بسم اللہ الرحمن الرحیم

پروردگار کی بارگاہ عظمت میں بے انتہا شکر ہے کہ اس نے فرزندان انقلاب کے ایک حصے کو یہ توفیق عطا کی کہ وہ دور حاضر کی اعلاترین حقیقت کے دفاع کے اپنے سنگین فریضے پر عمل کریں۔ ہم لوگوں کے لئے خدا کی سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ اس نے ہمیں ایسے زمانے میں خلق فرمایا کہ ہم عظیم اسلامی اقدار کی راہ میں جہاد اور سعی و کوشش کر سکیں اور امید بلکہ یقین رکھیں کہ کامیاب ہوں گے۔
ایک زمانہ تھا کہ سچے مومن آرزو رکھتے تھے کہ راہ خدا میں مجاہدت انجام دے سکیں۔ ان کے سامنے راستے بند تھے۔ فضا زمانے کے طاغوتوں کی حکومت اور سطنت کے تاریک بادلوں سے ڈھکی ہوئی تھی اور اسلامی اصول و اقدار کی راہ میں ہر قسم کی فکری، علمی، جسمانی اور روحانی سرمایہ کاری کا امکان معدوم تھا۔ خون دل میں زندگی گزاری اور خون دل کے ساتھ اس دنیا سے چلے گئے۔ آج ہمارے لئے اور اس دور کے فرزندوں کے لئے راستے کھلے ہوئے ہیں اور فضا صاف ہے۔ مستقبل امید افزا ہے اور مظلوم اسلامی اورالہی اقدار کے دفاع کا امکان موجود ہے۔ یہ بہت بڑی نعمت الہی ہے۔ اس کو غنیمت جانیں۔ اس دور میں زندگی کے ہر لمحے کو ماضی کی بے فائدہ عمر کے طویل برسوں اور تمام ادوار کے غافل انسانوں کی پوری عمر کے برابر سمجھیں۔
قرآن نے صراحت کے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ لیظھرہ علی الدین کلہ (1) قرآن نے مختلف الفاظ میں کہا ہے کہ یہ حقیقت اور یہ اقدار تاریخ بشریت میں اقدار مخالف اور ان چیزوں پر غلبہ پائیں گی جو اقدار کا بگڑا ہوا روپ رکھتی ہیں۔ قرآن نے صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ العاقبۃ للمتقین (2) انجام کار مومنوں اور پرہیزگاروں کے لئے ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ اسلام جو گوشے اور تنہائی میں ہے، کھوکھلے اور مسلط کردہ افکار اور مظلوم بشریت پر مسلط کی گئی اقدار مخالف باتوں پر غالب آئے؟
اسلام برسوں رہا۔ لیکن دنیا کی بنیادی سرگرمیوں کے میدان میں نہیں تھا۔ ایک طویل دور میں اسلام، اسلام سے بے خبر مسلمانوں کی حکومتوں میں ، گوشہ نشین رہا۔ ایران کے سلطانوں ، عثمانیوں اور ہندوستانی سلاطین کے دور میں جو بظاہر مسلمان تھے، اسلام حقیقی معنوں میں ان کی حکومتوں میں نہیں تھا۔ اسلام الگ تھلگ کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد گذشتہ دو تین صدیوں میں جب مغرب اور یورپ کی پیشرفت کا زمانہ آیا اور دنیا پر مختلف شکلوں میں مادی اقدار کی حکمرانی قائم ہوئی تو اسلام اور مسلمین مکمل طور پر گوشہ نشین اور الگ تھلگ کر دیئے گئے۔ حتی کوشش کی جاتی تھی کہ اسلام کا نام بھی فراموش کر دیا جائے۔ کوشش کرتے تھے کہ مسلمان ممالک میں غیر اسلامی اور غیر دینی افکار رائج کر دیں اور ان ملکوں کو حتی ظاہری اسلام سے بھی الگ کر دیں۔ گفتگو کے آغاز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کہنا عار تھا۔ نماز پڑھنا ننگ تھا، حقیقی معنی میں مسلمان رہنا محال تھا، اسلامی مظاہر زیادہ تر صرف رسمی تھے۔ مادی رقیبوں کے مقابلے میں اسلام کی معنویت، جہاد اسلامی، اور اسلامی دلائل کا وجود نہیں تھا۔ ان حالات میں لیظھرہ علی الدین کلہ کا وعدہ کس طرح پورا ہو سکتا تھا؟
تمام کفر و الحاد پر اسلام کی کامیابی اور تمام مادی افکار پر افکارو اقدار الہی کے غلبے کے خدا کے وعدے کی تکمیل کے لئے ضروری تھا کہ اسلام زندگی کے میدان میں خود کو پیش کرتا۔ خدا وند عالم نے یہ مقرر فرمایا کہ یہ کام اس کے ایک برگزیدہ اور برتر بندے کے ذریعے انجام پائے اور ایسا ہی ہوا۔ اس بندہ صالح، اس انبیاء اور اولیاء کے جانشین برحق، اپنے وجود، اپنی زندگی اور اپنے افکار میں مادیات سے آزاد اس انسان نے جس نے خود کو اسلام میں غرق کر دیا اور فانی فی اللہ ہو گیا، خداوند عالم سے یہ توفیق اور عظیم نعمت اور لطف و کرم حاصل کیا کہ اس راستے کی بشارت دینے والا ، اس راہ کا راہبر اور تنہائی و گوشہ نشینی کے اس دور میں اسلام اور قرآن کا دست تونا بن جائے۔
اسلام میدان میں آیا اور دنیا کے سامنے پش کیا گیا۔ شروع میں اس کو سنجیدگی سے نہیں لیا گيا۔ لیکن جب اس کے خطرے کا احساس کیا تو پوری شدت کے ساتھ سازشیں شروع کر دیں۔ انہیں سازشوں میں سے ایک آٹھ سالہ جنگ تھی ۔ لیکن اس مومن قوم کی ہمت، مکتب دین کے تربیت یافتہ ان شاگردوں، اس عبد صالح اور بندہ فنا فی اللہ کے وجود مبارک سے استفادہ کرنے والوں کی مجاہدت اور آپ عاشقان راہ خدا اور مومن نوجوانوں کی ہمت اس بات کا باعث ہوئی کہ آپ ان آزمائشوں اور تجربات میں کامیاب و سرفراز رہیں اور اپنے انقلاب کو درخشاں تر کریں۔
امتحان کے ان دشورا برسوں میں وہ کام ہوا کہ دین اسلام، جس کو خدا اور انسانیت کی مخالف اقدار پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے میدان کے بیچ میں آنا تھا، میدان کے درمیان میں آ گیا اور اس نے دنیا کے سامنے خود کو اپنی قوت اہمیت اور گہرائی کو پیش کیا۔ آج دنیا میں دو استکباری کیمپوں کے نظام کے خاتمے اور بظاہر استکباری اور مادی طاقتوں کے ایک طرف ہو جانے کے بعد تمام نگاہیں اس ایک ہزار چار سو سالہ سورما یعنی پرچم اسلام اور اس عظیم پرچم کو اٹھانے والی عظیم الشان ایرانی قوم پر مرکوز ہیں، جو آج اٹھ کھڑی ہوئی ہے، زمانے کے گرد و غبار کو خود سے دور کرکے بیچ میدان میں آگئی ہے، دنیا میں اپنی ذمہ داری کا اعلان کر دیا ہے اور پوری قوت کے ساتھ تمام مادی طاقتوں کے مقابلے میں ڈٹ گئی ہے۔
سب آپ کی طرف متوجہ ہیں۔ عالمی لٹیرے بھی اور دنیا کی غارتگری کرنے والی طاقتیں بھی اور مظلومین عالم بھی اور وہ لوگ بھی جو میدان میں اس بات کے منتظر ہیں کہ دیکھیں کہ کس طرف کا پلہ سنگین تر ہوتا ہے۔ آج فلسطینی قوم کی نگاہیں آپ پر لگی ہوئی ہیں۔ روشنفکروں اور مظلوموں کی نگاہیں آپ پر مرکوز ہیں۔ حتی وہ لوگ بھی جو نہیں جانتے کہ مسلمان ہونے کا مطلب کیا ہے، ان کی امیدیں بھی آپ سے وابستہ ہیں۔ یہ وہی پلیٹ فارم ہے کہ جہاں سے مسلمان ایرانی قوم اور اس کے پیچھے دیگر اقوام کو لیظھرہ علی الدین کلہ (3) کی طرف آگے بڑھنے کے عمل کا آغاز کرنا ہے۔ یہ بہت بڑا کام ہے۔ اس کام کے لئے ایمان کی طاقت، قوت ارادی، توکل بر خدا اور مادی و دینی آمادگی کی ضرورت ہے۔
آج ہماری ایرانی قوم کے کندھوں پر جو بار امانت ہے، وہ تاریخ کے ہر دور سے زیادہ سنگین تر ہے۔ آج پوری دنیا کی نگاہیں ہم پر لگی ہوئی ہیں اور ہم پر مرکوز ہیں۔ خداوند عالم نے یہ ذمہ داری ہمیں سونپی ہے۔ اگر خدا نخواستہ ہم نے اس ذمہ داری کی ادائيگی میں کوتاہی کی تو بھی خدا کی عطا کردہ اس ذمہ داری کا یہ بار سنگین زمین پر پڑا نہیں رہے گا اور خداوند عالم دوسروں کو جو ہم سے بہتر اور مناسب تر ہوں اس ذمہ داری کے لئے منتخب کرے گا ۔ لیکن ہماری قوم اتنے شہیدوں کے ساتھ اور اتنی کامیاب کوششوں کے ساتھ اور خدا اور اولیائے خدا سے اپنے وعدوں کی پاسداری اور اتنے خلوص کے ساتھ اس بار سنگین کو اٹھانے کی زیادہ مستحق ہے۔
آج عراق کی ذلیل و شکست خوردہ حکومت کے ساتھ غیر مساوی جنگ اور دنیا کے سیاسی میدان میں امریکا کی ظاہری کامیابیوں کے باوجود جنہوں نے امریکا کو مغرور کر دیا ہے، سامراجی سربراہوں کے دلوں میں سخت خوف و ہراس پایا جاتا ہے اور وہ بھی اسلام کی طرف سے۔ وہ اس بات کا اعتراف نہیں کرنا چاہتے۔ وہ نہیں چاہتے کہ اپنی گفتگو میں اسلام، انقلاب اور اسلامی تحریک کی عظمت کا اعتراف کریں۔ لیکن جو وہ چاہتے ہیں اس کے برعکس جو کچھ ان کے دلوں میں ہے وہ آشکارا اور ظاہر ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ اسلام کی تحریک سے سخت خوفزدہ ہیں۔
آج فلسطین کی مقدس سرزمین کی نسبت غاصب اسرائیلی حکومت کے فائدے میں جو سازش ہو رہی ہے، وہ درحقیقت علاقے میں اسلامی بیداری کو روکنے کی چارہ اندیشی ہے۔ وہ علاقے میں اپنے قدم بہت جلد مضبوط کرنا چاہتے ہیں تاکہ اقوام کی اسلامی بیداری کو روک سکیں۔ کیا وہ یہ کام کر پائیں گے؟ ممکن ہے کہ مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں بظاہر نشست و برخاست کر لیں۔ لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ اسلام اور عظیم امت اسلامیہ کے دشمن مسلم اقوام کے خلاف اس بڑی سازش میں کامیاب ہو جائیں۔ مسئلۂ فلسطین اس طرح حل نہیں ہوگا۔ جہاد اور مجاہدت پورے جوش و خروش کے ساتھ جاری رہے گی ۔
آپ جان لیں کہ انقلاب کے ابتدائی برسوں سے آج تک ایرانی قوم اور اسلامی جمہوریہ کے خلاف سازشیں جاری رہی ہیں اور جاری رہیں گی۔ وہ انقلاب سے ڈرتے ہیں۔ آپ سے خوفزدہ ہیں اور اس بات کا تقاضا ہے کہ ہم آمادہ رہیں۔
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے انقلاب اور قرآن کے دفاع میں بڑے امتحان میں کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ آپ کے لئے باعث افتخار ہے۔ سپاہ پاسداران انقلاب کے زمینی شعبے کے سپاہیوں نے جنگ کے خونیں میدانوں میں حسین ترین مناظر خلق کئے اور اپنے کارناموں کی کتاب میں درخشاں ترین باب رقم کئے۔ آپ مومن اور عزیز نوجوانوں نے، کمانڈروں اور سرداروں (سپاہ پاسداران انقلاب کے اعلی رتبہ کمانڈروں) نے، اپنی جوانی کے بہتر سال مقدس خونیں دفاع کے دشوار ترین تجربات میں گزارے۔ آپ کو اپنی صلاحیت اور آمادگی میں روز بروز اضافہ کرنا چاہئے۔ یہ نہ سمجھیں کہ چونکہ بظاہر جنگ نہیں ہے تو دشمن کی سازشوں کا سلسلہ بھی نہیں ہے۔ اس طرف سے ایک لمحے کی بھی غفلت جائز نہیں ہے۔
سپاہ پاسداران انقلاب کی دینی بنیادیں مضبوط کریں۔ ایمان، تقوا، خدا کی جانب ارتکاز، محراب عبادت میں گریہ، شوق و محبت، دعا و مناجات ، ذکر و سرگوشی اور استغفار و طلب مغفرت کو فراموش نہ کریں۔ یہ ہمارے دلوں کی زندگی ہے۔ یہ ہماری حقیقی کامیابی کی بنیاد ہے۔ نظم و ضبط ہر فوجی ادارے کی بنیادی شرط ہے اور آج میں نے الحمد للہ اس کی اچھی علامتوں کا مشاہدہ کیا اور اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔ اس کو زیادہ سے زیادہ اہمیت دیں۔ فوجی تربیت، مختلف قسم کی فوجی مشقوں اور فوجی علوم میں پیشرفت اور ہر سطح پر تنظیم کے استحکام کو مد نظر رکھیں۔ سپاہ پاسداران انقلاب کی اس طرح تقویت کریں۔
کوشش کریں کہ جس طرح یہ مبارک ادارہ، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ، انقلابی ادارے کی حیثیت سے وجود میں آیا اسی طرح ہمیشہ انقلابی باقی رہے اور انقلاب اہداف کی سمت میں آگے بڑھے۔ افواج کی وحدت کو باقی رکھیں۔ فوج اور پولیس کے ساتھ پر خلوص برادرانہ رابطہ برقرار رکھیں۔ ان میں سے ہر ایک کی اپنی ذمہ داری، اپنا فریضہ اور کمال کی طرف اپنا مخصوص راستہ ہے۔ راہ کمال سب کو طے کرنا چاہئے۔
خدا کے بھروسے آگے بڑھیں اور یقین رکھیں کہ خدا آپ کی مدد کرے گا۔ ولینصرن اللہ من ینصرہ ان اللہ لقوی عزیز (4) امام امت (امام خمینی رحمت اللہ علیہ) کی روح مقدس آپ سے خوش ہو اورحضرت ولی اللہ الاعظم ( ارواحنا فداہ) کی پاکیزہ دعائیں آپ کے شامل حال ہوں ۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

--------------------------------------------------------------------
1و3 - توبہ 33 2- اعراف 128 4-حج 40