بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی سیدنا محمد و آلہ الطاہرین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین

میرزا نائینی کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کے جائزے کی ضرورت

قم کے حوزۂ علمیہ (اعلی دینی تعلیمی مرکز) کا ایک بہت پسندیدہ کام، یہی خراج عقیدت کی کانفرنس ہے جس کی واقعی بہت ضرورت محسوس ہوتی تھی۔ مرحوم آقائے نائینی نے ایک زمانے میں نجف کی علمی فضا کو اپنے افکار و نظریات سے معمور کر دیا تھا لیکن پھر وہ علمی و فکری کام، اور شہرت کے میدان میں تقریباً گمنام ہو کر رہ گئے اور ان پر کم توجہ دی گئی، البتہ قم میں ایسا نہیں ہوا۔ ہم نے خود دیکھا کہ قم کے بزرگان ان کی تعریف کرتے تھے، خراج عقیدت پیش کرتے تھے اور ان کے شاگرد تو خیر نجف میں مراجع میں شامل تھے لیکن خود آقائے نائینی (رحمۃ اللہ علیہ) اپنی ان خصوصیات کے باوجود کسی حد تک گمنام رہے اور ان پر کم توجہ دی گئی۔ اب آپ ان کو سامنے لا رہے ہیں۔ ان شاء اللہ ان کے علمی، عملی اور سیاسی پہلو روشن ہوں گے۔

نجف کے قدیم حوزۂ علمیہ میں میرزا نائینی کا بلند مقام

بے شک مرحوم آقائے نائینی نجف کے قدیم حوزۂ علمیہ کے بلند ستونوں میں سے ایک ہیں۔ بلاشبہ نجف کا حوزۂ علمیہ جس کی عمر ہزار سال سے زیادہ ہے، نشیب و فراز سے گزرتا رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ وہاں بزرگان علم موجود تھے، کبھی ایسا بھی وقت تھا جب یہ حوزہ بزرگان سے خالی رہا، حلّہ اور دوسرے مقامات کے برخلاف،  لیکن تقریباً دو سو سال قبل سے، یعنی مرحوم آقا باقر بہبہانی کے شاگردوں کے زمانے سے، جیسے مرحوم بحرالعلوم اور مرحوم کاشف الغطاء جو نجف میں تھے، خود مرحوم بہبہانی کربلا میں سکونت پذیر تھے لیکن ان کے یہ عظیم الشان شاگرد، ان نامور تلامذہ کا علمی مرکز، نجف تھا، اس وقت سے نجف کے حوزۂ علمیہ نے ایک نئی زندگی اور علمی نشاط پائی اور بعض ایسی نمایاں شخصیات کو پروان چڑھایا جو فقہ و اصول کی ہماری تاریخ میں بے نظیر یا کم نظیر ہیں، جیسے شیخ انصاری، مرحوم صاحب جواہر(2) یا مرحوم آخوند(3) اور اسی طرح کے دیگر بزرگان۔ یہ بزرگوار یعنی مرحوم آقائے نائینی، اسی زمرے کی شخصیت ہیں، یعنی ان برسوں کی ان ممتاز اور نمایاں شخصیات میں سے ہیں۔

بنیادی ڈھانچہ تیار کرنا اور تدریس میں جدت عمل، میرزا نائینی کی اہم خصوصیت

ان کے مہارتی پہلو یعنی علم فقہ اور علم اصول میں ان کی جو اہم خصوصیت ہے وہ بنیادی ڈھانچہ تیار کرنے کی ہے۔ یعنی وہ علم اصول کی بنیادی باتوں کو ایک نئے ڈھانچے، ایک نئی فکر اور ایک نئی ترتیب کے ساتھ اور ہر موضوع کے بارے میں کچھ تمہیدوں کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ یہ طریقہ ان سے پہلے کے فقہا اور علمائے اصول کی کتابوں میں کم ہی دیکھنے میں آیا ہے، یعنی مجھے کوئی ایسا یاد نہیں جس نے اتنے مرتب اور منظم انداز میں باتیں پیش کی ہوں۔ مثال کے طور پر جب وہ کسی بھی مسئلے پر گفتگو شروع کرتے تو اسے کچھ مقدموں اور تمہدیوں کے ساتھ، ایک خاص ترتیب کے ساتھ اور ایک نظم کے ساتھ آگے بڑھاتے اور مکمل کرتے ہیں، یعنی پوری طرح سے صاف ستھرے ڈھنگ سے۔ شاید طلبہ اور فضلاء کی ایک بڑی تعداد کے ان کے درس کی طرف کھنچے چلے آنے کی ایک وجہ، کہ بلاشبہ مرحوم آخوند کے بعد نجف کا یہ سب سے اعلیٰ درجے کا درس تھا، ان کا فکری نظم، علمی ترتیب اور سلیس بیان ہے۔ اگرچہ وہ نجف میں اصول فقہ کا درس فارسی زبان میں دیتے تھے، حالانکہ نجف کے ماحول میں تمام دروس عربی میں ہوتے تھے، لیکن وہ فارسی میں درس دیتے تھے مگر اس کے باوجود عرب طلبہ کثیر تعداد میں ان کے درس میں شریک ہوتے تھے۔ مجھے خود تو دیکھنے کا شرف حاصل نہیں ہوا لیکن میں نے سنا ہے کہ مرحوم آقائے شیخ حسین حلی (رحمۃ اللہ علیہ) جو خالص عرب تھے، اصول فقہ کا درس فارسی زبان میں دیتے تھے کیونکہ انھوں نے یہ درس اپنے استاد سے فارسی میں ہی سنا تھا! مطلب یہ کہ ان کے وجود میں بیان کی ایسی ندرت اور روشن فکر  تھی۔

بلا شبہ علم اصول فقہ کے بنیادی اصولوں میں ان کی جدت طرازیاں غیر معمولی ہیں، بہت زیادہ ہیں۔ علم اصول کی مختلف بحثوں میں ان کی جو جدت طرازیاں ہیں، وہ تعداد کے اعتبار سے بہت زیادہ ہیں، چاہے وہ مرحوم شیخ انصاری کے اقوال ہوں جن کی انھوں نے تشریح کی اور بیان کیا اور چاہے وہ باتیں ہوں جو انھوں نے خود مختلف اصولی مسائل میں بیان کی ہیں۔ یہ تمام باتیں علمی بحث کے لائق ہیں۔ یہ ایک پہلو ہوا۔

نمایاں شاگردوں کی تربیت، میرزا نائینی کی دوسری اہم خصوصیت

میری نظر میں مرحوم آقائے نائینی کی ایک اہم خصوصیت، شاگردوں کی تربیت ہے۔ میں نے اس طرح کی مثال کم ہی دیکھی ہے۔ حالیہ دور کے نامور علماء میں مرحوم آخوند خراسانی کے بہت سے شاگرد تھے، بہت اچھے اور ممتاز شاگرد تھے، شاگردوں کی تعداد نہیں، بلکہ شاگردوں میں نمایاں شخصیات، مرحوم آقائے نائینی بھی اسی طرح کے تھے، ان کے نمایاں شاگردوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، یعنی ممتاز شاگردوں کی تربیت ایک اہم بات ہے۔ ان برسوں میں، جیسا کہ میرے ذہن میں ہے، 1377 ہجری قمری کے آس پاس، میرے خیال میں اس وقت نجف میں موجود تقریباً تمام مراجع ان کے شاگرد تھے، جیسے: آقائے خوئی،(4) مرحوم آقائے حکیم،(5) مرحوم آقائے سید عبدالہادی(6) اور دوسری شخصیات بھی جو اس زمانے میں موجود تھیں، جیسے مرحوم آقا میرزا باقر زنجانی، یا آقا شیخ حسین حلی، مرحوم آقا میرزا حسن بجنوردی وغیرہ۔ یہ سبھی نامور شخصیات اور بزرگان آقائے نائینی کے شاگرد تھے۔ البتہ ان میں سے بعض، علمی تعلق کے لحاظ سے دوسرے بزرگوں سے بھی منسوب کیے جاتے تھے، جیسے مرحوم آقائے حکیم جو آقا ضیاء کے بھی ممتاز شاگردوں میں سے ہیں، تاہم ان میں سے اکثر بزرگان، مراجع اور شخصیات بنیادی طور پر مرحوم آقائے نائینی کے شاگرد تھے۔ شاگردوں کی یہ تربیت اور بڑی تعداد میں ممتاز شاگرد، ان کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ یہ ان کے علمی مسائل کے بارے میں چند مختصر باتیں تھیں۔

سیاسی افکار و نظریات، میرزا نائینی کی ایک دوسری اہم خصوصیت

ان کی شخصیت میں ایک غیر معمولی پہلو بھی ہے، جو ماضی قریب کے ہمارے کسی بھی مرجع میں نہیں تھا اور اسی طرح قدیم مراجع میں بھی، جہاں تک مجھے یاد ہے، اور وہ ہے سیاسی سوچ۔ یہ اصطلاحاً "سیاسی فکر" ہے۔ سیاسی فکر، سیاسی رجحان سے الگ چیز ہے۔ بعض علماء میں سیاسی رجحان تھا۔ مرحوم آخوند خراسانی، مرحوم شیخ عبداللہ مازندرانی اور دیگر بزرگان میں سیاسی رجحان تھا۔ اس زمانے میں تو طلبہ میں بھی سیاسی رجحان پایا جاتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مصر اور شام وغیرہ کے اخبارات و جرائد نجف کے کتب خانوں میں آتے تھے۔ وہ اخبارات و جرائد سید جمال الدین اور محمد عبدہ جیسے مصلحین سے متاثر تھے اور نئی باتیں پیش کرتے تھے۔یہ چیز مرحوم آقا نجفی قوچانی اپنی سوانح حیات میں نقل کرتے ہیں، انسان دیکھتا ہے کہ اس زمانے میں سیاسی رجحان رکھنے والے طلبہ کی تعداد کافی تھی۔ علماء میں بھی ایسے لوگ تھے جن کا سیاسی رجحان تھا لیکن سیاسی رجحان، سیاسی دلچسپی یہاں تک کہ سیاسی گفتگو ایک الگ بات ہے، اور سیاسی فکر بالکل دوسری چیز ہے۔ آقائے نائینی میں سیاسی فکر تھی، وہ سیاسی سوچ رکھتے تھے۔ ان کی کتاب "تنبیہ الامۃ" واقعی مظلوم واقع ہوئی ہے۔ اللہ مرحوم آقائے طالقانی پر رحمت نازل فرمائے جنھوں نے اس کتاب کو دوبارہ شائع کروایا ورنہ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن، جس کے بارے میں مشہور ہے اور ہم نے سنا ہے کہ اسے واپس لے لیا گيا تھا، ایک انتہائی ناقص اور قدیم طرز کا ایڈیشن تھا۔ انھوں نے اسے شائع کروایا، اس پر حاشیے لگائے اور ایسے ہی دوسرے کام کیے لیکن یہ کتاب اب بھی طاق نسیاں کی زینت بنی ہوئی ہے جبکہ یہ ایک اہم کتاب ہے۔ اب میں اس کتاب میں پیش کردہ ان کے افکار پر اختصار سے کچھ باتیں عرض کروں گا۔

میرزا نائینی کے سیاسی افکار:

1) اسلامی حکومت کی تشکیل کا عقیدہ 

پہلی بات تو یہ کہ وہ اسلامی حکومت کی تشکیل کے قائل ہیں، یہ اپنی جگہ خود ایک مستقل فکر ہے کہ اسلامی حکومت تشکیل پانی چاہیے۔ البتہ وہ حکومت کی شکل کا تعین نہیں کرتے لیکن اس بات کو کہ اسلامی حکومت تشکیل پانی چاہیے، وہ اپنی کتاب "تنبیہ الامۃ" میں صراحت کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی اہم نکتہ ہے۔

2) اسلامی حکومت میں "ولایت" اور "ولی" کا عقیدہ

دوسری بات یہ کہ اس اسلامی حکومت کا مرکزی نکتہ "ولایت" کا مسئلہ ہے۔ وہ اسے "حکومت ولایتیّہ" سے تعبیر کرتے ہیں جو "مالکیت استبدادیّہ" کے مقابلے میں ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ انھوں نے حکومت استبدادیّہ کے مقابلے میں اسی طرح کی ترکیب استعمال کی ہے، وہ "مالکیت استبدادیہ" کے مقابلے میں حکومت ولائیہ، اسلامی ولائی حکومت کو بیان کرتے ہیں۔ یعنی حکومت کی شکل، اس کی بنیاد اور اس کا مغز "ولایت" ہے۔ یہ خود ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے جس پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اس کو صراحت سے بیان کیا ہے۔ یہ اگلا نکتہ تھا۔

قانون ساز اسمبلی کی طرف سے 'علما کے ذریعے توثیق شدہ قوانین کی بنیاد پر' عہدیداران کے اوپر قومی نگرانی

دوسری انتہائی اہم بات 'قومی نگرانی' کا مسئلہ ہے۔ وہ اس بات کے قائل ہیں کہ حکومت پر نگرانی ہونی چاہیے؛ تمام عہدہ داران ذمہ دار ہیں اور ان پر نگرانی ہونی چاہیے۔ اب ان پر نگرانی کون کرے؟ ان کے الفاظ میں "مجلس مبعوثان" جو قانون ساز اسمبلی ہے۔ فطری طور پر "مجلس مبعوثان" مثال کے طور پر مجلس شوریٰ یا اس جیسی کسی چیز کے مترادف ہے۔ مجلس مبعوثان کی تشکیل کون کرتا ہے؟ عوام تشکیل دیتے ہیں۔ یعنی عوام جا کر ووٹ ڈالتے ہیں اور مجلس مبعوثان وجود میں آتی ہے۔ پھر مجلس مبعوثان قانون سازی کرتی ہے لیکن اس قانون سازی کی تب تک کوئی حیثیت نہیں ہوتی جب تک کہ ممتاز دینی علماء اس کی توثیق نہ کر دیں۔ یعنی 'شورائے نگہبان'۔ وہ اس طرح بیان کرتے ہیں۔ وہ صراحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ مجلس مبعوثان کے قانون کی کوئی حیثیت نہیں ہے جب تک کہ دینی علماء اور اسلامی فقہاء اس کی توثیق نہ کر دیں۔

عوام کے منتخب کردہ قانون ساز

تو عوام کو اس مجلس مبعوثان کو منتخب کرنا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ عوام کے لیے انتخابات میں شرکت واجب ہے، اس لیے کہ یہ ایک واجب کام کی تمہید ہیں۔ وہ "واجب کی تمہید" کا یہ تصور بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چونکہ یہ ایک واجب کام کی تمہید ہے، اس لیے یہ انتخابات بھی واجب ہیں اور وہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر، احتساب، اور مکمل ذمہ داری جیسے اصولوں پر زور دیتے ہیں۔

میرزا نائینی کے سیاسی نظریے کی بنیاد پر حکومت کا خاکہ

یعنی آپ غور کریں کہ وہ ایک حکومت کا خاکہ پیش کرتے ہیں اور اسے سیاسی فکر کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ ایک حکومت ہے، ایک اقتدار ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ عوام سے نکلتی ہے، عوام اسے منتخب کرتے ہیں۔ تیسرے یہ کہ یہ دینی تصورات اور الہی و شرعی احکام کے مطابق ہے، یعنی ان کے بغیر اس کا کوئی معنی نہیں ہے۔ یعنی یہ ایک اسلامی اور عوامی حکومت ہے۔ اگر آج کے دور کی اصطلاح میں اس اسلامی اور عوامی حکومت کو بیان کیا جائے تو وہ "اسلامی جمہوریہ" کہلائے گی۔ "جمہوری" کا مطلب ہے عوامی، اور "اسلامی" کا مطلب ہے اسلامی۔ البتہ وہ خود اس قسم کی اصطلاحات کے قریب نہیں جاتے اور اس طرح بیان نہیں کرتے، لیکن ان کا کہنا اور ما فی الضمیر یہ ہے: ایک حکومت قائم ہو جو کچھ متدین، صالح اور مومن لوگوں پر مشتمل ہو، جسے عوام منتخب کریں اور جس پر عوام کی سخت نگرانی ہو۔ اس میں ہر شعبے کے ذمہ داران مقرر کیے جاتے ہیں جو جوابدہ ہوتے ہیں اور انھیں سوالات کے جوابات دینے ہوتے ہیں اور ان منتخب نمائندوں کو قانون بھی بنانا ہوتا ہے اور یہ قانون، علمائے دین کی رضامندی کے بغیر قابل اعتبار نہیں ہوتا۔ یہ ان کے خیالات ہیں۔ یہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے۔

میرزا نائینی کے فقہی سیاسی نظریات پر توجہ کا فقدان

ہم عظیم المرتبت آقائے نائینی کی 'تقریرات' پڑھتے ہیں، ان سے استفادہ کرتے ہیں، انھیں سیکھتے اور سکھاتے ہیں لیکن ان کی ان فقہی بنیادوں پر توجہ نہیں دیتے۔ اور سب سے حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ محض زبانی جمع خرچ نہیں کرتے، بلکہ فقہی بحث کرتے ہیں۔ یعنی ہم نے جو کچھ بیان کیا ہے، وہ ان تمام باتوں کو فقہی بنیادوں کے ساتھ پیش کرتے ہیں، بالکل اس طرح جیسے ایک فقیہ بات کرتا ہے۔ وہ اس طرح ان مسائل کو بیان کرتے ہیں، ثابت کرتے ہیں، اسی فکرمندی، توجہ اور احتیاط کے ساتھ جو ایک فقیہ ملحوظ رکھتا ہے۔ جیسے متن کی دلالتوں اور دینی مصادر کے ساتھ ساتھ عرفی پہلوؤں کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح جو فقہ میں رائج اور معمول ہے، وہ اسی طریقے سے اس معاملے میں بھی چلتے ہیں۔

میرے خیال میں یہ ایک استثنائی مثال ہے۔ ہمارے علماء میں ہم کوئی ایسی شخصیت نہیں پاتے جو اس طرح کی ہو۔ مرحوم آقائے آخوند نے بھی اس کتاب پر اپنی تقریظ لکھی ہے اور اس کی مکمل تائید کی ہے۔ آخوند بھی کوئی چھوٹی شخصیت نہیں ہیں اور انھوں نے اس کتاب کی مکمل تائید کی ہے۔ میرے خیال میں انھوں نے یہ کتاب پڑھی تھی اور اس سے استفادہ کیا تھا، وہ اس کتاب سے براہ راست استفادہ کرتے ہیں۔ کتاب "تنبیہ الامۃ" ہمارے نزدیک انتہائی اہم کتاب ہے۔ خیر، یہ تھیں ان کی خصوصیات۔

برطانوی آئینی انقلاب کا مقابلہ کرنے کے لیے آیت اللہ نائینی نے خود اپنے ہاتھوں اپنی استدلالی کتاب واپس لے لی

اب بات آتی ہے ان لوگوں کی جن کی وجہ سے اس کتاب کو واپس لیا گیا۔ بظاہر یہ کام ہوا ہے۔ افواہوں سے الگ ہٹ کر، ہم نے نجف میں رہ چکے بزرگوں اور اپنے والد مرحوم کے دوستوں سے، جو نجفی تھے، جن کی آمد و رفت تھی، سنا تھا کہ وہ بڑی دشواریوں سے اس کتاب کو واپس لیتے تھے، جس کے پاس بھی ہوتی، اس سے خریدتے تھے۔ اس کی کیا وجہ تھی؟

یہ سادہ لوحی ہوگی کہ کوئی یہ سمجھے کہ اتنی بلند فقہی حیثیت اور مضبوط استدلال رکھنے والے فقیہ نے ایک کتاب لکھی پھر ان کی رائے اس قدر بدل گئی کہ انھوں نے اسے واپس لے لیا! یہ بات کوئی معنی نہیں رکھتی۔ فقہاء کے فقہی نظریات بدلا کرتے ہیں لیکن کتاب کو واپس لے لیا تو اس کی کوئی اور وجہ تھی۔ اصل وجہ یہ تھی کہ نجف میں جس "مشروطیت" (آئینی انقلاب) کا ذکر ہوا تھا اور جس کے لیے مرحوم آخوند، شیخ عبداللہ مازندرانی اور دوسرے علماء نے اپنی ساکھ داؤ پر لگا دی تھی، وہ اس "مشروطیت" سے یکسر مختلف تھی جو عملی طور پر نمودار ہوئی۔ مشروطیت کا نام ہی نہیں لیا گیا تھا۔ وہ تو درحقیقت ایک عادلانہ حکومت، استبداد کا خاتمہ اور استبداد کے خلاف جدوجہد چاہتے تھے۔ لفظ "مشروطیت" اور اس جیسے دیگر الفاظ دراصل انگریزوں نے متعارف کرائے تھے۔ انھوں نے نہ صرف نام بدلا بلکہ اس تحریک کو اپنے مفادات کے مطابق موڑ دیا۔

انگریزوں نے نہ صرف نام (مشروطیت) دیا بلکہ اس کا طریقۂ کار بھی خود طے کیا۔ اب انگریز جو کام کریں، ظاہر ہے کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔ اس کے نتیجے میں طرح طرح کے اختلافات اور جھگڑے پیدا ہوئے، یہاں تک کہ معاملہ اس نہج پر پہنچا کہ شیخ فضل اللہ نوری جیسے شخص کو پھانسی دے دی گئی، سید عبداللہ بہبہانی جیسے شخص کا قتل کر دیا گیا اور ستارخان و باقرخان جیسوں کو بری طرح تباہ کر دیا گیا، ستارخان کو ایک طریقے سے اور باقرخان کو دوسرے طریقے سے۔

جب ان واقعات کی خبر نجف پہنچی، تو ان (علماء) کو اس واقعے (مشروطیت) کی حمایت پر سخت پچھتاوا ہوا۔ میرے خیال میں مرحوم آقائے نائینی بھی اسی مرحلے سے گزرے۔ انھوں نے دیکھا کہ ان کی یہ علمی، فقہی اور مضبوط دلائل پر مبنی کتاب درحقیقت ایسی چیز کی مدد کر رہی ہے جسے وہ خود تسلیم نہیں کرتے، بلکہ اس سے انھیں جنگ کرنی چاہیے اور وہ تھی وہ مشروطیت جو انگریزوں نے ایران میں شروع کی تھی، اور وہ پارلیمنٹ تھی جسے انھوں نے تشکیل دیا تھا اور وہ سانحے تھے جو اس کے نتیجے میں رونما ہوئے، جیسے مرحوم شیخ فضل اللہ نوری کی شہادت اور اسی قسم کے دیگر واقعات۔

میرزا نائینی کی اخلاقی، روحانی اور زاہدانہ خصوصیات

میرے خیال میں وہ ایک استثنائی فقیہ اور ایک عظیم عالم دین ہیں۔ علمی اعتبار سے وہ انتہائی بلند مقام رکھتے ہیں۔ عملی زندگی کے حوالے سے، جیسا کہ بیان کیا گیا، ان کی روحانی بصیرت، ان کی زاہدانہ کیفیات اور اس قسم کے واقعات بیان کیے جاتے ہیں۔ میں نے سنا ہے، یعنی ایسا کہا جاتا ہے کہ ان کا مرحوم آخوند ملا حسین قلی سے بھی رابطہ تھا۔ جب وہ سامرا سے نجف آتے تو مرحوم آخوند ملا حسین قلی کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ مرحوم ملا فتح علی سے بھی، جو خود سامرا میں تھے، ان کے تعلقات تھے جو ایک مختلف نوعیت کے تھے۔ بہر حال، ان بزرگوں کے ساتھ ان کے اسی قسم کے روابط تھے۔ جب وہ اصفہان میں تھے تو مرحوم جہانگیر خان اور دیگر ہستیوں سے بھی ان کے تعلقات تھے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ انھوں نے بظاہر جہانگیر خان سے علم حاصل کیا تھا، یعنی فلسفہ وغیرہ میں بھی ان کی دسترس تھی، وہ معنویت کے آدمی تھے۔

کچھ دن پہلے میں نے بعض حضرات سے سنا، جو بعض بزرگان کے حوالے سے بیان کر رہے تھے کہ ان کی نماز شب بہت غیر معمولی تھی۔ مرحوم آقا نجفی، جو ان کے داماد تھے اور ہمدان میں رہتے تھے اور خاندان کے فرد ہونے کی وجہ سے انھوں نے خود دیکھا تھا، نقل کرتے ہیں کہ آقائے نائینی کی نماز شب کیسی تھی، ان کا گریہ و زاری کیسا تھا، ان کی مناجات کیسی ہوتی تھی، کیسی کیفیت ہوتی تھیں۔ یہ باتیں بھی ہیں اور ظاہر ہے کہ یہی چیزیں صحیح راستہ پانے، اس پر چلنے اور نتائج تک پہنچنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ آپ کا یہ بہت ہی دلچسپ اجتماع، خواہ قم میں ہو، نجف میں ہو، یا مشہد میں، (کامیابی سے منعقد ہوگا۔) مشہد میں بھی آپ نے اچھا کام کیا ہے۔ مرحوم آقائے میلانی نے واقعی مشہد میں آقائے نائینی کا نام زندہ کیا۔ کیونکہ مشہد میں جو چیز سب سے زیادہ رائج تھی، وہ مرحوم آقازادہ (مرحوم آخوند کے صاحبزادے) کی موجودگی کی وجہ سے آخوند کے افکار تھے۔ البتہ بعد میں جب مرحوم میرزا مہدی اصفہانی، جو مرحوم میرزا نائینی کے ممتاز شاگردوں میں سے تھے، مشہد آئے تو انہوں نے آقائے نائینی کے افکار بیان کئے اور آخوند کے افکار کے غلبہ والے ماحول کو بدلا؛ نئی باتیں، جدید افکار، نئے استدلال۔

ہمارے مرحوم والد نے تو برسوں دونوں کے دروس یعنی آقازادہ کے دروس میں بھی اور مرحوم میرزا مہدی کے دروس میں بھی شرکت کی، وہ کہا کرتے تھے کہ جب میرزا مہدی مشہد آئے تو مشہد کا علم اصول کا ماحول جو (مرحوم آخوند کے) افکار سے بھرا ہوا تھا، یکسر بدل گیا۔ لیکن مرحوم میرزا مہدی کے بعد پھر آقائے نائینی کا نام و تذکرہ نہیں رہا۔ آقائے میلانی مرحوم آقائے نائینی کے افکار بیان کرتے تھے، ان پر بحث کرتے تھے، شاید کبھی تنقید بھی کرتے تھے لیکن زیادہ تر ان کی تائید کرتے تھے۔

بہر حال آپ نے اچھا کیا کہ مشہد میں بھی ایک شاخ قائم کی اور نجف میں تو ظاہر ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ خداوند متعال آپ سب کو کامیابی اور توفیق عطا فرمائے۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

1.             آیت‌اللّہ شیخ محمّد حسن نجفی (کتاب جواہرالکلام کے مؤلف)

2.             آیت‌اللّہ ملّا محمّد کاظم خراسانی (المعروف بہ آخوند خراسانی)

3.             آیت‌اللّہ سیّد ابوالقاسم خوئی

4.             آیت‌اللّہ سیّد محسن حکیم

5.             آیت‌اللّہ سیّد عبدالہادی شیرازی