نظام قائم ہو، صرف اسلامی حکومت نہیں۔ ایسے عوام سامنے آئيں جو اسلامی تعلیمات پر، جو تمام انبیاء کی تعلیمات کا نچوڑ ہیں، کاربند ہوں۔ ہمارا ہدف یہ ہے۔ یہ ضرور ہے کہ ہم ابھی اس ہدف تک رسائی حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ ویسے تیس سال کے عرصے میں اس مقصد کے حصول کی توقع بھی نہیں رکھنی چاہئے کیونکہ ظاہر ہے کہ یہ طویل المدت ہدف ہے۔ اس کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے، محنت کی ضرورت ہے۔ یہ ذمہ داری آپ کو سونپی گئی ہے۔ موجودہ نسل کو یہی ہدف حاصل کرنا ہے اور ملک و قوم کو اس منزل تک پہنچانا ہے کہ وہ حقیقی اسلامی معاشرے کا مظہر بن جائے۔ آپ اسے اپنا نصب العین قرار دیجئے تاکہ یہ فکر فروغ پائے۔ البتہ اس کے لئے بہت زیادہ محنت و مشقت کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے عالم شباب کے جوش و جذبے کی ضرورت ہے۔ بے پناہ مجاہدانہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ تو ہمارا ہدف یہ ہے۔ ہم اسلامی ملک چاہتے ہیں۔ جب اسلامی ملک کی تشکیل عمل میں آ گئی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی دنیا آباد ہو جائے گی۔ البتہ اس کی ترقی کا انداز مادی نظاموں سے مختلف ہوگا۔
مادی اور دنیا پرستی پر مبنی نظاموں میں ترقی تو ہوتی ہے لیکن اس میں توازن اور مساوات کا فقدان ہوتا ہے۔ آپ امریکہ کی مثال لے لیجئے جو دولت و ثروت کے لحاظ سے دنیا بھر سے آگے ہے لیکن اس ملک میں جو غریب اور نادار افراد ہیں وہ اتنے بدحال ہیں کہ شائد ہی دنیا میں کہیں اور اس طرح غربت کے شکار افراد ہوں۔ یہ کبھی ٹھنڈ سے اکڑ کر مر جاتے ہیں اور کبھی گرمی میں جھلس جاتے ہیں اور کبھی بھوکوں مر جاتے ہیں۔ اس ملک کے متوسط طبقے کا یہ عالم ہے کہ اگر دن رات طاقت فرسائی نہ کرے تو اس کے لئے پیٹ پالنا مشکل ہو جائے۔ اسے انسان کی سعادت و کامرانی نہیں کہا جا سکتا۔ یہ انسانی معاشرے کی خوشبختی نہیں ہے۔ اگر آپ اس ملک کی مجموعی داخلی پیداوار پر نظر ڈالیں تو کسی بھی دوسرے ملک کی پیداوار سے دس گنا زیادہ نظر آئے گی لیکن اسے ترقی تو نہیں کہا جا سکتا۔ حتی مادی نظام میں بھی اسے مساوات اور انصاف کے مطابق نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اس میں ہمہ گیری نہیں ہے۔ یعنی اس ترقی سے سب کو فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے۔ ترقی کے معنوی فائدے کی بات تو خیر در کنار۔ نہ روحانی اور ذہنی سکون ہے، نہ خدا پیش نظر ہے، نہ تقوی و پرہیزگاری ہے، پاکدامنی و عفت و طہارت عنقا ہے، عفو و درگزر نام کی کوئی چیز نہیں ہے، بندگان خدا کی امداد اور ان کے ساتھ مہر و محبت کا سلوک نا پید ہے۔
یہ وہ ترقی نہیں ہے جو ایک اسلامی ملک اور اسلامی نظام کا ہدف ہے۔ وہ خوش بختی اور فلاح و بہبود جو ہم ایک اسلامی معاشرے کے لئے چاہتے ہیں وہ یہ ترقی نہیں ہے۔ ہم تو مادی اور معنوی دونوں میدانوں میں ترقی کے طالب ہیں۔ ہم ایسی ترقی چاہتے ہیں جو غربت کا خاتمہ کر دے اور جو عدل و مساوات پر استوار ہو جس میں تقوی و پرہیزگاری اور معنویت و روحانیت کے عناصر شامل ہوں۔ ہمارا نصب العین اور ہدف و منزل ایسی ترقی ہے۔
ایک صاحب نے فرمایا کہ بعض وجوہات کی بنا پر طلبہ کی تحریک کا مستقبل دھندلا ہے۔ میں اس خیال سے متفق نہیں۔ ہماری اسی برادر نے جس نے یہ بات کہی، طلبہ کی تحریک کی خصوصیات اور اہداف بھی بیان کئے تو پھر دھندلاہٹ کا سوال کہاں پیدا ہوتا ہے؟ آپ معینہ اہداف اور مقاصد کے لئے فرائض انجام دیجئے۔
ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بلند ہدف اور نہایت ہی عظیم مقصد تک رسائی کے لئے تمام فرائض صرف طلبہ سے مختص ہیں؟ اور وہ بھی ان طلبہ سے جو اپنے دوش پر ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہیں؟ جس کو آپ نے طلبہ تحریک کا نام دیا ہے۔ یعنی وہ طلبہ جو سرگرم و فعال ہیں، جو اپنی ذہنی، فکری اور روحانی و جسمانی توانائيوں کو بروی کار لاکر ترقی کی منزلیں طے کرنا چاہتے ہیں۔ کیا ساری ذمہ داریاں انہیں لوگوں تک محدود ہیں؟ جی نہیں، ایسا نہیں ہے۔ سب سے بڑی ذمہ داریاں تو حکام اور معاشرے کی ممتاز شخصیات کی دوش ہیں۔ علمی شخصیات، فکری شخصات، سیاسی شخصیات، سماجی شخصیات لیکن بہرحال طلبہ تحریک کی بھی ذمہ داریاں ہیں، اور سنگین ذمہ داریاں ہیں۔ تحریک سے وابستہ طلبہ پر غور و فکر کی ذمہ داری ہے۔
میری نظر میں وسیع سطح پر فکری اجتماعات کا انعقاد ضروری ہے۔ یہ اجتماعات کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ اور دینی مدارس کے طلبہ پر مشتمل ہوں تاکہ سب ایک ساتھ بیٹھ کر مسائل پر غور و فکر اور تبادلہ خیال کریں۔ ہم طلبہ سے سائنس و ٹکنالوجی اور دیگر شعبوں میں مناسب اور درست افکار کو پیش اور عام کرنے کی توقع رکھتے ہیں۔ یعنی فکری میدان میں کوئی نئی بات، نیا اقدام اور نیا فیصلہ سامنے آئے۔
اہم کاموں میں ایک کام اصول کا تعین ہے۔ ہمارے کچھ ایسے اصول ہیں جن سے ہرگز انحراف نہیں کیا جا سکتا۔ یعنی نظریہ پردازی کے نام پر ان اصولوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اصول عبارت ہیں صحیح راستے اور منزل کی نشاندہی کرنے والے سنگ میل اور علامتوں سے۔ اصولوں کی تشبیہ ایسی دو دیواروں سے دینا غلط ہے جن کے درمیان سے ہوکر گزرنا ضروری ہے۔ اصول (دیوار نہیں) وہ سنگ میل ہیں جو راستے پر نصب ہوتے ہیں اور منزل و راہ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یہ ایسی راہ کی نشاندہی کرتے ہیں جو ہدف و مقصد تک انسان کو پہنچا سکتی ہے۔ اس صراط مستقیم کو جاننا اور پہچاننا چاہئے۔ اس کی تلاش و جستجو ضروری ہے۔ کسی کو بھی دو دیواروں کے درمیان محدود راستے کا پابند اور اسیر نہیں بنایا گيا ہے۔ کسی کو بھی صراط مستقیم پر چلتے رہنے کے لئے مجبور نہیں کیا گيا ہے۔ یہ اصول کسی کو بھی مجبور نہیں بناتے، لازمی و ضروری چیز کی حیثیت حاص کرکے کسی کو بے بس و لاچار نہیں بناتے۔ یہ اصول تو انسان کی ہدایت و رہنمائی کرتے ہیں۔ اگر انسان ان اصولوں کے مطابق چلتا رہے تو اپنی منزل مقصود تک پہنچ جائے گا اور اگر ان اصولوں سے اس نے انحراف کیا تو منزل مقصود تک رسائی نا ممکن ہو جائے گی۔ گمراہی کی یہی مشکلیں ہیں۔
گمراہی سے دو مشکلیں پیش آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ منزل مقصود تک رسائی نا ممکن ہوجاتی ہے اور دوسرے یہ کہ انسان کا وقت تلف ہوتا ہے، انسان مواقع گنوا دیتا ہے۔
یہ لوگ جو پچھلے سو سال، ڈیڑھ سو سال سے ہمارے ملک میں اصلاح اور ترقی کے دعوے کرتے آئے ہیں سچ کہا جائے تو انہوں نے ہمیں ہماری منزل سے دور کر دیا ہے۔ وہ گناہ عظیم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ہم ان سو، ڈیڑھ سو سالوں کے دوران منزل تک نہیں پہنچ سکے، پیچھے رہ گئے اور ہمارا وقت برباد ہوا۔ کئی نسلیں پے در پے آئيں اور ختم ہو گئیں۔ سرگرداں و پریشان رہیں اور کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکیں۔ ایسے میں ضروری ہوتا ہے کہ کوئی ایسی نسل آئے جو اس غلط راستے سے واپس لوٹے اور از سر نو سفر کا آغاز کرے۔ چنانچہ جن لوگوں نے انسانی معاشروں کو صحیح راستے سے منحرف کر دیا ان کا گناہ یہ ہے کہ انہوں نے لوگوں کا وقت، ان کی عمریں اور مواقع ضائع کر دئے۔
ایک زمانے میں ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ ترقی کا راز مغرب والوں کی تقلید و پیروی ہے۔ وہ بھی علمی میدان میں نہیں بلکہ رہن سہن اور ثقافت کے اعتبار سے۔ ہماری عورتیں بے پردہ ہو جائیں۔ ہمارے مرد فلاں قسم کی ٹوپی اور فلاں قسم کا لباس پہنیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے ملک میں ایک دور وہ بھی گزرا ہے کہ ایک مخصوص قسم کی گول ٹوپی جسے پہلوی ٹوپی کہا جاتا تھا، پہننا لازمی قرار دے دیا گيا تھا۔ اگر کوئی اس طرح کی ٹوپی نہ پہنے ہوئے ہو تو وہ مجرم قرار پاتا تھا۔ بعد میں اعلان کیا گيا کہ یا پہلوی ٹوپی سر پرہو یا پھر (مغربی انداز کا) ہیٹ، کیونکہ اہل مغرب اور اہل یورپ اسی حلئے میں رہتے ہیں۔ رفتہ رفتہ ملک کے تمام علاقائی اور مقامی لباس ممنوع قرار دے دئے گئے تاکہ لوگ مغربی لباس پہننے پر مجبور ہوں۔ کیوں؟ تاکہ ہم ترقی یافتہ کہے جائیں۔ ملک کی ترقی کا معیار یہ قرار پایا تھا کہ لوگ کوٹ پینٹ اور ٹائی میں نظر آئيں، عورتیں بے پردہ پھریں، مغربی طور طریقے اپنا لیں۔ یہ چیز ایک ملک کے لئے کتنی مہلک ہے؟! کس قدر شرمناک ہے؟! سوچ کر شرم آتی ہے۔ جبکہ اس وقت شرم ‏آنا تو درکنار لوگ فخر کرتے تھے۔ یہ ترقی کا نسخہ نہیں، بے راہروی ہے، گمراہی ہے۔ اصول اسی لئے ضروری ہوتے ہیں کہ اس طرح کی غلطیاں نہ ہوں۔
دوستوں میں ایک عزیز نے ابھی بڑی صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے اعتراضات کئے۔ طلبہ کی خصوصیت بھی یہ ہے کہ وہ افراد اور اداروں پر تنقید کرتے ہیں۔ اب ممکن ہے کہ تنقید درست ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صحیح نہ ہو۔ میں اس بارے میں اپنی کوئی رای نہیں دینا چاہتا۔ لیکن بنیادی طور پر یہ بات کہ طلبہ بغیرہچکچاہٹ کے صاف صاف اور پوری صراحت کے ساتھ اپنا اعتراض بیان کر دیں، یہ بہت اچھی اور قابل تعریف چیز ہے۔ طالب علم کے لئے یہ بہت عیب کی بات ہے کہ وہ اپنا اعتراض مصلحت کوشی کے تحت خاص سیاسی انداز میں بیان کرے۔ طالب علم کو اپنی بات کھل کر کہہ دینی چاہئے۔ البتہ اس صاف گوئی کے ساتھ نیت میں خلوص بھی ضروری ہے اور ساتھ ہی اگر غلطی ہو گئی ہے تو اس کا اعتراف کرنے کی عادت بھی ہونی چاہئے۔ غلطی ثابت ہو جائے تو اسے مان لینا چاہئے۔ آپ جیسے پاکیزہ دل نوجوانوں اورگھاگھ سیاستدانوں میں یہی فرق ہے کہ آپ اپنی بات کھل کر بیان کر دیتے ہیں جو کچھ بھی کہتے ہیں پوری صداقت سے کہتے ہیں اور اگر محسوس ہوتا ہے کہ آپ کی بات غلط ہے تو فورا اپنی غلطی تسلیم کر لیتے ہیں۔ میری نظر میں طلبہ کی یہ بہترین صفات اور خصوصیات ہیں۔
آج جو تنقیدیں کی گئیں ان میں ایک کا تعلق ریڈیو اور ٹی وی کے ادارے سے ہے۔ اعتراض یہ ہے کہ اگر ریڈیو اور ٹی وی کے ادارے پر تنقید کی گئی تو اس کا مطلب ہوگا کہ آپ نے قائد انقلاب پر تنقید کر دی۔ کیونکہ ریڈیو اور ٹی یو کے ادارے کے سربراہ کی تعین قائد انقلاب اسلامی کے ہاتھوں ہوتا ہے۔ تو اگر یہ صورت حال ہے تو پھر کسی شعبے پر بھی اعتراض کی اجازت نہیں رہ جائے گی۔ کیونکہ عدلیہ کے سربراہ کا انتخاب بھی قائد انقلاب اسلامی کے ہاتھوں ہوتا ہے۔ صدر مملکت کو بھی عوام سے ووٹ مل جانے کے بعد قائد انقلاب اسلامی سے صدارتی حکم کی توثیق کی ضرورت ہوتی ہے جس میں قائد انقلاب اسلامی کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ میں منصوب کر رہا ہوں۔ اس طرح تو کسی بھی عہدہ دار پر اعتراض اور نکتہ چینی کی گنچائش نہیں رہ جائے گی۔ جی نہیں، ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ریڈیو اور ٹی وی کے ادارے کے انتظامی امور قائد انقلاب کے ہاتھ میں نہیں ہوتے اور خود قائد انقلاب کو بھی اس ادارے کی بعض باتوں سے اختلاف ہے۔ ادارے پر جو اعتراضات آپ کی جانب سے ہوئے ان میں سے بہت سے اعتراض میری جانب سے بھی ہیں اور ساتھ ہی ممکن ہے کہ میرے کچھ اور بھی اعتراضات ہوں کیونکہ میرے پاس مختلف جگہوں سے رپورٹیں آتی ہیں۔ میں شائد آپ کے جتنا ٹی وی اور ریڈیو نہیں دیکھتا اور سنتا لیکن میرے پاس متعلقہ اطلاعات آپ سے زیادہ ہیں۔ ریڈیو اور ٹی وی کے ادارے کی کارکردگی پر ہم بھی نکتہ چینی کرتے ہیں۔ مشکلات کی جانب توجہ دلاتے ہیں اور کبھی کبھی برہمی کا بھی اظہار کرتے ہیں۔ ادارے کے ذمہ داروں کے بھی بعض مسائل ہیں اور وہ جو جواب دیتے ہہیں ان میں سے بعض صحیح اور قابل قبول ہوتے ہیں اور بعض قابل قبول نہیں ہوتے۔ مختصر یہ کہ ادارے پر اعتراضات کئے جا سکتے ہیں اور ان اعتراضات کو قائد انقلاب اسلامی پر تنقید نہیں قرار دیا جا سکتا۔ آپ کو تنقید کا پورا حق ہے، اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
ایک صاحب نے دریافت کیا کہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے افکار و نظریات تک رسائی کی صورت کیا ہے۔ میری نگاہ میں یہ بالکل واضح ہے۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے افکار و نظریات کا مجموعہ شائع ہو چکا ہے۔ آپ کے سارے خطابات اور تقاریر محفوظ ہیں انہی سے آپ کے افکار معلوم کئے جا سکتے ہیں۔ ہاں ان متون سے افکار و نظریات اخذ کرنے کا طریقہ صحیح ہونا چاہئے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ تمام افکار کو پیش نظر رکھا جائے ان کا ایک دوسرے سے مقائسہ کیا جائے۔ ان میں کچھ باتیں ایسی ہیں جو وضاحت طلب ہیں اور ان کی وضاحت آپ ہی کی دیگر تقاریر میں ہے۔ کچھ باتیں مشروط ہیں اور ان کی شرطیں دوسرے مقامات پر مذکور ہیں۔ تو ان سب کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کے افکار معلوم کئے جانے چاہئیں۔ یہ کام آسان نہیں ہے لیکن ظاہر ہے جو اس وادی کا مسافر ہے وہ مشکل کاموں سے نہیں گھبراتا۔
اب میں یہاں پر کچھ ایسے نکات کی جانب بھی اشارہ کرنا چاہوں گا جو میں پہلے سے نوٹ کرکے لایا تھا۔ جیسا کہ ہمارے بعض احباب نے اشارہ بھی کیا کہ ہم اس وقت اسلامی جمہوری نظام کی عمر کے چوتھے عشرے میں قدم رکھنے جا رہے ہیں۔ یقینا ایک سماجی نظام کے لئے تیس سال کا سن اس نظام کا سن شباب ہوتا ہے۔ چنانچہ اگر اس نظام میں خاص طور پر موقع و محل کے مطابق صحیح اور بجا انداز میں داخلی تغیر و تبدل انجام پاتا رہے تو یہ نظام کبھی بوڑھا اور پرانا نہیں ہوگا۔ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی اس کے قوی مضمحل نہیں ہوں گے۔ تیس سال پینتیس سال اور چالیس سال کی عمر والا نظام جوان نظام کہا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ نظام کے جوان ہونے سے مراد کیا ہے؟ مراد یہ ہے کہ مختلف شعبوں میں ابھی اور پختگی لائے جانے کی گنجائش ہے۔ ابھی سعی و کوشش کی ضرورت ہے تاکہ استحکام پیدا ہو سکے۔ میں نے عرض کیا ہے کہ اس عشرے میں ایک مرحلے کو سر کرکے خاص مقام تک پہنچنے کے لئے جس بات کو نصب العین بنا کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے وہ ہے ترقی و مساوات۔ آپ ترقی اور مساوات کو بنیادی ہدف قرار دیجئے۔ ترقی کے سلسلے میں میں نے عرض کیا ہے کہ اس سے مراد ہمہ گیر ترقی ہے یعنی مادی و معنوی دونوں ہی میدانوں کی ترقی۔ ایسا نہیں ہے کہ مادی شعبے میں ترقی کی اہمیت کم ہے۔ روزگار کا مسئلہ ہو، سائنس و ٹکنالوجی کا مسئلہ ہو یا معشیت سے متعلق امور، ان کو ہرگز ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس شعبے میں بھی بھرپور محنت اور سعی و کوشش کی ضرورت ہے تاکہ فقر و غربت جیسے مسائل پیدا نہ ہوں، بیروزگاری نہ ہو، افراط زر نہ ہو اور مہنگائی نہ ہو۔ لیکن ایسا بھی نہ ہو کہ ساری تگ و دو انہی امور تک محدود ہوکر رہ جائے۔ ان امور کی انجام دہی کے ساتھ ہی فکر و نظر کی جدت، ایمان و عقیدے میں جلا اور اعلی انسانی و اخلاقی اقدار کی ترویج بھی ضروری ہے۔
گمراہی اور بے راہروی سے پرہیز لازمی ہے۔ بعض اوقات ترقی و خوشحالی کے لئے ایسی راہوں کی تجویز پیش کی جاتی ہے جو مناسب نہیں ہیں۔ اس کی ایک مثال میں نے پیش کی اور پہلوی دور کی ترقی کی جانب اشارہ کیا۔ جو در حقیقت ترقی نہیں پسماندگی اور زوال و انحطاط کا شاخصانہ تھی۔ اب یہاں اس نکتے پر زیادہ گفتگو نہیں کی جا سکتی کیونکہ دامن وقت میں گنجائش نہیں ہے۔ یہ غلط راستے کے انتخاب کی واضح مثال تھی۔ مغربی طور طریقے کو معیار قرار دیکر مغرب والوں کے نقش قدم پر چل پڑنے کا نتیجہ وہی ہے جو پہلوی دور کے ساٹھ برسوں میں شرمناک شکل میں نظر آیا۔
کج فکری اور کجروی کی ایک اور صورت یہ ہوتی ہے کہ اسلامی اور قومی تشخص کا انکار نہیں کیا جاتا لیکن علمی و سائنسی میدان میں ترقی کی بابت مایوسی پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مغرب کی سائنسی ترقیوں کا جب ذکر کیا جاتا ہے تو انداز اور الفاظ ایسے ہوتے ہیں کہ گویا مغرب ترقی کی ان بلندیوں پر ہے جہاں پہنچنا نا ممکن ہے اور اس چیز کو حقیقت پسندی کا نام دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جناب حقیقت کا اعتراف کرنا چاہئے۔ وہ لوگ علمی لحاظ سے اتنے آگے پہنچ گئے ہیں، مختلف شعبوں میں اتنی ترقی کر چکے ہیں کہ ہم اب ان کی گرد پا تک بھی نہیں پہنچ سکتے۔ کچھ افراد اس طرح کی سوچ رکھتے ہیں اور گزشتہ بیس برسوں میں ایسے بہت سے افراد سے خود میرا بھی سابقہ پڑ چکا ہے۔ یہ افراد کھل کر اور صاف لفظوں میں نہ سہی تو دبے لفظوں میں اور زبان حال سے اسی بات کی تکرار کرتے رہے ہیں کہ ہم کو یقینا ترقی کی فکر کرنی چاہئے لیکن ہم کو انہی کے نقش قدم پر چلنا ہوگا۔ ہم ان کی گرد بھی نہیں پا سکتے چہ جائيکہ ان سے آگے بڑھ جائیں۔ آپ کیوں بلا وجہ خود کو تھکا رہے ہیں۔ یہ بھی ایک طرح کی کج فکری ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک قوم، چنانچہ نمونے کے طور پر ہماری ملت کو لے لیجئے اور مشرق کی دوسری قوموں منجملہ مسلمان ملتوں کی سزا یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اہل مغرب کے پیچھے پیچھے چلیں اور ان کی دائمی شاگرد بنی رہیں۔ خود اپنی ذات سے یہ توقع اور امید نہ رکھیں کہ کبھی بھی وہ ان کی سطح پر پہنچ سکیں گی، ان سے آگے بڑھنا تو خیر نا قابل تصور ہے۔ اس طرح کی فکر ہرگز پنپنے نہ پائے۔ یہ کج فکری کی بہت ہی خطرناک شکل ہے اور بڑے افسوس کی بات ہے کہ آج یہ سوچ یونیورسٹیوں میں پھیلائی جا رہی ہے۔ یہ فکر تو انسانی دنیا کے اب تک کے تجربات کے بالکل منافی ہے۔ اس سوچ کے مطابق تو یہ تسلیم کر لینا چاہئے کہ اللہ تعالی نے ایک گروہ کو تو اس طرح خلق کیا ہے کہ وہ ہمیشہ آگے رہے اور دوسرے اس کے پیروکار بنے رہیں۔ کون سی تاریخی حقیقت ہے جو اس خیال کی تصدیق کرے۔ یہی لوگ جو آج بہت آگے نظر آ رہے ہیں کیاں کچھ سو سال قبل تمام شعبوں میں دنیا کی پسماندہ قوموں میں شامل نہیں تھے؟ یورپ کی قرون وسطی کی تاریخ کیا لوگوں نے فراموش کر دی ہے؟ میں بارہا عرض کر چکا ہے کہ قرون وسطی یورپ کا تاریک دور ہے۔ یہ یورپ کے لئے جہالت و ظلمت کا زمانہ رہا ہے تاہم مسلم ممالک اور ایران کے لئے اسے تاریک دور نہیں کہا جا سکتا۔ وہی زمانہ جسے یورپ والوں نے جہالت و بے خبری کا زمانہ، ظلمت و تاریکی اور غفلت کا دور قرار دیا ہے اسی زمانے میں ہمارا ملک اور اسلامی ممالک اس مقام پر فائز تھے کہ اس کو علم و فلسفے کی ترقی و عظمت، سیاسی ارتقاء و فروع کا دور کہا جاتا ہے۔
(احساس کمتری کا) وہ جذبہ و زاويہ نگاہ نہایت کی خطرناک ہے۔ جن سائنسی میدانوں میں آج آپ ترقی کر چکے ہیں انہی کے سلسلے میں بعض افراد پہلے کہتے تھے کہ جناب عالی اس میدان میں سعی و کوشش کا کوئی فائدہ نہیں ہے لیکن ایرانی نوجوان، مسلم نوجوان ہمت اور اولوالعزمی کے سہارے آج دوسروں کی سطح پر پہنچ چکے ہیں حتی کچھ شعبوں میں تو دوسروں سے آگے بھی بڑھ چکے ہیں۔ یعنی اگر آپ اس زمانے کو پیش نظر رکھیں کہ جس میں یہ کام انجام پائے ہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ ہم ان سے آگے بڑھ چکے ہیں۔ بنابریں اس طرح کا خیال وہی گمراہ کن خیال ہے۔ احساس کمتری اور نا امیدی کسی بھی صورت میں مناسب نہیں ہے۔ انسان کے سلسلے میں دین اسلام اور قرآن کی نگاہ یہ ہے کہ اسے سعی و کوشش کرنا چاہئے، بلا وقفہ منصوبہ بند اور منظم کوشش کرنا چاہئے تاکہ مطلوبہ نتیجے تک رسائی ہو سکے۔
دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ حضرات کو وہ توفیق عطا کرے کہ آپ سب اس میدان میں اسی طالب علمی کے زمانے میں جب آپ کا ملک ایک حساس دور سے گزر رہا ہے اپنے ملک کے لئے نہایت ہی اچھے تجربات انجام دیں اور ملک کی ترقی و بلندی کا وسیلہ بنیں۔
خدایا! ہمارے ان عزیز و با وقار نوجوانوں کو اپنے لطف و کرم اور تائید و مدد کے زیر سایہ اس ملک کے لئے دنیا وآخرت کا ذخیرہ قرار دے اور ان کو تمام میدانوں میں کامیابی عطا فرما۔ پروردگارا! ماہ مبارک کی مناسبت سے ان ایام میں ان نوجوانوں پر اپنے معنوی الطاف و فیوض و برکات نازل فرما۔ حضرت ولی عصر (عجل اللہ فرجہ الشریف) کے قلب مبارک کو ہم سب سے راضی و خوشنود کر دے۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ