قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے۔
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
سب سے پہلے تو میں آپ تمام بھائیوں اور بہنوں کو خوش آمدید کہتا ہوں ساتھ ہی مبارکباد پیش کرتا ہوں اس عید سعید کی بلکہ ان عیدوں کی جو قضا و قدر الہی کے مطابق ماہ شعبان المعظم میں قرار دی گئی ہیں ـ ولادت کی ان تاریخوں سے قطع نظر خود ماہ شعبان بھی ایک عید ہے، اللہ تعالی سے تقرب اور اس کی جانب توجہ و ارتکاز کی عید، بارگاہ ایزدی میں قلبی توسل کی عید۔ یہ انسان کے دل و جان کو منور کرنے اور ماہ رمضان کی ضیافت و میہمانی کے لئے آمادگی کا بہترین موقع بھی ہے۔ ہمیں اس نگاہ سے ماہ شعبان کو دیکھنا چاہئے، بندگی پروردگار کے موقع اور خود سازی کے موقع کے طور پر۔
میں اس اجتماع میں جو بات خاص طور پر عرض کرنا چاہتا ہوں، یہی جذبات کا مسئلہ ہے۔ اچھے کام، عظیم کارنامے، صرف ممتاز جذبوں اور دل کی گہرائيوں سے برآمد ہونے والے ارادے سے ہی انجام دئے جا سکتے ہیں۔ ضابطے کی رسمی کارروائیوں کے ذریعے کارہائے نمایاں انجام نہیں دئے جا سکتے۔ رسمی اور ضابطے کی کارروائیوں سے صرف معمول کے کام ہی انجام پاتے ہیں۔ کارہائے نمایاں اور عظیم کارناموں کا دار و مدار بلند ہمتی اور قوی جذبات پر ہوتا ہے۔ جو شخص زیادہ کام انجام دینے کے لئے اپنا زیادہ وقت صرف کر رہا ہے، اپنے آرام کے وقت کو نظر انداز کر رہا ہے اس کے اندر فی الواقع بہت بلند جذبات اور حوصلہ ہے۔ ہم نے یہ جذبہ دیکھا ہے۔ خود اس ادارے میں بھی موجود ہے۔ اسے کہتے ہیں نمایاں کام۔ ان تیس برسوں میں میں نے مختلف جگہوں پر کام کیا۔ خواہ وہ صدارت کا دور رہا ہو یا اس سے قبل مسلح فورسز میں خدمت زمانہ یا دوسری جگہوں پر کیا جانے والا کام، میں نے نزدیک سے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو چھٹی اور تعطیل سے واقف ہی نہیں تھے، انہیں استراحت کرنے اور سستانے سے کوئی مطلب ہی نہیں تھا۔ وہ اپنے دوش پر عائد فرائض کی انجام دہی کے لئے اپنا ایک ایک لمحہ صرف کرنے کو تیار ہیں۔ البتہ میں یہیں پر آپ کی خدمت میں یہ بھی عرض کر دوں کہ میں اس انداز سے کام کرنے کا موافق نہیں ہوں۔ میں تو اس کا قائل ہوں کہ کام ایسی منصوبہ بندی کے ساتھ انجام دیا جائے کہ انسان اپنے خاندان، اپنے بچوں اور جذباتی رشتوں پر بھی توجہ دے سکے، خود کو نیست و نابود نہ کر دے۔ ہاں یہ ہے کہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جن کے پاس یا تو صلاحیت بہت زیادہ ہے جس کی بنا پر وہ تمام امور بھی انجام دیتے ہیں اور ان کا کام بھی مکمل رہتا ہے یا پھر وہ دوسرے امور کے وقت میں کٹوتی کرکے اسے اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں صرف کرتے ہیں اور اپنا کام بڑھاتے جاتے ہیں۔ ان کے کام کی مقدار بہت زیادہ اور بہت وسیع ہے۔ یہ ایک طرح کا نمایاں کارنامہ ہے۔ اس کے لئے جذبہ عمل کی ضرورت ہے۔ جب تک دلی جذبہ نہ ہوگا کوئی بھی حکم کی بجا آوری کے طور پر اور اصولوں اور قوانین کی پابندی کے طور پر اس طرح کام نہیں کر سکتا۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان کام کی زیادتی کا احساس بھی نہیں کر پاتا۔ میں نے بارہا یہاں ملاقات کے لئے آنے والے مختلف محکموں کے افراد سے کہا ہے کہ آپ کے ہاتھ میں کوئی فائل ہے، کوئی پروجیکٹ ہے، کوئی بڑا کام ہے، آپ سوچتے ہیں کہ اس کو پورا کر لوں۔ دفتر کا وقت ختم ہو چکا ہے اور آپ تھکے بھی ہیں لیکن آپ کہتے ہیں کہ نہیں پہلے یہ کام پورا کر لوں پھر گھر جاؤں۔ آپ آدھا گھنٹہ، ایک گنٹہ یا دو گھنٹہ زیادہ کام کرتے ہیں۔ آپ نہ اپنے افسر کو اطلاع دیتے ہیں نہ اوور ٹائم لیتے ہیں، نہ کوئی مطلع ہو پاتا ہے اور نہ کسی کو معلوم پڑتا ہے اور آپ یہ کام انجام دے ڈالتے ہیں۔ اس کی بڑی قدر و منزلت ہے، یہ عمل کرام الکاتبین کے دفتر میں ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جائے گا۔ ہمارے اعمال کو درج کرنے والے بارگاہ پروردگار کے فرشتے ہیں جو اس طرح کے کاموں کو خاص طور پر نمایاں کرتے ہیں۔ تو کار نمایاں کی یہ ایک قسم ہے۔ نمایاں کاموں کی ایک قسم معیاری اور بہترین کیفیت کے کاموں کی انجام دہی ہے، بہتر انداز میں اختتام تک پہنچایا جانا ہے۔ انسان کسی بھی کام کو دو طرح سے انجام دے سکتا ہے۔ کام کو آسانی سے اور معمولی انداز میں انجام دے سکتا ہے لیکن محنت والا دشوار راستہ اختیار کرتا ہے تاکہ کام معیاری ہو۔ اس کے لئے بھی جذبہ عمل کی ضرورت ہے۔ یہ بھی ایک طرح کا نمایاں کام ہے۔
کام کی ایک قسم تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ جدت عمل پیدا کرنا بھی ہے، نئے راستوں کی جستجو اور نئی اور زیادہ کارآمد روشوں کی دریافت ہے۔ خواہ وہ چھوٹے کام ہوں یا طویل المیعاد امور۔ فکر و نظر کی ضرورت ہے، سعی و محنت کی ضرورت ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ ہٹاؤ بھی، جس طرح دوسرے لوگ کام کر رہے ہیں ہم بھی ویسے ہی انجام دیں، لیکن بعض دیگر کا کہنا ہے کہ نہیں، اس طرح نہیں، وہ خود کو سمجھاتے ہیں کہ کام میں خلاقیت اور جدت پسندی ہونا چاہئے۔ اس کے لئے جذبہ عمل ضروری ہے۔ بغیر جذبہ عمل کے، بغیر اندرونی اور باطنی میلان کے کیفیت اور مقدار کے لحاظ سے اس طرح کے نمایاں کام انجام نہیں دئے جا سکتے۔ یہ جذبہ کیا شئے ہے؟ یہ جذبہ فی الواقع آمیزہ ہے ایمان و آگاہی کا۔ یہ دو چیزیں انسان کے اندر جذبہ پیدا کرتی ہیں۔ ایمان بھی ہونا چاہئے اور آگاہی و واقفیت بھی ہونا چاہئے۔
اگر خدا نخواستہ آپ کو کوئی بیماری ہے تو اس وقت تک جب تک آپ کو اپنی اس بیماری کا علم نہیں ہے آپ کا رہن سہن کسی اور طرح کا ہوگا لیکن جب آپ کو اپنی اس بیماری کے بارے میں علم ہے اور آپ کو طبیب حاذق کا پتہ بھی معلوم ہے، آپ کو یہ یقین بھی ہے کہ یہ طبیب اس بیماری کا علاج کر سکتا ہے۔ ایسے میں آپ کیا کریں گے؟ اب آپ کوئی تاخیر اور پس و پیش نہیں کریں گے۔ وہ دور ہو یا نزدیک ہو، اس کے پاس پہنچنا آسان ہو یا دشوار، بیمار بھاگتا دوڑتا وہاں پہنچ جاتا ہے۔ اسی کو کہتے ہیں جذبہ۔ انسان میں کام کا جذبہ ہوتا ہے تو ایک باطنی شئے اسے تیار کر دیتی ہے۔ انسان ضرورت کو سمجھے، نتیجے کے بارے میں یقین رکھے، مومن انسان ہے تو اللہ کو حاضر و ناظر بھی جانے، یہی چیز جذبہ کامل کہلائے گی۔ بعض لوگوں میں یہ یقین اور یہ آگاہی ہے، نتیجہ کے بارے میں پورا وثوق ہے لیکن اللہ تعالی پر ایمان نہیں ہوتا، ایسے لوگوں میں جذبہ اتنا مضبوط نہیں ہوتا۔ لیکن جب ہم اور آپ یہ بات پورے وثوق کے ساتھ جانتے ہیں کہ جو کام انجام دے رہے ہیں وہ راہ خدا میں انجام دیا جانے والا کام ہے، اسلامی نظام کی راہ میں انجام دیا جانے والا کام ہے، عوام کے لئے اور فلاح عامہ کے لئے انجام دیا جانے والا کام ہے، اللہ اسے دیکھ بھی رہا ہے۔ اگر دوسرے لوگ اس سے واقف نہیں بھی ہوئے، انہوں نے ہماری تعریف نہ کی اور ہمیں شاباشی نہیں دی، ہمارے لئے تالیاں نہیں بجائیں تو کوئی بات نہیں، اللہ تعالی ہمارے اس عمل کو دیکھ رہا ہے اور ہمیں اس کی جزا بھی ضرور دے گا۔ امام حسین علیہ السلام نے روز عاشور فرمایا کہ ان ذالک بعین اللہ میں دیکھ رہا ہوں کہ اللہ میرے عمل کا شاہد و ناظر ہے۔ اس نقطہ نگاہ اور اس طرز فکر سے وہ جذبہ پیدا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں انسان کبھی بھی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھتا۔ اسلام، تاریخ اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس جذبے کی تقویت کے لئے اور اس کے وجود کے مواقع کی شناخت اور اعلی اہداف و مقاصد کے لئے اس کے استعمال کے لئے بڑے پیمانے پر تشہیر کی۔ انسان جب تاریخ اسلام کا مطالعہ کرتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اس سلسلے میں خاصی تشہیر کی گئی ہے۔ اس کی ایک مثال میں پیش کرنا چاہوں گا۔ جنگ احد میں، جیسا کہ آپ کو اطلاع ہے آپ نے پڑھا یا سنا ہوگا، مسلمانوں کو پہلے فتح حاصل ہو گئی لیکن بعد میں بعض لوگوں کی دنیا پرستی نے سب کو شکست سے دوچار کر دیا۔ سید الشہدا جناب حمزہ اور بعض دیگر افراد شہید کر دئے گئے اور بہت سے دوسرے افراد فرار ہو گئے اور پہاڑ پر جاکر چھپ گئے۔ یہ دن گزرا تو دشمن خوش و خرم میدان سے لوٹا اور مسلمانوں کے حصے میں آیا غم و غصہ۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ شہیدوں کے جنازوں کو اٹھایا جائے اور مدینے کی جانب واپسی ہو۔ احد مدینہ کے نزدیک واقع ہے۔ لوگ روانہ ہوئے اور مدینے پہنچے۔ مدینہ لوٹ کر آنے والوں میں زخمی بھی ہیں، جسمانی اعضاء سے معذور ہو جانے والے افراد بھی ہیں، شہدا کے جنازے بھی ہیں اور سوگوار خاندان بھی ہیں۔ مدینے میں کہرام مچ گیا۔ شہیدوں کے لئے گریہ شروع ہو گیا اور جنگ میں ناکامی کا دکھ بھی چھایا ہوا تھا۔ یہ سب تلخ باتیں تھیں۔ دن میں یہ تلخ واقعات رونما ہوئے اور رات میں پیغمبر اسلام کو خبر ملی کہ بعض مشرکین مدینہ سے دور چلے جانے کے بعد اس خیال سے کہ مسلمانوں کو تو شکست ہو ہی چکی ہے، یہ مناسب موقع ہے کہ ان پر دھاوا بول دیا جائے اور سب کا کام تمام کر دیا جائے، مدینے کی جانب بڑھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ خبر مدینے پہنچی تو بعض بد دیانت یا جاہل عناصر نے جو افواہوں کو جنگل کی آگ کی مانند تیزی سے پھیلانے کے ماہر تھے اس خبر کا بھی پروپیگنڈا کرنا شروع کر دیا۔ ایسے افراد کا کام ہی ہوتا ہے کہ کوئی خبر کان میں پڑی نہیں کہ وہ اس کا پروپیگنڈا شروع کر دیتے ہیں۔ چاہے وہ خبر صحیح ہو یا غلط۔ اس زمانے میں بھی ایسے افراد تھے اور آج بھی اس قبیل کے افراد موجود ہیں۔ انہوں نے مدینے میں یہ خبر پھیلانا شروع کر دیا۔ کہنے لگے کہ بھئی اب ہماری خیر نہیں۔ وہ لوگ حملہ کریں گے۔ یہ تو بڑے خوف کا مقام ہے۔ وہ لوگوں کے دلوں میں خوف بٹھا رہے تھے۔ اس موقع پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آگے بڑھ کر معاملے کو سنبھالا۔ ایسے مواقع پر پیغمبرانہ صلاحیت کا استعمال ضروری ہوتا ہے۔
پیغمبر اسلام نے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا کہ سب لوگ مسجد میں آئیں۔ لوگ مسجد میں آئے۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے سنا ہے کہ دشمن فلاں مقام پر جمع ہیں اور تاک میں بیٹھے ہیں کہ جیسے ہی آپ سے کوئی چوک ہو آپ سب ہر ہلہ بول دیں۔ تو آپ لوگ اسی رات جائیے اور سب کا صفایا کر دیجئے۔ سب نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ ہم آمادہ ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں، وہی لوگ اس کے لئے جائیں گے جو آج جنگ احد میں شامل تھے۔ یعنی وہی لوگ جن کے جسموں میں زخم لگے ہوئے ہیں، جو تھکے ہوئے ہیں، جو صبح تا شب لڑے ہیں وہی جائیں، ان کے علاوہ کوئی بھی شخص نہیں جائے گا۔ کچھ لوگوں کو پہلے تو بڑا تعجب ہوا، سب کو لگا کہ یہ تو بڑا ہی عجیب حکم ہے۔ جن لوگوں نے اس دن جنگ احد میں شرکت کی تھی وہ زخمی تھے، تھکے ماندے تھے، وہ سب کے سب جمع ہو گئے۔ پیغمبر نے فرمایا کہ جائیے اور اس معاملے کو نمٹا کر آئیے۔
جن لوگوں نے آج یہ زخم کھایا ہے اور دشمن کی جانب سے لگائی گئی ضرب کا جواب دینے پر آمادہ ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو بذات خود میدان میں تھے، ایسا نہیں تھا کہ کسی اور کی زبانی اس کی خبر سنی ہو۔ انہی لوگوں کو پیغمبر نے جمع کیا اور فرمایا کہ آپ لوگ جائیے۔ ان لوگوں کی تعداد بہت تھوڑی سی تھی، کچھ زیادہ لوگ نہیں تھے۔ سب کے سب گھوڑوں پر سوار ہوئے اور معینہ خطے کی جانب روانہ ہو گئے۔ گھات میں بیٹھے دشمن پر انہوں نے اچانک دھاوا بول دیا اور دشمن کا قلع قمع کر دیا۔ اس موقعے پر آیہ کریمہ نازل ہوئی: «الّذين قال لهم النّاس انّ النّاس قد جمعوا لكم فاخشوهم» مومنین وہ لوگ ہیں کہ جب افواہیں پھیلانے والے آئے اور انہوں نے خبر دی کہ دشمن آپ لوگوں کے خلاف فلاں مقام پر خیمہ زن ہے لہذا آپ کو اب پسپائی اختیار کر لینا چاہئے تو فزادھم ایمانا ان میں خوف و ہراس پیدا نہیں ہوا بلکہ ان کے جذبہ ایمانی کو اور بھی مضبوطی ملی، ان کا جوش بڑھا۔ «و قالوا حسبنا اللَّه و نعم الوكيل»؛(1) سب نے کہا کہ خدا کافی ہے، معاملے کو اللہ کے سپرد کر دیا گیا۔ آپ غور کیجئے کہ یہ معرفت کا کتنا عظیم مقام ہے۔ کام آپ انجام دے رہے ہیں، آپ کے بازو حرکت کر رہے ہیں، آپ کا ذہن کام کر رہا ہے، آپ کا قلم کام کر رہا ہے لیکن کام کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اللہ کر رہا ہے، اسے اللہ پر موکول کیا جا رہا ہے۔ خدا پر موکول کرنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہم کنارے بیٹھ جائیں اور کہیں کہ اللہ خود یہ کام انجام دے۔ جی نہیں اللہ اس طرح کوئی کام نہیں کرتا اور اگر کوئی کام ہم نے انجام دے دیا ہے تو اس کی بابت مغرورانہ انداز میں یہ سوچنا بھی درست نہیں ہے کہ اسے ہم نے اپنے بلبوتے پر انجام دیا ہے، ہم نے بذات خود ایک نمایاں کام پورا کیا ہے، یہ بھی ٹھیک نہیں ہے۔ اللہ تعالی مدد نہ کرے، اگر اس کی ہدایت و رہنمائی نہ ہو تو آپ کوئی بھی کام نہیں کر سکتے اور کوئی نتیجہ حاصل نہیں کر سکتے۔
جب دونوں باتیں ایک ساتھ جمع ہو جائیں، یعنی ایک طرف آپ نے اللہ پر توکل کیا، اس سے مدد مانگی، اسے حاضر و ناظر جانا، اسے اپنے کاموں کا مالک سمجھا اور دوسری طرف کام میں آپ نے اپنی پوری توانائی صرف کر دی تو یہ کام کی صحیح شکل کہلائے گی۔ «قالوا حسبنا اللَّه و نعم الوكيل» یہ ایسے ہی لوگوں کی تعریف ہے اور ان کے کاموں کے نتیجے کا ذکر اس کے بعد والی آیت میں ہے «فانقلبوا بنعمة من اللَّه و فضل لم يمسسهم سوء و اتّبعوا رضوان اللَّه»(2) وہ گئے اور لوٹ کر آئے بغیر اس کے کہ انہیں کوئی نقصان پہنچا ہو، بغیر اس کے کہ انہیں کوئی ضرب لگی ہو۔ انہوں نے دشمن کے تار و پود بکھیر دئے اور ان کے مال و منال پر قبضہ کر لیا اور سب کچھ اپنے ساتھ لیکر آئے۔ انہوں نے سازش کو ہی نقش بر آب نہیں کیا بلکہ تیسری ہجری میں جو جنگ احد کا سال ہے مدینے اور پیغمبر اسلام کی حکومت کے لئے مال غنیمت بھی جمع کر لیا۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم یہ باتیں یاد رکھیں، یہ صرف تاریخ نہیں ہے، صرف یادیں نہیں ہیں، یہ سبق ہیں۔ بزرگان دین کی خواہش ہے کہ ہم اور آپ ان حقائق کو ذہن نشیں رکھیں اور اپنی زندگی کے لئے انہیں مشعل راہ بنائیں۔ تعقیبات نماز صبح میں چار آیتوں کا ذکر ہے جو مفاتیح الجنان میں موجود ہیں، آپ اس کتاب سے رجوع کرکے ان آیتوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ ان آیتوں میں ہر آیت کا ایک نتیجہ ہے۔ «و افوّض امرى الى اللَّه انّ اللَّه بصير بالعباد. فوقيه اللَّه سيئات ما مكروا» (3) «لا اله الّا انت سبحانك انّى كنت من الظّالمين. فاستجبنا له و نجيّناه من الغمّ و كذلك ننجى المؤمنين»(4) یہ آیت جناب یونس سے متعلق ہے۔ تیسری آیت وہی ہے جس کی میں نے پہلے تلاوت کی یعنی «حسبنا اللَّه و نعم الوكيل. فانقلبوا بنعمة من اللَّه و فضل لم يمسسهم سوء چوتھی آیت ہے «ما شاء اللَّه لا قوّة الّا باللَّه»(5) اس کا تعلق دو بھائیوں کے ایک واقعے سے ہے۔ یہ سب ہمارے لئے سبق ہے۔ جب انسان کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کے سامنے کوئی بڑا کام ہے، کوئی بہت با ارزش کام ہے جس کے وسیع سماجی اثرات ہیں تو اسے انجام دینے کے لئے جوش و جذبہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔
بہرحال ہمارا اور آپ کا روز مرہ کا وقت تو گذر ہی رہا ہے۔ اچھا ہو، برا ہو، فرائض کے مطابق ہو یا فرائض کے بر خلاف ہو درست ہو یا نادرست ہو جیسا بھی ہو وقت تو بیتتا جا رہا ہے۔ دنیا کی ماہیت زوال پذیر ماہیت ہے۔ باقی رہ جانے والی چیز در حقیقت ان کاموں کے نتائج ہیں جو دیوان الہی میں محفوظ ہیں۔ یہ کبھی ختم ہونے والے نہیں ہیں۔ «لا يعزب عنه مثقال ذرّة»(6) ایک ذرے کے برابر! کوئی ذرہ بھی محاسبہ الہی سے مخفی نہیں رہے گا۔ اللہ کی خفیہ کیمرے ہمارے اعمال کے ایک ایک ذرے کو دیکھ رہے ہیں اور انہیں تول رہے ہیں، اتنا ہی نہیں ان کا ہمارے دلوں پر بھی احاطہ ہے۔ خفیہ کیمرے صرف عمارتوں میں، دفاتر اور کام کی جگہوں پر اور گھروں کے اندر ہی نہیں لگائے جاتے ہمارے دل کے اندر بھی ایک خفیہ کیمرہ لگا ہے۔ ہمارے دل کی واردات، ہمارے ذہن کی کیفیات اور خلوت و جلوت کے ہمارے سارے اعمال بغیر کسی کمی و بیشی کے منعکس ہو رہے ہیں اور روز قیامت یہ سب کے سب سامنے آئیں گے۔ «فمن يعمل مثقال ذرّة خيرا يره. و من يعمل مثقال ذرّة شرّا يره».(7) بظاہر آیت کا مفہوم یہ ہے کہ عمل مجسم ہو جائے گا اور انسان خود اپنی آنکھوں سے ان اعمال کو دیکھے گا۔ بہرحال خلاصہ یہ ہے کہ اعمال باقی رہیں گے اور ہمیں انہی باقی رہنے والی چیزوں کی فکر کرنا چاہئے۔ ہماری روز مرہ کی زندگی اچھی یا بری گذر رہی ہے، احترام و افتخار کے عالم میں یا بے احترامی کی حالت میں بیت رہی ہے، بھری جیب کے ساتھ یا خالی جیب کے ساتھ گزرتی جا رہی ہے، زندگی گزر جانے والی ہے باقی رہنے والی نہیں ہے۔ اس کی دلکش باتوں سے بھی دل لگانا ٹھیک نہیں کیونکہ انہیں باقی نہیں رہنا ہے، اس کی ناسازگاری کا بھی شکوہ درست نہیں کیونکہ یہ ناسازگاری ہمیشہ باقی رہنے والی نہیں ہے، گزر جانے والی ہے۔ باقی رہیں گے ہمارے اعمال کے نتائج، ثواب الہی اور عقاب خداوندی تو اسی کی فکر میں رہنا چاہئے۔
آپ تمام حاضرین سے اور خاص طور پر ان نوجوانوں سے جو اپنے کنبے کے ساتھ یہاں موجود ہیں مل کر بہت خوشی ہوئی۔ دعا کرتا ہوں کہ آپ سب کامیاب ہوں اور صحیح راستے پر چلیں، اللہ کی جانب سے معین کردہ صراط مستقیم کے مسافر بنیں۔
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته
1) آل عمران:آيت 173
2) آل عمران: آیت 174
3) غافر:آيت 44 و 45
4) انبياء:آيت 87 و 88
5) كهف:آیت 39
6) سبأ:آیت 3
7) زلزال:آيت 7 و 8