خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی سیدنا و نبینا ابی القاسم محمد و علی آلہ الاطیبین الاطہرین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین و السلام علی عباد اللہ الصالحین

سب سے پہلے تو میں آپ کرج شہر کے عوام کا، جنہوں نے اتنے خلوص اور محبت سے یہ عظیم اجتماع تشکیل دیا ہے اور اس جگہ پر لوگوں کا یہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اکٹھا کر دیا ہے اور اسی طرح ان بھائی بہنوں کا جنہوں نے راستے میں استقبال کیا اور اپنے خلوص و محبت کا اظہار کیا، دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ میں اس شہر کا دورہ کرنا، جس سے میری بہت سی اہم یادیں وابستہ ہیں اور جس نے اسلامی انقلاب کے دوران، مسلط کردہ جنگ میں اور ان پرافتخار برسوں کے اہم واقعات میں اپنا کردار ادا کیا ہے، ضروری سمجھتا تھا اور بحمد للہ آج یہ توفیق حاصل ہو گئی اور آج میں اس ضلع کے دسیوں ہزار مومن، پاکیزہ اور انقلابی لوگوں کے سامنے موجود ہوں۔
میں جو باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں ان میں سے بعض آپ کے شہر سے متعلق ہیں جبکہ بعض ملک کے عمومی مسائل ہیں اور ان مسائل سے آپ عزیزوں، بھائیوں اور بہنوں کا واقف ہونا بہتر ہے۔ آج بھی کرج کے لوگ، پوری ایرانی قوم کی مانند اور ہمیشہ کی طرح اس انقلاب کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں کو انجام دیں گے؛ البتہ انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کیا ہے اور بحمد اللہ آگے بھی پورا کرتے رہیں گے۔
جو بات ضلع کرج سے متعلق ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد آج کسی شہر کی امتیازی خصوصیت یہ نہیں رہ گئی ہے کہ اس کی آب و ہوا بہت اچھی ہے یا اس میں سرسبز اور خوبصورت باغ ہیں۔ خداوند متعال نے کرج کو یہ نعمت عطا کی ہے؛ تاہم دوسری اور اس سے بڑی نعمتیں بھی ہیں اور انہیں بھی خدا نے اس علاقے کو اور آپ مومن و انقلابی عوام کو وافر مقدار میں عطا کیا ہے۔
آج کسی بھی شہر کی سب سے نمایاں اور امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس شہر کے لوگ اپنے مستقبل، اپنے ملک، اپنے انقلاب اور اپنے انقلابی نظام کے سلسلے میں کتنی ذمہ داری محسوس کرتے ہیں اور ایران کی عظیم قوم کے ایک جزو کے طور پر قوم کی سربلندی اور ملک کی ترقی و پیشرفت کے لیے جو ذمہ داریاں تمام لوگوں پر ہیں، ان پر کس حد تک عمل کرتے ہیں۔
اگر میں اس تناظر میں کرج شہر کے بارے میں کچھ کہنا چاہوں تو مجھے کہنا چاہیے کہ اس سلسلے میں کرج نے انقلاب کے دوران اپنا کردار بخوبی ادا کیا ہے۔ ہم اس کے شاہد رہے ہیں اور ہم نے اسے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ ان حساس لمحات میں جب اسلامی انقلاب کامیاب ہو رہا تھا اور دشمن اپنی پوری طاقت کے ساتھ انقلاب کے مقابلے میں اپنے وجود کو باقی رکھنے کی کوشش کر رہا تھا، کرج شہر، کرج کے عوام اور اس وقت کے کرج کے نوجوانوں نے بخوبی اپنا کردار ادا کیا۔ یہیں پر لوگوں نے سنا کہ ایک علاقے سے بڑی تعداد میں فوجی ٹینکوں کو تہران کی جانب روانہ کیا جائےگا تاکہ ان کے ذریعے تہران کی ان فوجی چھاؤنیوں کو عوام کے ہاتھوں سے واپس لے لیا جائے جو عوام کے ہاتھوں میں آ گئي ہیں۔ کرج کے عوام نے ان ٹینکوں کے مقابلے میں کھڑے ہونے اور انہیں تہران پر حملے سے روکنے کے لیے اپنی تیاری کا اعلان کیا۔ شاید ان کی اسی تیاری نے تہران پر حملے کو روک دیا۔ انقلاب کے سلسلے میں اس بیدار شہر اور اس کے بہادر نوجوانوں کی جانب سے اٹھایا جانے والا یہ پہلا قدم تھا۔
البتہ مجھے بالکل بھی تعجب نہیں ہے؛ کیونکہ میں نے اسلامی انقلاب سے قبل تحریک کے دوران اس انقلابی شہر کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔ سنہ انیس سو چھیاسٹھ میں یعنی آج سے اکتیس سال قبل اس شہر کی جامع مسجد میں مومنین کا ایک زبردست اجتماع ہوا کرتا تھا تاکہ مکمل گھٹن کے اس دور میں کچھ باتیں سن سکیں۔ میں ماہ مبارک رمضان کے دنوں اور راتوں میں تہران سے آیا کرتا تھا اور ان لوگوں سے باتیں کرتا تھا۔ البتہ آزادی مخالف اور گھٹن کا ماحول پیدا کرنے والی حکومت کی پولیس اور سیکورٹی اداروں نے اس بات کی اجازت نہیں دی کہ وہ ماہ مبارک رمضان اس طرح سے ختم ہو جس طرح سے ہم چاہتے تھے اور انہوں نے ان نشستوں کو بند کر دیا۔ میں اسی وقت سے کرج کے جذبات، کرج کے لوگوں اور اس شہر میں پائے جانے والے جوش و خروش کو جانتا اور پہچانتا ہوں؛ اسی لیے مجھے کوئی تعجب نہیں ہوتا۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سے جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ہے یہ جذبات اور احساسات دہرائے جاتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں کرج کے عوام اور نوجوانوں کی جانب سے سیدالشہداء بریگیڈ کی تشکیل اور کچھ ہی عرصے کے بعد اس کے ایک مضبوط اور طاقتور بريگیڈ میں تبدیل ہونے اور پھر سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی میں شامل ہونے کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے کہ جو آج ایک اسی علاقے کے نوجوانوں سے مل کر بنی ہوئی ایک فوجی ٹکڑی ہے جو پوری طاقت و اقتدار کے ساتھ اپنے دفاعی فرائض انجام دے رہی ہے اور میں نے سنا ہے کہ اس ضلع میں رضاکار فورس بسیج اور اسلامی کونسلیں انقلاب کو اٹھارہ سال گزر جانے کے باوجود اب بھی پورے نشاط کے ساتھ سرگرم ہیں۔ بنابریں یہ نعمت یعنی انقلاب اور ملک کی عزت و آبرو اور سربلندی کے دفاع میں عوام کی شرکت ایک بڑی نعمت ہے۔ میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ انہی جذبات کے ذریعے نوجوان ملک کی ترقی و پیشرفت اور تعمیر کو آگے بڑھانے کے ہر مرحلے میں اپنا کردار ادا کر سکیں گے اور آپ جیسے لوگ اس قسم کے جذبات کے ذریعے اس بات کا دعوی' کر سکتے ہیں کہ ایرانی قوم کی مانند ایک زندہ اور عزیز قوم کا سرگرم رکن ہیں۔
البتہ اس سفر کی مناسبت سے بھی اور اس سے قبل بھی کرج کے لوگوں کے مسائل اور مشکلات کے بارے میں کچھ رپورٹیں دی گئي ہیں۔ یہاں بھی حکام اور مختلف شعبوں سے بات چیت اور استفسار کیا جائے گا اور ان شاء اللہ مشکلات کے اسباب کی شناخت کرکے انہیں حکومت میں محنت کش اور عوام کی خدمت کرنے والے حکام اور برادران تک منتقل بھی کر دیا جائے گا نیز ان کے بارے میں بعد میں بھی استفسار کیا جاتا رہے گا تاکہ عوام کی خدمت کرنے والی یہ حکومت جہاں تک ممکن ہو سکے اور جہاں تک اس کی توانائي میں ہو، ان مسائل کو دور کر دے۔ دس لاکھ سے زیادہ آبادی والے کرج شہر کو، جس کی آبادی گزشتہ بیس برسوں میں پانچ برابر سے زیادہ ہو چکی ہے، ثقافت، صحت عامہ اور کمیونیکیشن وغیرہ کے مسائل کے لحاظ سے خدمات کی ضرورت ہے اور ہمیں امید ہے کہ خداوند عالم کے فضل و کرم سے اس سلسلے میں کی جانی والی مساعی کے بعد عہدیداران اپنی ذمہ داریوں پر عمل کریں گے اور آپ جیسے عزیز، مومن اور انقلابی عوام کی قدردانی کی جائے گی۔
اب آتے ہیں ان مسائل کی جانب جن کا تعلق پورے ملک سے ہے۔ ہر وہ قوم جو زندہ، بیدار اور آگاہ ہو اور اپنے ملک کو ان مسائل سے نجات دلانا چاہے جو اس پر مسلط کر دیئے گئے ہیں تو اسے جہاں تک ممکن ہو سکے پوری طاقت کے ساتھ کام، کوشش اور تعمیر کے میدان میں آگے بڑھنا چاہیے اور دشمنوں اور اِن کی اُن کی باتوں پر دھیان نہیں دینا چاہیے۔ اب اس میں کوئي فرق نہیں ہے، تعمیر کے تمام شعبے اس لحاظ سے اہم ہیں: سائنسی اور صنعتی تعمیر، اقتصادی تعمیر، ثقافتی تعمیر اور اخلاقی تعمیر۔ اگر تمام ترقی پذیر اقوام یہ عزم کر لیتیں کہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوں گی اور اپنی ضروریات کے مطابق خود سعی و کوشش کریں گی نیز اپنے حکام سے بھی اس بات مطالبہ کریں گی اور سب مل کر اپنے عظیم مقاصد کی جانب آگے بڑھیں گی کہ بحمد اللہ ایرانی قوم یہی کر رہی ہے، تو یقینی طور پر بین الاقوامی سطح پر منہ زوری، سامراجیت اور عالمی غنڈہ گردی کا موقع ہی فراہم نہیں ہوتا لیکن افسوس کہ دنیا اس طرح کی نہیں ہے؛ تاہم ایرانی قوم ایسی ہی ہے۔
اس کے باوجود کہ ایرانی قوم کو تعمیر اور پیشرفت کی راہ میں دشمن کی باتوں پر توجہ نہیں دینی چاہیے تاہم اسی کے ساتھ اسے اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ دشمن اس کے بارے میں کیا سوچتا ہے اور دشمنی کے لیے وہ کیا منصوبے رکھتا ہے۔
عزیز بھائیو اور بہنو! اگر آپ اور ہم دشمن سے غافل ہو گئے تو یقینی طور پر دشمن اس غفلت سے فائدہ اٹھائے گا اور قوم کی ترقی و پیشرفت اور خودمختاری کا راستہ روک دے گا۔ یہ بات جاننے کے لیے کہ دشمن کیا منصوبے بنا رہا ہے، سب کی کچھ نہ کچھ ذمہ داریاں ہیں، حکومتی ادارے بھی اس سلسلے میں سرگرم ہیں تاہم دشمن کے پروپیگنڈوں سے بھی بات واضح ہو جاتی ہے۔
حالیہ مہینوں میں اسلامی جمہوری نظام سے متعلقہ تمام شعبوں میں دشمن کی خبر رساں ایجنسیوں کی جانب سے دو تشہیراتی پہلو سامنے آئے ہیں، جن کے بارے میں میں اختصار سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں:
ایک پہلو یہ ہے کہ یہ ظاہر کیا جائے کہ اسلامی جمہوری نظام اقتصادی لحاظ سے بنیادی اور ناقابل حل مسائل میں گرفتار ہو چکا ہے! پچھلی حکومت کے دور میں بھی اس بات کا پروپیگنڈا کیا جا رہا تھا اور ایران میں تین کروڑ ووٹوں سے منتخب ہونے والی نئی حکومت کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سے بھی دشمنوں کے پروپیگنڈے ایک بہانے کے طور پر اسی بات پر مرکوز ہیں۔ یہ ہوا ایک تشہیراتی پہلو۔
ایک دوسرا پہلو عوام کے ثقافتی، نظریاتی اور انقلابی مسائل سے متعلق ہے۔ اس طرح کا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے گویا اسلامی جمہوری نظام یا حکومت یا پھر حکام، انقلابی اقدار کے سلسلے میں لاپرواہ ہو گئے ہیں یا پھر لا پرواہی کی جانب بڑھ رہے ہیں! ایران کے بارے میں عالمی سامراج کے زیادہ تر پروپیگنڈے انہیں دو محوروں کے گرد گھومتے ہیں۔
سب سے پہلے تو میں آپ کی خدمت میں یہ عرض کروں کہ اس قسم کے پروپیگنڈوں سے دشمن کا مقصد کیا ہے؟ وہ کیوں چاہتا ہے کہ حالات کو اقتصادی لحاظ سے انتہائی تاریک ظاہر کرے؟ اور کیوں انقلابی اور ثقافتی لحاظ سے وہ حالات کو ابتر ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟ اس کی وجہ کیا ہے؟ ایک جملے میں اس کی وجہ سن لیجئے کہ اس کے ذریعے وہ ایرانی قوم خصوصا نوجوانوں کے دل سے امید کے نور کو ختم کرنا چاہتے ہیں، دلوں سے امید کو مٹانا اور لوگوں کو مایوس کرنا چاہتے ہیں۔
عزیزو! امید انسان کو حرکت میں لانے والی سب سے بڑی قوت ہے۔ فتح کی امید، ترقی و پیشرفت کی امید اور کامیابی کی امید ہر انسان کو حرکت کی ترغیب دلاتی ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہر فعال، پرنشاط اور متحرک انسان، تھم جائے اور اس کی سرگرمیاں رک جائیں تو کافی ہوگا کہ آپ اسے ناامید کر دیجیے۔ اگر آپ نے اسے ناامید کردیا تو تیزی سے کام کرنے والے ہاتھ رک جائيں گے، تیزی سے آگے بڑھنے والے مضبوط قدم، لرزنے لگیں گے۔ کیوں؟ کیونکہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ ایرانی قوم، آج ایک روشن اور تابناک مستقبل کی جانب رواں دواں ہے جس میں اس کی مادی دنیا کے مفادات بھی پورے ہو رہے ہیں اور عالم اسلام کی سطح پر اس کی عزت و سربلندی اور ایمان و اثر و رسوخ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
ایرانی قوم آج بین الاقوامی سطح پر اور اقوام عالم کی نظروں کے سامنے، ایک زندہ و متحرک قوم کی حیثیت سے ان اہداف کی جانب بڑھ رہی ہے جو ہر قوم کے لیے جوش و جذبے کا باعث ہوتے ہیں اور ہر انسانی مجموعے کو چاہے وہ جہاں کہیں بھی ہو، ہیجان میں مبتلا کر دیتے ہیں۔یعنی ایرانی قوم ان تمام لوگوں سے بے نیازی اور خود مختاری کی جانب بڑھ رہی ہے جو اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی صنعتوں اور مواد کے ذریعے قوموں کو ذلیل و خوار کرتے ہیں، اقوام کی دولت لوٹتے ہیں، ان کے ذخائر کو ان سے چھین لیتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ان کی عزت اور بے نیازی کے جذبے کو بھی کچل دیتے ہیں۔
ایرانی قوم نے اپنے انقلاب کے ذریعے اس قسم کے سامراجیوں کے منہ پر گھونسا رسید کیا۔ مسلط کردہ جنگ میں اس سے بھی زیادہ مضبوط گھونسا مارا۔ تعمیر کے میدان میں بھی اس نے اپنی طاقت اور عزم کے سہارے دشمنوں کے منہ پر گھونسا مارا اور انہیں اپنی حرکت، حوصلے، ہمت اور تیز رفتاری کے سامنے انگشت بدنداں ہونے پر مجبور کر دیا۔ ایرانی قوم ابھی اس سے کہیں آگے جائے گی۔
ابھی ہم منزل پر نہیں پہنچے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایرانی قوم کو اس راہ پر چلنے سے روک دیں اور اسے مایوس کر دیں۔ یہی سبب ہے کہ وہ دو طرح کے پروپیگنڈے کر رہے ہیں جن کا ذکر میں نے کیا۔ ان کا مقصد یہ ہے۔ لیکن میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ یہ دونوں طرح کے پروپیگنڈے جھوٹ، برخلاف واقع اور مخصوص اہداف کے تحت ہیں۔اگر ایرانی قوم اسی اتحاد و یکجہتی کے ساتھ، جو بحمداللہ اس کے اور حکومت کے درمیان موجود ہے، حکام ملک کی تعمیر اور اسے آباد کرنے کی راہ پر بڑھ رہے ہیں، عوام بھی ملکی حکام پر بھروسہ کرتے ہیں اور اسلام و انقلاب کے پرچم تلے ملک کی تعمیر اور تعمیر نو کا کام شروع ہو چکا ہے، آگے بڑھتی رہے، اور انشاء اللہ ضرور بڑھے گی تو وہ ایک مناسب وقت اور قابل پیش گوئی مدت میں ایک دولتمند اور فعال و سربلند عوام کے لائق علم و زندگی کی حامل قوم کی حیثیت سے دنیا میں اور ملکوں کے سامنے اپنا سر اٹھا سکے گی اور اپنے آپ کو دنیا کے سامنے پیش کر سکے گی۔
البتہ یہ بات دشمن کے لیے بہت تلخ ہے۔ شاید کچھ ایسے بھی لوگ ہوں جو دشمن کے پروپیگنڈوں سے متاثر ہو کر بدگمانی کا شکار ہو گئے ہوں، تاہم ان میدانوں میں بدگمانی کو راستہ نہیں دینا چاہیے۔ہماری آبادی کی نصف حصہ جوانوں پر مشتمل ہے۔ جوان، یعنی طاقت، امید اور جدت عمل کا مرکز۔ ہماری قوم نوجوانوں، فروغ کی جانب مائل یونیورسٹیوں اور علمی و سائنسی مراکز سے تعلیم مکمل کر چکے جوانوں پر مشتمل ہے جن کی تعداد میں اسلامی انقلاب سے پہلے کی نسبت بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے اور آج ان دنوں کے مقابلے میں ملک میں دسیوں گنا زیادہ یونیورسٹیاں اور علمی و تحقیقاتی مراکز ہیں۔ تو یہ ہے افرادی قوت اور یہ ہیں افرادی قوت کے لیے تعلیم و تربیت کے مراکز اور وہ بھی اس ملک کے وسائل کے ذریعے۔ ایسا ملک جس کے پاس زیر زمین ذخائر ہیں، زرخیز زمینیں ہیں، ملک کے آبی ذخائر کو کنٹرول کرنے کی طاقت ہے، البتہ ملک میں پانی کم ہے تاہم کنٹرول کے قابل اور بہتر استعمال کے لائق ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ ملک مذہبی بنیادوں پر استوار ہے اور جس ملک میں بھی مذہبی بنیادیں موجود ہیں اس میں متقی عوام کی پرورش ہوتی ہے اور جب عوام متقی ہوتے ہیں تو وہ ملک کے مادی او ر معنوی ذخائر کا سب سے بہتر انداز میں استعال کرتے ہیں تو پھر یہ ملک اس منزل تک کیوں نہ پہنچے؟ کیوں بعض لوگوں کو اس بات میں شک ہو کہ اسلامی ایران ایک معقول وقت گزرنے کے بعد اس علاقے اور دیگر علاقوں کے ممالک کے لیے ایک نمونے اور آئیڈیل میں تبدیل ہو جائےگا؟ شک و شبہے کی کوئي بات نہیں ہے۔ بنابریں یہ پروپیگنڈا کہ ایران لاعلاج معاشی بیماریوں میں مبتلا ہو چکا ہے، ایک معاندانہ پروپیگنڈا ہے جو دشمنی اور عناد کی وجہ سے کیا جا رہا ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے مسائل کو بہت بڑا کرکے دکھانے اور ہر جگہ اور ہر مسئلے میں انہی موضوع بحث بنانے کے مترادف اور بے بنیاد ہے۔اور دوسرا نکتہ، حکومتی عہدیداروں، سرکاری حکام یا نوجوانوں کے اسلام، دین اور انقلاب سے دور رہ جانے کے پروپیگنڈے پر مبنی ہے۔یہ جھوٹ، پہلے جھوٹ سے بھی بڑا ہے! کسی بھی صورت میں ایسا نہیں ہے۔ آج اس ملک میں جو بھی کسی بڑے اور فیصلہ کن عہدے پر اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہے اس کا سب سے بڑا ہدف یہ ہے کہ وہ اسلام کی حیات بخش تعلیمات کے ذریعے اس ملک کی تعمیر کرے، اس ملک کو دین خدا کی برکت سے آباد کرے، اس ملک کو وہ عزت عطا کرے جو دین خدا لوگوں کے لیے طلب کرتا ہے، اس ملک کو اس سماجی فلاح و بہبود، علم اور تمدن پر فائز کرے جو اسلام انسانوں اور اقوام کو عطا کرتا ہے۔ ہدف یہ ہے۔
ہماری قوم وہ قوم ہے جو لادینیت اور طاغوت کی تاریک گہرائیوں میں دین کے سورج کو بادلوں کے پیچھے سے باہر نکالنے اور اسلام و قران کی اساس پر ایک انقلاب لانے میں کامیاب ہوئي جس نے صرف مسلم اقوام ہی نہیں دنیا کی تمام اقوام کی آنکھوں کو چکاچوندھ کر دیا۔آج بھی ایسا ہی ہے۔ اگر آپ آج بھی لاطینی امریکہ کے ممالک اور عیسائي معاشروں کے درمیان جائیں، جن کا ایران اور اسلام سے سب سے کم رابطہ ہے، تو آپ دیکھیں گے کہ اسلامی انقلاب کا نام اور اس انقلاب کے عظیم الشان قائد حضرت امام خمینی کا نام نامی جانا پہچانا ہے۔ دنیا کے تمام گوشہ و کنا ر سے دسیوں کتابیں اور رسالے اور گوناگوں ادب و ثقافت کے سیکڑوں مقالے، اشعار اور ادبی مضامین اس انقلاب کی عظمت کی شان میں لکھے گئے ہیں، ایسے انقلاب کو اس قوم نے برپا کیا ہے۔
یہ انقلاب، یہ انقلابی اقدار اور یہ عزت عطا کرنے والا اسلام اس ملک کو، جو کبھی سامراج کا پٹھو سمجھا جاتا تھا، عزت تک پہنچانے میں کامیاب رہا۔ یہ تہران جو آپ لوگ دیکھ رہے ہیں، کبھی ان صیہونیوں کے لیے ایک محفوظ مقام تھا جو تفریح کے لیے شمالی تہران کے باغوں میں آتے تھے اور طاغوتی حکومت کے بڑے بڑے لوگوں کے گھروں میں آرام کرتے تھے تاکہ مقبوضہ فلسطین لوٹیں اور ہمارے مسلمان فلسطینی بھائیوں کے ساتھ زیادہ آسودہ خاطر ہو کر لڑیں اور ان کی سرکوبی کریں۔ اس ملک میں لاکھوں اسرائیلی اور امریکی، اس ملک کے تمام امور پر مسلط تھے۔ اس ملک کے بہترین علاقے عالمی سامراج کے خوشہ چینوں اور نوکروں کے ہاتھوں میں تھے۔ اس ملک کے بہترین علاقے اور بہترین وسائل اغیار کی ملکیت تھے۔ بین الاقوامی پلیٹ فارم پر دنیا کی بین الاقوامی پالیسیوں میں اس قوم کی حیثیت کسی بھی طرح سے یورپی علاقوں اور لاطینی امریکہ کے کسی گوشے کے ایک چھوٹے سے ملک کے برابر بھی نہیں تھی۔
آج اسلام کی برکت سے یہ ملک اتنا پر وقار ہو چکا ہے کہ دشمن تک یہ اعتراف کرتے ہیں کہ یہ قوم، با وقار قوم ہے اور یہ ملک طاقتور ملک ہے۔ جس قوم نے اسلام سے اس طرح کا عظیم استفادہ کیا ہو وہ کبھی بھی اسلامی اقدار کی جانب پشت نہیں کرےگی۔
اس قوم کے نوجوان بھی، اس ملک کے حکام بھی، مختلف طبقے بھی اور وہ تمام افراد جو ایران کو سربلند دیکھنا چاہتے ہیں، جانتے ہیں کہ جب تک اس ملک پر اسلام کا پرچم لہرا رہا ہے اور اس ملک سے خالص اسلام کا نور تمام عالم اسلام تک پہنچ رہا ہے، یہ ملک پر وقار ہے، تمام اقوام کے درمیان یہ ملک سربلند ہے اور اس ملک کا مستقبل روشن ہے؛ مادی لحاظ سے بھی اور معنوی لحاظ سے بھی، علمی و ثقافتی پہلوؤں سے بھی اور کسی قوم کے لیے اہمیت کے حامل تمام پہلوؤں کے لحاظ سے بھی۔ ان خصوصیات والی یہ قوم، اسلام، قرآن اور ان اقدار کو جو قرآن مجید نے طاغوتی اقدار کے مقابل پیش کیے ہیں، کبھی بھی ترک نہیں کرے گی اور اسلام کے ذریعے وہ خدا کے فضل و کرم سے دوسری اقوام کو بھی نجات دلانے میں کامیابی حاصل کرے گی۔ یہ ہے ایرانی قوم کی صورتحال، جسے دشمن جان بوجھ کر یا پھر غلطی سے اسے صحیح طریقے سے نہیں سمجھ پایا ہے، اس کی غلط تشریح اور غلط پروپیگنڈا کر رہا ہے۔
البتہ ہمیں دشمن سے کوئي توقع بھی نہیں ہے۔ ایرانی قوم کے لیے جو بات اہم ہے وہ یہ ہے کہ ایران کی عزیز قوم کو اپنی قوت و طاقت کی بنیادوں کو پہچاننا چاہیے۔ آج آپ کو دنیا میں عزت و تشخص و عظمت حاصل ہے۔ آج ایرانی حکومت اور قوم، دنیا کی دیگر حکومتوں اور اقوام کے درمیان، ایک اہم، باحیثیت، بہادر اور ایسی حکومت و قوم کے طور پر پہچانی جاتی ہے جس پر کو‏ئي بات مسلط نہیں کی جا سکتی۔ آپ کو یہ دیکھنا چاہیے کہ ایرانی قوم و حکومت کے پاس یہ درخشاں اور باعظمت چہرہ کہاں سے آیا ہے؟
سب سے پہلا عنصر جس نے اس قوم کو یہ عظیم تحفہ عنایت کیا ہے، اسلام و قرآن کا یہی باعظمت پرچم ہے۔ آج یہ پرچم آپ عوام کے ہاتھوں میں دے دیا گیا ہے اور آپ نے اس کی حفاظت کی ہے۔ کسی نے اسلام کو ایرانی قوم پر مسلط نہیں کیا۔ اسلام، ایرانی قوم کے ایک ایک فرد کے دل کی گہرائیوں سے نکلا، اس نے انہیں توانائي، طاقت اور قوت عطا کی اور انہیں مختلف عالمی و داخلی پلیٹ فارموں پر اور زندگی کے مختلف میدانوں میں استقامت سے کام لینے والے انسانوں میں تبدیل کر دیا۔ اس کا تحفظ کیجیے اور اس کی اہمیت کو سمجھیے اور میں جانتا ہوں کہ آپ اس کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔
البتہ بعض لوگوں پر زیادہ بھاری ذمہ داری ہے۔ قابل احترام علماء اور روشن فکر مومن افراد پر اس سلسلے میں دوہری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اتنی بڑی آبادی اور اتنے زیادہ نوجوانوں والے کرج جیسے شہر میں تبلیغی اور دینی مراکز بڑی تعداد میں اور پرکشش نیز جدید شکل میں ہونے چاہیے تاکہ مومن نوجوان اور جوان، نوجوانی کے عالم میں فطری طور پر معنوی اقدار کی سمت پائی جانے والی کشش اور جاذبیت کی بنیاد پر اس کشش اور اپنے ان جذبات کو تسکین عطا کر سکیں۔ یہ وہ ذمہ داری ہے جو ثقافتی عہدیداروں، محترم علماء، اسلامی انجمنوں، مدارس اور مختلف اداروں پر عائد ہوتی ہے۔
دوسرا عنصر، قوم کے اتحاد و وحدت کا ہے۔ میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ میرے عزیزو! ایرانی قوم نے اتحاد کی برکت سے جنگ میں بھی، مقدس دفاع کے میدانوں میں فوجیوں کو لام بند کرنے میں بھی، اس قوم کے لیے اہمیت کے حامل تمام مختلف میدانوں میں بھی اور خود انقلاب میں بھی کامیابی حاصل کی۔ اگر اتحاد نہ ہوتا؛ اگر ایرانی قوم اختلاف، انتشار اور شقاق کا شکار ہوتی، جیسا کہ دشمن یہ کام کرنا چاہ رہا تھا تاہم بحمد اللہ وہ کامیاب نہیں ہوسکا تو پھر ایرانی قوم کامیاب نہیں ہو پاتی۔ اس اتحاد کا تحفظ کیجیے۔
شہر کرج، ملک کے مختلف علاقوں کے مختلف طبقوں کے لوگوں کے ایک ساتھ زندگی گزارنے کا ایک نمونہ ہے۔ اس شہر میں، تمام لوگ پورے امن و سکون اور مہربانی کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں چاہے وہ کرج اور اس علاقے کے مقامی لوگ ہوں، چاہے ملک کے دیگر علاقوں سے آنے والے مہمان اور مسافر ہوں۔ پورے ملک میں ہر جگہ انقلاب کے دوران ہماہنگی اور یکجہتی نے لوگوں کو تمام پروگراموں میں کامیاب بنایا ہے۔ اس وحدت و اتحاد کے تحفظ کے لیے کوشاں رہیے۔
لوگوں کے درمیان مختلف بہانوں سے دشمن اور پوشیدہ ہاتھوں کو اختلاف پیدا نہ کرنے دیجیے۔ حساس موقعوں پر دیکھا گيا ہے کہ جہاں کہیں زمین ہموار ہوتی ہے، دشمنوں کے باہری ریڈیو تک، جنہیں بڑی بڑی رقمیں خرچ کرکے چلایا جاتا ہے اور بڑی ہوشیاری کے ساتھ ان سے نشر ہونے والی باتوں کا انتخاب کیا جاتا ہے تاکہ ایرانی قوم میں تشویش اور اضطراب پیدا کیا جا سکے، عملی طور پر اختلاف پیدا کرنے والی باتوں کو پیش کرتے ہیں، اس لیے کہ لوگوں کے دلوں کو ایک دوسرے سے جدا کر سکیں۔ ان باتوں اور وسوسوں پر بالکل بھی دھیان نہ دیجیے جو آپ کے بدخواہ دشمنوں اور سیاہ دل افراد کی جانب سے پیدا کیے جاتے ہیں۔
ہماری عظیم قوم، ایک واحد اور متحد قوم ہے، ایرانی ہے، مسلمان ہے، ایران اسلامی کی عزت و عظمت کی خواہاں ہے، ایران کے اندر اور پھر دوسرے مرحلے میں پوری دنیا میں حق و انصاف کے قیام کی خواہاں ہے۔ یہ ایسے مشترکہ اہداف ہیں جو ایک دوسرے سے الگ اور جدا افراد کو بھی ایک دوسرے کے ساتھ لے آتے ہیں، بھائیوں کی تو بات ہی الگ ہے۔
وحدت و اتحاد کا ایک دوسرا مظہر قوم اور حکام کے درمیان اتحاد ہے۔ آج بہت سے ممالک کی ایک بڑی مشکل یہی مسئلہ ہے۔ مختلف ممالک میں عوام یا پھر عوام کے ایک بڑے حصے اور انتظامیہ کے درمیان گہرے اختلافات پائے جاتے ہیں اور عوام کی ہر چیز کو ان اختلافات کی نذر کر دیا جاتا ہے؛ لوگوں کی روٹی، لوگوں کا پانی، لوگوں کا امن، لوگوں کا آرام۔ بعض یورپی ممالک میں دس برسوں میں دس دس حکومتیں برسر اقتدار آئیں اور چلی گئیں۔ کیوں؟ ان لوگوں سے رقابت کی خاطر جو اپنے ملک کے مفادات کے بارے میں نہیں سوچتے بلکہ صرف اپنے گروہی مفادات کے چکر میں رہتے ہیں۔ ہمارے پڑوس میں بھی ایسا ہی ایک ملک ہے۔ آج آپ دیکھیے کہ افغانستان میں تمام افغان گروہ ایک ہی ملک سے تعلق رکھتے ہیں تاہم اس طرح ایک دوسرے کی جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں کہ ایک دوسرے کے خونی دشمن بھی اس طرح آپس میں جنگ نہیں کرتے جس طرح سے یہ لڑ رہے ہیں۔ یہ ایک قوم کی بد نصیبی ہے، یہ ایک قوم کی سیاہ بختی ہے کہ خداوند متعال اسے ایسی صورتحال سے دوچار کر دے۔ ایسے ملک میں، جہاں بھائی بھائی ایک دوسرے سے لڑ رہے ہوں اور ہر کوئی اپنی ہی فکر میں ہو، جو چیز ہاتھ سے جاتی رہتی ہے وہ قوم کے عمومی مفادات ہیں۔
البتہ دشمنوں نے اس بات کی بہت زیادہ کوشش کی کہ ایران کی عظیم قوم کو بھی اسی صورتحال سے دوچار کر دیں، تاہم وہ ایسا نہیں کر سکے۔ خدا کے فضل و کرم سے اسلامی جمہوری نظام کا ڈھانچہ ایسا ہے کہ جو دشمنوں کی جانب سے لوگوں کے درمیان اس قسم کے اختلافات پیدا کرنے کو انتہائی دشوار بنا دیتا ہے۔ البتہ اس میں آپ لوگوں کی بیداری کا بھی کردار رہا ہے اور میں پھر آپ کی بیداری پر ہی بھروسہ کرنا چاہتا ہوں۔
بحمداللہ یہ دوسرا حصہ بھی یعنی عوام اور حکام کے درمیان اتحاد و یکجہتی اسلامی انقلاب کے اوائل سے ہی موجود رہا ہے؛ خصوصا اس وقت سے جب اغیار پسند اور اغیار پرست لوگوں نے اس انقلاب کے خلاف اپنی ریشہ دوانیاں ختم کر دیں اور اس سے دور ہو گئے اور مومن اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی راہ پر چلنے والے افراد کی زیادہ سے زیادہ موجودگی کی راہ ہموار ہو گئي۔سنہ انیس سو اکیاسی کے بعد ہمیشہ ایسا ہی رہا ہے۔ لوگ، حکام کے ساتھ بہت مہربان ہیں، انہیں چاہتے ہیں؛ حکام بھی اپنے آپ کو لوگوں کا خادم سمجھتے ہیں۔ آج بھی ایسا ہی ہے، پچھلی حکومت میں بھی ایسا ہی تھا اور اس حکومت میں بھی ایسا ہی ہے۔ اس اتحاد کی قدر و قیمت اور اہمیت کو سمجھیے۔ اتحاد، اس یکجہتی کے بنیادی عناصر میں سے ایک ہے جو ایرانی قوم کی کامیابی کی اصل شرط ہے۔
آج اس قوم کے دشمن یعنی امریکی اور صیہونی، کہ ایرانی قوم کے سب سے بڑے اور سب سے زیادہ باعناد دشمن ریاستہائے متحدہ امریکہ کی حکومت اور اس کی حمایت یافتہ فلسطین میں غاصب اور غیر قانونی صیہونی حکومت ہے، ایرانی قوم کو نقصان پہنچانے کے لیے کوئي بھی کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ جب میں ان کی بین الاقوامی سازشوں کے مقابلے میں ایرانی قوم کی مخلصانہ اور مومنانہ کوششوں کا موازنہ کرتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ اس قوم کے سلسلے میں پروردگار عالم کے فضل و کرم سے الہی منشا یہ ہے کہ دشمن جتنی بھی سازشیں کرے، جتنی بھی کوشش کرے وہ بہر حال اس قوم پر غلبہ حاصل نہیں کر سکے گا اور یہ قوم تمام پلیٹ فارموں پر دشمنوں کو دھول چٹانے میں کامیاب ہو جائے گی۔
ہمیں امید ہے کہ خداوند متعال ایران کی عزیز قوم کو کامیاب کرے گا اور کرج کے آپ عزیز عوام کو آپ کے ذریعے اختیار کیے گئے سرگرم باہمی زندگی کے خوبصورت راستے پر جلد از جلد کامیاب کرے گا۔ یہاں پر میں اس سے زیادہ آپ کا وقت نہیں لوں گا کہ آپ میں سے بعض افراد نے کئی گھنٹوں تک انتظار کیا ہے اور میں مناسب نہیں سمجھتا کہ آپ کو اس دھوپ میں اس سے زیادہ رہنے دوں۔ خدا آپ کو کامیاب کرے اور آپ کی توفیقات میں اضافہ کرے۔

 

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ