انتخابات میں پچاسی فیصدی ووٹنگ ہوئی جو ریکارڈ ٹرن آوٹ ہے۔ انتخابات میں دوسرے نمبر پر میر حسین موسوی رہے۔ انہوں نے انتخابات میں بدعنوانی کا الزام لگایا اور نتائج کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ اختلاف پیدا ہوتے ہی مغربی ذرائع ابلاغ نے اختلاف کا انعکاس ہی نہیں کیا بلکہ اسے ہوا دینے کی کوشش کی۔ ان حالات میں دسویں صدارتی انتخابات کے چاروں امیدواروں کے نمایندوں نے چھبیس خرداد تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق سولہ جون دو ہزار نو کو قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات کی جس میں آپ نے اہم ہدایات دیں۔ ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے ایران میں منعقد ہونے والے انتخابات کی خصوصیات بیان کیں اور موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے ہر لمحہ تیار دشمنوں کی چالوں سے خبردار کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے انتخابات کے شاندار انعقاد اور اس میں عوام کے ریکارڈ شرکت کے ثمرات پر روشنی ڈالی۔ قائد انقلاب اسلامی نے ہدایت دی کہ ہر اعتراض قانونی طریقے سے اٹھایا جائے۔ آپ نے انتخابات میں فتح حاصل کرنے والے اور ناکام ہو جانے والے امیدواروں کے حامیوں اور طرفداروں کو فتح اور ناکامی تحمل کرنے کی نصیحت کی۔ قائد انقلاب اسلامی کا یہ بیان مندرجہ ذیل ہے:
بسم اللَّه الرّحمن الرّحيم
میں یہاں تشریف فرما حضرات کی خدمت میں جن میں محترم (صدارتی) امیدواروں کے نمایندے بھی ہیں اور اور ذمہ دار اداروں کے افراد بھی ہیں، جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ہونے والے انتخابات بعض دیگر ملکوں کے برخلاف ہمیشہ قومی اتحاد کا مظہر اور قومی وقار کا آئینہ رہے ہیں۔ کیونکہ جو لوگ پولنگ مراکز پر آتے ہیں اور اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہیں در حقیقت وہ اسلامی جمہوریہ اور اسلامی نظام کے لئے اپنی حمایت کا اعلان کرتے ہیں۔ اسی بنا پر آپ نے ہمیشہ محسوس کیا ہوگا کہ ملک کے حکام اور خود میں نے ووٹنگ میں زیادہ سے زیادہ شرکت پر تاکید کی اور عوام کو اس کے لئے ترغیب دلائی۔ عوام بھی حساس مواقع پر دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے آگے آئے اور انہوں نے اپنا کردار ادا کیا۔ جب بھی ملک کو دنیا میں اپنے بدخواہوں کے سامنے موثر انداز میں اپنی آواز اٹھانے کی ضرورت پڑی عوام نے آگے بڑھ کر پولنگ مراکز پر اپنا کردار ادا کیا۔ میں نے انتخابات کے تعلق سے اپنے کئی تہنیتی پیغاموں میں یہ فقرہ بار بار دہرایا باہوش اور موقع شناس عوام اس دفعہ بھی میں نے یہ فقرہ استعمال کیا اور اس سے قبل بھی استعمال کر چکا ہوں۔ وجہ یہ ہے کہ پولنگ مراکز پر عوام کی بھرپور موجودگی ہمیشہ میدان عمل میں ان کی شراکت، ان کی آگاہی اور اسلامی نظام کے لئے ان کی حمایت کی آئینہ دار رہی ہے۔ بنابریں ہمارے انتخابات ہمیشہ قومی اتحاد اور قومی وقار کا آئینہ ثابت ہوئے ہیں۔ ہمیں یہ کوشش کرنا چاہئے اور یہ خیال رکھنا چاہئے کہ انتخابات، اختلاف اور شگاف کا باعث نہ بن جائیں۔ یہ میری بنیادی بات ہے۔ اگر یہ خيال کیا جائے کہ ایک طرف دو کروڑ چالیس لاکھ افراد ہیں اور دوسری طرف ایک کروڑ چالیس لاکھ ہیں یہ میری نظر میں بہت بڑی غلطی ہوگی، قضیہ کچھ اور ہے۔ سب کے سب ایک طرف ہیں۔ اس بار کے انتخابات میں منتخب ہونے والے صدر کو جن افراد نے ووٹ دیا ہے، انقلاب اور نظام سے انہیں بھی اتنا ہی لگاؤ ہے کہ جتنا ان افراد کو ہے جنہوں نے (انہیں ) ووٹ نہیں دیا ہے۔ عوامی طبقات اس ملک کی اولادیں ہیں۔ اس قوم کی اولادیں ہیں۔ یہ غلط ہے کہ ہم ان میں ان افراد کو جنہوں نے کسی ایک امیدوار کو ووٹ دیا ہے اور ان افراد کو جنہوں نے کسی دوسرے کینڈیڈیٹ کو ووٹ دیا ہے ایک دوسرے کا حریف قرار دیں۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ بس اتنی سی بات ہے کہ ایک انتخاب میں ان کے نظریات الگ الگ تھے لیکن جہاں تک نظام پر اعتقاد اور اسلامی جمہوریہ کی حمایت کی بات ہے یہ سب آپس میں ایک ہیں۔ ہمیں اس دفعہ کے انتخابات میں ڈالے جانے والے چار کروڑ ووٹوں کو دیکھنا چاہئے، یہ بہت اہم ہے۔ میرا اعتقاد ہے کہ یہ ہم سب کا فریضہ ہے، ہمیں اس کی پاسداری کرنا چاہئے۔ یعنی اسلامی نظام کی حمایت کے صریحی اعلان کے سلسلے میں اس قومی اتحاد و یکجہتی کو معمولی تصور نہ کریں۔ آج اسلامی نظام ثابت کر رہا ہے کہ اس کے اندر حقیقی جمہوریت موجزن ہے۔ عوام بیٹھہ کر مختلف امیدواروں کی گفتگو سنتے ہیں، دس دن، پندرہ دن سڑکوں پر (انتخابی سرگمیوں میں) مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ یہ میری نظر میں بہت بڑی بات ہے۔ ہمیں ان شبوں پر افتخار کرنا چاہئے جن میں تہران اور بعض دیگر شہروں میں عوام سڑکوں پر نکلتے تھے اور بعض کسی امیدوار تو بعض کسی دوسرے امیدوار کی حمایت کرتے تھے، نعرے لگاتے تھے اور ان میں کوئی تصادم بھی نہیں ہوتا تھا۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔ ہمارے عوام کا مزاج یہ ہے۔ نظریات میں فرق ہے، الگ الگ امیدواروں کے بارے میں وہ مختلف آرا کے حامل ہیں لیکن آپس میں مل کر کام کرتے ہیں۔ جناب میر حسین موسوی نے مجھے بتایا کہ وہ ایک سڑک سے گزر رہے تھے، ایک گاڑی ان کی گاڑی کے قریب آ گئی اور اس میں سوار افراد نے خندہ پیشانی کے ساتھ موسوی صاحب کے خلاف نعرے لگائے۔ موسوی صاحب کا کہنا ہے کہ میں نے ان کے لئے ہاتھ ہلایا اور ہماری گاڑی آگے بڑھ گئی۔ یہ بہت اچھی فضا ہے۔ یہ فضا انتخابات کے بعد خصومت اور ٹکراؤ میں تبدیل نہیں ہونا چاہئے۔ اگر کچھ لوگ معاشرے میں یہ چیز پھیلانا چاہتے ہیں تو یہ خلاف حقیقت ہے۔ کچھ لوگ کسی ایک امیدوار کی حمایت میں اجتماع کرتے ہیں اور کچھ لوگ کسی دوسرے امیدوار کی حمایت میں مجتمع ہوتے ہیں تو یہ سب کے سب ملت ایران کا جز ہیں۔ ملت ایران سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں۔ ہمیں اس زاوئے سے دیکھنا چاہئے۔ ان کی اپنی اپنی رائے ہے۔ بعض نے کسی کو ووٹ دیا تو بعض دیگر نے کسی اور کو ووٹ دیا۔ جمہوریت کا اصول یہ ہے کہ مقام عمل میں اکثریت کو اقلیت پر فوقیت اور ترجیح حاصل ہوتی ہے۔ یعنی جسے اکثریت حاصل ہوئی ہے وہ فرائض سنبھالتا ہے۔ یہ جمہوریت کا قاعدہ اور ضابطہ ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ٹکراؤ اور دشمنی شروع کر دی جائے۔ دشمنی اور عناد کا آپ سب مل کر مقابلہ کریں۔ یہ کسی ایک امیدوار اور جماعت سے مختص نہیں ہے۔ سب کی ذمہ داری ہے کہ دشمنی اور کدورتوں کا سد باب کریں۔ ہاں یہ ممکن ہے، جیسا کہ ابھی آپ حضرات نے ذکر فرمایا، کہ انتخابات میں بعض امور پر کچھ اعتراضات ہوں۔ تو اس کا بھی راستہ موجود ہے۔ ان اعتراضات کا جائزہ ضرور لیا جائے۔ آپ حضرات نے کچھ باتوں کا ذکر کیا۔ میں وزارت داخلہ اور اسی طرح نگراں کونسل کے متعلقہ عہدہ داروں سے درخواست کروں گا کہ ان باتوں کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے۔ اگر کچھ اعتراضات کی بنا پر کچھ بیلٹ باکسوں کے ووٹوں کی دوبارہ شمارش کرنا پڑے تو بھی کوئی بات نہیں۔ مثلا ایک بات یہ سامنے آئی کہ فلاں شخص نے کہا کہ اس امیدوار کے ووٹوں کی تعداد اتنی ہے۔ لیکن جب ووٹوں کی گنتی ہوئی تو تعداد کچھ اور نکلی۔ کوئی بات نہیں، اس مسئلے کا حل آسان ہے۔ جن بیلٹ باکسوں کے سلسلے میں اعتراض ہے ان کو یا اچانک کسی بھی بیلٹ باکس کے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کروا لی جائے۔ اس میں امیدواروں کے انتخابی شعبوں کے نمایندے بھی موجود ہوں اور خود دیکھیں تاکہ مکمل اطمینان ہو جائے۔
آپ سب عہدہ داروں میں شمار ہوتے ہیں اور پہلے بھی رہ چکے ہیں، آپ میری روش سے واقف ہیں، مجھے اس بار کے انتخابات میں بھی سابقہ انتخابات کی ہی مانند ملک کے حکام پر، وزارت داخلہ اور نگراں کونسل کے حکام پر پورا اعتماد تھا، حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ مختلف زمانوں میں مختلف نظریات کے حکام رہ چکے ہیں۔ لیکن میں جس عہدہ دار کو پہچانتا ہوں، جس کی روش سے واقف ہوں، اس پر اعتماد کرتا ہوں۔ اس بار بھی ایسا ہی ہے کہ مجھے اعتماد ہے لیکن میرے اس اعتماد کا مطلب یہ نہیں کہ اگر بعض افراد کے ذہنوں میں کوئی شبہ پیدا ہو گیا ہے تو اس پر توجہ نہ دی جائے، اس کا جائزہ نہ لیا جائے اور حقیقت حال عیاں نہ ہو۔ بالکل نہیں، شکوک و شبہات کو رفع کیجئے۔ البتہ جو چیز سب سے زیادہ اہم ہے، یہ ہے کہ آپ سب قومی اتحاد اور ملک کی یکجہتی کی حفاظت کی کوشش کیجئے۔ کسی نہ کسی زاوئے سے ہر ایک کے کچھ فرائض ہیں۔
انتخابات ہمارے لئے باعث افتخار ہیں۔ چار کروڑ ووٹ، مذاق نہیں ہے۔ اب تک کے سب سے زیادہ ٹرن آؤٹ سے یہ ٹرن آؤٹ بہت زیادہ ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ تیس سال کے بعد بھی اسلامی جمہوریہ سے عوام کی وابستگی اتنی زیادہ ہے کہ اس جوش و جذبے سے میدان عمل میں آتے ہیں غیر ملکی خبررساں اداروں نے ووٹنگ کے آغاز سے ہی کہا کہ اس بار عوام کی شرکت غیر معمولی تھی۔ یہ بات سب نے کہی۔ عینی شاہدین نے جنہوں نے جاکر ووٹ ڈالا اور آکر اپنا مشاہدہ بیان کیا اس کے علاوہ بھی خبررساں اداروں اور اغیار کے ٹی وی چینلں نے بھی رپورٹ دی کہ عوام کی شرکت بہت وسیع اور پرجوش ہے۔ بعض غیر ملکی ٹی وی چینلوں نے رائے دہندگان کی لمبی لمبی قطاریں بھی دکھائیں۔ یہ ملک کے لئے ایک افتخار ہے۔ اس پر کوئی آنچ نہیں آنی چاہئے۔ اسے نقصان نہیں پہنچنا چاہئے۔ یہ عوام کی امانت ہے۔ دونوں طرف کے رائے دہندگان خواہ وہ لوگ ہوں جنہوں نے منتخب ہونے والے امیدوار کو ووٹ دیا اور یا وہ افراد جنہوں نے کسی اور امیدوار کو ووٹ دیا۔ جن کی مجموعی تعداد چار کروڑ تک پہنچ گئی۔ سب کے سب اس عظیم کارنامے کی تخلیق میں شریک ہیں۔ ہمیں اس وسیع نظر، اس یکساں نگاہ کو فراموش نہیں کرنا چاہئے اور نہ اسے عوام سے سلب کرنے کی کوشش کرنا چاہئے۔ سب شریک ہیں۔ جس شخص نے جناب احمدی نژاد کو ووٹ دیا اس کی بھی شراکت ہے، جس نے جناب موسوی کو ووٹ دیا اس کا بھی حصہ ہے، جس نے جناب کروبی کے حق میں ووٹ ڈالا اس کا بھی کردار ہے اور جس نے جناب رضائی کو ووٹ دیا ہے اس کا بھی رول ہے۔ سب کے سب اس عظیم کارنامے کی تخلیق میں شریک ہیں اور ملک ان کا احسانمند ہے، نظام واقعا عوام کے اس شاندار کارنامے کے لئے ممنون ہے جنہوں نے اپنے نظام کی جو ان کا اپنا نظام ہے حمایت کی۔ اس انقلاب کا دفاع کیا جس کا تعلق خود انہی سے ہے۔ بنیادی زاویہ نظر یہ ہونا چاہئے۔
بہرحال ہر فریق کو کچھ چیزوں کا لحاظ رکھنا چاہئے، جس فریق کو اکثریت حاصل ہوئی ہے اسے بھی کچھ باتوں کا لحاظ کرنا چاہئے، کچ چیزوں پر توجہ دینی چاہئے اور اپنے برتاؤ اور انداز کے سلسلے میں کچھ چیزوں کی بابت محتاط رہنا چاہئے، اسی طرح جس فریق کو اکثریت نہیں ملی ہے اسے بھی کچھ چیزوں کا خیال رکھنا چاہئے۔ سب کو حلم کا ثبوت دینا چاہئے، اسلامی حلم جسے ہم فارسی میں بردباری کہتے ہیں، جس سے مراد ہے تحمل کی توانائی اور تحمل کی صلاحیت۔ سب میں تحمل کی صلاحیت ہونی چاہئے، سب کو تحمل سے کام لینا چاہئے۔ فتح اور کامیابی کو تحمل کر پانا بھی آسان کام نہیں ہے، اسی طرح ناکامی کو برداشت کر پانا بھی آسان کام نہیں ہے۔ حلم کا مظاہرہ کرنا، تحمل سے کام لینا اور کامیابی کی صلاحیت رکھنا انسانی صفات اور خصوصیات کا جز ہے۔ ہمیں یہ چیز اہم شخصیات اور عوام کی سطح پر رائج کرنے کی ضرورت ہے۔
میری طرح آپ کو بھی اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ کچھ افراد ہیں جو اس اتحاد کو پسند نہیں کرتے۔ گوشہ و کنار میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جن کا کسی بھی فریق اور جماعت سے تعلق نہیں ہے۔ اس کے ذمہ دار وہ افراد ہیں جو اس اتحاد، اس ہم آہنگی اور اس عظیم منظر کو پسند نہیں کرتے۔ میں جمعے کے دن، اگر زندگی رہی اور موقع رہا تو اس سلسلے میں زیادہ تفصیل سے بات کروں گا۔ بعض افراد کو آپ کی یہ کامیابی ایک آنکھ نہیں بھا رہی ہے۔ اس بار بھی آپ کو فتح و کامرانی ملی ہے۔ بایں معنی کہ آپ اپنے پسندیدہ نظام کی تقویت کرنے میں کامیاب ہوئے۔ سبھی عوام فاتح ہیں کیونکہ وہ وقار اور عظمت کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ کچھ لوگ اسے پسند نہیں کرتے تو ظاہر ہے وہ تخریبی کام کریں گے، خلل اندازی کریں گے، یہاں کی باتیں وہاں نقل کریں گے اور وہاں کی باتیں یہاں آکر بیان کریں گے جن میں بیشتر خلاف حقیقت ہوں گی۔ چونکہ مختلف اطراف سے مجھے باتیں سننے کو ملتی ہیں تو بعض اوقات میں محسوس کرتا ہوں کہ ایک فریق دوسرے فریق کے تعلق سے جو باتیں بیان کر رہا ہے ان میں بعض خلاف حقیقت ہیں۔ دوسرے فریق کی باتوں کا بھی یہی حال ہے۔ واضح ہے کہ بعض عناصر ملک میں اتحاد نہیں دیکھنا چاہتے۔ یہ پھر بھی غنیمت ہے، بعض لوگ تو اس سے بھی زیادہ تخریبی رویہ اختیار کرتے ہیں جس کا مشاہدہ آپ خود بھی کر سکتے ہیں۔ سب کو ملک کر اس تخریبی روئے کا سد باب کرنا چاہئے، اپنے دو ٹوک موقف کا اعلان کرنا چاہئے۔
تخریبی اقدامات جو انجام دئے جا رہے ہیں، یہ بری حرکتیں جو سرزد ہو رہی ہیں اور جو بعض جرائم ہو رہے ہیں، ان کا تعلق مسئلے کے فریقوں سے نہیں ہے، اس کا تعلق عوام سے نہیں ہے، امیدواروں سے نہیں ہے۔ اس کا تعلق شر پسندوں سے ہے، آشوب پسندوں سے ہے۔ ہرگز کوئی یہ تصور نہ کرے کہ ان (تخریبی کاروائیاں کرنے والوں) کا تعلق کسی امیدوار سے ہے۔ یہ بالکل ان عناصر کی مانند ہیں جو مسلمانوں کے اندر فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوا دیتے ہیں جن کے بارے میں ہم کہہ چکے ہیں کہ یہ نہ سنی ہیں نہ شیعہ، یہ شیعہ کو سنی اور سنی کو شیعہ کے خلاف برانگیختہ کرتے ہیں۔ ہمارے عظیم معاشرے کے اتحاد کے سلسلے میں بھی یہی چیز ہے۔ بعض عناصر ہیں جو ایک فریق کو دوسرے فریق کے خلاف اکساتے ہیں، کسی ایک فریق کی حمایت کے نام پر کچھ حرکتیں کرتے ہیں لیکن در حقیقت اس فریق کے حامی نہیں ہیں، ان کا تعلق کسی بھی فریق سے نہیں ہے۔ یہ تو وہ افراد ہیں جو خود نظام کے مخالف ہیں، ملک کی امن و سلامتی کے مخالف ہیں، کشیدگی اور کھنچاؤ چاہتے ہیں، آشوب کے طرفدار ہیں، چاہتے ہیں کہ امن و ثبات ختم ہو جائے۔
اگر انتخابات کے نتائج اس سے مختلف ہوتے تب بھی، میں پورے یقین اور وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ، یہ حادثات رونما ہوتے تاکہ ملک میں امن و ثبات باقی نہ رہے۔ ان عناصر نے ملک کی سلامتی اور امن و ثبات کو نشانہ بنایا ہے۔ اسے ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ کسی کو بھی اس آشوب پسندی اور کشیدگی کی مدد نہیں کرنا چاہئے بلکہ سب کو اس کے خلاف صریحی موقف اختیار کرنا چاہئے اور آپ کا حقیقی موقف ظاہر ہے کہ اس سے مختلف نہیں ہوگا۔ صریحی موقف اختیار کیا جائے اور واضح کر دیا جائے کہ یہ ہماری مرضی کے مطابق نہیں ہے اور جس سے بھی کشیدگی پیدا ہو وہ کام نہ کیا جائے یعنی ایک دوسرے کو خشمگیں نہ کریں۔ میں عوام سے بھی سفارش کروں گا کہ ان کے اندر کے دو حلقے اور دو گروہ ایک دوسرے کو خشمگیں نہ کریں۔ نہ وہ افراد جن کے امیدوار کو فتح ملی ہے ایسی بات کریں یا ایسا کوئی کام کریں کہ دوسرے فریق کو تکلیف پہنچے اور اسے غصہ آئے اور نہ وہ افراد جن کا امیدوار کامیاب نہیں ہوا ہے ایسی کوئی بات یا کام کریں جس سے دوسرا فریق خشمگیں ہو۔ آپ سب کا ایک مشترکہ موقف ہے اور وہ ہے انتخابات میں بھرپور شرکت اور اسلامی نظام کا دفاع، یہ پورے مسئلے کی بنیاد ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس سے حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کا دل خوش ہوگا۔ یہ وہ چیز ہے جو اس ملک پر نزول رحمت الہی کا موجب بنے گی۔
دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی مدد فرمائے۔ میں نے اپنے یہ معروضات آپ تک پہنچانا اپنا فریضہ تصور کیا۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ تقریبا آپ سبھی کو یا آپ میں اکثر کو میں نزدیک سے پہنچانتا ہوں، آپ کی سابقہ کارکردگی سے واقف ہوں۔ مجھے محسوس ہوا کہ آپ سے اس انداز سے گفتگو مناسب ہے اور یہ باتیں بیان کرنا میرے لئے لازمی ہے اور یہ میرا فرض ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آج ہم سب کا فریضہ ہے کہ اس ملک کے اتحاد اور قوم کا دفاع کریں۔ یہ ایک عظیم عوامی مجموعہ ہے جو سنگین ذمہ داریاوں کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھائے ان تیس برسوں میں شجاعانہ انداز سے اگے بڑھتا رہا ہے اسے پارہ پارہ نہ کیجئے۔ لوگوں کو ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑا نہ ہونے دیجئے۔ آپ میں ہر ایک کسی نہ کسی انداز سے یہ کام انجام دے سکتا ہے۔ خدا وند عالم آپ کی مدد فرمائے، آپ کی راہنمائی فرمائے تاکہ ہم اس فریضے کو بطور احسن انجام دے سکیں۔
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته