تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے:
 

بسم‏اللَّه‏الرّحمن‏الرّحيم

آپ تمام جوانوں، اس قوم کے فرزندوں اور نور چشموں کو اسلامی انقلاب کے اقدار کے محافظین کی صف میں شمولیت کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ڈیفنس یونیورسٹی بیک وقت علمی مرکز بھی ہے اور جہاد کا سرچشمہ اور آہنیں ارادوں والے جوانوں کی تربیت گاہ بھی ہے۔ علم و جہاد اور ایمان و ارادہ جب یکجا جمع ہو جاتے ہیں تو ایسے انسانوں کی تعمیر ہوتی ہے جن کی ذات پر بھروسہ کرکے دنیا اپنے مستقبل کے تئیں پر امید ہو سکتی ہے۔ ماڈرن اور پوسٹ ماڈرن دنیا کی ایک بڑی مشکل یہ رہی کہ اس میں علم کو فساد و طغیان اور ظلم و جارحیت کے لئے استعمال کیا گيا۔ حالانکہ علم و دانش ایک الہی عطیہ ہے۔ اس الہی عطیے کے سلسلے میں اس سے بڑی ناشکری کیا ہو سکتی ہے کہ اسے ایک نسل، ایک قوم یا ایک گروہ ایک زمانے تک ظلم و سرکشی اور انسانی اقدار پر تجاوز اور ان کی نابودی کے لئے استعمال کرے۔ گزشتہ دو تین صدیوں بالخصوص گزشتہ عشروں میں یہی ہوا ہے۔ کچھ قوموں کی علم و دانش تک رسائی ہوئی۔ یہاں تک تو فطری بات تھی۔ کیونکہ تاریخ میں علم کبھی ایک قوم تو کبھی دوسری قوم کے پاس منتقل ہوتا رہا ہے۔ ایک زمانے میں دنیا کے مشرقی علاقے علم و دانش کا مرکز و محور تھے تو ایک زمانے میں مغربی علاقوں کو یہ مرکزیت و محوریت حاصل ہو گئی۔ لیکن جب ان (مغربی) قوموں کو علم ملا تو انہوں نے اسے اسعتمار اور سامراجیت کے لئے استعمال کیا، اس کے ذریعے قوموں کی سرکوبی کی۔ مشرق و مغرب میں ایشیا و افریقہ میں بہت سے ممالک اپنی عظیم اقوام سمیت، مغربی ممالک کے علم و سائنس کے ذریعے کچل دئے گئے۔ انسانی نسلوں کو غلام بنا لیا گيا۔ آج کے سیاہ فام امریکی، انہیں غربت کے مارے لوگوں کی اولادیں ہیں جنہیں مغربی سامراجی طاقتیں افریقی ممالک سے قید کرکے اپنے ساتھ لے گئی تھیں۔ ان بیچاروں کا ان کے گھروں اور کھیتوں سے جانوروں کی طرح شکار کیا جاتا تھا اور پھر ان سے بڑے طاقت فرسا کام لئے جاتے تھے۔ یہ سلسلہ پوری دنیا میں چلا، خود بر صغیر ہند اور ایشیا کے بہت سے علاقے اس تاریک دور سے گزرے۔ اپنے علم سے اس دانش کے ذریعے جو اللہ تعالی کا عطیہ تھا بندگان خدا اور خلق خدا کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کی زندگیاں ایک طویل عرصے کے لئے جہنم بنا دی گئیں۔ ہر علم در حقیقت سیڑھی کے ایک زینے کی مانند ہوتا ہے، جب انسان ایک زینہ چڑھ جاتا ہے تو اس کے لئے دوسرے زینے پر جانا آسان ہو جاتا ہے، یہ فطری بات ہے۔ ان مغرب والوں نے جو علم حاصل کئے اس سے خود کو ایک ایک زینہ اوپر پہنچایا یہاں تک کہ ایٹم بم بنا ڈالا، کیمیاوی اسلحہ بنا ڈالا۔ نسلوں کی نسلیں تباہ کر دی گئیں اور انسانوں کو سوگوار کر دیا گيا۔ دنیا کی جو درگت ہوئی اس کا مشاہدہ آج آپ سیاسی نقشے پر ایک نظر ڈال کر بآسانی کر سکتے ہیں۔ دنیا کو جابر اور مظلوم، ستمگر اور ستمدیدہ دو دھڑوں میں تقسیم کر دیا گیا اور دونوں کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ ڈال دیا گیا۔ دنیا کا سیاسی جغرافیا اور ثقافتی جغرافیا گزشتہ صدیوں میں یہ شکل اختیار کر گيا۔
میرے عزیزو! ملت ایران کا عظیم اسلامی انقلاب اسی حالت کے خلاف انسانیت کا عظیم قیام تھا۔ ہمارا انقلاب اسلام، توحید، عدل و انصاف اور انسانی وقار کے نعرے کے ساتھ اس دنیا میں معرض وجود میں آیا جو ظلم و جور سے بھر چکی تھی اور جہاں انسانوں کو عطا کی گئی الہی نعمتوں اور عطیات کو ان کی سرکوبی کے لئے استعمال کیا جا رہا تھا۔ اس حالت کے خلاف انقلاب آيا۔ آج جو لوگ ملت ایران اور اسلامی جمہوریہ ایران سے یہ کہتے ہیں کہ وہ عالمی نظام کی جانب لوٹ آئے، وہی لوگ ہیں جو حساس ترین مرحلے میں ایک قوم کی اس عظیم تحریک سے ناخوش اور سراسیمہ ہیں۔ عالمی نظام کی جانب واپس لوٹ جانے کا مطلب ہے کہ نظام کی نا انصافیوں کو تسلیم کرکے آپ بھی نا انصافیوں کے نظام کا جز بن جائیے۔ ملت ایران سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ تیس سال سے ملت ایران اپنی خود اعتمادی، اپنے سرچشمہ ایمانی پر مکمل اعتماد و ایقان کے ساتھ اس جاہلانہ، مجنونانہ اور غیر منطقی مطالبے کا جواب نفی میں دیتی آئی ہے۔ ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام پر ان تیس برسوں میں جو دباؤ ڈالا گیا اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ انقلاب اپنے بلند مقام اور انسان ساز معنوی و ملکوتی منزلت سے نیچے آ جائے۔ ظاہر ہے وہ اس میں ناکام رہے اور یہ بھی طے ہے کہ آئندہ بھی انہیں ناکامی کا ہی منہ دیکھنا ہے۔ يريدون ليطفئوا نور اللَّه بافواههم و اللَّه متم نوره و لو كره الكافرون نور خدا، نور توحید، نور عدل اور بندگی خدا کے عز و شرف کے احساس کا نور جب انسانوں کے دلوں میں جلوہ فگن ہو جاتا ہے تو پھر اس نور کو کوئی بھی طاقت خاموش نہیں کر سکتی۔
میرے نوجوانو! آپ ایسی مقدس حقیقت اور بلند ماہیت کے پاسبان ہیں۔ آپ کو اس پر فخر کرنا چاہئے۔ انقلاب کے ابتدائی ایام میں ملک کے پاکیزہ ترین نوجوانوں کے درمیان سے پاسداران انقلاب فورس کا وجود سامنے آیا۔ عزیزو! آپ نے ان دنوں کو نہیں دیکھا۔ وہ جوان بھی آپ ہی کے ہم سن تھے۔ بیس سالہ، اٹھارہ سالہ، بائیس سالہ۔ انہوں نے ہی اپنے عزم راسخ اور آہنیں ارادوں سے، ایمان کے بلند درجے پر فائز ہوکر پاسداران انقلاب فورس کو وجود بخشا اور انہیں ابتدائی ایام سے ہی میدان جہاد میں قدم رکھ دیا۔ دشمن نے انقلاب کے نور کو خاموش کر دینے کے لئے جنگ مسلط کی لیکن یہی مسلط کردہ جنگ انقلابی جذبے اور انقلابی قوت کے آتش فشاں کو شعلہ ور کر گئی۔ میدان جنگ میں ان عزیز نوجوانوں نے عظمتوں کی داستان رقم کی، ان کی استعداد کے باطنی چشمے ان کے پاکیزہ اور منور دلوں میں ابلنے لگے اور وہ نوجوانی کے ایام میں ہی بے مثال مجاہد، اعلی کمانڈر اور مدبرانہ صلاحیتوں کے مالک افراد میں تبدیل ہو گئے۔ اسلامی جمہوری نظام تا ابد ان کا احسان مند رہے گا۔ آپ انہی عزیزوں کے پیروکار ہیں۔ انہی پیشرؤں کے جا نشین ہیں۔ یہ جو کہا گيا ہے کل یوم عاشورا و کل و ارض کربلا اس سے مراد یہ ہے کہ زمانہ تو گزرتا رہتا ہے لیکن انسانی زندگی کے پے در پے رونما ہونے والے واقعات اور خلقت کے حقائق بدستور باقی رہتے ہیں۔ ہر دور میں انسانوں کا ایک اہم کردار ہوتا ہے جسے انہوں نے اگر بر وقت صحیح انداز میں انجام دیا تو سب کچھ معمول پر آ جاتا ہے اور قومیں ترقی کرتی ہیں، انسانیت کا بول بالا ہو جاتا ہے۔ ان نوجوانوں نے ایسا ہی کیا۔ بر وقت اپنا کردار نبھایا۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج اس واقعے کو کئی عشرے گزر جانے کے بعد بھی آپ دیکھ رہے ہیں کہ ملت ایران ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، ان کی کوششوں کو آگے بڑھاتے ہوئے اور بزرگوار امام (خمینی رہ) کی رہنمائی کے زیر سایہ نئی نئی بلندیاں سر کرتی جا رہی ہے۔ آپ جنگ کے دور بالخصوص ابتدائی برسوں کو یاد کیجئے اور اس وقت کے مالی اور اسلحہ جاتی بحران اور تجربے کے فقدان کا آج کی سائنسی ترقیوں، تحقیقات کے میدان کی کامیابیوں اور گراں بہا تجربات سے موازنہ کیجئے۔
آپ ڈیفنس یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کریں گے، اپنی فکر و نظر اور ارادے و جذبے کی تعمیر کریں گے اور بڑے عظیم اور پر افتخار میدان میں قدم رکھیں گے۔ یہ یونیورسٹی اس طرح کی منزلت کا سرچشمہ ہے۔ آپ اس یونیورسٹی میں اپنے داخلے اور یہاں تعلیم مکمل کرنے پر ف‍خر کیجئے۔ اسے اللہ تعالی کی عظیم نعمت تصور کیجئے جو یقینا عظیم نعمت ہے اور اس کی حفاظت کرتے ہوئے آگے بڑھئے۔ آپ کے ملک کو مومن نوجوانوں کی ضرورت ہے۔ اللہ کا لطف و کرم ہے کہ دشمن کی تمام تر رخنہ اندازیوں کے باوجود جن کا اصلی ہدف نوجوان نسل ہے، ہمارے نوجوان اللہ تعالی اور الہی راستے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ دشمن کی شومی قسمت کہئے کہ ہمارے نوجوان با ایمان ہیں۔ ہمارے آج کے مومن نوجوان صدر انقلاب کے با ایمان نوجوانوں سے اگر آگے نہیں توان سے پیچھے بھی نہیں ہیں۔ وہ کٹھن گھڑی وہ مسلط کردہ جنگ کا زمانہ جو استعدادوں اور صلاحیتوں کے نمایاں ہونے کا موقع تھا اگر کسی با استعداد نسل کے سامنے ہو تو معجزاتی مناظر سامنے آتے ہیں۔
آج آپ کا میدان الگ ہے۔ آج آپ کے سامنے، علم و دانش، ترقی و پیشرفت، اپنی اور ملک کی تعمیر اور دفاع کے لئے آمادگی کا میدان ہے۔ دشمن عناصر، دنیا کی بڑی سامراجی طاقتیں، جو قوموں کے عناد میں ڈوبی ہوئی ہیں، جو ملت ایران ہی نہیں بلکہ انسانیت و کمال و فضیلت کی دشمن ہیں، گيدڑ بھبکیوں کے سہارے اپنے کام نکال رہی نہیں۔ قوموں کو مرعوب کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ہراساں کرکے قوموں کو میدان عمل سے نکل جانے پر مجبور کر رہی ہیں۔ ان بڑی طاقتوں کی دھونس میں ہرگز نہ آئیے۔ آپ پر ان کی مادی طاقت کے رعب سے زیادہ ان پر آپ کی معنوی و روحانی ہیبت طاری ہے۔ جب آپ اپنے ایمان، اپنی تیاریوں، اپنے علم، اپنی مدبرانہ صلاحیتوں اور اپنے منصوبوں پر تکیہ کریں گے، جب آپ انقلاب کے چشمے سے ابلنے والی اقدار پر عمل پیرا ہوں گے، ان کے ذریعے اپنے ایمان کی حفاظت کریں گے تو تمام قومیں آپ سے کچھ اس طرح متاثر ہوں گی کہ ان (بڑی طاقتوں) کی ہیبت اس کے سامنے ہیچ ہوگی۔ آج دشمن خوب جانتا ہے کہ ملت ایران، ان مومن نوجوانوں، ان پختہ ارادے کے مالک افراد اور اپنی اقدار پرکاربند ہوکر فخر کرنے والے حکام کی شکل میں ملت ایران کے پاس ایسا بیش بہا سرمایہ ہے کہ اسے کسی کا کوئی خوف نہیں ہے۔ اسے وہ(دشمن) بھی جانتے ہیں۔
آپ اپنی با شکوہ اور با شرف وردی پہن کر دشمن کے اس خیال کو اور یقینی بنائیے۔ اپنی شخصیت کو روحانی لحاظ سے سنوارئے۔ اللہ تعالی کی بندگی اور اس کی بارگاہ میں خضوع و خشوع کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان کسی بھی تسلط پسند طاقت کے سامنے کبھی جھکے گا نہیں۔ جس دل کو خوف خدا ہوگا وہ اپنے آپ کو ایسا با وقار محسوس کرے گا کہ اس وقار کے سامنے بڑی سے بڑی طاقتیں ٹک نہیں پائيں گی۔ آپ اپنی بندگی میں روز بروز اضافہ کیجئے۔
پروردگارا! ان عزیز نوجوانوں، اسلام کے ان سپاہیوں، مسلح فورس کے اہلکاروں، فوج، رضکار فورس، پاسداران انقلاب فورس اور پولیس فورس کو میں تیری پناہ میں دیتا ہوں۔ خدایا! ان پر اپنی رحمتیں نازل فرما۔

 

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته