اس سالانہ اجتماع سے خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے ملک کی موجودہ نوجوان نسل کو جذبہ ایمانی سے سرشار اور اسی جذبہ ایمانی کو استقامت و پائيداری اور کامیابی و کامرانی کا ضامن قرار دیا۔ آپ نے بصیرت و فراست کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے امریکا کو سامراج کا حقیقی مظہر قرار دیا اور اسے ایران ہی نہیں پورے عالم اسلام اور پوری دنیا کے لئے فکرمندی کی بات قرار دیا۔
تفصیلی خطاب مندرجہ ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم

آپ سب نوجوانوں ، طلبہ اور شہداء کے گھرانوں کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ تیرہ آبان کے اس دن کو ہماری قوم اور حکام نے، عالمی سامراج کے مقابلے کے دن کا نام دیا ہے۔ مقابلہ و جد و جہد ایک اہم اور پیچیدہ عمل ہے۔ ہر چیز سے مقابلے کی روش مختلف ہوتی ہے۔ اس دشمن کا، جو سرحدوں پر حملہ کرتا ہے ایک طرح سے مقابلہ کیا جاتا ہے۔ جو دشمن، خفیہ روشوں کا استعمال کرتا ہے اس سے دوسرے طریقے سے مقابلہ کیا جاتا ہے۔ جو دشمن، کسی قوم کی بنیادوں اور کسی سماج یا کسی ملک کے وجود کے لئے خطرہ بن جاتا ہے، کسی قوم کا جانی دشمن بن کر مختلف حربے استعمال کرتا ہے اس سے لڑنے کا طریقہ مختلف ہوتا ہے؛ صحیح، منطقی، معقول اور اس کے ساتھ ہی ٹھوس طریقے سے مقابلے کے لئے کچھ چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے:
ایک تو ایمان سے معمور جذبے کی ضرورت ہوتی ہے۔ حکم دے کر کسی قوم کو، نوجوانوں کو کسی سخت محاذ پر ڈٹے رہنے پر تیار نہيں کیا جا سکتا۔ دل میں جذبہ پیدا ہونا چاہئے اور اس کا سرچشمہ بھی ایمان ہونا چاہئے ۔ آج یہ چیز ہمارے نوجوانوں میں، ضروری حد تک موجود ہے۔ میں اطلاعات کی بنا پر یہ بات عرض کر رہا ہوں۔ نوجوان نسل سے واقفیت کی بنا پر یہ بات کہہ رہا ہوں: آج ہمارے نوجوانوں کا جذبہ، سن انیس سو اٹھتر کے مقابلے میں بہت زيادہ مضبوط ہے۔ اس وقت سے کم نہيں ہے کہ جب پہلوی حکومت، امریکا کی اسی پٹھو حکومت نے، ہمارے نوجوانوں پر انہی سڑکوں پر حملہ کیا اور ان کا خون بہایا تھا۔
اس دن کے مقابلے میں بھی کہ جب کچھ نوجوان آگے بڑھے تھے اور انقلاب کے خلاف سازشوں کے مرکز امریکی سفارت خانے پر قبضہ کر لیا تھا، ہمارے آج کے نوجوانوں کے جذبات اگر اس وقت سے زیادہ مضبوط نہ ہوں تو کم بھی نہيں ہیں۔ اس کی وجہ بھی واضح ہے؛ تیس سال کا تجربہ ہماری قوم کی تاریخ میں درج ہو چکا ہے۔ نوجوانوں کے بیدار ذہن، نوجوانوں کی کھلی آنکھیں، بھلے ہی ان ایام کو نہيں دیکھ پائی ہيں، لیکن ان تجربات سے یہ نوجوان آشنا تو ہیں۔ کسی بھی قوم کے تجربات، نسلا بعد نسل اور زیادہ گہرے اور موثر ہوتے جاتے ہيں۔ اس طرح سے ہمارے آج کے نوجوانوں میں جوش و جذبے کے لحاظ سے کوئی کمی نہیں ہے۔ کچھ پشیماں حضرات اور فرسودہ خیالات کے حامل ان انقلابیوں کے برخلاف جو مختلف وجوہات کی بنا پر، پر تعیش زندگی اور ساز باز کو ترجیح دیتے ہيں یا دشمنوں کے احکامات کی تعمیل میں کوئی برائی نہيں دیکھتے، ہمارے ملک کے نوجوان اور قوم کا بڑا حصہ، جن میں اکثریت نوجوانوں کی ہے، اس مضبوط جذبے کی مالک ہے ۔ میں آپ لوگوں سے عرض کر رہا ہوں کہ اگر آج، مسلط کردہ جنگ کی طرح کوئی واقعہ ہمارے ملک میں پیش آ جائے جو انیس سو اسی میں پیش آیا تھا، تو محاذ جنگ پر جانے والے نوجوانوں کی تعداد اور دشمن سے لڑنے کے لئے رضاکارانہ خدمات پیش کرنے کا ان کا جذبہ انیس سو اسی اور اکاسی کے مقابلے میں کئ گنا زيادہ ہوگا۔
ایک اور چیز جو بے حد ضروری ہے وہ بصیرت ہے ۔ یہ جو آپ ملاحظہ کرتے ہيں کہ میں نوجوانوں، طلبہ اور عوام کے مختلف طبقوں سے ملاقاتوں میں، بصیرت پر زور دیتا ہوں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ آج دنیا کے انتہائی حساس حالات اور ہمارے ملک کے دنیا میں کم نظیر اور خاص جغرافیائی محل وقوع کے پیش نطر ، ہر طرح کے اجتماعی اقدام کے لئے اجتماعی بصیرت کی ضرورت ہے۔ یہاں پر میں یہ بھی آپ لوگوں کو بتا دوں کہ آج ہمارے نوجوانوں میں بصیرت، انقلاب کے شروعاتی اور درمیانی دور کے مقابلے میں، یقینا بہت زيادہ ہے۔ آج آپ لوگوں کو ایسی بہت سی چیزوں کا علم ہے اور وہ چیزیں آپ لوگوں کے لئے واضح امور کی حیثیت رکھتے ہيں جو اس دور میں، نوجوانوں کے لئے وضاحت طلب تھیں اور ہم ان چیزوں کی نوجوانوں کے سامنے وضاحت کرتے تھے لیکن آج ہمارے نوجوان، ان چیزوں سے واقف ہیں، ان کی بصیرت بہت زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود میں، بصیرت کی ضرورت پر ہمیشہ زور دیتا رہتا ہوں۔
بصیرت کا سب سے پہلا موضوع یہ ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ یہ سامراج کیا ہے جس کے خلاف ہمیں جد و جہد کرنی چاہئے۔ سامراج یعنی دنیا کی کوئی ایک یا کئی طاقتیں جب خود کو وسائل، دولت، اسلحے اور تشہیراتی ذرائع کا مالک سمجھیں اور ان کی بنا پر دیگر ممالک اور اقوام کے امور میں آقاؤں کی طرح مداخلت کو اپنا حق جانیں تو یہی سامراج کہلاتا ہے۔ تسلط پسندی کا جذبہ؛ جو ہمارے ملک میں انقلاب سے قبل بڑی واضح شکل میں موجود تھا یعنی امریکا، اپنے سامراجی ارادوں کے ساتھ، قدیم تہذیب کے مالک ہمارے وسیع ملک اور عظیم قوم پر اپنے پنجے گاڑے ہوئے تھا اور ملک کے اہم اور بنیادی امور میں مداخلت کرتا تھا۔ اس کی وجہ بھی یہ تھی کہ ملک کے حکام، بد عنوان و نا اہل تھے۔ قوم میں ان کا کوئی مقام نہيں تھا، انہیں کسی سہارے کی تلاش تھی، اسی لئے وہ امریکا پر بھروسہ کرتے تھے۔ امریکا تو مفت میں کسی کو کچھ دیتا نہيں اس نے ان کی حمایت کو کی شرط یہ رکھی کہ ملکی معاملات میں مکمل مداخلت کرے گا۔ شاید آپ لوگوں کو تعجب ہو لیکن آپ یقین رکھیں کہ محمد رضا شاہ کو کسی وزير اعظم کو معزول کرنے یا کسی کو وزارت عظمی کا عہدہ دینے کے لئے، امریکا کا دورہ کرنا پڑا اور وہاں دو تین ہفتے تک قیام کرنا پڑا کہ کسی صورت امریکیوں کو راضی کیا جا سکے اور وہ ایک کو ہٹا کر اس کی جگہ دوسرے کو لا سکے! ہمارے ملک کی یہ حالت ہو چکی تھی۔ پہلوی حکومت کے آخری ایام میں تو حالات اس سے بھی بدتر ہو گئے تھے۔ اب امریکا جانے کی ضرورت نہيں تھی؛ یہیں پر امریکی و برطانیوی سفیر ، شاہ کے محل میں جاتے اور اس سے کہتے کہ تم تیل کے معاملے میں یہ کام کرو، عالمی تعلقات کے شعبے میں ایسا کرو، قوم کے ساتھ تمہارا رویہ اس طرح کا ہونا چاہئے، جد و جہد کرنے والوں کے ساتھ اس طرح کا رویہ اختیار کرو، وہ شاہ کو حکم دیتے تھے اور شاہ بھی ان کی اطاعت کرتا تھا۔ ظاہر ہے جب کسی ملک کا سربراہ اتنا کمزور، اتنا بے دست و پا اور غیر ملکیوں کے سامنے اس طرح سراپا اطاعت بن جائے تو پھر دیگر لوگوں کی حالت کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ یہ ہمارے ملک کی حالت تھی۔ سامراج کے یہ معنی ہوتے ہيں۔
امریکا مکمل طور پر ایک سامراجی طاقت ہے۔ صرف ہمارا ہی مسئلہ نہيں ہے، پوری دنیا کا مسئلہ ہے؛ پورے عالم اسلام کا مسئلہ ہے۔ امریکیوں میں پوری دنیا کے لئے اسی طرح کا سامراجی جذبہ موجود ہے۔ دوسری جنگ عظيم میں جب جاپان کی شکست ہوئی تو انہوں نے وہاں ایک فوجی چھاونی بنائی اور آج بھی اس ملک میں امریکیوں کی فوجی چھاونی موجود ہے۔ جاپانی، اس حد تک سائنسی ترقی کے باوجود ابھی تک اپنے ملک سے امریکیوں کی فوجی چھاونی ختم کروانے میں کامیاب نہيں ہوئے! امریکا کی وہاں پر فوجی چھاونی ہے؛ عوام پر ظلم کرتے ہيں، انہیں پریشان کرتے ہيں، اخبارات میں ذکر کیا جاتا ہے، خبر رساں ایجنسیوں نے بھی رپورٹوں میں اس بات کا ذکر کیا ہے؛ خواتین کی عزت سے کھلواڑ اور اس طرح کے دیگر جرائم کی رپوٹیں شائع ہوتی رہتی ہيں لیکن ان سب کے باوجود اب بھی وہ اسی ملک میں ہیں۔ جنوبی کوریا میں بھی امریکی فوجی چھاونی آج بھی ہے۔ عراق میں، امریکا کا منصوبہ ہے کہ ایک چھاونی بنائے اور پچاس برس، سو برس کے لئے عراق میں موجود رہے، (اسی طرح) افغانستان میں بھی۔ کیونکہ افغانستان ایسا علاقہ ہے کہ جہاں اگر ان کی فوجی چھاونی بن گئی تو وہ جنوب مغربی ایشیا، روس، چین، ہندوستان، پاکستان اور ایران پر نظر رکھ سکتے ہيں، اس لئے وہ اس ملک میں بھی کوشش کر رہے ہيں جس کا مقصد یہ ہے کہ اس ملک میں بھی ایک مستقل فوجی چھاونی بنا کر وہیں رہ جائيں۔ سامراج کے معنی یہ ہوتے ہيں۔
ایرانی قوم نے امریکا کی پٹھو حکومت کو ختم کرکے، اس ملک سے امریکا کو نکال باہر کیا۔ اس موقع پر امریکی اگر چاہتے تو انقلاب کے فورا بعد ہوش میں آ جاتے اور دیکھ لیتے کہ ہماری قوم کتنی طاقتور ہے، جس نے اس حکومت کو اکھاڑ پھینکا جس کی مشرق و مغرب حمایت کرتا تھا۔
یہ قوم اتنی طاقتور ہے کہ ڈھائی ہزار سالہ تاریخ کی حامل شاہی حکومت کو اکھاڑ پھینکنے میں کامیاب ہوئی۔ یہ دیکھ کر وہ ایرانی قوم سے معافی مانگ سکتے تھے؛ ہماری قوم کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کے بدلے میں جتنا ممکن تھا ان نقصانات کی تلافی کر دیتے۔ اگر وہ ایسا کر لیتے تو ایران کے ساتھ ان کے مسائل حل ہو جاتے۔ حالانکہ اسلامی جمہوریہ ایران، عالم اسلام پر ان کی جانب سے کئے جانے والے مظالم پر بدستور اعتراضات کرتا رہتا لیکن آج ان کے اور ایرانی قوم و اسلامی جمہوریہ کے درمیان جو اس شدت کے ساتھ نفرت ہے وہ اس شکل میں باقی نہ رہتی۔ لیکن ان لوگوں نے ایسا نہیں کیا ۔ ان لوگوں نے نہ معافی مانگی، نہ شاہی حکومت کے سقوط سے سبق حاصل کیا، بلکہ شروعاتی مہینوں سے ہی، تلوار کھینچ لی اور سفارت خانہ سازشوں کا مرکز بن گیا، جاسوسی کا اڈہ، لوگوں کو ورغلانے کے لئے مشتبہ سازباز کا مرکز، تاکہ شاید اس راستے سے اسلامی جمہوریہ کو شکست دی جا سکے؛ شاید اس طرح سے اسلامی جمہوریہ کو زیر کیا جا سکے۔ امریکیوں نے یہ بہت بڑی غلطی کی۔ اس کے بعد ان سے جو بھی بن پڑا اور جتنا بھی وہ کر سکے، اسلامی جمہوریہ، ہماری قوم و ملک کے خلاف انہوں نے کیا جس کی ایک مثال طبس کے علاقے میں کیا جانے والا حملہ ہے۔ اس کی دوسری مثال ہمارے مسافر بردار طیارے کو مار گرانا ہے جس میں تقریبا تین سو لوگوں کو خلیج فارس میں مار ڈالا گیا۔ مسافر بردار طیاروں کو نشانہ بنایا اور سمندر میں گرا دیا۔ اس کی ایک اور مثال، ہماری تیل کی جیٹیوں پر حملہ ہے۔ ریگن کے زمانے میں خلیج فارس میں ہماری تیل کی تنصیبات پر حملہ کيا گيا۔ اس کی ایک اور مثال، بعثی خبیث صدام کی وسیع پیمانے پر مدد ہے۔ ان کا خیال تھا کہ شاید اس طرح سے ہمارے خلاف جنگ میں صدام کو کامیابی دلا دیں گے اور اسلامی جمہوری کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ہو جائيں گے۔ اگر اس طرح کے امریکی جرائم کی فہرست تیار کرنا چاہيں تو ایک کتاب تیار ہو جائے گی۔ ایک زمانے میں ایک امریکی وزير دفاع نے امریکیوں کے دل کی بات ظاہر کر دی تھی؛ انہوں نے کہا: ہمیں، ایرانی قوم کی بنیادیں متزلزل کر دینا ہے۔ آپ ذرا غور کیجئے؛ ایرانی حکومت کی جڑیں نہیں، اسلامی جمہوریہ کی جڑیں نہيں بلکہ خود ایرانی قوم کی جڑیں اور بنیادیں۔ انہوں نے ٹھیک ہی سمجھا تھا کہ اسلامی جمہوریہ یعنی قوم، اسلامی جمہوریہ کے حکام یعنی، پوری ایرانی قوم ۔ اسی لئے انہوں نے کہا کہ ایرانی قوم کی جڑوں کو اکھاڑ دیا جائے۔ یہ امریکی خواہش تھی۔ اس کے لئے ان سے جو بن پڑا انہوں نے کیا۔
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے جو یقینا ایک منفرد تاریخی شخصیت کے حامل تھے، ان سب حرکتوں کے مقابلے میں فرمایا: تم لوگ جتنی بھی سازشیں کرو گے، سب تمہارے نقصان میں جائیں گی اور اسلامی جمہوریہ پسپائی اختیار نہيں کرے گا۔ امریکا کچھ بگاڑ نہيں سکتا۔ یہ سامراج ہے ۔ اسلامی جمہوریہ کو کسی بھی حکومت سے کوئی شکایت نہيں ہے لیکن جس حکومت کے مفادات کی تکمیل ہمارے ملک میں رک گئی تھی اور جس نے اپنی توانائی بھر سازشیں رچی ہيں وہ امریکی حکومت تھی۔
تیس برسوں تک امریکی حکومت نے اسلامی جمہوری نظام اور ایرانی قوم کے خلاف سازشیں رچی، نقصان پہنچایا، مختلف چالیں چلیں؛ جو ہو سکا کیا۔ اگر آپ یہ تصور کرتے ہيں کہ کوئی ایسا کام ہے جو امریکی کر سکتے تھے لیکن انہوں نے نہيں کیا تو یہ غلط ہے۔ ایسا نہيں ہے۔ جو بھی ممکن تھا انہوں نے کیا۔ آج بھی آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس مقابلہ آرائی کے نتیجے میں ایرانی قوم نے دن بدن ترقی کی۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے ترقی کی، ہمارے ملک کی طاقت میں روز افزوں اضافہ ہوا ۔ نقصان خود انہی کو اٹھانا پڑا ہے۔ کبھی کبھی ان لوگوں نے بظاہر امن پسندانہ باتيں ہماری قوم سے کیں لیکن جب بھی اسلامی جمہوری نظام کے حکام کو ان کے چہروں پر مسکراہٹ نظر آئی تو غور کرنے کے بعد یہی عقدہ کھلا کہ انہوں نے اپنی آستینوں میں خنجر چھپا رکھا ہے۔ دھمکی دینے سے باز نہیں آئے؛ ان کی نیتوں اور عزائم میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ مصلحت کوشی پر مبنی مسکراہٹ، مفاد پرستانہ خوش مزاجی کے فریب میں بس بچے ممکن ہے کہ آ جائیں۔ بے شمار تجربات کی مالک ایک قوم اور اس طرح کی قوم کے بیدار حکام اگر دھوکا کھا جائيں تو پھر وہ بہت ہی سادہ لوح ہوں گے یا پھر خواہشات نفسانی میں غرق اور پر تعیش زندگی اور چین وسکون کو خواہاں جو دشمن سے ساز باز پر تیار ہو جائیں۔ ورنہ اگر ملک کے حکام ہوشیار ہوں، اہل فکر و نظر ہوں، تجربہ کار ہوں، پختہ ہوں، اپنے پورے وجود سے ملک و قوم کے مفادات کے بارے میں سوچتے ہوں تو پھر اس طرح کی مسکراہٹوں کے دھوکے میں ہرگز نہيں آئيں گے۔ امریکی صدر نے بڑی خوبصورت باتيں کیں، ہمارے پاس بھی بار بار پیغام بھیجے۔ زبانی بھی اور تحریری بھی کہ آئيں، حالات کو بدل دیا جائے۔ اب نیا ماحول تیار کریں۔ آئيں، عالمی مسائل کے حل میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں؛ اس حد تک! ہم نے بھی سوچا کہ پہلے سے ہی بدگمانی میں نہیں پڑنا چاہئے۔ ہمیں عملی میدان میں دیکھنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم تبدیلی پیدا کرنا جاہتے ہيں۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے، تبدیلی کو بھی دیکھ لیتے ہيں۔ سال کی ابتداء میں، میں نے مشہد میں اپنی تقریر کے دوران کہا تھا کہ اگر آہنی پنجے پر، مخمل کا دستانہ چڑھا کر، ہماری طرف ہاتھ بڑھایا جائے گا تو ہم اپنا ہاتھ نہيں بڑھائيں گے۔ یہ انتباہ میں نے وہیں پر دے دیا تھا۔ آج آٹھ مہینے گزر چکے ہیں۔ ان آٹھ مہینوں میں، جو کچھ ہمیں نظر آیا ہے وہ ان باتوں کے سراسر خلاف ہے جو ان افراد کی زبان پر آئي تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم مذاکرات کریں؛ لیکن مذاکرات کے ساتھ ہی یہ دھمکی بھی ہے کہ اگر مذاکرات کے نتائج ان کی مرضی کے مطابق برآمد نہ ہوئے تو ایسا ہو جائےگا ویسا ہو جائےگا! اسے مذاکرات کہا جاتا ہے؟ یہ تو وہی، بھیڑئے اور بھیڑ والا قصہ ہے جس کے بارے میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ ہم بھیڑ اور بھیڑئے والے تعلقات نہیں چاہتے۔ آئيں ہمارے ساتھ مذاکرات کریں۔ کسی بھی موضوع پر۔ مثال کے طور پر ایٹمی مسئلے پر، لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ مذاکرات کے نتائج مرضی کے مطابق ہی ہوں! مثال کے طور پر ایران ایٹمی سرگرمیاں ختم کر دے، اگر اس نتیجے پر نہيں پہنچے تو یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے، یعنی دھمکی۔
مجھے تعجب ہوتا ہے۔ یہ لوگ ماضی کے واقعات سے درس کیوں نہیں لیتے؟ ہماری قوم کو پہچاننے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ کیا انہیں یہ نہیں معلوم کہ ہماری قوم ایسی قوم ہے جو اس دور میں جب دنیا میں صرف دو سپر پاور تھے اور ان میں دنیا کے تمام مسائل میں اختلاف تھا صرف اسلامی جہموریہ ایران کے خلاف دشمنی کو چھوڑ کر، امریکا اور سوویت یونین نام کے دونوں سپر پاور ( اس مسئلے میں) متحد تھے، ڈٹ گئ اور دونوں سپر پاوروں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ وہ لوگ کیوں عبرت نہيں پکڑتے؟ آج تو ان کے پاس اس دور کے اتنی طاقت بھی نہيں ہے جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران اس دور سے کئ گنا زیادہ طاقتور ہو چکا ہے پھر بھی وہ اس طرح کی زبان استعمال کر رہے ہيں؟ اسی کو کہتے ہيں سامراج ۔ کسی قوم سے نخوت و غرور کے ساتھ بات کرنا، دھونس دھمکی سے کام نکالنا؛ اگر ایسا نہ کیا تو ویسا ہو جائے گا۔ ہماری قوم کا بھی کہنا ہے کہ ہم ڈٹے رہیں گے۔
جو چیز اسلامی جمہوریہ ایران چاہتا ہے وہ اس کے قانونی حق سے زیادہ نہيں ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران اپنی خودمختاری چاہتا ہے، آزادی چاہتا ہے، اپنے قومی مفادات کی تکمیل چاہتا ہے، ملک میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی چاہتا ہے، یہ ہماری قوم کا حق ہے۔ ان حقوق کی تکمیل کی راہ میں جو بھی رکاوٹ پیدا کرے گا، ہماری قوم اس کے سامنے اپنی پوری طاقت سے ڈٹ جائے گی اور اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے گی۔
جس دن امریکا اپنی سامراجی خو سے باز آ جائےگا، جس دن اقوام عالم کے امور میں بلا وجہ کی مداخلت کرنا بند کر دےگا، جس دن وہ دنیا کی دیگر حکومتوں کی مانند بن جائے گا اس دن ہماری نظر میں بھی وہ دنیا کی دیگر حکومتوں کی مانند ہو جائے گا۔ لیکن جب تک امریکی ایران میں اپنی واپسی، ماضي کے حالات، ماضی کو پلٹانے، زمانے کو پیچھے کی جانب لوٹانے اور ہمارے ملک پر تسلط جمانے کا خواب دیکھتے رہیں گے ہماری قوم سے ہرگز کوئی مراعات حاصل نہیں کر سکیں گے۔ یہ بات انہیں جان لینا چاہئے اور یہ جو ہنگامے انتخابات کے بعد ہوئے ہيں اس کے سلسلے میں بھی وہ بہت خوش نہ ہوں۔ اسلامی جمہوریہ ایران ان باتوں سے کمزور پڑنے والا نہیں ہے، اس کی جڑیں بہت گہری ہيں۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے اس سے زیادہ سخت حالات کا سامنا کیا ہے اور کامیاب ہوکر باہر نکلا ہے۔

اب اگر دو چار سادہ لوح لوگ، اب ان کی جو بھی نیت ہو ہم اس بارے میں کوئی رائے دینا نہیں چاہتے، ممکن ہے خبث باطنی اور بد نیتی کے ساتھ یا پھر ایسی بری نیت تو نہیں لیکن سادہ لوحی کے نتیجے میں یا معاملات کو صحیح طور پر نہ سمجھ پانے کی وجہ سے، اسلامی جمہوری نظام کے مد مقابل کھڑے ہونے کی کوشش کرتے ہيں تو یہ لوگ، ہمارے ملک میں امریکیوں کے لئے ریڈ کارپیٹ بچھانے تو بچھانے سے رہے؛ یہ بات انہيں سمجھ لینی چاہئے (کیونکہ) ایرانی قوم سینہ سپر ہوکر کھڑی ہوئی ہے ۔
میں آپ نوجوانوں سے عرض کرتا ہوں: پیارے نوجوانو! یہ ملک آپ کا ہے، یہ حکومت آپ کی ہے، یہ تاریخ آپ کی ہے۔ ہمارا کردار اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ جتنا ہماری نسل کو اور ہمارے جیسے لوگوں کو علم تھا، جتنی خدا نے ہمیں توفیق دی، ہم نے وہ سب لیا۔ اب ملک آپ لوگوں کے حوالے، یہ ملک آپ لوگوں کا ہے۔ یہ آج آپ لوگوں کا ہے کل بھی آپ لوگوں کا ہے۔ اس ملک کو مضبوطی سے سہارا دیجئے؛ مضبوط ارادے کے ساتھ ۔ یہ ملک آپ کے عزم محکم سے جو جذبہ ایمانی پر استوار ہو، روز بروز طاقتور ہو سکتا ہے۔ آپ کو اپنے ملک کو اس مقام پر پہنچانا چاہئے کہ کسی میں اسے دھمکی دینے کی جرئت نہ ہو ۔ یہ آپ کے عزم و ارادے پر منحصر ہے۔
نوجوانوں کو تعلیم حاصل کرنا چاہئے۔ میں نے بارہا کہا ہے اور ایک بار پھر کہہ رہا ہوں: کسی بھی قوم کی حقیقی قوت و طاقت کا دار و مدار علم و دانش پر ہوتا ہے۔ یہ علم ہے جو دیگر تمام ذخائر سے استفادہ کرنے اور ملک کے توانائيوں میں اضافے کی راہ دکھاتا ہے۔ علم و دانش سے غافل نہ رہیں؛ چاہے وہ اسکول کے طلبہ ہوں یا یونیورسٹیوں کے طلباء، جس مرحلے میں بھی ہوں۔ علمی امور ہوں کہ تحقیقاتی مسائل دینی جذبہ ان کے ساتھ بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ دین بہت زیادہ اہم ہے۔ دین صرف آخرت سنوارنے کے لئے نہيں ہوتا، دین آپ کی دنیا بھی سنوارتا ہے۔ دین آپ کو جوش و ولولہ و شادابی عطا کرتا ہے۔ دین آپ کو ایسا حوصلہ دیتا ہے کہ آپ کی نظروں میں یہ مادی طاقتیں ہیچ ہوکر رہ جاتی ہيں، حقیر و پست ہو جاتی ہیں۔ ان کی دھمکیوں کا اثر ختم ہو جاتا ہے اور ان کی تدبیریں الٹی پڑ جاتی ہيں۔ یہ جان لیں کہ کامیابی آپ کا مقدر ہے، خدا کی مدد آپ کے ساتھ ہے۔ بات بات پر دھمکیاں دینے والی یہ بڑی طاقتیں بھی، ملک کے اندر ان کے پٹھوؤں کی بات ہی چھوڑئے، یہ سامراجیت کے مراکز بھی لاکھ دھمکیاں دیں لیکن ایک با ایمان و صاحب اقتدار قوم کے سامنے پسپائی کے علاوہ ان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔
خدائے متعال پر بھروسہ رکھیں، حسن ظن رکھیں۔ یہ جو خداوند عالم نے زور دے کر فرمایا ہے : و لینصرن اللہ من ینصرہ ان اللہ لقوی عزیز (1) بے شک، بلا شبہ خداۓ متعال اس کی مدد کرتا ہے جو اس کے دین اور اس کے اہداف کی مدد کرتا ہو۔ یہ حرف حق ہے ایک سچا وعدہ ہے۔ اس وعدے پر بھروسہ کریں۔ طاقت، قوت ارادی، تہذیب نفس، خود سازی، علمی اور اخلاقی دونوں اعتبار سے خود سازی کے ساتھ آگے بڑھیں۔ انشاء اللہ آپ وہ دن ضرور دیکھیں گے جب آپ کا ملک، آپ لوگوں کی جد و جہد کی وجہ سے طاقت و سطوت کی بلندیوں پر پہنچ چکا ہوگا ۔ دعا کرتا ہوں کہ خداوند عالم آپ سب کو سلامت رکھے، آپ سب کی تائید و نصرت کرے اور انشاء اللہ آپ سب ان تابناک و پر کشش ایام کا مشاہدہ کریں گے۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

(1) حج: 40