آپ نے اپنے خطاب میں تبلیغ کے موثر طریقے اور اس کی خصوصیات پر روشنی ڈالی۔ قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب سے کچھ ہی روز قبل بعض گستاخ عناصر کے ہاتھوں حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں گستاخی کا واقعہ پیش آیا تھا لہاذا آپ نے اس واقعے کا بھی ذکر کیا اور ان سیاسی شخصیات کو خبردار کیا جن کی حمایت کرنے والے کچھ عناصر نے گستاخانہ حرکتیں انجام دیں۔
تفصیلی خطاب پیش نظر ہے:
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
تمام حاضرین کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ الحمد للہ اس مجمعے میں محترم علماء، فضلاء، طلبہ، اساتذہ اور دینی تعلیمی مرکز کے ذمہ دار افراد موجود ہیں جس کی بنا پر یہ ایک منفرد اجتماع ہے۔
یہ اجتماع بھی تبلیغ کے عنوان سے ہوا ہے جو میرا اور آپ کا اصل کام اور ذمہ داری ہے۔ اس تعلق سے یہ ایام بہت مناسب اور الہام بخش ایام ہیں۔ کل عید مباہلہ گزری ہے؛ چند دنوں میں ایام محرم شروع ہو جائيں گے، کچھ دنوں بعد دینی تعلیمی مراکز اور یونیورسٹیوں کے اتحاد کا دن بھی ہے۔ یہ سارے ایام ہم لوگوں کے لئے، جو تبلیغ دین اور لوگوں تک حقیقت پہنچانے کے ذمہ دار ہيں، بڑے سبق آموز اور اہم ایام ہيں۔
مباہلہ وہ موقع ہے جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے عزیز ترین لوگوں کو میدان میں لے آتے ہیں۔ مباہلہ کے سلسلے میں سب سے زيادہ اہم نکتہ «و انفسنا و انفسكم» یا پھر «و نساءنا و نساءكم»(1) میں مضمر ہے۔ پیغمبر اپنے سب سے عزيز لوگوں کا انتخاب کرتے ہیں اور انہيں میدان میں لے آتے ہيں۔ ایسے محاذ پر جہاں حق و باطل کے درمیان فرق کو واضح کرنے والے معیار سب کے سامنے آ جائيں۔ ماضی میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ دین کی تبلیغ اور حق بیانی کے لئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے عزیزوں، اپنے بچوں، اپنی بیٹی اور خود امیر المومنین علیہ السلام کو، جو آپ کے بھائی اور جانشین تھے، میدان عمل میں لے کر آئے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ مباہلہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے، یعنی اس چیز کو واضح کرتا ہے کہ حق بیانی اور حقیقت کی تبلیغ کتنی اہم ہے۔ انہیں میدان میں لے آتے ہیں اور کہتے ہيں کہ چلئے مباہلہ کرتے ہيں۔ جو حق پر ہوگا وہ باقی رہے گا اور جو حق کے خلاف ہوگا وہ عذاب الہی سے نابود ہو جائے گا۔
یہی صورت حال، محرم میں پیش آئي ہے عملی شکل میں۔ یعنی امام حسین علیہ السلام بھی، حقیقت کو بیان کرنے اور پوری تاریخ میں حق کو واضح کرنے کے لئے اپنے پیاروں کو میدان میں لے آتے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام کو بخوبی علم تھا کہ اس واقعہ کا انجام کیا ہوگا؟ حضرت زينب کو لے آئے، اپنی ازواج کو لے آئے، اپنے بچوں اور بھائيوں کو لے آئے۔ وہاں پر بھی تبلیغ کا ہی معاملہ تھا۔ تبلیغ کے صحیح معنی ہیں پیغام پہنچانا، حالات کو واضح کرنا۔ اس طرح یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ تبلیغ کا پہلو کتنا اہم ہوتا ہے۔ اس خطبے میں جس میں آپ نے فرمایا ہے : «من رأى سلطانا جائرا مستحلّا لحرم اللَّه ناكثا لعهداللَّه ... و لميغيّر عليه بفعل و لا قول كان حقّا على اللَّه ان يدخله مدخله» (2) اس سے بہت سے نکات واضح ہوتے ہیں۔ یعنی جب ظالم حاکم اس طرح سے ماحول کو آلودہ کرے، خراب کرے تو آگے بڑھ کر عملی طور پر یا زبانی طور پر حق بیانی کرنا چاہئے اور امام حسین علیہ السلام یہی کام کرتے ہيں، وہ بھی اتنی بڑی قیمت ادا کرکے۔ اپنے اہل و عیال، اپنی ازواج، اپنے عزیزوں، امیر المومنین کے فرزندوں، زینب کبرا، ان سب کو اپنے ساتھ میدان میں لے آتے ہيں۔
تیسری مناسبت دینی تعلیمی مرکز اور یونٹیورسٹی کا اتحاد ہے۔ یہاں پر بھی تعمیر و تبلیغ کا معاملہ ہے۔ ملک کے لا تعداد یونیورسٹی طلبہ کا دینی علماء، دینی معرفت اور دین کی تبلیغ کے شعبے سے جڑے طلبہ سے رابطہ ایک ایسی چیز ہے جو اس دن کا تقاضا ہے۔ یعنی یہ دن اسی کے لئے مخصوص کیا گیا ہے۔ دینی تعلیمی مرکز اور یونیورسٹی میں اتحاد کے معنی یہی ہیں، ظاہری اتحاد مراد نہيں تھا، کیونکہ یہ تو لا یعنی سی چیز ہوگی۔ دینی مدارس الگ ہیں، یونیورسٹی الگ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ملک کے دو اہم و موثر شعبوں کے درمیان رابطہ قائم ہو۔ در اصل امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے جس دور میں یہ بات کہی اس میں یہ کوشش کی جا رہی تھی کہ ان دونوں کو ایک دوسرے سے الگ رکھا جائے۔ یونیورسٹی اسلام سے دور رہے، دینی مدارس عالمی تبدیلیوں اور سائنسی ترقی سے بے بہرہ رہیں۔ یعنی یہ دونوں ایک دوسرے سے دور رہیں، یعنی ملک کے یہ دونوں بازو، ایک ساتھ حرکت نہ کریں۔ ان میں ہم آہنگی نہ ہو۔ اس کا تعلق بھی تبلیغ سے ہے۔ یہ جو سبق ہم پڑھتے ہیں اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہم الہی پیغام کو پہنچا سکیں، اس کی تبلیغ کر سکیں۔ اب وہ چاہے دینی علوم کی تبلیغ ہو، چاہے دینی احکام کے تعلق سے تبلیغ ہو، چاہے دینی اخلاقیات کے شعبے سے اس کا تعلق ہو۔ اس طرح سے ہم دیکھتے ہيں کہ یہ مناسبتیں اور خود تبلیغ کا مسئلہ، بصیرت و یقین کے ساتھ ساتھ عمل سے جڑا ہوا ہے۔ بصیرت ضروری ہے۔ یقین یعنی دل میں فرض شناسی کے ساتھ ایمان کا جذبہ موجود ہو اور اس بصیرت اور اس یقین کی بنیاد پر عمل انجام دیا جائے۔ اگر بصیرت ہو، اگر یقین ہو لیکن کوئی عمل انجام نہ دیا جائے تو یہ اچھی بات نہيں ہوگی۔ بات کو صحیح طور پر نہیں پہنچایا گیا یا اگر کسی بات کو پہنچا تو دیا گيا لیکن بغیر بصیرت کے، بغیر یقین کے۔ جبکہ ان میں سے کسی ایک چیز کی کمی کا مطلب ہے ایک اہم ستون کا فقدان۔ اس طرح مقصود حاصل نہيں ہوگا۔ یہ یقین وہی چیز ہے کہ «آمن الرّسول بما انزل اليه من ربّه و المؤمنون كلّ آمن باللَّه و ملائكته و كتبه و رسله» (3) یعنی سب سے پہلے جو پیغام کا یقین کرتا ہے اور اس پر ایمان لے آتا ہے وہ خود پیغام لانے والا ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو کام جاری نہیں رہے گا، موثر واقع نہيں ہوگا۔ اس ایمان کے ساتھ بصیرت بھی ضروری ہے۔ جیسا کہ بصیرت کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے اور اس کے معنی بھی واضح ہیں۔ اس انداز سے کام کیا گيا تو یہ ایک صالح عمل ہو جائے گا۔ یعنی «انّ الّذين ءامنوا و عملوا الصّالحات» (4) در اصل عمل صالح اور اس کا مکمل نمونہ یہی تبلیغ ہے۔ اسی لئے اس شعبے میں غور و فکر کرنا چاہئے۔ اس شعبے میں کام کیا جانا چاہئے۔ یہ جو مقتدائی(5) صاحب نے ابھی ابھی اپنے بیان میں کہا ہے اسے میں نے نہیں سنا تھا اور میرے لئے بڑا دلچسپ نکتہ ہے کہ دینی تبلیغ کی منصوبہ سازی کے لئے ایک مرکز کی تشکیل عمل میں آئي ہے۔ اس چیز کا تو میں خود بھی مطالبہ کرنے والا تھا۔
دیکھیں، آج دنیا میں تبلیغ کے کئی کردار ہو گئے ہيں اور ہمیشہ ایسا ہی تھا۔ ماضی میں یہ وسائل نہیں تھے، رابطے کے یہ ذرائع نہیں تھے۔ ہم عمامہ پہننے والوں کی یہ خصوصیت ہے کہ ہم آمنے سامنے تبلیغ کرتے ہيں۔ یہ ایک بہت اہم کام ہے جس کا نعم البدل کوئی اور کام نہیں ہو سکتا۔ منبر پر جانا، لوگوں سے بات کرنا، یہ تبلیغ کے دیگر وسائل کے مقابلے میں کئ پہلوؤں سے زيادہ موثر ہے۔ جیسے فن وغیرہ کے ذریعے تبلیغ، حالانکہ وہ اپنی جگہ پر اہم روش ہے اور ضروری ہے، لیکن اس (روبرو ہوکر کی جانے والی تبلیغ) کا ایک ایسا اثر ہے اور اس سے ایک ایسا خلاء پر ہوتا ہے جو تبلیغ کے دیگر طریقوں میں نہیں ہوتا۔ تو تبلیغ اہم ہے اور آج تو یہ ایک بنیادی کام ہے۔ ہمارے پاس تبلیغ کی ایک بنیادی روش ہے۔
میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ تبلیغ میں تخلیقی پہلو ہونا چاہئے۔ تبلیغ، مذاکرات و غور و فکر کا باعث بننا چاہئے، تبلیغ سے ماحول تیار کرنا چاہئے، فضا بنانا چاہئے، فضا کی تعمیر یعنی کوئی ایک مفہوم، کوئی ایک بات کسی سماج میں کچھ وقت کے لئے ہمہ گیر ہو جائے۔ اس صورت میں اسے سماج کی فضا کہا جاتا ہے اور یہ ہدف، بغیر کسی منصوبہ بندی کے منتشر کوششوں سے حاصل نہیں ہوگا۔ اس کام کے لئے منصوبہ بندی، جفاکشی اور سعی پیہم کی ضرورت ہے۔ ٹھیک اسی طرح جیسے ہم پریشر سے کام کرنے والی کسی چیز میں لگاتار پھونکتے رہتے ہيں تاکہ پانی یا ہوا اس چیز کے مختلف حصوں میں پہنچ سکے، لگاتار پھونکنا پڑتا ہے تاکہ آگ ہمیشہ دہکتی رہے۔ اس کام میں رکاوٹ پیدا نہیں ہونا چاہئے، اس کام کے لئے منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہ منصوبہ بندی کس لئے ضروری ہے؟ اس لئے ضروری ہے کہ دینی افکار، دین کی شناخت لوگوں میں اور آپ کے سامعین کے اندر پھیلیں۔ جب دینی افکار میں ترقی ہوگی اور جب اس کے ساتھ ذمہ داری کا احساس بھی ہوگا تو وہ عمل پر منتج ہوگا اور یہ وہ صورت حال ہوگي جس کے لئے انبیاء کوشاں تھے۔ صحیح فضا، صحیح شناخت، بر وقت ہوشیار کرنا، کبھی متنبہ کرنا، یہ سب تبلیغ کی افادیتیں ہیں، تبلیغ کے نتائج اور ثمرات ہیں۔ اس کی ایک مثال محرم کے مہینے میں کی جانے والی تبلیغ ہے جو عزاداری کی شکل میں انجام پاتی ہے۔ یہ تبلیغ کا ایک بہترین موقع ہے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئے ان مقاصد کے لئے جن کا میں نے ذکر کیا۔ معیار بنائے جائيں، فرق واضح کیا جائے اور رہنمائی کرنے والی علامتیں قائم کی جائيں۔ کیونکہ اگر کسی چوراہے پر کوئي ایسا بورڈ نہ ہو جس سے راستہ سمجھ میں آئے کہ داہنی طرف جانا ہے یا بائيں طرف تو راہگیر غلطی کر بیٹھے گا۔ اگر کئی راستے ہوں گے تو وہ بھٹک جائے گا۔ علامتوں کا تعین ہونا چاہئے، نشان ایسے مقام پر لگے ہونے چاہئيں جہاں وہ سب کو نظر آئیں تاکہ کوئی راستہ نہ بھٹکے۔ ایسی دنیا میں جہاں دشمن کی سازشوں کی بنیاد، فتنے پروری پر استوار ہو، اس دنیا میں حق و حقیقت کے حامیوں کے عمل کی بنیاد یہ ہونا چاہئے کہ وہ بصیرت اور صحیح راہنمائی کرنے والے عوامل کو جتنا ممکن ہو واضح و نمایاں کریں اور ان معیاروں کو، ان علامتوں کو، عوام کے سامنے زیادہ عیاں کریں تاکہ لوگ سمجھ سکیں، فیصلے کر سکیں اور گمراہ نہ ہونے پائيں۔
تبلیغ کے سلسلے میں ایک اہم بات اور بھی ہے جس کی سمت سورہ احزاب کی اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے: «الّذين يبلّغون رسالاتاللَّه و يخشونه و لا يخشون احدا الّا اللَّه و كفى باللَّه حسيبا» (6) تبليغِ رسالات اللَّه، تبلیغ کے ساتھ دو عملی شرطیں ہيں: «يخشونه»، اللہ سے ڈرتے ہيں یہ ایک شرط ہے اور «و لا يخشون احدا الّا اللَّه» (اور اللہ کے علاوہ کسی سے خوف نہیں کھاتے، یہ دوسری شرط) سب سے پہلے خدا کا خوف ہے، (تبلیغ) خدا کے لئے ہو اور الہی تعلیمات کی بنیاد پر ہو کیونکہ اگر الہی تعلیمات کی بنیاد پر نہ ہو بلکہ اس کے بر خلاف ہو تو (تبلیغ) گمراہ کن ہوگی۔ «فماذا بعد الحقّ الّا الضّلال» (7) حق کی سمجھ اور حق کا ادراک، خوف خدا سے حاصل ہوتا ہے۔ اس کے بعد حق کو بیان کرنے کے معاملے میں «و لايخشون احدا الّا اللَّه» اللہ کے علاوہ کسی سے نہيں ڈرتے، کیوں؟ کیونکہ حق و حقیقت کے دشمن بھی پائے جاتے ہیں؛ حقیقت کو بیان کرنا آسان نہیں ہے۔ حقیقت کے دشمن، دنیا پرست لوگ ہوتے ہیں، طاقتور لوگ ہوتے ہیں۔ دنیا کے ظالم و آمر حق و حقیقت کے دشمن ہوتے ہیں۔ پوری تاریخ میں ایسا ہی رہا ہے اور ہمیشہ ایسا ہی رہے گا، اس وقت تک جب حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کی بر حق حکومت تشکیل ہوگی، ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ یہ طاقتیں، نچلی نہیں بیٹھتیں، اعتراضات کرتی ہیں۔ نقصان پہنچاتی ہيں۔ تمام وسائل کا استعمال کرتی ہیں۔ اسی لئے «و لايخشون احدا الّا اللَّه» جیسی صفت کا ہونا ضروری ہے ورنہ اگر خدا کے علاوہ کسی اور سے بھی خوف ہوگا، مختلف طرح کے خوف، اصل میں خوف کی بھی ایک ہی قسم نہيں ہوتی، تو اس صورت میں راستہ بند ہو جائے گا۔ کبھی یہ ہوتا ہے کہ انسان کو اپنی جان کا خوف ہوتا ہے، کبھی مال و دولت کا خوف ہوتا ہے، کبھی عزت و آبرو کا ڈر ہوتا ہے اور کبھی کبھی لوگوں کی باتوں سے ڈر لگتا ہے، یہ سب باتیں خوف کے زمرے میں آتی ہيں۔ اس طرح کے خوف سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہئے، «و لايخشون احدا الّا اللَّه». یہ بہت مشکل کام بھی ہے۔ بڑی محنت لگتی ہے جسے لوگ سمجھ نہيں پاتے۔ عام لوگ یہ نہيں سمجھ پاتے کہ کتنی تکلیف اٹھائی جا رہی ہے۔ اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے: «و كفى باللَّه حسيبا» باقی امور اللہ کے حوالے کر دو۔ خلوص اور یقین کے ساتھ اقدام اور شجاعت کے ساتھ پیش قدمی کرو اور باقی چیزیں اللہ پر چھوڑ دو تو یہ ہوگا اسلامی تبلیغ کا اصولی خاکہ۔
محرم کے زمانے میں تبلیغ کے سلسلے میں یہ بات بھی کہتا چلوں کہ ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ یہ کہیں کہ آپ امام حسین علیہ السلام کی تحریک بیان کرنا چاہتے ہيں تو ٹھیک ہے، جائيں بیان کریں لیکن یہ مجلس عزا اور رونا دھونا کیا ہے؟ جائيں بیٹھیں اور لوگوں کو بتائيں کہ امام حسین نے یہ کام کیا، وہ کام کیا، ان کا مقصد یہ تھا۔ اگر کوئی یہ کہے تو یہ بالکل غلط بات ہے، غلط خیال ہے۔ یہ اولیائے خدا اور اولیائے دین سے محض جذباتی رشتہ نہیں ہے بلکہ اس جذبے کے پیچھے انتہائي طاقتور، مضبوط اور عملی نظریہ کار فرما ہے جس کے بغیر اس راستے پر چلنا بہت سخت ہو جائے گا۔ یہ جذباتی لگاؤ بہت اہم ہے۔ یہ جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے روایتی عزاداری کی بات کی ہے تو یہ کوئي معمولی بات نہيں ہے بلکہ اس کے بڑے گہرے اثرات ہیں۔ اس میں بہت گہرائی ہے۔ آپ غور فرمائيں، قرآن مجید میں اولیائے خدا کے لئے تین چیزوں کا ذکر کیا گيا ہے؛ پہلی چیز ہے ولایت : «انّما وليّكم اللَّه و رسوله و الّذين امنوا الّذين يقيمون الصّلوة و يؤتون الزّكوة و هم راكعون» (8) یہ ولایت کی بات ہے۔ یہ بھی بالکل واضح ہے کہ رابطہ، تعلقات، شناخت یہ سب کچھ ولایت کے ذیل میں آتے ہيں۔
دوسری چیز ہے اطاعت : «اطيعوا اللَّه و اطيعوا الرّسول و اولى الامر منكم» (9) رسول کی اطاعت اور اولی الامر کی اطاعت۔ یہ عمل میں ہوگی ۔ عملی میدان میں اطاعت و پیروی ضروری ہے۔
اس کے علاوہ ایک تیسری چیز بھی ہے اور وہ مودت: «قل لا اسئلكم عليه اجرا الّا المودّة فى القربى» (10) یہ مودت کیا چیز ہوتی ہے؟ ان لوگوں کی ولایت کو تسلیم کرو، ان کی اطاعت بھی کرو تو پھر مودت کی کیا ضرورت ہے؟ یہ مودت وہی بنیاد ہے جس پر یہ چیزیں ٹکی رہتی ہيں۔ اگر یہ مودت نہ ہوگی تو اسلامی امت اسی مصیبت میں مبتلا ہو جائے گی جس میں، شروعات دور میں مودت کو چھوڑ دینے والے کچھ لوگ مبتلا ہوئے تھے، یعنی دھیرے دھیرے اطاعت و ولایت بھی ہاتھ سے نکلتی چلی جائے گی۔ مودت بہت اہم ہے۔ یہ مودت اسی جذباتی لگاؤ سے حاصل ہوتی ہے۔ مصائب کا ذکر ایک طرح سے جذباتی رشتہ قائم کرنا ہے اور ان کے فضائل کا ذکر اسی جذباتی لگاؤ کی دوسری شکل ہے۔
اس بنا پر، یہ جو عزاداری ہوتی ہے، یہ جو گریہ و زاری کا سلسلہ رہتا ہے، یہ جو عاشور کے واقعات بیان کئے جاتے ہیں، یہ سب بہت ضروری ہے۔ کوئی روشن خیالی کی رو میں بہہ کر یہ نہ کہے کہ جناب اب اس کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی ہے۔ جی نہيں، بہت ضرورت ہے، ان سب چیزوں کی آخر تک ضرورت رہے گی، انہی سب چيزوں کی جو لوگ انجام دیتے ہيں تاہم اس میں کچھ روشیں غلط بھی ہيں جن کا ذکر ہم نے کیا ہے، جیسے قمہ لگانا جسے ہم نے ممنوع قرار دیا ہے، یہ کام نہيں ہونا چاہئے، اس سے دشمنوں کو اہل بیت کے چاہنے والوں کے خلاف، باتیں بنانے کا موقع ملتاہے لیکن جو عزاداری عام طور سے عوام کرتے ہيں، یہ جو انجمنیں ماتم کرتی ہیں، جلوس عزا بر آمد ہوتے ہیں، علم اٹھائے جاتے ہيں، عقیدت کا اظہار کیا جاتا ہے، نعرے لکھے جاتے ہیں، مجلسیں برپا کی جاتی ہیں، لوگ گریہ کرتے ہيں تو ان سب چیزوں سے جذباتی لگاؤ دن بہ دن زیادہ ہوتا ہے، یہ بہت اہم چیزیں ہیں۔ تو یہ ہے تبلیغ کی اہمیت۔
اس بنا پر دینی تعلیمی مرکز کی سطح پر کہ جس کا گہوارا قم ہے، تبلیغ میں ہم آہنگی پیدا کرنے اور اس کے مقاصد و روش کے تعین کے لئے کام کیا جانا چاہئے۔ جیسا کہ اس کی خوش خبری سنائی گئی ہے اور انشاء اللہ اس کام کو آگے بڑھایا جائے گا۔ کبھی کبھی کسی خاص زمانے میں تبلیغ کے دوران کچھ ایسے موضوعات پر زور دینے کی ضرورت ہوتی ہے جو پانج دس برس کے لئے اہم ہوتے ہيں اور ممکن ہے پانچ برس بعد اس کی ضرورت ہی باقی نہ رہے۔ اس کے لئے منصوبہ بنایا جانا چاہئے۔ ہم ہمیشہ مبلغین، طلاب اور فضلاء سے اس بات کی تاکید کرتے ہيں کہ وہ ضرورتوں کو سمجھیں اور لوگوں کی ضرورتوں کے مطابق بات کریں تاہم یہ کسی ایک شخص کا انفرادی کام نہيں ہے کیونکہ لوگ ضرورتوں کی شناخت میں غلطی بھی کر سکتے ہيں بنابریں یہ کام اجتماعی ہے اور اس کے لئے منصوبہ بنانے کی ضرورت ہے اور یہ کام انشاء اللہ ہونے والا ہے۔
سب سے نازک وقت اور مقام جب تبلیغ کی اہمیت صحیح طور پر سمجھ میں آتی ہے، وہ مقام اور زمانہ ہے جب فتنہ و فساد پھیلا ہوا ہو۔ صدر اسلام میں اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور میں سب سے زیادہ زحمت، منافقوں کی وجہ سے ہوتی تھی۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد، حضرت امیر المومنین کے دور میں بھی سب سے زیادہ مسائل انہی لوگوں کی وجہ سے پیدا ہوئے اور اسلامی حکومت کے لئے سب سے زیادہ مشکل حالات ان لوگوں نے پیدا کئے جو اسلام کے بڑے بڑے دعوے کرتےتھے۔ اس کے بعد کے زمانوں میں بھی، ائمہ علیھم السلام کے دور میں بھی ایسا ہی تھا، ماحول میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوششیں۔ ورنہ جب جنگ بدر ہو رہی تھی تو کوئي مسئلہ نہيں تھا، میدان جنگ میں جاتے تھے، دشمن بھی سامنے ہوتا تھا اور یہ بھی علم ہوتا تھا کہ اس کا موقف کیا ہے، اس صورت میں کوئی دشواری نہيں ہوتی تھی۔ دشواری اس وقت ہوتی ہے جب امیر المومنین علیہ السلام ایسے لوگوں کے مقابلے میں آتے ہیں جو اسلام کا دعوی کرتے ہيں اور مسلمان بھی ہيں؛ ایسا بھی نہیں تھا کہ انہیں اسلام پر یقین نہيں تھا یا اسلام سے خارج ہو چکے تھے، نہيں اسلام پر ایمان بھی تھا لیکن راستہ غلط منتخب کر لیا تھا، نفسانی خواہشات نے انہيں گمراہ کر دیا تھا۔ یہ سب سے دشوار صورت حال ہے جس میں لوگوں کے ذہنوں میں شکوک پیدا کر دئے جاتے ہيں، اس طرح سے کہ عبد اللہ بن مسعود جیسے صحابی، حضرت کی خدمت میں آتے ہيں اور کہتے ہيں: «انّا قد شككنا فى هذا القتال»!(11) انہیں شک و شبہہ کیوں ہوا؟ خواص کے شکوک، اسلامی سماج کو دیمک کی طرح چاٹ جاتے ہيں۔ اگر اہم شخصیات بھی واضح حقائق میں شک کرنے لگيں تو سارے کام خراب ہو جائيں گے۔ امیر المومنین علیہ السلام کے لئے سب سے بڑا مسئلہ یہی تھا۔ آج بھی وہی صورت حال ہے۔ آج اگر آپ دنیا پر نظر ڈالیں تو ایسا ہی دکھائی دے گا۔ خود ہمارے سماج کے اندر، ہمارے ملک میں بھی ایسی ہی صورت حال ہے۔ اس لئے بیان کرنے کی ضرورت ہے۔
عالمی سطح پر، آج دشمن گوناگوں وسائل کا استعمال کر رہے ہيں تاکہ اقوام اور عالمی رائے عامہ کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کئے جائيں، عام و خاص سب کے ذہنوں میں، جہاں تک بھی ممکن ہو۔ وہ لوگ اس سمت میں تگ و دو کر رہے ہيں۔ قانون پسندی کا دعوی کرتے ہيں، انسانی حقوق کا دعوی کرتے ہیں، مظلوم کی حمایت کا دعوی کرتے ہيں۔ ظاہر ہے یہ سب بڑی اچھی باتیں ہیں، ان باتوں میں بڑی کشش ہے لیکن حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ یہ جو امریکا کے صدر ہیں، انہوں نے ابھی حال ہی میں کہا کہ ہم اس بات کے لئے کوشاں ہیں کہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والی حکومتیں، جوابدہ ہوں۔ ٹھیک ہے، اب یہ بتائيں کون سی حکومت قانون شکنی کرتی ہے؟ امریکی حکومت سے زيادہ کس حکومت نے قانون شکنی کی ہے؟ امریکی حکومت نے کون سے قانون کے تحت عراق پر قبضہ کیا؟ اور کس قانون کے تحت عراقی عوام کو اتنا زیادہ مالی و مادی و جانی نقصان پہنچایا؟ ایک جھوٹی افواہ کی وجہ سے جو خود انہوں نے ہی پھیلائی تھی، حملہ کیا اور عراق پر قبضہ کر لیا جس کے بعد ان چند برسوں کے دوران لاکھوں لوگ مارے گئے اور کئ لاکھ لوگ بے گھر ہو گئے۔ کچھ دنوں قبل خبروں میں بتایا گیا تھا کہ ساڑھے پانچ سو عراقی دانشور اسرائیلیوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ یہ معمولی بات ہے؟ قاتل دستے بنائے گئے اور عراق میں جاکر دانشوروں کو چن چن کے قتل کر دیا گیا۔ یہ امریکی قبضہ کی وجہ سے ہی ممکن ہوا۔ آپ کس قانون کے تحت عراق گئے؟ کس قانون کے تحت اب تک وہاں موجود ہیں؟ کس قانون کے تحت عراقی عوام کے ساتھ اس طرح کا توہین آمیز سلوک کر رہے ہيں؟ کس قانون کے تحت افغانستان پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں؟ کس معقول عالمی قانون کے تحت افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کر رہے ہيں؟ افغانستان میں یہ کتنی بار ہو چکا ہے کہ امریکی طیاروں نے شادی کی تقریب پر بمباری کر دی؟ ان چند برسوں کے دوران بار بار یہ واقعہ دہرایا گیا ہے، ہر واقعہ میں درجنوں لوگ قتل ہوئے ہيں؛ جو کسی شادی میں شریک تھے۔ اس کے بعد امریکی افسر بڑی بے شرمی سے کہتے ہیں: ہم طالبان کے خلاف لڑ رہے ہيں! جہاں بھی طالبان ہوں گے ہم وہاں حملہ کریں گے۔ اچھا! تو پھر اس شادی کی تقریب نے کیا بگاڑا تھا؟ لوگوں کے معاملات زندگی سے تمہارا کیا لینا دینا؟ ابھی کچھ ہی دنوں قبل ہرات میں ایسا ہی ایک واقعہ ہوا۔ سو سے زائد لوگ مارے گئے کہ جن میں سے پچاس تو بچے تھے۔ لا قانونیت کا مظہر آپ لوگ ہيں، آج سب سے بڑی قانون شکن حکومت، امریکی حکومت ہے۔
حقیقت یہی ہے؛ لیکن اس سب کے باوجود وہ باتیں کی جاتی ہیں جس کا میں نے ذکر کیا۔ کہتے ہيں ہم قانون شکنی کے خلاف ہیں، قانون شکنی کرنے والی حکومتوں کو جواب دینا چاہئے! آپ غور کریں، اسی کو کہتے ہيں فتنہ۔ ان سازشوں کو، گندے پانی کے اس نالے کے ذریعے عالمی رائے عامہ کو آلودہ کرنے کی کوششوں کو حقیقت پسندی کے علاوہ اور کون سی چیز ناکام بنا سکتی ہے؟ یہی ایک چیز ہے جو ان اندھیروں کو چھانٹ سکتی ہے، ان اندھیروں کو حقیقت کی مشعل کے علاوہ اور کس چیز سے دور کیا جا سکتا ہے؟ آپ غور کریں کہ کتنی بڑی ذمہ داری ہے؟
دینی مسائل میں بھی ایسا ہی ہے۔ فتنہ انگیز لوگ آج دنیا میں جو ایک کام بڑی تندہی سے کر رہے ہيں وہ مسلمانوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنا ہے۔ کیونکہ جس علاقے میں مسلمان رہتے ہيں وہ ایک بہت ہی حساس علاقہ ہے، نعمتوں سے مالامال اور ایک اہم علاقہ ہے، تیل کا علاقہ ہے اور انہیں اس کی ضرورت ہے۔ اسلام ان کی راہ میں رکاوٹ پیدا کر رہا ہے اس لئے وہ کسی طرح سے اسلام نام کے اس مسئلے کو ختم کردینا چاہتے ہیں۔ اس کے لئے ایک راستہ جو انہیں نظر آیا ہے وہ مسلمانوں میں اختلافات پیدا کرنا ہے؛ جس کے لئے وہ مذہبی نظریات و عقائد کو استعمال کرتے ہيں۔ اس کا مقابلہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟ بصیرت، حقائق واضح کرنا، صحیح تبلیغ، دشمن کے دام تزویر میں گرفتار نہ ہونا یہ سب عالمی سطح پر ان سازشوں کے سد باب کے طریقے ہيں۔
داخلی سطح پر بھی یہی صورت حال ہے۔ آپ ملاحظہ کریں کہ کچھ لوگوں نے قانون کی خلاف ورزی کی، ہنگامے کئے، ان سے جتنا ہو سکا، عوام کو نظام کے سامنے کھڑا کرنے کی کوشش کی۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کامیاب نہیں ہوئے اور جو کچھ چاہتے تھے وہ نہیں ہوا، لیکن انہوں نے کوشش تو کی، انقلاب اور اسلام کے دشمنوں کو جرئت دی، ان کی زبانیں دراز ہو گئيں؛ ایسا کام کیا کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے دشمن، کہ جن کے دل کینے سے بھرے ہوئے تھے، اتنے جسور ہو گئے کہ یونیورسٹی میں آکر امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تصویر کی بے حرمتی کر دی (12) ایسا کام کیا جس سے نا امید و مایوس ہو چکے دشمن، آگے بڑھ کر طلبہ کے مجمعے کے سامنے جو یقینا امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے عقیدت مند ہیں، انقلاب کے چاہنے والے ہيں اور اپنے وطن اور اسلامی جمہوریہ ایران کے لئے سب کچھ کرنے پر کمربستہ ہیں، ایسی گستاخی اور ایسا کام اور ایسی توہین کریں۔ قانون کی اتنی خلاف ورزیوں، اتنے ہنگاموں، ہنگامے کے لئے ورغلانے اور لوگوں کے درمیان فتنہ و فساد پیدا کرنے والوں کو بھیجنے کا نتیجہ یہی ہونے والا تھا۔ اس طرح کی غلطیاں ہوتی ہیں، غلط کام ہوتے ہیں، اس کے بعد اس غلط کام پر پردہ ڈالنے کے لئے باتیں بنائی جاتی تھیں، دلائل لائے جا رہے ہیں! انسانوں کے لئے سب سے بڑا امتحان یہی ہے۔ ہم سب خطرے میں ہیں، ہم سب کو ہوشیار رہنا چاہئے۔ ہم غلطی کرتے ہیں اس کے بعد، اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کے لئے، عوام کے سوالات کا جواب دینے کے لئے، سوال کرنے والوں کے سامنے اپنی بات صحیح ثابت کرنے کے لئے، ایک جواز پیدا کر لیتے ہيں اور کوئی دلیل گڑھ لیتے ہيں۔
اسی طرح سے فتنہ پیدا ہوتا ہے؛ مطلب یہ کہ ماحول کو خراب کر دیا جاتا ہے۔ قانون کی حمایت کا نعرہ لگایا جاتا ہے اور عملی طور پر کھل کر اس کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے عقیدت کا نعرہ لگایا جاتا ہے اس کے بعد ایسا کام کیا جاتا ہے کہ ان کے حامیوں کی نظروں کے سامنے اتنا بڑا غلط کام ہو جاتا ہے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی توہین کی جاتی ہے، ان کی تصویر کی بے حرمتی کی جاتی ہے۔ یہ کوئی معمولی حرکت نہیں ہے، چھوٹی بات نہيں ہے۔ دشمنوں کو اس سے بہت زیادہ خوشی ہوئی ہے۔ صرف خوش ہی نہيں ہوئے ہيں بلکہ وہ اس واقعے کا تجزیہ بھی کر رہے ہيں اور تجزیہ کی بنیاد پر فیصلے کر رہے ہيں اور ان فیصلوں کی بنیاد پر عمل بھی کر رہے ہيں۔ اس سے انہيں قومی مفادات اور ایرانی قوم کے خلاف اقدامات کرنے کی ترغیب مل رہی ہے۔ یہاں پر مسئلہ وہی ہے یعنی دھوکا وہی غبار آلودہ ماحول کہ جس کی سمت حضرت علی علیہ السلام نے اپنے بیان میں اشارہ کیا ہے: «و لكن يؤخذ من هذا ضغث و من هذا ضغث فيمزجان فهنالك يستولى الشّيطان على اوليائه» (13) ایک حق بات کو، غلط بات سے ملا دیتے ہيں اور حق، حق پسندوں کی نظروں میں مشکوک ہو جاتا ہے۔ ایسے مواقع پر، حق بیانی اور معیاروں کے تعین کی افادیت واضح ہوتی ہے۔
جو انقلاب کے لئے، امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے لئے اور اسلام کے لئے کام کرتا ہے وہ جیسے ہی یہ محسوس کرے گا کہ اس کی باتیں اور اس کے کام اس بات کا باعث بن رہے ہيں کہ ان اصولوں کے خلاف کچھ لوگ موقف اختیار کر لیں تو وہ فورا ہوشیار ہو جاتا ہے۔ پھر آخر یہ لوگ ہوشیار کیوں نہیں ہو رہے ہیں؟
جب انہوں نے یہ سنا کہ اسلامی جمہوریہ کے بنیادی نعروں یعنی استقلال، آزادی، جمہوری اسلامی (خودمختاری، آزادی اور اسلامی جمہوریہ) سے اسلام کو نکالا جا رہا ہے تو انہيں ہوشیار ہو جانا چاہئے تھا۔ انہیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ان کا راستہ غلط ہے۔ انہیں اظہار بیزاری کرنا چاہئے۔ جب وہ یہ دیکھتے ہيں کہ یوم قدس کے موقع پر، جو فلسطینی قوم کے دفاع اور غاصب صیہونی حکومت کے خلاف نفرت کے اظہار کے لئے منایا جاتا ہے، غاصب صیہونی حکومت کے حق میں اور فلسطینیوں کے خلاف نعرے لگائے جا رہے ہيں تو انہیں ہوشیار ہو جانا چاہئے تھا، انہیں ان حرکتوں سے الگ ہو جانا چاہئے اور یہ کہنا چاہئے کہ نہیں نہیں، ہم اس دھڑے کے ساتھ نہیں ہیں۔ جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ عالمی سامراج ان کی حمایت کر رہا ہے، عصر حاضر اور گزشتہ سو دو سو سالہ تاریخ میں ظلم و زیادتی کے مظہر امریکا ، فرانس اور برطانیہ کے سربراہ ان کی حمایت کر رہے ہيں تو انہيں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ کہیں کوئی گڑبڑ ضرور ہے؛ انہیں ہوشیار ہو جانا چاہئے۔ جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ تمام بد عنوان لوگ اور سلطنتی نظام کے حامی ان کی حمایت کر رہے ہیں، کمیونیسٹ اور ملک سے بھاگے ہوئے، سازندے اور رقاص ان کے حق میں نعرے لگا رہے ہيں تو انہیں ہوشیار ہو جانا چاہئے۔ ان کی آنکھیں کھلنی چاہئے، انہیں سمجھنا چاہئے، انہيں یہ سمجھنا چاہئے کہ ان کے اقدامات میں کوئی غلط بات ضرور ہے اور یہ سمجھتے ہوئے انہيں پلٹ کر یہ کہنا چاہئے کہ جی نہيں، ہمیں آپ کی حمایت کی ضرورت نہيں ہے۔ تکلف سے کیوں کام لیتے ہيں؟ کیا سمجھداری کے بہانے ان واضح حقائق کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمی سمجھ داری سے کام لے رہے ہيں؟ کیا یہ دانشمندی ہے کہ ہماری قوم کے دشمن، ہمارے ملک کے دشمن، اسلام کے دشمن اور انقلاب کے دشمن، آپ کو اپنا سمجھیں اور آپ کے لئے سیٹیاں بجائيں اور تالیاں پیٹیں اور آپ بھی خوش ہوں اور امیدیں وابستہ کر لیں۔ اسے دانشمندی کہتے ہیں؟ یہ تو سمجھ داری نہیں ہے۔ سمجھ داری تو یہ ہے کہ جیسے ہی آپ کو نظر آیا کہ آپ جن اصولوں کی پابندی کا دعوی کرتے ہيں، حالات اس کے خلاف جا رہے ہیں تو فورا آپ الگ ہو جائيں اور کہیں کہ نہيں نہيں، ہم اس میں شامل نہيں ہیں، جیسے ہی آپ نے دیکھا کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تصویر کی بے حرمتی ہو رہی ہے، واقعے کا انکار کرنے کے بجائے، واقعے کی مذمت کرتے۔ اس سے بھی اہم بات یہ کہ آپ اس حرکت کے مقصد کو سمجھیں، اس کی سنگینی کو سمجھیں۔ یہ سمجھیں کہ دشمن کس طرح سے منصوبے بنا رہا ہے، کیا چاہتا ہے، اس کا مقصد کیا ہے؟ یہ ساری باتيں ان لوگوں کو سمجھنا چاہئے۔ مجھے تعجب ہوتا ہے! جن لوگوں نے انقلاب کے سہارے اپنی شناخت بنائی ہے، البتہ ان لوگوں میں ایسے لوگ بھی شامل ہيں جنہوں نے شاہی حکومت کے گھٹن بھرے ماحول میں، انقلاب کے لئے ایک طمانچہ بھی نہیں کھایا ہے لیکن انقلاب کی برکت سے انہيں شہرت و عزت مل گئی ہے، جن کے پاس موجود ہر چیز انقلاب کی ہی دین ہے وہ یہ کیسے برداشت کر رہے ہيں کہ انقلاب کے دشمن تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں، صف آراء ہو رہے ہیں، خوش ہيں، ہنس رہے ہيں۔ یہ سب تو وہ دیکھ ہی رہے ہوں گے؟ انہيں ہوش میں آ جانا چاہئے، خبردار ہو جانا چاہئے۔
آپ لوگ ہمارے بھائیوں میں شامل رہے ہيں، یہ لوگ وہ ہیں جن میں سے کچھ لوگ ماضی میں، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی حمایت کرنے کے باعث توہین کا سامنا بھی کر چکے ہيں، جب یہ لوگ یہ دیکھتے ہيں کہ کچھ لوگ ان کے نام پر نعرے لگا رہے ہيں، ان کے فوٹو ہاتھوں میں لئے ہوئے ہيں، ان لوگوں کے نام بڑی عزت سے لیتے ہيں لیکن اس کے ساتھ ہی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ، انقلاب اور اسلام کے خلاف نعرے لگاتے ہيں اور ماہ رمضان میں یوم قدس کے موقع پر روزے کے وقت علی الاعلان کھاتے پیتے ہيں، یہ سب کچھ وہ دیکھ رہے ہیں تو انہيں ان لوگوں سے الگ ہو جانا چاہئے۔ انتخابات ختم ہو گئے۔ انتخابات کا انعقاد ہوا، عام انتخابات تھے، صحیح طور پر منعقد ہوئے، انتخابات پر کوئی منطقی اور قابل قبول اعتراض نہيں کر سکا اور نہ کوئی الزام ثابت ہو سکا، وہ لوگ دعوے کرتے رہے، انہيں موقع بھی دیا گيا۔ ہم نے کہا آئيں، دکھائيں، اپنی بات ثابت کریں؛ لیکن وہ ثابت نہیں کر پائے، سے سے آئے ہی نہیں، تو اب اس کا معاملہ ہی ختم ہو گیا۔ اب قانون کی پابندی کا تقاضا ہے کہ انسان اگر منتخب صدر سے بہت خوش نہ ہو تب بھی اگر اس کے دل میں قانون کی عزت ہے تو قانون کے سامنے اسے سر تسلیم خم کرنا چاہئے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ کوئی بھی یہ نہيں کہہ سکتا کہ جس کا انتخاب کیا گیا ہے وہ سو فیصدی، صحیح ہے اور جس کا انتخاب نہيں ہوا ہے وہ سو فیصدی غلط ہے۔ نہیں، ہر ایک میں کچھ اچھائياں ہوتی ہيں، کچھ کمیاں ہوتی ہیں۔ اس طرف والے میں بھی اچھائیاں ہیں اور کمیاں بھی؛ دوسری طرف کے فریق میں بھی اچھائياں بھی ہيں اور کمیاں بھی۔ قانون معیار اور کسوٹی ہے۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے، کیوں؟ اسے خواہشات نفس کا اسیر ہو جانا کہتے ہیں۔
یہ آج ہی کی بات نہيں ہے۔ جن لوگوں کو انقلاب کا شروعاتی دور یاد ہے انہیں علم ہے کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھیوں میں سے بھی کچھ لوگ ایسے تھے۔ انقلاب کے پہلے عشرے میں جب امام خمینی رحمۃ اللہ حیات تھے، ان کا آخرکار امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے تصادم ہوا، اختلاف ہوا، وہ لوگ امام خمینی کو جھکانے کی بھرپور کوشش کرتے رہے، اس عظیم تاریخی شخصیت کو غلط ثابت کرنے کی جی توڑ کوششیں کرتے رہے لیکن ناکام ہوئے، انقلاب نے انہیں مسترد کر دیا۔ یہ لوگ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے قریبی لوگوں میں سے تھے، امام خمینی کے ساتھیوں میں سے تھے، ان کی یہ حالت ہو گئی کہ وہ دشمن کی پناہ میں چلے گئے یا انقلاب کے خلاف کھڑے ہو گئے اور انقلاب کو ہی نقصان پہنچانے لگے۔ یہ واقعات ہم سب کے لئے عبرت کا باعث ہونا چاہئے، عبرت لینا چاہئے، ہمیں سجمھنا چاہئے۔
میں نے نماز جمعہ میں بھی کہا کہ میرا نظریہ زیادہ سے زیادہ کو ساتھ لیکر چلنے اور کم از کم کو دور کرنے کا ہے؛ لیکن ایسا لگتا ہے کہ کچھ لوگ خود ہی نظام سے دور ہو جانے پر بضد ہیں۔ ایک آپسی معاملے کو، نظام کے اندر کے ایک اختلاف کو، جو انتخاباتی مہم کے دوران پیش آیا تھا، اسے کچھ لوگوں نے نظام کے خلاف جنگ میں بدل دیا، البتہ ان کی تعداد بہت کم ہے، کچھ گنے چنے لوگ ہيں۔ تاہم یہ لوگ، عظیم ایرانی قوم کے سامنے صف آرا ہو گئے ہيں اور ان لوگوں کے نام کے نعرے لگا رہے ہيں، یہ لوگ بھی خوش ہو رہے ہيں جبکہ اس سے انہيں سبق حاصل کرنا چاہئے۔ تبلیغ کے دوران عوام اور خود ایسے لوگوں کے سامنے ان حقائق کو بیان کیا جانا چاہئے تاکہ ان کی سمجھ میں یہ بات آ جائے کہ وہ غلطی کر رہے ہيں، غلط راستے پر چل رہے ہيں۔
یقینا ہمارا نظام، الہی نظام ہے۔ یہ ایک ایسا نظام ہے کہ اللہ نے اس نظام کی تائيد کے مناظر بار بار دکھائے ہیں۔ اوائل انقلاب کے ہمارے تمام تجربات سے یہی چیز ثابت ہوتی ہے۔ ہم اگر خدا کے ساتھ ہوں گے تو خدا بھی ہمارے ساتھ ہوگا۔ ان لوگوں کو اور دنیا پر تسلط قائم کرنے کی خواہش رکھنے والی طاقتوں کو جو آج عالمی اور علاقائی سطح پر اپنی غلط فکر اور کمزور دلائل کے ذریعے جس کی طرف میں نے اشارہ کیا، پوری دنیا کا انتظام چلانے کا اور دنیا پر قبضہ کرنے کا جو خواب دیکھ رہی ہیں، یقینا انہیں ہماری قوم اور دنیا کی خود مختار اقوام کی طرف سے منہ توڑ جواب ملے گا۔ انہوں نے نہ اسلام کو پہچانا ہے اور نہ ہی ہماری قوم کو۔ نہ انقلاب سے آشنا ہیں اور نہ ہی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی عظیم ہستی سے واقف۔ انہيں علم ہی نہیں ہے کہ ان کے مقابلے میں کون ہے۔ انہوں نے ابھی اس قوم کو پہچانا نہيں ہے، ہماری قوم بڑی مضبوط قوم ہے۔ ہمارے نوجوان ایسے ہیں جو صحیح معنی میں اپنے پورے وجود سے سعادت و کامرانی کے لئے کوشاں ہیں، ایسی سعادت و کامرانی کے لئے جو اسلام میں مضمر ہے۔ ہمارے طلبہ بھی ایسے ہی ہیں؛ ہمارے طلبہ با صلاحیت ترین طلبہ ہیں، صرف ذہنی و علمی لحاظ سے ہی نہيں بلکہ صداقت، پاکیزہ باطن اور روحانیت و ایمان کے لحاظ سے بھی۔ ہمارے طلبہ بہت اچھے ہیں۔ انہی حالیہ واقعات کے دوران بارہا یہ دیکھا گیا ہے، یونیورسٹیوں اس امتحان میں پوری اتری ہیں۔ انہی حالیہ معاملات میں یونیورسٹی نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ میدان عمل میں ہے، باخبر ہے، بیدار ہے۔ دینی مدارس اور یونیورسٹیوں میں رابطہ جتنا زيادہ مستحکم ہوگا، جتنا قریبی ہوگا، یہ روحانیت، یہ پاکیزگی اتنی ہی زيادہ ہوگی۔
عوام سے ہماری یہ درخواست ہے کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی توہین کے معاملے میں، ہمارے عوام غم و غصے میں ہیں، وہ اس سلسلے میں حق بجانب بھی ہیں۔ انہوں نے بیزاری کا اظہار کیا، انہیں ایسا کرنا بھی چاہئے تھا، اچھا کیا لیکن انہيں پر سکون رہنا چاہئے۔ طلبہ سے بھی ہماری یہی گزارش ہے کہ پر سکون رہیں۔ یہ جو لوگ آپ کے مد مقابل ہيں، وہ ایسے لوگ نہيں ہيں جن کے پیروں کے نیچے مضبوط زمین ہو، جو ڈٹ جانے کی طاقت رکھتے ہوں، ہماری قوم اور انقلاب کی عظمت کے سامنے ٹکنے پر قادر ہوں۔ نہیں، یہ لوگ ایسے نہیں ہیں، سکون سے، ہر کام پر سکون رہ کر انجام دیا جا سکتا ہے۔ اگر ضرورت ہوئی تو خود حکام، خود عہدے دار، خود قانون اور قانون کو نافذ کرنے والے اپنے فرائض کے لحاظ سے ضروری اقدام کریں گے۔ تاہم ایسے لوگوں کو پہچانیں، خود طلبہ یونیورسٹیوں میں، ان لوگوں کو پہچانیں جو فتنہ گر ہيں اور پھر دوسروں کو بھی ان سے آگاہ کریں۔ یہ خود ہی ایک طرح کی تبلیغ اور صحیح طریقہ کار ہے۔ ان کے رابطوں کو، ان کے مقاصد کو پہچانیں لیکن یہ سارے کام پر امن طریقے سے انجام دئے جائیں۔ سماج میں کشیدگی، ہنگامے اور تصادم، ہمارے مفاد میں نہیں ہے۔ یہ وہی چیز ہے جو دشمن چاہتا ہے۔ دشمن چاہتا ہے کہ سماج میں امن و امان نہ رہے، امن و امان بہت اہم ہے۔ عوام کے امن و امان کے دشمن یہ چاہتے ہیں کہ لوگ بد امنی میں رہیں، پریشان حال رہیں، غصے میں رہیں، بے حال رہیں۔ ہم یہ نہيں چاہتے، ہم چاہتے ہيں کہ عوام پر سکون طریقے سے زندگی گزاريں، طلبہ تعلیم حاصل کر سکیں، دینی طلبہ پڑھیں، دانشور تحقیقات میں مصروف رہیں، صنعت کار، کسان، تاجر یہ سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف رہیں۔ یونیورسٹی کا ماحول بھی پر امن رہنا چاہئے، لوگوں کے بچے اس جگہ اکٹھا ہوتے ہيں، لوگ چاہتے ہيں کہ ان کے بچے پر امن ماحول میں رہیں۔ جو لوگ یونیورسٹی کو ہنگاموں کی نذر کرتے ہيں، ان کا سامنا عوام سے ہے، ان کے فریق عوام ہیں تاہم قانونی اداروں کے بھی فرائض ہیں، جن پر انہیں عمل کرنا چاہئے۔
نوجوانوں کو جان لینا چاہئے، آپ فضلائے کرام بھی یہ یاد رکھیں کہ یہ آیت : «فامّا الزّبد فيذهب جفاء و امّا ما ينفع النّاس فيمكث فى الارض» (14) آج آپ کے زمانے میں مکمل طور پر صادق آتی ہے اور اسے آپ خود دیکھ لیں گے۔ خدا کے فضل سے آپ دیکھيں گے کہ «و امّا ما ينفع النّاس فيمكث فى الارض»، یہ عظیم عمارت جسے الہی طاقت نے تعمیر کیا ہے، جس کی تعمیر ایک مرد الہی کے ہاتھوں ہوئی ہے، اس کی بقا بھی ہماری عظیم قوم اور اس کے ایمان سے ہے اور ہمیشہ باقی رہے گی اور انشاء اللہ یہ درخت روز بروز اپنی جڑیں پھیلاتا جائے گا اور آپ دیکھیں گے کہ یہ مخالف کرنے والے، جو لوگ اس عمارت اور حق و حقیقت کے خلاف ہيں «فيذهب جفاء»؛ وہ آپ کی نظروں کے سامنے ہی تباہ ہو جائيں گے۔
خداوند عالم، حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے قلب مقدس کو ہم پر مہربان رکھے اور ان کی دعائيں ہمارے شامل حال کرے اور شہداء اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی ارواح طیبہ کو ہم سے راضی و خوشنود رکھے۔
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته
1) آل عمران: 61
2) مقتل ابىمخنف، ص 85؛ « جو کسی ایسے ظاہم بادشاہ کو دیکھے جو حرام خدا کو حلال کرتا ہو اور خدا کے عہد و پیمان کو توڑتا ہو - - - اگر وہ اپنی رفتار و گفتار سے اپنے کاموں سے اس کی حرکتوں کو نہ بدلے وہ اسی کا سزاوار ہوگا کہ خدا اسے بھی اسی ظالم بادشاہ کے ساتھ محشور کرے »
3) بقره: 285؛ پیغمبر ، خدا نے جو کچھ نازل کیا ہے اس پر ایمان لائے ہيں اور مومنین بھی سب کے سب خدا ، فرشتوں ، کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں -...»
4) بقره: 277؛ « جو ایمان لائے ہيں نیک عمل بجا لائے ہيں ...»
5) حوزه علميه قم کے زعیم
6) احزاب: 39؛ « وہی لوگ کہ جو خدا کے پیغام پہنچاتے ہيں ، اس سے ڈرتے ہيں اور خدا کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے اور خدا حساب کتاب کے لئے کافی ہے۔ »
7)يونس: 32؛ «... اور حقیقت کے بعد گمراہی کے علاوہ کیا ہے ؟ ...»
8) مائده: 55؛ « تمہارا ولی صرف اللہ ، اس کے رسول اور صاحبان ایمان ہیں ، جو لوگ نماز قائم کرتے ہيں اور رکوع کی حالت میں زکات دیتے ہيں »
9) نساء: 59؛ «... خدا کی اطاعت کرو اور پیغمبر اور ولی امر کی اطاعت کرو ...»
10) شورى: 23؛ «... کہہ دو میں رسالت کے بدلے کچھ نہيں چاہتا سوائے اپنے اہل بیت سے محبت کے ...»
11) واقعہ صفين، ص 115: «ہمیں اس جنگ میں شک ہو رہا ہے »
12) حضار کا نعرہ : میری روح خمينى - بت شكن خمينى)
13) نهج البلاغه، خطبه 50؛ « وہ ہمیشہ ، حق کے ایک حصے کو ، باطل کے ایک حصے سے ملا دیتے ہيں اور اس حالت میں شیطان اپنے چاہنے والوں پر مسلط ہو جاتا ہے»
14) رعد: 17؛ «... لیکن باہر گری جھاگ ختم ہو جاتی ہے لیکن جو چیز لوگوں کے لئے فائدہ مند ہوتی ہے وہ زمین پر باقی رہ جاتی ہے ...»