بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں بھی منجی بشریت رسوال اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور معلم تاریخ اور مذہب تشیع کے بانی حضرت امام صادق ( علیہ السلام ) کی ولادت مسعود کی آپ تمام بہنوں اور بھائیوں کو مبارکباد پیش کرتاہوں اور آپ سب کو بالخصوص دور سے تشریف لانے والوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔
ہفتہ دفاع مقدس میں جو اس قوم کی زندگی اور انقلاب کے بعد کی پر افتخار تاریخ کے ایک اہم باب کی یاد دلاتا ہے، اس سے زیادہ مناسب اور ضروری کوئی اور چیز نہیں ہے کہ ہم زمانہ جنگ کے فداکاروں، جاں بکف سپاہیان اسلام کوجنہوں نے معرکہ حق و باطل میں اسلام اور اس قوم کی آبرو اور راہ خدا میں جہاد کی عظمت کی حفاظت کے لئے اپنی جان کی بازی لگا دی، یاد کریں اور خراج عقیدت پیش کریں۔ بالخصوص ان پاکباز سپاہیوں کو کہ جنہوں نے اپنا سب کچھ اس میدان میں نثار کر دیا، یعنی ہمارے ‏عزیز شہداء ، ان کے صابر اہل خاندان، وہ فداکار، بلند نظر اور گرانقدر جانباز کہ جنہوں نے اپنے اعضائے بدن کا نذرانہ پیش کیا، ان کے غم دیدہ و رنج کشیدہ خاندان والوں، دشمن کی جنگی قید میں رہنے والے ہمارے عزیز سپاہیوں اور ان کے گھر والوں، جو لوگ اس جنگ میں لاپتہ ہو گئے اور وطن سے دور دشمن کی قید میں رہنے والوں اور ان کے منتظر اہل خاندان کی قدردانی قوم کا سب سے بڑا فریضہ ہے۔
یہ مسلط کردہ جنگ صرف انہی چند برسوں کے دوران ہی امتحان آزمائش نہیں تھی بلکہ جنگ کے بعد کے دور میں بھی ایک آزمائش ، امتحان اور عبرت ہے۔ جو قوم بھی دشمن کے حملے اورغیروں کے پیدا کردہ خطرے کے مقابلے میں اپنا دفاع کرے، دشمن کو کچل دے اور پسپا کر دے اور جنگ کے بعد ، جنگ سے ہونے والی بربادیوں کو دور کرے اور حالات کو پہلے کی حالت میں واپس لائے، قوم کی عزت و آبرو کی حفاظت کرے اور جنگ کی یاد گاروں یعنی سپاہیوں، اعضائے بدن کا نذرانہ پیش کرنے والے جانبازوں اور شہیدوں کے کنبے والوں کی قدردانی کرے ، وہ قوم کبھی ذلیل نہیں ہو سکتی۔ وہ قوم ہمیشہ صاحب عزت رہے گی۔
سامراجیوں اور ان کے خائن زرخریدوں کا جنہوں نے طویل برسوں تک اسلامی ملکوں پر حکومت کی ، سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ انہوں نے اقوام میں دفاع اور دلیری کے جذبے کو کچلا اور کھوکھلے نعروں جیسے قوم پرستی اور نیشنلزم کی انتہا پسندانہ باتوں میں مبتلا رکھا جس کی بناء پر آپ دیکھتے ہیں کہ تقریبا دو صدیاں پہلے سے اسلامی اقوام کے دشمن ان کے ملکوں میں داخل ہوئے اور ہمیشہ ایک طرح سے ان کی تذلیل و تحقیر اور غارتگری کی اور اقوام نے اسی طرح ان کا تماشا کیا اور برداشت کیا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ آج آپ دیکھتے ہیں کہ مسلم اقوام دنیا کی کمزور ترین اقوام میں ہیں، جبکہ اسلام اپنے اندر طاقت، عزت اور عظمت رکھتا ہے۔ اسلام ذلت قبول نہیں کرتا ہے تو پھر مسلمان ایسے کیوں ہگئے؟ یہ وہی کام ہے جو پٹھو حکومتوں نے مسلم اقوام کے ساتھ کیا ہے۔ انہیں کچلا، ذلیل کیا اور ذلت قبول کرنے والا بنایا اور جب بھی کچھ لوگوں نے اسلامی جذبے سے کام لیکر کچھ کرنا چاہا انہیں ہر طرف سے گھیر لیا۔
الحمد للہ ہماری قوم نے اسلامی انقلاب کی کامیابی سے اس درخشاں کامیابی کے بعد خود کو اس تحقیر آمیز حالت سے نجات دلائی۔ اس کے بعد مسلط کردہ جنگ کا ماجرا در پیش ہوا اور اس عظیم قوم نے ثابت کر دیا کہ اپنا دفاع کرنے پر قادر ہے۔ یہ دوسری اقوم کے لئے ایک درس ہے۔ ہمیں دنیا کی بڑی طاقتوں کے مجموعے کا سامنا ہوا، یعنی آٹھ برسوں کے دوران سب نے ہمارے دشمن کی مدد کرکے ہمارے مقابلے پر صف آرائی کی لیکن آٹھ سال کے بعد بھی اپنے مقاصد کا سواں حصہ بھی حاصل نہ کر سکے اور شکست کھا کر پسپا ہوئے۔ کیا یہ ایک قوم کے لئے عظمت و عزت نہیں ہے؟
میں جس بات پر تاکید کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہماری قوم کو چاہئے کہ ان ہستیوں کو ہرگز فراموش نہ کرے جنہوں نے اس کو یہ عزت دی ہے ۔ وہ کون ہیں؟ ہمارے سپاہی، مسلح افواج ، عظیم بسیجی عوامی رضاکار، اس مملکت کے مومن نوجوان اور اس قوم کے صابر و غیور اہل خاندان۔ یہ تھے جنہوں نے یہ عظیم رزمیہ کارنامہ رقم کیا۔ یہ ملک آٹھ سالہ جنگ کے غازیوں بالخصوص شہیدوں کے اہل خاندان، اعضائے بدن کا نذرانہ پیش کرنے والے جانبازوں، دشمن کی جنگی قید میں رہنے والے حریت پسندوں اور ان کے اہل خاندان کا ہمیشہ ممنون احسان رہے گا۔ ہم ان کے احسانمند ہیں۔
آج دنیا میں جو زور زبردستی اور ظلم کے طریقوں پر قائم ہے، تمام اقوام کو اپنے اندر اپنی مصلحتوں کے دفاع کے جذبے کی تقویت کرنا چاہئے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کی سیاست کس طرح زور زبردستی، ظلم اور انسانوں کے حقوق کی پامالی پر استوار ہے۔ ملت فلسطین ایک مظلوم قوم ہے، جس کو کچھ ظالم سیاستدانوں اور سرمایہ داروں نے ظلم و جور، درندگی اور نسلی امتیاز سے اس کے وطن اور گھر سے باہر کر دیا۔ مقبوضہ فلسطین میں نسلی امتیاز کا جو مظاہرہ ہوا ہے اس کی نظیر بہت کم جگہوں پر ہی ملے سکے گی۔ جیسے جنوبی افریقا میں۔ البتہ جنوبی افریقا میں سیاہ فام اور سفید فام نسل کا مسئلہ ہے۔ لیکن یہاں یہودی اور غیر یہودی نسل کا مسئلہ ہے۔ اس سرزمین میں جو اس سرزمین کے باشندوں کی رہی ہے، ان سے سب کچھ سلب کر لیا گیا اور نسل پرست صیہونی حکومت کو دے دیا گیا۔
تقریبا پچاس سال سے، جب سے صیہونیوں نے شروع میں سرزمین فلسطین کے بعض حصوں اور پھر پوری سرزمین فلسطین پر( قبضہ کیا) تشدد آمیز نسل پرستی کے ساتھ کہ اس سے زیادہ درندگی قابل تصور نہیں ہے، حکومت کر رہے ہیں۔ فلسطینی نوجوانوں کو قیدخانوں میں بد ترین ایذائیں دیں، جیسا کہ نقل کیا گیا ہے کہ ان برسوں کے دوران بعض مواقع پر ان کا خون نکال لیا گیا اور ان جلاد صیہونیوں سے کچھ بھی بعید نہیں ہے۔ ایسے مناظر کہ صہیونی اہلکاروں نے ایک بچے کا ہاتھ سب کی آنکھوں کے سامنے توڑ دیا، جس کو اتفاق سے ٹیلیویژن نے دکھا دیا اور دنیا کی چیخ نکل گئی، ان کے معمول کے کام ہیں۔ اس مدت میں، تقریبا پچاس سال کے عرصے میں اس قسم کے واقعات تکرار کے ساتھ ہوئے ہیں۔
یہ لوگ نسل پرست ہیں یا نہیں؟ کیا اس سے زیادہ پرتشدد اور خباثت آمیز نسل پرستی ممکن ہے؟ اگر یہ نسل پرست نہیں ہیں تو پھر کون نسل پرست ہے؟ اور پھر امریکی صدر (1) اقوم متحدہ میں جاتا ہے، اقوام کے گھر میں، جہاں اقوام کے حق کا دفاع ہونا چاہئے، ایک غنڈے کی طرح کھڑا ہوتا ہے اور ملت فلسطین کے خلاف بولتا ہے اور ان جلاد صفت نسل پرستوں کی وکالت کرتا ہے۔
کیا یہ لوگ اور یہ سیاستداں یہ دعوا کر سکتے ہیں کہ وہ انسانی حقوق کو سمجھتے ہیں؟ انسانی حقوق کی طرفداری تو دور کی بات ہے۔ یہ جب اپنی مخالف حکومتوں کے خلاف بولتے ہیں تو ان کی زبان سے انسانی حقوق کے الفاظ کی بارش ہوتی ہے۔ جس پر چاہتے ہیں، الزام لگاتے ہیں۔ انسانی حقوق کی نفی یا انسانی حقوق کی پابندی نہ کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ گویا وہ انسانی حقوق کے بانی ہیں۔ تم کیا سمجھو کہ انسانی حقوق کیا ہیں؟ تم جو فلسطینی قوم کے ساتھ ایسی خیانت روا رکھتے ہو، نسل پرست صیہونیوں کا اس طرح ساتھ دیتے ہو اور ان کی حمایت کرتے ہو، تم کیا جانو کہ انسانی حقوق کیا ہیں؟ تمہیں انسانی حقوق کے بارے میں بولنے کا کیا حق ہے؟ امریکی صدر نے اس کام سے اپنی نسبت مسلم اقوام بلکہ دنیا کی تمام حریت پسند اور عدل وانصاف کی طرفدار اقوام کی نفرت زیادہ گہری کر لی ہے۔
ہم اعلان کرتے ہیں کہ صیہونی حکومت نسل پرست ، ظالم، درندہ صفت اور تشدد پسند حکومت ہے۔ ملت فلسطین حق پر ہے جس نے اس حکومت کے مقابلے میں جنگ کا فیصلہ کیا ہے۔ ایسے لوگوں سے نرمی اور منطق سے بات کرکے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ وہ تشدد پسند ہیں۔ ان سے سختی سے کام لینا ہوگا۔ یہ دنیا کی اقوام کی حالت ہے۔ یہ دنیا پر حکمفرما سیاست کی حالت ہے۔ اقوام کو خود بیدار ہوکر اپنا دفاع کرنا چاہئے۔
آپ قوم والوں کو، جن کے دل ایمان سے منور ہیں، ایمان کی برکت سے آپ کو قوت قلب حاصل ہوئی اور آپ دشمن کے مقابلے پر ڈٹ گئے اور آپ نے اپنی بات منوا لی ، اس ایمان اور اس جذبہ شجاعت اور میدان جنگ کے دلیروں کی قدر کریں اور ان اقدار کی حفاظت کریں۔ ہماری قوم ان ظالموں کے سامنے سر نہیں جھکائے گی۔
دعا ہے کہ خدا وند عالم آپ غازیوں، شہیدوں کے خاندان والوں، اور مسلط کردہ جنگ کی یاد گار آپ سپاہیوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے، ایرانی قوم کے تمام افراد کی اپنی ہدایت سے اپنے نور کی جانب رہنمائی کرے اور اپنی قدرت سے انہیں حقیقی قوت و قدرت عطا کرے ۔

 

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

1 جارج بش