قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے تہران مین فلسطین کی حمایت کے سلسلے میں منعقدہ کانفرنس سے خطاب میں مسئلہ فلسطین کو عالم اسلام کا سب سے اہم مسئلہ قرار دیا۔ آپ نے اس سلسلے میں اہم ترین نکات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جب قفقاز، بالکان اور جنوب مغربی ایشیا کے ممالک اسی سال تک اپنی حقیقی شناخت سے محرومی اور سابق سویت یونین کا حصہ رہنے کے بعد اپنی شناخت دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں تو فلسطین کی حقیقی شناخت کی بازیابی کیوں نہیں ہو سکتی۔
قائد انقلاب اسلامی کا خطاب پیش نظر ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں آپ تمام معزز مہمانوں، علماء و مفکرین اور سیاسی شخصیات و مجاہدین کو خوش آمدید کہتا ہوں جو فلسطین کی حمایت اور دفاع سے متعلق چوتھی کانفرنس میں شرکت کے لئے اسلامی جمہوریہ ایران تشریف لائے ہیں۔ اس سے قبل تہران میں چودہ سو ستائیس ہجری قمری میں پندرہ سے سترہ ربیع الاول تک منعقد ہونے والی کانفرنس سے موجودہ اجلاس کے درمیانی وقفے میں متعدد اہم اور فیصلہ کن حیثیت کے حامل واقعات رونما ہو چکے ہیں جن سے مسئلہ فلسطین کا مستقبل اور بھی واضح اور عالم اسلام کے اس سب سے اہم مسئلے کے سلسلے میں ہماری ذمہ داریاں مزید آشکار ہو گئی ہیں۔ ان اہم واقعات میں، سن چودہ سو ستائیس ہجری قمری میں لبنان کی تینتیس روزہ جنگ کے دوران اسلامی مزاحمت کے مقابلے میں اسرائيل کی حیرتناک سیاسی و فوجی شکست اور غزہ میں فلسطینی عوام اور قانونی حکومت کے خلاف بائیس روزہ مجرمانہ لشکر کشی میں صیہونی حکومت کی شرمناک ناکامی ہے۔
صیہونی حکومت جو کئی عشروں تک اپنی فوجی و اسلحہ جاتی توانائی اور امریکہ کی سیاسی و فوجی پشتپناہی کی بنیاد پر خود کو ہیبتناک اور نا قابل تسخیر ظاہر کرتی آئی تھی اب تک اسلامی مزاحمت کے جانبازوں سے، جو اسلحے اور فوجی ساز و سامان سے زیادہ اللہ تعالی اور عوام پر تکیہ کرنا پسند کرتے ہیں، دو بار شکست کھا چکی ہے اور فوجی تیاریوں، مشقوں، لمبی چوڑی انٹیلیجنس ایجنسیوں، امریکہ اور بعض دیگر مغربی حکومتوں کی حمایت و پشتپناہی، اسی طرح عالم اسلام کے کچھ منافقوں کی سازباز کے باوجود اسلامی بیداری کے مقابلے میں اس کی بیبسی، تیزرفتار سرنگونی اور شکست و ریخت ظاہر ہو گئی ہے۔ دوسری جانب غزہ کے تاریخی سانحے میں صیہونی مجرموں کے ذریعے انجام دئےجانے والے جرائم، بے گناہ عوام کا وسیع پیمانے پر قتل عام، بے محافظ گھروں کی مسماری، شیرخوار بچوں کے گولیوں سے چھلنی سینے، مساجد اور اسکولوں پر بمباری، فاسفورس بموں اور دیگر ممنوعہ غیر روایتی اسلحے کا استعمال، تقریبا دو سال تک غذائی اشیاء، دواؤں، ایندھن اور دیگر بنیادی ضرورت کی چیزوں کی غزہ کے لئے سپلائی کو روک دینا اور ایسے ہی دیگر بے شمار جرائم سے ثابت ہو گیا کہ بحران فلسطین کے ابتدائی عشروں کے جعلی صیہونی حکومت کے عہدہ داروں کی وحشیانہ و مجرمانہ سرشت میں اب بھی کوئی تغیر پیدا نہیں ہوا ہے۔ وہی روش اور وہی درندگی و بے رحمی جو دیر یاسین، صبرا و شتیلا کے المیوں کا باعث بنی وقت کے ان طاغوتوں کے سیاہ دل و ذہن پر اب بھی حکمفرما ہے بلکہ ٹکنالوجی کی ترقی سے بھرپور استفادے کے نتیجے میں جرائم کا دائرہ بہت زیادہ وسیع اور بھیانک ہو گیا ہے۔
خواہ وہ لوگ ہوں جنہوں نے صیہونی حکومت کے ناقابل تسخیر ہونے کے وہم میں پڑ کر حقیقت پسندی کا راگ الاپتے ہوئے غاصب قوت سے ساز باز کے لئے ہاتھ بڑھا دئے ہیں یا وہ افراد جو صیہونی سیاسدانوں کی دوسری اور تیسری نسل کو پہلی نسل کے جرائم سے مبرا خیال کرکے ان کے جوار میں پر امن بقائے باہمی کے خواب دیکھ رہے ہیں، اب وہ سب کے سب اپنی غلط فہمی سے واقف ہو چکے ہوں گے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ امت مسلمہ کی بیداری کی موج اٹھنے اور اسلامی مزاحمت کے پودے کے تناور درخت میں تبدیل ہو جانے کے ساتھ ہی جھوٹا دبدبہ ہوا ہو گیا اور صیہونی حکومت کی ناتوانی و بے بسی نظروں کے سامنے آ گئی۔ دوسرے یہ کہ وہی جارحیت پسندی اور جرائم کے سلسلے میں بے شرمی جو ابتدائی عشروں میں صیہونی حکام کے یہاں تھی آج بھی اس حکومت کو چلانے والوں میں نمایاں ہے۔ جب بھی انہیں موقع ملتا ہے یا انہیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے بس میں ہے وہ کوئی بھی مجرمانہ عمل انجام دینے سے پیچھے نہیں ہٹتے۔ فلسطین پر غاصبانہ قبضے کو ساٹھ سال کا عرصہ ہو رہا ہے۔ اس مدت میں غاصب قوتوں نے دولت، ٹکنالوجی اور اسلحے سے لیکر سیاسی و سفارتی حربوں اور وسیع نیوز چینلوں تک مادی طاقت کے تمام وسائل استعمال کئے ہیں۔ لیکن ان وسیع و حیرت انگیز شیطانی کوششوں کے باوجود غاصب قوتیں اور ان کے حامی نہ صرف یہ کہ صیہونی حکومت کے وجود کو تسلیم کروانے کے مسئلے کو حل نہیں کر سکے بلکہ یہ مسئلہ پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہو گيا ہے۔ فلسطین پر غاصبانہ قبضے کا بہانہ قرار پانے والے ہولوکاسٹ کے بارے میں سوال اور تحقیق کی بابت مغربی و صیہونی ذرائع ابلاغ اور صیہونزم کی حامی حکومتوں کی برہمی و عدم تحمل ابہام اور تزلزل کی علامت ہے۔ اس وقت عالمی رای عامہ کے سامنے صیہونی حکومت کی شروع سے اب تک کی سیاہ تاریخ کی سب سے بد ترین شکل موجود ہے اور اس کی پیدائش اور تشکیل کے بارے میں زیادہ سنجیدگی سے سوال اٹھنے لگے ہیں۔ مشرقی ایشیا سے لاطینی امریکہ تک صیہونی حکومت پر ہونے والے فطری اور بے مثال اعتراضات اسی طرح دنیا کے ایک سو بیس ممالک منجملہ یورپ اور خود برطانیہ میں جو اس شجرہ خبیثہ کے معرض وجود میں آنے کا مقام ہے، مظاہروں کا سلسلہ اور تینتیس روزہ جنگ لبنان کے دوران اسلامی مزاحمت کے لئے ہمدردی اور حمایت کا اظہار بتاتا ہے کہ صیہونزم کے خلاف عالمی سطح کی مزاحمت شروع ہو گئی ہے جو پچھلے ساٹھ برسوں میں کبھی بھی اتنی سنجیدہ اور وسیع و عمیق نہیں تھی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ لبنان و فلسطین کی اسلامی مزاحمت دنیا کے ضمیر کو بیدار کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ یہ امت مسلمہ کے دشمنوں کے لئے بھی ایک سبق ہے جو طاقت کے استعمال اور سرکوبی کی پالیسی کے ذریعے ایک جعلی قوم و حکومت کی تشکیل کے خواہاں تھے اور وقت گزرنے کے ساتھ انہوں نے اسے نا قابل تردید حقیقت بنانے کی کوشش کی اور عالم اسلام کے ساتھ کی جانے والی اس زیادتی کو معمول کی بات قرار دینا چاہا، اسی طرح یہ امت مسلمہ بالخصوص غیور نوجوانوں اور بیدار اذہان کے لئے بھی (ایک سبق ہے) کہ وہ یاد رکھیں کہ پامال شدہ حق کی بازیابی کے لئے جد و جہد کبھی رائگاں نہیں جاتی اور اللہ تعالی کا وعدہ سچا ہے جس نے ارشاد فرمایا:
أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللَّهَ عَلى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ. الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلاَّ أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ وَ لَوْ لا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوامِعُ وَ بِيَعٌ وَ صَلَواتٌ وَ مَساجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيراً وَ لَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ.
اسی طرح ارشاد ہوتا ہے: إِنَّ اللَّهَ لا يُخْلِفُ الْمِيعادَ، اللہ تعالی نے فرمایا: وَ لَنْ يُخْلِفَ اللَّهُ وَعْدَهُ، خدا وند عالم کا ارشاد ہے: وَعْدَ اللَّهِ لا يُخْلِفُ اللَّهُ وَعْدَهُ وَ لكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ، اللہ تبارک و تعالی فرماتا ہے: فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ ذُو انتِقامٍ اس سے زیادہ واضح اور صریحی وعدہ کیا ہو سکتا ہے جس میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے: وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِی ارْتَضى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً يَعْبُدُونَنِی لا يُشْرِكُونَ بِی شَيْئاً وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الْفاسِقُونَ.
مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں متعلقہ افراد کو ایک بڑی غلط فہمی یہ ہو گئی ہے کہ اسرائیل نام کا ایک ملک ساٹھ سالہ حقیقت ہے اور اسے تسلیم کر لینا چاہئے۔ میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ یہ لوگ آنکھوں کے سامنے موجود دیگر حقائق سے سبق کیوں نہیں لیتے؟ بالکان، قفقاز اور جنوب مغربی ایشیا کے ممالک نے اسی سال تک اپنے تشخص سے محرومی اور سابق سویت یونین کا جز رہنے کے بعد کیا اپنی حقیقی شناخت دوبارہ حاصل نہیں کر لی؟ تو پھر فلسطین جو عالم اسلام کا پارہ تن ہے، اسلامی اور عرب ملک کا اپنا تشخص دوبارہ کیوں حاصل نہیں کر سکتا؟ اور فلسطینی نوجوان جو سب سے زیادہ باہوش اور مضبوط عرب نوجوان ہیں اس ظالمانہ حقیقت پر غلبہ کیوں حاصل نہیں کر سکتے؟
ایک اور بڑا مغالطہ یہ خیال ہے کہ ملت فلسطین کے لئے واحد راہ نجات مذاکرات ہیں! مذاکرات کس کے ساتھ؟ طاقت کی زبان کے علاوہ کوئی اصولی بات نہ سمجھنے والی غاصب، منحرف اور جبر پسند صیہونی حکومت کے ساتھ؟ جن لوگوں نے اس بچکانہ خیال اور فریب سے خود کو مطمئن کر لیا، انہیں کیا ملا؟ صیہونیوں سے خود مختار انتظامیہ کی شکل میں انہیں جوکچھ ملا اس کی ذلت آمیز اور توہین آمیز ماہیت سے قطع نظر بھی، سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس کے لئے تقریبا پوری سرزمین فلسطین پر غاصب حکومت کی مالکیت کے اعتراف کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ دوسرے یہ کہ اس آدھی ادھوری اور غیر حقیقی حکومت کو بھی مختلف مواقع پر الگ الگ بہانوں سے کچلا جاتا رہا۔ رام اللہ میں یاسر عرفات کو انتظامیہ کی عمارت میں محصور رکھنا اور ان کی طرح طرح سے توہین و تذلیل کوئی ایسا معمولی واقعہ نہیں جسے فراموش کردیا جائے۔ تیسری بات یہ کہ عرفات کا زمانہ ہو یا ان کے بعد کا دور، خود مختار انتظامیہ کے عہدہ داروں کے ساتھ (صیہونیوں نے) اپنے تھانیداروں جیسا رویہ رکھا۔ ان کا فریضہ فلسطینی مجاہدین کا تعاقب و گرفتاری اور انٹیلیجنس اور پولیس کے اہلکاروں کے ذریعے ان کا محاصرہ کرنا ہے، اس طرح فلسطینی گروہوں کے مابین بغض و کینے کا بیج بو دیا اور انہیں ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا دیا۔ چوتھی بات یہ کہ چھوٹی موٹی کامیابیاں جو ملیں وہ مجاہدوں کے جہاد اور کبھی شسکت قبول نہ کرنے والے غیور عورتوں اور مردوں کی استقامت کی برکت سے ملی۔ اگر انتفاضے شروع نہ ہوئے ہوتے تو فلسطین کے روایتی سربراہوں کی پے در پے پسپائی کے باوجود صیہونی انہیں اتنا بھی نہ دیتے۔
یا مذاکرات امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ جنہوں نے اس سرطان کو وجود بخشنے اور اس کی حفاظت کرنے کے گناہ عظیم کا ارتکاب کیا؟ جو ثالثی سے پہلے فریق ہیں؟ امریکی حکومت نے کبھی بھی صیہونی حکومت حتی حالیہ سانحہ غزہ جیسے اس کے آشکار جرائم کی بے دریغ حمایت بند نہیں کی ہے۔ یہاں تک کہ نئے امریکی صدر بھی جو بش انتظامیہ کی پالیسیوں میں تبدیلی کے نعرے کے ساتھ اقتدار میں آئے ہیں اسرائیل کی سلامتی کے بے قید و شرط عہد کا دم بھرتے ہیں۔ یعنی ریاستی دہشت گردی کا دفاع، ظلم و زیادتی کا دفاع، بائيس دنوں کے دوران سیکڑوں فلسطینی عورتوں، مردوں اور بچوں کے قتل عام کی حمایت۔ یہ بھی بش کے دور کی کجروی ہے، اس سے ہرگز کم نہیں ہے۔
اقوام متحدہ سے وابستہ اداروں سے مذاکرات بھی ایک اور بے نتیجہ روش ہے۔ شائد ہی فلسطین کی مانند کوئی مسئلہ ہو جس میں اقوام متحدہ کا ایسا قلعی کھول دینے اور بدنامی سے دوچار کر دینے والا امتحان ہوا ہو۔
سلامتی کونسل نے گستاخ دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں فلسطین پر غاصبانہ قبضے کو فورا تسلیم کر لیا اور اس تاریخی ظلم کے رونما ہونے اور جاری رہنے کے سلسلے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اس کے بعد کئی عشروں کے دوران اس(صیہونی) حکومت کی گوناگوں جنگی درائم، دیگر مجرمانہ اقدامات، نسل کشی کی کاروائی اور گھروں کی مسماری پر رضامندانہ سکوت اختیار کیا۔ یہاں تک کہ جب جنرل اسمبلی نے صیہونزم کو نسل پرست قرار دے دیا تو اس کی تائید کرنا تو درکنار عملی طور پر اس (فیصلے) سے ایک سو اسی درجے کا فاصلہ اختیار کر لیا۔ دنیا کے تسلط پسند ممالک جو سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کے مالک ہیں اس عالمی ادارے کو حربے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ سلامتی کونسل نہ صرف یہ کہ دنیا میں قیام امن کے سلسلے میں کوئی مدد نہیں کرتی بلکہ جب بھی انسانی حقوق، جمہوریت اور اس جیسی دیگر باتیں ان (ممالک) کے تسلط و غلبے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں یہ کونسل ان کا ساتھ دیتی ہے اور ان کے غیر قانون کاموں پر دروغ اور فریب کا لبادہ ڈال دیتی ہے۔
اقوام متحدہ، یا تسلط پسند طاقتوں اور بالخصوص صیہونی حکومت کی چاپلوسی اور تملق کے ذریعے فلسطین کو نجات نہیں دلائی جا سکتی۔ نجات کا واحد راستہ استقامت و پائيداری ہے۔ فلسطینیوں کا اتحاد اور کلمہ توحید ہے جو جہادی تحریک کا لا متناہی ذخیرہ ہے۔ اس استقامت و پائيداری کے ستون، ایک طرف فلسطین کے اندر اور باہر مجاہد فلسطینی تنظیمیں اور فلسطین کے مومن و مجاہد عوام ہیں تو دوسری جانب پوری دنیا کی مسلم قومیں اور حکومتیں بالخصوص علما و دانشور، سیاسی شحصیات اور یونیورسٹیوں سے وابستہ افراد ہیں۔ اگر یہ دونوں مستحکم ستون اپنی جگہ پر قائم رہیں تو بلا شبہ بیدار ضمیر، ذہن اور فکریں جو سامراج و صیہونزم کے میڈیا کے مسحورکن پروپیگنڈوں سے مسخ نہیں ہوئے ہیں دنیا کے ہر گوشے سے صاحب حق اور مظلوم کی مدد کے لئے آگے آئيں گے اور سامراجی نظام کو ان کے افکار و نظریات، جذبات و احساسات اور عمل و اقدامات کے ایک طوفان کا سامنا کرنا ہوگا۔
اس حقیقت کا ایک نمونہ غزہ کی حالیہ پر شکوہ استقامت و پائيداری کے ایام میں ہم سب نے دیکھا۔ ذرائع ابلاغ کے کیمروں کے سامنے ایک عالمی امداد رساں ادارے کے مغربی سربراہ کا گریہ، انسان دوستانہ امداد کی تنظیموں کے کارکنوں کے ہمدردی بھرے بیانات، یورپی دار الحکومتوں اور امریکی شہروں میں عوام کے عظیم جذباتی مظاہرے، لاطینی امریکہ کے کچھ ملکوں کے سربراہوں کے شجاعانہ اقدامات، یہ سب اس بات کی علامت ہے کہ غیر مسلم دنیا پر بھی ابھی فساد و شر کی موجب طاقتوں کا مکمل غلبہ نہیں ہو سکا ہے جنہیں قرآن میں شیطان کہا گيا ہے۔ اب بھی حقیقت کی جلوہ نمائی کے لئے مواقع موجود ہیں۔
جی ہاں، فلسطین کے عوام اور مجاہدین کا صبر و ضبط، استقامت و پائیداری اور تمام اسلامی ممالک سے ان کی ہمہ جہتی امداد و حمایت فلسطین پر غاصبانہ قبضے کے شیطانی طلسم کو چکناچور کر دے گی۔ مسلم امہ کی عظیم توانائیاں سب سے گرم اور فوری مسئلہ فلسطین سمیت عالم اسلام کی تمام مشکلات کو حل کر سکتی ہیں۔
میرا خطاب پوری دنیا کے مسلمان بھائيوں اور بہنوں اسی طرح ہر ملک و ملت کے بیدار ضمیروں سے ہے۔ آپ ہمت سے کام لیجئے اور صیہونی مجرموں کے تحفظ کے طلسم کو توڑ دیجئے۔ غزہ کے المئے کے ذمہ دار صیہونی حکومت کے سول اور فوجی عہدہ داروں کو عدالت کے کٹہرے میں کھینچ لائیے اور انہیں اس کیفر کردار تک پہنچائیے جو عدل و عقل کا تقاضا ہے۔ یہ پہلا قدم ہے جو اٹھایا جانا چاہئے۔ صیہونی حکومت کے سول اور فوجی حکام پر مقدمہ چلایا جانا چاہئے۔
اگر مجرم کو سزا مل جائے تو جرم کا جنون رکھنے والوں کے لئے حالات ناسازگار ہو جائيں گے۔ بڑے جرائم کے ذمہ داروں کو آزاد چھوڑ دینا مزید جرائم کی ترغیب او حوصلہ افزائی کے مترادف ہے۔ اگر امت مسلمہ نے تینتیس روزہ جنگ لبنان اور ان دہشت ناک واقعات کے بعد المئے کے ذمہ دار صیہونیوں کی سزا کا پوری سنجیدگی سے مطالبہ کیا ہوتا، اگر افغانستان میں بارات کو خاک و خوں میں غلطاں کر دئے جانے، عراق میں بلیک واٹر کے جرائم کے (افشاء) کے بعد اور ابو غریب نیز دیگر مقامات پر امریکی فوجیوں بدنام زمانہ اقدامات کے بعد حق کا مطالبہ کیا ہوتا تو آج ہم غزہ میں کربلا کا منظر نہ دیکھتے۔
ہم مسلم حکومتوں اور قوموں نے ان واقعات کے سلسلے میں اپنے فریضے پرجو عقل و انصاف کا تقاضا تھا، عمل نہیں کیا تو اس کا نتیجہ آج ہماری نظروں کے سامنے ہے۔
بڑے افسوس کی بات ہے کہ دنیا کی بعض حکومتیں اور سیاسی شخصیات اخلاقی اصولوں اور انسانی ضمیر کے فیصلے کی بات کرتی ہیں۔ (لیکن) غزہ میں بائیس دنوں کے دوران ساڑھے تیرہ سو سے زائد افراد کا قتل عام اور تقریبا ساڑھے پانچ ہزار بے بس عوام اور بچوں کا زخمی ہو جانا ان کے لئے کوئی بڑی بات ہی نہیں ہے۔ قاتلوں اور مجرموں کو سزا دینا تو در کنار انعامات سے نوازا جا رہا ہے۔ سفاک (صیہونی) حکومت کی سلامتی گویا کوئی ملکوتی شئی ہے جس کا ہر حالت میں دفاع ضروری ہے۔ جبکہ مظلوم، خواہ وہ حکومت ہو جو عوامی انتخاب سے بر سر اقتدار آئی ہے یا وہ عوام ہوں جنہوں نے اسے منتخب کیا ہے مورد الزام اور ملامت قرار پاتے ہیں۔ یہ اس سیاست کا فیصلہ ہے جسے اخلاقیات اور ضمیر و جذبات سے کوئی نسبت نہیں ہے اور جس کا ان چیزوں سے راستہ ہی الگ ہے۔ یہ حکومتیں جب رای عامہ میں اپنے لئے شدید نفرت کا مشاہدہ کرتی ہیں تو اس کی بالکل نمایاں وجہ اور سبب پر نظر ڈالنے کے بجائے پھر سیاست بازی کی کوشش کرتی ہیں اور یہ معیوب سلسلہ اسی طرح جاری رہتا ہے۔
تمام عالم اسلام میں آباد میرے بھائيو اور بہنو! آپ تجربات سے سبق حاصل کیجئے۔
اسلامی بیداری کی برکت سے اس وقت ہماری قوم عظیم قوت کی مالک بن چکی ہے۔ مسلم ممالک کے بے شمار مسائل کا حل اس حیرت انگیز مجموعے کے اتحاد و بلند ہمتی پر موقوف ہے، جبکہ مسئلہ فلسطین عالم اسلام کا سب سے ہنگامی مسئلہ ہے۔
کبھی کبھار یہ بھی سننے میں آتا ہے کہ فلسطین تو ایک عرب مسئلہ ہے۔ اس سے مراد کیا ہے؟ اگر مراد یہ ہے کہ عربوں میں زیادہ قرابت داری کے جذبات پائے جاتے ہیں اور وہ زیادہ خدمت اور جد و جہد پر مائل ہیں تو یہ مستحسن چیز ہے اور ہم اس کی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ لیکن اگر مراد یہ ہے کہ بعض عرب ممالک کے سربراہ فلسطینی عوام کی اے مسلمانوں کی فریاد پر کوئی توجہ نہ دیں اور غزہ کےالمئے جیسے معاملات میں غاصب و ظالم دشمن سے تعاون کریں اور دوسروں پر جو اپنی ضمیر کی آواز سن کر مضطرب ہیں، غرائیں کہ آپ غزہ کی مدد کیوں کر رہے ہیں تو پھر اس صورت میں کوئی مسلمان، غیور و باضمیر عرب اس بات کو قبول نہیں کرےگا اور اس کے کہنے والے کو سرزنش اور مذمت سے معاف نہیں رکھے گا۔ یہ تو وہی اخزم والی بات ہو گئی جو اپنے باپ کی پٹائی کرتا تھا اور اگر کوئی مداخلت کرتا تو اسے پھاڑ کھانے کو دوڑتا، اس کے بعد اس کا بیٹا اپنے دادا کو لات اور مکوں پر رکھ لیتا تھا۔ یہیں سے عربی زبان میں ایک مثل رائج ہو گئی۔
انَّ بَنيَّ رمّلونی بالدّم شِنشِنةٌ اَعرِفُها من اَخزَم
فلسطینی عوام کی ہمہ جہت مدد و مکمل حمایت تمام مسلمانوں کے لئے واجب کفائی ہے۔ جو حکومتیں اسلامی جمہوریہ ایران اور بعض دیگر مسلمان ممالک پر فلسطین کی مدد کی وجہ سے اعتراض کرتی ہیں، وہ خود بڑھ کر امداد و حمایت کی ذمہ داری سنبھال لیں تو دوسروں سے یہ اسلامی فریضہ ساقط ہو جائے۔ اور اگر ان کے پاس اس کی ہمت و توانائی و جرئت نہیں ہے تو بہتر ہوگا کہ کیڑے نکالنے اور قانون شکنی کے بجائے دوسروں کے ذمہ دارانہ اور شجاعانہ اقدامات کی قدر و قیمت کو پہنچانیں۔
حاضرین محترم، آپ لوگ جنہوں نےاس کانفرنس میں شرکت فرمائی ہے، مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں صاحب نظر ہیں۔ آج ہمارا فریضہ ماضی کے ناکام نظریات اور باتوں کو دہرانا نہیں بلکہ ایسا حل پیش کرنا ہے جو فلسطین کو صیہونی حکومت کے ظلم و ستم سے نجات دلا سکے۔ ہماری تجویز جمہوریت کے تقاضوں پر پوری اترتی ہے اور عالمی رای عامہ کا بھی مشترکہ مطمح نظر ہو سکتی ہے۔ وہ تجویز یہ ہے کہ فلسطین کی سرزمین پر حق رکھنے والے تمام افراد بشمول مسلمان، عیسائی و یہودی، ایک ریفرنڈم میں شریک ہوکر اپنے (مطلوبہ) نظام کا ڈھانچہ طے کریں۔ اس ریفرنڈم میں وہ فلسطینی بھی شرکت کریں جنہوں نے سالہا سال تک بے وطنی کی مشقتیں برداشت کی ہیں۔
مغربی دنیا کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس راہ حل کو قبول نہ کرنا، جمہوریت کا پاس و لحاظ نہ رکھنے کی علامت ہے جس کا وہ ہر لمحہ دم بھرتے رہتے ہیں۔ یہ بھی ان کے لئے قلعی کھول دینے والا امتحان ثابت ہوگا۔
اس سے قبل بھی ان کا امتحان فلسطین میں ہوا جب غرب اردن اور غزہ کے علاقے کے انتخابات کے نتیجے کو جو حماس کےبر سر اقتدار آنے کی صورت میں نکلا، قبول کرنے سے انہوں نے انکار کر دیا۔ جو لوگ جمہوریت کو صرف اس صورت میں قبول کرتے ہیں، جب تک اس کے نتائج ان کے حسب منشاء ہوں، در حقیقت جنگ پسند اور مہم جو ہیں۔ اب اگر وہ امن و آشتی کی بات کرتے ہیں تو وہ دروغ اور جھوٹ کو علاوہ کچھ نہیں۔
اس وقت غزہ کی تعمیر نو کا مسئلہ فلسطین کے ہنگامی ترین مسائل میں ہے۔ حماس کی حکومت جو واضح اکثریت سے اقتدار میں آئی ہے اورصیہونی حکومت کو شکست سے دوچار کر دینے والی جس کی استقامت کی داستان فلسطین کی گزشتہ سو سال کی تاریخ کا سب سے سنہری باب ہے، اسے تعمیر نو سے متعلق تمام سرگرمیوں اور اقدامات کا محور ہونا چاہئے۔ مناسب ہوگا کہ مصری بھائی امداد کے لئے راستوں کو کھول دیں اور مسلم ممالک اور قوموں کو اس اہم ترین عمل میں اپنا فریضہ پورا کرنے دیں۔
آخر میں بائیس روزہ جنگ کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہوں گا جنہوں نے اپنے خون سے فلسطین کے (علاقے) غزہ کو اسلام و عرب دنیا کے وقار میں تبدیل کر دیا۔ میں ان کے لئے رحمت و بخشش کی دعا کرتا ہوں۔ اور فلسطین و لبنان و عراق و افغانستان کے شہیدوں، تمام شہدائے اسلام اور عظیم الشان امام (خمینی رہ) کی روح مطہرہ پر درود و سلام بھیجتا ہوں۔
خدا وند عالم کی بارگاہ میں اسلام و مسلمین کے عز و وقار، مسلم اقوام کی ایک دوسرے سے زیادہ سے زیادہ قربت اور عالم اسلام کی روز افزوں بیداری کی دعا کرتا ہوں۔
والسلام عليكم و رحمةالله و بركاته