تفصیلی خطاب حسب ذیل ہے:

بسم‏اللَّه الرّحمن الرّحيم‏
الحمدللَّه ربّ العالمين. بارئى الخلائق اجمعين. والصّلاة والسّلام على سيّدنا و نبيّنا و حبيب قلوبنا و شفيع ذنوبنا و طبيب نفوسنا، ابى‏القاسم محمّد و على آله الأطيبين الأطهرين المنتجبين، الهداة المهديّين المعصومين. سيّما بقيةاللَّه فى الارضين. قال‏اللَّه الحكيم فى كتابه: انّما تنذر من اتّبع الذّكر و خشى الرّحمن بالغيب، فبشّره بمغفرةٍ و اجرٍ كريم.

سب سے پہلے میں اس مبارک عید کی مشہد اور (صوبہ) خراسان کے دیگر شہروں کے عزیز عوام، حضرت علی بن موسی الرضا علیہ السلام کے مہمانوں اور زوار اور اس شہر میں آنے والوں نیز پوری ملت ایران کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اس سال عیدالفطر اور عید نوروز تقریبا ایک ساتھ آئی ہیں۔ نئے ہجری شمسی سال کا آغاز، ملت ایران کے ایک ایک فرد کے لئے، نئی سماجی وانفرادی اخلاقیات، روش اور نئی زندگی شروع کرنے کا موقع ہوتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ آٹھویں امام حضرت امام علی ابن موسی الرضا علیہ الصلوات و السلام کی عنایت سے الہی برکات اور حضرت امام زمانہ ارواحنا لہ الفداء کی خاص توجہات آپ سب کے شامل حال ہوں گی ۔
میں نے آج ایک قرآنی تعلیم کے بارے میں مختصرگفتگو مد نظر رکھی ہے جو عرض کروں گا۔ اس کے بعد ملکی اور عالمی امور کے تعلق سے ملت ایران کی دلچسپی کے مسائل کے بارے میں عرض کروں گا۔ عظیم اجتماع اور بہت بڑا مجمع اس احاطے اور دیگر صحنوں میں موجود ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس محدود وقت میں پروردگار کی مدد سے قرآنی تعلیمات سے استفادہ کروں اور ہم سب سال کے اس پہلے دن کلام الہی سے نور حاصل کریں ۔
ایک مسئلہ جو تکرار کے ساتھ قرآن میں آیا ہے اور اس پر زور دیا گیا ہے، ذکر ہے، ذکر یعنی یاد کرنا، ہوش میں ہونا اور متوجہ رہنا ۔ قرآن کی آیہ شریفہ فرماتی ہے: لقد انزلنا الیکم کتابا فیہ ذکرکم یعنی قرآن کریم کو تمام مسلمانوں کے ذکر، ہوش اور متوجہ ہونے کے وسیلے کے عنوان سے متعارف کرایا جا رہا ہے کیونکہ بہت سے لوگ، زمانے میں حقائق عالم اور ان میں سر فہرست پرودگار کی مقدس ذات کی طرف سے غفلت میں رہے ہیں۔ ‍قرآن کے سوروں میں ذکر اور غفلت کے بارے میں بہت کچھ بیان کیا گیا ہے اور میرے خیال میں در سوروں، سورہ یاسین اور سورہ انبیاء میں دوسرے سوروں سے زیادہ ان دونوں باتوں کو بیان کیا گیا ہے۔ قرآن چاہتا ہے کہ مسلمان عوام غافل نہ رہیں بلکہ متوجہ رہیں۔ اس الہی اور قرآنی خواہش کے مقابلے میں ان لوگوں کی خواہش ہے جو طاقت یا خواہشات کے نشے میں مست ہیں۔ قرآن کریم، سورہ نساء کی ایک آیہ شریفہ میں پروردگار کے ارادے کے بارے میں فرماتا ہے: یرید اللہ لیبین لکم و یھدیکم سنن الذین من قبلکم یعنی خدا چاہتا ہے کہ تم ہدایت حاصل کرلو، راستہ پا لو، تمھاری آنکھیں دیکھیں اور تمھارے قلب آگاہ ہوں مگر اس کے بعد کی آیت میں اس کا نقطہ یہ بیان کیا گیا ہے: ویرید الذین یتبعون الشھوات ان تمیلوامیلا عظیما یعنی جولوگ طاقت اور شہوت میں مست ہیں، غفلت میں ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم بھی ان کی طرح غفلت میں رہو متوجہ نہ رہو اور اپنا راستہ نہ حاصل نہ کرو۔ بنابریں دنیا کے طاقتور اور منہ زور لوگ جن کے پاس طاقت، خواہشات، مرتبہ اور غفلت کے تمام اسباب موجود ہیں، جہاں بھی ان کا سامنا ایسے لوگوں سے ہوتا ہے جو بیدار ہیں اور جن کے دل الہی ہدایت سے نورانی ہیں، چاہتے ہیں کہ انہیں بھی اپنی طرح غفلت میں مبتلا کر دیں اور (سیدھے) راستے سے ہٹا دیں۔ خداوند عالم نے ایک ملت کے عنوان سے ہمارے اوپر احسان کیا ہے، ہمیں بیدار کیا ہے۔ ہم بھی پہلے خواب غفلت میں تھے۔ ہم بھی منحوس طاغوتی اور شاہی سائے میں راستہ نہیں پہجانتے تھے۔ ہم بھی اسلامی اخلاق سے دور تھے ۔ خدا نے ہم پر احسان کیا ، ہمیں بیدار کیا اور ہمارے دلوں کو منور فرمایا۔
کبھی ہمارے معاشرے میں بھی قرآن ناپید تھا۔ نماز اور اقامہ نماز حقیقی معنوں میں نہیں تھا۔ نماز جمعہ نہیں تھی۔ الہی اور روحانی اجتماعات، اس طرح جو ایک مومن قوم کے شایان شان ہے، نہیں تھے اور ستمگر ہم پر حکومت کرتے تھے۔ اس ملک میں وہ لوگ ہمارے اور معاشرے کے حاکم تھے، جو فاسق و فاجر تھے، اہل گناہ تھے، خانہ خدا سے دور رہتے تھے، ہدایت سے ناواقف تھے، خدا کی راہ کو نہیں پہچانتے تھے، عدالت سے نہیں واقف تھے، پیغمبروں سے ان کا میل نہیں کھاتا تھا اور راہ خدا ان کے لئے ساز گار نہیں تھی۔ ہم بھی اپنی طویل تاریخی زندگی میں کبھی اس طرح زندگی گذار رہے تھے۔ مگر خدا نے ہمیں بیدار کیا۔ یہ ملت بیدار ہوگئی اور خدا نے اس کی ہدایت کی اور اپنا راستہ اس کو دکھایا۔
جو کام اس ملت نے انجام دیا ہے، تاریخ میں کسی بھی قوم نے اس طاقت اور عظمت کے ساتھ انجام نہیں دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج جس اسلامی ملک میں بھی قدم رکھیں، دیکھیں گے کہ اس ملک کی ممتاز ہستیاں، روشنفکر حضرات، تعلیم یافتہ نوجوان عورت مرد، سب کے دل ملت ایران کی یاد میں دھڑکتے ہیں۔ خود ان کی زبان پر یہ الفاظ آتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ' ہم نے ملت ایران کو نمونہ عمل قرار دیا ہے بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے آپ کی پیروی کی ہے۔ بہت سے لوگوں نے آپ کا راستہ اختیار کیا ہے، مگر سب کو وہ توفیق نہ ملی جو آپ کو ملی ہے۔
ملت ایران وہ ملت ہے جس کوغفلت کے بعد خدا نے بیدار کیا، اس کو راستہ دکھایا اور اس کے قدموں کو استوار کیا۔ یہ قوم بھی موت سے نہ ڈری، مشقتوں سے نہ گھبرائی، آگے بڑھی اور الحمد للہ اس نے دنیا میں پرچم اسلام ، ‍قران ، خدا اور پیغمبروں کے نام کو بلند کیا۔ اس صورتحال اور خدا نے ہمیں جو یہ عظیم توفیق عنایت فرمائی ہے، اس کے لئے اس نکتے اور اس مسئلے پر کافی توجہ دینی چاہئے اور ذکر اور ہدایت کے موضوع پر اپنے اصلی اور بنیادی مسئلے کی حیثیت سے توجہ دینی چاہئے۔ بنابریں ہماری ملت کو آج جن باتوں پر صحیح معنوں میں توجہ دینی چاہئے ان میں غفلت سے دوری اور ذکر کا موضوع بھی ہے۔ سب کو کوشش کرنی چاہئے کہ ذاتی معاملات میں بھی، سیاسی اور سماجی امور میں بھی، اور دنیا بالخصوص عالم اسلام کے مسائل میں بھی غفلت کو دور کریں تاکہ ایک روشن اور نورانی فضا وجود میں آئے جس میں عوام حقائق کو اچھی طرح سمجھ سکیں۔ یہ وہ چیز ہے جو دین چاہتا ہے اور قرآن اس کی طرف ہماری ہدایت فرماتا ہے۔
اسی موضوع سے مربوط ایک نکتہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوات و السلام کی زندگی میں پایا جاتا ہے اور اس تعلق سے سورہ انبیاء کی آیات قابل توجہ ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام توحید اور معرفت پرودگار کی دعوت دینے والے ایک نوجوان کی حیثیت سے اکیلے، ایک غفلت زدہ اور شرک آلود معاشرے میں دعوت حق کا آغاز کرتے ہیں۔ مگر دل سوئے ہوئے تھے اور دماغ پتھر ہو چکے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو الہی تدبیر سے دلوں، فکروں اور ذہنوں کو جھنجوڑنا اور سخت جھٹکا دینا تھا تاکہ اپنی بات لوگوں کی روح کی گہرائیوں تک پہنچا سکیں اور یہ سخت جھٹکا اس طرح لگ سکتا تھا کہ بت خانے اور اندھے اور جاہلانہ عقائد کے مراکز کو مسمار کردیتے۔
وہ بت خانے میں داخل ہوئے بتوں کو توڑ دیا، صرف ایک بت کو جو سب سے بڑا تھا، چھوڑ دیا تاکہ اسی نقطے سے فائدہ اٹھا کر ذہنوں کو حقیقت کی طرف متوجہ کریں۔
جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ یہ کام ابراہیم خلیل اللہ کا ہے تو انہوں نے کہا؛ کیا تم نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ کام کیا ہے؟ (قالوا ءانت فعلت ھذا بآلھتنا یا ابراھیم) اور ابراہیم علیہ السلام نے انہیں جواب دیا قال بل فعلہ کبیرھم ھذا فاسئلوھم ان کانوا ینطقون یہاں سے ابراہیم علیہ السلام کی جو ایک دنیا کے مقابلے میں اکیلے تھے، فکری مجاہدت شروع ہوتی ہے۔ نکتہ یہ ہے کہ ایک تاریک دنیا ابراہیم علیہ السلام کے سامنے تھی جس میں مادی طاقتیں تھیں، بڑے دولتمند تھے، طاقت کے دعویدار اور طافت کی بولی بولنے والے تھے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اکیلے تھے۔ یہ ایک سبق ہے۔ کوئی قوم جب دنیا کے مقابلے پر آتی ہے تو اس کا کیا حال ہوتا ہے؟ آج آپ ملت ایران کو دیکھیں۔ ملت ایسی بات کہتی ہے جو کسی بھی عالمی طاقت کو پسند نہیں ہے۔ فلسطین کے مسئلے میں سب ایک ہیں۔ ملت ایران کے علاوہ کوئی ان کی مخالفت اور حقیقت کے اظہار کی جرئت نہیں کرتا۔ آج مسملین عالم کے خلاف جو جارحیت، ظلم اور ستم ہو رہا ہے، اس پر ملت ایران کے علاوہ کوئی قوم آواز اٹھانے کی جرئت نہیں کرتی اور اس کی آواز کہیں پہنچتی بھی نہیں۔ دنیا کی سامراجی طاقتوں نے اقوام پر تسلط کے لئے جو نیا نظام تیار کیا ہے، اس میں ملت ایران کے علاوہ اس کی مخالفت کی جرئت کوئی نہیں کرتا۔ ایسے لوگ جن کا عقیدہ وہی ہے جو ملت ایران کا ہے، دنیا میں کم نہیں ہیں یہاں تک کہ حکام میں بھی ایسے افراد موجود ہیں جو ملت ایران کی بات کو قبول کرتے ہیں، مگر وہ بھی ڈرتے ہیں۔ ایک نام نہاد انقلابی صدر نے سات آٹھ سال قبل ایک عالمی اجتماع میں، جس میں میں بھی تھا، مجھ سے کہا آپ کے علاوہ یہاں جتنے ہیں سب ڈرتے ہیں اس کے بعد اس نے سرجھکا کے آہستہ سے کہا میں بھی ڈرتا ہوں حقیقت یہ ہے۔ حق بات تسلیم ہے مگر اپنے اقتدار، اپنی سلطنت، اپنی ریاست اور اپنی حکومت (چلے جانے) کا خوف ہے۔ چند روز اقتدار میں باقی رہنے کے لئے حقیقت کہنے سے کتراتے ہیں۔ ملت ایران، حکومت ایران اور ایران کے مقدس اسلامی نظام نے اس زرق و برق اور بلند بانگ دعوے کرنے والی دنیا کے مقابلے میں جس کے پروپیگنڈوں نے پورے عالم کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، حق بات کہی ہے۔ یہ وہ خصوصیت ہے جس کو دیکھنے والے دنیا کی سطح پر تعریف کرتے ہیں۔ اب آپ دیکھیں کہ ایک پیغمبر، ایک شخص، تن تنہا، تمام مخالف افکار کے مقابلے میں حق بات کہتا ہے اور مخالف نظریات کے مقابلے میں پوری قوت سے ڈٹ جاتا ہے۔ ابرہیم علیہ السلام کی حالت یہ تھی۔ یہ وہ ہستیاں ہیں جو تاریخ کو رخ اور جہت دیتی ہیں۔ ابراہیم اور ان کے جیسی ہستیوں اور عظیم الشان پیغمبران الہی کا نام اسی جہت سے تاریخ میں جاوداں ہوتا ہے۔ کوئی بھی طاقت، عالم کی ان عظیم ہستیوں اور الہی شخصیات کا نام صفحہ ہستی سے مٹا سکتا ہے نہ ان کی عظمت کو کم کرسکتا ہے۔
انہوں نے کہا تم نے یہ کام کیا ہے ؟ ابراہیم علیہ السلام نے انہیں جواب دیا( قال بل فعلھ کبیرھم ہذا ، فاسئلو ھم ان کانوا ینطقون) اس شدید جھٹکے کے بعد جو آپ نے انہیں دیا، آپ نے انہیں متوجہ کرنا چاہا اور کہا کہ اگر یہ بت بول سکیں تو خود انہی سے پوچھ لو، اگر یہ بڑا بت بول سکتا ہے اور تمہیں حقیقت بتا سکتا ہے تو خود اس سے پوچھو! دیکھو کیا کہتا ہے۔ آپ نے درحقیقت ان کے سامنے ایسی بات رکھ دی جس کو ماننے اور اس کی تصدیق کرنے پر وہ مجبور تھے۔ یعنی جان بچانے کے لئے ان کے سامنے کوئی راستہ ہی نہیں تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے اس عظیم اقدام سے متوجہ کرنے کا مثالی نمونہ پیش کیا۔
اب میں موضوع سے متعلق چند آیتیں پڑھوں گا اور پھر ان کے معنی بتاؤں گا اور تشریح کروں گا۔ اس کے بعد ملت ایران کی عظیم تحریک، اس کے عظیم رہبر کہ جو ابراہیم کی طرح بڑھا اور وہ کام کیا جو خدا چاہتا تھا اور اس کے اثرات کے بارے میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔
خداوند عالم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تحریک اور اقدام کے تعلق سے قرآنی آیات میں فرماتا ہے فرجعوا الی انفسھم جب آپ نے ان سے کہا کہ بڑے بت سے پوچھو، تو وہ اپنی طرف واپس ہو گئے یعنی اچانک ہوش میں آئے۔ یہ وہی ذکر کی حالت ہے۔ فرجعوا الی انفسھم فقالوا انکم انتم الظالمون اپنی طرف پلٹے، سوچا، اور میری تعبیر کے مطابق خود سے کہا یقینا ہم ستمگر ہیں انسان اتنا غافل ہو کہ قادر، بصیر، اپنے ارادے پر حاکم اور جو چاہے وہ کرنے والے خدا کے بجائے، ایسی مخلوق کی طرف جائے جو اپنا دفاع بھی نہ کرسکے اور آنکھ بند کرکے خود کو اس کے حوالے کردے؟ اگرچہ وہ بت لکڑی کا تھا، مگر گوشت پوست اور ہڈیوں کے بت بھی ایسے ہی ہیں۔ ہر وہ طاقت والا جو خدا پر بھروسہ نہ کرتا ہو اور اس کی طاقت کا سرچشمہ قدرت پروردگار نہ ہو، اسی بت کی طرح ہے جو بول کر بھی اپنا دفاع نہیں کرسکتا۔
جی ہاں آپ دیکھیں کہ دنیا کی سامراجی اور ظالم طاقتیں، بین الاقوامی سطح پر یا اپنے ملک کی سطح پر زور زبردستی سے کام لیتی ہیں مگر یہ زور زبردستی سے کام لینا ہمیشہ رہنے والا نہیں ہے۔ طاقت ہمیشہ نہیں رہتی۔ جو چیز باقی رہتی ہے وہ حقیقت ہے۔ بنابریں نمرود ختم ہوگئے اور ابراہیم جیسی ہستیاں باقی رہ گئیں۔ ثم نکسوا علی رؤسھم جب ابراہیم علیہ السلام نے انہیں متوجہ کیا، آگاہ کیا تو انہوں نے اپنے سروں کو جھکا لیا۔
غافل انسان یہ نہیں سمجھتا کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ آج آپ اگر ان اقوام کو دیکھیں جو سپر طاقتوں کی مسلط کردہ تہذیب و ثقافت سے متاثر ہیں، تو یہی غفلت نظر آئے گی۔ بغیر سوچے سمجھے چلے جا رہے ہیں اور ہر ایک اپنے علاوہ سب کی نفی کر رہا ہے۔ غفلت کے نتیجے میں اقوام کی تحقیر کر رہے ہیں، بے اعتنائی کر رہے ہیں کیونکہ حقیقت کو نہیں جانتے۔
ثم نکسوا علی رؤسھم لقد علمت ما ھؤلاء ینطقون قال افتعبدون من دون اللہ ما لا ینفعکم شیئا ولا یضرکم ابراہیم علیہ السلام نے ان کی ایک لمحے کی آگاہی سے فائدہ اٹھایا اور چند جملے ، صرف حقیقت جو اس وقت بیان کی جاسکتی تھی، ان سے کہی؛ کیا تم خدا کے علاوہ کسی ایسے کی عبادت کرتے ہو جو تمہیں نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان؟ اور آپ جان لیں کہ خدا کے علاوہ تمام طاقتیں ایسی ہی ہیں۔ ان کی ظاہری پھیلی ہوئی طاقت کو نہ دیکھیں۔ ان کے جدید اور جدیدترین ہتھیاروں اور دولت و ثروت کو نہ دیکھیں۔
جو چیز اقوام کو بڑی طاقتوں کے مقابلے میں کمزور کرتی ہے، وہ اقوام میں قوت ارادی کا فقدان ہے۔ اگر کوئی قوم ارادے کے ساتھ آگے بڑھے، خدا پر بھروسہ رکھے اور خدا کے احکام پر عمل کرے تو کوئی بھی طاقت اس کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتی۔ اف لکم و لما تعبدون من دون اللہ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا افسوس ہے تم پر اور اس چیز پر جس کی جہالت کے ساتھ عبادت کرتے ہو اور اس کے سامنے سر جھکا تے ہو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تحریک کی ترتیب یہ تھی کہ پہلے آپ نے ذہنوں اور ضمیروں کو جھنجوڑنے کے لئے، سخت اقدام کیا۔ اس کے بعد (لوگوں کے) دل جو متوجہ ہوئے تو ایک جملے سے حق بات ان کے دلوں اور ذہنوں تک پہنچائی۔ جب لوگوں میں بیداری آگئی تو اب دشمن کی باری تھی کہ عکس العمل ظاہر کرے۔ دشمن کون ہے؟ وہی ہے جس کے لئے قرآن نے فرمایا ہے ویرید الذین یتبعون الشھوات ان تمیلوا میلا عظیما جو لوگ شہوت ، طاقت اور دولت کے نشے میں چور ہیں، جو لوگ چاہتے ہیں کہ سب لوگ غفلت میں رہیں، سب نشے میں رہیں کیونکہ وہ خود نشے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایران کے الہی رہبر، وہ ہستی جو انبیاء کے راستے پر چل رہی تھی، (اس کی قیادت میں) ایرانی عوام نے بھی یہی راستہ طے کیا۔ آج آپ ملاحظہ فرمائیں کہ دنیا میں بیداری آگئی ہے۔ یہ مبالغہ نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ دشمن کا ردعمل کیا ہے ؟ آپ دیکھ رہے ہیں کہ سامراجی طاقتیں جن میں سر فہرست امریکا ہے، کس طرح دھمکی دے رہی ہیں اور ملت ایران اور اسلامی نظام کے خلاف پروپیگنڈے کے لئے کس طرح پیسہ خرچ کر رہی ہیں؟ یہ ان کا ردعمل ہے۔ اگر ملت ایران کی تحریک سے ان پر وار نہ لگا ہوتا تو وہ ردعمل نہ دکھاتیں۔
جب ابراہیم علیہ السلام نے اقدام کیا اور لوگوں کو بیدار کیا تو اس وقت قالوا حرقوہ وانصروا آلھتکم کہا ابراہیم کو جلا دو۔ ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں کیوں ڈالا ؟ کیونکہ ابراہیم علیہ السلام ان کے لئے ضرر رساں بن گئے تھے، کیونکہ ابراہیم علیہ السلام لوگوں کو بیدار کر رہے تھے۔ کیونکہ ابراہیم علیہ السلام ایسی بات کہتے تھے جس سے طاقت کے نشے میں چور لوگوں کی ظالمانہ مادی شان و شوکت لرز جاتی تھی۔ یہ وہی کام تھا جو حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ اور آپ مومنین نے اپنی فریاد حق سے دنیا کی سامراجی طاقتوں کے ساتھ کیا ہے۔ آج دنیا ہر جگہ جب لوگ دشمن کا ریڈیو آن کرتے ہیں برطانیہ کا سرکاری ریڈیو، امریکا کا سرکاری ریڈیو، غاصب صیہونی حکومت کا ریڈیو اور ان کے زرخرید باقیات کہ جنہیں ملت ایران نے اپنی زندگی سے کوڑے کرکٹ کی طرح باہر پھینک دیا، ان کے ریڈیو کھولتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ملت ایران کو برا بھلا کہتے ہیں۔ حکومت ایران کو برا بھلا کہتے ہیں۔ اس نظام کو برا بھلا کہتے ہیں۔ امام خمینی اور اسلام کو برا بھلا کہتے ہیں۔ اگر کوئی غافل ہو اور ادراک و تجزیہ پر قادر نہ ہو تو تعجب کرے گا اور کہے گا کہ ہم اکیلے رہ گئے اور کمزور ہو گئے۔ میں کہتا ہوں اے عزیز ملت ایران! اے مومن نوجوانو! اے طاقتور بازوو! کہ تم نے آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ کے دوران دنیا کی بڑی طاقتوں کو جو عراق کی پشت پناہی کررہی تھیں، جھکا دیا، جان لو کہ ایک ملت کے عنوان سے تم دنیا میں یقینا اکیلے ہو مگر وہ قوم ہو کہ جس سے بڑی طاقتوں کی ہڈیوں کے گودے تک کانپتے ہیں۔
چونکہ ڈرتے ہیں اس لئے آپ کے خلاف پروپیگینڈہ کرتے ہیں۔ افواہ پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ چونکہ ڈرتے ہیں اس لئے فضا خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر نہ ڈر رہے ہوتے تو یہ کام نہ کرتے۔ ان کے ڈر کی وجہ کیا ہے؟ وہ کیوں ڈرتے ہیں؟ کیا ملت ایران نے کسی کے حق پر حملہ کیا ہے؟ کیا ہم نے کسی کو دھمکی دی ہے؟ کیا ہم نے کہیں لشکر کشی کی ہے؟ ہرگز نہیں۔ ہم نے کہیں بھی لشکر کشی نہیں کی ہے۔ البتہ جب ہماری سرحدیں توڑی گئیں اور ان پر قبضہ کیا گیا تو اس وقت عزت دار انسان کی طرح ہماری ملت بھی اٹھی، اپنی سرزمین کو آلودگی سے پاک کیا اور دشمن کو باہر نکالا۔ وہ دن دفاع کا دن ہے۔ وہ جارحین کو منھ توڑ جواب دینے کا دن ہے۔ وہ خبیث اور ذلیل لوگوں کو گردن پکڑکے باہر نکالنے کا دن ہے۔ اس دن یقینا ہماری قوم دلیری کے ساتھ میدان میں آئے گی۔ مگرملت ایران نے کسی کو دھمکی نہیں دی۔ ہم نے کسی بھی ملک کو فوجی حملہ کرنے اور جارحیت کی دھمکی نہیں دی۔ اس کو پوری دنیا تسلیم کرتی ہے اور کوئی بھی اس کے برخلاف (عمل کا) کوئی معمولی سا بھی نمونہ نہیں پیش کرسکتا۔ پھر وہ کس چیز سے ڈرتے ہیں؟ اس سے ڈرتے ہیں کہ ملت ایران نے ایسا نعرہ دیا ہے کہ یہ نعرہ براہ راست دنیا کی خودسر بڑی طاقتوں کے نقصان میں ہے۔
ملت ایران کہتی ہے اقوام کو خودمختاری ملنی چاہئے۔ اقوام کو اپنی خداداد دولت و ثروت پر اختیار ملنا چاہئے۔ ملت ایران یہ کہتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ یعنی یہ۔ حکومت الہی یعنی یہ۔ آپ دیکھیں کہ دنیا کی بڑی فوجی، سیاسی اور اقتصادی طاقتیں، بقول خود، ترقی پذیر اقوام کے ساتھ کیا کر رہی ہیں؟ جو بھی وہ کر سکتی ہیں ان کے ساتھ کر رہی ہیں ۔ اگر کسی ملک میں ‍قدرتی ذخائر ہیں تو دنیا کی طاقتور حکومتیں چاہتی ہیں کہ ان ذخائر سے خود اس قوم سے زیادہ فائدہ اٹھائیں اور جہاں تک ان کی بس چلتا ہے خود اس قوم سے زیادہ فائدہ اٹھاتی ہیں۔
خواتین و حضرات! دنیا میں افریقا اور لاطینی امریکا کے دو تین ممالک ہیں جو تقریبا دنیا کی ضرورت کا سار تانبا فراہم کرتے ہیں۔ جن اقوام کے پاس یہ تانبے کے ذخائر ہیں، وہ انہی ذخائر کے باعث بڑی طاقتوں کی سیاسی جارحیت کا نشانہ بنی ہیں اور سرانجام تانبے کی وجہ سے مالی لحاظ سے ٹوٹ گئیں جبکہ یہی تانبا ان کے ہاں سے دنیا کے بڑے اور دولت مند ملکوں میں برآمد ہوتا ہے اور وہ اس اہم اور ضروری مادے سے تقریبا مفت میں فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ خود ہمارے تیل کو دیکھ لیں۔ میں نے ایک وقت ان بعض سیاستدانوں سے خطاب میں جو تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں فعال ہیں، ایک نکتہ اور سوال اٹھایا اور کہا کہ آج ہمارے پاس تیل ہے۔ خلیج فارس کے ساحلی ممالک، بعض افریقی اور بعض ایشیائی ممالک کےپاس تیل ہے۔ اس گراں قیمت تیل کو اس کی حقیقی قیمت سے فی بیرل کئی گنا کم قیمت پر ان سے خریدتے ہیں، یہ ممالک بھی چونکہ انہیں تیل کی فروخت سے ملنے والے پیسے کی ضرورت ہے، مجبورا کم قیمت پر اس کو فروخت کرتے ہیں اور سامراجی طاقتیں اس تیل سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرتی ہیں ۔ میں نے جو سوال اٹھایا یہ تھا کہ فرض کریں کہ سعودی عرب، ایران، متحدہ عرب امارات اور کویت وغیرہ کے بجائے یہ تیل امریکا، برطانیہ، اٹلی اور بعض دیگر یورپی ملکوں کے پاس ہوتا اور ہم ان سے تیل خریدنا چاہتے تو خدا کے لئے بتائیے کیا وہ ایک قطرہ تیل ہمیں دیتے؟ اگر آپ ان سے ایک بیرل تیل لینا چاہتے تو سو طرح کی شرطیں لگاتے اور اس کے بعد اپنی مرضی کی قیمت پر آپ کو تیل دیتے۔ آج وہی تیل یعنی وہی قیمتی مائع تیل پیدا کرنے والی بعض حکومتوں کی جو ان سے ملی ہوئی ہیں، خیانت سے فائدہ اٹھاکر کمترین ممکن قیمت پر تقریبا لوٹ کر لے جار رہے ہیں اور اس سے ان کی صنعتیں چل رہی ہیں۔ ان کی روشنی ہمارے تیل سے ہے۔ ان کی گرمی ہمارے تیل سے ہے۔ ان کے ہاں زندگی ہمارے تیل سے ہے۔ ان کے کارخانے ہمارے تیل سے چل رہے ہیں اور ان کی مصنوعات سے ہمارے تیل سے تیار ہورہی ہیں ۔
دنیا کی خودسر طاقتوں کی غنڈہ گردی یہ ہے۔ میرے عزیزو! آج سامراجی دنیا یہ ہے اور اس طرح عمل کر رہی ہے۔ اگر ان کے لئے ممکن ہو تو کمزور ملکوں سے غلام کی طرح کام لیں اور ان سے فائدہ اٹھائیں۔ جیسا کہ براہ راست سامراج کے زمانے میں انہوں نے یہ کام کیا ہے۔ آج بھی دوسری شکل میں وہی کام کر رہے ہیں۔ اس دنیا میں، ایسی حالت میں، ملت ایران نے قیام کیا، اس حکومت کو جو انہیں سامراجی طاقتوں کی کٹھ پتلی اور زرخرید تھی، یعنی منحوس پہلوی خاندان کو اقتدار سے ہٹا دیا اور ملک سے نکال باہر کیا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے پچاس سال سے زائد عرصے تک ملک سے خیانت کی، اس قوم کو ہر شعبے میں پسماندہ رکھا اور اس کی دولت و ثروت کو برباد کیا۔
اس ملک کے مسلمان عوام کے ارادے سے جو حکومتیں برسراقتدار آئیں وہ کوشش کر رہی ہیں کہ ان تباہیوں کی تلافی کریں، اصلاح کریں، تعمیر نو کریں اور جو خلا پیدا ہوا ہے اس کو پر کریں۔ اس عظیم تحریک میں ملت ایران کا سلوگن کیا ہے؟ خودمختاری۔ یہ قوم کہتی ہے؛ ہم خود مختار رہنا چاہتے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے امریکا، برطانیہ اور دوسری طاقتیں ہماری تقدیر پر مسلط ہوں۔ یہی خومختاری کا نعرہ وہ نعرہ ہے جو دنیا کی سامراجی طاقتوں کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ یہ ابراہیم خلیل اللہ کے نعرے کی طرح ہے۔ اس سے ذرہ برابر مختلف نہیں ہے۔ جس طرح اس دور میں نمرود نظام ابراہیم علیہ السلام سے ڈرتا تھا، جبکہ وہ ایک اکیلے تھے اور ایک بات کہتے تھے، اسی طرح آج کا سامراجی نظام ایرانی حکومت اور ملت سے ڈرتا ہے، ایران کی قیادت سے ڈرتا ہے، حضرت امام خمینی (رحمت اللہ علیہ) کے نام سے ڈرتا ہے۔
جب یہ کہا جاتا ہے کہ عالمی سامراج ایرانی قوم سے ڈرتا ہے، تو بعض لوگوں کو یقین نہیں آتا۔ ایک کمزور نکتے کے عنوان سے پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں؛ تم نے کیا کیا ہے جو تم سے ڈرتا ہے؟ یہ خوف اس انسان سے ایک مجرم کا خوف ہے جو اس کو اس کی اوقات پر پہنچانا چاہتا ہے۔ یہ ایک مجرم کا خوف ہے اس سے جس کو جرم کی شناخت ہے اور وہ مجرم کو بے نقاب کرنا چاہتا ہے۔ سامراج کو جو ڈر ہے وہ یہ ہے۔
یہ نکتہ بھی عرض کردوں؛ عزیز بھائیو اور بہنو! پندرہ سال ہو گئے ہیں کہ ملت ایران خدا کے فضل سے، دشمنوں کی تمام دھمکیوں اور دباؤ کے مقابلے میں ڈٹی ہوئی ہے۔ پوری عظمت اور شکوہ کے ساتھ اس نے مزاحمت کی ہے۔ آپ کی اسی استقامت نے دیگر اقوام میں امید پیدا کی ہے۔ دشمن اس استقامت کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ عالمی سامراج کے حکام مستقل یہ بات کہتے ہیں کہ ہم ایران کے ساتھ روابط رکھنا چاہتے ہیں، یہ حقیقت کے خلاف اور ریاکاری کے بیانات ہیں۔ ان نعروں اور بیانات کا اصل مقصد ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام سے ہمدردی نہیں ہے۔ ماضی کی غلطیوں کا اقرار نہیں ہے۔ مستقبل کے لئے یہ عہد نہیں ہے کہ اس کے بعد ملت ایران کے ساتھ زور زبردستی نہیں کریں گے۔ یہ ایک طرح کا فریب ہے۔ بظاہر کہتے ہیں ہم روابط برقرار کرنا چاہتے ہیں، اس کے بعد کہتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ ایران اپنی انتہا پسندانہ باتوں سے صرف نظر کرے ہماری انتہا پسندی کی باتیں کیا ہیں؟ اسلامی جمہوری نظام اور ملت ایران کی ایک انتہا پسندی یہ ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ ہم نہیں چاہتے کہ سامراجی طاقتیں ہمارے کام میں مداخلت کریں۔ یہ بات انتہا پسندی ہے؟ سامراجیوں کی نظر میں یہ بات ایسی ہے جو نہیں کہنی چاہئے۔ کہتے ہیں یہ کیوں کہتے ہو کہ ہمارے کام میں مداخلت نہ کرو؟ اسی مشرق وسطی میں، اسی اپنے اسلامی علاقے میں ایسی حکومتوں کو پہچانتے ہیں جو کسی دوسری حکومت سے رابطہ قائم کرنا چاہیں تو امریکا سے اجازت مانگتی ہیں۔ امریکا سے کہتی ہیں؛ آپ اجازت دیتے ہیں کہ ہم فلاں حکومت سے تعلقات رکھیں؟ یہ خود کہتی ہیں اور انہیں شرم بھی نہیں آتی ۔
اسی ملک ایران میں، خیانت کار محمد رضا پہلوی اس لئے کہ کس کو وزیر اعظم بنایا جائے، کون تیل کمپنی کا چئرمین بنے، کون وزیر دفاع بنے یا کس کو وزیر خارجہ بنایا جائے، تہران میں امریکا اور برطانیہ کے سفارتخانوں میں کسی کو بھیجتا تھا اور ان سے کہتا تھا کہ میں فلاں کو لانا چاہتا ہوں ، آپ کی رائے کیا ہے؟ اگر وہ کہتے تھے لاؤ تو لاتا تھا اور اگر کہتے تھے نہ لاؤ تو نہیں لاتا تھا۔ امریکی یہ چاہتے ہیں۔ عالمی سامراج یہ چاہتا ہے۔ ہیں ایسی حکومتیں جو اس طرح عمل کرتی ہیں اور انہوں نے اقوام کے نسبت ان وحشی بھیڑیوں کو جری بنا رکھا ہے۔ ملت ایران کی انتہا پسندی یہ ہے کہ وہ کہتی ہے کہ ملت ایران ایک بڑی قوم ہے ایک پرانی قوم ہے، تہذیب و تمدن کی مالک قوم ہے، درخشان تاریخ کی مالک قوم ہے، ایسی قوم ہے جس کے مردوں، عورتوں اور ماؤں نے دنیا کی سختیوں میں ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ فولاد کی مانند ہیں۔ یہ قوم امریکا اور دیگر سامراجی طاقتوں کا تسلط قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔
فلسطین کے مسئلے میں بھی ہمارا موقف واضح ہے۔ ہم ملت فلسطین کے طرفدار ہیں۔ ہم آزادی فلسطین کے طرفدار ہیں۔ ہم سرزمین فلسطین سے جارحین کا قبضہ ختم کئے جانے کے طالب ہیں۔ ہم کہتے ہیں آج فلسطینی عوام اپنے گھروں میں محفوظ نہیں ہیں۔ اسلام اس صورتحال کو قبول نہیں کرتا، اس لئے ہم بھی اسے مسترد کرتے ہیں۔ چاہے دوسرے ممالک مذاکرات کی میز پر بیٹھیں اور اپنے خیال میں فلسطین کو دشمن کے ہاتھ بیچ دیں۔ مگر انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ملت فلسطین اور مسلم اقوام فلسطین کو دشمن کے ہاتھ ہرگز فروخت نہیں کریں گی۔
خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ہماری قوم بیدار ہے۔ خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ہماری ملت میدان عمل میں موجود ہے۔ ہماری ملت نے آج تک جو کیا ہے اس پر فخر کرتی ہے۔ حکام انہیں عوام میں سے ہیں۔ یہی جذبات، یہی ایمان اور یہی پالیسی ان کی بھی ہے۔ ملک کی مجریہ کا سربراہ صدر مملکت با ایمان، مجاہد اور خود عوام سے ہے جس کا ماضی درخشاں اور روشن ہے۔ پارلیمنٹ عوام کے نمائندوں پر مشتمل ہے۔ ان کی خواہشات، جذبات اور پالیسی بھی یہی ہے۔ ہماری عدلیہ کا نظام بھی عوامی ہے اور عوام سے ہی تعلق رکھتا ہے۔ البتہ ملکی سطح پر اس قوم کو بعض خامیوں کا سامنا ہے، حکام کو ان کمیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ کمیوں کو دور کریں مشکلات کو دور کریں۔ پوری قوم میں ایک عظیم قومی اسلامی تحریک پائی جاتی ہے۔ قوم اور حکومت مل کر کوشش کر رہی ہیں اور انہیں مل کر کوشش کرنی بھی چاہئے۔
خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ملت ایران کے سامنے روشن راستہ ہے۔ یہ قرآن کی برکات اور اسلام اور قرآن پر ایمان کی برکات ہیں۔ یہ ہدایت الہی کی برکات ہیں۔ یہ حضرت امام (خمینی رحمت اللہ علیہ ) کی ہدایات اور رہنمائیوں کی برکات ہیں۔ یہ ملت ایران کی بصیرت کی برکات ہیں۔ اس راستے پر اسی قوت کے ساتھ گامزن رہیں کہ کامیابی ملت ایران کے لئے ہے۔ دشمن چاہے کتنے ہی خودسر اور منہ زور کیوں نہ ہوں ملت ایران کے ارادوں کے مقابلے میں پسپائی پر مجبور ہیں۔ جس طرح اب تک پسپا ہوئے ہیں اور جس طرح اب تک شکست کھائی ہے (آئندہ بھی کھائیں گے ) وہ چاہتے تھے یہ نظام نہ رہے۔ وہ چاہتے تھے اسلام کا نام نہ رہے مگر خدا کے فضل سے اسلام روز بروز زیادہ سربلند ہوا اور یہ نظام روز بروز زیادہ مستحکم ہوا۔
پروردگار! تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کی توجہات ہمیشہ اس ملت کے شامل حال رہے۔
پروردگار! یہ عید سعید اس قوم کو مبارک ہو۔
پرودگار! خوشی اور خوش حالی اس ملت کے ہر گھر اور ہر دل کو نصیب ہو۔
پروردگار! اس اتحاد اور یک جہتی کو جو اس قوم اور حکومت میں پائی جاتی ہے، روز بروز محکم تر کر ۔ پروردگار! ہمارے شہدا کی ارواح کے تقرب اور درجات کی بلندی میں ہر لحظہ اضافہ فرما۔
پروردگار! ہمارے امام کی پاک روح کو اپنے اولیا کے ساتھ محشور فرما ۔
پروردگار! مشکلات، مسائل اور پریشانیوں کو اپنے توانا ہاتھوں سے دور فرما۔
پروردگار! اس قوم کو دشمن پر فتح کی لذت عنایت فرما۔
پرودگار! تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ ہمیں، ہدایت، ذکر اور بصیرت عطا فرما۔
پروردگار! ہمیں اس روضہ مبارک کی برکات اور حضرت علی بن موسی الرضا علیہ الصلوات و السلام کے فیضان سے بہرہ مند فرما۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ ۔