اس خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے جون دو ہزار نو میں صدارتی انتخابات کے بعد ملک میں پیش آنے والے واقعات کا جائزہ لیا اور انتخابات کے بعد کی صورت پر حال پر متعدد پہلوؤں سے گفتگو اور متعدد سوالات کے جواب دئے۔ تفصیلی خطاب مندرجہ ذیل ہے؛
بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

جلسہ اسی انداز کا ہے کہ جس کی توقع نوجوان و باشعور طلبہ کے ایک جلسے سے کی جاتی ہے، یقینا ان بھائیوں اور بہنوں کی تقریروں میں یقینی، دقیق اور تازہ باتیں موجود تھیں تبصرے اور جائزے صحیح تھے ، ایک انسان جس وقت ان تمام گفتگوؤں کو مجموعی طور پر دیکھتا ہے ان باتوں میں سچائی اور اخلاص کے ساتھ مجمل و مبہم گفتگو سے پرہیز نمایاں نظر آتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کی ایک نوجوان سے اور وہ بھی پڑھے لکھے، تعلیم یافتہ اور ممتاز نوجوانوں سے توقع کی جاتی ہے۔ البتہ ملک کے تمام طلبہ، بس آپ ہی لوگ نہیں ہیں اور شاید طلبہ میں موجود مختلف قسم کے تمام تفکرات اور طرز و رفتار کی نمائندگی بھی آپ لوگوں نے نہ کی ہو، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ طلبہ کی کثیر تعداد اسی انداز میں سوچتی ہے کہ جو کچھ آپ نے یہاں بیان کیا ہے افکار و نظریات کا تنوع بالکل وہی ہے جو کہیں کہیں آپ کے بیانات میں موجود تھا ۔
میں بھی، آپ نوجوانوں سے، جو یہاں موجود ہیں اور ملک بھر میں پھیلے طلبہ کے مختلف گروہوں سے بہت کچھ کہنا چاہتا ہوں اور کہہ بھی چکا ہوں اور ایک بار پھر جتنی مجھ میں طاقت ہے اور جس قدر بول سکتا ہوں آپ تمام نوجوانان عزیز سے گفتگو کروں گا۔ مجھے اطمینان ہے جو چیز اس ملک کے مستقبل کی بلکہ اسلام اور پوری امت اسلامیہ کے مستقبل کی ضامن و محافظ ہے عشق و احساس سے سرشار علم و تحقیق کا جوش مارتا ہوا یہی جذبہ ہے جو ایک انسان ہمارے ملک کے طلبہ کی نوجوان نسلوں میں دیکھ سکتا ہے۔ یعنی آپ لوگ ولو اس وقت ممکن ہے ایک بات پر یقین کامل نہ رکھتے ہوں یا پوری گہرائي کے ساتھ اس کی دلیل آپ کے پاس نہ ہو لیکن مسلم و مومن طلبہ کی تمام تنظیمیں، ناموں کے اختلاف کے ساتھ پورے ملک میں اس ملک کے مستقبل، اس نظام کے مستقبل اور پوری ملت اسلامیہ کے مستقبل کے لئے نوید بخش ہیں۔ کچھ نکات ہیں جن پر آپ تکیہ کرتے ہیں، کچھ صحیح باتیں ہیں جن پر آپ زور دیتے ہیں اور ڈٹے ہوئے ہیں۔ یہ ایک مثبت پہلو ہے جو بحمد اللہ آپ کے یہاں موجود ہے ۔
کچھ وہ مطالب جن میں استفسار کا پہلو تھا یا یہ کہ میں ان کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں، پہلے چند منٹوں میں عرض کردوں اس کے بعد ایک دو باتیں جو میرے ذہن میں ہیں اگر وقت رہا اور اذان نہ ہو گئی تو عرض کروں گا۔
ہمارے دوستوں کے درمیان کئی افراد کے بیانات کے ایک اہم حصے میں ان مجرموں کی طرف اشارہ تھا جو ( صدارتی انتخابات کے بعد ملک میں رونما ہونے والے ) حادثوں کی پشت پر سرگرم رہے ہیں اور یہ کہ ان پر کیوں مقدمہ نہیں چلایا جا رہا ہے؟ اور کیوں سزا نہيں دی جارہی ہے، ان کے خلاف کاروائی کیوں نہیں ہوتی؟ میں آپ سے عرض کروں، اتنی اہمیت کے حامل مسائل میں گمان و شکوک، پروپیگنڈے اور اسی قسم کی دوسری چیزوں کی بنیاد پر قدم نہيں اٹھایا جاتا، ہم اس انقلاب اور اس عظیم نظام کو ایک بڑی ہی عظیم ملت کی جد و جہد اور نوجوانوں کی بڑي عظیم قربانیوں کا نتیجہ سمجھتے ہیں کہ جنہوں نے چاہے وہ انقلاب کا زمانہ رہا ہو، چاہے مقدس دفاع کا ( آٹھ سالہ ) دور رہا ہو اور چاہے اس کے بعد آج تک کا زمانہ ہو بڑی قربانیاں دی ہیں، خود آپ لوگوں کی مانند نوجوان جو مختلف میدانوں میں حاضر رہے ہیں اور عظیم کارنامے انجام دئے ہیں کیا ہم اس نظام کی بقا و دوام اور اس نظام کے کسی بنیادی اقدام کو ایک ایسی سطح پر جہاں قائد انقلاب کے لئے ایک بڑے فیصلے پر پہنچنا لازم ہو، شک و گمان جیسی بنیادوں پر انجام دیا جا سکتا ہے؟ ہاں! اس بات کو آپ لوگ سمجھ لیں، کسی بھی طرح کی چشم پوشی جرم و زیادتی کے سلسلے میں نہیں کی جائے گی۔
البتہ ہم لوگ، آپ ہوں یا میں ہوں، فرق نہیں پڑتا ، آپ لوگ جو کالج کے طلبہ ہیں اور آپ کی زبانیں گفتگو کی عادی ہیں، آسانی کے ساتھ ہر بات کہہ سکتے ہیں اور چاہے میں ہوں جو اپنے ساتھ مختلف میدانوں میں برسہا برس کے مسلسل تجربوں کا ایک انبار اٹھائے ہوئے ہوں، اس رخ سے ہمارے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، ہم حکم نہیں دے سکتے کہ عدلیہ کو اس طرح فیصلہ کرنا چاہئے۔ نہیں، عدالت کو خود دیکھنا چاہئے؛ اگر کسی کے مجرم ہونے کا چاہے وہ سیاسی میدان ہو، چاہے اقتصادی میدان ہو، چاہے کسی اور قسم کی بدعنوانی کے سلسلے میں ہو، کوئی ٹھوس ثبوت مل جائے تو اسکے مطابق وہ فیصلہ کرے۔ یہ افواہیں جو آپ سنتے رہتے ہیں میں نے بھی بہت سی اس طرح کی افواہیں سنی ہیں۔ ممکن ہے ان میں بہت سی افواہیں حقیقت کے مطابق ہوں اور ایک انسان شواہد اور قرائن بھی انکے سلسلے میں رکھتا ہو لیکن متفرق قسم کی محض زبانی باتیں اور صرف قیاس آرائیوں سے کسی کے خلاف کوئی جرم ثابت نہیں ہوتا، اس نکتے کی طرف توجہ رکھنا چاہئے؛ لہذا ایسا نہیں ہے کہ فرض کر لیا جائے کہ منظر کے پیچھے ایک حقیقی مجرم موجود ہے جس کے جرم کو حکومت یا عدالت، کسی بھی وجہ سے نظر انداز کر رہی ہے ۔ یہ تو ایک بات ہوئی ۔
ایک دوسری بات اسی کے ساتھ لگی ہوئی یہ ہے کہ جو امور بھی ہیں اور بعض موضوعات سے جن کا تعلق ہے، نظام اعلی سطح پر دوسرے پہلوؤں کی شمولیت کے پیش نظر انہیں انجام دیتا ہے، اس میں تمام جوانب کو سامنے رکھنا ضروری ہے، صرف ایک پہلو سے ایسے مسئلے کو نہیں دیکھا جا سکتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ لوگ ان نکتوں کو سامنے رکھیں تو جو کچھ اب تک انجام پایا ہے اور جوکچھ آئندہ انجام پائے گا ہر انصاف پسند ذہن کو راضی ( اور مطمئن) کر دے گا۔
ایک اور موضوع جو دوستوں کی تقریروں میں اٹھایا گيا ان خلاف ورزیوں یا حتی جرائم کے بارے میں ہیں جو ان حوادث کے دوران نا آشنا فورسز کے ذریعے انجام پائے ہیں۔ آپ نے کوئے دانشگاہ ( university lane ) کے مسائل یا اسی طرح کے دوسرے مسائل کی طرف اشارہ کیا کوئے دانشگاہ کے مسائل کو ابھی کئی طلاب عزیز نے دہرایا ہے۔ کوئے دانشگاہ کی طرح کے ملتے جلتے دوسرے مسائل بھی اس دوران پیش آئے ہیں یا مثال کے طور پر ( بعض نے ) کہریزک (جیل) کے واقعے کا ذکر کیا، یہ مسائل واقعا حکومتی مشینری کی کارکردگی کی مشکلات اور دشواریوں میں سے ہیں۔ اولا آپ لوگ قطعی طور پر جان لیں کہ ان لوگوں کے خلاف کاروائی ہوگی ( اور ایکشن لیا جائے گا) ۔ اب میں بکھیڑا کھڑا نہیں کرنا چاہتا کہ حکم لگاؤں اور یہ حکم ذرائع ابلاغ سے نشر ہو اور پھر ایک حاشیہ لگایا جائے اور پھر ایک پیراگراف لکھا جائے۔ میں پسند نہیں کرتا کہ پروپیگنڈے کا بازار گرم ہو۔ لیکن اول روز ہی حکم دیا جا چکا ہے اور کچھ لوگ تحقیق میں مصروف ہیں لیکن بالآخر کام صحیح ، دقت نظر کے ساتھ تمام پہلوؤں پر نظر رکھتے ہوئے آگے بڑھے گا۔
کوئے دانشگاہ میں، اس مخصوص شب میں یقینی طور پر بہت بھاری قسم کی خلاف ورزیاں ہوئیں، غلط کام سرزد ہوئے، ہم نے تاکید کی ہے کہ اس مسئلے میں خصوصی فائل تیار ہو اور خصوصی کمیشن پوری دقت نظر سے تحقیق کرے، مجرموں کو تلاش کرے اور جب ان کا پتہ چل جائے تو آپسی تعلقات کو نظر میں رکھے بغیر ان کو سخت سزائیں دی جائیں ۔ یہ بات میں نے فیصلہ کن طور پر کہی ہے۔
میں ملک میں امن و امان قائم رکھنے والی سیکورٹی فورسز، پولیس انتظامیہ اور رضاکار دستوں کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے بڑا ہی عظیم کام انجام دیا ہے اور بڑی خوبصورتی سے فرائض ادا کئے ہیں لیکن یہ ایک الگ موضوع ہے۔ اگر کوئی ان میں سے کسی بھی ادارے سے اپنی وابستگی کے باعث کوئی خلاف ورزي کرتا ہے، ایک جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کی تحقیق بھی ایک الگ مسئلہ ہے۔ چنانچہ نہ ان حضرات کی خدمات ان کے جرم کے حساب میں ڈال کر نظرانداز کی جائیں گي نہ ان کے جرم سے ان کی خدمت کے سبب چشم پوشی کی جائے گی۔ حتمی طور پر اس کی تحقیق ہونا چاہئے اور تحقیق کی جائے گی حتی جو افراد ان واقعات میں قتل ہوئے ہیں کہ جن کی تعداد تھوڑی سی ہے، یا جن کو نقصان پہنچا ہے، جنہوں نے مالی نقصان اٹھایا ہے، طے پایا ہے کہ ان میں سے ہرایک کے لئے الگ الگ فائل تشکیل دیں اور ہم نے کہا ہے کہ ان واقعوں کی پوری طرح چھان بین کریں لیکن بہرحال آپ لوگ بھی خیال رکھیں کہ یہ مسائل انتخابات کے بعد رونما ہونے والے اصل مسئلے کے ساتھ مخلوط نہ ہوں اور اصل واقعہ، ان حوادث میں گم ہوکرنہ رہ جائے۔
کچھ لوگ، انتخابات کے بعد جو واقعات پیش آئے ہیں اور جو ظلم لوگوں پر ہوئے ہیں اور جو ظلم اس اسلامی نظام پر ڈھائے گئے ہیں وہ بے حرمتی جو بعض لوگوں کے ذریعے قوم کے سامنے اس نظام کی گئی ہے یہ لوگ تمام چیزوں کو نظر انداز کرکے فرض کیجئے کسی بھی ایک حادثے کو، کہریزک جیل خانہ کے مسئلے کو یا کوئے دانشگاہ کے واقعے کو انتخابات کے بعد سے آج تک رونما ہونے والے تمام حادثوں کے درمیان اصل مسئلہ قرار دیتے ہیں، یہ خود اپنی جگہ ایک اور ظلم ہے۔ اصل مسئلہ کچھ اور ہی مسئلہ ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ عوام نے ایک عظیم اقدام کے تحت، ایک کم نظیر و پر جوش انتخابات میں اس طرح شرکت کی اور اس قدر بھاری تعداد میں ووٹ ڈالے، کیا پچاسی فی صدی ووٹنگ کوئی مذاق ہے ؟ یہ انتخابات جو اس نظام کے لئے کہ جس نے ادھر دو ایک سال کے دوران اسی طرح کی پے درپے ترقیاں علم و صنعت، سیاست، اقتصاد اور امن و تحفظ کے میدانوں میں اپنے لئے بین الاقوامی سطح پر حاصل کی تھیں وقار و آبرو اور بلندیوں کے ایک نئے مرحلے تک پہنچنے کا باعث بنتے یکایک ہم دیکھتے ہیں ایک ایسی حرکت کی جاتی ہے جو اس افتخار آمیز واقعے کو نابود کر دے، اصل مسئلہ یہ ہے۔ البتہ میں نے یہ جو بات عرض کی ہے یہ ایک تجزیہ ہے، خبر نہیں ہے۔ میرے نظریہ اور میرا جائزہ یہ ہے کہ یہ مسئلہ انتخابات کے بعد سے یا اس کے کچھ قبل و بعد کے دنوں میں شروع نہیں ہوا ہے، یہ پہلے سے ہی شروع ہو چکا تھا۔ پہلے سے ہی اس کی منصوبہ بندی ہو چکی تھی، پلان بن چکے تھے، میں الزام نہیں لگا رہا ہوں۔ یہ لوگ جو سرگرم عمل تھے یہ لوگ بیگانہ قوتوں کے، برطانیہ یا امریکہ کے آلہ کار تھے میں یہ دعوی نہیں کرتا کیونکہ میرے لئے یہ مسئلہ ثابت نہیں ہے اور جو چیز ثابت نہیں ہے اس کے بارے میں میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن اس وقت میں جو بات کہہ سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ لہر اور موج، چاہے اس کے آگے آگے چلنے والوں کو علم ہو یا وہ لاعلم ہوں، ایک منصوبہ بند لہر تھی، کوئی اتفاقیہ بات نہیں تھی۔ تمام علامتیں ظاہر کرتی ہیں کہ اس لہر کی پوری تیاریاں تھیں۔ ہر چیز کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ البتہ جنہوں نے منصوبہ بندیاں کی تھیں انہیں خود بھی یقین نہیں تھا کہ یہ لہر چل پڑے گی۔ انتخابات کے بعد جو اقدامات بعض عناصر کی طرف سے شروع ہوئے اور تہران کے کچھ لوگوں کی طرف سے جو اس انتخابات کے ردعمل سامنے آئے اس چیز نے ان لوگوں کو پر امید کر دیا، انہوں نے سوچا کہ جو کچھ وہ تصور کر رہے تھے انجام پا گیا اور سامنے آ گیا اور ان کے حوصلے بڑھ گئے لہذا آپ نے دیکھا کہ یہ مشینریاں، یہ ذرائع ابلاغ، ریڈیائی، الکٹرانیک اور سیٹلائٹ کمیونیکیشن کے وسائل وغیرہ نے، اس سین میں ان کی مشارکت کو کس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور کھل کر میدان میں اتر آئے؛ انہیں پہلے امید نہیں تھی کہ یہ کام ہوگا، بعد میں دیکھا کہ نہیں کام ہو گیا اور بڑی تیزی سے میدان میں اتر پڑے۔ البتہ خوش قسمتی یہ ہے کہ ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی ایران کے مسائل کو انہوں نے سمجھنے میں غلطی کی؛ ملت ایران کو وہ نہیں سمجھ سکے ہیں اور اس دفعہ بھی نہیں پہچان سکے؛ انہوں نے منہ توڑ جواب پایا، منہ کی کھائی البتہ تھپڑ کھاکے بھی ناامید نہیں ہیں ؛ میں آپ تمام عزیز طلبہ سے کہے دیتا ہوں کہ یہ لوگ ناامید نہیں ہوئے ہیں حالات کا جائزہ لے رہے ہیں؛ اتنی جلدی ( آسانی کے ساتھ ) میدان نہیں چھوڑیں گے۔ ان کے پاس ڈائریکٹرز موجود ہیں اور آگے بھی ان کو ڈائریکٹرز مل جائیں گے۔
یونیورسٹی کو ہوشیار رہنا چاہئے ایک مومن و دیندار طالب علم کو، ایک ایسے طالب علم کو جو اپنے ملک سے محبت کرتا ہے ایک ایسے طالب علم کو جو اپنے ملک کے مستقبل اور اپنی آئندہ نسل کا دلدادہ ہے، ہوشیار رہنا چاہئے ، جان لیجئے یہ لوگ منصوبہ بندی میں مصروف ہیں البتہ ناکامی کا منہ دیکھیں گے ؛ میں اسی وقت آپ سے عرض کئے دیتا ہوں یہ لوگ بالآخر ناکام ہوں گے لیکن ہماری اور آپ کی بیداری اور ہوشیاری کا پیمانہ، اس ضرر و نقصان کی مقدار میں جو وہ ہم کو پہنچانا چاہتے ہیں موثر ہے اگر ہم نے ہوشیاری سے کام لیا تو یہ لوگ ہم کو ضرر و نقصان نہیں پہنچا سکتے اگر غفلت برتی، جذبات کی رو میں بہہ گئے ، عقل و تدبیر سے کام نہ لیا یا سوتے رہے اور اس طرح کے اثرات ہم پر مرتب ہوئے تو ضرر و نقصان اٹھانا پڑے گا اور بھاری قیمت چکانا پڑے گی لیکن بالآخر وہ کامیاب نہیں ہو سکیں گے ۔
دوسرے موضوعات جو اٹھائے گئے ہیں ان میں ایک اور مسئلہ قائد انقلاب کی جانب سے حکومت یا صدر جمہوریہ کی حمایت اور پشتپناہیوں کا مسئلہ ہے ؛خیر یہ بات بالکل واضح ہے ۔ اتفاقا خود ایک دو دوستوں نے بھی یہ بات بیان کی ہے، موجودہ حکومت اور محترم صدر جمہوریہ بھی دنیا کے تمام انسانوں کی مانند جہاں کچھ خوبیوں کے مالک ہیں وہیں ان میں کچھ خامیاں بھی ہیں۔ میں نے جو حمایت کی ہے وہ خوبیوں کی حمایت کی ہے کچھ خوبیاں پائی جاتی ہیں، میں اسی کی حمایت کرتاہوں؛ جس کسی کے یہاں بھی ہو، میں حمایت کیا کرتا ہوں وہ کون ہے کہ جس کے یہاں یہ میلان، یہ فیصلے، یہ اقدام، یہ سنجیدگی اپنی طرف سے دکھائی گئي ہو اور میں نے اپنی ذمہ داریوں کی حدوں میں اس کی حمایت نہ کی ہو؟ میں آپ طلبہ سے، جو انصاف کے خواہاں ہیں پوچھتا ہوں کیا میں نے ان کی حمایت نہیں کی ہے؟ اچھا تو کیوں کی ؟ (جواب یہ ہے ) آیا ایک طالبعلم جو انصاف طلب ہے اور انصاف کی فکر میں ہے اگر قائد انقلاب اس کی حمایت کرے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کمزور پہلو جو ممکن ہے اس طالب علم کے یہاں ظاہر ہوں ، انسان اس کی بھی حمایت کر رہا ہے؟! مسلّم ہے کہ نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ ایک خامی اور کمی پائي جاتی ہے۔ ان کمزور پہلوؤں کی یہ بندہ حمایت نہیں کر رہا ہے۔
اب ایک اورسوال جو کچھ اسی طرح کا تھا کہ آپ کھل کر اپنے موقف کا اظہار کیوں نہیں کرتے؟ اس لئے کہ کھل کر اپنے موقف کا اعلان لازم نہیں ہے؛ کیا ضرورت ہے؟ کسی حاکم کے ایک کمزور پہلو پر اپنے موقف کا کھل کر اظہار کیا جائے؛ آپ کی نظر میں مسئلے کو حل کرنے میں یہ چیز کس قدر مددگار ہو سکتی ہے؟ کچھ بھی نہیں، بلکہ بعض اوقات ایسا ہے کہ انسان اگر ایک چیز کا اعلان کئے بغیر علاج کرنے کی کوشش کرے تو ممکن ہے کہ نسبتا بہتر علاج ہو جائے بجائے اس کے کہ انسان ایک مسئلے کو لیکر شورشرابا مچائے۔ ہاں ایک وقت اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کہ مسئلہ کے خلاف کھل کر بات کی جائے، لیکن ایسا ہرجگہ نہیں ہے کہ تصور کر لیں اگر چنانچہ ملک کے منتخب حکام کے ایک مجموعے میں کہیں ایک قابل اعتراض بات پائی جاتی ہے اور قائد انقلاب کی جانب سے اس کی مخالفت کی گئی ہے تو لازمی طور پر اس چیز کا لاؤڈ اسپیکر سے اعلان کر دینا چاہئے!!
اب آپ یہاں حقیقت اور مصلحت کی بات نہ اٹھائیے گا۔ یہ حقیقت اور مصلحت کا موازنہ ان محکم و مسلم باتوں کا حصہ نہیں ہے۔ خود مصلحت کا بھی حقائق میں شمار ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ جو کچھ بھی مصلحت کے نام سے پیش کیا جائے وہ منفی ہے، بعض نے ایسا خیال کر لیا ہے؛ جناب آپ مصلحت کوشی سے کام لے رہے ہيں؟ جی ہاں کبھی کبھی انسان مصلحت کوشی سے کام لیتا ہے۔ خود مصلحت کوشی حقائق میں سے ایک حقیقت ہے جس کا خیال رکھنا چاہئے۔ یہ اسلام کے روشن و واضح اصولوں کا حصہ ہے۔ البتہ اس مسئلے پر ابھی بحث و گفتگو کرنا اور اس کی مو شگافی کرنا اس وقت منظور نہیں ہے۔ صرف اتنا سمجھئے کہ یہ بھی مسلمہ باتوں میں سے ہے۔ صلاح و بھلائی اس میں نہیں ہے کہ انسان ایک چیز کو علی الاعلان بیان کرے۔ فرض کیجئے کہ ایک جگہ ایک معمولی سی خرابی ہے، مشکل ہے اس کو لوگ دس گنا بڑھا کر پیش کریں، مایوسی ، ناامیدی اور اسی طرح کی دیگر کیفیات کا باعث بنیں، اس کی کیا ضرورت ہے؟! انسان اس کو ایک دوسری شکل میں حل کر سکتا ہے، بنابریں کھل کر کوئی موقف نہ اپنانا ، اسی عقلی اور منطقی سبب کا نتیجہ ہے۔
اب میں یہاں ایک بات عرض کر دوں کیونکہ اب وقت گزرتا جا رہا ہے عزیزان کرام! دیکھئے، آپ سب جانتے ہیں، کیونکہ آپ لوگوں کے بیانات میں بھی میں نے یہ بات دیکھی ہے، آج اسلامی جمہوریہ اور اسلامی نظام ایک عظیم جنگ سے روبرو ہے لیکن یہ ایک غیر مسلحانہ سرد جنگ ہے، جیسا کہ یہی غیر مسلحانہ سرد جنگ کی تعبیر آپ جوانوں کے بیانات میں بھی آئی ہے اور الحمد اللہ آپ ان باتوں کی طرف متوجہ ہیں؛ یہ چیز ہمارے لئے بہت زیادہ خوشی کا باعث ہے۔ اس غیرمسلحانہ سرد جنگ میں کن لوگوں کا فریضہ ہے کہ میدان سنبھالیں؟! ظاہر ہے یہ فریضہ ان لوگوں کا جو فکر و نظر سے سرو کار رکھتے ہیں یعنی اس سردجنگ میں دفاعی مورچے کے نوجوان کمانڈر آپ لوگ ہیں۔
رہی یہ بات کہ آپ کو کیا کرنا ہے؟ آپ کا طریقۂ کار کیا ہونا چاہئے؟ آپ کس طرح مسائل کو بیان کریں، یہ چیزیں وہ نہیں ہیں کہ میں آکر فہرست وار بیان کروں، آپ سے عرض کروں کہ جناب! آپ لوگ یہ کام انجام دیجئے، یہ کام انجام نہ دیجئے۔ یہ ساری چیزیں تو خود آپ لوگ اپنے اجتماعات میں، فکری اجتماع میں، اپنے سیمینار روم میں بیٹھ کر سوچیں اور طریقۂ عمل تلاش کریں۔ ہدف معین اور روشن ہے۔ ہدف و مقصد یہ ہے کہ قوت و طاقت، فریب و مکر اور دولت و ثروت پر قائم ایک ترقی یافتہ، ذرائع ابلاغ سے آراستہ ہمہ گیر مہم جوئی کے خلاف اسلامی نظام اور اسلامی جمہوریہ کی حمایت و پشتپناہی کی جائے اور خطرناک شیطانی مہم کا مقابلہ کیا جائے۔
ان (شیطانی طاقتوں) کے پاس بھی اسلامی جمہوریہ پر حملے کے لئے دلیل موجود ہے۔ میں سمجھتا ہوں ان کی دلیل بھی ان کے نقطۂ نگاہ سے ایک محکم دلیل ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے دنیا کے ایک نہایت ہی حساس مقام پر واقع مشرق وسطی کے اس خطے میں جس میں خلیج فارس، بحر احمر، شمالی افریقہ اور میڈیٹرین سی کا ایک حصہ شامل ہے یہ وہ عظیم دائرہ ہے جہاں امت اسلامیہ کا ایک بڑا مجموعہ آباد ہے۔ اب آپ دیکھ لیں یہ پانچ عدد، چھ عدد حساس قسم کے بحری راستے جو دنیا میں پائے جاتے ہیں ان میں تین راستے اسی علاقے میں واقع ہیں جو آبنائے ہرمز، نہر سویز اور آبنائے باب المندب کے ناموں سے معروف ہیں یہ وہ اہم بحری گزر گاہیں ہیں کہ جن پر عالمی تجارت کا دار و مدار ہے۔ آپ عالمی نقشہ اٹھائیں اور اپنی نگاہوں کے سامنے رکھ کر دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ یہ چند عدد مراکز دنیا کے تجارتی اور اقتصادی تعلقات کے لئے کس قدر اہم ہیں۔ بنابریں یہ علاقہ ایک حساس علاقہ ہے۔ اب اس نہایت ہی حساس علاقے میں ایک قوت سر ابھار رہی ہے، اور روز بروز اپنے آپ کو اور زیادہ نمایاں کرتی جا رہی ہے۔ یہ قوت جو دنیا کی بڑی طاقتوں بڑی بڑی کاکٹیل عالمی کمپنیوں، روئے زمین پر برائیاں پھیلانے والے ( مفسد فی الارض) عظيم اقتصادی چینلوں کے تمام استکباری مطالبات کی مخالف ہے، تسلط پسند ( نئے سامراجی) نظام کی مخالف ہے، تسلط پسند اقدام کی مخالف ہے، ظلم و زيادتی کی مخالف ہے، تو ظاہر ہے کہ یہ چیز استکباری مشینری کے لئے بہت اہم ہے۔ استکباری نظام صرف متحدہ امریکہ سے مخصوص نہیں ہے یا فلاں صدر جمہوریہ، یا امریکہ کی فلاں حکومت یا فلاں یورپی ملک سے مخصوص نہیں ہے۔ استکباری نظام اس سے کہیں زیادہ وسیع نیٹ ورک ہے جس میں یہ سب کے سب شامل ہیں۔ ایک صیہونی نیٹ ورک ہے ایک بنیادی ترین بین الاقوامی تجارتی نیٹ ورک ہے۔ دنیا کا عظیم کرنسی نیٹ ورک ہے، یہ لوگ ہیں جو دنیا کے سیاسی مسائل کی منصوبہ بندی کرتے ہیں، یہ لوگ حکومتیں لاتے ہیں اور گراتے ہیں۔ یہ ایک مجموعہ ہے جس میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی حکومت ہے، یورپی حکومتیں ہیں، خود ہمارے علاقے کی بہت سی تیل خور دولتمند حکومتیں ہیں جو ترقی کی طرف گامزن، سرافراز و سربلند قوت کے انگڑائياں لیکر سامنے آنے کی سخت مخالف ہیں۔ بنابریں جس قدر بھی ان سے ممکن ہے اس کے خلاف کام کر رہی ہیں، پچھلے تیس برسوں کے دوران بھی وہ خاموش نہیں بیٹھی ہیں، جتنا بھی وقت گزر جائے وہ خاموش بیٹھنے والی نہیں ہیں۔ آئندہ بھی وہ بیکار نہیں بیٹھیں گی۔ سوائے اس کے کہ آپ سب کے سب جرئت سے کام لیں، آپ تمام نوجوان ملک کو، علمی لحاظ سے اقتصادی لحاظ سے، امن و سلامتی کے لحاظ سے اس مقام تک پہنچا دیں کہ آپ کو نقصان پہنچا سکنے کا امکان باقی نہ رہے؛ اس وقت یہ لوگ خاموش ہوں گے اور ان کی سازشیں تمام ہو جائیں گی۔ یہ جو میں نے ادھر چند برسوں کے دوران علم و تحقیق، خلاقیت، جدت و ابتکار عمل، ٹکنالوجی کے میدان میں تیز رفتاری، مواصلاتی صنعت میں فروغ ، یونیورسٹی اور صنعت میں قریبی رابطے اور اسی طرح کی دوسری باتوں پر مسلسل تاکید کی ہے وہ اسی خاطر ہے کہ آپ کے ملک و ملت کے لئے طویل المدت امن و تحفظ کا ایک ستون علم ہے۔
اور اسی مقام پر آپ سے عرض کر دوں، ہوشیار رہئے گا کہ کہیں ان ہی چھوٹے موٹے معمولی قسم کے سیاسی مسائل سے یونیورسٹی کا ماحول متاثر نہ ہو جائے، کہیں یونیورسٹی کے علمی کاموں میں رخنہ نہ پڑ جائے، کہیں ہماری تجربہ گاہوں اور لیباریٹریوں، ہمارے کلاسوں اور لکچروں اور ہمارے تحقیقاتی مرکزوں کو کسی طرح کا نقصان نہ پہنچے، آپ لوگ اس کا خیال رکھیں اور ہوشیار رہیں؛ ایک اہم مسئلہ جو آپ سب کے سامنے ہے یونیورسٹیوں میں جاری علمی تحریک کی حفاظت کا مسئلہ ہے۔ دشمنوں کی بڑی خواہش ہے کہ ہماری یونیورسٹیاں کچھ مدت کے لئے ہی سہی بند ہو جائیں اور طرح طرح کی ہنگامہ آرائی اور شور و غل کی نذر ہو جائیں۔ یہ چیز ان کے لئے ایک پسندیدہ عمل ہوگا۔ وہ سیاسی لحاظ سے بھی یہ چیز پسند کرتے ہیں اور طویل المدت منصوبے کے لحاظ سے بھی یہی چاہتے ہیں کیونکہ آپ کا علم حاصل کرنا طویل مدت میں ان کے لئے نقصان دہ ہے لہذا انہیں یہ پسند ہے کہ آپ لوگ علم کی جستجو چھوڑ دیں۔
اب آپ تمام نوجوان جو، جیسا کہ ہم نے عرض کیا، سرد جنگ میں دفاعی مورچے کے نوجوان کمانڈر ہیں، مجھ سے نہ پوچھئے گا کہ آج کی مسجد ضرار کو ڈھانے میں ( اسکول کالج اور یونیورسٹیوں کے ) طلبہ کا کیا کردار ہے؟ خود آپ گھوم پھر کر دیکھئے اور اپنا کردار تلاش کیجئے، جدید نفاق سے مقابلے کی بات ہو یا عدل و انصاف کی تعریف؛ میں یہاں بیٹھ کر ایک فلسفیانہ بحث چھیڑوں، انصاف کے کتنے شعبے ہیں، انصاف کی کیا نوعیت ہے؟ اور مزے کی بات یہ ہے کہ مجھ سے ایک جملے میں اس کی تعریف کرنے کی فرمائش ہے۔ مشہور ہے کہ شیخ انصاری کے زمانے میں ایک شخص اپنے بیٹے کو لیکر نجف ( اشرف) آیا تھا۔ اس نے دیکھا طلبہ درس ( و بحث) میں مشغول ہیں جو آگے چل کر عالم بنیں گے، شیخ انصاری بھی ظاہر ہے ایک عظیم شخصیت تھی۔ اس شخص نے سوچا کہ اپنے بیٹے کو بھی دینی طالب علم بنا دے۔ وہ شیخ انصاری کے پاس آیا اور کہنے لگا؛ مولانا! میں اس نوجوان کو لایا ہوں اور آپ سے التجا کرتا ہوں کہ کل مجھے یہاں سے واپس جانا ہے اس وقت تک آپ اس کو فقیہ بنا دیں!
میرے عزيزو! اصل شرط آپ لوگوں کی صحیح کارکردگي ہے کہ آپ لوگ اس سرد جنگ کے دفاعی محاذ پر کیسے کام کرتے ہیں۔ ایک چیز تو یہ ہے کہ بھرپور امید کے ساتھ قدم بڑھائیں۔ آپ کی نگاہیں امیدوں سے معمور ہوں۔ ایک تابناک مستقبل سامنے رکھیں۔ دیکھئے، میں آپ لوگوں میں بعض کے لئے دادا کی جگہ پر ہوں میں مستقبل کی طرف سے پر امید ہوں، یہ وہم کی بنیاد پر نہیں بصیرت کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ آپ لوگ نوجوان ہیں، امید کا مرکز ہیں ( مستقبل کی امیدیں آپ سے وابستہ ہیں ) خبردار آئندہ کے سلسلے میں آپ کی نگاہ نامیدی و مایوسی کا شکار نہ ہونے پائے۔ اپنی امیدیں جوان رکھئے، ناامیدی کو اپنے قریب نہ آنے دیجئے، اگر نگاہ میں ناامیدی آئی تو نگاہ کج فکری کا شکار ہو جائے گی۔ نگاہ میں سوالیہ نشان ہوگا کہ اس کا کیا فائدہ ہے؟ اور پھر کاہلی اور بے عملی کا شکار ہوکر گوشۂ تنہائی میں مایوس پڑے رہیں گے۔ مطلق طور پرکوئی تحرک و بیداری نظر نہیں آئے گی؛ یہ وہی چیز ہے جو دشمن چاہتے ہیں۔
ایک دوسری شرط یہ ہے کہ مسائل میں افراط و تفریط کا گزر نہ ہونے پائے، نوجوانی کا مزاج تیزي اور تندی رکھتا ہے۔ آپ کی زندگي کا یہ دور ہم نے بھی گزارا ہے اور وہ بھی انقلاب کے زمانے میں۔ انقلابی جد و جہد کے ابتدائي دور میں اسی طرح کی کیفیت تھی، ہمیں معلوم ہے کہ تندی کسے کہتے ہیں۔ بہت سے لوگ ہمیں بھی نصیحتیں کرتے تھے کہ جناب تندی سے کام نہ لیجئے، ہم لوگ کہتے تھے کہ یہ لوگ نہیں سمجھتے تندی کس قدر ضروری ہے ؛ میں سمجھتا ہوں کہ آپ لوگ کیا کہنا چاہتے ہیں لیکن آپ لوگ ہم سے سن لیجئے اور یاد رکھئے کہ تندی اور تیزروی انسان کو آگے نہیں بڑھنے دیتی۔ غور و فکر کے ساتھ فیصلے کیجئے یقینا آج کے جوان، ہمارے زمانے کے جوانوں سے زيادہ اہل فکر و تدبر ہیں؛ یہ بھی آپ لوگوں سے عرض کردوں کہ آپ لوگ ان ( خوش قسمت ) نوجوانوں میں ہیں کہ آپ کے تجربات، آپ کی معلومات، آپ کی اطلاعات ہماری جوانی کے زمانے سے۔ آج سے تقریبا پچاس سال پہلے کے نوجوانوں سے بہت زيادہ ہے؛ آج کے نوجوانوں سے ان کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ بنابریں! یہ امید اور توقع کہ آپ لوگ غور و فکر اور تدبر و فراست سے مسائل کا جائزہ لیں گے اور افراط و تفریط اور تیزي و تندروی کے بغیر مسائل کے سلسلے میں مناسب روش و رفتار اپنائیں گے کوئي زيادہ توقع نہیں کہی جا سکتی۔
البتہ یہ بھی سن لیجئے کہ انتخابات کے بعد جو کچھ واقعات پیش آئے ہیں، اسی جائزے کے تحت کہ جس کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے اس قضیئے کی توقع پہلے سے تھی۔ اگرچہ جو افراد اس میدان میں ظاہر ہوئے ہیں،یقینا ان سے ہمیں ہرگز یہ توقع نہیں تھی۔
ہماری دعا ہے کہ انشاء اللہ خداوند متعال وہ موقع فراہم کرے کہ ہم ایک بار پھر آپ لوگوں کے ساتھ ایک مرتبہ خود یونیورسٹی کے اندر کسی جگہ مل جل کر باتیں کریں؛ اس وقت تو موقع نہیں مل سکا۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ