قائد انقلاب اسلامی نے شیعہ سنی اتحاد کی ضرورت پر تاکید فرمائی اور دشمن طاقتوں کی سازشوں کی جانب سے ہوشیار رہنے کی ضرورت پر زور دیا۔ تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے۔
بسم‏اللَّه‏الرّحمن‏الرّحيم‏

سب سے پہلے میں تمام حاضرین، ملک کے مومن عوام اور عالم اسلام کو عید غدیر کی مبارکباد پیش کرتا ہوں جو شیعیان اہل بیت پیغمبر کی شناخت کا اہم عنصر ہے اور صدیوں سے ان لوگوں نے اس واقعے اور اس دن کے تذکرے اور یاد سے اپنی شناخت وابستہ کر رکھی ہے۔ آپ تمام خواتین و حضرات بالخصوص دور دراز کے علاقوں سے تشریف لانے والے مومنین اسی طرح شہدا کے اہل خانہ کو اس عید سعید کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
عید غدیر کا شمار ان مسائل میں ہوتا ہے جن کے بارے میں غور و فکر سے اس وقت مسلم امہ اور خاص طور پر ہمارے ملک کے عوام کو بڑی مدد مل سکتی ہے، راہ راست کو ہمیشہ نظروں کے سامنے رکھنے کے سلسلے میں۔ واقعہ غدیر کے سلسلے دو تین نکات کی جانب اشارہ کرنا چاہوں گا۔ سب سے پہلا نکتہ واقعہ غدیر کا وقوع پذیر ہونا ہے۔ پیغمبر اسلام کے دور میں جب عالم اسلام کی سرحدوں میں ایک حد تک وسعت آ چکی تھی ایک اہم ترین مرحلہ در پیش ہوا اور وہ تھا حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی جانشینی کے اعلان کا مرحلہ۔ غدیر کے واقعے کو صرف شیعہ راویوں نے نقل نہیں کیا ہے بلکہ اہل سنت محدثین اور بزرگ علما نے بھی اس واقعے کو نقل کیا ہے۔ البتہ اس واقعے سے جو معنی و مفہوم انہوں نے اخذ کئے ہیں وہ ذرا مختلف ہیں۔ لیکن جہاں تک اس واقعے کا سوال ہے تو یہ تمام مسلمانوں کے نزدیک مسلمہ واقعہ ہے۔ پیغمبر اسلام کے جانشین کے اعلان کا یہ واقعہ آنحضرت کی عمر مبارک کے آخری ایام یعنی آپ کی رحلت سے تقریبا ستر روز قبل رونما ہوا جو در حقیقت اسلام کے نقطہ نگاہ سے حکومت، سیاست اور مسلمان معاشرے کے امور کے نظم و نسق کی اہمیت کا آئینہ دار ہے۔ ہمارے امام(خمینی رہ) اور آپ کے پیشرو فقہا نے دین و سیاست کی یگانگت و اتحاد اور اسلام میں حکومت کے مسئلے کی اہمیت پر جو تاکید فرمائی اس کی وجہ اسلامی تعلیمات اور غدیر سے ملنے والا سب سے بڑا درس تھا۔ اس سے موضوع کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔ واقعہ غدیر سے جو افراد بھی یہ مفہوم(تشکیل حکومت) اخذ کرتے ہیں یعنی ہم شیعہ اور غیر شیعہ حضرات اس واقعے کے ما حصل کے سلسلے میں جو تصور رکھتے ہیں انہیں تاریخ اسلام کے تمام ادوار میں اس نکتے پر نظر رکھنا چاہئے کہ حکومت کی تشکیل اسلام میں ایک اہم مسئلہ ہے۔ حکومت اور حاکمیت کے مسئلے میں بے اعتنائی نہیں برتی جا سکتی۔ تجربات بتاتے ہیں کہ عوام کی ہدایت یا گمراہی میں حکومتوں کا کردار بہت اہم ہے۔ اسلامی جمہوری نظام میں خواہ وہ آئین ہو یا دیگر اصول ہوں مملکت اسلامی کے نظم و نسق کے مسئلے پر خصوصی توجہ دئے جانے کا سبب اسلام میں اس مسئلے پر کی جانے والی خاص تاکید ہے۔ یہ اہم نکتہ ہے جو کبھی نظر انداز نہیں ہونا چاہئے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ واقعہ غدیر میں پیغمبر اسلام نے حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو پیش کیا۔ اس دور میں اور بعد کے ایام میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی جو خصوصیات نمایاں رہیں ان پر ہماری توجہ مرکوز ہونا چاہئے اور وہ ہمارے لئے معیار قرار پانی چاہئے۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی سب سے پہلی خصوصیت رضائے پروردگار کا پابند رہنا اور صراط مستقیم پر آگے بڑھنا تھا۔ کیسے ہی دشوار حالات کیوں نہ ہوں، کتنی ہی مشقت کیوں نہ کرنی پڑے، کتنی ہی قربانیاں کیوں نہ دینا پڑیں آپ تامل نہیں کرتے۔ یہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی اہم خصوصیت تھی۔
حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام تو اس عظیم ہستی کا نام ہے جس نے ایام طفلی سے لیکر جام شہادت نوش کرنے تک کبھی بھی راہ خدا میں پسپائی اختیار نہیں کی اور ایک لمحے کے لئے بھی کسی ہچکچاہٹ اور پس و پیش سے دوچار نہیں ہوئے۔ آپ نے اپنا پورا وجود وقف راہ خدا کر دیا۔ جب ضرورت پڑی تبلیغ کے لئے آگے بڑھے، جب شجاعت کے جوہر دکھانے کا موقع آیا تو تلوار چلائی، خوف کا کوئی شائبہ بھی کبھی آپ کے رخ مبارک پر نظر نہیں آیا۔ جب صبر کا مقام آیا تو آپ نے صبر فرمایا۔ جب زمام حکومت ہاتھ میں لینا ضروری ہو گیا آپ نے میدان سیاست میں قدم رکھے۔ گوناگوں حالات میں جس قربانی کی بھی ضرورت ہوئی آپ نے پیش کی۔ پیغمبر اسلام نے ایسی ہستی کو اسلامی معاشرے کے لئے حاکم معین فرمایا۔ یہ ہے اہم درس۔ یہ امت مسلمہ کے لئے اہم سبق ہے۔ یہ محض ایک تاریخی واقعہ نہیں جو قصہ پارینہ بن چکا ہو۔ اس سے ہمیں آج بھی درس ملتا ہے کہ مسلم امہ اور اسلامی معاشروں کا نظم و نسق چلانے کے لئے معیار کیا ہیں۔ یکتا پرستی، جہاد فی سبیل اللہ، جان و مال کی قربانی، ہر سختی اور مشکل کا سامنا کرنا، دنیا سے روگرداں رہنا، ان خصوصیات کی بلندی کا نام علی ابن ابی طالب ہے جن کا وجود مبارک ہمارے لئے معیار ہے۔ یہ واقعہ غدیر کا ایک اہم درس ہے۔
آپ عالم اسلام اور اسلامی حکومتوں پر ایک نظر ڈالئے اور دنیا کے سیاسی نظاموں کا جائزہ لیجئے اور اندازہ کیجئے کہ اسلام نے انسانیت کے لئے جو نمونہ پیش کیا ہے اس میں اور جو حالات ہمارے سامنے ہیں ان میں کتنا فرق ہے؟! آج انسانی معاشرے کو جو شدید نقصان پہنچ رہا ہے اس کی وجہ یہی ہے۔ اسلام بنی آدم کے لئے حضرت امیر المومنین جیسی حکومت کو لازمی قرار دیتا ہے۔ البتہ اس میدان میں بھی امیرالمومنین علیہ السلام پیغمبر اسلام کے شاگرد ہیں۔ جب امیر المومنین علیہ السلام کے سامنے ان کے زہد و تقوے کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ میرا زہد و تقوا کہاں اور پیغمبر اسلام کا زہد و تقوا کہاں! جہاد، صبر اور دیگر تمام اوصاف و خصوصیات میں امیرالمومنین علیہ السلام پیغمبر اسلام کے شاگرد اور پیرو ہیں۔ ایسی ہی شخصیت سزاوار قرار دی جاتی ہے۔ ہمارے لئے یہ نمونہ عمل ہے۔ صرف ہمارے ملک کے لئے ہی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کے لئے۔ یہ ہمارا ہدف ہے اور یہ ہماری ضرورت ہے۔
ایسا عظیم اور دنیا و ما فیہا سے بے اعتنائی برتنے والا اور راہ حق میں جاں فشانی کے لئے ہر آن آمادہ رہنے والا انسان ہی انسانیت کی کشتی ساحل نجات تک پہنچا سکتا ہے۔ نفسانی خواہشات سے مغلوب نہ ہو، حقیر ذاتی مصلحتیں اور مفادات اسے مغلوب نہ کر لیں۔ ہم جو کہتے ہیں کہ اسلام اور اسلامی جمہوریہ کے پاس انسانیت کے لئے پیام نو موجود ہے تو اس سے یہی چیز مراد ہے۔ یہ ایک شاہکار نمونہ ہے۔
آج اگر آپ دنیا میں انسانی زندگی پر نظر دوڑائیں، سربراہان مملکت کو دیکھیں، سیاسی امور کے زمامداروں کو دیکھیں کیا آپ کو کوئی ایک بھی شخص ملے گا جو اپنے ذاتی مفادات کو ہیچ سمجھتا ہو؟ جب مفادات بالکل سامنے ہوں اور ان کا حصول بالکل آسانع، تو کون ہے جو اپنے ذاتی مفادات کو قومی اور ملکی مفادات پر قربان کرے گا؟ کون ہے جو ہر طرح کے لحاظ اور تکلفات کو بالائے طاق رکھ دے گا (اور اپنی توجہ قومی مفادات پر مرکوز کرے گا؟) اس وقت انسانیت کی سب سے بڑی محرومی ان صفات کے حامل انسانوں کا فقدان ہے جن کا اعلی و ارفع نمونہ اسلام نے انسانوں کے سامنے پیش کیا ہے۔ ویسے یہ بھی واضح ہے کہ اس بلندی تک رسائی معمولی انسانوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے طرز پر زندگی گزرنا جوئے شیر لانا ہے تاہم اس بلندی نے ہمارے لئے سمت کا تو تعین کر ہی دیا ہے۔ ہمیں اس بلندی کی سمت میں آگے بڑھنا ہے۔ جتنا ممکن ہو خود کو اس سے قریب کرنا ہے۔ تو انسانیت کی سب سے بڑی محرومی یہی ہے۔ واقعہ غدیر میں یہ نکتہ بھی بہت نمایاں ہے جس پر خاص توجہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کے لئے غدیر کا پیغام مثالی اسلامی حکومت کی تشکیل کا پیغام ہے۔
راہ خدا میں دشمنوں اور ہر طرح کے ذاتی مفادات اور خود غرضی کا سختی سے قلع قمع کر دینا لیکن مظلوم اور کمزور انسانوں سے خاکسارانہ برتاؤ اور ایسی بردباری کہ یقین نہ آئے کہ یہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام ہیں! جب حضرت امیر المومنین علیہ السلام کوفے میں سکونت پذیر ہوئے تو ابتدا میں تو لوگ آپ کو پہنچان نہیں پاتے تھے۔ آپ کا رہن سہن، آپ کا لباس اور طور طریقہ ایسا تھا کہ گلی کوچے اور بازار میں اگر کوئی آپ کو دیکھتا تو ہرگز اندازہ نہیں کر سکتا تھا کہ عظمتوں کی بلندی پر فائز حضرت امیر المومنین یہی انسان ہے جو بالکل عام لوگوں کی مانند راستے سے گزر رہا ہے۔ مظلوموں اور غربا کے سلسلے میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی بردباری اور خاکساری کا یہ عالم ہے۔ لیکن دوسری طرف طاقتور دشمنوں اور ستم پیشہ عناصر کے سامنے آپ پہاڑ کی مانند ڈٹ جاتے ہیں۔ اس کو کہتے ہیں نمونہ۔
غدیر کے سلسلے میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ یہ واقعہ ہم شیعوں کے لئے عقیدے کی بنیاد ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وجود مبارک کے بعد امت مسلمہ کے لئے امام بر حق حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی ذات ہے۔ یہ شیعہ عقیدے کی بنیاد اور ستون ہے۔ البتہ برادران اہل سنت اس عقیدے کو قبول نہیں کرتے۔ ان کا نظریہ مختلف ہے۔ وہ اس سلسلے میں الگ فکر رکھتے ہیں۔ یہ فرق موجود ہے لیکن یہی واقعہ غدیر ایک مقام پر امت مسلمہ کے لئے نقطہ اتحاد بن جاتا ہے اور وہ مقام ہے حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی شخصیت۔ اس عظیم انسان کی شخصیت و عظمت کے سلسلے میں مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ہر شخص حضرت امیر المومنین علیہ السلام کو علم و دانش، زہد و تقوی اور شجاعت و بہادری کے لحاظ سے اسی عظیم مقام و منزلت پر فائز قرار دیتا ہے جو آپ کے شایان شان ہے۔ یعنی امت مسلمہ کی ہر فرد کی عقیدتوں کا مشترکہ مرکز و محور حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی ذات گرامی ہے۔
آج جس چیز پر ہمیں خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ شیعوں نے اس عقیدے کو صدیوں سے اپنے کلیجے سے لگائے رکھا۔ تمام تر دشمنیوں اور بغض و عناد کا سامنا کرتے ہوئے، جن سے کم و بیش سبھی واقف ہیں اور سب جانتے ہیں کہ شیعوں پر کیا ظلم ہوئے، انہیں کس طرح گھٹن کے ماحول کا سامنا رہا، شیعوں نے اپنے اس عقیدے کی حفاظت کی، اپنے عقائد کی تبلیغ کی۔ شیعہ فقہ، شیعہ فلسفہ، شیعوں کے مختلف علوم، شیعہ تہذیب، اعلی شیعہ فکر، شیعہ علما اور شخصیات، تاریخ اسلام کے اوراق پر آج بھی درخشاں اور نمایاں ہیں۔ بنابریں یہ وہ عقیدہ ہے جس کی شیعوں نے حفاظت کی ہے اور کرتے رہیں گے۔ لیکن اس بات پر توجہ دینا ضروری ہے کہ یہ عقیدہ اختلافات اور تنازعے کا باعث نہ بن جائے۔ یہ بات ہم برسوں سے کہتے اور دہراتے آ رہے ہیں اور ایک بار پھر اس کا اعادہ کر رہے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ دشمن امت مسلمہ کے اندر مختلف بہانوں سے تفرقہ پیدا کرکے کن اہداف اور مقاصد کی تکمیل کے در پے ہے۔ حقیقی دشمن وہ ہے جو اسلام کا دشمن ہے، قرآن کا دشمن ہے، توحید اور مشترکہ عقیدوں کا دشمن ہے۔ دشمن کی کوشش یہ ہے کہ امت مسلمہ تفرقے اور اختلافات سے دوچار رہے کیونہ انہیں اندازہ ہے کہ امت مسلمہ کا اتحاد ان کے لئے کتنا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ دشمن نے دیکھا کہ جب ایران میں اسلامی انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا تو اس انقلاب کی عظمت اور نورانیت نے کس طرح عالم اسلام اور مسلم ممالک کے لوگوں کے دلوں کو اپنی جانب کھینچا۔ ان دلوں کو بھی جو شیعہ نہیں تھے۔ عرب ممالک، ایشیائی ممالک اور افریقی ممالک میں آباد دسیوں لاکھ برادران اہل سنت اس انقلاب کے گرویدہ ہو گئے۔ اس طرح دشمن کو کاری ضرب لگی۔ دلوں کی یکجہتی اور اسلامی جمہوری نظام کی جانب دلوں کی کشش سے دشمن کو ضرب لگی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ یہ یکجہتی اور کشش ختم ہو جائے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ شیعہ سنی اختلاف اور دشمنی کے ذریعے ممکن ہے۔
اس وقت ہمارے اسی علاقے میں دیگر معاندانہ کاروائيوں کے ساتھ ساتھ سامراج کی اہم پالیسی یہ ہے کہ بعض عرب ممالک کے سربراہوں کو اپنے ساتھ ملا لے اور انہیں ملت ایران کے مقابلے پر لا کھڑا کرے۔ گوناگوں مسائل کے سلسلے میں، جیسے ایٹمی مسئلہ ہے اور دوسرے بہت سے مسائل ہیں ان کے سلسلے میں اجلاس منعقد کئے جاتے ہیں۔ بیٹھ کر سودے بازی کی جاتی ہے۔ سازشیں تیار کی جاتی ہیں۔ امریکہ بعض مسلم ممالک سے یہ سوال کرتا ہے کہ ایران کے خلاف آپ کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ وہ دشمنی پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ سیاسی منصوبہ بندی سے متعلق حلقوں اور پالیسی ساز اداروں کی سطح پر دشمن کی یہ سازش ہوتی ہے کہ سربراہان مملکت کو اسلامی جمہوریہ ایران کے مقابلے پر لائے۔ اس سے زیادہ کچھ اور اس کے اختیار میں نہیں ہے۔ دشمن، عوام کے دل، عرب ممالک کے عوام کے دل، مسلم ممالک کے عوام کے دل، ملت فلسطین کا دل اور ملت عراق کا دل تو اسلامی جمہوریہ ایران سے پھرا نہیں سکتا۔ قلبی لگاؤ کو تو ختم نہیں کر سکتا۔ اس کے بس میں اتنا ہی ہے کہ حکومتوں کو اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف ورغلائے۔ ان حکومتوں میں بھی ہر ایک کے مد نظر کچھ امور ضرور یقینا ہوں گے۔ وہ بھی اس مسئلے میں اپنے اختیارات کی باگڈور پوری طرح صیہونیوں اور سامراجی طاقتوں کے ہاتھ میں نہیں دے سکتیں۔ اور جہاں تک سوال ہے عوام کے قلبی لگاؤ اور دلچپسی کا، تو اسے تو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ کون سی چیز ہے جو عالم اسلام کے دلوں کو ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام سے جدا کر سکتی ہے؟ وہ چیز یہی مذہبی اختلافات اور فرقہ وارانہ تعصب ہے۔ یہ چیز دلوں کو ایک دوسرے سے دور کر سکتی ہے۔ اس سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ اس سے ڈرنا چاہئے۔ اس سلسلے میں احتیاط برتنا سب کی ذمہ داری ہے۔ اگر شیعوں کی جانب سے برادران اہل سنت کے خلاف یا سنی بھائيوں کی جانب سے شیعوں کے خلاف کتابیں شائع ہوں۔ ایک دوسرے پر تہمت لگائی جائے اور ایک دوسرے کو برا بھلا کہا جائے تو اس سے نہ کوئی سنی، شیعہ ہونے والا ہے اور نہ کوئی شیعہ سنی ہو سکتا ہے۔ جو لوگ چاہتے ہیں کہ پوری دنیا محب اہل بیت ہو جائے انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ لڑائی جھگڑے، توہین و گستاخی اور معاندانہ اقدامات سے کسی کو شیعہ بنایا جا سکتا ہے نہ کسی کے دل میں محبت اہل بیت پیدا کی جا سکتی ہے۔ ان اقدامات سے جدائی، نفرت اور دشمنی کے علاوہ کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ اور یہ جدائی، نفرت اور دشمنی ہی امریکہ کا ہدف و مقصد ہے۔ صیہونی اسی چیز کے لئے کوششوں میں مصروف ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ ایک غیر مسلم یورپی ملک میں جو مسلم ممالک سے تاریخی دشمنی رکھتا ہے ٹیلی ویزن پر شیعہ سنی مناظرہ کرایا جاتا ہے۔ ایک شیعہ کو بلایا جاتا اور ایک سنی کو دعوت دی جاتی ہے کہ آپ لوگ آئیے اور ٹی وی پر مناظرہ کیجئے۔ اس سے وہ کیا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ ایک عیسائی ملک، سیاہ کاکردگی کی طویل تاریخ رکھنے والی سامراجی طاقت کو شیعہ سنی مناظرے سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟! کیا وہ حقیقت سامنے لانا چاہتی ہے؟ کیا وہ چاہتی ہے کہ مناظرے سے ناظرین اور سامعین کو حق سمجھ میں آ جائے؟ یا اس کا مقصد مناظرہ کے دوران کسی بھی فریق کے منہ سے نکل جانے والی کچھ باتوں کے ذریعے اختلافات کی آگ بھڑکانا ہے؟ آگ میں تیل ڈالنا چاہتی ہے؟ ان چیزوں پر ہمیں بیدار ہو جانا چاہئے۔ ہمیں ہوش میں آ جانا چاہئے۔ ہمیں محتاط ہو جانا چاہئے۔ شیعوں کے پاس مدلل بیان ہے۔ شیعہ علما کے پاس تشیع سے متعلق بحثوں کے لئے محکم دلیلیں ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عالم تشیع میں دوسرے مسلک کے افراد کے خلاف توہین آمیز باتیں شروع کر دی جائیں۔ دشمنی کو ہوا دی جائے اور پھر دوسرے افراد بھی اسی طرح اشتعال انگیزیاں کریں۔ ہمیں اطلاعات ہیں، مجھے بخوبی علم ہے اور ماضی کے بارے میں بھی پتہ ہے کہ ایک فرقے کو دوسرے فرقے کے خلاف فحشیات اور تہمتوں سے بھری ہوئی کتابوں کی تصنیف و اشاعت کے لئے اکسایا گیا اور دوسرے فرقے کو پہلے فرقے کے خلاف مشتعل کیا گيا اور دونوں فرقوں کو پیسے ایک ہی مرکز سے ملے۔ دونوں کو کتب کی اشاعت کے لئے بجٹ ایک ہی جیب سے مہیا کیا گيا۔ کیا یہ عبرت کے لئے کافی نہیں ہے؟ ان چیزوں پر توجہ ضروری ہے۔
میں نے آج ولایت امیر المومنین، اس عظیم ہستی کے اسم مبارک اور آپ کی روح مقدسہ کو وسیلہ قرار دیکر یہ باتیں عرض کی ہیں تاکہ ایک بار پھر اس نکتے پر تاکید ہو جائے جو امام (خمینی رہ) نے برسوں بیان فرمایا اور ہم نے بھی عرض کیا کہ کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ وہ شیعوں کا دفاع کرنا چاہتا ہے تو اس کا راستہ یہ ہے کہ شیعہ اور غیر شیعہ حضرات کے خلاف دشمنی کی آگ بھڑکائی جائے۔ یہ شیعوں کا دفاع نہیں ہے، یہ ولایت امیر المومنین کا دفاع نہیں ہے۔ اگر حقیقت بیں نظر سے دیکھا جائے تو یہ امریکہ کا دفاع ہے، صیہونیوں کی مدد ہے۔ منطقی استدلال میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ آپ کتابیں لکھئے، استدلال بیان کیجئے۔ ہمارے علما نے کتابیں لکھی ہیں لکھ رہے ہیں اور لکھنا بھی چاہئے۔ اصول دین، فروع دین اور شیعہ فرقے کے دیگر مسائل میں ہمارا مخصوص نظریہ ہے۔ ان سب پر دلیلیں قائم کی جانی چاہئے۔ انہیں بیان کیا جانا چاہئے۔ جو چیزیں ان کے بر خلاف ہیں ان کا منطقی دلیلوں سے جواب دیا جانا چاہئے۔ اس میں کوئی مضا‏ئقہ اور قباحت نہیں ہے۔ لیکن توہین، بد کلامی اور دشمنی پیدا کرنا یہ بالکل الگ چیز ہے۔ اس سلسلے میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
پروردگارا! محمد و آل محمد کے صدقے میں ہمیں بیدار کر دے۔ ہمارے ہاتھ سے حضرت امیر المومنین کا دامن چھوٹنے نہ پائے۔ امت مسلمہ اور ہم عوام کو صبر و جہاد و اخلاص کی نعمت سے نواز۔ پروردگارا! ہمیں محبت امیر المومنین علیہ السلام کے ساتھ زندہ رکھ، تا دم موت ولایت امیر المومنین ہمارے دل میں رہے۔ حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے قلب مبارک کو ہم سے راضی و خوشنود فرما۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته