قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے تہران مین فلسطین کی حمایت کے سلسلے میں منعقدہ کانفرنس سے خطاب میں مسئلہ فلسطین کو عالم اسلام کا سب سے اہم مسئلہ قرار دیا۔ آپ نے اس سلسلے میں اہم ترین نکات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جب قفقاز، بالکان اور جنوب مغربی ایشیا کے ممالک اسی سال تک اپنی حقیقی شناخت سے محرومی اور سابق سویت یونین کا حصہ رہنے کے بعد اپنی شناخت دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں تو فلسطین کی حقیقی شناخت کی بازیابی کیوں نہیں ہو سکتی۔
قائد انقلاب اسلامی کا خطاب پیش نظر ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں آپ تمام معزز مہمانوں، علماء و مفکرین اور سیاسی شخصیات و مجاہدین کو خوش آمدید کہتا ہوں جو فلسطین کی حمایت اور دفاع سے متعلق چوتھی کانفرنس میں شرکت کے لئے اسلامی جمہوریہ ایران تشریف لائے ہیں۔ اس سے قبل تہران میں چودہ سو ستائیس ہجری قمری میں پندرہ سے سترہ ربیع الاول تک منعقد ہونے والی کانفرنس سے موجودہ اجلاس کے درمیانی وقفے میں متعدد اہم اور فیصلہ کن حیثیت کے حامل واقعات رونما ہو چکے ہیں جن سے مسئلہ فلسطین کا مستقبل اور بھی واضح اور عالم اسلام کے اس سب سے اہم مسئلے کے سلسلے میں ہماری ذمہ داریاں مزید آشکار ہو گئی ہیں۔ ان اہم واقعات میں، سن چودہ سو ستائیس ہجری قمری میں لبنان کی تینتیس روزہ جنگ کے دوران اسلامی مزاحمت کے مقابلے میں اسرائيل کی حیرتناک سیاسی و فوجی شکست اور غزہ میں فلسطینی عوام اور قانونی حکومت کے خلاف بائیس روزہ مجرمانہ لشکر کشی میں صیہونی حکومت کی شرمناک ناکامی ہے۔
صیہونی حکومت جو کئی عشروں تک اپنی فوجی و اسلحہ جاتی توانائی اور امریکہ کی سیاسی و فوجی پشتپناہی کی بنیاد پر خود کو ہیبتناک اور نا قابل تسخیر ظاہر کرتی آئی تھی اب تک اسلامی مزاحمت کے جانبازوں سے، جو اسلحے اور فوجی ساز و سامان سے زیادہ اللہ تعالی اور عوام پر تکیہ کرنا پسند کرتے ہیں، دو بار شکست کھا چکی ہے اور فوجی تیاریوں، مشقوں، لمبی چوڑی انٹیلیجنس ایجنسیوں، امریکہ اور بعض دیگر مغربی حکومتوں کی حمایت و پشتپناہی، اسی طرح عالم اسلام کے کچھ منافقوں کی سازباز کے باوجود اسلامی بیداری کے مقابلے میں اس کی بیبسی، تیزرفتار سرنگونی اور شکست و ریخت ظاہر ہو گئی ہے۔ دوسری جانب غزہ کے تاریخی سانحے میں صیہونی مجرموں کے ذریعے انجام دئےجانے والے جرائم، بے گناہ عوام کا وسیع پیمانے پر قتل عام، بے محافظ گھروں کی مسماری، شیرخوار بچوں کے گولیوں سے چھلنی سینے، مساجد اور اسکولوں پر بمباری، فاسفورس بموں اور دیگر ممنوعہ غیر روایتی اسلحے کا استعمال، تقریبا دو سال تک غذائی اشیاء، دواؤں، ایندھن اور دیگر بنیادی ضرورت کی چیزوں کی غزہ کے لئے سپلائی کو روک دینا اور ایسے ہی دیگر بے شمار جرائم سے ثابت ہو گیا کہ بحران فلسطین کے ابتدائی عشروں کے جعلی صیہونی حکومت کے عہدہ داروں کی وحشیانہ و مجرمانہ سرشت میں اب بھی کوئی تغیر پیدا نہیں ہوا ہے۔ وہی روش اور وہی درندگی و بے رحمی جو دیر یاسین، صبرا و شتیلا کے المیوں کا باعث بنی وقت کے ان طاغوتوں کے سیاہ دل و ذہن پر اب بھی حکمفرما ہے بلکہ ٹکنالوجی کی ترقی سے بھرپور استفادے کے نتیجے میں جرائم کا دائرہ بہت زیادہ وسیع اور بھیانک ہو گیا ہے۔
خواہ وہ لوگ ہوں جنہوں نے صیہونی حکومت کے ناقابل تسخیر ہونے کے وہم میں پڑ کر حقیقت پسندی کا راگ الاپتے ہوئے غاصب قوت سے ساز باز کے لئے ہاتھ بڑھا دئے ہیں یا وہ افراد جو صیہونی سیاسدانوں کی دوسری اور تیسری نسل کو پہلی نسل کے جرائم سے مبرا خیال کرکے ان کے جوار میں پر امن بقائے باہمی کے خواب دیکھ رہے ہیں، اب وہ سب کے سب اپنی غلط فہمی سے واقف ہو چکے ہوں گے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ امت مسلمہ کی بیداری کی موج اٹھنے اور اسلامی مزاحمت کے پودے کے تناور درخت میں تبدیل ہو جانے کے ساتھ ہی جھوٹا دبدبہ ہوا ہو گیا اور صیہونی حکومت کی ناتوانی و بے بسی نظروں کے سامنے آ گئی۔ دوسرے یہ کہ وہی جارحیت پسندی اور جرائم کے سلسلے میں بے شرمی جو ابتدائی عشروں میں صیہونی حکام کے یہاں تھی آج بھی اس حکومت کو چلانے والوں میں نمایاں ہے۔ جب بھی انہیں موقع ملتا ہے یا انہیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے بس میں ہے وہ کوئی بھی مجرمانہ عمل انجام دینے سے پیچھے نہیں ہٹتے۔ فلسطین پر غاصبانہ قبضے کو ساٹھ سال کا عرصہ ہو رہا ہے۔ اس مدت میں غاصب قوتوں نے دولت، ٹکنالوجی اور اسلحے سے لیکر سیاسی و سفارتی حربوں اور وسیع نیوز چینلوں تک مادی طاقت کے تمام وسائل استعمال کئے ہیں۔ لیکن ان وسیع و حیرت انگیز شیطانی کوششوں کے باوجود غاصب قوتیں اور ان کے حامی نہ صرف یہ کہ صیہونی حکومت کے وجود کو تسلیم کروانے کے مسئلے کو حل نہیں کر سکے بلکہ یہ مسئلہ پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہو گيا ہے۔ فلسطین پر غاصبانہ قبضے کا بہانہ قرار پانے والے ہولوکاسٹ کے بارے میں سوال اور تحقیق کی بابت مغربی و صیہونی ذرائع ابلاغ اور صیہونزم کی حامی حکومتوں کی برہمی و عدم تحمل ابہام اور تزلزل کی علامت ہے۔ اس وقت عالمی رای عامہ کے سامنے صیہونی حکومت کی شروع سے اب تک کی سیاہ تاریخ کی سب سے بد ترین شکل موجود ہے اور اس کی پیدائش اور تشکیل کے بارے میں زیادہ سنجیدگی سے سوال اٹھنے لگے ہیں۔ مشرقی ایشیا سے لاطینی امریکہ تک صیہونی حکومت پر ہونے والے فطری اور بے مثال اعتراضات اسی طرح دنیا کے ایک سو بیس ممالک منجملہ یورپ اور خود برطانیہ میں جو اس شجرہ خبیثہ کے معرض وجود میں آنے کا مقام ہے، مظاہروں کا سلسلہ اور تینتیس روزہ جنگ لبنان کے دوران اسلامی مزاحمت کے لئے ہمدردی اور حمایت کا اظہار بتاتا ہے کہ صیہونزم کے خلاف عالمی سطح کی مزاحمت شروع ہو گئی ہے جو پچھلے ساٹھ برسوں میں کبھی بھی اتنی سنجیدہ اور وسیع و عمیق نہیں تھی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ لبنان و فلسطین کی اسلامی مزاحمت دنیا کے ضمیر کو بیدار کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ یہ امت مسلمہ کے دشمنوں کے لئے بھی ایک سبق ہے جو طاقت کے استعمال اور سرکوبی کی پالیسی کے ذریعے ایک جعلی قوم و حکومت کی تشکیل کے خواہاں تھے اور وقت گزرنے کے ساتھ انہوں نے اسے نا قابل تردید حقیقت بنانے کی کوشش کی اور عالم اسلام کے ساتھ کی جانے والی اس زیادتی کو معمول کی بات قرار دینا چاہا، اسی طرح یہ امت مسلمہ بالخصوص غیور نوجوانوں اور بیدار اذہان کے لئے بھی (ایک سبق ہے) کہ وہ یاد رکھیں کہ پامال شدہ حق کی بازیابی کے لئے جد و جہد کبھی رائگاں نہیں جاتی اور اللہ تعالی کا وعدہ سچا ہے جس نے ارشاد فرمایا:
أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللَّهَ عَلى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ. الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلاَّ أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ وَ لَوْ لا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوامِعُ وَ بِيَعٌ وَ صَلَواتٌ وَ مَساجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيراً وَ لَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ.
اسی طرح ارشاد ہوتا ہے: إِنَّ اللَّهَ لا يُخْلِفُ الْمِيعادَ، اللہ تعالی نے فرمایا: وَ لَنْ يُخْلِفَ اللَّهُ وَعْدَهُ، خدا وند عالم کا ارشاد ہے: وَعْدَ اللَّهِ لا يُخْلِفُ اللَّهُ وَعْدَهُ وَ لكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ، اللہ تبارک و تعالی فرماتا ہے: فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ ذُو انتِقامٍ اس سے زیادہ واضح اور صریحی وعدہ کیا ہو سکتا ہے جس میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے: وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِی ارْتَضى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً يَعْبُدُونَنِی لا يُشْرِكُونَ بِی شَيْئاً وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الْفاسِقُونَ.
مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں متعلقہ افراد کو ایک بڑی غلط فہمی یہ ہو گئی ہے کہ اسرائیل نام کا ایک ملک ساٹھ سالہ حقیقت ہے اور اسے تسلیم کر لینا چاہئے۔ میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ یہ لوگ آنکھوں کے سامنے موجود دیگر حقائق سے سبق کیوں نہیں لیتے؟ بالکان، قفقاز اور جنوب مغربی ایشیا کے ممالک نے اسی سال تک اپنے تشخص سے محرومی اور سابق سویت یونین کا جز رہنے کے بعد کیا اپنی حقیقی شناخت دوبارہ حاصل نہیں کر لی؟ تو پھر فلسطین جو عالم اسلام کا پارہ تن ہے، اسلامی اور عرب ملک کا اپنا تشخص دوبارہ کیوں حاصل نہیں کر سکتا؟ اور فلسطینی نوجوان جو سب سے زیادہ باہوش اور مضبوط عرب نوجوان ہیں اس ظالمانہ حقیقت پر غلبہ کیوں حاصل نہیں کر سکتے؟ ------- مکمل خطاب کچھ دیر میں