آپ نے اپنے اس خطاب میں سن نواسی ہجری شمسی کو بلند ہمتی اور کثرت عمل کا سال قرار دئے جانے کے سلسلے میں اہم نکات کی وضاحت اور ان میدانوں کی نشاندہی فرمائي جن میں قوم کو بلند ہمتی اور کثرت عمل کی ضرورت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے متعدد مواقع پر کارساز ثابت ہونے والی ایرانی قوم کی بصیرت و بیداری کی قدردانی کی۔ تفصیلی خطاب مندرجہ ذیل ہے:
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على اله الأطيبين الأطهرين المنتجبين الهداة المهديّين المعصومين المكرّمين سيّما بقيّةالله فى الأرضين
اللہ تعالی کا دل کی گہرائیوں سے شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ایک بار پھر یہ توفیق مرحمت فرمائی کہ (ہجری شمسی) سال کے آغاز پر اس مقدس و پاکیزہ سرزمین کی زیارت اور خدمت میں مصروف آپ بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ حضرت ابو الحسن علی ابن موسی الرضا صلوات اللہ و سلامہ علیہ کی بارگاہ میں حاضری دوں اور اس دن کے فیض اور آپ بھائیوں اور بہنوں کی زیارت کے عظیم موقع سے بہرمند ہو سکوں۔ سب سے پہلے تو میں (ہجری شمسی) سال کی آمد اور عید نوروز کی مبارکباد پیش کروں گا تمام ملت ایران کو، آپ عزیز بھائیوں اور بہنوں کو اور اسی کے ساتھ اس موقع پر چند باتیں بھی عرض کرنا چاہوں گا۔
سب سے پہلے جو چیز عرض کرنی ہے وہ اسلامی جمہوری نظام کے قیام کو اکتیس سال کا عرصہ گزر جانے کی مناسبت سے مقدس اسلامی نظام اور اسلامی حکومت کی ایک قرآنی تعریف ہے۔ اسلامی حکومت کی اساس اور اس حکومت کا معیار عبارت ہے جذبہ ایمانی کے استحکام، اللہ تعالی کی ذات پر ایقان، انبیائے الہی کی تعلیمات پر عمل آوری اور اس راہ پر پیش قدمی سے جو انبیائے کرام نے انسانوں کے لئے معین کر دی ہے۔ بنیاد، ایمان ہے۔ طول تاریخ میں اور آج تک انسانوں کی ہدایت اور دینی و خدا پسند معاشرے کی تشکیل کے لئے انبیاء کا مبعوث کیا جانا در حقیقت اسی مقصد کے تحت رہا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ اناّ ارسلناک شاھدا و مبشرا و نذیرا لتؤمنوا باللہ و رسولہ و تعزروہ و توقروہ و تسبحوہ بکرۃ و اصیلا (1) یعنی پیغمبران الہی کو مبعوث کرنے کا ہدف اللہ تعالی کی ذات پر ایمان، ذات الہی و راہ خدا سے قلبی وابستگی اور ان تعلیمات کو دل میں اتارنا ہے جو انبیائے کرام نے انسان کو دی ہیں۔ یہ چیز سورہ مبارکہ انا فتحنا میں بیان کی گئی ہے۔ سورہ مبارکہ احزاب میں ارشاد ہوتا ہے کہ اناّ ارسلناک شاھدا و مبشرا و نذیرا و داعیا الی اللہ (2) پیغمبر کی ذمہ داری اللہ تعالی کی جانب لوگوں کو بلانا ہے۔ یہ مہم اور مشن کی بنیاد ہے۔ جو چیز اسلامی نظام اور اسلامی معاشرے کو دیگر انسانی معاشروں سے ممتاز بناتی ہے وہ یہی نکتہ ہے۔ اللہ تعالی پر ایمان، غیب پر ایمان اور اس راہ پر ایمان جو اللہ تعالی نے انسان کی دنیوی اور اخروی سعادت و خوشبختی کے لئے بنی آدم کے سامنے قرار دی ہے۔ آج دنیا کے گوناگوں نظاموں کے سامنے اسلامی نظام کے پاس پیش کرنے کے لئے جو باتیں ہیں اور اسلامی جمہوری نظام کے پاس دنیا کے مختلف النوع نظاموں کو چیلنج کرنے کے لئے جو صلاحیت ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ (اسلامی نظام کا بنیادی معیار و شناخت) اللہ تعالی کی ذات پر ایمان ہے۔ انسان ایمان سے تہی ہو جانے کے باعث آج نہ معلوم کیسے کیسے گردبادوں اور دلدلوں میں پھنستا جا رہا ہے۔ تو معیار اور شناخت ایمان ہے۔ اللہ تعالی پر ایمان، راہ خدا پر ایمان اور راہ انبیاء پر ایمان کہ جس کا لازمہ ان کی تعلیمات پر عمل آوری ہے، صرف روحانی ارتقاء و اعتلاء کی خاطر نہیں ہے۔ اگرچہ اس کا بنیادی فائدہ اور ثمرہ روحانی علو اور انسانی و اخلاقی کمال ہے، کیونکہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ زندگانی دنیا کے اعمال کے ذریعے ہی انسان بلند درجات پر فائز ہو سکتا اور بلند منازل تک پہنچ سکتا ہے، اس لئے مادی زندگی بھی ایمان کے تناظر میں ہی مفہوم و معنی حاصل کرتی ہے۔ یعنی اللہ تعالی کی ذات پر ایمان روحانی سعادت و خوشبختی کی راہ کو ہموار کرتا ہی ہے ساتھ ہی مادی خوشبختی کو بھی یقینی بناتا ہے۔ اللہ تعالی کی ذات پر ایمان سے انسان کو وہ ساری چیزیں حاصل ہو جاتی ہیں جن کی انسان کو زندگی میں ضرورت پڑتی ہے۔ و لو انھم اقاموا التوراۃ و الانجیل و ما انزل الیھم من ربھم لاکلوا من فوقھم و من تحت ارجلھم ( 3) اگر دین پر عمل کیا جائے، اگر اسلامی تعلیمات کو معاشرے میں عملی جامہ پہنایا جائے تو انسان رفاہ کے لحاظ سے بھی اس مقام پر پہنچ جائیں گے کہ ان کی کوئی بھی احتیاج اور ضرورت ایسی نہیں بچے گی جو پوری نہ ہو گئی ہو۔ انسان کی روحانی و ذہنی آسائش اور احساس تحفظ و طمانیت کی بات کی جائے تب بھی ایمان کا کردار نمایاں نظر آتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ قد جاء کم من اللہ نور و کتاب مبین یھدی بھ اللہ من اتّبع رضوانہ سبل السلام (4) سلامتی کی راہوں کو، طمانیت کی راہوں کو، ذہنی سکون کی راہوں کو قرآن مہیا کرتا ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جو انسان کو ذہنی طمانیت و سکون عطا کرتا ہے۔ یعنی وہی چیز جس کے فقدان کی وجہ سے آج دنیا مضطرب ہے اور بے قرار ہے۔
مادی ترقی ہو چکی ہے، سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں پیشرفت حاصل ہو چکی ہے، معاشروں کے پاس بے پناہ دولت ہے لیکن نہیں ہے تو سکون، نہیں ہے تو طمانیت۔ یہ انسانی زندگی میں اسی بنیادی عنصر کے فقدان کا نتیجہ ہے جو ایمان سے عبارت ہے۔ قرآن کی روشنی میں یہ ایک بنیادی عنصر ہے جس پر اسلامی جمہوریہ کے اندر مجھے اور آپ کو، تمام افراد کو، جملہ نوجوانوں کو اور ترقی کی خواہشمند تمام نسلوں کو جو اپنے ملک، اپنی ذات اور اپنی اولاد کے لئے سعادت و خوشبختی سے مالامال مستقبل کی تمنا کرتی ہیں، بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اسلامی نظام میں کام کی بنیاد ایمان ہے۔ اس ایمان کے تقاضے پورے کئے جانے چاہئے، دل میں ہی نہیں بلکہ عمل میں بھی، منصوبوں میں بھی اور تمام اقدامات میں بھی۔
اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل کا یہ بتیسواں سال ہے۔ یعنی اس دہائی کا دوسرا سال ہے جسے ترقی و انصاف کی دہائی سے موسوم کیا گيا ہے۔ ترقی و انصاف کا نعرہ ایک محوری اور مرکزی نعرہ ہے، یہ بنیادی چیز ہے، ایک اہم ضرورت ہے۔ اس مرحلے میں عزیز ملت ایران اور حکام کا نصب العین ترقی و انصاف ہونا چاہئے۔ ترقی اور انصاف انسانوں کے دو اہم مطالبے اور تقاضے ہیں جن کی انہیں شدید ضرورت ہے۔ ترقی سے مراد یہ ہے کہ علم و عمل کے لحاظ سے اور ان تمام چیزوں کی رو سے جو دنیا میں ایک معاشرے کے لئے لازمی اور ضروری ہیں، مطلوبہ مقام تک رسائی حاصل کی جائے۔ انصاف سے مراد یہ ہے کہ انسانوں کے درمیان تفریق و امتیاز باقی نہ رہے۔ نا انصافی نہ ہو، ظلم نہ ہو۔ یہ دونوں خواہشیں اور مطالبے، بشر کے دیرینہ اور اصلی و بنیادی تقاضے اور مطالبے ہیں اور جب تک انسان کا وجود ہے یہ دونوں مطالبے بنیادی مطالبوں کی حیثیت سے برقرار رہیں گے۔ ترقی و انصاف۔ یہ نعرے تو خیر لگائے جا سکتے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ ان پر عمل کب ہوتا ہے۔ ہم نے اسلامی جمہوری نظام میں چوتھی دہائی کو ان دونوں نعروں پر عمل آوری کا مناسب موقع پایا ہے۔ ترقی حقیقی معنی میں کی جا سکتی ہے اور انصاف بھی اس شعور و بصیرت و آگہی کے مد نظر جو ہمارے معاشرے میں اور ہمارے عوام میں بحمد اللہ موجود ہے اور جس طرح انہوں نے رکاوٹوں کو معین کر لیا ہے، اہداف کی نشاندہی کر لی ہے اور ہمارے نوجوانوں نے دوست اور دشمن کو آج جس طرح پہچان لیا ہے اس کے پیش نظر اگر ہمارے حکام آج انصاف کے لئے دلجمعی سے جٹ جائیں تو ہمارے معاشرے میں مکمل انصاف قائم کرنے کے مقدمات فراہم کر سکتے ہیں۔ البتہ یہ کوئي کوتاہ مدت اور قلیل المیعاد کام نہیں ہے، دراز مدتی اور طویل المیعاد مہم ہے۔ بنابریں اس دہائی کو ہم نے ترقی و انصاف کی دہائی کی حیثیت سے مد نظر رکھا ہے۔ جو بھی قدم اٹھایا جائے، جو بھی منصوبہ بندی کی جائے اس میں ان دونوں باتوں کو ملحوظ رکھا جانا چاہئے، معاشرے کی ترقی کو بھی اور انصاف کو بھی۔
ملک میں وسیع پیمانے پر تیاری اور آمادگی ہے۔ میرے عزیزو! ان تیس برسوں میں ملک اور قوم نے تمام میدانوں میں ترقی و پیشرفت کی ہے۔ ایک عظیم اور بنیادی پیش قدمی کے لئے اور ایک نمایاں حرکت کے لئے کہ جس کے اثرات شعبہ ہائے زندگی میں با قاعدہ نمایاں ہوں، راہ بالکل ہموار ہے۔ ہم نے بنیادی معاشی ڈھانچے کے سلسلے میں بھی کافی ترقی کی ہے، مواصلاتی ڈھانچے کے سلسلے میں زبردست پوزیشن میں خود کو پہنچا دیا ہے، سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں بھی ایک عرصے سے برق رفتاری کے ساتھ ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔ آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں ہمارے نوجوانوں نے، یونیورسٹی سے وابستہ افراد نے، ہمارے سائنسدانوں اور ممتاز شخصیات نے ایسے مقام و منزل پر خود کو پہنچا دیا ہے کہ جو ایک ایسے ملک کے لئے بے حد حیرت ناک ہے جو علم و دانش، تحقیق و مطالعے اور ایجادات و انکشافات سے بہت دور تھا۔
عزیز نوجوانو! آج آپ کے ملک کے پاس ایسی حصولیابیاں، جو ایران کو دنیا کے پہلے دس یا پہلے آٹھ ملکوں کی صف میں پہنچاتی ہیں، کم نہیں ہیں۔ مختلف شعبوں میں، بیالوجی میں، نینو ٹکنالوجی میں، فضا و خلاء کے شعبے میں، گوناگوں میدانوں میں آپ دیکھئے کہ ملک کے سائنسدانوں نے جن میں بیشتر تعداد انہی پر جوش اور بلند ہمت نوجوانوں کی ہے، ملک کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ فخریہ کہہ سکتے ہیں کہ فلاں شعبے میں ایران دنیا کے آٹھ ممالک میں سے ایک ہے یا فلاں شعبے میں دنیا کے دس ممالک میں سے ایک ہے۔ یہ بہت بڑی ترقی ہے۔ یہ ملک کے لئے بہت اہم مقام ہے۔
علاقائی اور عالمی پوزیشن اور طاقت کے لحاظ سے آج اسلامی جمہوری نظام اور ہمارے ملک کی اسلامی انتظامیہ کو دنیا کے ممالک کی نظر میں وہ اہمیت حاصل ہو چکی ہے کہ ہمارے دشمن بھی معترف ہیں کہ اسلامی جمہوریہ کی عالمی ساکھ با اثر ممالک جیسی ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ علاقے میں سیاسی اور عالمی ساکھ کے لحاظ سے اسلامی جمہوریہ پہلے نمبر کا ملک ہے۔ بعض افراد ہیں جن کے بارے میں یہی کہنا مناسب ہوگا کہ تنگ نظر ہیں یا باریک بینی کی صلاحیت نہیں رکھتے، آپ ان افراد کی زبانی سنتے ہیں کہ فلاں سامراجی مغربی ملک کے صدر نے یا فلاں وزیر خارجہ نے یا فلاں بین الاقوامی عہدہ دار نے ایران کے سلسلے میں منفی بیان دیا ہے، وہ اسے اسلامی جمہوری نظام کی بے اعتباری کی دلیل قرار دیتے ہیں۔ یہ سراسر غلط ہے۔ اسلامی جمہوریہ آج قوموں کی نگاہوں میں، حکومتوں کی نگاہوں میں حتی خود دشمنوں کی نظر میں ایک معتبر، مقتدر اور موثر حکومت ہے۔ عالمی امور میں اسلامی جمہوری نظام کا کردار ایک نمایاں کردار ہوتا ہے۔ اس کا موازنہ ایسے ملک سے نہیں کیا جا سکتا جو معاشی حالت کے لحاظ سے اور عمومی دولت کے لحاظ سے ایران کی سطح کا ہو۔ یعنی ایران ان تمام ممالک کے مقابلے میں جو اقتصادی لحاظ سے اس سے آگے یا اس کے مساوی ہیں علاقائی سیاست پر زیادہ اثر و رسوخ کا حامل ملک ہے۔
یہ ساری چیزیں، اچھی زمین کا درجہ رکھتی ہیں۔ تیس سالہ سروسز اور مینجمنٹ کے تجربات اسلامی جمہوری نظام کے حکام کے پاس ہیں۔ اس نظام کی پیشرفت کے تسلسل اور اسلامی جمہوری نظام کے ثبات و استحکام کا یہ ثمرہ اور یہ قیمتی نتیجہ حاصل ہوا کہ عالمی و علاقائی مسائل اور داخلی امور سے نمٹنے کے بیش بہا تجربات جمع ہو گئے۔ یہ اپنے آپ میں بہت بڑی صلاحیت ہے، ایک قابل قدر بنیاد ہے۔ واضح اور روشن افق تیار کر لیا گيا ہے۔ یعنی اسلامی جمہوریہ ایران کا بیس سالہ ترقیاتی منصوبہ، یہ بہت با ارزش منصوبہ ہے۔ عوامی ووٹوں سے یکے بعد دیگرے تشکیل پانے والی حکومتیں اس منصوبے کی بنیاد پر اہداف کا تعین کر سکتی ہیں اور ہر حکومت اس سفر کا کچھ حصہ طے کرکے باقی سفر کی ذمہ داری بعد کی حکومت کے سپرد کر دے۔ واضح منصوبہ اسلامی جمہوری نظام کو دستیاب با ارزش وسائل میں سے ایک ہے۔
نظام کے عظیم وسائل اور ذخائر میں سے ایک، یہ تعلیم یافتہ، پر جوش اور بلند ہمت نوجوان نسل ہے جو ہمارے ملک کے پاس موجود ہے۔ یہ تعلیم یافتہ نسل ہے، اس نے علم حاصل کیا ہے، اس میں جوش و جذبہ ہے، مختلف شعبوں میں گوناگوں مسائل کے ادراک کے لئے محنت کر رہی ہے۔ اس کے پاس خود اعتمادی ہے۔ آج ہم اپنے نوجوانوں میں ایسی خود اعتمادی دیکھ رہے ہیں جو ماضی میں کبھی نہیں دیکھی گئی اور خال خال ہی ایسی قومیں ہیں جہاں اس کا مشاہدہ کیا گیا ہو۔ یہ جو گوناگوں اقتصادی، سیاسی، سائنسی، سماجی اور علم و تحقیق کے متقاضی امور ہیں ان کے بارے میں آپ نوجوانوں سے بات کیجئے تو وہ آپ کو یہی جواب دیں گے کہ ہم انہیں انجام دے سکتے ہیں۔ ان میں ہرگز کسی عاجزی اور کمزوری کا احساس آپ کو نظر نہیں آئے گا۔ ان میں یہ احساس ہے کہ وہ انجام دے سکتے ہیں۔ کسی بھی قوم میں یہ یقین پیدا کرنا کہ وہ امور کی انجام دہی کی صلاحیت رکھتی ہے،(بہت بڑی بات ہے) یہ خود اعتمادی بہت قیمتی اور موثر چیز ہے کیونکہ برسہا برس سے ہمیں یہی باور کرانے کی کوشش کی گئي تھی کہ آپ کے بس کا کچھ نہیں ہے۔ ہماری قوم سے کہا جاتا تھا کہ آپ میں صلاحیت ہی نہیں ہے۔ ملک کے سیاستداں اور جابر حکمراں جو ہم پر مسلط تھے، عوام سے کہا کرتے تھے، نوجوانوں کو تلقین کیا کرتے تھے کہ آپ عبث محنت نہ کیجئے آپ سے کچھ ہونے والا نہیں ہے۔ یعنی ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور دوسرے افراد تحقیق کریں، ترقی کریں اور ہم ان کے پیچھے کاسہ گدائی لئے دوڑتے رہیں، ان کی کاسہ لیسی کرتے رہیں، ان سے مانگیں، ہم خود اپنے بلبوتے پر کچھ کر ہی نہیں سکتے! یہ سمجھایا جاتا تھا ہمیں، ہماری قوم اور ہمارے نوجوانوں کو اور عوام کو بھی باور ہو چلا تھا۔
ہماری نوجوانی کے ایام میں معاشرے میں جو عام تاثر تھا وہ یہی تھا کہ ایرانی خود تو کچھ کر ہی نہیں سکتے۔ برطانوی، یورپی اور امریکی پیش پیش رہیں اور ہم ان کے پیچھے پیچھے چلیں اور ان سے سیکھیں۔ یہ چیز کہ ہم بھی کوئی نئی راہ تلاش کر سکتے ہیں، کسی نئی چیز کی بنیاد رکھ سکتے ہیں، شعبہ ھائے زندگی میں سے کسی اہم شعبے کو ہم بھی فتح کر سکتے ہیں، ہماری قوم کے لئے ناقابل یقین تھی۔ لیکن آج صورت حال بالکل اس کے بر عکس ہو گئی ہے۔ ایرانی نوجوان کے سامنے پیش کیا جانے والا کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں ہے جس کے سلسلے میں اس کے اندر یہ احساس پیدا ہو کہ یہ تو میرے بس کا روگ نہیں ہے۔ میں نے عرض کیا کہ علمی امور، تکنیکی امور، سیاسی مسائل کے تعلق سے علم و تحقیق کے شعبے سے وابستہ افراد جن میں بیشتر تعداد ملک کے نوجوانوں کی ہے ان کے سامنے جب کوئی بھی چیز پیش کی جاتی ہے، جب ان کے سامنے گوناگوں امور رکھے جاتے ہیں تو ایرانی نوجوان یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ انجام دے سکتا ہے۔ یہ خود اعتمادی بہت قیمتی چیز ہے۔ علمی مراکز میں پائی جانے والی اس خود اعتمادی کا سرچشمہ ہے قومی خود اعتمادی۔ میں نے کئی سال قبل یہ موضوع اٹھایا تھا کہ ملت کے اندر قومی خود اعتمادی پیدا ہونا چاہئے۔ یعنی عوام میں یہ احساس پیدا ہونا چاہئے کہ تمام بڑے کاموں کو عزم و ارادے، مرضی و خواہش اور جرئت عمل و پیش قدمی کے ذریعے انجام دیا جا سکتا ہے۔ ہم کسی بھی کام میں عاجز نہیں ہیں۔ یہ ترقی کی تمہید اور مقدمات ہیں۔
ہم نے اس سال کو بلند ہمتی اور کثرت عمل کا سال قرار دیا ہے۔ یعنی زیادہ ہمت و حوصلہ اور زیادہ کام۔ کئي گنا (ہمت اور عمل) ہماری خواہش ہے۔ اب دو برابر ہو جائے، تین برابر ہو جائے یا دس برابر ہو جائے تو بھی ہم بس نہیں کہیں گے۔ لیکن یہ بھی نہیں ہے کہ اگر کسی شعبے میں دگنا کام انجام نہیں دے سکے، دگنا سے کچھ کم انجام دے پائے تو مایوس ہو جائیں۔ ہرگز نہیں۔ ہدف یہ ہے کہ ہم ماضی کے مقابلے میں زیادہ بلند ہمتی سے کام کریں اور ماضی کے مقابلے میں ہمارا عمل زیادہ ہو۔ یہ اس سال کا نعرہ ہے۔ یہ نعرے نہ تو محض رسمی چیز ہے اور نہ ہم یہ کہتے ہیں کہ اس سے اسی سال کے اندر ملک کی تمام مشکلات بر طرف ہو جائیں گی۔ ایسا نہیں ہے۔ یہ رسمی اور دکھاوٹی عمل نہیں ہے۔ یہ ہمیں واضح اور روشن راستہ بتاتا ہے۔
گزشتہ سال کو ہم نے معیار صرف کی اصلاح کا سال قرار دیا۔ میں نے گزشتہ سال کے پہلے ہی دن اسی جگہ پر واضح کر دیا تھا کہ معیار صرف کی اصلاح کوئی ایسا عمل نہیں ہے جو ایک سال کے اندر پورا کر لیا جائے۔ گزشتہ سال میں نے کہا کہ معیار صرف کی اصلاح کی سمت بڑھنے کا سال ہے۔ تو ایک حرکت دیکھنے میں آئی۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ معیار صرف کی اصلاح ہو گئی، ابھی بہت فاصلہ طے کرنا باقی ہے اور جب تک ہم معیار صرف کی اصلاح نہ کریں گے، جب تک ہمیں یہ معلوم نہ ہوگا کہ پانی کو کیسے استعمال کرنا چاہئے، بجلی کو کیسے خرچ کرنا چاہئے، روٹی کو کیسے استعمال کرنا چاہئے، پیسے کو کیسے خرچ کرنا چاہئے، جب تک ہمیں ان چیزوں کے صحیح استعمال کا طریقہ معلوم نہ ہوگا، ان سے استفادہ کرنے کا صحیح راستہ ہماری سمجھ میں نہیں آئے گا، اس وقت تک ہماری مشکلات بدستور باقی رہیں گی۔ ہمیں معیار صرف کی اصلاح کی کوشش جاری رکھنا چاہئے۔ سن اٹھاسی ( ہجری شمسی) میں حکام نے کچھ کام انجام دئے، کچھ منصوبہ بندیاں کیں، کچھ تحقیقات انجام دیں لیکن یہ سلسلہ رکنا نہیں چاہئے۔ اس سے ہمیں سمت کا پتہ چل گیا، معلوم ہو گیا کہ سن اٹھاسی (ہجری شمسی) میں معیار صرف کی اصلاح کا مسئلہ بنیادی اور حیاتی مسئلہ ہے جس کے لئے کوشش کرنا چاہئے۔ اس سال بھی ایسا ہی ہے۔ امسال ہم نے بلند ہمتی اور زیادہ ہمت کی بات کہی تو یہ بلند ہمتی اسی سال سے مختص نہیں ہے، بلند ہمتی سن نواسی (ہجری شمسی) تک ہی محدود نہیں ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اس چیز کو اپنی آنکھوں کے سامنے قطب نما کی مانند رکھیں، کبھی بھی اپنے حوصلے پست نہ ہونے دیں۔ ہمیں بہت سے بڑے کام انجام دینے ہیں، ہمارے پاس بہت بلند اہداف ہیں، ہمیں اپنی ہمت بلند رکھنی ہے تاکہ ان اہداف کو حاصل کر سکیں۔ کام میں وسعت اور کثرت پیدا کرنی چاہئے تاکہ ہم ان اہداف تک رسائی حاصل کر سکیں۔
گزرا سال ہمارے ملک کے لئے بڑی اہمیت کا حامل سال تھا۔ میری نظر میں تو، جیسا کہ میں نے پیغام نوروز میں بھی ملت ایران کی خدمت میں عرض کیا، سن اٹھاسی (ہجری شمسی) کا سال ملت ایران کے نام رہا، یہ ایرانی عوام کی فتح کا سال تھا، یہ ہمارے ملک اور اسلامی نظام میں عظیم شعبہ ہائے زندگی میں ملت ایران کے نمایاں تعاون اور موجودگی کا سال تھا۔ ایک بار بائیس خرداد ( بارہ جون 2009) کو چار کروڑ افراد نے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ یعنی انتخابات میں پچاسی فیصدی لوگوں کی شراکت ہوئی۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ یقینا کسی بھی نظام کی قانونی حیثیت کے سلسلے میں عوام کی شراکت اور تعاون کلیدی کردار کا حامل ہوتا ہے۔ مغرب میں جو لوگ اپنی قانونی حیثیت کا سرچشمہ بنیادی طور پر عوامی شراکت اور تعاون کو قرار دیتے ہیں اور اس میں کسی بھی اور امر کو دخیل نہیں مانتے ان کے پاس آج بھی ایسی عوامی مقبولیت اور مینڈیٹ نہیں ہے۔ ہمارے ہاں کے انتخابات کے موقع پر ہی برطانیہ میں بھی انتخابات ہوئے جس میں ووٹروں کی تیس فیصدی تعداد نے شرکت کی۔ پچاسی فیصدی کہاں اور تیس فیصدی کہاں؟! اس عوامی شراکت اور اس عوامی اقدام کی بڑی قدر و قیمت ہے۔ دنیا کے سیاسی امور کے مبصرین اور تجزیہ نگار ان چیزوں سے سرسری طور پر نہیں گزرتے۔ ممکن ہے کہ ان کے ذرائع ابلاغ میں اسے منعکس نہ کیا گيا ہو، ممکن ہے کہ ان کے سیاستداں اپنے بیانوں میں جن کا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اس بات کو اپنی زبان پر نہ لائیں، ان کی پردہ پوشی کریں لیکن دل ہی دل میں وہ بھی متاثر ہوئے ہیں، بات ان کی سمجھ میں آ رہی ہے۔
یہ قوم اپنی بات پر ثابت قدمی کے ساتھ قائم ہے۔ یہ ہماری قوم کا بہت بڑا کارنامہ تھا۔ قوم نے ملک کی تاریخ میں یہ چیز ہمیشہ کے لئے رقم کر دی کہ اسلامی نظام کے قیام کو تیس سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد، وہ نظام جس کی بنیادیں اسلامیت اور جمہوریت پر استوار ہیں اور یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کا اٹوٹ حصہ ہیں، جو لوگ نظام کی ان دو خصوصیات کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ در حقیقت اسلامی جمہوریہ کو پہچان ہی نہیں پائے ہیں۔ (تیس سال کے بعد بھی عوام) اس نظام کے بنیادی اصولوں کے اس درجہ مخلص و وفادار ہیں کہ انتخابات میں اتنے جوش و خروش کے ساتھ اور اتنے پرشکوہ انداز میں شرکت کرتے ہیں۔ یہ ایک عظیم عوامی کارنامہ تھا۔ اس کارنامے کے مقابلے میں ملت ایران کے دشمنوں نے کچھ منصوبے تیار کئے تھے۔ انہوں نے اپنی سازشوں پر عمل آوری شروع کر دی۔ اگر بائیس خرداد تیرہ سو اٹھاسی ( بارہ جون دو ہزار نو) کو انتخابات میں آپ کی شرکت معمولی ہوتی، اگر چار کروڑ کے بجائے تین کروڑ لوگ ہی شریک ہوتے تو شاید آپ کا دشمن اپنا شوم ہدف پورا کر لے جاتا۔ پہلے سے کچھ منصوبے تیار کر لئے گئے تھے۔ میں کسی پر الزام نہیں لگانا چاہتا لیکن میں دشمن کی روش کو جانتا ہوں، اسے دیکھ کر پہچان لیتا ہوں، میں اس کا انکار نہیں کر سکتا۔ دشمن کی روش معین تھی۔ انہوں نے دوسری جگہوں پر بھی اسی طرز پر کام کیا ہے۔ جب عالمی سامراجی حکومتیں کسی نظام سے ناخوش اور ناراض ہوتی ہیں تو جو حربے اپناتی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ انتخابات کی تاک میں رہتی ہیں، ان انتخابات میں اگر ان کے پسندیدہ اور منظور نظر افراد بر سر اقتدار نہ آ سکے بلکہ ان کی مرضی کے خلاف افراد کو اقتدار مل گیا تو وہ بظاہر عوامی نظر آنے والے اقدام کے ذریعے حالات کو دگرگوں کر دیتے ہیں۔ نعروں کے ذریعے کچھ لوگوں کو میدان میں لاتے ہیں اور سڑکوں کے مناظر کے ذریعے دباؤ ڈال کر اس حقیقت کو تشدد کے سہارے تبدیل کر دینے کی کوشش کرتے ہیں جو قانونی طریقے سے وجود میں آئی ہے۔ یہ ایک جانی پہچانی سازش ہے۔ اگر آپ غور کریں تو پائیں گے کہ انتخابات کے بعد رونما ہونے والے واقعات، جن کے تار عوام کی نظر میں اور تیز بیں، صداقت پسند اور غیر جانبدار تجزیہ نگاروں کی نظر میں بیرونی عناصر سے جڑے ہوئے تھے، کی جڑ یہی تھی۔ اگر کسی کو پردے کے پیچھے کے حالات کی کوئي خبر نہ ہو تب بھی وہ صورت حال کا جائزہ لیکر سمجھ سکتا ہے کہ یہ حرکت قوم کے دشمنوں کی کارستانی ہے، اغیار کا کام ہے۔ انتخابات منعقد ہوتے ہیں، ایک قانونی عمل طے پاتا ہے، جس کا ایک نتیجہ نکل کر سامنے آتا ہے، اب اس نتیجہ کو تشدد اور بد امنی کے ذریعے بدلنے کی کوشش کی جائے، کچھ لوگوں کو سڑکوں پر اتار دیا جائے جو کبھی موقع پڑا تو تشدد پر بھی اتر آئیں، آگ زنی بھی کریں، بینک جلا دیں، بس کو آگ لگا دیں، تاکہ قانونی نتائج بدل جائیں۔ یہ تو ایسی حرکت ہے جو شریعت کے بھی خلاف ہے اور قانون کے بھی منافی ہے۔ بالکل عیاں ہے کہ یہ عمل اغیار کی جانب سے انجام دیا جا رہا ہے۔ ملک میں یہ کارنامہ انجام دینے کی کوشش کی جا رہی تھی۔
ملک کے لئے سخت امتحان کی گھڑی تھی۔ میں آپ کی خدمت میں عرض کروں گا کہ یہ بہت بڑی آزمائش تھی، جس میں عبرتیں بھی بہت زیادہ تھیں اور درس بھی بہت زیادہ تھے۔ اس امتحان میں ملت ایران پوری اتری۔ وہ قوم کو تقسیم کر دینا چاہتے تھے، اقلیتی اور اکثریتی گروہوں میں، انتخابات میں فتح حاصل کرنے والے گروہ اور انتخابات میں مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر پانے والے گروہ کے درمیان۔ وہ ان گروہوں کو آپس میں لڑوانا چاہتے تھے۔ قوم کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دینا چاہتے تھے، وہ چاہتے تھے کہ کچھ شر پسند عناصر بھی بیچ میں کود پڑیں اور آشوب برپا کرکے ملک میں جنگ شروع کروا دیں، خانہ جنگی کی آگ بھڑکا دیں، ان کو اس کی امید تھی۔ تاہم قوم نے ہوشیاری اور دانشمندی کا ثبوت دیا۔ آپ نے دیکھا کہ انتخابات کے دن عوام تیرہ چودہ ملین اور چوبیس پچیس ملین کے دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے تھے۔ لیکن ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ یہ دونوں گروہ دوبارہ ایک ہو گئے اور انہوں نے شر پسندوں اور بلوائیوں کے مقابلے میں محاذ سنبھال لیا۔ ایسے مواقع پر ہی انسان قوم کی بیداری کو سمجھ سکتا ہے۔ عوام کے درمیان فتنہ و فساد پھیلانا چاہتے تھے۔ وہ بد خواہ عناصر جو تیس سال سے اس انقلاب اور اس قوم کے خلاف جو کچھ بس میں تھا کرتے آئے تھے، موقع پا گئے اور اپنی تشہیراتی مہم کے ذریعے وارد میدان ہو گئے۔ اس سے زیادہ وہ کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے۔ اگر امریکی، برطانوی اور صیہونی اس بات پر قادر ہوتے کہ تہران کی سڑکوں پر اپنی فوج اتار دیں تو آپ یقین جانئے کہ وہ ایسا ضرور کر گزرتے۔ اگر ان کے بس میں ہوتا کہ باہر بیٹھ کر ملک کے اندر موجود اپنے مہروں اور ایجنٹوں کے ذریعے حالات کو اپنی مرضی کے مطابق موڑ لیتے تو وہ ایسا ضرور کرتے۔ ان کو خوب معلوم تھا کہ اس سے انہیں نقصان اٹھانا پڑے گا۔ وہ بس اتنا ہی کر سکتے تھے کہ تشہیراتی میدان میں اور عالمی سیاست کے میدان میں شر پسندوں اور بلوائیوں کی حمایت میں بول دیں۔ سامراجی ممالک کے صدور اس قضیئے میں میدان میں آ گئے تھے۔ انہوں نے سڑکوں پر تخریبی کارروائياں کرنے والے شر پسندوں کو جو آگ زنی کے ذریعے اپنا تعارف کرانا چاہتے تھے ملت ایران کا نام دیا کہ شاید حالات کو اپنی مرضی کے مطابق عالمی رائے عامہ کے سامنے اور ہمارے ملک کے عوام کے سامنے ظاہر کریں لیکن انہیں شکست ہوئی۔
سب سے محکم اور کاری ضرب قوم نے تیس دسمبر ( دو ہزار نو) اور گيارہ فروری ( دو ہزار دس) کو لگائی۔ گیارہ فروری ( انقلاب کی سالگرہ) کا قوم کا کارنامہ بہت عظیم تھا، تیس دسمبر ( دو ہزار نو) کا اقدام بھی اسی طرح ( بہت با عظمت تھا)۔ قوم کے اتحاد کا منظر سامنے آیا۔ سیاسی میدان میں کسی بھی امیدوار کو ووٹ دینے والے رائے دہندگان نے جب دیکھا کہ دشمن میدان میں آ گيا ہے، جب وہ سمجھ گئے کہ دشمن کے پلید اہداف کیا ہیں تو انہوں نے ان افراد کے بارے میں بھی نظر ثانی کی جن کے سلسلے میں وہ پہلے حسن ظن رکھتے تھے، انہیں معلوم ہو گیا کہ راہ انقلاب یہ ہے، صحیح راستہ یہ ہے۔ گيارہ فروری کو قوم ایک نعرے کے ساتھ میدان میں اتری۔ عوام کے درمیان تفرقہ ڈالنے اور انہیں تقسیم کرنے کی بہت کوشش کی گئی لیکن اس میں کامیابی نہیں ملی۔ قوم ڈٹ گئی، یہ ملت ایران کی فتح تھی۔ بارہ جون سے لیکر گیارہ فروری تک کا آٹھ مہینے کا درمیانی وقفہ ملت ایران کے لئے ایک پرافتخار اور عبرتوں سے بھرا ہوا دور تھا۔ یہ بہت بڑا سبق ثابت ہوا۔ ایک نئی آگاہی پیدا ہوئی۔ ملت ایران کی بصیرت میں ایک نئی فصل کا اضافہ ہوا۔ یہ بڑا اہم مقدمہ ہے جس کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہئے۔
اب بلند ہمتی اور کثرت عمل کی بنیاد اسی پر رکھی جائے۔ اسے زیادہ حوصلے اور زیادہ عمل کی اساس بنایا جائے۔ مختلف میدان موجود ہیں۔ ہمیں موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہئے۔ انقلاب کے بعد گزرنے والا ہر سال اور ہر سال کا ہر مہینہ اور ہر مہینے کا ہر دن خاص اہمیت و ارزش کا حامل ہے۔ اسے گنوانا نہیں چاہئے۔ ممکن ہے کہ سن اٹھاسی (ہجری شمسی) کے ان آٹھ مہینوں کے دوران جس میں فتنوں اور بلوؤں نے بعض لوگوں کی توجہات اپنی جانب مرکوز رکھی، بعض کام ادھورے رہ گئے ہوں، ان کو پورا کرنا چاہئے۔ تیز رفتاری کے ساتھ عمل کرنا چاہئے۔ بہت سے میدان سامنے ہیں۔ سب سے پہلے درجے میں علم و تحقیق کا میدان ہے۔ یونیورسٹیوں اور تحقیقاتی مراکز کو تمام موضوعات کے سلسلے میں، سائنس کے موضوعات کے سلسلے میں، آرٹس کے موضوعات کے سلسلے میں اور ملک کی ضرورتوں کو پورا کرنے والے دیگر موضوعات کے سلسلے میں زیادہ بلند ہمتی و حوصلے کے ساتھ علمی اور تحقیقاتی سرگرمیاں انجام دینی چاہئے۔ اپنی نگاہیں زیادہ فاصلے پر واقع منزلوں پر مرکوز کریں اور پوری تندہی سے کام کریں۔
میں نے عرض کیا کہ ہمارے نوجوانوں کے اندر یہ حوصلہ ہونا چاہئے کہ ایک دو دہائیاں گزرتے گزرتے اپنے ملک کو دنیا کے سائنسدانوں کے لئے علمی ماخذ میں تبدیل کر دیں۔ تو یہ رہی علم و تحقیق کے شعبے میں بلند ہمتی اور کثرت عمل کی بات۔
ملک میں دستیاب ذخائر او وسائل کے استعمال میں بھی بلند ہمتی اور زیادہ محنت (کی ضرورت ہے)۔ مستقبل میں ملک کی تعمیر و ترقی کو لئے جو چیزیں مفید واقع ہو سکتی ہیں یا جن سے عوامی زندگی میں رفاہ و رونق لائی جا سکتی ہے، ان کا بھرپور استعمال کیا جانا چاہئے۔ یعنی وہی چیز جو معیار صرف کی اصلاح کا تقاضا بھی ہے۔ ملک میں پانی کا صحیح استعمال ہو۔ اس وقت ہم اپنے ملک میں پانی کا صحیح استعمال نہیں کر رہے ہیں۔ گزشتہ سال جسے میں نے معیار صرف کی اصلاح کا سال قرار دیا، ہمارے ملک کے محققین نے ہمیں اطلاع دی کہ ملک میں جتنا پانی خرچ ہو رہا ہے اگر اس کا دس فیصدی حصہ بھی کفایت شعاری کے ذریعے بچایا جائے تو یہی دس فیصد گھروں میں پینے اور صنعتوں میں استعمال کے لئے جس مقدار میں پانی کی ضرورت ہے اس کے برابر ہو گیا۔
آج نوے فیصدی پانی زرعی شعبے میں خرچ ہوتا ہے، اسراف اور فضول خرچی کے ساتھ۔ دس فیصدی پانی پینے کے لئے صنعتوں میں اور دیگر چیزوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یعنی اگر ہم زراعت کے شعبے میں دس فیصدی پانی، کفایت شعاری سے بچا لیں تو صنعتوں کے لئے اور پینے کے لئے ہمارے پاس پانی کی دگنا مقدار موجود ہوگی۔ یہ کتنا اہم موضوع ہے! بجلی کے استعمال کا معاملہ، پٹرول اور ڈیزل کے استعمال کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ یہ سبسڈی کو با ہدف و با مقصد بنانے کا مسئلہ جو اٹھایا گيا ہے وہ انہی چیزوں کی وجہ سے ہے۔
میں یہیں آپ حضرات کے سامنے سفارش کروں گا، مجریہ کو بھی اور مقننہ کو بھی کہ اس اہم ترین مسئلے میں ایک دوسرے سے تعاون کریں، ایک دوسرے کی مدد کریں۔ قضيئے کا ایک رخ مجریہ ہے کہ جس کے دوش پر یہ ذمہ داری ہے، حکومت کو اس کے لئے کام کرنا چاہئے، اقدام کرنا چاہئے اور اس سلسلے میں دوسرے تمام محکموں منجملہ مقننہ کو حکومت کی مدد کرنی چاہئے۔ دوسری طرف حکومت کو بھی چاہئے کہ جو قانونی راستہ ہے اور جو چیز قانونی مراحل طے کر چکی ہے اسی کو معتبر قرار دے اور اسی کے مطابق عمل کرے۔ بنابریں حکومت اور پارلیمنٹ، مجریہ اور مقننہ اس معاملے میں شانہ بشانہ آگے بڑھیں، ایک دوسرے کی مدد کریں اور ایک ساتھ رہیں۔ ید اللہ مع الجماعۃ اگر دونوں ساتھ رہیں گي تو اللہ تعالی بھی ان کی مدد کرے گا۔ تو ملک کے موجودہ ذخائر اور وسائل کا صحیح اور بھرپور استعمال بہت اہم ہے۔ ان چیزوں کا صحیح استعمال جو ہمارے پاس ہیں اور بد قسمتی سے جن میں بعض کے سلسلے میں اسراف اور فضول خرچی ہو رہی ہے۔
ملکی پیداوار کو معیاری بنانے کے لئے بلند ہمتی اور کثرت عمل۔ یہ بھی کلیدی اور بنیادی کاموں میں سے ایک ہے۔ آج ہمارے پاس ملکی پیداوار بہت ہے۔ صنعتی شعبے میں بھی اور زرعی شعبے میں بھی۔ اس کو معیاری بنانے پر توجہ دینا چاہئے، ان کے معیار کو بہتر بنانا چاہئے۔ یہ ایسی ہونی چاہئے کہ صارف کو لگے کہ اس کے ملک میں جو پیداوار ہو رہی ہے اور ایرانی محنت کش کے ہاتھوں جو چیز تیار ہو رہی ہے معیار اور کیفیت کے لحاظ سے غیر ملکی اشیاء سے بہتر یا کم از کم اس کی ہم پلہ ہے۔
صحت و سلامتی کے سلسلے میں بلند ہمتی اور کثرت عمل۔ صحت و سلامتی کے مسئلے پر بھی پانچویں ترقیاتی منصوبے میں اور مختلف محکموں کے دیگر منصوبوں میں توجہ دینی چاہئے۔ صحت و سلامتی کے تعلق سے عمومی ورزش کی عادت بھی اہم ہے، جس پر میں نے بارہا تاکید کی ہے اور ایک بار پھر اس کی سفارش کر رہا ہوں۔ ورزش سب کے لئے ضروری ہے۔ معاشرے میں ورزش اور کسرت کی عام فضا میں کام اور محنت کا حوصلہ، آمادگی، صحت و سلامتی اور جوش و جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے سلسلے میں بلند ہمتی اور کثرت عمل؛ بہت سے وہ افراد جن کے پاس سرمایہ ہے، پیسہ ہے، بڑی آمدنی ہے اور ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ اس آمدنی کو کیسے خرچ کریں، ان کے سلسلے میں بھی معیار صرف کی اصلاح کا مرحلہ سامنے آتا ہے۔ وہ اپنی دولت کو سرمایہ کاری کے بجائے فیشن، بے مقصد، عبث، بے فائدہ اور خرچیلے غیر ملکی سفر پر یا پھر خانگی استعمال کے سامان کو بار بار تبدیل کرنے پر صرف کر دیتے ہیں۔ یہ باتیں سرمائے کے سلسلے میں فضول خرچی کے مترادف ہیں۔ پیسے کو، آمدنی کو سرمایہ کاری میں لگایا جا سکتا ہے۔ آج اس کے لئے وسائل دستیاب ہیں۔ ملک میں شیئر مارکٹ تیار ہو جانے کے بعد بآسانی سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے۔ ہر ایک سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔
ایک اور شعبہ جس میں بلند ہمتی اور کثرت عمل کی ضرورت ہے، نئے افکار و نظریات کی پیداوار کا شعبہ ہے۔ مطالعہ اور مختلف موضوعات کے سلسلے میں معلومات میں اضافہ۔ ہم نے جو آزادانہ اظہار خیال کے فورم کی تشکیل کی تجویز دی ہے، اگر وہ یونیورسٹیوں اور دینی تعلیمی مراکز میں قائم کر دیا جائے تو معاشرے کو ایک قیمتی فکری ذخیرہ مل سکتا ہے۔
سب سے بڑھ کر بلند ہمتی اور کثرت عمل کی ضرورت ہے غربت، بد عنوانیوں اور نا انصافیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے۔ یہ اہداف ہمارے سامنے ہیں۔ قوم کو، حکومت کو اور عہدہ داروں کو اس سلسلے میں محنت کرنی چاہئے۔
البتہ ہمارے سامنے چیلنج بھی ہیں اور رکاوٹیں بھی موجود ہیں۔ ہماری قوم ایسی نہیں ہے کہ جس کا دنیا میں کوئی دشمن نہ ہو۔ ان قوموں کا دنیا میں کوئي دشمن نہیں ہے جن کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔ جس قوم کا اپنا مخصوص راستہ ہے، مخصوص ہدف ہے، مخصوص عمل ہے، جو محنت کر رہی ہے اس کے دشمن بھی بن جاتے ہیں۔ البتہ دشمن، دشمن میں فرق ہوتا ہے۔ دنیا میں امریکی حکومت کے بھی بہت دشمن ہیں لیکن امریکی حکومت کے دشمن کون لوگ ہیں؟ قومیں، یہ قومیں ہیں جو امریکی حکومت سے متنفر ہیں، کبیدہ خاطر ہیں اور انہیں امریکی حکومت بہت بری لگتی ہے، کیوں؟ اس لئے کہ پچاس ساٹھ سال سے لیکر اب تک دیگر ممالک پر جارحیت اور تجاوز کا طویل سلسلہ ہے جو امریکی حکومت کے ریکارڈ میں درج ہے۔ گزشتہ پچاس برسوں کے دوران امریکی حکومت نے تقریبا ساٹھ ممالک پر لشکر کشی کی ہے۔ یہ کوئی مذاق ہے؟ کیا یہ کوئي معمولی بات ہے؟ تو اس کے بھی دشمن ہیں اور اسلامی جمہوری نظام کے بھی کچھ دشمن ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اسلامی جمہوری نظام کے دشمن کون لوگ ہیں؟ سامراجی حکومتیں، صیہونی سرمایہ دار، انسانیت کے دشمن عناصر، غدار و سفاک جاسوسی ایجنسیاں۔ تو معلوم یہ ہوا کہ دشمن موجود ہیں اور سرگرمیاں بھی انجام دے رہے ہیں۔
ملک کے عوام اور حکام کو چاہئے کہ ہوشیار رہیں، اس دشمنی کا جائزہ لیتے رہیں، اس دشمنی کے مقابلے میں تدبر اور جرئت عمل سے کام لیں۔ تدبر بھی ضروری ہے اور جرئت عمل بھی لازمی ہے۔ اگر جرئت عمل نہ ہو، سامراجی حکومتوں کے کرخت اور ہیبتناک چہرے کے سامنے انسان ہمت ہار جائے تو اس کی شکست یقینی ہے۔ سامراجی طاقتوں کا ایک حربہ یہی گیدڑ بھبکیاں دینا، کرخت چہرا بنانا ہے اور حق کو ناحق ظاہر کرنا ہے۔ ان کے سامنے اگر آپ جرئت و شجاعت سے کام نہ لیں، اگر ملک کے حکام سامراجی اور معاندانہ اقدامات کا ڈٹ کر مقابلہ نہ کر سکیں تو ان کی شکست یقینی ہے۔ وہ خود بھی شکست کھائیں گے اور قوم کو بھی شکست سے دوچار کریں گے۔ بنابریں شجاعت بہت ضروری ہے۔
تدبر اور سوجھ بوجھ بھی ضروری ہے۔ تدبر یعنی دشمن کے منصوبوں اور عزائم کو بھانپ لینا اور اس کا جواب دینے کے لئے صحیح اور برمحل فیصلہ کرنا۔ دشمن مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ آپ غور کیجئے! ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام کے مقابلے میں صیہونی ہیں، امریکی حکومت ہے۔ کبھی وہ بھیڑئے کا روپ اختیار کر لیتے ہیں تو کبھی لومڑی کا روپ لے لیتے ہیں۔ کبھی تشدد آمیز اور کرخت چہرا لیکر سامنے آتے ہیں تو کبھی فریبکارانہ انداز اختیار کرتے ہیں۔ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
میں نے گزشہ سال کے پہلے ہی دن یہیں پر ہونے والے عظیم الشان اجتماع میں عوام سے کہہ دیا تھا کہ امریکا کے نئے صدر کی جانب سے جو بیان آ رہے ہیں اور جن کا کہنا ہے کہ ہم دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں ان کے جواب میں ہمیں باریک بینی سے حالات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں دیکھنا اور سمجھنا چاہئے کہ کیا واقعی دوستی کا ہاتھ بڑھایا گيا ہے؟ کیا واقعی ان کی نیت صاف ہے یا دلکش الفاظ کے قالب میں وہی مخاصمانہ نیت پوشیدہ ہے؟ یہ ہمارے لئے بے حد اہم ہے۔ گزشہ سال میں نے کہہ دیا تھا کہ اگر مخملی دستانے کے اندر آہنیں پنجہ ہوا تو ہم اپنا ہاتھ آگے نہیں بڑھائيں گے، ہم اس دوستی کو قبول نہیں کریں گے۔ اگر تبسم کی آڑ میں پیٹھ کے پیچھے خنجر چھپایا گيا ہے تو (ہم سے پوشید نہیں رہے گا) ہم پوری طرح ہوشیار ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حقیقت وہی نکلی جس کا ہمیں اندیشہ تھا۔ امریکی حکومت، نئی انتظامیہ اور نئے صدر نے صحیح اور منصفانہ تعلقات میں دلچسپی کے تمام تر دعوؤں کے باوجود کہ خط بھی لکھا، پیغام بھی بھیجا، لاؤڈ اسپیکروں میں اعلان کیا اور پارلیمنٹ میں بار بار دہرایا کہ ہم اسلامی جمہوریہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لانا چاہتے ہیں (اس سب کے باوجود) عملی میدان میں سب کچھ بر عکس نظر آیا۔ انہی انتخابات کے بعد کے آٹھ مہینوں میں انہوں نے بد ترین موقف اختیار کیا۔ امریکی صدر نے سڑک چھاپ بلوائیوں اور تخریب کاروں (کی حرکتوں) کو شہری تحریک کا نام دیا! بینک کو آگ لگا دینا، بس جلا دینا، بے گناہ راہگیر کی پٹائی کر دینا، شہیدوں کی ماؤں اور بہنوں کو اس لئے زد و کوب کرنا کہ ان کے سر پر چادر ہے، کسی نوجوان کی موٹر سائکل کو صرف اس لئے جلا دینا کہ اس نے داڑھی رکھی ہوئي ہے، اس کو شہری تحریک کہتے ہیں؟ آپ (امریکی) انسانی حقوق کا دم بھرتے ہیں، جمہوریت کا دم بھرتے ہیں اور انتخابات میں عوام کی با شکوہ شرکت کو نظر انداز کر دیتے ہیں، گول کر جاتے ہیں، شر پسندوں اور آشوب پسندوں کی حمایت کرتے ہیں؟ اس کو شہری تحریک کا نام دیتے ہیں؟ آپ کو شرم نہیں آتی؟ دعوا تو ہے کہ ہم انسانی حقوق کے طرفدار ہیں، لیکن کیا انسانی حقوق کے سلسلے میں آپ کے اندر کوئی احساس ذمہ داری بھی ہے؟ آپ تو اس پوزیشن میں ہیں ہی نہیں کہ کسی سے انسانی حقوق کے بارے میں بات کریں۔ آپ نے اپنے کون سے اقدامات کو ماضی کی بنسبت تبدیل کر دیا ہے؟ کیا افغانستان میں قتل عام کم کر دیا ہے؟ کیا عراق میں آپ نے اپنی مداخلت کم کر دی ہے؟ کیا آپ نے غزہ میں بے گناہ عوام کے ہولناک قتل اور بچوں کی نابودی کی حمایت نہیں کی جو آج آپ انسانی حقوق کی حمایت کے دعوے کر رہے ہیں؟
میں آج ایک بار پھر اعلان کرتا ہوں کہ جو حکومتیں سامراجی انداز میں اور سامراجی عزائم کے ساتھ ایرانی عوام اور اسلامی جمہوریہ کے حکام کے سامنے آئیں گی وہ یاد رکھیں کہ ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام کے حکام انہیں مسترد کر دیں گے، ٹھکرا دیں گے۔ یہ ہرگز برداشت نہیں ہے کہ آپ ایک طرف تو صلح و دوستی کی بات کریں اور دوسری طرف فتنہ پھیلائیں اور بخیال خود اسلامی جمہوری نظام کو ضرب لگانے کی کوشش کریں۔
ملت ایران بیدار ہے، حکام چوکنے ہیں۔ مناسب راستہ بھی یہی ہے کہ انسان دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھے اور یہ غور کرے کہ وہ چاہتا کیا ہے۔ وہ لومڑی کے لباس میں ہو کہ بھیڑئے کے روپ میں ملت ایران کی نظروں سے اس کی حقیقت پوشیدہ و مخفی نہیں رہنی چاہئے۔ ملت ایران کو چاہئے کہ دانشمندانہ انداز میں فیصلہ کرے۔ ہم انشاء اللہ دانشمندانہ فیصلے کرنے میں کامیاب بھی ہوں گے۔ ہم دشمنوں کے غم و غصے سے مرعوب ہوکر قوم کے مفادات کے سلسلے میں کوئی بھی سمجھوتا نہیں کریں گے۔ قوم کی ترقی کے لئے جو کچھ بھی ضروری ہوگا انجام دیں گے اور ہمیں پورا یقین و اطمینان ہے کہ فتح و کامرانی اس قوم کا مقدر بنے گی، جیسا کہ ان تیس برسوں میں یہ قوم کامیابی حاصل کرتی آئی ہے۔ ان تیس برسوں میں دشمنوں نے ملت ایران کے خلاف ہر موقع پر ہزیمت اٹھائی ہے اور وہ اسلامی جمہوری نظام کو ضرب لگانے سے قاصر رہے ہیں۔ وہ عوام کو نظام سے جدا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ انشاء اللہ آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ آئندہ بھی اللہ تعالی ملت ایران کو فتح و کامرانی اور ترقی و پیشرفت عطا کرے گا اور شکست و پسماندگی ملت ایران کے دشمنوں کا مقدر بنے گی۔
پالنے والے! ہمیں اللہ تعالی پر ایمان، قرآن کریم اور دین اسلام پر ثابت قدم رکھ۔ پروردگارا! ہمارے قلوب کو اپنی بارگاہ میں تضرع اور ارتکاز سے ایک لمحے کے لئے بھی غافل نہ رکھ۔ پروردگارا! حضرب امام زمانہ علیہ السلام کی دعاؤں سے ہمیں محروم نہ رکھ۔ پالنے والے! اس قوم پر، ان نوجوانوں پر، جوش و جذبے سے سرشار ان دلوں پر ہمیشہ اپنا لطف و کرم نازل فرما۔ پروردگارا! اس قوم اور مسلم اقوام کے درمیان اخوت و برادری کے رشتے کو روز بروز مستحکم تر فرما اور دشمنوں کے مکر و حیلے کو ناکام بنا۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
(1) سورہ فتح، آیت 8 و 9
(2) سورہ احزاب، آیت 45 و 46
(3) سورہ مائدہ، آیت 66
(4) مائدہ، آیت 15 و 16