قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سب سے پہلے میں آپ تمام بہنوں اور بھائیوں کا جنہوں نے احسان کیا اور دور و نزدیک سے تشریف لائے اور شہدائے حج خونیں کو خراج عقیدت پش کرنے کے لئے یہ عظیم اجتماع تشکیل دیا، بالخصوص شہیدوں کے اہل خاندان، اس قوم اور انقلاب کے(دوران جد و جہد میں زخمی ہوکر معذور ہو جانے والے) عزیز جانبازوں اور زلزلہ زدہ علاقوں کے عوام کا پر خلوص شکریہ ادا کرتا ہوں۔ گذشتہ سال انہیں ایام میں ان علاقوں کے بھائی اور بہنیں بڑی آزمائش میں مبتلا تھیں۔ دعا ہے کہ خدا وندعالم گیلان ، زنجان اور تمام زلزلہ دہ علاقوں کے عوام کو صبر و تحمل اور نصرت الہی پر اعتماد عطا کرے اور اس عام مصیبت اور غم کے اثرات دور کر دے ۔
اسی طرح محکمہ تعمیری جہاد کے آپ عزیزوں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جو ملک کے مختلف علاقوں سے تشریف لائے ہیں۔ یہ محکمہ اپنی باقی رہنے والی برکتوں کے ساتھ واقعی اس ملک کے عوام کے لئے خداوند عالم کا عطیہ ہے۔ محکمہ تعمیری جہاد کے جہادی کارکنوں نے جنگ کے دوران بھی اور جنگ ختم ہونے کے بعد بھی بہت اہم مجاہدتیں کی ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ محکمہ جہاد اس ملک کے لئے خدا کی برکات میں سے ہے۔ امید ہے کہ کامیاب رہیں گے اوراس عظیم اور خدمت کی مستحق قوم کے لئے ان عزیزوں کی خدمات اور مجاہدتیں ہمیشہ جاری رہیں گی۔
آج اسلامی انقلاب کے مسائل میں جو بات عرض کرنے کی ہے، وہ یہی ملک کی تعمیر کا مسئلہ ہے۔ اگر اسلامی انقلاب اس ملک سے طاغوتی طاقتوں کے تسلط کے منحوس آثار مٹا سکے تو اس کا مطلب ہوگا کہ اس نے اپنا بہت بڑا فریضہ پورا کیا۔ طاغوتی طاقتوں کے تسلط کے دوران کے اثرات کیا ہیں؟ سب سے پہلی بات ملک کے بہت سے علاقوں میں غربت، پسماندگی اور جہالت ہے۔ اس قوم کی استعداد، ہوشیاری، ہر لحاظ سے اس کا غنی اور مالا مال ہونا اور اس کی اسلامی تعلیمات ان سب باتوں کے پیش نظر اس ملک کو سب سے زیادہ پیشرفتہ اور اس کی قوم کو دنیا کی غنی ترین اقوام میں ہونا چاہئے تھا، لیکن ایسا نہیں ہے ۔
کیا چیز باعث ہوئی کہ یہ بااستعداد قوم طویل عرصے تک شاید ایک دو صدی کے دوران علم و دانش کے کارواں سے اتنا پیچھے رہ گئی؟ یقینا اس ملک پر غیر امین عناصر کا تسلط اس کا باعث ہے۔ یہ ظالم، مستبد اور کوتاہ نظرسلاطین تھے جنہوں نے اس ملک کو ان مصیبتوں میں مبتلا کیا اور ترقی وپیشرفت رکی رہی۔ اگر ملک میں اسلامی قوانین پر عمل ہو اور اسلامی حکومت قائم ہو تو یہ رکاوٹیں دور ہوجائیں گی۔ ایران میں اسلامی انقلاب کو یہ بڑا کارنامہ اور معجزہ دکھانا ہے۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد کے بارہ برسوں میں سے دس سال جنگ میں گزرے ہیں۔ جنگ شروع ہونے سے پہلے سے لیکر جنگ ختم ہونے تک دنیا کی بڑی اور جابر طاقتوں نے جن کی بساط اسلامی انقلاب نے لپیٹ دی ہے، ہمارے انقلاب، ملک اور قوم پر انواع و اقسام کے دباؤ ڈالے۔ جن کو اسلام سے زک پہنچی تھی انہوں نے جہاں تک ان سے ہو سکا ان دس بارہ برسوں کے دوران ایرانی قوم کے لئے مشکلات کھڑی کی ہیں ۔
اس ملک کے نوجوانوں ، سائنسدانوں اور بااستعداد افراد کو دو سو سالہ پسماندگی کو دور کرنے کے لئے کمر ہمت باندھنا چاہئے۔ ظالم و جابر سلاطین اور اغیار پر موقوف حکومتیں جو نہ کرسکیں وہ آپ کو انجام دینا ہے۔ وہ کام یہ ہے کہ اس ملک اور قوم میں صلاحیتوں اور توانائیوں کو زندہ کیا جائے، ویرانیاں دور کی جائیں اور ملک کو ترقی دی جائے۔ باصلاحیت افراد اور صاحبان علم تیار کئے جائیں۔ یونیورسٹیاں ماہرین کو تیار کریں تاکہ کمزوری کی گرد و غبار جو دشمن نے ہمارے ملک کے بعض علاقوں میں پھیلائی ہے، ختم ہو سکے۔
ہم دوسرے ملکوں کے علم و دانش اور تجربے سے فائدہ اٹھانے کے مخالف نہیں ہیں لیکن ہماری گزارش یہ ہے کہ جس کو اس ملک کی تعمیر کرنی ہے، وہ ایرانی اور اپنے ہی لوگ ہیں۔ غیر آپ کے گھر کے لئے دل نہیں جلائے گا۔ آپ کو خود اپنے گھر کے لئے دل جلانا چاہئے۔ خود ایرانیوں، اس کے نوجوانوں، سائنسدانوں، ماہرین، دانشوروں اور ذہین افراد نیز عام لوگوں کے زور بازو سے اس ملک کی تعمیر ہونی ہے۔
البتہ دوسروں کے علم، تجربے اور مہارت سے فائدہ اٹھانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ہم اپنے اوپر سیکھنے کا راستہ بند نہیں کریں گے۔ دنیا کے مشرق و مغرب میں جہاں بھی علم و تجربہ ہوگا ہم وہاں جاکر وہ علم اور تجربہ حاصل کریں گے اور اس سے کام لیں گے۔ یہ اسلام کا حکم بھی ہے، اسلام اس کا مخالف نہیں ہے لیکن یہ بارگراں آپ کے کندھوں پر ہے۔ ہمیں آج یہی کہنا ہے ۔
ہمارے یہاں صرف جنگ، زلزلے اور سیلاب سے آنے والی تباہیاں ہی نہیں ہیں۔ بہت سی جگہوں تک جنگ کے اثرات نہیں پہنچے ہیں، زلزلہ اور سیلاب بھی نہیں تھا۔ مگرجنگ اور زلزلے سے بدتر ویرانی و تباہی ہے۔ گزشتہ دوسو برسوں کے دوران منحوس پہلوی اور مردود قاجاری خاندانوں کی حکومتوں نے ملک کو ایسا تباہ کیا ہے جو جنگ ، زلزلے اور سیلاب سے بدتر ہے۔
یہ بہت بڑا کام ہے، بارگراں ہے لیکن آپ کو اپنے کندھوں پر یہ بارگراں اٹھانا ہے۔ اس کے لئے یہی ہمارے مومن نوجوان ہی کارگر ثابت ہوں گے۔ ہمارے نوجوانوں کو چاہئے کہ خود کو تیار کریں۔ ہمارے تعمیری جہاد کے کارکنوں، یونیورسٹی طلبا اور ماہرین کو چاہئے کہ خود کو تیار کریں اور سرکاری اداروں کو بھی ان سے استفادہ کرنا چاہئے تاکہ اس ملک کی تعمیر کرکے اس کو مثالی بنایا جائے۔
اسلامی معاشرے میں مادی اور معنوی زندگی ایک ساتھ آگے بڑھتی ہے۔ اسلامی معاشرہ عوام کے دین ، اخلاق، ثقافت اور تعلیمات کو بھی مستحکم کرتا ہے اور ان کی مادی زندگی، معیشت، روزگار، پیداواراور ایجادات پر بھی پوری توجہ دیتا ہے۔ ایک اسلامی معاشرے میں یہ سب فراہم ہونا چاہئے۔ ہمیں یہ تحریک شروع کرنی چاہئے۔
آج الحمد للہ ملک کے حکام اور خدمتگار حکومت نے اسی ہدف کے لئے منصوبے تیار کئے ہیں۔ سب کو اسلامی انقلاب کے اہداف اور ملک کی تعمیر میں حکومت کی مدد کرنی چاہئے۔ انقلابی ادارے ، یہی تعمیری جہاد کا محکمہ ہمیشہ ملک کے حکام اور سب سے بڑھ کر ہمارے امام رضوان اللہ تعالی کی فکر میں رہا ہے۔ یہ فکر اب بھی ہے۔ یہ کبھی نہ ختم ہونے والی فکر ہے۔ آپ نے ہمت کی تو خدا وندعالم مدد کرے گا۔ یہ خدا کا وعدہ ہے جو یقینا پورا ہوگا۔
دعا ہے کہ خدا وندعالم اس ملک اور عوام کی ہدایت و مدد کرے۔ ہمارے عظیم امام کی روح کو اپنی برکات سے نوازے ، چار سال پہلے حج کے موقع پر خونیں واقعے میں شہید ہونے والوں اور اسی طرح گذشتہ سال کے زلزلے میں جاں بحق ہونے والوں کو غریق رحمت کرے ۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ