آپ نے حالات حاضرہ پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی صدر کی جانب سے ایران کو دی جانے والی ایٹمی حملے کی دھمکی پر شدید نکتہ چینی کی اور عصر حاضر میں اس طرح کی دھمکی کو ایک عجیب بات قرار دیا۔ آپ نے مسلح فورسز کو نئی ایجادات اور نئی حکمت عملی پر توجہ دینے کی ہدایت کی۔ تفصیلی خطاب مندربہ ذیل ہے؛
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
ہم عید نوروز اور بہار کی آمد کی، جو شادابی و تازگی اور حیات نو کا موسم ہے، آپ تمام عزیز بھائیوں کو مبارکباد پیش کرتے ہیں جن کے دوش پر سنگین ذمہ داریاں ہیں۔ ہم آپ لوگوں سے مربوط مختلف شعبوں میں آپ حضرات کی محنتوں اور زحمتوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اللہ تعالی آپ تمام حضرات کی ان کوششوں کو مقبول بارگاہ قرار دے اور آپ کو توفیق دے کہ دوہرے عزم اور دوہری محنت و کوشش کے ذریعے جیسا کہ اس سال ہم نے ( نئے سال کو دوہرے عزم اور دگنا کام کے سال سے موسوم کرکے) اپنی عزیز قوم سے بھی عرض کیا ہے، نئے میدانوں میں قدم رکھیں اور انہیں سر کریں اور اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح فورسز کو اس مقام پر پہنچا دیں جو اس نظام کے شایان شان اور آپ جیسے با ایمان و با صداقت اور خدمت گزار افراد کے لائق ہے۔
واقعی مسلح فورسز کے لئے اللہ تعالی کی ایک عظیم نعمت صداقت پسند اور محبتی حکام اور عہدہ داروں کا وجود ہے۔ انسان اسے بہت بڑی نعمت سمجھے اور اس پر شکر ادا کرے۔ یہ حقیقت جو اسلامی جمہوری نظام میں سامنے آئی اور مقدس دفاع کے دوران جلوہ فگن ہوئی یعنی خود کو ہدف کے سامنے فروعی چیز (اور ہدف کے لئے خود کو وقف) سمجھنا، ہدف کو اپنا تابع اور اپنی ذات پر موقوف شئے نہ جاننا، یہ ایک حقیقت ہے جو بے حد اہم چیز ہے۔ واقعی اس پر سجدہ شکر بجا لانا چاہئے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس عرصے میں کم اخلاص والے اور خامیاں رکھنے والے افراد ہم کو نظر نہیں آئے یا اب موجود نہیں ہیں۔ کیوں نہیں، تمام طبقات اور تمام حلقوں میں ہر طرح کے اخلاق اور مزاج کے لوگ ہوتے ہیں لیکن اکثریت ان ( با اخلاص) افراد کی رہی ہے۔ میں جب آپ عزیز کمانڈروں کو دیکھتا ہوں تو واقعی اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے اس قوم پر نظر کرم فرمائی کہ آپ جیسے با ایمان و با اخلاص افراد کو عظیم کاموں پر مامور کیا۔
خود آپ حضرات بھی، جو ہمارے لئے باعث شکر ہیں، اللہ تعالی کی نعمت ہیں، خدا وند عالم کا شکر ادا کیجئے کہ اس نے آپ کو یہ موقع اور یہ توفیق کرامت فرمائی کہ آپ یہ اہم امور انجام دیں۔ ہم سب کے سب، میں بھی اور آپ بھی، آپ میں سے ایک ایک شخص ممکن تھا کہ ایک عام آدمی ہوتا اور اپنی ذاتی زندگی میں سرگرم عمل رہتا، ایک اچھا تاجر، ایک اچھا مولوی، یونیورسٹی کے حلقے سے وابستہ کوئی شخصیتت ہوتا۔ اپنے لئے، خود اپنی ذات کے لئے محنت کرتا تو اللہ تعالی کے سامنے اس کے کوئي بہت زیادہ سنگین فرائض بھی نہ ہوتے۔ وجہ یہ ہے کہ جو کام ہم انجام دیتے ہیں اس میں وبال جان زیادہ ہے۔ دوش پر بڑے سنگین فرائض ہیں۔ یہ ممکن تھا کہ ہم اس کے بجائے ایک عام زندگی گزارتے، لیکن پھر یہ بھی ظاہر ہے کہ آپ ملک اور نظام کے دائرے میں جو کردار ادا کر رہے ہیں وہ نہ کر پاتے۔ تو یہ جائے شکر ہے کہ آپ ایسے مقام پر ہیں جہاں تقدیر ساز کردار ادا کر سکتے ہیں۔ آپ کی موجودگی، آپ کا ارادہ، آپ کی معرفت، آپ کے اخلاص کے درجات ملک کی تقدیر اور مستقبل میں، ملک کی تاریخ میں، دس سال بیس سال کے مستقبل میں نہیں آئندہ سو برسوں اور دو سو برسوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔ اگر یہ اثر ایک اچھا اثر ہوا تو ثواب جاریہ قرار پائے گا جو ہر چیز سے برتر ہے اور جس کے برابر کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ آپ کوئی ایسا خاکہ تیار کر دیں، کوئی ایسا کام انجام دے دیں کہ جس کی بنیاد پر برسوں تک ایک قوم خوشبختی کی زندگی بسر کرے، دین و دنیا سے بہرہ مند ہو جائے تو یہ ایسا عمل ہوگا کہ جس سے کسی عبادت، کسی نماز شب، خلق اللہ کی معمولی اور متوسط درجے کی خدمت کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ یہ بہت عظیم عمل ہے۔ اللہ تعالی نے یہ موقع ہمیں اور آپ کو دیا ہے تو ہمیں اس کا شکر بجا لانا چاہئے۔ ہاں یہ بھی ہے کہ دوسرے عظیم کاموں کی مانند اس کام کے فائدے جتنے زیادہ ہیں اس کا جوکھم بھی بہت زیادہ اور بڑا ہوتا ہے۔ من لہ الغنم فعلیہ الغرم یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ ہیں۔ جیسے کوہ پیمائی کے دوران بہت زیادہ بلندی پر پہنچنا ہے۔ اگر انسان اس اونچائي سے نیچے گر جائے تو اس کے خطرات اور نقصانات ایک میٹر اور دو میٹر کی اونچائی سے زمین پر گرنے سے بہت زیادہ ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ ایک بلند مقام ہے، اونچی جگہ ہے۔ جگہ جتنی زیادہ بلندی اور اونچائی پر ہوگی، اس کے خطرے بھی اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔
ان خطرات کے سد باب کا طریقہ ہے فرائض کو ملحوظ رکھنا اور نفس پر غلبہ حاصل کرنا۔ ایسا بھی نہیں کہ کسی انسان کو گوناگوں ابہامات میں پھنسا دیا گيا ہو اور اسے معلوم ہی نہ پڑے کہ کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے۔ ایسا بھی نہیں ہے، بس شریعت اور دین کی مخالف خواہشات نفسانی سے لڑنا اور فرائض اور واجبات کو ہمیشہ مد نظر رکھنا ہے۔ بنابریں میرے خیال میں میرے اور آپ لوگوں کے جیسے افراد کو چاہئے کہ ہم اللہ تعالی سے التجا کریں کہ اے پالنے والے! یہ جو نعمت تونے ہمیں مرحمت فرمائی ہے یعنی ملک و قوم کی تقدیر و مستقبل پر اثر انداز ہونے والے مرتبے پر فائز کیا ہے تو اسے بد بختی میں نہ بدلنے دے، یہ چیز جو اجر و ثواب کا باعث ہے وبال جان کا باعث نہ بنے۔ البتہ اس چیز کا انحصار ہماری کوششوں پر ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اللہ تعالی سے نصرت و مدد طلب کریں، بلند ہمتی سے کام لیں، محنت کریں تو کامیابی ملے گی۔
مسلح فورسز، جیسا کہ حضرت امیر المؤمنین علیہ الصلاۃ و السلام کے کلام میں بھی مذکور ہے، ایک ملک اور ایک قوم کے ارد گرد قائم کیا جانے والا حفاظتی حصار اور قلعہ ہے۔ حصار ہمیشہ اپنی جگہ پر موجود رہنا چاہئے۔ حصار میں کہیں سے کوئی رخنہ نہیں پڑنا چاہئے بنابریں مسلح فورسز کو چاہئے کہ اپنی مضبوطی اور استحکام قائم رکھیں۔ حصار کے اندر مختلف واقعات اور حالات پیش آتے ہیں، کچھ لوگ سو رہے ہوتے ہیں، کچھ جاگ رہے ہوتے ہیں، کچھ آپس میں لڑ جھگڑ رہے ہوتے ہیں، کچھ لوگ شادی بیاہ میں مصروف ہوتے ہیں، کچھ سوگوار ہوتے ہیں لیکن ان تمام حالات میں اس (حفاظتی) حصار کا استحکام باقی رہنا ضروری ہوتا ہے۔ مسلح فورسز کو آپ اس نگاہ سے دیکھئے۔ یہ استحکام ہمیشہ باقی رہنا چاہئے۔ اگر یہ استحکام باقی رہا، اس حصار پر نگرانی کے فرائض انجام دینے والے ہمیشہ چاق و چوبند رہے، چوکس رہے، دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھی، کسی چیز کو نظر سے اوجھل نہیں ہونے دیا تو حصار کے اندر تحفظ یقینی ہوگا اور اس امن و سلامتی کے سائے میں لوگ دین و دنیا کے کاموں میں مصروف رہیں گے اور اگر امن و سلامتی نہ ہو تو کچھ بھی انجام نہیں دیا جا سکے گا۔ خود مسلح فورسز بھی محتاط رہیں اور حکومت کوی بھی محتاط رہنا چاہئے اور عوام کو بھی چاہئے کہ مدد کریں کہ یہ (حفاظتی) حصار مضبوط رہے۔ تمام حالات میں، حصار کے اندر خواہ کوئی بھی واقعہ رونما ہو جائے مسلح فورسز کے اس (حفاظتی) حصار پر کوئی آنچ نہیں آنی چاہئے۔
حصار کے ہر جگہ اپنے مخصوص معنی ہوتے ہیں۔ آپ حصار ہیں، فوج بھی ایک طرح کا حصار ہے، سپاہ ( پاسداران انقلاب) ایک اور حصار ہے، بسیج (رضاکار فورس) ایک الگ طرح کا حصار ہے، پولیس فورس ایک الگ حصار ہے، انٹیلیجنس ایک الگ طرح کا حصار ہے۔ ان سب کو اپنے معین اور مشخص فرائض کے دائرے میں اپنے حصار ہونے اور اس حصار کے استحکام کے تمام تر لوازمات کو ملحوظ رکھنا چاہئے اس کی حفاظت کرنی چاہئے۔
یہ دنیا طاقت کی دنیا ہے، ظلم و زیادتی کی دنیا ہے۔ یہ اچھی دنیا نہیں ہے، بڑی بری دنیا ہے، جاہلیت کی دنیا ہے، عوام کی اکثریت پر نفس پرستوں اور تسلط پسندوں کے غلبے کی دنیا ہے۔ ایسی دنیا میں بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے، بہت محتاطانہ انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے، مدبرانہ انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے، شجاعانہ انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ دنیا کے ان سربراہوں کے روئے کو دیکھ ہی رہے ہیں، اپنے لالچ، اپنے حرص و طمع کی تسکین کے لئے، اپنی منظور نظر کمپنیوں کی حمایت و اعانت کے لئے، کمپنیوں کے مالکان اور بڑے سرمایہ داروں کی جیبیں بھرنے کے لئے آپ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں کیسے کیسے المیئے رونما ہو رہے ہیں اور وہ بھی جھوٹے اور کھوکھلے دلکش نعروں کی آڑ میں۔ خود جنگ پسند ہیں لیکن امن کی بات کرتے ہیں، امن کے پرچم تلے جا کھڑے ہوتے ہیں! انسانوں اور بشریت کے لئے کسی حق و احترام کے قائل نہیں ہیں لیکن انسانی حقوق کے بینر کے نیچے کھڑے ہوئے ہیں! جارحیت پسند لوگ ہیں، جارحیت ان کی بنیادی پالیسیوں کا اٹوٹ حصہ ہے لیکن جارحیت کے مقابلے کے دعویدار بھی ہیں! اپنی پالیسیوں میں، اپنے روئے میں گھٹیا سے گھٹیا روش اختیار کرتے ہیں، استعمال کرتے ہیں، ٹارگٹ کلنگ کرواتے ہیں، دہشت گرد تنظیمیں تشکیل دیتے ہیں، دہشت گرد ایجنسیوں کی خدمات حاصل کرتے ہیں جو آج کی دنیا کی بالکل نمایاں چیزیں ہیں، آپ عراق میں اس کا نمونہ دیکھ سکتے ہیں، آپ افغانستان میں اس کی مثال دیکھ سکتے ہیں، جن جگہوں پر انہوں نے کودتا کروایا ہے وہاں آپ دیکھ سکتے ہیں۔ ملکوں کے خلاف جو تجاوز اور جارحیت ہوئی ہے وہ آپ دیکھ رہے ہیں لیکن اس کے باوجود بڑی پر سکون ظاہری شکل، پریس کئے ہوئے کپڑوں میں، پرفیوم لگائے ہوئے، بڑی میٹھی میٹھی باتیں کرتے ہوئے آکر عوام کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ صاحب یہ فلاں ملک کے صدر ہیں۔ رائے عامہ کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں، اسے فریب دیتے ہیں! ان کے تو کام کی بنیاد ہی فریب دہی پر رکھی گئي ہے۔ تو آج کی دنیا کچھ اس انداز کی دنیا ہے۔ جھوٹ پر، فریب پر اور ظلم و جور پر استوار دنیا ہے جو چہرے پر نقاب ڈالے ہوئے ہے۔ ویسے کبھی کبھی یہ نقاب ہٹ بھی جاتا ہے۔ کبھی کبھی ان کا غرور اور طاقت کے متزلزل ستونوں پر ان کا حد سے زیادہ اعتماد انہیں بے قابو کر دیتا ہے۔ آپ نے تو دیکھا بھی ہے۔ ابھی چند روز قبل، امریکی صدر نے اشارتا ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی دی! یہ واقعی بہت حیرت ناک بات ہے۔ دنیا کو چاہئے کہ اس بات کو آسانی سے نہ جانے دے۔ اکیسویں صدی میں، امن و انسانی حقوق، عالمی نظم و نسق اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نعروں کی اس صدی میں ایک ملک کا صدر آکر کھڑا ہوتا ہے اور ایٹمی حملے کی دھمکی دیتا ہے! یہ آج کی دنیا میں بڑی عجیب بات ہے۔
اس سے خود ان کو بھی نقصان پہنچے گا لیکن وہ سمجھ نہیں رہے ہیں۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ امریکی حکومت ایک شر پسند اور ناقابل اعتماد حکومت ہے۔ یہ لوگ کئی سال سے یہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران غیر قابل اعتماد ہے جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران نے ان تیس برسوں میں نہ تو کسی ملک پر حملہ کیا، نہ کہیں لشکر کشی کی شروعات کی اور دہشت گرد پروری کی۔ وہ یہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ دنیا میں ناقابل اعتماد کون لوگ ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہی لوگ جن کے پاس ایٹم بھی موجود ہیں اور جو کمال بے حیائی سے کہتے ہیں کہ ہم ممکن ہے کہ اس ایٹم بم کا استعمال کریں، ہم ایٹمی حملہ کریں گے۔ یہ بڑی حیرتناک بات ہے، یہ بڑی شرم کی بات ہے۔
ایسی دنیا میں بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ البتہ ظلم و جور، آشکارا اور خفیہ ہر طرح کے ستم سے مقابلہ کرنے کے لئے صرف فوجی تیاریاں کافی نہیں ہے۔ فوجی تیاریوں سے بھی زیادہ اہم ہے روحانی اور معنوی آمادگی، ذہنی آمادگی، قوم کا عزم مصمم۔ قوم کی استقامت ہی ان گردبادوں کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ گردباد آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں، وہ کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوں بالآخر گزر جاتے ہیں، دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کون اس کے مقابلے میں ڈٹا رہا اور کون نہیں ڈٹ سکا۔ جوعمارتیں زمیں بوس ہو جاتی ہیں کمزوری در حقیقت ان کی اپنی ہوتی ہے کہ وہ خود کو سنبھال نہیں سکیں ورنہ گردباد تو ہمیشہ باقی رہنے والا نہیں ہوتا۔ اگر کوئی قوم پائے ثبات پر کھڑی ہو، اپنے اندر جذبہ استقامت و پائیداری پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائے تو یہ جھکڑ اور یہ گردباد اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے، وہ آتے جاتے رہیں گے، یہ قوم اپنی جگہ پر ثابت قدم رہے گی۔
کسی بھی نظام کے استحکام کا دار و مدار ہوتا ہے اس کے ایمان پر، اس کے جذبہ پائیداری و استقامت پر، اس کے عزم مصمم پر، چکنی چپڑی باتوں کے فریب میں نہ آنے پر جو بہت سی سیاسی مناسبتوں میں سننے میں آتی ہیں، جبکہ ان میٹھی باتوں کے درپردہ ان افراد کا بھیانک اور غضبناک چہرہ پوشیدہ ہوتا ہے جن کی نیتوں میں کھوٹ ہوتا ہے۔ خود ہمارے اسی زمانے میں بھی اس کی مثالیں جتنی چاہئے مل جائیں گی۔ دسیوں بار یہ چیز رونما ہو چکی ہے۔ دوسروں کے ساتھ، مختلف ممالک کے ساتھ، خود ہمارے ساتھ کئی بار یہ چیز پیش آئی۔ ہوشیار رہنا، فریب نہ کھانا، خود اعتمادی سے کام لینا، اللہ تعالی کی ذات پر توکل، اپنے اندر پائیداری کے جذبے کی تقویت، اس بات پر یقین کامل کہ خود کو طاقتور بنایا جا سکتا ہے، پائیداری اور استقامت پیدا کی جا سکتی ہے، یہ چیزیں قوم کی حفاظت کرتی ہیں۔
خوش قسمتی سے ان تمام چیزوں کے لئے ہمارے ہاں زمین پوری طرح ہموار ہے۔ تیس سال میں بہت سے طوفان آئے اور گزر گئے، یہ قوم اپنی جگہ سے ہلی بھی نہیں، بلکہ اس کی پائیداری اور بڑھ گئی۔ دس سال قبل، بیس سال قبل اور تیس سال قبل کے مقابلے میں آج ہم بہت طاقتور ہو چکے ہیں۔ تمام میدانوں میں آج ہماری توانائیاں بہت بڑھ چکی ہیں، گوناگوں دشمنیوں کا مقابلہ کرکے ہم نے یہ چیز ثابت بھی کر دی ہے۔ ہماری قوم نے بفضل پروردگار اور بتوفیق الہی اسے ثابت کر دیا۔ تو حقیقی طاقت اور توانائی یہ ہے۔
البتہ جیسا کہ میں نے عرض کیا، اس (حفاظتی) حصار میں بھی کہیں سے کوئی رخنہ نہیں پڑنے دینا چاہئے۔ اس حصار کے اندر یہ عوام تو ثابت قدمی کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں لیکن اس حصار یعنی مسلح فورسز کو بھی مضبوط بنائے رکھنے کی ضرورت ہے۔ مسلح فورسز کو چاہئے کہ ایک تو وہ ہر طرح کی دھمکیوں اور خطرات کو سنجیدگی سے لیں، یہ بات میں بارہا کہہ چکا ہوں۔ آپ اپنے اندازوں اور پیش گوئیوں میں سیاسی میدان کے اندازوں اور پیش گوئیوں کی بندیاد پر عمل نہیں کر سکتے۔ سیاسی اندازہ اور پیش گوئی مثال کے طور پر ظاہر کرتی ہے کہ دشمن کے حملے کا امکان بہت کم ہے، بیس فیصد ہے یا تیس فیصد ہے، تو آپ کو سمجھنا چاہئے کہ دشمن کے حملے کا اندیشہ سو فیصد ہے۔ آپ کو اپنے تمام شعبوں میں اس بنیاد پر تیاری کرنی چاہئے۔ آپ ہمیشہ ہوشیار رہئے۔
میرے خیال میں نئی ایجادات سے متعلق پروجیکٹ اور منصوبوں کو بھی بہت سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ خوش قسمتی سے مسلح فورسز کے اندر یہ چیز پائی جاتی ہے۔ ہماری قوم کا یہ عالم تھا کہ وہ استعداد اور صلاحیتوں کا ایک ذخیرہ اپنے اندر چھپائے ہوئے تھی ان بے پناہ صلاحیتوں کی صرف اوپری تہہ کو استعمال کیا جا رہا تھا جبکہ اس کی گہرائیوں کو کسی نے ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا۔ غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اوائل انقلاب تک مختلف شعبوں میں فکری صلاحیتوں، فکری توانائیوں اور گوناگوں مہارتوں کا ایک معمولی سا حصہ ہی استعمال کیا جاتا تھا۔ انقلاب آیا تو ایک نئي لہر اپنے ساتھ لایا۔ سائنس کے شعبے میں، ٹکنالوجی کے میدان میں، تعمیراتی میدان میں، ثقافتی میدان میں، سیاسی اور دیگر میدانوں میں، نئی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آئیں۔ یعنی تہہ در تہہ جمع ان صلاحیتوں اور توانائیوں کی کچھ اندرونی تہیں بھی کھلیں اور اس کے بعد بھی اب مسلسل نئی تہیں کھلتی جا رہی ہیں۔ اس تجربے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہماری صلاحیتیں اور توانائیاں بہت زیادہ ہیں۔
تو آپ نئی ایجادات کی سمت قدم بڑھائیے، ایسے میدانوں میں قدم رکھئے جہاں دنیا والوں کے قدم ابھی نہیں پہنچے ہیں، (فوجی) آپریشن سے متعلق منصوبہ بندی میں بھی، انٹیلیجنس سے متعلق منصوبہ بندی میں بھی اور دشمن کا سامنا کرنے کی روش کے سلسلے میں بھی۔ فریب ایک الگ چیز اور حکمت عملی ایک الگ شئے ہے۔ تو یہ چیزیں بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ میں مسلح فورسز میں نئے انداز کی تیاریوں کا قائل ہوں۔ خوش قسمتی سے فوج نے بھی اور سپاہ پاسداران نے بھی اس سمت میں قدم بڑھائے ہیں، فکر سے کام لے رہے ہیں۔ اس سے قبل تک فوجی تیاریوں میں ایک طرح کا روایتی پن پایا جاتا تھا، فوج میں کسی الگ طرح سے اور سپاہ پاسداران انقلاب میں کسی اور طرح سے۔ آپ ابتکار عمل کی جانب بڑھئے۔ البتہ ہر جدت عمل مطلوب نہیں ہے۔ وہ جدت عمل جو پوری توجہ، دقت نظر اور تجربے کے ساتھ انجام دی جائے وہ مقصود و مطلوب ہے۔ آپ جدت عمل کی جانب بڑھئے۔ جیسا کہ اب تک مسلح فورسز کے مختلف شعبوں میں ہوتا رہا ہے۔ اس کی ایک مثال فوج کی جہاد خود کفالت کی تحریک ہے جس کے تحت تیس سال پہلے سے اب تک کیا کیا کام انجام دئے گئے؟! سپاہ پاسداران انقلاب میں بھی اس سمت میں گوناگوں کارنامے انجام دئے گئے ہیں۔ الحمد للہ ہمارے ہاتھ امید افزا اور حوصلہ بخش تجربات سے خالی نہیں ہیں۔ صاف اندازہ ہوتا ہے کہ بڑے کام انجام دئے جا سکتے ہیں۔
تو یہ ہیں ہمارے معروضات۔ ہم نے جو کچھ عرض کیا اور وہ باتیں جو نہیں کہیں لیکن وہ ہماری آرزوؤں کا حصہ ہیں انشاء اللہ ان سب کو آپ اپنے پروگراموں میں، اپنے منصوبوں میں عملی جامہ پہنائيں گے۔ ان تمام امور کی ایک روح بھی ہے جو عبارت ہے معنویت سے، بصیرت سے، گہرے دینی عقائد سے۔ یہ روح ہمارے فعال اور زخمت کش احباب کی سرگرمیوں میں جو عقیدتی اور سیاسی شعبے میں کسی انداز سے اور سپاہ پاسداران انقلاب اور دیگر مقامات پر ولی امر مسلمین کے نمائندوں کے یہاں کسی اور انداز سے نمایاں بھی ہے۔ ہمارے ان احباب کو چاہئے کہ ترجیحات کے مسئلے، جدت عمل اور نئی ایجادات کے مسئلے اور نئی راہوں کی جستجو اور دوہرے عزم کے مسئلے پر کاربند رہیں تاکہ ہم روز بروز مسلح فورسز میں عقیدے اور دینداری کی زیادہ گہرائیوں کا مشاہدہ کریں۔
والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ