اس موقع پر قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے فضائیہ کے بصیرت آمیز اقدام کی تعریف کی۔ آپ نے ماہ صفر کے آخری ایام کی مناسبت سے حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا کی مجاہدانہ خدمات کا بھی تذکرہ کیا اور تاریخ کی روشنی میں اسلام کے لئے آپ کی خدمات کو بے مثال قرار دیا۔ آپ نے ایران کے انقلاب کو حضرت زینب سلام علیہا کی تحریک سے متاثر قرار دیا اور ساتھ ہی ملکی و عالمی حالات کا جائزہ لیا۔ تفصیلی خطاب مندرجہ ذیل ہے

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

میں آپ تمام عزيزوں کو خوش آمدید کہتا ہوں؛ انقلاب کے جہادی مورچوں میں سے ایک نہایت ہی اہم مورچے کے سرداروں)سپاہ پاسداران انقلاب فورس کے اعلی کمانڈروں کو دیا جانے والا لقب)، افسروں اور محنت کشوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ 8 جنوری کا دن ( اسلامی) انقلاب کی تاریخ میں بڑا ہی اہم دن ہے اس عظیم واقعہ میں کہ جس کا آپ میں زيادہ تر جوانوں نے صرف ذکر سنا ہے اور ہم نے آنکھوں سے دیکھا ہے الہی جذبے اور اخلاص کے سوا کوئی جذبہ نہیں پایا جاتا تھا۔ اسی لئے یہ واقعہ اپنے وقت پر بہت زیادہ موثر بھی واقع ہوا اور تاریخ میں جاوداں ہو گیا۔ ایک الہی اور مخلصانہ کام کی یہی خصوصیت ہے کہ باقی رہ جاتا ہے اور اثرات مرتب کرتا ہے۔ یہ اثرات بھی اپنے اسی زمانہ سے کہ جب وہ واقعہ پیش آيا ہو، مخصوص نہیں رہتے، اس کے مسلسل اور دائمی اثرات ہوتے ہیں۔ خدائی کام ایسے ہی ہوتے ہیں۔ وہ دن کہ جب فضائیہ کے جوان مدرسۂ علوی میں آئے تھے اور امام خمینی (رحمت اللہ علیہ) کی بیعت کی تھی اور ایک بند کو توڑا تھا ایک بہت بڑی سیاسی خط شکنی کی تھی تو نہ انہیں کسی مقام کی توقع تھی، نہ ہی دولت و ثروت یا حتی تعریف و ستائش کی کوئی امید بھی نہیں تھی؛ بلکہ احتمال غالب کے تحت جو چیز ان کی منتظر تھی دھمکیاں اور خطرے تھے۔ لہذا الہی جذبے کے سوا کوئی اور جذبہ نہيں تھا اور اس دن یہ الہی واقعہ موثر واقع ہوا اور آج بھی اکتیس سال گزر جانے کے باوجود اسی طرح موثر بنا ہوا ہے۔
یہ ایام ماہ صفر کے آخری عشرے کے ایام ہیں، چہلم کے بعد کے ایام۔ اگر صدر اسلام کی تاریخ پر ایک نگاہ ڈالیں تو یہ ایام حضرت زينب کبری سلام اللہ علیہا کے ایام ہیں، وہ کام بھی جو زينب کبری سلام اللہ علیہا نے کیا ہے اسی جنس قسم کا ایک کام تھا۔ ایک ایسا کام جو صرف اور صرف خداوند متعال کی خوشنودی کے لئے خطروں، زحمتوں اور مشقتوں کا سامنا کرکے انجام دیا گیا۔
حضرت زينب کبری سلام اللہ علیہا کی شکل میں دین کا ایک الہی اور معنوی رخ جلوہ گر ہوا ہے۔ مناسب ہوگا اگر ہم ماضي کی اس نہایت ہی قیمتی اور مایہ فخر تاریخ کی باتوں سے آشنا ہوں اور سمجھیں، جو آج تک فکری اور عرفانی برکات کا سرچشمہ رہی ہیں اور انشاء اللہ دنیا کے آخری لمحے تک فکر و معرفت کا چشمہ رہیں گی۔
حضرت زينب سلام اللہ علیہا نے امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ کربلا کی سمت سفر کے دوران بھی اور روز عاشورا کے سانحے میں بھی وہ تمام سختیاں اور مشقتیں اٹھائیں، حسین ابن علی علیہما السلام کی شہادت کے بعد جو واقعات گزرے، باقی ماندہ تمام بچوں اور عورتوں کے ساتھ بے سروسامانی کے عالم میں ایک ولی الہی کے عنوان سے اس طرح ضو فگن ہوئیں کہ ان کی نظیر نہیں ملتی۔ پوری تاریخ میں اس کی نظیر تلاش نہیں کی جا سکتی۔ بعد میں بھی پے در پے جو واقعات جناب زينب (سلام اللہ علیہا) کی اسیری کے دوران کوفہ میں، شام میں ( صفر کے ) ان ایام تک، جہاں سانحوں کا یہ سلسلہ جاکر ختم ہوا ہے اور اسلامی تحریک کے لئے اسلامی تفکر کے فروغ کے لئے اور اسلامی معاشرے کی ترقی کے لئے ایک اور دور کی شروعات ہوئی ہے ( اس کے تناظر میں جناب زینب کا کردار بے مثال ہے )؛ اپنے ان عظيم جہادی کارناموں کے سبب حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا نے خداوند متعال کے نزدیک وہ مرتبہ حاصل کرلیا ہے جو ہمارے لئے قابل توصیف نہیں ہے( ہم اس مقام و منزلت کو لفظوں میں بیان نہیں کر سکتے)
آپ ملاحظہ فرمائیں، قرآن کریم میں، ایمان کے کامل نمونے کے حیثیت سے خداوند متعال نے مقام مثال میں دو خواتین کا ذکر کیا ہے ضرب اللہ مثلا لّلّذین کفروا امراۃ نوح وّ امراۃ لوط کانتا تحت عبدین من عبادنا ( یعنی اللہ نے کفر کی راہ اختیار کرنے والوں کے لئے نوح (علیہ السلام) کی زوجہ اور لوط (علیہ السلام) کی زوجہ کی مثال دی ہے کہ دونوں ہمارے نیکوکار بندوں کی زوجیت میں تھیں) چنانچہ ان دونوں عورتوں کی مثال کفر کے نمونوں کے طور پر دی گئی ہے۔ یعنی نمونے کے عنوان سے مقام مثال میں مردوں کا ذکر نہیں ہے، عورتوں کے درمیان سے مثال پیش کی گئی ہے، کفرکے باب میں بھی، اور ایمان کے باب میں بھی۔ ایک عورت یعنی زن فرعون کو ایمان کے کامل نمونے کے عنوان سے مقام مثال میں پیش کیا گيا ہے و ضرب اللہ مثلا لّلّذین امنوا امراۃ فرعون ( اور اللہ نے اہل ایمان کے لئے زن فرعون کی مثال دی ہے) اور ایک مثال حضرت مریم کبری (سلام اللہ علیہا) کی دی ہے و مریم ابنۃ عمران ( اور عمران کی بیٹی مریم (سلام اللہ علیہا) کی مثال ہے۔
زن فرعون اور زینب کبری(سلام اللہ علیہا) کے درمیان ایک مختصر موازنہ زینب کبری (سلام اللہ علیہا) کے بلند مرتبے کی نشاندہی کے لئے کافی ہے۔ قرآن کریم میں زن فرعون کو ایمان کا نمونہ قرار دیا گيا ہے۔ دنیا کے اختتام تک پوری تاریخ میں ہر زمانہ کے مرد و زن کے لئے اور اب اس مثالی زن فرعون کا جو حضرت موسی (علیہ السلام) پر ایمان لائیں اور اس تبلیغ و ہدایت سے وابستہ ہو گئی تھیں جو موسی علیہ السلام نے پیش کی تھی، ذرا حضرت زينب (سلام اللہ علیہا) کے ساتھ موازنہ کیجئے! وہ جس وقت فرعونی قید ستم میں اذیتوں سے گزاری گئیں اور ان ہی اذیتوں کے دوران، جیسا کہ تاریخ و روایات میں نقل ہوا ہے، دنیا سے رخصت ہو گئیں، جسمانی اذیتوں نے ان کو فریاد و فغاں پر مجبور کر دیا : اذ قالت ربّ ابن لی عندک بیتا فی الجنّۃ و نجّنی من فرعون و عملہ ونجّنی من القوم الظّالمین پروردگارا! میرے لئے بہشت میں ایک گھر بنا دے، در اصل موت کی دعا کر رہی تھیں اور چاہتی تھیں کہ دنیا سے نجات مل جائے ونجّنی من فرعون و عملہ مجھ کو فرعون کے ہاتھوں سے اور فرعون کے گمراہ کن عمل سے نجات عطا کر دے ( اور مجھے اس ظالم قوم سے رہائی دے دے) جبکہ جناب آسیہ (سلام اللہ علیہا) زن فرعون کی مشکلیں اور اذیتیں، ان کا درد اور تکلیفیں، جسمانی اذیتیں اور تکلیفیں تھیں، حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) کی مانند انہوں نے کئي بھائیوں، دوبیٹوں اور بڑی تعداد میں بھتیجوں اور دیگر عزیزوں کو نہیں کھویا تھا اور خود اپنی آنکھوں کے سامنے ان کو قربان گاہ میں جاتے نہیں دیکھا تھا۔ یہ ذہنی تکلیفیں جو زينب کبری (سلام اللہ علیہا) کو پیش آئیں یہ سب جناب آسیہ، فرعون کی زوجہ کو پیش نہیں آئی تھیں، روز عاشوار جناب زينب کبری سلام اللہ علیہا نے ان تمام عزیزوں کو خود اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا کہ مقتل میں جا رہے ہیں اور شہید ہو رہے ہیں، سید الشہداء حسین ابن علی علیہما السلام کو دیکھا، عباس (علیہ السلام) کو دیکھا، علی اکبر کو دیکھا، قاسم کو دیکھا، خود اپنے بچوں (عون و محمد) کو دیکھا، دوسرے بھائیوں ( اور بھتیجوں کو شہید ہوتے ) دیکھا پھر شہادتوں کے بعد وہ تمام مصیبتیں دیکھیں۔ دشمنوں کا ہجوم، بے احترامیاں، بچوں کی عورتوں کی حفاظت کی ذمہ داریاں، کیا ان تمام مصیبتوں کی سنگینی کا صرف جسمانی مصائب کے ساتھ موازنہ کیا جا سکتا ہے؟ ان تمام مصیبتوں کے درمیان جناب زینب (سلام اللہ علیہا) نے اپنے پروردگار سے عرض نہیں کی ربّ نجّنی پروردگارا مجھے ان مصیبتوں سے نجات دیدے۔ روز عاشورا عرض کرتی ہیں : پروردگارا ! ہماری طرف سے قبول فرما، بھائی کے پارہ پارہ بدن کے ٹکڑے ہاتھوں کے سامنے اور آنکھوں کے سامنے ہیں اور دل پروردگار کی سمت متوجہ ہے، عرض کرتی ہیں؛ پروردگارا ! ہماری طرف سے یہ قربانیاں قبول فرما اور پھر جس وقت ( دربار میں ) سوال ہوا ( یہ سب کچھ جو گزرا ہے ) کیسا لگا؟ تو فرماتی ہیں : ما رایت الّا جمیلا ( بحارالانوار جلد 45 ، ص 116)یہ تمام مصیبتیں جناب زينب (سلام اللہ علیہا) کی نگاہوں میں زيبا ہيں؛ کیوں کہ رضائے خدا کے لئے، راہ خدا میں ہیں اس کے کلمۂ حق کو بلند رکھنے کے لئے برداشت کرنا پڑی ہیں۔ ذرا اس مرتبے کو دیکھئے! یہ مقام اور ایسا صبر حق و حقیقت کے تئیں اس طرح کی خود فراموشی اور عشق خدا کی یہ منزل ؛ کس قدر ممتاز ہے اس مقام و منزلت سے جو قرآن کریم نے جناب آسیہ (سلام اللہ علیہا) کے لئے نقل کیا ہے یہ چیز جناب زينب (سلام اللہ علیہا) کی عظمت کا پتہ دیتی ہے۔ خداکے لئے کیا گیا کام اس طرح کا ہوتا ہے۔ لہذا زینب (سلام اللہ علیہا) کا نام اور زينب (سلام اللہ علیہا) کا کام مثال و نمونہ ہے اور دنیا میں جاوداں ہے۔ دین اسلام کی بقا، راہ خدا کا سلسلہ اور بندگان خدا کے ذریعہ اس راہ کا دوام و تسلسل اسی پر قائم و دائم ہے اس کو مدد و استحکام ملا ہے اس کام سے جو حسین ابن علی علیہما السلام نے کیا ہے، جو کام زينب کبری (سلام اللہ علیہا) نے انجام دیا ہے یعنی وہ عظیم صبر، وہ استقامت، مصائب و مشکلات کا وہ تحمل باعث بنا کہ آج آپ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ دینی اقدار و معیارات کو دنیا میں زندہ اقدار کے طور پر رواج حاصل ہے۔ یہ تمام انسانی قدریں جو مختلف مکاتب فکر میں، انسانی ضمیر سے مطابقت رکھتی ہیں وہ قدریں ہیں جو دین سے نکلی ہیں؛ یہ سب دین و مذہب نے پیش کی ہیں، خدا کے لئے کئے جانے والے کام کی خاصیت یہی ہے۔ اسی طرح کے کاموں کی ماہیت کا حامل یہ انقلاب کا کام بھی تھا۔ انقلاب جاوداں ہو گيا۔ اس نے حقیقی معنوی ثبات و اقتدار حاصل کرکے دوام پیدا کر لیا۔ یہ انقلاب خدا کے لئے لایا گیا انقلاب تھا۔ جب یہ انقلاب شروع ہوا، یہ تحریک وجود میں آئی، مختلف پارٹیوں کی تحریک کے مثل نہیں تھی، دینا کی سیاسی پارٹیوں کی کوئي جماعتی تحریک نہیں تھی جو قوت و اقتدار حاصل کرنے کے لئے شروع ہوئی ہو۔ ایک ایسی تحریک تھی جو عین مظلومیت کے عالم میں الہی احکام پر عمل درآمد کے لئے، ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لئے اور معاشرے میں انصاف کی برقراری کے لئے شروع ہوئی تھی اور جن لوگوں کی جد وجہد نے انقلاب کو کامیابی تک پہنچایا اور جو لوگ اس انقلاب کی راہ میں کھڑے ہوئے، جہاد کیا، قربانی پیش کی اور اسکے ثبات و دوام کا باعث بنے، وہ سب نیتوں میں خلوص رکھتے تھے۔ آپ کے شہداء ، آپ کی فضائی افواج کے شہداء اسی طرح کے لوگوں میں تھے! مسلح افواج کے شہداء سب کے سب اسی قبیل کے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے خدا کےلئے کام کیا، خدا کے لئے کوششیں کیں، خداوند عالم نے بھی ان کے کاموں میں برکت عطا کر دی۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کو انقلاب دشمن نہیں سمجھ سکتے۔ یہی وہ مسئلہ ہے جسے صیہونی اور استکباری مشینریاں نہیں سمجھ سکتیں۔ نہیں سمجھ سکتیں کہ اس عمارت کا استحکام اسی خاطر ہے کہ یہ خدا کے لئے تعمیر کی گئی ہے۔ اس کی بنیاد اخلاص پر قائم ہے اور یہ جہاد و قربانی کی بنیاد پر استوار ہے، اسی لئے اسلامی انقلاب اور نظام نے دلوں کو فتح کرلیا ہے ۔
آپ لوگ نظر اٹھائیں اور دیکھیں! آج کئی ہزار ذرائع ابلاغ، ریڈیو ہو یا ٹیلی ویژن اور طرح طرح کے مختلف النوع مواصلاتی ایجنسیاں، جدیدترین طریقوں کو بروئے کار لاکر اس نظام کے خلاف کام کر رہی ہیں۔ سیکڑوں دماغ اور فکریں، سر جوڑ کر بیٹھی ہوئی ہیں۔ ہرروز ایک نئی بات، ایک نیا نعرہ، ایک نیا خیال ، ایک نئی سازش، انقلاب کے خلاف منظم صورت میں سامنے آتی ہے لیکن اب تک اس انقلاب اور اسلامی نظام کو نقصان نہیں پہنچا سکے ہیں۔ یہ کیوں اور کس وجہ سے ہے؟ اس عمارت کو استحکام اسی لئے حاصل ہے کہ اس کی بنیاد ایمان باللہ کے اصول پر رکھی گئی ہے۔ جن لوگوں نے اس راہ میں قدم بڑھائے ہیں انہوں نے خدا کے لئے کام کیا ہے۔
یہ نظام، دوسرے نظاموں کے جیسا نہیں ہے۔ آج دنیا میں کوئی بھی نظام نہیں ملے گا کہ اس کے خلاف اس قدر زیادہ پروپیگنڈے کئے جارہے ہوں، سیاسی کاروائیاں کی جارہی ہوں، اقتصادی دباؤ ڈالے جائیں، بائیکاٹ کیا جائے اور وہ اس طرح قوت و استحکام کے ساتھ کھڑا ہو۔ اس طرح کی چیز دنیا میں نہیں پائی جاتی لیکن یہ نظام اپنی جگہ قائم ہے اور آئندہ بھی اپنی جگہ ڈٹا رہے گا۔ یہ بات سب لوگ سمجھ لیں۔ نہ امریکہ، نہ صیہونیت نہ دنیا کے تسلط پسند مستکبرین (کوئی بھی) نہ سیاسی ہتھکنڈوں سے، نہ اقتصادی حربوں کے ذریعے، نہ بائیکاٹ کی دھمکیوں سے نہ طرح طرح کی تہمتوں سے اور نہ ہی اندرونی سطح پر اپنے آلہ کاروں کی تحریک کے ذریعے اس انقلاب کو اس کی جگہ سے ہلا بھی نہیں سکتا۔
اس انقلاب کی حفاظت و بقا کا راز ایمانوں پر اس کا استوار ہونا ہے۔ یہ (لوگوں کے) ایمان پر اور خدا پر تکیہ کئے ہوئے ہے لہذا آپ لوگوں کے سامنے ہے، جس دن بھی پورے ملک میں پھیلے عوام الناس محسوس کرلیتے ہیں کہ انقلاب کے خلاف دشمن سرگرم عمل ہو گیا ہے، محسوس کرلیتے ہیں کہ سنجیدہ قسم کی کوئی سازش رچی گئی ہے، کسی دعوت کے بغیر خود بخود جوش و جذبے کے ساتھ میدان میں آجاتے ہیں ۔ 30 دسمبر ( سنہ 2009) کو آپ نے دیکھا کہ اس ملک میں کیا ہوا اور کیا واقعہ پیش آیا۔ دشمنان انقلاب نے بھی، جو ہمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ دسیوں لاکھ کےعوامی مظاہروں کو چند ہزار افراد کے مظاہرے قرار دیکر مسئلے کو چھوٹا اورمعمولی بنادیں اس دفعہ اعتراف کیا ہے اور کہا ہے کہ ادھر بیس سال کے دوران کوئی بھی عوامی تحریک ایران میں اس شان و وعظمت کی نہیں دیکھی گئی۔ یہ بات انہوں نے لکھی اور کہی ہے۔ وہ لوگ جو اسلامی جمہوریہ کے سلسلے میں حقائق پر پردہ ڈالتے رہتے ہیں، انہوں نے یہ بات کہی ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ یہی ہے کہ ایرانی عوام جس وقت بھی محسوس کرتے ہیں کہ دشمن اسلامی نظام کے مقابلے میں کھڑا ہے تو وہ بھی میدان میں اتر پڑتے ہیں۔ یہ ایمانی اقدام اور حرکت ہے، یہ قلبی اقدام اور حرکت ہے، یہ وہ چیز ہے جس میں الہی جذبہ پایا جاتا ہے۔ دست خدا کارفرما ہے، دست الہی اور ارادۂ الہی اس میں دخیل ہے۔ یہ چیزيں میرے یا میرے جیسے لوگوں کے ہاتھ میں نہیں ہیں۔ قلوب، خدا کے ہاتھ میں ہیں۔ ارادے، پروردگار کے فیصلے کے تابع ہیں۔ جب کوئی اقدام خدائی اقدام ہو، خدا کےلئے ہو، اس میں اخلاص پایا جاتا ہو تو خداوند متعال اسی طرح دفاع کرتا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے کہ : انّ اللہ یدافع عن الّذین آمنوا حج / 38 ( بیشک اللہ اہل ایمان کا دفاع کرتا ہے ) یہ بات اسلامی نظام کے دشمنوں کی سمجھ میں نہیں آئے گی آج تک تو وہ نہیں سمجھ سکے ہیں جبھی توبائیکاٹ کر رہے ہیں۔ باتیں بنایا کرتے ہیں، طرح طرح کی روشیں بروئے کار لا رہے ہیں، بہ خیال خود اس تلاش میں گھوم رہے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ کا کوئی کمزور نقطہ مل جائے۔ کبھی انسانی حقوق کانام لیتے ہیں، کبھی جمہوریت کی دہائی دیتے ہیں۔ یہ وہ ہتھکنڈے ہیں جو آج دنیا والوں کی نگاہ میں مذاق کے ہتھکنڈے بن گئے ہیں۔ رائے عامہ کی باتیں کرتے ہیں لیکن رائے عامہ اگر امریکہ کی اور صیہونیت کی ان باتوں کو باور کرتی ہوتی تو دنیا میں اس طرح مختلف ممالک اور مختلف قومیں مختلف موقعوں پر ان مغرور و متکبر سرغنوں کے خلاف اپنی نفرت و بیزاری اس طرح ظاہر نہ کرتیں جیسا کہ آج آپ دیکھ رہے ہیں۔ جہاں کہیں یہ لوگ سفر کرتے ہیں لوگوں کی ایک آبادی ان کے خلاف نعرے لگاتی ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ عالمی رائے عامہ ان کے ہتھکنڈوں کے فریب میں مبتلا نہیں ہوئی ہے ۔
وہ لوگ انسانی حقوق کا دم بھر رہے ہیں کہ جنہوں نے انسانوں کے ابتدائی ترین حقوق، اپنے جیل خانوں میں بھی اور دنیا کے مختلف حصوں میں بھی، مختلف ملتوں کے ساتھ اپنے معاملات میں بھی اور حتی اپنی قوم کے ساتھ بھی، پاؤں تلے روند ڈالے ہیں! یہ لوگ انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں ( جو) ایذا رسانیوں کو قانونی درجہ دے رہے ہیں۔ کیا یہ ایک ملک کے لئے شرم کی بات نہیں ہے؟ کیا یہ ایک ملک کے لئے ڈوب مرنے کا مقام نہیں ہے کہ وہ اپنے قیدیوں کی ایذارسانی کو قانونی درجہ دے اور قانونی حیثیت عطا کرے؟ اس کے بعد بھی یہ لوگ انسانی حقوق کا دم بھرتے ہیں۔ انسان کی حرمت اور انسان کی عظمت کے دفاع کا دم بھرتے ہیں۔ ٹھیک ہے دنیا میں دیکھنے اور سننے والے ان باتوں کو اور ان دعووں کو دیکھ رہے ہیں اور سن رہے ہیں اور ان کا ان کی روش و رفتار کے ساتھ جو ان کے علم میں ہے موازنہ کرتے ہیں اور ان پر ہنستے ہیں۔ وہ کب ان کی اس طرح کی باتوں پر یقین کرتے ہیں ؟!
جمہوریت کا دم بھرتے ہیں؛ لیکن سب سے بڑی رجعت پسند استبدادی حکومتوں کے ساتھ دنیا کے گوشہ و کنار میں، منجملہ خود ہمارے علاقے میں عقد برادری باندھے ہوئے ہیں۔ آج زيادہ تر وہ حکومتیں جو امریکہ سے وابستگي رکھتی ہیں، مشرق وسطی کے علاقے کی کونسی حکومتیں ہیں؟ شمالی افریقہ میں کون سی حکومتیں ہیں؟ ان سے بڑی استبدادی حکومت (کہیں) اور پائي جاتی ہے؟!
جمہوریت کا دم بھرتے ہیں اس کے باوجود اسلامی جمہوریہ کے ساتھ، اس درخشاں ترین جمہوریت کے ساتھ، جس میں یہ قوت پائی جاتی ہے کہ اپنے صاحب صلاحیت 85 فی صدی ووٹروں کو پولنگ اسٹیشنوں تک ووٹ ڈالنے کے لئے کھینچ سکتی ہے، جمہوریت کے نام پر ہی بھڑے ہوئے ہیں۔ کیا دنیا والے اس کی ہنسی نہیں اڑائیں گے؟!! یہ بات تو سبھی سجمھتے ہیں۔ دنیا کے لوگ جو دیکھ رہے ہیں، جو لوگ مسائل کو جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں امریکہ کے اس رویّے پر ہنستے ہیں۔
ملت ایران ایک آگاہ و بیدار قوم ہے، ایک ہوشیار قوم ہے۔ یہ تجربے سے گزری ہے۔ یہ مسائل کوئی آج کے نئے مسائل نہیں ہیں، عزيز بھائیو! آپ میں کچھ لوگوں کو یاد ہوگا، نوجوانوں کو بھی معلوم ہے کہ اکتیس سال ہو چکے ہیں کہ یہ ماجرا استکباری مشینریوں اور ملت ایران کے درمیان جاری ہے، یہ مسائل آج کے نہیں ہیں۔ یہ دھمکیاں بھی جو ہمیشہ ناکام رہی ہیں اور یہ بائیکاٹ بھی، یہ بدگوئیاں بھی اور یہ تہمتیں بھی، کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ اسلامی جمہوریہ نے تشہیراتی بمباریوں کے ماحول میں، اس قدر ترقی حاصل کی ہیں کہ آج آپ کی فضائی قوت کا انقلاب کے اوائل کی فضائی قوت کے ساتھ کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ آپ کی موجودہ مہارتیں، آپ کی موجودہ توانائیاں، آپ کے موجودہ ساز و سامان، افرادی قوت کی ترقی، طرح طرح کی خلاقیت، اول انقلاب کے ساتھ قابل مقائسہ نہیں ہے، بیس سال پہلے کے ساتھ بھی قابل موازنہ نہیں ہے۔
ہم نے دن بدن ترقی کی ہے۔ ملک کے تمام شعبے اسی مانند ہیں۔ یہ ملک کہ آج جس کی میزائیلی توانائیاں اس سطح پر ہیں، جس کی بایولاجیکل توانائیاں اس سطح پر ہیں، لیزری توانائیاں اس سطح کی ہیں کہ جس کی آپ کو خبر ہے آپ جانتے ہیں اور آپ نے سنا ہے اور مختلف شعبوں میں جس کی توانائیاں اس عظمت اور اس درجے کی اہمیت رکھتی ہیں، یہ وہی ملک ہے جو اوائل انقلاب میں معمولی ترین ساز و سامان بھی باہر سے درآمد کرتا تھا جسے کبھی کسی سے تو کبھی کسی اور سے قرضے لینا پڑتے تھے، ابتدائی ترین وسائل دوسروں سے خریدنے کی ضرورت پڑتی تھی اور لوگ بیچنے پر تیار نہیں ہوتے تھے کئی گنا زیادہ قیمت دیکر خریدتا تھا، جو تہی دست ہوچکا تھا۔ آج یہ وہی لشکر ہے، آج وہی مسلح فوجیں ہیں، یہ وہی مجموعہ ہے، یہ وہی فضائیہ ہے جو اس وقت اتنی ترقیاں حاصل کرچکی ہے اور وہی طرح طرح کے یونیورسٹیوں والے، علمی، تحقیقی مجموعے جواب اس منزل پر پہنچ چکے ہیں۔ ان ہی دشمنیوں، دھمکیوں اور بائیکاٹوں کی بمباریوں میں ہم یہاں تک پہنچے ہیں۔ ملت ایران کو تم لوگ با‏ئیکاٹ سے ڈرا رہے ہو؟؟
جو بات اہم ہے وہ یہ ہے کہ ملت عزيز اپنے اتحاد کی حفاظت کرے، اپنی یکجہتی اور یگانگت کو باقی رکھے۔ یہی اتحاد دشمنوں کی نگاہ میں کانٹے کی مانند کھٹکتا ہے۔ ان کی کوشش یہ ہے کہ قوم کی اسی یکجہتی اور اتحاد کو اس سے چھپن لیں۔ میرے خیال میں انتخابات کے بعد ادھر چند مہینوں کے دوران فتنہ انگیز حادثوں کے پس پشت اہم ترین ہدف و مقصد یہ تھا کہ قوم کی ایک ایک فرد کے درمیان رخنہ اندازي کر دیں۔ ان کی کوشش تھی کہ شگاف ڈال دیں، لوگوں کے دل ایک دوسرے سے دور کر دیں، لیکن وہ یہ کام نہیں کر سکے اور وہ ناکام رہ گئے۔ آج معلوم ہو چکا ہے کہ جو لوگ ملت ایران کی عظمت کے مقابلے میں، ملت ایران کے اس عظیم کارنامے کے مقابلے میں جو انہوں نے انتخابات میں انجام دیا تھا، کھڑے ہوئے ہیں وہ اس ملت کا حصہ نہیں ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو یا تو انقلاب کے کھلے دشمن ہیں یا وہ لوگ ہیں جو اپنی جہالت کے زیر اثر، اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کے زير اثر انقلاب کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ ان کا عوام الناس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ عوام الناس اپنی راہ پر مثل سابق گامزن ہیں، وہ راہ جو خدا کی راہ ہے، اسلام کی راہ ہے، اسلامی جمہوریہ کی راہ ہے، الہی احکام پر عمل درآمد کی راہ ہے، اسلام کے زير سایہ عزت و خودمختاری تک رسائی کی راہ ہے اس پر ملت کی حرکت و پیش روی بدستور جاری ہے۔
البتہ کچھ لوگ شروع سے ہی اس کے مخالف تھے۔ کچھ لوگ شروع سے ہی چاہتے تھے کہ امریکہ اس ملک پر اپنا ظالمانہ تسلط اور سامراجی اقتدار دوبارہ بحال کر لے۔ وہ اسی فکر میں تھے اور اب اس کو چھپانے کی زحمت بھی نہیں کرتے، اس طرح کے لوگ ملک سے باہر ہیں اور کچھ آلہ کار ملک کے اندر بھی ہیں، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ جن لوگوں نے اس انقلاب سے نقصان اٹھایا ہے ان کی اولاد جن لوگوں نے (شاہ کے) طاغوتی نظام کی نوکری کی ہے ان کی اولاد، یہ لوگ ابھی ختم نہیں ہوئے ہیں۔ یہی لوگ ہیں وہی تیس سالہ کینہ و دشمنی آج بھی موجود ہے، شروع سے ہی رہی ہے ؛ آغاز انقلاب سے ایسے لوگ تھے اور آج بھی ہیں اور آئندہ بھی موجود رہیں گے۔ کچھ وہ لوگ بھی ہیں جو بنیادی طور پر اسلام کی حکمرانی کے مخالف ہیں، فقہ کے مخالف ہیں۔ اب فقیہ کی مخالفت کو کیا کہا جائے۔ ان کا مسئلہ، اسلام ہے، لیکن ان کی مجموعی تعداد مٹھی بھر سے زیادہ نہیں ہے۔
یہ عظیم ملت اور یہ قومی وقار، اسلام کی راہ میں، خدا کے لئے، خدا کی راہ میں، سب آپس میں ایک ہیں، سب کی بات ایک ہے، سب کے دل ایک ہیں، البتہ ممکن ہے کہ ان کی سیاسی فکر اور طریقۂ کار مختلف ہو۔ دشمنان انقلاب اس اتحاد کو پارہ پارہ کر دینا چاہتے ہیں اور ملت اس کے خلاف کھڑی ہے ( انقلاب کی کامیابی کے دن) 11 فروری کو انشاء اللہ، الہی قوت و مدد سے ایران کی عزیز و باوقار قوم (دنیا کو) دکھائے گی کہ کس طرح اپنے اتحاد اور اپنی یکجہتی سے تمام مستکبرین عالم، امریکہ، برطانیہ اور صیہونیوں کے منہ پر ایسا طمانچہ رسید کیا جا سکتا ہے جو ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ان سب کو ششدر و مبہوت کر دے۔
اسلامی جمہوریہ اپنی راہ یعنی اسلام کے زیر سایہ عزت و سرافرازي کی راہ پر بڑھتی رہے گی، اسلام کے زير سایہ امن و آشتی، اسلام کے زير سایہ عدل و انصاف اور اسلام کے زیر سایہ جمہوریت اور اسلامی افکار و نظریات کو برقرار رکھے گی اور کسی شک و شبہ اور کسی سستی و کمزوری کے بغیر آگے بڑھتی جائے گی کیونکہ آئندہ نسلیں اس کے بارے میں فیصلے کریں گی۔
یاد رکھئے! ہمارے آج کے نوجوان اور انکے بعد کی نسلیں آئیں گی اور اس ملت کے قلب میں ذخیرہ شدہ عظیم تجربات کے سہارے، جو عالمی استکبار کا مقابلہ کرکے اس نے حاصل کیا ہے بلند چوٹیوں کو سر کرے گی اور اونچی اونچی بلندیوں پر پہنچ کر رہے گی۔ ملت ایران بلند و بالا چوٹیوں پر پہنچنے کی مستحق ہے، ایک قوم جو ہوشیار ہے، خلاقی صلاحیت رکھتی ہے، ایمان کی حامل ہے، جب تک اس ملت کو اسلامی بنیادوں پر انقلاب کی عطا کردہ آزادی نصیب رہے گي یہ ملت اپنی حرکت کسی بھی جگہ متوقف نہیں کرے گي۔ وہ دن انشاء اللہ آپ نوجوانوں کو دیکھنا ضرور نصیب ہوگا۔ آپ لوگوں کو بس ہمت سے کام لینا چاہئے آپ لوگ اپنے میدان میں اور تمام لوگ بھی اپنے اپنے میدانوں میں کوشش کریں اور جرئت و ہمت سے کام لیں۔
فضائیہ نے، جیسا کہ اس کے چیف کمانڈر نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے، اچھی ترقیاں کی ہیں، خود ہمیں بھی مختلف شعبوں میں فضائیہ کی نمایاں ترقیوں کا علم ہے لیکن اس کے باوجود کسی طرح کا توقف اور ٹھہراؤ ہرگز جائز نہیں ہے۔ موجودہ صورتحال پر قناعت نہ کیجئے گا۔ خلاقی صلاحیت کو بروئے کار لے آئیے۔ آپ لوگ اس سے بھی زيادہ کی لیاقت رکھتے ہیں اور آپ کی ملت اس سے بھی زيادہ قوی و مقتدر فضائیہ کے لائق ہے۔ مسلح افواج کے پورے مجموعے، منجملہ ان کی فضائیہ کو، ملت ایران کی عزت اور ملت ایران کا استحکام دکھا دینا اور مشخص کر دینا چاہئے۔ انہیں اس ملت کے اقتدار اور ثبات و استقامت کا ایک مظہر ہونا چاہئے اور انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔
خداوند متعال سے ہماری دعا ہے کہ وہ اسلامی جمہوریۂ ایران کی افواج اور تمام مسلح فورسز خصوصا فضائیہ کے عزیز شہداء اور تمام شہدائے عزيز کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور کرے اور ہمارے عظیم قائد امام خمینی (رحمت اللہ علیہ) کی روح مطہر کو کہ جن سے دیگر ایام کی نسبت ان دنوں ملت ایران کے زيادہ تر لوگ آشنا اور مانوس ہونے اور ان کی باتوں اور یادوں سے دل و دماغ کو روشن کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں ، اپنے اولیاء کے ساتھ محشور کرے اور حضرت ولی عصر (عجل اللہ فرجہ الشریف) کا قلب مقدس انشاء اللہ آپ سب سے راضی و خوشنود رہے۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ