آپ نے اپنے خطاب میں امام خمینی کی تحریک کے ایران اور عالم اسلام سے متعلق دو پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور اس تحریک کے اثرات و ثمرات کی نشاندہی کی۔ قائد انقلاب اسلامی نے مجوزہ دسویں صدارتی انتخابات کے سلسلے میں دشمنوں کے پروپیگنڈوں کی جانب اشارہ کیا اور انتخابی امیدواروں اور ان کے حامیوں کے اہم ہدایات دیں۔ تفصیلی خطاب پیش نظر ہے:
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
الحمد للَّه ربّ العالمين. و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على اله الأطيبين الأطهرين المنتجبين سيّما بقيّةاللَّه فى العالمين
چودہ خرداد (چار جون) کی تاریخ پر جو بابائے قوم کی رحلت کے جانگداز سانحے کی یاد دلاتی ہے، آپ تمام حاضرین، عظیم ملت ایران اور تمام آزاد منش انسانوں کو تعزیت پیش کرتا ہوں۔ میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ہم سب کو یہ توفیق عنایت فرمائے کہ تاریخ اسلام کی اس عظیم الشان ہستی کی یاد تازہ رکھتے ہوئے اپنی، ملت ایران کی اور پوری امت مسلمہ کی پیش قدمی و پیشرفت کے لئے زاد راہ حاصل کر سکیں۔
میں چند جملے امام (خمینی رہ) کی راہ اور آپ کے ہدف کے سلسلے میں عرض کرنا چاہوں گا اور وہ یہ ہے کہ امام (خمینی رہ) کی وصیتوں، نعروں اور عوام، عہدہ داران اور دنیا بھر کے مسلمانوں سے آپ کی جو خواہش ہے، ان سب پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے ہاتھوں پر دو پرچم بلند نظر آتے ہیں۔ ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رہ) نے ہمارے ملک اور عالم اسلام میں دو پرچم بلند کئے اور دونوں کو بلند رکھا۔ ایک اسلام کے احیاء کا پرچم یعنی اس عظیم و لا متناہی قدرت کو میدان عمل میں وارد کرنا اور دوسرے ایران و ایرانی تشخص کی سرفرازی کا پرچم۔ یہ دونوں پرچم عظیم الشان امام (خمینی رہ) کے طاقتور ہاتھوں پر بلند ہوئے۔ پہلا پرچم، جو در حقیقت امام (خمینی رہ) کی تحریک اور دعوت کا ایک پہلو ہے، عظیم امت اسلامیہ سے متعلق ہے اور دوسرے پرچم کا تعلق ویسے تو ملت ایران اور ایران و ایرانی تشخص سے ہے لیکن چونکہ یہ بھی بذات خود حیات بخش اسلامی تحریک کے عملی تجربے سے عبارت ہے، اس لئے پوری امت مسلمہ کے لئے امید اور جرئت اقدام کا سرچشمہ ہے۔ بنابریں اگرچہ اس کا تعلق براہ راست ایران اور ایرانی تشخص سے ہے لیکن اس کا نتیجہ امت مسلمہ کے لئے بھی اہم اور با ارزش ہے۔ میں ان دونوں پہلوؤں کے بارے میں اختصار سے کچھ باتیں عرض کروں گا۔
وہ پہلو جو پرچم اسلام کے بلند ہونے سے عبارت ہے، اس نے پوری دنیا میں مسلمانوں کو ان کے تشخص کا احساس دلایا، انہیں اپنی شناخت ملی۔ برسہا برس سے یہ کوشش کی گئی تھی کہ اسلامی تشخص مٹ جائے، کچل اٹھے، لیکن جب یہ انقلاب آیا، جب دنیا کے مسلمانوں کی نظریں ہمارے عظیم امام (خمینی رہ) پر پڑیں تو سب کو ایک نئے تشخص اور اپنی حقیقت کا احساس و اندازہ ہوا۔ نتیجے میں عالم اسلام کے مشرق و مغرب میں مسلمانوں کی بیداری کے اثار نمایاں ہونے لگے۔ دسیوں سال ناکامی کا سامنا کرنے والی ملت فلسطین میں نئی جان پڑ گئی۔ عرب ممالک کے نوجوانوں میں جو اسرائیل سے لڑی جانے والی تین جنگوں میں اپی حکومتوں کی شکستوں کو دیکھ کر مایوس اور پژمردہ ہو چکے تھے نئی رعنائی پیدا ہوئی۔ یہ سب کچھ عالم اسلام کی سطح پر رونما ہوا، صرف ہمارے ملک تک ہی یہ محدود نہیں رہا۔ صیہونی حکومت جو اسلامی ممالک کے قلب میں سرطانی پھوڑے کی مانند موجود ہے اس سے قبل تک خود کو ناقابل شکست طاقت کے طور پر پیش کرتی آئی تھی اور عالم اسلام میں بھی بہت سے لوگوں کو یقین ہو چلا تھا کہ اسرائیل ناقابل تسخیر ہے، مسلمان نوجوانوں نے اسے زوردار طمانچہ رسید کیا۔ فلسطین کی انتفاضہ تحریکوں کا آغاز ہو گیا اور صیہونی حکومت کے پیکر پر پے در پے وار لگے۔ وہ پہلی تحریک انتفاضہ ہو یا انتفاضہ اقصی، نو سال قبل لبنان سے پسپائی اور شکست ہو یا گزشتہ تینتیس روزہ جنگ لبنان یا غزہ کے مظلوم عوام کی بائیس روزہ استقامت یہ سب صیہونی حکومت پر پڑنے والی ضربیں تھیں۔ یہ ایسے عالم میں ہوا کہ جب اسلامی انقلاب کی کامیابی کے وقت مسلمان حکومتوں اور عوام کی نظروں میں صیہونی حکومت ناقابل شکست طاقت چکی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسرائیل نے نیل سے فرات تک کا نعرہ فی الحال ترک کر دیا اور رفتہ رفتہ اسے فراموش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔افریقا سے لیکر مشرقی ایشیا تک مسلمان قومیں اسلامی نظام اور اسلامی حکومت کی تشکیل کے بارے میں سوچنے لگیں، البتہ الگ الگ فارمولوں کے تحت، اسی فارمولے کے تحت نہیں جس پر (ایران کا) اسلامی نظام اور اسلامی حکومت استوار ہے، لیکن بہرحال اپنے ملک میں اسلامی نظام کی تشکیل کی فکر ان میں پیدا ہوئی۔ بعض ممالک میں کامیابی بھی ملی اور بعض میں اسلامی تحریکوں کا مستقبل تابناک دکھائی دے رہا ہے۔
عالم اسلام میں روشن فکر افراد نئی امید کے ساتھ میدان میں آئے۔ وہی شاعر، فنکار اور مصنف جو کبھی مایوسانہ انداز میں گفتگو کیا کرتے تھے، ہارے ہوئے دکھائی پڑتے تھے، اسلامی انقلاب کے بعد عظیم امام (خمینی رہ) کی تحریک کے بعد اور اس قوم کی استقامت کا جذبہ دیکھ لینے کے بعد ان کا انداز بدل گیا۔ ان کی گفتگو، ان کے اشعار اور ان کے قلم کا لہجہ تبدیل ہو گیا۔ اس پر امید کا رنگ چڑھ گیا، یہ سلسلہ بڑا طولانی ہے۔
میں یہیں سے ملت اسلامیہ کی خدمت میں عرض کرنا چاہوں گا کہ اگر آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ آپ کے سلسلے میں مغرب والوں کا لہجہ نرم پڑ گیا ہے تو یہ عالم اسلام میں پیدا ہونے والی بیداری اور جذبہ استقاقت کا نتیجہ ہے۔ اللہ نے مومنین سے کامیابی دلانے کا جو وعدہ کیا ہے وہ اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک وہ استقامت نہیں کریں گے، ڈٹ نہیں جائیں گے، جانفشانی نہیں کریں گے۔ یہ استقامت جس مقدار میں سامنے آئی ہے حالات اتنے تبدیل ہوئے ہیں۔ عالم اسلام مغرب کے مقابلے میں اس حقارت آمیز حالت سے باہر نکل چکا ہے۔
ماضی میں تسط پسند طاقتیں اسلامی ممالک کے سلسلے میں منمانی فیصلے کرتی تھیں، مسلم قوموں اور حکومتوں میں کسی کی رائے جاننے تک کی زحمت گوارا نہیں کرتی تھیں اگر ان کے پاس تیل تھا تو اس تیل کے سلسلے میں، اگر ان کے پاس بازار تھا ان کے اس بازار کے سلسلے میں وہی (مغربی حکومتیں) فیصلے کرتی تھیں، منصوبہ سازی کرتی تھیں اور اس پر عملدرآمد لازمی ہوتا تھا۔ عالم اسلام میں بیداری آنے کے بعد یہ حالت کافی حد تک بدل گئی۔ تمام عالم اسلام میں مسلمانوں کو چاہئے کہ اس کامیاب تجربے کی قدر کریں اور اسی کو بنیاد بنا کر اپنی سمت کا تعین کریں۔ قوموں کو جو چیز عزت و سربلندی دلاتی ہے وہ استقامت ہے۔
آج آپ غور کیجئے، امریکا کی یہ نئی حکومت اس (مشرق وسطی کے) خطے کے عوام کے لئے امریکا کی نئی شبیہ اور تصویر پیش کرنے کی کوشش میں ہے۔ البتہ اس کی یہ خواہش سمجھ میں بھی آنے والی ہے کیونکہ سابقہ امریکی حکومت نے اس علاقے کی قوموں کے سامنے امریکا کا نفرت انگیز، بد نما اور تشدد پسند چہرہ پیش کیا ہے۔ مشرق وسطی کی قومیں، مسلمان علاقے، شمالی افریقا کے علاقے تہہ دل سے امریکا سے متنفر ہیں۔ کیونکہ برسہا برس سے وہ ان علاقوں میں امریکا کا تشدد، فوجی مداخلت، قانون شکنی، تفریق اور جبری مداختلیں دیکھتے آئے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں امریکی حکومتوں کے ہاتھوں اپنے حقوق کی تضییع کا مشاہدہ کرتے رہے ہیں۔ بنابریں اس سے نفرت کرتے ہیں اور اب امریکا کی نئی حکومت اس شبیہ کو بدل دینے کے در پے ہے یعنی علاقے میں امریکا کا نیا چہرہ متعارف کرانا چاہتی ہے۔ یہ کیسے ہوگا؟ میں تو یہ بات پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ یہ باتوں، بیانوں اور نعروں سے نہیں ہو گا۔ انہوں نے ایسے کام کئے ہیں جن سے علاقے کی قومیں آزردہ خاطر اور رنجیدہ ہیں ان پر ضرب لگی ہے۔ اس آزردگی اور خفگی کو اس گہری نفرت کو باتوں، بیانوں اور نعروں سے دور نہیں کیا جا سکتا، بلکہ عمل ضروری ہے۔
امریکا جمہوریت کی بات کرتا ہے۔ قوموں کی خواہش و رائے کے احترام کی بات کرتا ہے لیکن فلسطین میں عوامی رائے کو یکسر نظر انداز کر دیتا ہے، در خور اعتناء نہیں سمجھتا، جس کی بنا پر ایک حکومت کا انتخاب ہوا تھا۔ اس سے عوام کے ذہنوں میں کیا تاثر پیدا ہوگا؟ بالکل عیاں ہے۔ فلسطینیوں کے حقوق کا مسئلہ ہے، ایک قوم دسیوں سال سے اپنے گھربار اور اپنے وطن سے ظالمانہ اور تشدد پسندانہ اقدامات کے ذریعے باہر نکال دی گئی ہے۔ یہ تو سب جانتے ہیں۔ یہ کسی مبہم تاریخ کا حصہ نہیں بلکہ گزشتہ ساٹھ سال کی بات ہے۔ فلسطینی قوم (کی ایک بڑی تعداد) اس طرح اپنے حقوق سے محروم، آوارہ وطن دوسرے ملکوں میں رہ رہی ہے۔ امریکا نے نہ صرف یہ کہ اس کے حقوق پر کوئی توجہ نہیں دی، اس کی حمایت نہیں کی بلکہ ستم بالائے ستم صیہونی حکومت کی بھرپور حمایت کر رہا ہے۔ اگر فلسطینیوں نے اعتراض کی آواز بلند کرنے کی کوشش کی تو ان کے اعتراض کو آشوب پسندی اور شر پسندی کا نام دے دیا گیا۔ کیسے اس کی تلافی ہو سکے گی؟
اس علاقے میں امریکا کے ہاتھوں ہونے والی حق تلفی کی مثالیں ایک دو نہیں ہیں۔ خود ہمارے ملک کے سلسلے میں بھی، ہمارے اسی ایٹمی توانائی کے مسئلے میں بھی جو پچھلے چند برسوں سے چل رہا ہے، آپ دیکھئے کہ کس حد تک حقیقت پر پردہ ڈالا جا رہا ہے۔ کتنی خلاف حقیقت باتیں کی جا رہی ہیں؟ کتنا جھوٹ بولا جا رہا ہے؟! کس قدر ایک قوم کی خواہش کو جس نے اپنا قانونی اور فطری حق حاصل کیا ہے اور کر رہی ہے، دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہماری قوم کا کہنا ہے کہ ہم ایٹمی صنعت حاصل کرنا چاہتے ہیں، ہم زندگی کے مختلف امور میں پر امن مقاصد کے تحت ایٹمی توانائی سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں اور وہ یہی رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ ملت ایران ایٹم بم کی فکر میں ہے۔ کیوں جھوٹ بولتے ہیں؟ کیوں اپنی ان باتوں سے اپنے تئیں ملت ایران کی نفرت میں اضافہ کر رہے ہیں؟ انہوں نے ان گزشتہ برسوں میں یہ حرکتیں کی ہیں۔ ایرانی عوام اور حکام نے بارہا اعلان کیا ہے کہ ہم ایٹمی اسلحہ نہیں چاہتے۔ ہماری ضرورتوں اور ہمارے اسلحہ جاتی سسٹم میں اس کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ ہم نے اعلان کر دیا کہ اسلام کی رو سے ایٹمی اسحلے کا استعمال حرام اور ممنوع ہے۔ اس کا اپنے پاس رکھنا خطرناک اور اچھا خاصا درد سر ہے۔ نہ ہمیں اس کی خواہش ہے اور نہ ہم اس کے لئے کوشاں ہیں۔ اگر پیسہ بھی دیا جائے اور کہا جائے کہ آئیے آپ اسے لے لیجئے تو بھی ملت ایران ایسا نہیں کرے گی۔ ہمارے حکام یہ چاہتے ہی نہیں۔ لیکن اس کے بعد بھی آپ گزشتہ برسوں کے مغربی ممالک کے پروپیگنڈوں میں دیکھئے کہ وہ اپنی بات اور زبردستی کے بیانوں کو معقول دکھانے کے لئے بجائے اس کے کہ یہ کہیں کہ ملت ایران پرامن مقاصد کے تحت ایٹمی توانائی حاصل کرنا چاہتی ہے، کہہ رہے ہیں کہ ایران ایٹم بم بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ حق تلفی نہیں ہے؟
امریکی حکومت نے ان گزشتہ برسوں کے دوران خاص طور پر امریکا کے سابق احمق صدر نے دہشت گردی سے جنگ کے نام پر دو اسلامی ممالک یعنی عراق و افغانستان پر غاصبانہ قبضہ کر لیا۔ اب آپ افغانستان پر نظر ڈالئے تو یہی دیکھیں گے کہ امریکی جنگی طیارے شہریوں پر، سو افراد، ڈیڑھ سو افراد پر ایک بار، دو بار یا دس بار نہیں بلکہ ان برسوں میں بار بار بمباری کرتے اور ان کا قتل عام کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ دہشت گرد کیا کام کرتے ہیں؟ یہ بھی تو وہی کام ہے جو دہشت گرد کرتے ہیں۔ دہشت گرد ایک شخص، دو افراد اور دس افراد کو مارتے ہیں۔ آپ سو افراد اور ڈیڑھ سو افراد کا ایک ساتھ قتل عام کر دیتے ہیں۔ یہ کیسی جنگ ہے جو دہشت گردی کے خلاف لڑی جا رہی ہے؟ ہماری مصدقہ اطلاعات کے مطابق عراق میں (امریکی حکام) بعث پارٹی کے دہشت گرد عناصر کی حمایت اور مدد کرتے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نعرہ بھی لگاتے ہیں! ان چیزوں نے علاقے کی قوموں کو امریکا سے متنفر کر دیا ہے، امریکا کے چہرے کو سیاہ کر دیا ہے، اس کی شبیہ خراب کر دی ہے۔ اگر امریکا کے نئے صدر کی خواہش ہے کہ اس شبیہ کو بدلیں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ یہ حرکتیں بدلی جائيں۔ بیانوں اور نعروں سے یہ (ہدف) حاصل نہیں ہوگا۔ مسلمان قومیں بھی جانتی ہیں کہ امریکی حکام کی صداقت اسی وقت واضح ہوگی جب عملی طور پر وہ تبدیلی کریں ورنہ اگر ان کے عمل میں تبدیلی نہ ہوئی تو لاکھ کہتے رہیں امت مسلمہ سے میٹھی میٹھی، دلکش باتیں کرتے رہیں کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔ یہ اسلامی بیداری ہمارے عظیم امام (خمینی رہ) کی تحریک کا ایک پہلو تھا۔
دوسرا پہلو ایران اور ایرانی تشخص کے وقار سے متعلق ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے عظیم امام (خمینی رہ) نے سب سے پہلا جو کام کیا وہ یہ تھا کہ ملت ایران کے احساس کمتری کو رفع کیا۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ ڈیڑھ سو سال، سو سال سے ہماری قوم گوناگوں عوامل کے زیر اثر احساس کمتری میں مبتلا ہو گئی تھی۔ خود کو چھوٹا سمجھنے لگی تھی۔ قاجاریہ دور کی جنگوں، پے در پے شکستوں اور یکے بعد دیگرے شہروں کے قبضے سے نکلنے سے لیکر پہلوی دور اور رضاخان ایسے ڈکٹیٹر کی حکومت تک جو قوم کی بے رحمانہ سرکوبی کر رہا تھا اور کسی کو چوں چرا کی اجازت نہیں تھی۔ اس کے بعد محمد رضا خان کے زمانے میں امریکیوں کے تعاون سے (خفیہ ادارے) ساواک کی تشکیل کے ذریعے عوام سے جو بے رحمانہ برتاؤ کیا گیا اس سے عوام کو یہ محسوس ہونے لگا کہ ان کے پاس کسی چیز کی طاقت و توانائی نہیں ہے۔ کئی اہم ترین امور میں ملت ایران کو احساس ناتوانی ہوا۔ آئينی انقلاب سے لیکر جس میں قوم کو پہلے کامیابی مل گئی تھی نیشنلائزیشن کی تحریک تک جس میں قوم نے عظیم کارنامہ انجام دیا، حکام اور ذمہ دار افراد اس تحریک کو برقرار نہیں رکھ سکے اور نتیجے میں قوم کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ اس کے بعد سن انیس سو چون سے انیس سو اٹھتر تک چوبیس سال کے عرصے میں عوام پر بھیانک آمریت مسلط رہی اور قوم میں کوئی جوش و جذبہ باقی نہیں بچا۔
دوسری طرف مغرب زدہ روشن خیال حضرات جن میں سے بیشتر اسی ظالم حکومتی نظام کا حصہ تھے اپنے قول و فعل سے عوام کو یہ باور کرانے پر تلے ہوئے تھے کہ آپ کے اندر کوئی لیاقت نہیں ہے، کسی کام کی صلاحیت نہیں ہے، آپ صرف دوسروں کی تقلید کیجئے۔ علم و دانیش کے میدان میں تقلید کریں، صنعت میں تقلید کریں، ثقافت میں تقلید کریں، لباس میں تقلید کریں، کھانے پینے میں تقلید کریں، انداز گفتگو میں تقلید کریں۔ نوبت یہ آ گئی کہ وہ یہاں تک کہنے لگے کہ فارسی رسم الخط تبدیل کر دیا جائے! آپ اندازہ کیجئے کہ قوم خود مختاری اور عزت نفس سے کتنی بے بہرہ ہو گئی تھی کہ اس سے کہا جانے لگا تھا کہ آپ اپنا رسم الخط تبدیل کیجئے۔ فارسی رسم الخط جس میں ہماری ہزار سالہ علمی میراث رقم کی گئی ہے ہم اسے ہی بدل دیں! یورپیوں کا رسم الخط اپنائيں اور اس کی تقلید کریں۔ یہ حالت کر دی گئی تھی۔ امام (خمینی رہ) نے آکر اس احساس کمتری کو دور کر دیا اور آپ کی پندرہ سالہ تحریک کے دوران اور انقلاب کی کامیابی تک اور پھر انقلاب کی کامیابی کے بعد کی آپ کی عمر مبارک کے دس برسوں میں آپ نے قوم میں خود اعتمادی کی روح پھونکی۔ آپ کر سکتے ہیں، آپ صلاحیت رکھتے ہیں، آپ عظیم ہیں، آپ طاقتور ہیں۔ یہ قومی خود اعتمادی ملک کی ترقی کے دو بنیادی ستونوں میں سے ایک ہے۔ دوسرا ستون مادی وسائل ہیں لیکن صرف مادی وسائل کافی نہیں ہیں۔ ممکن ہے کہ کسی قوم کے پاس وسیع مادی وسائل ہوں لیکن وہ بلندیوں پر نہ پہنچ سکے، ایک با وقار اور طاقتور قوم نہ بن سکے۔ یہی دیکھ لیجئے کہ انقلاب سے قبل ہمارے پاس یہی تیل تھا، یہی گیس تھی، یہی قیمتی معدنیات تھیں۔ یہی اعلی استعداد اور با صلاحیت افرادی قوت تھی لیکن پھر بھی ہمارا شمار دنیا کی تیسرے درجے کی گمنام قوموں میں ہوتا تھا جو بڑی طاقتوں کے ہاتھ کا کھلونا تھیں، پٹھو حکومت جو قوم کی دشمن طاقتوں سے وابستہ تھی اس قوم کے سر پر مسلط تھی۔ معلوم ہوا مادی وسائل کافی نہیں ہوتے، دوسرے عوامل بھی ضروری ہوتے ہیں۔ ان میں روحانی عوامل کا نام لیا جا سکتا ہے، اسی طرح (ان عوامل میں) خود اعتمادی اور قوم کا یہ احساس ہے کہ وہ سب کچھ کر سکتی ہے۔ امام (خمینی رہ) نے قوم کو یہ یقین دلایا کہ اس میں استقامت و پائیداری کی صلاحیت ہے۔ وہ اپنے ملک کو آزاد کر سکتی ہے۔ جس نظام کی اس نے اپنے ہاتھوں تشکیل کی ہے اسے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ دنیا کی بین الاقوامی سیاست پر اثر انداز ہو سکتی ہے اور ایسا ہی ہوا۔ یہ وہی قومی وقار ہے جس پر بیس دن قبل میں نے (شہر) سنندج میں اپنے کرد بھائيوں سے خطاب میں گفتگو کی۔ قومی وقار ملک کے لئے بہت اہم چیز ہوتی ہے۔ یہ قومی وقار صرف زبان سے ادا کر دی جانے والی چیز نہیں بلکہ یہ ہماری زندگی کے ہر شعبے میں مجسم ہوتا ہے۔
ملک کے انتظامی امور میں قومی وقار کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اور نظام اپنی قوم پر تکیہ کرے، عوام پر بھروسہ کرے۔
اقتصادی شعبے میں قومی وقار یہ ہے کہ ملک خود انحصاری کے درجے پر پہنچ جائے۔ اپنی ضرورت کی چیز دنیا سے لے اور دنیا اپنی ضرورت کی چیز اس سے حاصل کرے، مغلوب اور محکوم نہ رہے۔
علم و دانش کے شعبے میں قومی وقار سے مراد یہ ہے کہ اس ملک کا طالب علم، محقق اور موجد، علم کی سرحدوں سے گزر جانے کی کوشش کرے اور نئے علوم ایجاد کرے جسے ہم نے علم کی پیداوار کا نام دیا ہے۔ جن لوگوں نے سائنس کو اس مقام تک پہنچایا ہے وہ ایسے انسان تھے جو اوسط استعداد کے لحاظ سے ہم سے اگر پیچھے نہیں تو آگے بھی نہیں تھے۔ علم کے میدان میں صدیوں پر محیط ہماری درخشاں تاریخ ہے تو عصر حاضر میں بھی ہمیں نئے علوم کی ایجاد کرنا چاہئے، نئے علوم کا انکشاف کرنا چاہئے، دنیا کی علمی تعمیر میں ہمارا حصہ ہونا چاہئے، اس طرح وقار حاصل ہوگا۔
ثقافتی شعبے میں قومی وقار کا مطلب یہ ہے کہ قوم اپنی روایات اور اقدار کی پابند رہے، ان کو اہمیت دے، غیروں کی ثقافت کی نقل نہ کرے۔ افسوس کہ انقلاب سے قبل ہمارا ملک سو سال یا اس سے زیادہ عرصے تک مغربی ثقافت کی تباہ کن یلغار اور طوفان کی زد پر رہا، اسی میں غرق ہو گیا، جس کے عواقب ہم آج تک بھگت رہے ہیں، جس کا درد ہم آج تک برداشت کر رہے ہیں۔ قومی وقار کا تقاضا یہ ہے کہ قوم اپنی روایات کو اہمیت دے، ان کا احترام کرے، ان پر فخر کرے، لوگ کہتے رہیں کہ آپ تو رجعت پسند ہیں ان کی باتوں پر توجہ نہ دے۔ آج یورپی ممالک بہت سے ایسے کام کرتے ہیں کہ اگر کسی سمجھدار انسان کے سامنے ان کاموں کو رکھا جائے تو وہ بس دیکھے گا اور تمسخر آمیز ہنسی ہنسے گا۔ جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ جواب دیتے ہیں کہ یہ ہماری روایات میں شامل ہے، وہ اپنی روایات کے پابند ہیں، اپنی پرانی اور دقیانوسی روایات کے۔ لیکن جب دوسری قومیں اپنی روایات کا احترام کرنا چاہتی ہیں، ان کی پابند رہنا چاہتی ہیں تو ان کا مذاق اڑاتے ہیں ان پر طنز کرتے ہیں، ایسا کیوں؟ قومی وقار کا تقاضا یہ ہے کہ قوم دوسروں کی ثقافت دیکھ کر خود کو فراموش نہ کر دے، یہ ہے قومی وقار کا تقاضا۔ زندگی کے ہر شعبے میں قومی وقار کی ترجمانی ہوتی ہے، اس کے مصداق نظر آتے ہیں۔ ملک کا انتظام چلانے کی روش اور انسانوں سے رابطے کی کیفیت میں قومی وقار کے معنی یہ ہیں کہ معاشرے کے ایک اک فرد کا احترام کیا جائےامّا اخ لك فى الدّين و امّا نظير لك فى الخلق (1) کیونکہ اگر وہ تمہارا دینی بھائی ہے تو لائق احترام ہے اور اگر تمہارا دینی بھائی نہیں تو بھی قابل احترام ہے۔ معاشرے کا ہر انسان لائق احترام ہے۔ اس سے قومی وقار وجود میں آتا ہے۔ قومی وقار کے یہ مختلف پہلو ہیں جن کے سلسلے میں امام (خمینی رہ) کی خاص ہدایات تھیں، جن کی آپ نے نشاندہی فرمائی۔ اسلامی نظام بھی ان برسوں کے دوران اسی خود اعتمادی کے سہارے آگے بڑھا ہے۔ البتہ اس میں نشیب و فراز آئے، افتاں و خیزاں پیشقدمی ہوئی لیکن قوم کہیں رکی نہیں، (پیش قدمی) متوقف نہیں ہوئی۔ ہماری ملت کا یہ قومی وقار آج دنیا میں بھی منعکس ہو چکا ہے۔ میں ان لوگوں کی بات تسلیم نہیں کر سکتا جو یہ سمجھتے ہیں کہ اپنے اصولوں اور بنیادوں کی پابندی کے باعث ہماری قوم دنیا میں ذلیل و رسوا ہو گئی ہے، نظروں سے گر گئی ہے۔ ہرگز نہیں۔ ہمارے دشمن موجود ہیں، ان دشمنوں کا مشترکہ محاذ ہے جس میں دنیا کی مداخلت پسند اور استبدادی طاقتیں شامل ہیں۔ ان کو جیسے ہی محسوس ہوتا ہے کہ کوئی ملک ان کے مدار سے خارج ہو رہا ہے جسے وہ اب تک اپنے مدار کے سیاروں میں شمار کرتی تھیں مثلا ایران جو اسلامی انقلاب کے بعد ان کے مدار سے خارج ہو گیا تو وہ فورا اس کا مقابلہ کرنے، اسے کچل دینے، اس کی توہین پر تل جاتی ہیں۔ ان کے پاس تشہراتی وسائل بھی بہت زیادہ ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنا قومی وقار کھو بیٹھے ہیں۔ خود ان افراد کے دلوں میں بھی امام (خمینی رہ) اور ملت ایران کا وقار بیٹھ گیا ہے جو اسلام اور اسلامی جمہوریہ کے دشمن ہیں۔
امام (خمینی رہ) کی ہدایات اور فرمودات کی پروردہ ہماری عظیم قوم کی بلندی و ترقی کی جانب جانے والی راہ عبارت ہے اس سے کہ ہر شعبے میں قومی وقار کو ملحوظ رکھا جائے۔ یہ قوم بلندیوں اور اعتلاء تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور جب کوئی قوم طاقتور ہو جاتی ہے اور مادی و روحانی بلندیوں پر پہنچ جاتی ہے تو پھر اس کی سلامتی اور سکیورٹی مکمل ہو جاتی ہے۔ یعنی اس کی ہر ناتوانی دور ہو جاتی ہے، پھر دشمن اس کی جانب سے مایوس ہو جاتا ہے۔ اگر ہماری قوم مکمل تحفظ حاصل کرنا چاتی ہے، اگر اس کی خواہش ہے کہ دشمن اسے دھمکی دینے کی جرئت نہ کر سکے تو اسے چاہئے کہ اسی راہ پر آگے بڑھے۔ اگر اسے ترقی و سماجی انصاف چاہئے تو اسی سمت میں پیش قدمی کرے۔ ہمارے ملک کے لئے سب سے خطرناک چیز عوام سے دوری ہے، اسلامی اقدار کے سلسلے میں بے اعتنائی ہے، امام (خمینی رہ) کی بابرکت راہ سے علاحدگی ہے، یہ ہمارے ملک کے لئے بڑے خطرے ہیں۔ اگر یہ ڈھانچہ جسے اسلامی انقلاب نے وجود بخشا ہے محفوظ رکھا جائے تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بیشتر مشکلات کو دور کیا جا سکتا ہے۔ اس محکم ڈھانچے کو ہرگز نقصان نہ پہنچنے دیجئے کیونکہ اگر ایسا ہوا تو پھر کسی زخم کا مداوا نہیں ہو سکے گا، کسی نقص اور کمی کو دور نہیں کیا جا سکے گا۔ جو ڈھانچہ ہمیں امام (خمینی رہ) سے ملا ہے ہمیں چاہئے کہ اس کی حفاظت کریں۔ میں اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ان تیس برسوں میں عوام اور ملک کے حکام حتی الوسع اسی راہ پر چلے ہیں۔ البتہ اس میں نشیب و فراز سامنے آئے۔ کبھی (یہ پیش قدمی) بہتر رہی تو کبھی کچھ کم رہی لیکن یہ سفر بہرحال آج تا جاری ہے اور اللہ تعالی کی توفیقات شامل حال رہیں تو آپ عوام بالخصوص آپ نوجوانوں کے بلند حوصلوں کے ذریعے یہ سفر حتمی اور مکمل کامیابی تک جاری رہے گا۔
چند جملے انتخابات کے سلسلے میں بھی عرض کرنا چاہوں گا۔ ہمارے ملک کا حساس، اہم اور تقدیر ساز مسئلہ ہے انتخابات کا۔ خواہ پارلیمانی انتخابات ہوں، ماہرین کی کونسل کے انتخابات ہوں یا صدارتی انتخابات جو کچھ دنوں بعد انجام پانے والے ہیں۔ میں انتخابات کے سلسلے میں چند نکات کی جانب اشارہ کروں گا۔
سب سے پہلا نکتہ تو یہ ہے کہ دو تین مہینے قبل سے ہی غیر ملکی ریڈیو سروسز نے ہمارے ملک کے انتخابات کی شبیہ کو بگاڑنے اور عوام میں بد گمانی پھیلانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ کبھی یہ کہا کہ یہ انتخابات نہیں تقرری ہے۔ کبھی یہ کہا کہ یہ حکومت کے اندر کا منصوبہ بند کنٹرول شدہ کھیل ہے۔ یہ کینڈیڈیٹ صرف ایک کھیل کر رہے ہیں۔ یہ جو آپ الگ الگ امیدوار دیکھ رہے ہیں جن میں آپس میں اختلاف رائے نظر آ رہا ہے یہ سب دکھاوا ہے، ایک کھیل ہے۔ کبھی یہ کہا کہ انتخابات میں یقینا بد عنوان ہوگی۔ ہر بار کوئی نیا شوشہ چھوڑا۔ اس ساری شرارت کا مقصد ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ عوام انتخابات میں بھرپور اور نمایاں شرکت نہ کریں۔ ان کا منشا یہ ہے۔
میرے عزیزو! عزیز ملت ایران! باہوش و بیدار ملت ایران! آزمودہ و تجربہ کار ملت ایران جس نے ان تیس برسوں میں سخت ترین منزلیں طے کی ہیں، آپ یاد رکھئے، وہ آپ کی جمہوریت کے مخالف ہیں۔ دشمن آپ کی (میدان عمل میں) موجودگی کا مخالف ہے، آپ کے (حق) انتخاب کا مخالف ہے۔ یہ نظام کے سرمائے یعنی عوام اور عوام کی رائے کو اس نظام سے چھین لینا چاہتے ہیں۔ انہیں خوب اندازہ ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ افسوس صد افسوس اس پر جو نادانستہ طور پر اور غفلت میں پڑ کر انہی (دشمنوں) کی باتیں دہرائے اور ملک کے اندر ان کے اہداف کی تکمیل کا سامان مہیا کرے۔ وہ عوام سے ان کی امیدیں سلب کر لینا چاہتے ہیں۔ ملت ایران کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ اس نے ان تیس برسوں میں اپنے حکام کا انتخاب خود کیا۔ نظام کے اعلی رتبہ حکام اوپر سے لیکر نیچے تک سب عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئے ہیں۔ قائد انقلاب کا انتخاب بھی عوام کرتے ہیں، ماہرین کے انتخاب کے توسط سے۔ صدر، اراکین پارلیمنٹ، گوناگوں کونسلوں(کے اراکین کا انتخاب عوام کرتے ہیں) یہ نظام کی قابل فخر خصوصیات میں ہے۔ اس چیز کو عوام سے سلب کر لینا چاہتے ہیں کیونکہ انہیں علم ہے کہ اسی سے نظام کو تقویت و استحکام پہنچتا ہے۔ میں تو یہی کہوں گا کہ جو بھی اس نظام کے استحکام سے دلچسپی رکھتا ہے، جسے اسلام سے لگاؤ ہے، جسے ملت ایران سے انس ہے اس کے لئے عقلا و شرعا انتخابات میں شرکت واجب ہے۔
انتخابات کے سلسلے میں دوسرا نکتہ: میرے عزیزو! ان امیدواروں میں ہر ایک کے حامی موجود ہیں، چاہنے والے موجود ہیں۔ کسی ایک امیدوار کے حامی دوسرے امیداوار کے حامیوں پر اعتراض کا حق نہیں رکھتے کہ آپ کیوں اس کی حمایت کر رہے ہیں، ہمارے پسندیدہ کینڈیڈیٹ کی حمایت کیوں نہیں کرتے؟ نہیں ( کسی کو یہ حق نہیں ہے) اور یہ ہمارے ملک کی قابل فخر خصوصیت ہے۔ الگ الگ مزاج، ذوق اور روش کے افراد عوام کے سامنے آتے ہیں۔ کچھ لوگ کسی ایک امیدوار کی تو کچھ دیگر دوسرے امیدوار کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ قابل فخر بات ہے۔ یہ اچھی چیز ہے۔ ہر امیدوار کے اپنے حامی ہیں۔ ان حامیوں میں بعض تعصب کی حد تک حمایت کرتے ہیں۔ اپنے امیدوار کے بڑے سخت اور کٹر حامی ہیں۔ کوئی بات نہیں، یہ اعتراض کی بات نہیں ہے۔ لیکن اتنا خیال ضرور رہے کہ یہ لگاؤ اور حمایت ٹکراؤ پر منتج نہ ہو۔ آشوب پر منتج نہ ہو۔ آپ اپنے یقین اور اپنے ایمان کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو دشمن کو یہ موقع نہ دیجئے کہ وہ آپ کے اس یقین و ایمان اور آپ کی ان امنگوں سے غلط فائدہ اٹھائے۔ میں نے سنا ہے اور مجھے اطلاع ملی ہے کہ ان امیدواروں کے حامی افراد سڑکوں پر نکلتے ہیں، میں سڑکیں ناپنے کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گا لیکن اس بات پر تاکید ضرور کروں گا کہ سڑکیں ناپنے کا یہ سلسلہ بحث و تکرار اور ٹکراؤ پر منتج نہ ہو۔ محتاط رہئے۔ اگر کسی کو دیکھئے کہ ٹکراؤ اور آشوب پر مصر ہے تو ( سمجھ لیجئے کہ) وہ یا تو خائن ہے یا بے انتہا غفلت کا شکار۔
انتخابات کے بارے میں تیسرا نکتہ یہ ہے کہ خود محترم انتخابی امیدوار بھی محتاط رہیں۔ یہ کوئی اچھی بات نہیں کہ کوئی امیدوار، انتخابی تشہیراتی بیان، تقریروں، ٹی وی کے پروگراموں یا دیگر پروگراموں میں خود کو نمایاں کرنے کے لئے دوسرے کی یکسر نفی پر اتارو ہو جائے۔ میری نظر میں یہ درست نہیں ہے۔ میں پہلے بھی اس سلسلے میں ایک سفارش کر چکا ہوں اور ان چند دنوں کے دوران بھی تاکید کروں گا۔ سبھی امیدوار ایک ہی ہدف کے لئے محنت کر رہے ہیں۔ ہر شخص اپنی نظر میں ایک احساس ذمہ داری کے تحت میدان عمل میں آتا ہے۔ میں مناظرے، بحث، مذاکرے اور نکتہ چینی کا مخالف نہیں۔ لیکن یہ کوشش کیجئے کہ یہ (عمل) شرعی و دینی حدود میں رہتے ہوئے انجام پائے۔ ہمارے عوام، بیدار عوام ہیں، سمجھتے ہیں اور جانتے ہیں۔ نگراں کونسل کی جانب سے تائيد شدہ چاروں امیدوار جو مختلف اجتماعات میں تقریریں کر رہے ہیں، خود یہ محترم امیدوار توجہ دیں، محتاط رہیں کہ ان کی تقاریر میں اور ان کے ان بیانوں میں ایسا کچھ نہ ہو کہ دشمنی و بغض کا باعث بنے۔ برادرانہ انداز میں باہمی انس و محبت کے ساتھے آگے بڑھئے۔ البتہ گوناگوں امور ذاتی مسائل اور عمومی امور کے سلسلے میں اختلاف نظر، اختلاف منشا اور اختلاف ذوق ایک فطری چیز ہے۔ اس میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے۔ لیکن یہ آشوب کی صورت اختیار نہ کرنے پائےاس بات پر خود محترم امیدوار توجہ دیں۔
چوتھی بات؛ انتخابات کے لئے میرے پاس ایک ووٹ سے زیادہ نہیں ہے اور اس کے بارے میں جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا ( کہ کس کو دوں گا) البتہ ممکن ہے کہ کچھ لوگ قیاس آرائی کریں۔ میں نے کسی سے نہ کہا ہے اور نہ کہوں گا کہ کس کو ووٹ دیں اور کس کو ووٹ نہ دیں۔ اپنے ووٹ کا حق مجھے ہے۔ قوم کا ووٹ اس کا اپنا حق ہے۔ عوام سے میں بس اتنا چاہتا ہوں کہ سبھی لوگ پوری توانائی، پوری طاقت اور پورے جوش و جذبے کے ساتھ بارہ جون کے دن پولنگ مراکز پر حاضر ہوں اور اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں۔ اللہ تعالی اس قوم کے ساتھ رہتا ہے جو تدبر کرتی ہے، فیصلے کرتی ہے، انتخاب کرتی ہے اور اللہ تعالی کے لئے اور اس کی راہ کے لئے اپنے اس انتخاب پر عمل کرتی ہے۔
پروردگارا! اپنی برکتیں اور رحمتیں اس قوم پر نازل فرما۔ پالنے والے! ہمارے عظیم امام (خمینی رہ) کی روح مطہرہ کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور فرما۔ پروردگارا! ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رہ) کے دو فرزندوں کی ارواح کو جو اس دنیا سے کوچ کرکے امام سے ملحق ہو گئے عظیم امام (خمینی رہ) اور اولیائے الہی کے ساتھ محشور فرما۔ پروردگارا! ہمارے عزیز شہداء کو جن کی ایک بڑی تعداد (امام خمینی رہ کے) اس عظیم الشان روضے کے نزدیک محو خواب ہے اور اسلام کے تمام شہیدوں کو اپنے اولیائے خاص کے ساتھ محشور فرما۔
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته
1) نهج البلاغه، خط نمبر 53