اپنے خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے اتحاد، شراکت اور بیداری کو ملت ایران کے عظیم کارناموں کے تین بنیادی عناصر قرار دیا۔ تفصیلی خطاب پیش نظر ہے:
بسم‏اللَّه‏الرّحمن‏الّرحيم‏
والحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا أبى القاسم المصطفى محمد و على اله الأطيبين الأطهرين و صحبه المنتجبين سيّما بقيّة اللَّه فى الأرضين‏

یہ میری خوش قسمتی ہے کہ درخشاں تاریخ اور عظیم افتخارات کے حامل بیجار اور گروس کے علاقے کے شجاع عوام کے مہر و محبت سے معمور اجتماع میں حاضر ہوا۔ تاریخ میں اپنے بڑے کارناموں کے علاوہ بیجار کے عوام نے دور حاضر میں بھی انقلاب کے مختلف واقعات، مسلط کردہ جنگ اور مقدس دفاع کے دوران ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے سلسلے میں اپنا جوہر دکھایا۔ یہاں کے مرد و زن اور پیرو جواں نے ایسی شجاعت کا مظاہرہ کیا جو کبھی فراموش نہیں کی جا سکتی۔ ابھی چند لمحے قبل ہم نے گلزار شہدا(شہیدوں کے قبرستان) میں چند اسکولی لڑکوں کی مقدس قبروں کی زیارت کی جو ایک ساتھ میدان جہاد میں گئے اور درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔ یہ کسی بھی قوم اور کسی بھی شہر کے لئے بڑی عظیم نشانیاں ہیں۔ تاریخ انہیں چیزوں کی بنیاد پر نتیجہ اخذ کرتی ہے۔ ماضی میں ارباب اقتدار اور مرکز میں مقیم عہدہ داروں کا وتیرہ یہ رہا کہ انہوں نے دور دراز کے علاقوں اور وہاں آباد قوموں کو نظر انداز کیا لیکن آج اسلامی جمہوری نظام میں اس طویل و عریض سرزمین ایران کے کسی بھی گوشے میں آباد ایرانی شہری کو مخصوص اہمیت او ارزش کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ انہیں اہمیتوں اور انہیں الگ الگ شخصیتوں کے مالک افراد، انہیں ارادوں اور جذبات کے مجموعے کا نام ہے عظیم ملت ایران۔ وہ عظیم قوم جس نے عصر حاضر میں دنیا کی سامراجی طاقتوں کی مرضی کے برخلاف اپنے وجود، اپنے ارادے اور اپنے اثرات کو مخالفین سے بھی تسلیم کروا لیا۔ ملت ایران کی استقامت جو آج مثال بن چکی ہے اور بہت سی قوموں کے لئے قابل تقلید نمونہ ثابت ہوئی ہے، ملک کے ایک ایک شہری کی استقامت سے مل کر وجود میں آئی ہے، یہ ملک کی ہر قوم، ہر شہر اور ہر گوشہ وکنار کی مخصوص شناخت کا مجموعی نتیجہ ہے۔ شہر بیجار کی ایک خصوصیت جو اپنی جانب توجہ مرکوز کراتی ہے، یہاں کے لوگوں کا محب اہل بیت ہونا ہے، خواہ وہ سنی ہوں یا شیعہ۔ یہ لوگ بڑے بڑے امتحانوں سے سرخرو ہوکر باہر نکلے ہیں۔ ان عزیزوں نے ملک کی سرحدوں کی حفاظت میں بڑی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ کردستان کے عوام پورے صوبے منجملہ شہر بیجار میں جو شیعوں کا مرکز ہے شیعہ سنی ایک دوسرے کے ساتھ آپس میں ضم ہوکر زندگی بسر کر رہے ہیں اور اسلامی اتحاد و یکجہتی کا نمونہ بنے ہوئے ہیں۔ یہ چیزیں قابل قدر ہیں۔ حالیہ برسوں ہی نہیں بلکہ ماضی کے سلسلے میں ہم نے جو مطالعہ کیا اور جو تجزیہ کیا اس میں یہ محسوس ہوا کہ (شاہ کے) طاغوتی دور میں اس علاقے کے بارے میں منفی سوچ پائی جاتی تھی۔ اس علاقے کے لوگوں کو غیر سمجھا جاتا تھا، یہ لوگ بے توجہی کا شکار تھے۔ اسی وجہ سے انقلاب کے فورا بعد امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے فرمان پر پہلا تعمیراتی گروہ کردستان تعمیراتی دفتر کے قیام کی غرض سے اس علاقے میں آیا تاکہ خدمت کا سلسلہ شروع ہو اور بہت دنوں سے جمع ہوتی آ رہی مشکلات کو برطرف کیا جائے۔ البتہ انقلاب دشمن عناصر نے کچھ عرصے تک جو بد امنی پھیلائی اس سے مواقع ضائع ہوئے کاموں میں خلل پڑ گیا لیکن وطن عزیز کے نوجوانوں نے خواہ وہ تعمیراتی جہاد سے وابستہ ہوں، ان کا تعلق پاسداران انقلاب فورس سے ہو یا پولیس اور فوج سے انہوں نے آپ لوگوں کی حمایت سے اس صوبے اور اس علاقے میں کام انجام دئے۔ البتہ پسماندگی اب بھی بہت ہے۔ محترم امام جمعہ نے بعض مطالبات کی جانب اشارہ کیا۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار حکومت نے اپنے اجلاسوں منجملہ دو روز قبل سنندج میں منعقدہ اجلاس میں مشکلات و مسائل کا جائزہ لیا اور بیجار کے علاقے کے سلسلے میں اہم فیصلے کئے گئے۔ اس کی رپورٹ ہمیں بھی ملی۔ ہم نے بھی تاکید کی کہ اس پر پوری توجہ رکھیں اور انشاء اللہ پوری توجہ رہے گی۔ اللہ تعالی نے چاہا تو آپ لوگوں کے تعاون سے عوام کی خدمت گزار حکومت اس علاقے اور یہاں کے عوام آپ عزیزوں کے لئے بڑے کام انجام دے گی۔ میں ایک نکتے کی جانب اشارہ کرنا چاہوں گا جس کا تعلق ملک اور انقلاب کے تمام اہم امور سے ہے تاہم بیجار کے مسائل سے اس کا گہرا ربط ہے اور وہ یہ کہ ملت ایران نے یہ عظیم کارنامہ جس سے دنیا والے دنگ رہ گئے تین بنیادی عناصر کے سہارے انجام دیا ہے۔ ایک اتحاد، دوسرے تعاون و شراکت اور تیسرے آگاہی و بیداری۔ ملت ایران نے اپنے اتحاد سے، اپنے تعاون اور شراکت سے اور اپنی آگاہی و بیداری سے یہ بڑا قدم اٹھایا اوردنیا کے سیاسی فکری شعبے میں نئی ثقافت اور نئی روش شروع کی۔ مسلمان قوموں کو اپنا تشخص ملا اور انہیں اپنی شناخت کا اندازہ ہوا۔ انہیں لگا کہ امت مسلمہ پر جو پسماندگی مسلط کر دی گئی ہے اس سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ بنابریں آپ دیکھ رہے ہیں کہ شمالی افریقہ سے لیکر مشرقی ایشیا تک تمام مسلمان اقوام پر ملت ایران کی تحریک کے اثرات مرتب ہوئے اور قوموں میں بیداری کی لہر پیدا ہوئی۔ فلسطین کے معاملے میں، لبنان کے معاملے میں اور عراق و افغانستان کے معاملے میں جگہ جگہ اور قدم قدم پر ملت ایران کے اثرات نظر آتے ہیں۔ یہ عظیم کارنامہ انہیں تین عناصر کے سہارے انجام پایا۔ قومی اتحاد نے دلوں کو نزدیک کیا، سب نے ایک ہی آواز بلند کی اور اپنی بات پوری دنیا تک پہنچائی۔ ملک کی مختلف قوموں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد اسلامی جمہوری نظام اور پرچم اسلام کی سربلندی کے لئے ایک دوسرے کے مددگار ہو گئے سب ایک عہد میں شریک ہوئے اور سب نے ایک ہی آواز بلند کی۔ اس اتحاد و ہم آہنگی نے انقلاب کے آغاز میں ہی دشمن پر ایسا رعب ڈالا کہ طاغوتی حکومت کی کمر ٹوٹ گئی۔ اس کے بعد بھی آج تک مختلف دشوار مراحل میں ملت ایران کے اتحاد نے دشمن کو اپنا پیغام بار بار پہنچایا ہے اور دشمن کو ملت ایران کی صفوں میں تفرقہ اندازی کے سلسلے میں مایوس کر دیا ہے۔ اس اتحاد کی حفاظت لازمی ہے۔
یہ بات میں نے سنندج میں بھی کہی اور یہاں بھی اس کا اعادہ کروں گا کہ مسلمان بھائی اسلامی اتحاد کو شیعہ سنی اختلاف پر ترجیح دیں اور مذہبی اختلاف کو روش اور موقف کے اختلاف میں تبدیل نہ ہونے دیں۔ ایرانی قوموں کا اتحاد، اسلامی مکاتب فکر کا اتحاد اور مختلف سیاسی دھڑوں کا اتحاد ملک کی ہیبت و دبدبے کا ضامن ہے۔ یہاں بھی سب کو میری یہی نصیحت ہے، جن علاقوں میں سنی بھائیوں کی اکثریت ہے وہاں بھی میں نے یہی کہا ہے اور اس شیعہ علاقے میں بھی میں یہی بات کہوں گا کہ ایک دوسرے کے ساتھ برادرانہ برتاؤ کیجئے، ایک دوسرے کے یاور و مددگار بنئے، ایک دوسرے کی مدد کیجئے۔ یہ پہلا نکتہ۔
دوسرا نکتہ ہے شراکت اور تعاون کا۔ میدان عمل میں عوام کا تعاون اور شراکت دشمن کی مایوسی پر منتج ہوا۔ اگر ان تیس برسوں میں عوام انتخابات، جلوسوں اور ریلیوں میں شرکت نہ کرتے، مختلف پروگراموں میں حصہ نہ لیتے، اپنے اور ملت ایران کے اس شاندار تعاون کا دشمن کے سامنے مظاہرہ نہ کرتے تو یقینا ملت ایران کا جو دبدبہ آج ہے نہ رہتا۔ اس تعاون اور شراکت کو برقرار رکھئے۔
ہماری طرف سے ہمیشہ انتخابات اور دیگر میدانوں میں عوام کی بھرپور شرکت پر جو تاکید رہتی ہے اس کی یہی وجہ ہے۔ یہ شراکت اور تعاون صرف انتخابات اور سیاسی میدان تک محدود نہیں ہے بلکہ ترقی اور معیشت کے میدان میں بھی عوام کی شراکت ضروری ہے اور جیسا کہ میں نے عرض کیا یہ بات پوری ملت ایران سے متعلق ہے اور بیجار کے سلسلے میں بھی یہ چیز صادق آتی ہے۔ بیجار کے عوام اپنے شہر اپنے سرسبز و شاداب میدانوں اور اپنے نہایت با برکت علاقے کی قدر پہچانیں۔ یہ جو اس علاقے سے دیگر علاقوں کی جانب عوام کی ہجرت کی خبریں ملتی ہیں وہ عوام کے تعاون اور شراکت کے منافی ہے، معاشی تعاون کے منافی ہے۔ یہیں ٹھہرئے اور اسے آباد کیجئے۔ وہ زمانہ بیت چکا ہے جب حکومتیں ان دور دراز کے علاقوں پر توجہ نہیں دینا چاہتی تھیں۔ خوش قسمتی سے حکومت کی توجہ ملک کے دور دراز کے علاقوں پر بھی ہے اور ان علاقوں کے مسائل کا بغور جائزہ لیا جا رہا ہے۔ میں خود بھی دیکھ رہا ہوں اور نزدیک سے مشاہدہ اور نگرانی کر رہا ہوں، میں خود محسوس کر رہا ہوں کہ صوبوں اور اضلاع کے مسائل پر کتنی توجہ دی جا رہی ہے۔ اس دن میں نے دیکھا کہ اسی بیجار کے علاقے کے سلسلے میں حکومتی عہدہ داروں نے اس علاقے کی مشکلات کی بالکل صحیح نشاندہی کی۔ پانی کی قلت کا مسئلہ، ڈیمز کے دیگر صوبوں کی جانب جھکاؤ اور اس علاقے کی پانی سے محرومی کی جانب ان کی پوری توجہ ہے اور وہ ان مسائل کا حل نکالنے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں۔ ان مسائل کے حل کے لئے کوشاں ہیں۔ یہ بہت اہم بات ہے کہ ملک کے اعلی حکام ملک کے مختلف مسائل کے حل کی فکر میں لگے رہیں خواہ وہ علاقے مرکز اور دارالحکومت سے دور ہی کیوں نہ ہوں اور بہت سے لوگوں کے لئے اجنبی جگہ ہی کیوں نہ ہو۔ یہ بڑی اچھی اور قابل قدر بات ہے۔ اب خود اس علاقے کے عوام کو بھی تعاون کرنا چاہئے۔ آپ تعاون کیجئے اور(میدان عمل میں) موجود رہئے۔ یہ تعاون ان اہم ترین امور میں ہے جو ملک کی سطح پر اور صوبے کی سطح پر ملت ایران کی عظیم پیشرفت کے سلسلے میں توجہ کا مرکز شمار کئے جاتے ہیں۔ آپ اپنے شہر، اپنے دیار، اپنی پرکشش با برکت اور سرسبز سرزمین کی قدر کیجئے، اس سے استفادہ کیجئے۔ حکام بھی بھرپور مدد کریں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں۔ تو یہ رہا تعاون اور شراکت کا مسئلہ۔
آگاہی کا مسئلہ یعنی تیسرا عنصر بھی بڑے اہم کردار کا حامل ہے بالکل اتحاد اور میدان عمل میں موجودگی اور تعاون کی مانند۔ ملت ایران نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ بیدار قوم ہے۔ اگر قوم بیدار و ہوشیار نہ ہوتی تو انقلاب کے شروعاتی دور کی متزلزل اور انقلاب سے عقیدت نہ رکھنے والی حکومتیں ملک کو کسی برے انجام پر پہنچا چکی ہوتیں۔ جو لوگ آشکارہ کہتے تھے کہ انقلاب سے انہیں کوئی دلچپسی نہیں، جو لوگ کہتے تھے کہ وہ امریکہ سے خوفزدہ ہیں، جو لوگ بڑی طاقتوں کے سامنے نرمی دکھانے، توہین برداشت کرنے اور سر تسلیم خم کر دینے پر مائل تھے، اگر وہ اقتدار میں رہ جاتے تو آج ہماری قوم کسی اور ہی راستے اور منزل پر پہنچی ہوتی۔ نہ عزت و وقار ہوتا، نہ ترقی و پیشرفت ہوتی اور نہ عالمی سطح پر ملت ایران کی موجودہ ہیبت کا کوئی نام و نشان ہوتا۔ ہمارے امام (خمینی رہ) ڈٹ کر کھڑے ہوئے گئے اور اپنی آگاہی کی برکت سے عوام امام خمینی کی حمایت میں آگے آئے۔ آگاہی و بیداری نے عوام کی مدد کی۔
میرے عزیزو! میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آگاہی و بیداری ہر آن ضروری ہے۔ آج بھی لازمی ہے اور کل بھی اس کی ضرورت رہے گی۔ خوش قسمتی سے ہماری آج کی نوجوان نسل ملک کی آبادی کا اکثریتی حصہ ہے۔ نوجوانوں کو بیدار اور ہوشیار رہنا چاہئے۔ معیار معین اور واضح ہیں۔ انتخابات میں اس آگاہی کا اثر ہونا چاہئے۔ قوم کے مطالبات پیش کرنے میں اس آگاہی کا اثر ہونا چاہئے، مختلف امور اور کارکردگیوں میں اس آگاہی کا اثر ہونا چاہئے۔ میں نے انتخابات کے معیار اس دن بیان کئے تھے اور آج اسی کو مکمل کرنا چاہوں گا، انتخابات میں ملت ایران یہ خیال رکھے کہ اس کے ووٹوں سے ایسے افراد اقتدار میں نہ پہنچ جائیں جو دشمنوں کے سامنے کورنش بجا لانے اور ملت ایران کی عزت سے کھلواڑ کرنے کو تیار ہیں۔ ایسے لوگ بر سر اقتدار نہ آنے پائیں جو مغرب کی چاپلوسی اور مغربی حکومتوں کی خوش آمد کرکے عالمی میدان میں کوئی پوزیشن اور مقام حاصل کرنے کی خام خیالی میں مبتلا ہوں۔ ان چیزوں (مقام و پوزیشن) کی ملت ایران کی نظر میں کوئی وقعت نہیں ہے۔ ایسے لوگ اقتدار میں نہ آنے پائیں جن کو دیکھ کر دشمن کی امید بندھ جائے اور وہ ان کے سہارے قوم کی صفوں میں اختلافات ڈال دیں، لوگوں کو دین، اصولوں اور انقلابی اقدار سے دور کر دیں۔ قوم کو بیدار رہنا چاہئے۔ اگر اقتدار میں ایسے افراد آ گئے جو مختلف سیاسی اور اقتصادی مراکز میں جاکر امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے نظریات پر عمل کرنے اور ان کے معین کردہ اصولوں کی پیروی کے بجائے کبھی کسی مغربی حکومت تو کبھی کسی بڑی طاقت کا دل جیتنے کی کوششوں میں لگ جائیں تو یہ ملت ایران کے لئے بہت بڑی آفت ہوگی۔ قوم کے لئے اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ کردستان کے اپنے اس سفر میں یہاں کے عزیز عوام کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل ہوئی آپ جیسے ملنسار، وفادار، شجاع، پاکیزہ اور محبتی لوگوں کے بارے میں مزید بہت سے حقائق سامنے آئے، البتہ اس سے قبل بھی میں نے اس علاقے کے بارے میں بہت کچھ پڑھا اور سنا تھا۔ میں امید کرتا ہوں کہ ملک کے حکام آپ جیسے با ایمان، با وفا اور نجیب افراد کی قدر و منزلت کا خیال رکھیں گے اور آپ بھی خدمت کے جذبے سے سرشار ان حکام کی قدر کیجئے۔ عوام اور حکام کے اتحاد و یکجہتی سے ہی ہمارا وطن عزیز ان اہداف کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا جو اسلامی انقلاب اور حقیقی دین اسلام نے معین کئے ہیں۔
خدایا! تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ یہاں کے لوگوں پر اپنی رحمتوں، برکتوں، فضل و عنایات اور توفیقات کی بارش کر دے۔ پروردگارا! اس عظیم علمی ہستی، اس فقیہ عارف (1) کی روح مطہرہ کو جس کی رحلت حقیقت میں ہمارے لئے بڑی جاں گداز ہے اولیاء کے ساتھ محشور فرما۔ پروردگارا! ہمیں، تہذیب نفس اور حقیقی معرفت کے حصول کی توفیق عطا فرما۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‏

1 آيةاللَّه بهجت‏