آپ نے اس سلسلے میں پوری توجہ اور تندہی سے کام کرنے کی ضرورت پر تاکید کی۔ تفصیلی خطاب پیش نظر ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم

سب سے پہلے تو میں اپنے تمام عزیز بھائیوں، بہنوں، محنت کشوں، معلمین، اسکولی طلبا اور بچوں کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ دعا ہے کہ آپ جہاں بھی رہیں، جس محاذ پر بھی خدمت میں مشغول ہوں، لطف و فضل الہی آپ کے شامل حال رہے۔
ان ایام میں، آیت اللہ مطہری شہید کے یوم شہادت، یوم معلم اور یوم محنت کشاں کی مناسبت سے موقع ہے کہ اہل نظرحضرات اور صاحبان فکر ان دو تین بنیادی اور حیاتی موضوعات پر بولیں، ہرموضوع میں حقائق کو روشن کریں اور ان شعبوں میں قوم کی معلومات کی سطح بلند کریں تاکہ الحمدللہ اس میں اور اضافہ ہو۔
شہید مطہری کے بارے میں ایک جملہ عرض کروں گا۔ اگر چہ تیرہ چودہ سال سے اس شخصیت کے بارے میں بارہا اور بارہا گفتگو کی ہے اور سنی ہے، مگر یہ نہ ختم ہونے والی کتاب ہے۔ شہید مطہری جیسی ہستی کی فضیلت، واقعا ایسی نہیں ہے کہ برسوں میں بھی اس کے بیان کا حق ادا کیا جا سکے۔ بنابریں اس عزیز قوم کو مطہری کے بارے میں مزید بتایا جائے۔ وہ جملہ یہ ہے کہ شہید مطہری مجاہد راہ خدا تھے۔ جہاد کی اقسام ہیں۔ جہاد کی ایک سخت ترین قسم یہ ہے کہ لوگوں کے غلط ادراک اور انحرافی ثقافتوں اور غلط افکار کی یلغار کے مقابلے میں، جو لوگ حق کی شناخت رکھتے ہیں، وہ کھڑے ہو جائیں، حق کا دفاع کریں اور اپنے فکر انگیز منطقی بیان سے، زبان و قلم کے اسلحے سے صحیح راستے کی جانب ذہنوں کی ہدایت کریں۔ یہ انتہائی دشوار جہادوں میں سے ہے اور شہید مطہری نے یہ سخت جہاد طویل برسوں تک انجام دیا۔ وہ صاحب بصیرت اور نافذالبصیرت انسان تھے۔ معمولی انسان نہیں تھے۔ ان کی بینش بہت تیز تھی۔ معاشرے پر نظر رکھتے تھے۔ قوم سے مسائل کے فہم و اداراک میں، دشمنوں کی تلقین کے باعث جو غلطیاں ہو جاتی تھیں انہیں سمجھتے تھے کہ کیا ہیں اور پھر ان کے خلاف جد و جہد شروع کر دیتے تھے۔ اسی جد و جہد نے جو جہاد فی سبیل اللہ تھا، انقلاب کی کامیابی میں بہت مدد کی ہے کیونکہ جب تک لوگوں کی فکر صحیح نہ ہو، ان سے صحیح کام نہیں ہوتا ہے۔ فکر صحیح ہو تو انسان کا کام بھی صحیح ہوتا ہے۔ صحیح راستے پر اعتقاد پیدا ہوگیا تو اس راہ میں آگے بڑھتا ہے، اس پر چلتا ہے۔ شہید مطہری نے لوگوں کی شناخت میں مدد کی کہ راستے کو پہچانیں۔ بنابریں انہوں نے اس انقلاب کی کامیابی اور اس عوامی تحریک کی ہدایت میں مدد کی۔
جو لوگ ان سخت ایام میں، جد و جہد کے میدان میں موجود تھے، کاش وہ بیٹھتے اور ان دنوں جس طرح دل کڑھے ہیں، جو تکالیف پہنچی ہیں، جس طرح دل خون ہوئے ہیں، ان سب کو اپنے تجزیاتی قلم سے تحریر کرتے، بیان کرتے تاکہ ہمارے یہ عزیز یہ نوجوان متوجہ ہوں کہ کن راستوں سے ہم گذرے ہیں۔
کبھی بس سخت راستے سے عبور کرتی ہے اور وہ مسافر جو سویا ہو متوجہ نہیں ہوتا کہ اس پرپیچ راستے کو عبور کرنے میں ڈرائیور، کنڈکٹر، اور چند لوگ جو بیدار تھے، ان پر کیا گذری، اس سب کو لکھیں تاکہ لوگوں کو معلوم ہوکہ مطہری جیسی شخصیات نے اس دور میں کیا کیا ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ وہی جدوجہد باعث ہوئی کہ مطہری درجہ شہادت پر فائز ہوں۔ یعنی وہ دشمن جس نے مطہری کو شہید کیا، ان کا خون بہایا، وہ دشمن تھا جس کو ان ہدایات اور معلومات سے جو وہ لوگوں کو فراہم کیا کرتے تھے، تکلیف پہنچتی تھی۔ چونکہ مطہری اشتراکیت کے مقابلے میں کھڑے ہوئے، نفاق کے مقابلے میں کھڑے ہوئے، مشرق و مغرب کی ثقافتی یلغار کے مقابلے میں کھڑے ہوئے، حقیقی اور فقاہتی اسلام کی ترویج کی لہذا جو لوگ ان چیزوں کے مخالف تھے، انہوں نے انہیں شہید کر دیا۔ اگر ان کے لئے ممکن ہوتا جو بھی مطہری جیسا ہوتا مطہری سے چھوٹا ہوتا ان کی راہ پر ہوتا، ان سب کو قتل کر دیتے، مگر خدائے متعال نے انہیں اس کا موقع نہیں دیا اور انشاء اللہ ہرگز نہیں دے گا۔
بنابرں مطہری کی قدردانی ان باتوں کی وجہ سے ہے۔ میں بعض اوقات دیکھتا ہوں کہ بعض افراد مطہری کے بارے میں ایسی باتیں کہ دیتے ہیں اور لکھ دیتے ہیں جو مطہری سے ان کی ناواقفیت کی وجہ سے ہے۔ غلط اور عجیب وغریب باتیں ان کے بارے میں لکھتے اور بیان کرتے ہیں، کہ ان کی روح کو بھی اس کی خبر نہیں ہوتی۔ افسوس کہ یہ حقیقت ہے۔ یعنی وہی لوگ جنہوں نے مطہری کے افکار کے اوج کے زمانے میں، ایک عمر ان کی مخالفت کی، آج چونکہ مطہری کا نام درخشاں ہے، یہاں وہاں اس نام کا سہارا لیتے ہیں پھر بھی اس نام کی آڑ میں اپنی وہی باتیں کرتے ہیں ۔
ان کے بارے میں دو باتیں اور، یعنی معلمی اور تعلیم و تربیت ، اس بات کو شاید آٹھ دس سال قبل ، میرا خیال ہے کہ نماز جمعہ میں عرض کرچکا ہوں کہ لوگ توجہ کریں کہ انہوں نے معاشرے کی سعی و کوشش کو کس طرح جہت دی۔ یہ یعنی خود مختاری جو ایک قوم کے لئے اہم ہے ۔
خودمختار قوم یعنی وہ قوم کہ امریکی و برطانوی مالکین یا کبھی روسی بھی ہوا کرتے تھے، ان کے جیسے دوسرے بھی، اس کے فیصلوں میں مداخلت نہیں کر سکتے کہ وہ کام کریں جو خود ان کے مفاد میں ہو اور جو اس قوم کے مفاد میں ہو اس کو دور پھینک دیں۔ جو ممالک خود مختار نہیں ہیں وہ اسی طرح ہیں۔ آج بعض ملکوں کو جن کا میں نام نہیں لوں گا آپ خود متوجہ ہوجائیں گے کہ میں کن جگہوں کے بارے میں کہ رہا ہوں، دیکھیں ان ممالک کے سربراہ ایسے ہیں جو ہر وقت امریکی فرمان پر عمل کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ جب کسی قوم اور ملک کے سربراہ ایسے ہوں، تو وہ کیا کرتے ہیں ؟ ظاہر ہے کہ امریکا کے نفع میں کام کرتے ہیں ۔اس ملک میں ہرفیصلہ اور اس کا نفاذ، خرید و فروخت سے لیکر، لوگوں کو اوپر لانے، ہٹانے، منصوب کرنے، برطرف کرنے تک غرض ہر کام وہ کیا جاتا ہے جو امریکی آقاؤں کے نفع میں ہو اور جو کام بھی عوام کے فائدے میں ہو اس کو انجام نہیں دیا جاتا۔ کسی قوم کا خود مختار نہ ہونا، ایسی مصیبت ہے۔ ایران میں ماضی کی حکومت میں ایسا ہی تھا۔ ماضی میں اس ملک کی سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ وہ منحوس پہلوی حکومت امریکا سے اور اس سے پہلے برطانیہ سے وابستہ تھی۔ وہ بتاتے تھے کہ کون اوپر آئے، کون وزیر اعظم ، حاکم، وزیر یا پٹرولیم کمپنی کا ڈائریکٹر ہو یا کون سا عہدہ کس کے پاس ہو۔ جن کو امریکی کہتے تھے ان کو اعلا عہدے دیئے جاتے تھے اور جس کو بھی اس قوم کے بیرونی دشمن چاہتے تھے کہ ہٹا دیں، پہلوی حکومت اس کو ہٹانے کے لئے پورا زور لگا دیتی تھی۔ اس ملک میں اگر کوئی کام امریکیوں کے فائدے میں ہوتا تھا تو حکومت اس کو انجام دیتی تھی اور جو کام ان کے نقصان میں اور عوام کے فائدے میں ہوتا تھا اس کو انجام نہیں دیتی تھی بلکہ اس کام کی مخالفت بھی ہوتی تھی۔ کسی ملک کا خودمختار نہ ہونا یہ ہوتا ہے ۔
ہماری قوم نے جد و جہد کی اور خود مختاری حاصل کی۔ یہ خودمختاری کیا ہے؟ یہ مسئلہ اہم ہے۔ تین طرح کی خود مختاری ہوتی ہے اور تینوں یکے بعد دیگرے ہیں۔ ان میں پہلی مشکل ہے۔ دوسری اس سے زیادہ مشکل ہے اور تیسری سب سے مشکل ہے۔ وہ جو مشکل ہے اور ہماری قوم نے اس مشکل (خود مختاری) کو حاصل کرلیا اور اس کا نتیجہ بھی اس کو مل گیا، وہ سیاسی خود مختاری ہے۔ یہ ہم نے حاصل کرلی۔ یہ بہت مشکل تھی۔
سیاسی خودمختاری کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ آج جو لوگ ذمہ دار ہیں، حکومت، پارلیمنٹ اور عدلیہ سب آپ، عوام کے خدمتگزار ہیں۔ اگر پوری دنیا جمع ہو جائے، امریکا، برطانیہ، یورپ حتی جب دنیا میں مشرقی اور مغربی دو سپر طاقتیں تھیں، یہ ساری طاقتیں اگر ایک ہوجاتیں اور یہ چاہتیں کہ یہ قوم یہ ملک، اس سمت میں ایک قدم بڑھ جائے جو عوام کے نقصان میں اور خود ان کے فائدے میں ہے، تو اس ملک کے حکام، سربراہ اور خدمتگزار اس کی اجازت نہیں دیتے۔ یہ سیاسی خودمختاری ہے۔ سیاسی خود مختاری یعنی یہ کہ آج وہ لوگ اس مملکت میں حکومت کر رہے ہیں جنہیں عوام چاہتے ہیں۔ کچھ دنوں کے بعد صدارتی الیکشن ہے۔ عوام اس شخص کو منتخب کریں گے جسے امور مملکت چلانے کی توانائی اور صلاحیت کا مالک اور قابل اعتماد سمجھیں گے۔ بکواس کرنے والے، بکواس کریں گے، بکواس کرنے والے تو خدا کے بارے میں بھی بکواس کرتے رہتے ہیں۔
ہر درونی کہ خیال اندیش شد چون دلیل آری خیالش بیش شد
جن کا باطن بیمار ہے، اس ملک میں جتنا بھی دیکھیں ان کی آنکھیں نہیں دیکھیں گی۔ لوگوں کو دیکھ رہے ہیں، لوگوں کا جوش و ولولہ دیکھ رہے ہیں، حکام سے عوام کی محبت کو دیکھ رہے ہیں، ملک کے حکام کا خلوص دیکھ رہے ہیں، دیکھ رہے ہیں کہ عوام ملک کے حکام کا انتخاب کرتے ہیں، اس کے باوجود بیکار باتیں کرتے ہیں۔ الزام لگاتے ہیں۔ عوام اور انتخابات کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ حکام پر الزام لگاتے ہیں۔
یہ اس قابل نہیں ہیں کہ ان کو اہمیت دی جائے۔ ان پر کوئی توجہ نہیں دینی چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ الحمد للہ اس قوم نے اپنی طاقت سے سیاسی خود مختاری حاصل کی ہے۔ آج ہمارا ملک سیاسی لحاظ سے ایک خود مختار ملک ہے۔ ایسا ملک ہے جو اپنے پیروں پر کھڑا ہے۔ یہ ایسی چیز نہیں جو مجھے کہنے کی ضرورت ہے۔ غیر ملکی دوروں میں میں نے سربراہان مملکت سے گفتگو کی ہے۔ میری صدارت کے دور میں اور اس کے بعد دسیوں سربراہان مملکت نے مجھ سے گفتگو کی ہے اور سب اس بات کو قبول کرتے ہیں۔ سب اس کو کہتے ہیں اور سب اس کو سمجھتے ہیں۔
ایک دن مشرق اور مغرب نے اس ملک کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے آپس میں ہاتھ ملایا تھا، جب ہم اپنے حق کا دفاع کر رہے تھے تو سب ایک دوسرے کا ہاتھ تھام رہے تھے تاکہ ہمیں اپنے حق کا دفاع نہ کرنے دیں۔ مگر وہ ایسا نہ کر سکے۔ آج بھی وہ متحد ہوئے ہیں کہ فلسطینیوں کا حق تلف کریں۔ ہم بھی کھڑے ہوئے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم مخالف ہیں۔ ان کی آوازیں نکل پڑی ہیں کہ ایران مخالفت کیوں کر رہا ہے؟ یہ بات خصوصی جلسوں میں کہتے ہیں۔ عام جلسوں میں کہتے ہیں۔ اپنے پروپیگنڈوں میں کہتے ہیں۔ دھمکی بھی دیتے ہیں، دیتے رہیں۔ ہم نے جو سمجھا ہے۔ جو ہمارا فریضہ ہے، جو ہم جانتے ہیں کہ خدا چاہتا ہے، اس کو کہتے ہیں۔ اس کا انتخاب کرتے ہیں۔ کوئی ایرانی قوم، حکومت، اسلامی جمہوی نظام اور آپ عوام کے خدمتگزاروں پر اثرانداز نہیں ہوسکتا۔ یہ سیاسی خود مختاری ہے اور ہم نے یہ حاصل کی ہے ۔
اس سے زیادہ مشکل اقتصادی خودمختاری ہے۔ اقتصادی خودمختاری یعنی ملک و عوام اقتصادی کوششوں میں اپنے پیروں پر کھڑے ہوں اور کسی کے محتاج نہ رہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو قوم اقتصادی خود مختاری رکھتی ہے وہ دنیا میں کسی سے لین دین نہ کرے۔ لین دین کمزوری کی علامت نہیں ہے۔ کسی چیز کا خریدنا اور کسی چیز کا بیچنا، تجارت کرنا تجارت کی بات کرنا، یہ کمزوری کی علامت نہیں ہے۔ لیکن اس طرح ہونا چاہئے کہ ایک تو اپنی بنیادی ضرورتیں خود پوری کی جا سکیں اور دوسرے دنیا کے اقتصادی معاملات اور عالمی توازن میں خود اپنا مقام ہو۔ اس کو آسانی سے کوئی نظر انداز نہ کر سکے۔ آسانی سے اس کا محاصرہ نہ کرسکے۔ اس کو آسانی سے نہ گھیر سکے کہ جو چاہے اس کو ڈکٹیٹ کرے۔ آج جو ممالک اقتصادی لحاظ سے ترقی یافتہ ہیں، طاقت رکھتے ہیں اور افسوس کہ استعماری اور استکباری بھی ہیں، اگر وہ کسی ملک سے کسی چیز کا لین دین کرنا چاہتے ہیں تو اس پر کچھ باتیں مسلط کرتے ہیں۔ کسی ملک کی اقتصادی خود مختاری کا مطلب یہ ہے کہ ملک کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ ملک کے اندر سے فراہم ہوسکتی ہو۔ ملک کے تمام کارخانے کام کریں، ملک کے محنت کش، کام کو اپنا انسانی اور دینی فریضہ سمجھیں۔ محنت کش صرف وہ نہیں ہے جو کارخانے میں کام کرتا ہے۔ جو بھی اس ملک میں کوئی مفید کام کرے وہ محنت کش ہے۔ ایک قلمکار، ایک فنکار، ایک معلم، ایک موجد، ایک محقق، یہ سب محنت کش ہیں۔
محنت کشی افتخار ہے۔ قابل فخر ہے کہ کوئی محنت کش ہو۔ چہ جائیکہ وہ طاقتور اور توانا دست و بازو جو کارخانے چلا رہے ہیں۔ اگر یہ بازو نہ ہوں تو یہ مشینیں کام نہیں کریں گی اور جو قوم اس صورت حال سے دوچار ہوجائے، اس ستارے گردش میں آ جاتے ہیں۔
اب ہم نے اقتصادی خودمختاری حاصل کی یا نہیں؟ میں کہتا ہوں یہ وہی ہے جو مشکل تر ہے۔ ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔ البتہ آج ہم اقتصادی خود مختاری کا دعوا کرسکتے ہیں۔ لیکن کچھ شرط و شروط کے ساتھ۔ اس کی چند شرطیں ہیں۔ اول یہ کہ ملک میں ہر شخص اپنے ذمے جو کام بھی ہے اس کو اچھی طرح انجام دے۔ (معصوم نے) فرمایا ہے کہ رحم اللہ امرء عمل عملا فاتقنہ ( 42) خدا رحمت کرے اس شخص پر جو، کوئی بھی کام انجام دیتا ہے تو محکم انجام دیتا ہے۔ اچھی طرح انجام دیتا ہے۔ اگر آپ ایک اسکرو گھماتے ہیں اور کستے ہیں، کوئی پہیا چلاتے ہیں، کہیں سلائی کرتے ہیں، کسی مشین میں گریس دیتے ہیں، کتاب چھاپتے ہیں، کتاب لکھتے ہیں، کلاس میں پڑھاتے ہیں، اسپتال میں بیماروں کی دیکھ بھال کرتے ہیں، بلدیہ میں کام کرتے ہیں، سڑکوں کی صفائی کرتے ہیں، اپنے شہر کے عوام کے راستوں کی صفائی کا کام کرتے ہیں، فنکار ہیں، فلم ساز ہیں، کہانی لکھتے ہیں، نامہ نگار ہیں، جو بھی ہیں، جہاں بھی کام کرتے ہیں، کوشش کریں کہ جو کام کرتے ہیں صحیح کریں، مکمل طور پر انجام دیں، محکم طور پر انجام دیں۔ کم محنت نہ کریں، ایک شرط یہ ہے۔ اگر یہ شرط پوری ہوجائے توہم اقتصادی خود مختاری حاصل کرلیں گے۔
دوسری شرط یہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس پیسے اور وسائل ہیں وہ صرف اپنی فکر میں نہ رہیں۔ کیونکہ وہ پیسہ بھی اسی ملک سے ملا ہے۔ وہ پیسہ اسی سرزمین سے اور اسی قوم سے حاصل ہوا ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ میں پسے والا ہوں اور پیسے والا بننے میں حکومت اور قوم کی خدمات کا مرہون منت نہیں ہوں؟ کیا ایسا ہوسکتا ہے؟ انسان کے لئے پیسہ آسمان سے تو نہیں ٹپکتا۔ پیسہ اسی زندگی میں روز مرہ کی کوششوں سے حاصل ہوتا ہے۔ ہزاروں افراد کام کرتے ہیں اور ایک آدمی اتفاق سے پیسے والا ہو جاتا ہے۔ جن لوگوں کے پاس پیسہ اور وسائل ہیں وہ اس پیسے کو صرف اپنے فائدے کے لئے کام میں نہ لائیں۔ اگر آپ کسی جگہ سرمایہ کاری کرنا چاہیں اور کوئی کام کرنا چاہیں تو صرف اس فکر میں نہ رہیں کہ اس کام سے مجھے کتنا فائدہ ہوگا؟ میں یہ نہیں کہتا کہ اپنا خیال بالکل نہ رکھیں۔ میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے ملک کا بھی خیال کریں۔ مضر سرمایہ کاری نہ کریں۔ بے فائدہ سرمایہ کاری نہ کریں۔ اس کام میں سرمایہ نہ لگائیں کہ جس سے اس مملکت کو پیشرفت نہ ملے۔ جن لوگوں کے پاس پیسہ ہے، دینی جذبہ رکھیں اور ذمہ داری کا احساس کریں۔
ایک شرط یہ ہے کہ ملک کی اقتصادی سعی و کوشش میں جدت اور ابتکار عمل ہو۔ کتنا اچھا ہو کہ ہمارے ملک میں جو کارخانے ہیں چاہے وہ، جو حکومت کے اختیار میں ہیں یا وہ جو عوام کے اختیار میں ہیں، آج ہمارے بہت سے پیداواری یونٹ عوام کے اختیار میں ہیں اور عوام ان کے مالک ہیں، اپنی آمدنی کا ایک حصہ تحقیق پر، کام کو آگے بڑھانے اور مصنوعات کی کیفیت بہتر بنانے پر صرف کریں۔ ہم اس انتظار میں کیوں رہیں کہ یورپ میں اور دنیا کے دوسرے حصے میں کوئی تحقیق کرے اور ہم اس سے سیکھیں؟ کیا ہم ان سے کم ہیں؟ بنابریں تحقیقات کریں۔ ایجاد کریں اور پیداوار کو آگے بڑھائیں۔ پیداوار کو کیفیت اور مقدار کے لحاظ سے بہتر بنائيں۔ یہ بھی ایک شرط ہے، ایجاد اور جدت کی۔
دنیا میں انسان کی ضرورت کی وہ چیز پیش کریں جس سے نگاہیں آپ کی طرف مڑ جائیں۔ صرف دعوا نہ ہو۔ یہ بھی ایک شرط ہے۔ پھر ملک کے علمی ادارے ملک کے اقتصاد کی مدد کریں۔ یونیورسٹیوں کے مفکرین آئیں اور حکومت کے لئے کام کریں۔ اس میدان میں واقعی کام ہونا چاہئے۔ حکومت مفکرین اور دانشوروں پر بھروسہ کرے جو یونیورسٹیوں میں ہیں اور حصول علم میں مصروف ہیں۔ یہ نہ سمجھیں کہ فلاں یورپی مفکر نے جو یہ ایک بات کہی ہے، وہی صحیح ہے۔ آج ایک بات کہتے ہیں، بیس سال بعد ، دس سال بعد ، پانچ سال بعد کوئی دوسرا دانشور آتا ہے اور اس کو غلط ثابت کردیتا ہے۔ دوسری بات کہتا ہے۔ ہم نے یہ معمول کیوں بنا لیا ہے کہ مغرب والے جو کہیں اس کو بے چوں و چرا قبول کرلیں۔ ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہیں اور ان کی بات سنیں اور اس کو قبول کریں؟ صحیح کیا ہے آپ خود اس کو تلاش کریں۔ ہمارے اقتصادی ماہرین، جو ہماری سرزمین کے حالات کے لئے، ہمارے عقائد کے لئے، ہماری مملکت کی خصوصیات کے لئے اور ہمارے اقتصادی مسائل کے لئے مناسب ہے، اس کو تلاش کریں۔ جیسا کہ یہاں عرض کیا گیا، آج ہم دیکھتے ہیں کہ ملک کی حکومت اورذمہ داروں کی جانب سے نئے اقتصادی منصوبے پیش کئے جا رہے ہیں۔ یہ اقتصادی منصوبے جیسا کہ حکام بتاتے ہیں، انشاء اللہ مستقبل میں بہت اچھے نتائج دیں گے۔ امید ہے کہ وہ دن جلد آئے لیکن میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ محروم، غریب اور کم آمدنی والے طبقات، جن کی زندگی پر کسی چیز کے گراں ہونے کا فورا اثر پرتا ہے ان کی حمایت ہونی چاہئے۔ یہ عرض کررہا ہوں تاکہ ملک کے اقتصادی مسائل اور مختلف اقتصادی شعبوں کے ذمہ دار عہدیدار اور وہ لوگ جن کے اختیار میں پیداواری شعبے ہیں، ان امور پر صحیح فکر کریں اور ان کمزور، مستصعف، محروم اور کم آمدنی والے طبقات کی اس طرح مدد کریں کہ ملک کا اقتصاد ترقی کرے۔ یہ ہوگی اقتصادی خود مختاری۔
ہمارے محنت کش اس انقلاب اور اس ملک میں موثر رہے ہیں۔ یقینا آپ جانتے ہیں کہ انقلاب کے شروع میں ہمارے کارخانوں میں ہڑتال کرانے کے لئے کتنی سرمایہ کاری کی گئی تھی۔ ہمیں اطلاع تھی۔ اس جلسے میں ان مسائل کی تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا۔ یہ چھوٹے مسائل ہیں جن کو دوسری جگہوں پر اور مخصوص مواقع پر بیان کرنا چاہئے۔ میں نے انقلاب سے پہلے اور جد و جہد کے دوران دیکھا کہ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ کارخانے بند ہو جائیں تاکہ جب اسلامی جمہوریہ قائم ہو تو یہ کارخانے ضرورت پوری نہ کر پائیں۔ یہ نیت تھی ان کی مگر کس نے مزاحمت کی؟ محنت کشوں نے۔ میں ان دنوں ایک کارخانے میں گیا، شاید اس کارخانے کے ملازمین یہاں اس مجمع میں موجود ہوں یا جب اس ملاقات کی خبر نشر ہو تو سنیں، اس کارخانے میں کمیونسٹ اور بائیں بازو والے جو خود کو محنت کش طبقے کا طرفدار بتاتے ہیں، مجھے ختم کرنے کے لئے میرے اوپر ٹوٹ پڑے، چونکہ سمجھ گئے تھے کہ میں وہاں تخریب کاری روکنے کے لئے گیا تھا لیکن کارخانے کے محنت کشوں نے جن کو بائیں بازو والے سمجھ رہے تھے کہ ان کی مٹھی میں ہیں، میرا دفاع کیا۔ اس کے دوسرے دن گیا تو معلوم ہوا کہ ان سب کو کارخانے سے نکال دیا گیا ہے۔
ہمارے محنت کش ایسے ہیں۔ دشمن آج بھی کوشش کر رہا ہے۔ اس کو جان لیں۔ چونکہ جانتے ہیں کہ اسلامی جموریہ، امریکا کے مقابلے میں، دشمن کے مقابلے میں استحکام کے ساتھ ڈٹا ہوا ہے؛ اس کو جھکانا چاہتے ہیں۔ آج بھی (اس امید کے ساتھ) کوشش کر رہے ہیں کہ شاید ملک کے منصوبوں کو درہم برہم کرسکیں۔ اگر مغرب، امریکا، ہمارے دشمن، منافقین اور دوسرے، ہمارے کارخانوں کو بند کروا سکے تو یہ بہت کاری وار ہوگا۔ آج کوشش کر رہے ہیں کہ یہ وار لگائیں۔ آج ان کے مقابلے میں کون لوگ ڈٹے ہوئے ہیں؟ ہمارے مسلمان محنت کش۔ ہمارے بیدار ضمیر محنت کش۔ ماضی میں بھی ابتدائے انقلاب سے اب تک ایسا ہی تھا۔ آج بھی ایسا ہی ہے اور پروردگار کے فضل سے آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ ہمیشہ ہمارے محنت کش ان بیرونی طاقتوں کو پیچھے دھکیلیں گے جو ہمارے کام کے ماحول میں خلل ڈالنا چاہیں گے۔
تیسری خودمختاری جو سب سے زیادہ دشوار ہے، ثقافتی خود مختاری ہے۔ یہ بہت سخت ہے۔ بہت محنت چاہتی ہے۔ ثقافتی خود محتاری کے لئے جد و جہد خود مختاری کی تمام اقسام کے لئے جد و جہد سے زیادہ دشوار ہے۔ میں نے ایک بار کہا تھا کہ دشمن ثقافتی شبخون مار رہا ہے۔ یہ دعوا صحیح ہے۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ عین حقیقت ہے۔ بعض لوگ نہیں سمجھتے۔ یعنی منظر کو نہیں دیکھ رہے ہیں۔ جولوگ منظر کو دیکھ رہے ہیں، سمجھتے ہیں کہ یہ شبخون ہے اور کتنا سخت شبخون ہے ۔
میں ایک سادہ اور مختصر جملہ عرض کروں کہ ایک قوم اپنے اعتقاد اور ایمان کی طاقت سے جد و جہد کرتی ہے۔ حقیقی جد و جہد، جنگ اور مزاحمت، ایمان سے ہوتی ہے۔ ایمان سے ممکن ہے۔ ہاتھ، آنکھ اور جسم سے نہیں۔ ہاتھ آنکھ اور جسم وسیلہ ہے۔ ایک صحتمند اور طاقتور انسان، ایک ماہر اورتمام فنون جنگ سے باخبر تیر انداز کو نظر میں رکھیں جو جنگ کرنے پر ایمان نہیں رکھتا، ایک ناواقف شخص کو بھی نظر میں رکھیں جو یہ نہیں جانتا کہ بندوق کیسے پکڑے؛ مگر اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ پوری قوت سے جنگ کرنی چاہئے، ان دونوں میں سے کون اچھی طرح جنگ کرے گا؟ جو جنگ کرنا جانتا ہے مگر اس پر یقین نہیں رکھتا، وہ جنگ نہیں کرے گا۔ صحیح ہے کہ جانتا ہے لیکن جاننا بذات خود کارساز نہیں ہے۔ ایک ہے جو جنگ کرنا نہیں جانتا مگر یقین رکھتا ہے کہ اس کو جنگ کرنا چاہئے، لہذا پوری قوت سے جنگ کرتا ہے اور بہت جلد جنگ کرنا سیکھ جاتا ہے ۔
ہمارے بسیجی سپاہیوں نے کیا کیا؟ کیا انہوں نے اس طرح ٹریننگ لی تھی؟ بیس دن کی ٹریننگ، پینتالیس دن کی ٹریننگ، دو مہینے اور تین مہینے کی ٹریننگ لی۔ لیکن آپ نے دیکھا کہ میدان جنگ میں انہوں نے کیا کیا؟ اس لئے کہ دفاع اور جنگ کرنے پر اعتقاد رکھتے تھے۔ ہماری قوم نے جب سے انقلاب برپا کیا اس وقت سے اب تک اعتقاد رکھتی ہے کہ دشمنان اسلام سے جنگ کرنی چاہئے۔ جارحین سے، زور زبردستی کرنے والوں سے، جو دسیوں سال تک اس مملکت کی تقدیر پر قابض رہے، کھایا لوٹا برباد کیا، ان کے خلاف جد و جہد کرنی چاہئے۔ تمام لذات سے ہاتھ کھینچ کر جد و جہد کے میدان میں آنا چاہئے۔ ہماری قوم کا عقیدہ یہ تھا۔ اس عقیدے کے ساتھ یہ میدان میں آئی اور انقلاب کامیاب ہوا۔ جنگ میں کامیابی ملی اور آج تک الحمد للہ پیشرفت ہوئی ہے ۔
اب اگر دشمن نشریاتی لہروں کے ذریعے ہمارے ملک میں داخل ہو، ریڈیو کے ذریعے آئے اور اپنی باتیں ہمارے ملک میں پہنچائے، ہماری قوم کے ذہن میں یہ بات پہنچاۓ کہ جد و جہد اچھی چیز نہیں ہے، اسلام کے دفاع کا کوئی فائدہ نہیں ہے، دشمن کے مقابلے میں مزاحمت کا کوئی نتیجہ نہیں ہے، جتنی محنت کریں گے جد و جہد کریں گے، نقصان اٹھائیں گے۔ تو کیا اس کے بعد مملکت ایران میں دشمنان اسلام کے خلاف جد و جہد باقی رہے گی؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ دنیا میں بہت مسلمان ہیں جو امریکا اور دشمنان اسلام کے خلاف جد و جہد نہیں کرتے۔ بہت سی قومیں ہیں جو قرآن بھی پڑھتی ہیں، نماز بھی پڑھتی ہیں، عبادت بھی کرتی ہیں، لیکن نہ صرف یہ کہ دشمنان اسلام کے خلاف جد و جہد نہیں کرتیں بلکہ ان سے دوستی بھی نبھاتی ہیں۔ اگر ہمارے دشمن ہماری قوم کو ایسی قوم میں تبدیل کردیں کہ جو جد و جہد پر یقین نہ رکھے، کامیابی کی امید نہ رکھے اور مادیت اور شہوانیت کے مقابلے میں متقی و پرہیزگار نہ ہو تو کامیاب ہے۔ اس منزل پر ثقافتی جد و جہد واجب سے زیادہ ضروری ہو جاتی ہے۔
آج یہ کام کر رہے ہیں۔ آج دشمن مختلف محاذوں پر کام کر رہا ہے۔ ایک محاذ تعلیمی اداروں میں ہمارے نوجوانوں کا محاذ ہے۔ یہ ہمارے عزیز نوجوان، ہمارے پاکیزہ نوجوان بیٹے اور بیٹیاں، اسی قوم کے بچے ہیں۔ ان کے دل پاک ہیں۔ ان کے جسم پاک ہیں۔ ان کے دماغ پاک ہیں۔ ہیجان انگیز اور گندی تصویریں ویڈیو فلم اور کیسٹیں تقسیم کرکے اور انواع و اقسام کی خبیثانہ حرکتیں کرکے، ان کو برائیوں کی طرف کھینچنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ آپ دیکھیں یہ کتنا بڑا جرم ہے۔ یہ وہ کام ہے جو وہ کر رہے ہیں۔
کچھ لوگوں نے سمجھا ہے کہ جب ہم مغرب کی ثقافتی یلغار کو نشانہ بناتے ہیں تو ہمارے پیش نظر مسئلہ صرف یہ ہے کہ کسی نے سڑک پر حجاب کی صحیح پابندی نہیں کی ہے۔ عوام الحمد للہ حجاب کی پابندی کرتے ہیں، تھوڑے سے لوگوں کو چھوڑ کر۔ مسئلہ یہ نہیں ہے۔ یہ ذیلی مسئلہ ہے۔ اصل مسئلہ وہ ہے جو گھروں کے اندر اور نوجوانوں کے درمیان ہے۔ دشمن یہاں کام کر رہے ہیں۔ یہ آشکارا نہیں ہے۔ یہ پنہاں ہے۔ خطرہ یہاں ہے۔ ہمارے نوجوانوں نے شہوت کو دور کیا، لذات اور آرام کو چھوڑا، جد و جہد کے میدان میں اترے اور دشمن کو شکست دینے میں کامیاب رہے۔ اب دشمن ہمارے نوجوانوں سے انتقام لے رہا ہے۔ اس کا انتقام کیا ہے؟ دشمن کا انتقام یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو لذت و شہوت میں گرفتار کر دے۔ پیسے خرچ کر رہے ہیں۔ گندی تصویریں چھاپتے ہیں اور نوجوانوں میں مفت تقسیم کرتے ہیں۔ ویڈیو بناتے ہیں، ہیجان انگیز فلمیں بناتے ہیں اور مفت میں اس کو اس کو دیتے ہیں کہ دیکھیں۔ البتہ کچھ لوگ اسی طریقے سے پیسے بھی کماتے ہیں۔ مگر جولوگ اس میں سرمایہ لگاتے ہیں وہ پیسے کے لئے سرمایہ نہیں لگاتے۔ دوسرے ملکوں میں انہیں آزادی کے ساتھ تقسیم کرسکتے ہیں اور پیسے کما سکتے ہیں ۔ وہ یہاں ہماری نوجوان نسل کو برباد کرنا چاہتے ہیں ۔
یہ ایک حملہ آور کی یلغار ہے۔ اب ہمارے اور اللہ کے درمیان بات ہے۔ اگر ملک کی عدلیہ کے ادارے کسی ایسے شخص کو جو ایسی برائی پھیلا رہا ہے، گرفتار کریں تو اس کے لئے کون سی ‎سزا زیادہ مناسب ہے۔ جو اس ملک کے ہزاروں نوجوانوں کو، ہمارے پاکیزہ نوجوانوں کو، معصوم بچوں کو بے راہ روی اور شہوت میں مبتلا کر رہا ہے اس کی سزا کیا ہے؟ میری نظر میں انہیں سخت ترین سزا ملنی چاہئے ۔
ثقافتی یلغار کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کا ذہن بدل دیں۔ انہیں اسلام سے منحرف کر دیں۔ جد و جہد کے تعلق سے نا امید کر دیں۔ جو خود ہم دیکھ رہے ہیں اس کے مطابق ، خسرالدنیا والاخرہ، ہے۔ دنیا اور آخرت دونوں جگہ گھاٹے میں ہے وہ ہمارے لئے لکھتا ہے کہ ایرانی قوم دنیا و آخرت کے گھاٹے میں ہے لکھتے ہیں اور شائع کرتے ہیں کہ مسلمین عالم منجملہ ایرانی عوام ، خسرالدنیا والاخرہ ، ہیں کیوں؟ چونکہ امریکا سے جنگ کی ہے۔ اس کا مقصود یہ ہے۔ یہ خسرالدنیا والاخرہ ہونا ہے؟ ایرانی قوم نے خود کو ذلت آمیز انحصار وابستگی سے نجات دلائی، منحوس کٹھ پتلی پہلوی حکومت کے ذلت آمیز روابط سے، امریکا کے ساتھ ذلت آمیز رابطے سے، نجات حاصل کی اور دنیا میں اپنی بہادری، دلیری اور سربلندی کا ثبوت دیا، آزادی کے راستے پر قدم بڑھایا وہ دنیا و آخرت کے گھاٹے میں ہے؟ یہ ہمارے نوجوان، یہ ہمارے مومن خاندان، دین کے شیدائی اور عشق خدا سے سرشار یہ مرد اور عورتیں، خسرالدنیا والاخرہ ہیں ؟ وہ خود دنیا و آخرت کے گھاٹے میں ہے جو یہ کہتا ہے۔ درحقیقت وہ خود خسرالدنیا والاخرہ ہے۔ اس کے پاس نہ دنیا ہے اور نہ ہی آخرت ہے۔ ان کی دنیا بھی خراب ہے اور آخرت میں یقینا قہر و عذاب الہی ہے۔ عوام کے بارے میں اس قسم کی باتیں کرتے ہیں اور پھیلاتے ہیں۔ کیوں پھیلاتے ہیں؟ اس لئے کہ لوگوں کو متزلزل کر دیں۔ لوگوں کے ایمان کو بدل دیں۔ یہ کس کا کام ہے؟ یہ اسی دشمن کا کام ہے کہ اقتصادی خودمختاری جس کے نقصان میں ہے، سیاسی خودمختاری جس کے نقصان میں ہے، ثقافتی خود مختاری جس کے نقصان میں ہے۔
یہ دشمن کے کارندے ہیں۔ یہ ثقافتی یلغار ہے۔ یہ قوم سے جنگ ہے جو دشمن کر رہے ہیں۔ یہ صرف ہم سے ہی مخصوص نہیں ہے، یہ اسلام کے دشمن ہیں اسلام سے دشمنی کرتے ہیں۔
اب ہمار فریضہ کیا ہے؟ میں کہتا ہوں کہ معلم، ٹیچر، طالب علم جو مرکز دائرہ میں ہیں اور ان تمام لوگوں کو ملک کے ثقافتی امور سے سروکار رکھتے ہیں، انہیں ایک لمبا جہاد اور طویل جدوجہد کرنی ہے ۔
یہ معلم کی قدردانی کے ایام ہیں اور اس سے بہتر اور کوئی مناسبت نہیں ہوسکتی کہ آج سنگین ترین ذمہ داری جو آپ کے علاوہ کوئی اور پوری کر نہیں سکتا، آپ کے کندھوں پر ہے۔ آسان کام دوسروں نے کئے۔ آج وہ دن ہے کہ ملک کے ٹیچروں اور معلمین کو وہ مشکل کام کرنا اور انجام دینا ہے۔ وہ مشکل کام کیا ہے؟ مسلمان انسانوں کی تربیت اور اپنی تربیت سے مومن، متدین ذہنی اور اعتقادی لحاظ سے صحیح اور ایسے نوجوان تیار کرنا ہے کہ جو امور مملکت کو چلائیں اور یہ بہت بڑا کام ہے۔
دعا ہے کہ خدائے متعال آپ سبھی معلمین، محنت کشوں، اسکولو ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبا اور ان تمام لوگوں کو جو ملک کے اقتصادی اور ثقافتی امور کے ذمہ دار ہیں اور ملک کے حکام کو توفیق عنایت فرمائے، حضرت امام خمینی کی روح مطہر اور حضرت ولی عصر ( ارواحنا فداہ ) کا قلب اطہر آپ سے راضی ہو، ان کی دعائیں آپ کے شامل حال ہوں ۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

42 بحارالانوار ج 22 ص 157