آپ نے دنیا میں لا دینیت کے ہم جنس بازی جیسے خطرناک نتائج کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس سلسلے میں مزید اخلاقی دیوالئے پن کی بابت خبردار کیا اور ساتھ ہی دینداری کی جانب انسانوں کی واپسی کے شروع ہو چکے عمل کا حوالہ دیتے ہوئے نئی صورت حال میں اسلام کو خاص پوزیشن کا حامل قرار دیا۔ آپ نے عالم اسلام کو فروعی مسائل میں الجھانے کی مغرب کی کوششوں کی بابت خبردار کیا اور او آئی سی سمیت عالم اسلام کو مسئلہ فلسطین کے تعلق سے اپنے فرائض پر توجہ دینے کی نصیحت کی۔
تفصیلی خطاب حسب درجہ ذیل ہے؛
بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

ان شاء اللہ نئے سال کی آمد آپ تمام بھائیوں اور بہنوں کو مبارک ہو۔ ہماری زندگی میں موسموں اور سالوں کا یہ آنا جانا، تجربات اور درس حاصل ہونے کا باعث بننا چاہئے۔ ارشاد ہوتا ہے؛ یا محول الحول سال کو بدلتا ہے۔ سال کی تبدیلی صرف سردی کے موسم کی جگہ موسم بہار کی آمد کا نام نہیں ہے۔ موسم تو سارے ہی تبدیل ہوتے ہیں۔ کبھی بہار ہوتی ہے تو کبھی گرمی، کبھی سردی ہوتی ہے اور کبھی خزاں کا آغاز۔ سردی اور ٹھنڈ جس کا ظاہری روپ تھوڑا سخت ہے اس کا باطن در حقیقت بہار کی بنیاد ہوتا ہے۔ سال کی تبدیلی سے مراد یہی ہے، موسموں کی تبدیلی۔
قدرت کے الگ الگ رنگ یکے بعد دیگرے آتے جاتے ہیں، تبدیلی پیدا کر دیتے ہیں، یہ سب الہی آيات اور خدائی نشانیاں ہیں۔ یہ چیزیں ہمارے لئے معمول کی بات بن گئی ہیں اس لئے ہم نہیں سمجھ پاتے ورنہ اگر انسان فطرت اور قدرت میں ہونے والی اس تبدیلی کا عادی نہ ہو چکا ہو اور پہلی دفعہ اسے اس تبدیلی کو دیکھنے کا اتفاق ہو تو محسوس کرے گا کہ یہ بڑی حیرت انگيز تبدیلی ہے۔ سبزے کا اگ آنا، پوری خدائی کا نئے لباس میں ملبوس ہو جانا، درختوں کا پھلوں کے بوجھ سے جھک جانا، یہ سب قدرت پروردگار کی علامتیں ہیں جن پر سرسری نظر ڈال کر ہم گزر جاتے ہیں۔ خود ہمارے نفس کے اندر بھی یہی صورت حال ہے، خود ہمارا وجود بھی ایسا ہی ہے۔
تبدیلیوں کو انسان غالبا محسوس نہیں کر پاتا، تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں لیکن ہم سمجھ نہیں پاتے۔ یہ بے توجہی اور غفلت سرانجام بڑے نقصانات پر منتج ہوتی ہے۔ آپ فرض کیجئے کہ کوئی راہگیر چلا جا رہا ہے۔ راستے میں پانچ درجے یا دس درجے کی کجی ہے، انسان اسے محسوس بھی نہیں کر پاتا کیونکہ پانچ درجے کا زاویہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی طرف توجہ مرکوز ہو جائے۔ اب وہ اسی (ٹیڑھے راستے کی) سمت میں جیسے جیسے آگے بڑھتا جائے گا اسی پانچ درجے کی کجی کی بنا پر بھی، اگر ہم مان لیں کہ یہ ٹیڑھا پن دس درجہ اور پچاس درجہ تک نہیں پہنچا ہے تو بھی صحیح راستے اور اس راہگیر کے درمیان فاصلہ بڑھتا ہی جائے گا۔ اچانک جب وہ متوجہ ہوگا تو دیکھے گا کہ ارے! فاصلہ اتنا زیادہ ہو گیا! تقوے کی ضرورت پر اسی لئے تاکید کی گئی ہے۔ تقوا یعنی ہر لمحہ اپنے اوپر نظر رکھنا، محتاط رہنا۔ انسان کو ہمیشہ متوجہ رہنا چاہئے کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ یہ جو پانچ وقت کی یومیہ نمازیں ہمارے اوپر فرض کی گئی ہیں، در حقیقت اللہ تعالی کی عظیم نعمتوں میں ہیں۔ اگر یہ نمازیں نہ ہوتیں تو ہم غفلت کی گہرائیوں میں ڈوبتے ہی چلے جاتے۔ یہ نماز ہمیں متنبہ کرتی رہتی ہے۔ تو ضروری ہے کہ ہم اس نماز کو صحیح انداز سے اور توجہ اور ارتکاز کے ساتھ ادا کریں۔ اگر نماز پوری توجہ کے ساتھ ادا کی جائے تو اس سے انسان کو اپنے نفس پر توجہ رکھنے میں مدد ملے گی۔
تو آپ دیکھئے کہ ہم سال اٹھاسی (ہجری شمسی) کی جگہ سن نواسی (ہجری شمسی) کی آمد و آغاز کے لئے ایک مخصوص لمحے کا تعین کر دیتے ہیں، ایک خاص گھڑی ہے جو مقدار اور مختلف زاویوں کے لحاظ سے زندگی کی بقیہ لمحات کی مانند ہے۔ سن اٹھاسی کا یہ آخری لمحہ، سن نواسی کے پہلے لمحے سے مختلف نہیں ہے۔ بس ایک حدبندی کر دی گئي ہے۔ تو اگر ہم نے غفلت برتی تو قدرت میں آنے والی تبدیلیوں کو محسوس نہیں کر پائیں گے لیکن اگر ہم نے اس تبدیلی پر توجہ دی تو ہم اسے محسوس کریں گے۔ انسان کو چاہئے کہ زندگی کی تمام تر تبدیلیوں کے سلسلے میں اس احساس کو زندہ رکھے۔ اس چیز کو عید نوروز کے ثمرات اور خواص میں شمار کیا جا سکتا ہے۔
عید نوروز بظاہر ایک غیر دینی اور ایک قومی عید ہے۔ البتہ بعض روایات میں آیا ہے کہ النیروز من ایامنا نوروز ہمارے ایام میں سے ہے لیکن ہمیں یہ نہیں معلوم کہ ان روایات کی سند کتنی معتبر ہے۔ بہرحال انسان کی زندگی کا کوئی بھی واقعہ کیوں نہ ہو، اس میں دینی پہلو بھی ضرور ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ عید بھی ہے۔ خوش قسمتی سے ہمارے عوام اس جانب متوجہ بھی ہیں اور دعائیں وغیرہ پڑھتے ہیں، مقدس مقامات پر چلے جاتے ہیں، حتی وہ لوگ جو بڑے شہروں کی طرف جاتے ہیں جہاں بظاہر کوئی معروف زیارت گاہ نہیں ہے تو اگر کسی امام زادے (آئمہ کی اولاد) کا کوئی مقبرہ بھی ہوا تو تحویل سال کے موقع پر وہیں چلے چاتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر شیراز جاتے ہیں تو تحویل سال کے وقت امام زادہ شاہ چراغ کے مزار پر چلے جاتے ہیں۔ عوام کے درمیان یہ ایک بہت اچھا رواج ہے۔ زندگی کے واقعات اور مختلف امور میں جتنا زیادہ دینی رنگ پیدا کر دیا جائے ہمارے فائدے میں ہے۔
دین، ایمان، دین کی طرف توجہ، یہ چیزیں انسان کی سعادت و خوش بختی کی ضمانت ہیں۔ دین کے بغیر انسان کی بڑی درگت ہو جاتی ہے۔ ہمیشہ یہی چیز دیکھنے میں آئی ہے، آج بھی ایسا ہی ہے۔ عصر حاضر میں بھی جو لوگ دنیا کو دین سے جدا کرکے، دین سے علاحدہ کرکے چلانا چاہتے تھے لا علاج دشواریوں میں جا گرے ہیں۔ یہ دشواریاں جسمانی مشکلات اور روزمرہ کی دشواریوں کی مانند نہیں ہیں جو فورا ظاہر ہو جاتی ہیں، یہ اس وقت اپنے آثار دکھاتی ہیں جب لا علاج ہو چکی ہوتی ہیں۔ جب جنسی شہوت کو بے لگام چھوڑ دینے کا فیصلہ کر لیا گیا، جب یہی سیاست اختیار کر لی گئی، جب یہی رواج ہو گیا تو نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ ایک سرکاری عہدہ دار، ایک وزیر ہم جنس بازی کی شادی کرتا ہے اور اسے کوئی شرم بھی نہیں آتی! (1) آگے چل کر اس چیز کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ یہ لوگ محرموں کے ذریعے جنسی تسکین کریں گے۔ آج یہ چیز عیب سمجھی جاتی ہے، آج کوئی اسے برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے، لیکن آگے چل کر یہ بھی ہونے لگے گا۔ یعنی یہ جو سلسلہ چل نکلا ہے اس کی اگلی کڑی یہی ہے۔ آج مغربی دنیا میں یہ بے آبروئی عام ہو گئی ہے۔ یہ دین سے دوری کا نتیجہ ہے۔ بے دینی کے ماحول کا نتیجہ کنبے اور خاندان کا انتشار اور بکھراؤ ہے، انسانوں کا ایک دوسرے سے بیگانہ ہو جانا اور وہ بے شمار مشکلات ہیں جو انسان کی زندگی پر اپنا سایہ ڈال چکی ہیں۔
انسان کو چاہئے کہ دین کی جانب واپس پلٹے، وہ یقینا پلٹے گا۔ یہ سلسلہ شروع بھی ہو چکا ہے۔ وہ (مغربی عمائدین) اسے پسند کریں یا پسند نہ کریں، یہ ہوکر رہے گا اور اس عظیم لہر میں اسلام ایک درخشاں نقطے کی مانند ہے، دین اور معنویت کی جانب ارتکاز کے عمل کا پر کشش موتی ہے۔ اسلام اپنی ضو فشانی کر رہا ہے۔ اسلام کی پیشرفت کے عمل کو روک دینے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یہ ان کے بس کے باہر ہے۔
اسلامی جمہوریہ سے دشمنی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ یہ دینی تحریک، یہ جذبہ ایمانی ہی ہے جس نے عوام کو آگے بڑھایا ہے اور ہمیشہ میدان عمل میں باقی رکھا ہے۔ مشکلات کے دور میں، خطرناک نشیب و فراز میں اور جوکھم بھرے موڑ پر ان کی ہدایت کی ہے۔ اسے وہ دیکھ رہے ہیں، سمجھ رہے ہیں۔ ویسے ان میں متعدد سیاستداں حقیقی معنی میں پالیسی ساز نہیں ہیں، صرف پالیسیوں پر عمل درآمد کرنے والے ہیں، وہ صرف ظواہر کو دیکھتے ہیں لیکن جو لوگ واقعا عالمی سیاست کو سمت و جہت دینے کا کام کر رہے ہیں اور یہ مادی دنیا جن کے ایماء پر چل رہی ہے انہیں اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہے لیکن ان کے پاس کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ وہ اس کوشش میں لگے ہیں کہ عالم اسلام کو الجھا دیں۔ یہ فلسطین کا المیہ عالم اسلام کے فروعی مسائل میں الجھ جانے کے نتیجے میں رونما ہو رہا ہے۔ آج فلسطین میں واقعی ایک المیہ رونما ہو رہا ہے، غزہ میں المیہ رونما ہو رہا ہے، دریائے اردن کے مغربی کنارے پر بھی المیہ رونما ہو رہا ہے۔ حرم ابراہیمی کے قضیئے کو کم نہیں سمجھنا چاہئے۔ یہ بہت اہم چیزیں ہیں۔ مسلمانوں کو نماز پڑھنے کی وجہ سے ان کے گھروں اورآشیانوں سے نکالا جا رہا ہے۔ اسلامی آثار اور مقامات کی اسلامی پہچان کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو بے حد خطرناک ہے اور یہ سب کچھ دنیا کے مسلمانوں کی آنکھوں کے سامنے انجام دیا جا رہا ہے۔ چونکہ سب الجھے ہوئے ہیں، اس لئے سمجھ نہیں رہے ہیں۔ جزوی اور فروعی باتوں میں الجھے ہوئے ہیں، ان کی سمجھ میں ہی نہیں آ رہا ہے کہ عالم اسلام کو کیا حالات در پیش ہیں۔ یہ اسلام کے خلاف سازش کا نتیجہ ہے۔
اس وقت او آئي سی کو جس کی تشکیل ہی فلسطین اور فلسطینی کاز کے دفاع کے لئے عمل میں لائی گئی تھی، چاہئے کہ استقامت کا مظاہرہ کرے اور عالم اسلام کو صیہونیوں اور ان کے ان حامیوں کے خلاف متحد کرے جن میں بیشتر مغربی سامراجی حکومتیں شامل ہیں اور اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود (اسرائیل کی) حمایت پر متفق ہیں۔ عالم اسلام کو چاہئے کہ ڈٹ جائے اور یہ اس کے بس میں بھی ہے۔ صیہونیوں کی خباثتوں اور حرص و طمع کے خلاف کھڑے ہو جانے کے لئے عالم اسلام کے پاس کافی طاقت ہے۔ (اس سلسلے میں) سب کا دھیان تیل کی جانب مڑ جاتا ہے لیکن صرف تیل ہی نہیں ہے، یہ علاقہ تو دنیا کا مرکز ہے۔ مغربی مصنوعات کا سب سے بڑا بازار یہی علاقہ ہے، ان کی آبرو یہاں داؤں پر لگی ہوئی ہے، دنیا کی اہم ترین گزرگاہیں مسلمان ممالک کے پاس ہیں۔ یہ چیزیں دنیا کے لئے رگ حیات کا درجہ رکھتی ہیں جو مسلمانوں کے پاس ہیں، مسلمان ان کا استعمال کریں یہ ان کے اختیار میں ہے۔
ان تمام چیزوں کو بھی اگر نظر انداز کر دیں تو بھی سیاسی منطق اور سیاسی بات بھی آج کی دنیا میں موثر واقع ہوئی ہے۔ وہ ان وسائل کا استعمال کئے بغیر بھی، اپنے مطالبات رکھ سکتے ہیں۔ قوموں اور حکومتوں کا مطالبہ خود بھی بڑی اہم چیز ہے۔
بہرحال ہمیں سبق لینا چاہئے۔ مسائل کو اصلی اور فروعی مسائل میں تقسیم کرنا چاہئے اور اصلی مسائل پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ ہمارے ملک کے اندر بھی اصلی مسائل بہت ہیں، ان میں بعض کا تعلق حکام سے ہے، بعض کا تعلق ثقافتی شعبے کے ذمہ داروں سے ہے، بعض کا تعلق بڑے اداروں سے ہے جو خوش قسمتی سے ہمارے ملک میں موجود ہیں۔ سب کے کچھ نہ کچھ فرائض ہیں، اپنے کام ہیں۔ ہمیں عوام کو اور اس نظام کو آگے لے جانے کی فکر کرنی چاہئے۔
خدا وند عالم ہم سب کو خواب غفلت سے بیدار کرے کہ ہم اپنے فرائض کی صحیح تشخیص اور شناخت اور پھی اسی کے مطابق ان پر عمل کر سکیں۔ آپ سب کے لئے یہ سال با برکت ثابت ہو اور حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا فداہ کی دعائیں آپ سب کے شامل حال ہوں۔

والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ

(1) برطانیہ کی وزارت خارجہ کے ہم جنس باز اعلی عہدہ دار اور ایک کمپنی کے ہم جنس باز ملازم کی شادی کی جانب اشارہ ہے۔