آپ نے اس خطاب میں بعثت کے اہم پیغامات بیان کئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے عقل کو مرکزی کردار ادا کرنے، عقلی صلاحیتوں کو نکھارنے اور عقل کے احکامات پر عمل کرنے کو بعثت کا اہم پیغام قرار دیا۔ آپ نے اسلامی معاشرے میں دانشمندانہ طرز عمل کی ضرورت پر زور دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے بعثت کے اہم پیغام کے طور پر قانون پسندی اور قانون کی بالادستی تسلیم کرنے پر تاکید فرمائی۔ آپ کے مطابق اسلامی معاشرے کے لئے قانون پر عمل کرنا بے حد ضروری ہے اور قانون پر عمل کرنے سے محسوس ہونے والی محدودیت کے مقابلے میں وہ تلخی بہت زیادہ ناقابل برداشت ہے جو قانون کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں معاشرے میں پھیل جاتی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اخلاقیات کی اہمیت پر بھی تاکید فرمائی اور حدیث پیغمبر بعثت لاتمم مکارم الاخلاق کی روشنی میں آپ نے اس موضوع سے متعلق اہم نکات بیان کئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ایران کے اسلامی معاشرے کو آنحضرت کے قابل تقلید معاشرے کا پیرو اور اسی بلندی کی سمت گامزن معاشرہ قرار دیا اور ایسے معاشرے کی لازمی شرطوں اور خصوصیات کی نشاندہی کی۔ تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے:
بسم اللَّه الرّحمن الرّحيم
میں اس عید کی مبارکباد پیش کرتا ہوں جو امت مسلمہ ہی نہیں بلکہ تمام انسانیت کی عید ہے۔ اللہ تعالی اس عید سعید کو آپ تمام حاضرین، محترم مہمانوں، عزیز ملت ایران، تمام مسلم اقوام اور پوری انسانیت کے لئے با برکت قرار دے۔
ہماری قاصر زبانوں اور محدود فکروں نے بعثت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں بہت کچھ بیان کیا ہے اور سب نے بیان کیا ہے۔ یہ در حقیقت ایک وسیع وادی ہے، ایسا عظیم واقعہ ہے کہ جس کے پہلوؤں کا اتنی جلدی احاطہ کر پانا ممکن نہ ہوگا۔ جیسے جیسے زمانہ گزرےگا اور انسان گوناگوں تجربات کے ذریعے اپنی زندگی کے نقائص اور اپنی ناتوانی کا جتنا زیادہ ادراک کر لے گا، بعثت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گوناگوں پہلو اور زیادہ نمایاں ہوں گے۔ یہ بعثت در حقیقت انسانوں کو عقلی، فکری اور قانون پسندانہ تربیت و پرورش کی دعوت تھی۔ یہ وہ چیزیں ہیں کہ منزل کمال کی سمت گامزن انسانی زندگی میں جن کی بڑی ضرورت پڑتی ہے۔ سب سے پہلے مرحلے میں عقلی تربیت ہے، اس کا مطلب انسان کی عقلی توانائی کو باہر لاکر اسے انسان کے افکار اور اعمال پر غالب کر دینا ہے۔ مشعل عقل انسانی کو اس کے سپرد کر دینا ہے تاکہ وہ اس مشعل کے سہارے راستے کی شناخت کر سکے اور اس راہ کو طے کرنے پر قادر ہو جائے۔ یہ پہلا نکتہ ہے اور یہی سب سے اہم بھی ہے کیونکہ علاوہ ازیں کہ بعثت پیغمبر اسلام میں سب سے پہلے عقل کے موضوع کو اٹھایا گیا، دانائی کی بات کی گئی، پورے قرآن اور پیغبمر اسلامی کی ان تعلیمات میں بھی جو قرآن میں مذکور نہیں ہیں جہاں بھی آپ دیکھئے یہی محسوس ہوگا کہ عقل و خرد، تفکر و تدبر اور غور و خوض کی بات کی گئی ہے۔ حتی قیامت کے دن گنہگار بھی کہیں گے کہ لوکنا نسمع او نعقل ما کناّ فی اصحاب السعیر (1) ہم جو آتش دوزخ کا شکار بنے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی عقل اور اپنی خرد سے رجوع نہیں کیا، اس کی بات نہیں سنی، نہیں مانی۔ لہذا آج قیامت کے دن ہم اس تلخ انجام کو پہنچے۔
یہ صرف خاتم الانبیاء سے ہی مختص نہیں بلکہ تمام پیغمبروں نے اپنی زندگی اور اپنی تحریک میں عقل کو سب سے پہلے درجے پر رکھا ہے۔ ہاں اسلام میں اسے زیادہ تاکید اور وضاحت کے ساتھ پیش کیا گيا ہے۔ چنانچہ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام بعثت انبیاء کے اسباب و اہداف پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں: لیستادوھم میثاق فطرتہ الی و یثیروا لھم دفائن العقول (2) تاکہ وہ عقل و خرد کے خزینے کو باہر نکالیں۔ عقل کا یہ خزانہ ہمارے اور آپ کے اندر موجود ہے۔ لیکن ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم اس شخص کی مانند ہیں جو ایک خزانے پر بیٹھا ہوا ہے لیکن اس سے واقف نہیں ہے، اسے استعمال نہیں کر پا رہا ہے اور بھوک سے تڑپ رہا ہے۔ ہماری یہی حالت ہے۔ اگر ہم عقل سے رجوع نہیں کریں گے، عقل کو معیار نہیں قرار دیں گے، عقل کی پرورش نہیں کریں گے، نفس کی باگڈور عقل کے ہاتھ میں نہیں دیں گے تو ہماری یہی حالت رہے گی۔ یہ خزانہ ہمارے پاس ہے لیکن ہم اس سے استفادہ نہیں کرتے۔ نتیجے میں بے عقلی، جہالت اور اس کے دیگر متعدد عواقب کی بنا پر دنیا و آخرت کی زندگی کی گوناگوں مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں۔ چنانچہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک حدیث میں فرماتے ہیں : ان العقل عقال من الجھل عقل جہالت کا عقال ہے۔ عقال اس رسی کو کہتے ہیں جو اونٹ یا دیگر جانوروں کے پیر میں باندھ دی جاتی ہے جو اسے قابو میں رکھتی ہے۔ ارشاد فرماتے ہیں کہ عقل جہالت کا عقال ہے۔ وہ رسی ہے جو انسان کو جاہلانہ اقدام سے روکتی ہے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں : والنفس کمثل اخبث الدواب نفس انسانی نہایت سرکش حیوان کی مانند ہے۔ انتہائی سرکش چوپائے کی مانند ہے۔ یہ ہے نفس۔ فان لم تعقل حارت (3) اگر اس نفس کو عقال نہ لگایا گيا، قابو میں نہ کیا گيا، کنٹرول سے باہر نکل جانے دیا گيا تو وہ یہاں وہاں مارا مارا پھرے گا۔ جیسے وحشی جانور مارا مارا پھرتا ہے اسے نہیں معلوم ہوتا کہ کہاں جائے۔ اسی سرگردانی کے نتیجے میں مشکلات و مسائل انسان کی ذاتی و انفرادی اور سماجی زندگی پر سایہ فگن ہو جاتے ہیں۔ یہ ہے عقل۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا پہلا کام اثارہ عقل تھا۔(4) قوت فکر کو جھنجھوڑنا تھا۔ معاشرے میں فکر و نظر کی قدرت کو بڑھانا تھا۔ یہ چیز بہت سے مسائل کا حل ہے۔ عقل ہی انسان کی دین کی سمت رہنمائی کرتی ہے، انسان کو دین کی سمت لے جاتی ہے۔ عقل ہی انسان کو اللہ تعالی کی بارگاہ میں جبین نیاز رکھ دینے کی ترغیب دلاتی ہے۔ عقل ہی جہالت آمیز اور احمقانہ کاموں اور دنیاوی وابستگی سے محفوظ رکھتی ہے۔ اسے کہتے ہیں عقل۔ بنابریں پہلا کام یہ ہے کہ معاشرے میں عقل و خرد کی تقویت کی جانی چاہئے۔ یہ ہمارا فریضہ ہے۔ ہمارے اس اسلامی معاشرے میں جسے ہم پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے معاشرے کی ایک پرتو اور مثال بنانا چاہتے ہیں، اس عظیم ہستی کے سامنے اپنی حقارت اور خامیوں کے اعتراف کے ساتھ ہم نے اس معاشرے کا ایک نمونہ اور چھوٹی سی مثال پیش کرنا چاہا ہے تو اس معاشرے میں بھی عقل ہی معیار و کسوٹی ہونا چاہئے۔
دوسری چیز اخلاقی تربیت ہے۔ بعثت لاتمم مکارم الاخلاق (5) اخلاقی فضیلتوں کو انسانوں کے سامنے نقطہ کمال تک پہنچانے کے لئے (پیغمبر اکرم کو) مبعوث کیا گیا۔ اخلاق وہ نسیم لطیف ہے جو انسانی معاشرے میں آ جائے تو انسان اس میں سانس لیکر صحتمند زندگی گزار سکتا ہے۔ اگر اخلاق ختم ہو جائے تو حرص و طمع، ہوائے نفس، جہالتیں، دنیا پرستی، ذاتی بغض و عناد، حسد، بخل اور ایک دوسرے کے سلسلے میں بد گمانی معاشرے میں پھیل جاتی ہے۔ جب یہ اخلاقی برائیاں معاشرے میں آ جاتی ہیں تو زندگی دشوار ہو جاتی ہے۔ گھٹن کا ماحول پیدا ہو جاتا ہے۔ انسان کو سانس لینے کے لئے اچھی ہوا کو ترسنا پڑتا ہے۔ اسی لئے قرآن میں بار بار کہا گیا ہے يزكّيهم و يعلّمهم الكتاب و الحكمة(6) تزکیہ در حقیقت اخلاقی نشو نما ہے، اسے تعلیم سے پہلے ذکر کیا گيا ہے۔ عقل کے موضوع پر میں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جو حدیث پیش کی اس میں عقل کی خصوصیات کے تذکرے کے بعد آپ فرماتے ہیں کہ عقل سے حلم وجود میں آیا، حلم سے علم وجود میں آيا۔ اس ترتیب پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پہلے عقل حلم پیدا کرتی ہے، بردباری و تحمل کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ جب بردباری آ جائے تو شخص اور معاشرے کے لئے تعلیم حاصل کرنے اور اپنی معلومات میں اضافہ کرنے کی راہ ہموار ہو جاتی ہے۔ یعنی علم کا مرحلہ حلم کے بعد آتا ہے۔ حلم اخلاق ہے۔ قرآن کی آیت میں بھی ویزکیھم و یعلمھم الکتاب و الحکمۃ تزکیہ کو پہلے بیان کیا گيا ہے۔ یہ اخلاقی تربیت ہے۔ آج ہمیں اس اخلاقی تربیت کی بیحد ضرورت ہے۔ ہم ایرانی قوم کو بھی اس جغرافیائی حدود کے اندر بسے اسلامی معاشرے اور پورے عالم اسلام، امت مسلمہ اور مسلم معاشروں کو آج اس اخلاقی تربیت کی ضرورت ہے۔ یہ ہماری بنیادی ضرورتیں ہیں۔
اس کے بعد قانون پسندی کا مرحلہ آتا ہے، قانونی نظم و ضبط کی منزل آتی ہے۔ تمام احکام اسلامی پر سب سے پہلے خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عمل فرمایا۔ ام المومنین عائشہ سے منقول ہے کہ ان سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اخلاق اور رفتار و کردار کے بارے میں سوال کیا گيا تو انہوں نے جواب دیا کان خلقہ القرآن(7) آپ کا اخلاق، کردار و رفتار اور آپ کی پوری زندگی قرآن کی عملی تصویر تھی۔ یعنی یہ ممکن نہیں تھا کہ آپ کسی چیز کا حکم دیتے لیکن خود اس پر عمل پیرا نہ ہوتے۔ یہ سب ہمارے لئے درس ہے۔ ہم ان عظمتوں کا موازنہ اپنی حقارتوں سے کرنے کی گستاخی نہیں کرنا چاہتے وہ تو ثریا ہے ہم بہت نیچے ہیں لیکن ہماری پیشقدمی اسی بلندی کی سمت جاری ہے۔
میدان زندگی، میدان امتحان ہے۔ ملت ایران اس دشوار آزمائش سے گزر کر اس منزل وقار تک پہنچی ہے۔ جب تک صرف برائے نام ہم نے لا الہ الا اللہ کہا فقط لا الہ الا اللہ کو زبان سے ادا کرتے رہے یا حد اکثر لا الہ الا اللہ والی ذہنیت پر اکتفا کرتے رہے اس وقت تک طاغوت کے پنجے میں جکڑے ہوئے تھے۔ لیکن جب ہم میدان عمل میں وارد ہو گئے۔ جب ہم نےلا الہ الا اللہ کی وادی کو پہچان کر اس میں قدم رکھ دیا ہم مسلم قوم بن گئے اور اللہ تعالی نے یہ وقار، یہ قدرت اور یہ نمایاں و درخشاں شناخت ملت ایران کو عطا فرمائی۔ اگر ہم قدم بڑھائیں تو اللہ تعالی کی جانب سے جواب آتا ہے۔ وہ سریع الاجابۃ ہے۔
انقلاب میں، مقدس دفاع میں اور ان تیس برسوں کے دوران مختلف امتحانوں میں ہماری قوم نے کامیاب کارکردگی انجام دی۔ جتنی ہم نے محنت کی، جتنا ہم آگے بڑھے، اللہ تعالی نے اسی مقدار میں کامیابیاں عطا کیں۔ البتہ یہ بہت عظیم کامیابیاں ہیں۔ من جاء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا(8) ہماری محنت کا دس گنا ہمیں اللہ تعالی سے ملا۔ زمانہ طاغوت میں مسلم امہ اور دنیا کی قوموں میں ہمارا کیا مقام تھا؟ الگ تھلگ، گمنام، فراموش شدہ، بس اپنے آپ میں گم، بے حسی کا شکار، اس شجاعت و ہمت سے بے بہرہ جو برق رفتاری سے آگے بڑھنے میں قوم کی مدد کرتی ہے۔ ہماری یہ حالت تھی۔ آج ہمارے نوجوان، ہمارے سائنسداں، ہمارے علماء، ہمارے صنعت کار، ہمارے کسان اور ہمارے عوام بلند اہداف کے حامل ہیں اور انہی اہداف کی سمت گامزن ہیں اور اس کے ثمرات بھی حاصل ہو رہے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی طاقتوں نے اسلامی جمہوریہ کے مقابلے کو اپنا نعرہ بنا لیا ہے۔ وہ اس خیال میں ہیں کہ اس طرح ملت ایران کو ہراساں کر لیں گی۔ انہیں یہ نہیں معلوم کہ ملت ایران کو اپنی شناخت حاصل ہو رہی ہے اور وہ دیکھ رہی ہے کہ دنیا کی خبیث ترین مادی طاقتیں ملت ایران کو اپنی راہ کی رکاوٹ سمجھتی ہیں۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ ہم مشرق وسطی میں ایسا کرنا چاہتے ہیں، ویسا کرنا چاہتے ہیں اور جبکہ ان اہداف کو بیان کرنے سے کتراتے ہیں جو اس سے دس گنا زیادہ شوم اہداف ہیں۔ ملت ایران رکاوٹ ہے، اسلامی جمہوریہ ایران کی قوم مانع ہے۔ یہ اس قوم کی عظمت کی نشانی ہے، یہ اس نظام کی عظمت ہے، یہ اس حکومت کی عظمت ہے کہ وہ کم از کم کسی ایک جغرافیائی خطے میں دنیا کی استکباری طاقتوں کی راہ میں رکاوٹ بن گئی ہے۔ یہ چیز ملت ایران کو احکام دین پر عمل کرکے حاصل ہوئی ہے۔
تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خود عمل کرتے تھے آمن الرسول بما انزل الیہ من ربہ (9) اور پھر پیغمبر کے پیچھے پیچھے مومنین ہیں۔ آپ عمل کرتے ہیں اور لوگ آپ کے عمل کو دیکھتے ہیں تو انہیں راستہ مل جاتا ہے۔ معاشرے کے چنندہ افراد، رہنماؤں اور بزرگوں کا کردار ایسا ہوتا ہے۔ صرف بات پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے۔ حاضرین محترم میں بہت سے افراد ملک کے اعلی رتبہ عہدہ دار ہیں۔ آپ میں ہر کوئی اپنے عمل سے ان افراد کے لئے جن کی نگاہیں اس شخص پر رہتی ہیں قابل تقلید نمونہ پیش کر سکتا ہے۔ ہماری قوم بڑی اچھی قوم ہے، بڑی باعظمت قوم ہے، درگزر کر دینے والی قوم ہے، اس کے نمونے ہم نے ان تیس برسوں میں بار بار دیکھے ہیں۔ اسی حالیہ مسئلے میں، انتخابات میں اور اس کے بعد کے واقعات میں آپ قوم کے کردار کا جائزہ لیجئے۔ قوم کی سماجی زندگی کے میدان میں مختلف نظریات موجود ہیں۔ سب اپنی بات کہتے ہیں، اپنا نظریہ بیان کرتے ہیں۔ لیکن انہیں جیسے ہی محسوس ہوا کہ نظام کے دشمن کا معاملہ آ گیا ہے، جب انہیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ کوئی ہاتھ نظام پر ضرب لگانے کے منصوبہ بندی کر رہا ہے تو عوام اس سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔ یہ بہت اہم بات ہے۔
ہم نے ان تیس برسوں میں کوئی دن ایسا نہیں گزرا کہ نیا تجربہ حاصل نہ کیا ہو، کوئی نئی بات نہ سیکھی ہو۔ حالیہ دنوں کے واقعات سے بھی ہم نے بہت کچھ سیکھا، بہت کچھ سمجھا۔ یہ ہمارے عوام کے لئے ایک تجربہ ہو گیا۔ سب کو معلوم ہو گيا کہ جب قوم پوری طرح امن و استحکام و ثبات کے ماحول میں کوئی بڑا کارنامہ انجام دے رہی ہو تو بھی اسے ان دشمنوں کی سازشوں سے غافل نہیں ہونا چاہئے جو اس کے خلاف ہمیشہ منصوبہ بندی میں مصروف رہتے ہیں۔ سب نے مانا کہ انتخابات میں چار کروڑ افراد کی شرکت ابتدائے انقلاب سے اب تک کی بے نظیر کامیابی تھی۔ تیس سال کے بعد بھی عوام کا میدان عمل میں آنا یہ نظام کی عظمت تھی۔ ایسے میں بھی غفلت نہیں برتنا چاہئے۔ سب کو محسوس ہو گیا کہ غفلت نہیں برتنا چاہئے کیونکہ دشمن گھات لگائے بیٹھا ہے، نظر رکھے ہوئے ہے۔ جیسے ہی کہا جاتا ہے بیرونی دشمن، بیرونی ممالک فورا بڑے معصومانہ انداز میں کہنے لگتے ہیں کہ نہیں نہیں، ہم تو کوئی مداخلت نہیں کر رہے ہیں۔ ہم نے کچھ نہیں کیا۔ یہ تو سراسر بے حیائی ہے۔ سب دیکھ رہے ہیں۔ جو انکشاف خفیہ ادارے اور دیگر ایجنسیاں کر رہی ہیں وہ تو الگ ہے، جس چیز کا سارے ہی لوگ مشاہدہ کر رہے ہیں وہ ذرائع ابلاغ کا کردار ہے جو انہوں نے گزشتہ چند عشروں میں قوموں کے امور میں ادا کیا ہے۔ میں نے کئی سال قبل ایک بار انتباہ کے طور پر یہاں کہا تھا کہ سامراج سے وابستہ تشہیراتی اور خفیہ ادارے قوموں کی آزادی کے دشمن عناصر میں سب سے زیادہ فعال اور قوموں کو فتنہ و آشوب میں جھونک دینے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ تاکہ ان قوموں کو ان کی راہ سے منحرف کر دیں۔ میں نے کچھ ملکوں کی مثال بھی دی تھی۔ چند سال قبل جب میں نے یہ بات کہی تھی اس کے مقابلے میں آج ذرائع ابلاغ کا دائرہ بہت زیادہ وسیع تر، ہمہ گیر اور متنوع ہو چکا ہے۔ دشمن مسلسل اپنا کام کر رہے ہیں اور یہ بھی کہے جا رہے ہیں کہ ہم تو کچھ نہیں کرتے! ہم کوئی اقدام نہیں کر رہے ہیں۔ آشوب پھیلانے والے غافل و نادان گروہوں کے لئے ان کے ذرائع ابلاغ سے اغلانیہ دستور العمل نشر کیا جا رہا ہے۔ پولیس سے اس طرح جھڑپ کیجئے۔ بسیج کے خلاف یہ باتیں کیجئے، سڑکوں پر اس طرف فتنہ برپا کیجئے، اس طرح تخریبی اقدامات کیجئے، اس طرح آگ زنی کیجئے۔ یہ مداخلت نہیں ہے؟! اس سے زیادہ واضح مداخلت ہوتی ہے؟ اس سے زیادہ اعلانیہ؟ اسے ہمارے عوام نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ یہ ہماری قوم کے لئے تجربہ ہے۔ یہ تصور غلط ہے کہ کوئی سوچے کہ جو مٹھی بھر افراد، وہ بھی تہران میں، مثلا بلدیہ کی جانب سے رکھے جانے والے کوڑے دان کو آگ لگاتے ہیں یا لوگوں کی موٹر سائیکلوں، گاڑیوں، بینکوں اور دکانوں پر حملے کرتے ہیں وہ عوام کا حصہ ہیں۔ نہیں یہ عوام نہیں ہیں۔ ہاں سامراجی ایجنٹ جب ان کی حمایت کرنا چاہتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ عوام ہیں، ملک کے شہری ہیں۔ یہ ہیں عوام؟ عوام تو وہ کروڑوں لوگ ہیں جو ان آشوب پسند عناصر اور مفسدوں کو دیکھتے ہی خود کو الگ کر لیتے ہیں اور انہیں نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ عمومی سلامتی اور معاشرے کے چین و سکون کو ختم کر دینے والے عناصر کو بیزاری و نفرت سے دیکھتے ہیں۔ آج جو بھی معاشرے کو بد امنی اور آشوب کی سمت لے جانے کی کوشش کر رہا ہے، ملت ایران کی نگاہ میں قابل نفرت ہے، خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ قوم کو اپنے مطلوبہ ہدف اور منزل تک پہنچنے کے لئے امن و سلامتی کی ضرورت ہے۔ جب امن و استحکام ہوگا تو تعلیم بھی ہوگی، علم بھی ہوگا، ترقی بھی ہوگی، صنعت بھی ہوگی، دولت و ثروت بھی ہوگی، مختلف آسائشیں بھی ہوں گی اور عبادت بھی ہوگی۔ دنیا و آخرت کے لئے امن و سکون ضروری ہے۔ جب بد امنی پیدا ہو جاتی ہے تو یہ ساری چیزیں متاثر ہوتی ہیں۔ کسی بھی قوم کے امن و استحکام کو درہم برہم کرنا سب سے بڑا گناہ ہے۔ یہ بات اس کی سمجھ میں تو آنے سے رہی جو اپنا ضمیر بیچ چکا ہے اور اغیار کے اشارے پر کام کر رہا ہے۔ میں یہ بات اس سے نہیں کہوں گا۔ میرا خطاب اہم شخصیات سے ہے۔ قوم اور شخصیات ہوشیار رہیں۔ بڑی شخصیات کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہر وہ اقدام اور تبصرہ جو ان (شر پسند عناصر) کی مدد کرے قوم کی روش کے خلاف ہے۔ ہم سب کو بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ بہت زیادہ احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ اپنی بات کے سلسلے میں محتاط رہیں، اپنے موقف کے سلسلے میں محتاط رہیں، اپنی خاموشی کے سلسلے میں بھی محتاط رہیں۔ بعض چیزیں ہیں جنہیں بیان کرنا چاہئے، اگر ہم نے ان کے سلسلے میں سکوت اختیار کیا تو اپنے فریضے پر عمل کرنے میں ہم نے کوتاہی کی ہے جبکہ بعض چیزیں ہیں جو زبان پر نہیں آنی چاہئے اگر ہم نے انہیں بیان کیا تو در حقیقت اپنی ذمہ داری کے خلاف کام کیا ہے۔ شخصیات کے لئے یہ امتحان کا لمحہ ہے۔ بہت بڑا امتحان ہے۔ اس امتحان میں ناکامی صرف ایک سال پیچھے رہ جانے پر منتج نہیں ہوگی بلکہ سقوط کا باعث بنے گی۔ اگر ہم اس انجام سے دوچار نہیں ہونا چاہتے تو اس کا راستہ یہ ہے کہ عقل کو جو انسان کو عبودیت و بندگی کی دعوت دیتی ہے معیار قرار دیں، کسوٹی بنائیں۔
عقل، اس رائج سیاست بازی اور سیاسی چالوں کا نام نہیں ہے۔ یہ تو عقل کے منافی چیزیں ہیں۔ العقل ما عبد بہ الرحمن واکتسب بہ الجنان(10) عقل انسان کی راہ راست کی سمت ہدایت کرتی ہے۔ جو لوگ سیاسی چالوں کو عقلمندی سمجتھے ہیں غلطی کر رہے ہیں۔ عقل وہ شئ ہے جو عبادت خدا کی راہ ہموار کرتی ہے۔ ہمارے اور اللہ تعالی کے درمیان ہمارا معیار اور کسوٹی یہ ہے کہ ہم اس پر توجہ دیں کہ ہم اپنی بات میں مخلص ہیں یا نہیں؟ اللہ کا خیال ہمیں ہے یا نہیں؟ میں اللہ کے لئے اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے بات کہہ رہا ہوں یا نہیں؟ میری بات اللہ کی خوشنودی کے لئے ہے یا سننے والوں کے لئے؟ یہ ہے معیار اور کسوٹی۔ ہم اپنے آپ سے رجوع کریں، اپنے بارے میں انسان سب سے بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ ہم خود کو فریب نہ دیں۔ توجہ دیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں، کیا کہہ رہے ہیں، کیا اقدام انجام دے رہے ہیں۔
ہمارے لئے راستہ وا کر دیا گيا ہے۔ بعثت کو اس نگاہ سے دیکھنا چاہئے۔ بعثت صرف ایک جشن نہیں ہے کو فقط خوشیاں منائیں، تالیاں بجائیں، مٹھائياں تقسیم کریں۔ یہی نہیں ہے۔ بعثت اہم موڑ ہے۔ ایک عید ہے۔ عید اسے کہتے ہیں جو انسان کو کسی خاص مرحلے کی جانب متوجہ کرے۔ ہمیں چاہئے کہ بعثت پر غور کریں، پیغمبر اسلام پر توجہ دیں، اس عظیم جد و جہد کو دیکھیں اور اس کے بعد نگاہ ڈالیں اس کے حیرت انگیز اثرات پر۔ دس سال، جو ایک قوم اور ملت کی عمر میں ایک لمحے کا درجہ رکھتے ہیں، محض دس سال میں اس عظیم ہستی (پیغمبر اسلام) نے اس عظیم العظماء نے کیا کارنامہ انجام دے دیا؟ کیسے کسی اور دس سال کا ان دس سالوں سے موازنہ کیا جا سکتا ہے جن میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکومت فرمائی۔ تاریخ انسانیت میں کیسی تبدیلی پیدا کر دی؟! کیسا طوفان برپا کر دیا اور اس طوفان میں انسان کو کس طرح ساحل نجات سے روشناس کرایا۔ کیسے راستے کی نشاندہی کی۔ ترسٹھ سال کی کل عمر گزاری۔ ہم اپنی اس طولانی عمر اور ان بچکانہ اقدامات کے ساتھ ہی آگے بڑھنا چاہتے ہیں، چاہے جہاں تک پہنچیں۔ جب اخلاص، تندہی اور ہدایت ربانی کے زیر سایہ کوئی عمل شروع ہوتا ہے تو اس کا نتیجہ وہی ہوتا ہے جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دس سالہ حکومت سے سامنے آیا۔
پروردگارا! ہمیں بیدار فرما۔ ہمارے قلوب کو اسلام کے حقائق سے زیادہ آشنا کر۔ پالنے والے! ملت ایران کو اس کی مستحکم اور دانشمندانہ راہ پر باقی رکھ، اس کی مدد فرما۔ حضرت ولی عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کے قلب مبارک کو ہم سے راضی و خوشنود رکھ۔
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه
1) ملك: 10
2) نهج البلاغه، خطبهى اول
3) تحف العقول، ص 15
4) حرکت میں لانا
5) مجمع البيان، ج 10، ص 500
6) آل عمران: 164، جمعه: 2
7) شرح نهج البلاغهى ابن ابى الحديد، ج 6، ص 340
8) انعام: 160
9) بقره: 285
10) كافى، ج 1، ص 11