اس ملاقات میں ولی فقیہ کے نمائندے اور ایرانی حجاج کرام کے سرپرست حجت الاسلام و المسلمین محمدی رے شہری اور ادارہ حج و زیارت کے سربراہ جناب خاکسار قہرودی بھی موجود تھے۔ حاضرین سے خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے حج کو ایک اہم ترین موقع سے تعبیر کیا اور اس موقع سے بھرپور استفادے کی ضرورت پر زور دیا۔ آپ نے حج کو مسلم امہ کے تصور کا مصداق قرار دیا اور اس موقع پر اسلامی اتحاد کے تقاضوں کو مد نظر رکھنے پر تاکید کی۔ آپ نے مسلم ممالک میں رونما ہونے والے واقعات و حوادث کی جانب اشارہ کرتے ہوئے سامراج کی سازشوں کو ناکام بنانے کی سفارش کی اور اس سلسلے میں حج کو انتہائی اہم موقع قرار دیا۔
تفصیلی خطاب پیش نظر ہے:
بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

خداوند عالم کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے یہ توفیق دی اور یہ موقع فراہم کیا کہ حج کی تقریبات اور طول تاریخ میں مسلمانوں کے قلوب کی منزل مقصود کی سمت حجاج کرام روانگی کا منظر دیکھ سکوں۔ حج کو ایک نعمت اور خدا کی جانب سے عطا کردہ عظيم موقعے کی حیثیت سے دیکھا جانا چاہئے۔ تمام عبادتیں اسی انداز کی ہيں؛ نماز بھی ایک موقع ہے، ایک نعمت ہے۔ اگر ہم پر نماز واجب نہ ہوتی تو اس بات کا خدشہ تھا کہ ہم غفلتوں کے سمندر میں غرق رہتے۔ یہ عظيم نعمت کہ ہمیں دن میں متعدد بار لقاء اللہ کی دعوت دی گئی ہے۔ خدا سے ہمکلام ہونے کا موقع دیا جاتا ہے۔ اس کے سامنے خضوع و خشوع کی دعوت دی جاتی ہے۔ یہ بہت بڑی نعمت ہے، یہ بہت بڑا موقع ہے۔ حج بھی ایسا ہی ہے تاہم دیگر تمام عبادتوں کے مقابلے میں حج کی ایک خصوصیت اس کا عالمی سطح کا ہونا ہے۔ خدا کی بارگاہ میں زبان دل سے خضوع و خشوع ہر مسلمان کو دلی خواہش ہوتی ہے لیکن یہ تضرع و گریہ و زاری، حج کے دوران عالمی ہمہ گیریت اختیار کر لیتا ہے۔ تمام مسلمان ایک ساتھ مختلف زبانوں، مختلف قومیتوں، مختلف عادات و اطوار اور تہذیب و ثقافت کے ساتھ جب وہاں جاتے ہيں تو سراپا خضوع و انکسار بن جاتے ہیں، آبدیدہ ہو جاتے ہیں۔ یہ انتہائی غیر معمولی عمل ہے لیکن چونکہ ہم اسے (زمانے سے) دیکھتے آئے ہيں اس لئے ہمیں اس کی اہمیت و عظمت کا صحیح طور پر اندازہ نہيں ہوتا۔ سارے مسلمان اکٹھا ہوتے ہيں، مرکز واحد کی طرف اپنی توجہات مرکوز کر دیتے ہیں، ایک نقطہ پر ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے ہوتے ہيں اور اس کے سامنے جبین نیاز زمین پر رکھتے ہیں، ہمیں حج کو اس نظر سے دیکھنا چاہئے۔ اسے ایک موقعے کی حیثیت سے دیکھنا چاہئے۔ اگر ہم نے حج کو ایک موقع کی حیثیت سے دیکھا تو اس صورت ميں ہماری نگاہوں میں وسعت آئے گی اور ہم اپنے فرائض پر زیادہ توجہ دیں گے۔ آپ کو یہ موقع حاصل ہوتا ہے کہ آپ خانہ خدا میں دیگر مسلمان بھائیوں کے ساتھ مل کر بندگی کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ یہ اس عظیم موقعے کا پہلا مرحلہ ہوتا ہے۔ اگر اسے ایک موقع کی شکل میں دیکھا جائے تو اس کا لازمہ یہ ہوگا کہ انسان اس موقع کو کسی بھی قیمت پر ہاتھ سے جانے نہ دے۔ بڑے افسوس کی بات ہوگی کہ کوئی انسان مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ میں پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور دیگر ائمہ علیھم السلام کے روضوں اور عظیم صحابہ و شہدائے احد و دیگر عظيم شخصیتوں کے مرقدوں کے جوار میں ہو جو تاریخ میں خورشید تاباں کی طرح چکم رہے ہيں اور خدا کی سمت ارتکاز و اللہ کی بارگاہ میں مناجات کے بجائے دنیوی فکروں میں ڈوبا رہے، بے وقعت امور اور ذاتی مسائل کی فکر میں مبتلا رہے، یہ بازاروں کے چکر لگانا اور ادھر ادھر جانا وہ بھی ایسے معمولی کاموں کے لئے جو بد قسمتی سے ہم پوری زندگی کرتے رہتے ہيں، وہ بھی ایسے مقدس مقام پر جہاں کا ایک ایک لمحہ، ایک ایک گھڑی اتنی اہم ہو اور اتنی قیمتی ہو! حقیقت میں اس ساعت کا ایک ایک لمحہ انتہائی عظیم و قیمتی ہے۔ اب اگر ہم ان قیمتی لمحات کو ایسے معمولی کاموں میں صرف کر دیں جو ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں اپنے شہر کے بازاروں میں اور مختلف مقامات پر کرتے رہتے ہيں تو یہ افسوس کا مقام ہے۔ تو یہ پہلا مرحلہ ہے۔ مکہ و مدینہ میں ہمیں توشہ آخرت جٹانے کی فکر کرنا چاہئے۔ اپنے ایمان، اپنی روحانیت کے ذخیرے میں اضافے اور خدا کی یاد اور اس کے ذکر کی کثرت کے بارے میں سوچنا چاہئے۔ یہ پہلا قدم ہے۔
اس عظیم موقع کا دوسرا فائدہ، عالم اسلام سے رابطہ کے موقع کا حاصل ہونا ہے۔ دنیا عوام پر مشتمل ہے، سیاست دانوں پر نہيں، نہ ہی تسلط پسند سربراہوں پر اور نہ ہی سامراجی طاقتوں پر۔ کبھی کبھی آپ سنتے ہوں گے، یہی سامراجی، اپنے ذہنوں کے فتور کو عالمی برادری سے منسوب کردیتے ہيں: عالمی برادری کی یہ خواہش ہے! عالمی برادری یعنی، اربوں انسان۔ اسلامی برادری بھی اسی طرح ہے۔ اسلامی امہ یعنی عام لوگ۔ اسلامی امت کا مطلب زيد یا عمرو نہیں ہیں جو کسی ذریعے سے عالم اسلام کے ایک حصے پر قابض ہوں اور حکومت کر رہے ہوں۔ امت عوام سے عبارت ہے۔ انہی میں برکتیں اور بھلائیاں ہیں اور انہی کا عزم پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہٹنے پر مجبور کر سکتا ہے، انہی کی کارکردگی سے اسلامی اقدار عالمگیر اور وسیع ہو سکتے ہیں۔ یہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ حج کے دوران ہر سال حاجی، عالم اسلام اور اسلامی امت کے عظيم حصے سے ملتے ہیں۔ اس موقع کو غنیمت سمجھنا چاہئے۔ یہ ایک اچھا موقع ہے جس سے مناسب فائدہ اٹھایا جانا چاہئے۔
ہم اس موقع سے کیسے فائدہ اٹھائیں؟ اس کے بہت سے راستے ہيں۔ ایک آسان کام جو اس موقع پر کیا جا سکتا ہے اور جسے سب لوگ انجام دے سکتے ہيں یہ ہے کہ ایران کا مسلمان، جو اسلامی جمہوریت اور اسلامی نظام کے پرچم تلے زندگی گزارتا ہے، اپنے طور طریقوں سے، اپنے کردار سے، اسلامی جمہوری نظام کا تعارف کرائے، اپنا تعارف کرائے۔ اپنے اوپر مرتب ہونے والے اسلامی تربیت کے اثرات کو برملا کرے۔ یہ سب سے آسان راستہ ہے۔ ایسا حاجی بنے جو مسجد الحرام یا مسجد النبی، جنت البقیع یا احد کے شہداء کی زیارت یا منا و عرفات میں (اعلی) انسانی کردار کا مظہر ہو۔ اسلامی آداب سے آراستہ ہو، ایسا انسانی طرز سلوک ہو جو قرآنی تربیت کے زیوروں سے مزین ہو، خضوع و خشوع کا آئینہ اور انکساری و خاکساری کا پیکر ہو۔ دوسروں کے ساتھ محبت سے پیش آئے کسی کی دل آزاری اور توہین نہ کرے۔ اتحاد کا داعی ہو اختلافات کا باعث نہیں۔ روایتوں میں اہل سنت کی (نماز) جماعت میں شرکت کے بہت زیادہ ثواب کا ذکر ہے وہ بھی ائمہ علیھم السلام کے زمانے میں۔ روایتوں میں ہے کہ مسجد الحرام میں، ان لوگوں کے پیچھے نماز پڑھیں تو گویا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے نماز پڑھی۔ اس کے کیا معنی ہیں؟ ظاہر ہے کہ امام صادق علیہ السلام، اس امام جماعت کی نماز کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز کی طرح نہيں قرار دے رہے ہيں۔ اپنے کسی پیروکار کی نماز سے بھی اس کی نماز کا موازنہ نہیں کر رہے ہیں، لیکن فرماتے ہیں کہ اس کے پیچھے نماز پڑھیں۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ یہ اتحاد کا مظہر ہے۔ اس سے عملی اتحاد ظاہر ہوتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ، اس عظیم بیدار مرد خدا نے، ہم سب کو، تمام ایرانی حاجیوں کو تاکید کی ہے کہ مسجد الحرام اور مسجد النبی کی نماز جماعت میں شرکت کریں؛ اس موقع پر موجود رہيں کہ جس کا ایک مصداق یہی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ نماز جماعت کے موقع پر کہ جب سب لوگ نماز میں مصروف ہوں ، کوئي ایرانی حاجی اپنا بوجھ اٹھائے اپنے مسافر خانے کی سمت جاتا نظر آئے۔ یہ چیزیں نقصان دہ ہيں۔ اسلامی آداب سے سجا کردار، انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ آپ کو لوگوں کی زبان کا علم نہ ہو، ان سے رابطہ بھی نہ کریں بس صرف یہ ظاہر ہو جائے کہ آپ ایرانی حاجی ہيں اور ایسے کردار کے مالک ہيں، با ادب ہيں، با وقار ہیں، صاف ستھرے ہیں، اہل دعا و مناجات ہیں۔ یہ جو دعائے کمیل کئی برسوں سے حج کے دوران پڑھی جاتی ہے تو یہ سب چیزيں اپنے آپ میں بہت بڑی تبلیغ کا درجہ رکھتی ہیں۔ یہ چیزیں مختلف روشوں کی تبلیغ سے کئ گنا اہم ہیں۔ با ایمان لوگوں کا اتنا بڑا مجمع اکٹھا ہوتا ہے اور خدا کے سامنے تضرع کرتا ہے، استغفار کرتا ہے، آنسو بہاتا ہے۔ اسے کہتے ہیں تبلیغ۔
(مشکین سے اظہار) برائت کے پروگرام میں شرکت بہت بڑی تبلیغ ہے۔ وہاں موجودگی ہی تبلیغ ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ، حج کو اس کے تمام پہلوؤں کے ساتھ، ایک مکمل مجموعے کی شکل میں قبول کرتے ہيں۔
حج میں توحید ہے۔ خود توحید دو حصوں پر مشتمل ہے: ایک اللہ ہے اور دوسرا لا الہ غیر اللہ ہے؛ ایک اثبات ہے، دوسرا حصہ نفی پر مبنی ہے۔ توحید کا مظہر حج ہے؛ اللہ کی حکومت و سرپرستی کا اقرار اور غیر اللہ کی ولایت و سرپرستی کی نفی۔ اسی کو برائت کہتے ہیں۔
حج کے سلسلے میں ایک بات یہ بھی ہے کہ ایرانی حاجیوں کے عظيم کاروانوں کو، کہ الحمد للہ جو اسلامی جمہوری نظام کے لئے قابل فخر ہے، ضروری نکات کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے عمل کرنا چاہئے۔ ہمیں ہر سال اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ ضرورتیں کیا ہیں۔ ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان چند برسوں کے دوران اور اس سال کی کم سے کم ایک اہم ضرورت اسلامی اتحاد ہے؛ اسلامی فرقوں کے درمیان اتحاد ایک ضرورت ہے۔ غور کریں کہ اسلام کے دشمن کیا کر رہے ہيں؛ اسلامی امت کے دشمن اختلافات پیدا کرنے اور پھوٹ ڈالنے کے لئے کتنی رقم خرچ کر رہے ہيں کہ اسلامی فرقوں کو ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑا کر دیں۔ یہ عراق میں جو خونی حادثے ہو رہے ہیں جن کا ایک نمونہ کل پیش آیا اور اس کی ڈھیروں مثالیں پاکستان اور دیگر علاقوں میں نظر آتی ہيں، ان کا ایک حتمی مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو اندھا دندھ قتل عام کے ذریعے ختم کیا جائے، ان کا نام و نشان مٹ جائے یا پھر معذور ہو جائيں اور اپنا کوئی عضو کھو دیں۔ ان سب کاموں کا ایک بڑا مقصد، شیعہ و سنی اختلافات پیدا کرنا ہے۔
عراق میں صدیوں سے شیعہ بھی زندگی بسر کر رہے ہيں اور سنی بھی۔ یہ دونوں فرقے ایک ساتھ زندگی گزارتے آئے ہيں۔ جو کتابیں اور عقیدے آج ہيں وہی کل بھی تھے اور شاید زيادہ شدت کے ساتھ تھے لیکن گزشتہ صدیوں میں اس طرح کے واقعات کی مثال نہيں ملتی؛ اس طرح سے ایک دوسرے کے خلاف اقدامات کئے جا رہے ہيں، اس طرح سے ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن گئے ہيں؟ یہ کون لوگ ہیں؟ یہ جو ہمارے ملک میں کبھی کبھی خونی واقعات رونما ہوتے ہیں یا حالیہ دنوں میں جو واقعہ رونما ہوا ہے، یا جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے؛ شیعہ سنی کے خلاف، سنی شیعہ کے خلاف۔ یہ لوگ شیعہ یا سنی نہيں ہیں۔ جو لوگ اس طرح کے کام کر رہے ہيں وہ یا تو براہ راست یا پھر بالواسطہ غیر ملکیوں کے ایجنٹ ہيں، یا پھر غیروں کے ایجنٹ ہيں۔ یہ جو جنت البقیع میں، مسجد الحرام میں، مسجد النبی میں کچھ لوگ ایرانی حاجیوں کے سامنے ظاہر ہوتے ہيں جن کے بارے میں یہ بھی نہيں معلوم کہ وہ کون ہیں، کہاں سے آئے ہيں، یہ لوگ آکر مقدسات کی اہانت کرتے ہيں اور کچھ تو ناموس کی بے حرمتی کی جسارت بھی کر دیتے ہیں، یہ لوگ کون ہيں؟
اس طرف سب کی توجہ ہونی چاہئے، سب کو اس طرف سے ہوشیار رہنا چاہئے۔ حکومتوں کا فرض ہے؛ سعودی عرب کی حکومت کی ذمہ داری ہے؛ خانہ خدا کے زائر پر، بیت اللہ الحرام کے حاجی اور پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ اطہار علیھم السلام کے مقدس روضوں کی زیارت کرنے والوں پر حملے نہ ہونے دیں۔ کوئی آئے اور کسی زائر، شیعہ عالم دین یا کسی کے ساتھ بھی کوئي نا زیبا حرکت کرے اور سعودی اہلکار کھڑا تماشا دیکھتا رہے یا پھر اس کی حمایت کرے تو یہ صحیح نہيں ہے۔ یہ سب سراسر اتحاد کے منافی باتیں ہیں۔ یہ وہی چیز ہے جو امریکا چاہتا ہے۔ یہ وہی چیزیں ہیں جو غیر ملکی خفیہ ایجنسیاں چاہتی ہيں۔ خدا کے گھر کی زیارت کو جانے والے حاجی، عالم اسلام کے واقعات و حوادث سے لا تعلق تو نہيں رہ سکتے۔
آج عراق، افغانستان، مظلوم فلسطین اور پاکستان کے کئ علاقے، غیر ملکی فوجیوں اور سامراجی اقدامات کا دباؤ برداشت کر رہے ہيں تو کیا عالم اسلام ان چیزوں کو نظر انداز کر سکتا ہے؟ یہ وہ چیزیں ہیں جن پر حج کے دوران توجہ دی جانی چاہئے۔ حج کو ان تمام حرکتوں کے خلاف اسلامی امہ کے عزم راسخ کا مظہر ہونا چاہئے جو امت کے اتحاد کو نقصان پہنچاتی ہیں یا اسلامی امہ کی ترقی کے لئے مضر ثابت ہوتی ہیں، یا اقوام عالم میں لہراتے اسلامی پرچم کو، جو آج الحمد للہ اسلامی جمہوریہ ایران کے ہاتھوں میں ہے، نقصان پہنچاتی ہوں۔ ان حرکتوں کے بارے میں حساس ہونا چاہئے۔ یہ سب ذمہ داریاں ہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جس پر ہمیں حج کے کاروانوں کے لئے پروگرام مرتب کرتے وقت، تبلیغ سے متعلق نظام الاوقات طے کرتے وقت توجہ دینی چاہئے۔ ہمیں اپنے ثقافتی پروگراموں میں، سیاسی منصوبوں میں، کاروانوں کے انتظامی امور میں، اپنے انتخاب میں اور حاجیوں کے سلسلے میں پروگراموں کے دوران ان ضرورتوں کو پیش نظر رکھنا چاہئے اور ان ضرورتوں پر پوری توجہ دینی چاہئے۔
میں حج کے شعبے سے تعلق رکھنے والے تمام ذمہ داروں اور ان برسوں کے دوران اس عظيم کام کو بحسن و خوبی انجام دینے والوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں؛ جناب ری شہری صاحب، خاکسار صاحب اور اسی طرح دوسرے تمام لوگوں کا، کاروانون کے سربراہوں کا، علمائے کرام کا، ان سب کا میں تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔
یہ بہت بڑا کام ہے، مقصد بہت عظیم ہے، اس لئے ذمہ داری بھی بہت بڑی ہے۔ امید ہے کہ خداوند عالم آپ سب کی توفیقات میں اضافہ کرے اور حضرت بقيۃ اللہ الاعظم کی دعائيں آپ سب کے شامل حال رہیں۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‌