بسم اللہ الرحمن الرحیم
جو بات میں برادران عزیز سے عرض کرنا چاہتا ہوں وہ شکر و سپاس ہے۔ بہت سی باتیں جو میں نے سوچا تھا کہ اگر کبھی آپ سے ملاقات ہوئی تو عرض کروں گا جناب زم (1) کی رپورٹ میں موجود ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ الحمد للہ آپ کی توجہ معاملے کے تمام جوانب پر ہے۔ میں شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ اس فکر میں تھے، اس راہ میں استقامت سے کام لیا اور جو سرمایہ خدا وند عالم نے آپ کو عطا کیا ہے اسے خلوص کے ساتھ اس راہ میں خرچ کر رہے ہیں۔ ہمارے پاس جو ہے اس میں سے کچھ بھی تو ہمارا نہیں ہے۔ سب اس کا ہے۔ ہمارا ارادہ بھی اس کی راہ میں اور اس کی رضا کے لئے ہونا چاہئے۔ یہ سرمایہ بہت قیمتی ہے۔ میں آپ کے بھائی اور ایک مسلمان کی حیثیت سے جو ان باتوں کے تعلق سے خلوص و ہمدردی کا جذبہ رکھتا ہے اور ان مسائل کے سلسلے میں فکرمندی سے عاری نہیں ہے اور اسی طرح ایک قاری کی حیثیت سے جو ان تحریروں کو پڑھتا ہے اور معنوی لحاظ سے محظوظ ہوتا ہے، آپ کا شکریہ ادا کرتاہوں۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا، تقریبا آپ کی وہ تمام کتابیں جو ادارہ ہنر و ادب مجاہدت نے شائع کی ہیں، میں نے پڑھی ہیں اور ان میں سے بعض کو میں نےغیر معمولی پایا ہے۔
یہی میرا کمانڈر نامی کتاب جس کا ذکر ہوا، اس کام کا ممتاز نمونہ ہے۔ خود یہ فکر بہت اہم ہے۔ جو اس میں لکھا گیا اور پیش کیا گیا، اب چاہے آپ نے لکھا ہو، یاخود ان افراد نے لکھا ہو اور آپ کو ارسال کیا ہو اور بعد میں اس کی اڈیٹنگ کی گئی ہو، بہت اہم اور ممتاز کام ہے۔ میں جب اس کو پڑھ رہا تھا تو مجھے یہ فکر لاحق ہوئی کہ اگر ہم انقلاب کے مفاہیم کو (ملک کے باہر) برآمد کرنے کے لئے تمام کتابوں اور کتابچوں کو شائع کریں تو یہ معمولی کام نہیں ہوگا۔ بہت زیادہ کام ہوا ہے۔ البتہ انہوں نے (حجت الاسلام زم) خوش خبری دی ہے کہ الحمد للہ ان کے ترجمے کی فکر میں بھی ہیں۔ یہ بہت اہم ہے۔
میں نے ایک کتابچہ مقتل دیکھا جس میں بہت ہی حساس اور فیصلہ کن لمحات کو بیان کیا گیا ہے، ان نقاط کا ذکر ہے جہاں اسلامی مفاہیم ابھر کے سامنے آتے ہیں۔ لشکرکشی میں بڑے کام کے عنوان سے اسلامی مفاہیم نظر نہیں آتے۔ پوری دنیا لشکرکشی کرتی ہے، پوری دنیا جنگ کرتی ہے، پوری دنیا ایک دن جیتتی ہے اور ایک دن ہارتی ہے، سب خود کو بچاتے ہیں، سبھی حملہ اور فداکاری کرتے ہیں؛ لیکن وہ جگہیں جہاں اسلامی فکر، اسلامی کردار اور اسلامی جذبہ نمایاں ہوتا ہے، خاص مقامات ہیں۔ ان مقامات کی جستجو کرنا، ان کو بنیاد بنانا اور انہیں اچھی طرح بیان کرنا، واقعی اہم اور ممتاز کام ہے۔ خوش قسمتی سے آپ کا کام اسی زمرے میں آتا ہے۔
میں بھی اس تشویش میں، جس کی طرف آپ نے اشارہ کیا، آپ برادران کا شریک ہوں اور مجھے بھی یہ فکر لاحق ہے کہ جنگ کی ثقافت، انقلاب کی ثقافت اور در حقیقت انقلابی جذبہ، وہ جذبہ کہ جس نے میدان جنگ میں رشد اور بالیدگی کے مواقع پیدا کئے، کہیں ختم نہ ہو جائے۔ البتہ خدا پر توکل کرنا چاہئے اور مستقبل کی نسبت پر امید رہنا چاہئے۔ میں مستقبل کی نسبت اچھی امید رکھتا ہوں اور بہت سے روشن افق مجھے نظر آتے ہیں۔ بہر حال یہ تشویش ہے اور اس کو دور کرنے کی راہ یہ ہے کہ ہم کوشش کریں۔ یعنی اگر ہم نے حتی الوسع کوشش کی تو پھر یہ تشویش نہیں رہے گی۔
میرا نظریہ یہ ہے کہ اگرچہ جنگ بذات خود ایسی چیز نہیں ہے کہ اس کو موضوع بنایا جائے، لیکن اسلامی و انقلابی جذبات اور ان خصلتوں کو نمایاں کرنے کا بہت اہم میدان ہے جو ایک مسلمان میں پائی جانی چاہئیں۔ اس لحاظ سے بہت اہم ہے۔ ایسا زمانہ اور ماحول نصیب ہونے پر شکر ادا کرنا چاہئے۔ نہ ہونے پر واقعی انسان کو افسوس اور دکھ ہونا چاہئے۔ اگرچہ جنگ سے، من حیث جنگ، کسی کو خوشی نہیں ہوتی، لیکن سکے کا یہ دوسرا رخ ہمارے لئے بہت عظیم ہے۔ ہم اب کوئی جنگ نہیں چاہتے، ہم خود سے کوئی جنگ ایجاد کرنا نہیں چاہتے، لیکن جنگ کے آٹھ سال ہماری تاریخ میں محفوظ رہنا چاہئے۔ ان آٹھ برسوں میں جو کچھ ہوا، وہ استقامت کا جذبہ، وہ خلوص کے ساتھ فداکاری کا جذبہ، جو ہماری جنگ کے میدانوں میں موجود رہا ہے، ہمیں اس سے استفادہ کرنا چاہئے۔
آپ کی تحریروں کا وہ حصہ جہاں اخلاص کا ذکر ہے، انسان کو ہلاکر رکھ دیتا ہے۔ جو چیز بھی آپ پیش کریں وہ اخلاص کا مظہر ہو، یہ بہت اہم ہے ورنہ فداکاری تو سبھی کرتے ہیں۔ تعصب اور خود نمائی کے لئے بھی فداکاری کرتے ہیں۔ موت کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔ مثلا ایک ہواباز ائر شو میں فضا میں کئی قلابازیاں کھاتا ہے جبکہ پچاس فیصد امکان اس بات کا ہوتا ہے کہ اس کا طیارہ گر جائے لیکن وہ اس کام کو خود نمائی کے لئے قبول کرتا ہے۔ خود نمائی کے لئے اس سے بھی زیادہ خطرناک کام کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر بعض لوگ خود کو آگ لگا لیتے ہیں۔ ان کاموں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ جہاں کام خلوص کے ساتھ ہوتا ہے، یعنی انسان صرف خدا کے لئے اور اپنے فریضہ الہی کی انجام دہی میں کوئی کام کرتا ہے، اہمیت اور درخشندگی اس کو حاصل ہوتی ہے۔ ان نقاط کو ظاہر کرنے اور اپنی تاریخ میں اس جذبے کو جاری رکھنے کے لئے بہت زیادہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ جنگ کے ان آٹھ برسوں سے استفادہ کرنا چاہئے ۔
واقعہ عاشورا، شروع سے آخر تک، ایک لحاظ سے آدھے دن پر محیط رہا ہے، ایک لحاظ سے دو رات اور ایک دن رہا ہے اور ایک لحاظ سے سات آٹھ دن پر مشتمل رہا ہے۔ اس سے زیادہ تو نہیں رہا۔ اس دن سے، جس دن سے امام حسین سرزمین کربلا میں پہنچے ہیں، اس دن تک جب آپ اپنے خاندان سے جدا ہوئے ہیں، کتنے دن تھے؟ دو محرم سے گیارہ محرم تک نو دن تھے۔ خود یہ واقعہ آدھے دن کا ہے۔ آپ دیکھیں کہ یہ آدھے دن کا واقعہ، ہماری تاریخ میں کیا برکت لایا اور آج تک زندہ اور سرچشمہ الہام بنا ہوا ہے۔ یہ واقعہ صرف اس لئے نہیں ہے کہ اس کو پڑھیں، سنائیں اور لوگوں کو اچھا لگے اور اس سے جذباتی لحاظ سے متاثر ہوں۔ جی نہیں، یہ واقعہ تحریکوں اور برکات کا سرچشمہ ہے۔ اس کو ہمارے انقلاب، ہماری جنگ اور ہماری ماضی کی تاریخ میں نمایاں طور پر محسوس کیا گیا ہے۔ تاریخ تشیع میں بلکہ اسلام میں ظلم کے خلاف تمام انقلابات میں، چاہے وہ غیر شیعہ لوگوں کی طرف سے ہی کیوں نہ رہے ہوں، واقعہ کربلا واضح اور نمایاں طور پر موثر رہا ہے اور شاید غیر اسلامی معاشروں میں بھی یہ واقعہ موثر رہا ہے۔ خود ہماری تاریخ میں یعنی ان ایک ہزار تین چار سو برسوں میں، وہی آدھے دن کا واقعہ موثر رہا ہے۔ بنابریں یہ کوئی بعید اور عجیب بات نہیں ہے۔ اگر ہم اپنی جنگ کے آٹھ برسوں کا عاشورائے امام حسین ( (علیہ السلام ) کے آٹھ نو گھنٹوں سے موازنہ نہ کرنا چاہیں یا اس واقعے کو بہت زیادہ درخشاں نہ سمجھیں۔ اور واقعی ایسا ہی ہے۔ یعنی تاریخ میں میرے پیش نظر ایسا کوئی واقعہ نہیں ہے جو اس آدھے دن کی فداکاری سے قابل موازنہ ہو۔ سب اس سے بہت چھوٹے ہیں۔ لیکن پھر بھی اس کی بنیاد پر منصوبہ بندی کی گئی اور اس کا کچھ رنگ ضرور ہے۔ ہم اس فکر میں کیوں نہ رہیں کہ اپنے معاشرے میں طویل برسوں تک ( یہ آٹھ سالہ جنگ) اثرات کا سرچشمہ بنی رہے۔
ہمیشہ یہ نکتہ میرے ذہن میں رہا کہ دو فروردین ( بائیس مارچ) کا واقعہ - مدرسہ فیضیہ کا واقعہ-- پندرہ خرداد ( پانچ جون) کے واقعے سے چھوٹا تھا؛ اس سے قابل موازنہ نہیں تھا۔ یہ واقعہ غروب سے ایک دو گھنٹے پہلے شروع ہوا اور رات ہونے کے بعد ایک گھنٹے تک جاری رہا۔ یعنی تین چار گھنٹے مدرسہ فیضیہ میں طلبا کو زد و کوب کیا، ڈرایا دھمکایا، توہین کی اور قم کی سڑکوں پر انہیں مارا پیٹا۔ ہماری اطلاع کے مطابق، اس واقعے میں دو افراد مارے گئے البتہ زخمی بہت سے لوگ ہوئے۔ بنابریں اس واقعے کے پہلو بہت زیادہ نہیں تھے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اس واقعے سے عوام کو حرکت میں لانے میں کامیاب رہے۔ پندرہ خرداد ( پانچ جون) کا واقعہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے رقم نہیں کیا تھا۔ اس دن امام جیل میں تھے۔ پندرہ خرداد کا واقعہ عوام کے خود سے اٹھ کھڑے ہونے سے وجود میں آیا تھا۔ یہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے اس اقدام کا نتیجہ تھا جو آپ نے دو فروردین (بائیس مارچ) کو انجام دیا تھا۔ میں نے اسی سال یہ نکتہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) سے عرض کیا۔ سن تینتالیس ( ہجری شمسی مطابق چونسٹھ عیسوی ) کی عید ( نوروز) کے نزدیک میں جیل سے آزاد ہوا اور کسی طرح امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی خدمت میں پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اس زمانے میں (شمالی تہران کے ایک علاقے) قیطریہ میں ایک گھر میں رہتے تھے۔ میں نے انہیں چند لمحوں میں جو آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کی دست بوسی کا شرف حاصل کر سکا اور آپ کی زیارت سے جو میر حالت منقلب ہوئی تھی ( اس حالت میں ) چند جملے جو بول سکا، یہی بات عرض کی۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کے باہر نہ ہونے کی وجہ سے پندرہ خرداد ( پانچ جون) کے اتنے عظیم واقعے سے فائدہ نہ اٹھایا جا سکا۔ یعنی ہم جیسے لوگ جو باہر تھے، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے دو فروردین ( بائیس مارچ) کے واقعے سے استفادہ کیا لیکن پندرہ خرداد کے واقعے سے اس کا عشر عشیر بھی استفادہ نہیں کیا جا سکا۔ جبکہ پندرہ خرداد کا واقعہ بہت عظیم تھا۔ بعد میں جب امام (خمینی رحمت اللہ علیہ جیل سے) باہر آئے اور جلاوطن کئے گئے تو آپ کے اشاروں اور آپ کی باتوں نے لوگوں کو ہوشیار کرنے، ان میں مجاہدت کا جذبہ بیدار کرنے اور نوجوانوں کو راستے پر لانے میں پندرہ خرداد ( پانچ جون) کے واقعے کو برکتوں کا ایسا سرچشمہ بنا دیا کہ ان آٹھ نو مہینوں میں جب امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نہیں تھے اور یہ واقعہ اتنے جوش وخروش کے ساتھ رونما ہوا تھا، کوئی بھی اس واقعے سے اس طرح استفادہ نہ کر سکا۔
میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ ایک خزانہ ہے۔ ہم یہ خزانہ نکال سکیں گے یا نہیں؟ اگر نکال سکیں تو یہ ہمارا کمال ہوگا۔ امام سجاد ( علیہ السلام ) انہیں چند گھنٹوں میں خزانہ عاشورا نکالنے میں کامیاب رہے۔ امام محمد باقر( علیہ السلام) اور آپ کے بعد کے دیگر آئمہ ( علیہم السلام ) نے بھی استخراج کیا اور اس چشمہ خروشاں کو اس طرح جاری کیا کہ اب بھی جاری ہے۔ ہمیشہ لوگوں کی زندگی میں سرچشمہ خیروبرکت رہا ، ہمیشہ اس نے بیدارکیا، ہمیشہ درس دیا ہے اور بتایا ہے کہ کیا کرنا چاہئے۔ اب بھی ایسا ہی ہے۔ اس وقت بھی ہم میں سے ہرایک امام حسین ( علیہ السلام ) کے ارشادات میں سے جو ہمارے لئے باقی ہیں، پڑھتے ہیں تو بہت کچھ سیکھتے ہیں اور احساس کرتے ہیں کہ نئی زندگی مل رہی ہے اور نئی بات سمجھ میں آرہی ہے۔
البتہ یہاں نئی بات سمجھنے کا مطلب کوئی ایسا فارمولا نہیں ہے جس کا اب تک انکشاف نہیں ہوا ہے اور ہم انکشاف کرتے ہیں۔ نہیں، سوبار سن چکے ہیں۔ انسان کسی وقت کوئی بات سمجھتا ہے، پھر غافل ہو جاتا ہے اور جو اس نے سمجھا ہوتا ہے، اس کے ذہن سے محو ہو جاتا ہے۔ انسان کی فطرت ایسی ہے۔ لہذا یہ مستقل فکر، جس کی ہم کو ضرورت ہے اور مستقل انتباہ، جس کو سننے کے ہم محتاج ہیں، یہ ہے کہ ادراک ومعرفت کے وہ لمحات اور ذہن و روح کی درخشندگی مستقل جاری رہے اور انسان کے اندر بسط و فراخی کی حالت وجود میں آئے۔
یہ بسط اور تنگی جو عرفا کہتے ہیں، ایک حقیقت ہے۔ کبھی انسان ( کے ظرف) میں تنگی ہوتی ہے، ایسی گرفتگی اور بستگی کی حالت ہوتی ہے کہ تمام حقائق اس کے سامنے ہوتے ہیں لیکن حقائق کو پہچان نہیں پاتا۔ کبھی انسان میں بسط و فراخی کی ایسی حالت ہوتی ہے کہ اس پر تمام انوار اور روشنیوں کی تجلی ہوتی۔ اس لمحے میں انسان سے بعض اوقات خورشید کی سی روشنی ساطع ہوتی ہے۔ خود انسان بھی اپنی نورانیت کو محسوس کرتا ہے۔ انسان کو ان لمحات کی امام حسین (ع) کے ارشادات اور فرمودات میں جستجو کرنی چاہئے اور اپنے اندر یہ کیفیت وجود میں لانی چاہئے۔ (امام حسین علیہ السلام کے) یہ ارشادات انسان میں یہ لمحات پیدا کرتے ہیں۔
ہم نے ان آٹھ برسوں میں فداکاری کی۔ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ یہی اپنے اعضائے بدن کا نذرانہ پیش کرنے والے ہمارے جانباز اور دشمن کی قید سے آزاد ہونے والے جنگی قیدی جنہیں آپ دیکھ رہے ہیں، جو واقعہ بھی ان کے ساتھ ہوا، جو پرخلوص تجربہ انہوں نے خود کیا یا دوسروں میں دیکھا ، میری نظر میں انسان کی ہدایت کے لئے کافی ہے۔ یہ واقعات و تجربات واقعی ہماری ہدایت کرتے ہیں۔
میں جو کتاب بھی پڑھتا ہوں عام طور پر اس کی پشت پر نوٹ اور تقریظ لکھتا ہوں۔ یعنی اگر کوئی بات میرے ذہن میں آئی تو اس کو اس کتاب کی پشت پر لکھتا ہوں۔ اس کتاب میرا کمانڈر کو پڑھا تو اس کی پشت پر بے اختیار زیارت کا ایک حصہ لکھ دیا؛ السلام علیکم یا اولیاء اللہ و احبائہ (2) واقعی میں نے دیکھا کہ ان عظمتوں کے سامنے انسان اپنے حقیر ہونے کا احساس کرتا ہے۔ میں نے جب اس کتاب میں یہ عظمت و شکوہ دیکھا تو مجھے اندر ہی اندر اپنی فرومایگی کا احساس ہوا۔
یہ عظمت ہمیں کون دکھا سکتا ہے؟ یہ عظمت موجود ہے مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ کوئی ہمارے لئے اس کی نشاندہی کرے۔ وہ کون ہے؟ وہ آپ ہیں۔ یعنی اگر آپ اپنی قدر کو پہچانیں تو اپنے اندر ایسی نورانیت پیدا کرسکتے ہیں کہ جو انسانوں کو ہلاکر رکھ دے۔ حقائق ہمیں اس طرح منقلب کرتے ہیں۔ وہ حقیقت رونما ہوئی اور ایک لمحے میں ختم ہو گئی۔ البتہ ملکوت میں باقی ہے لیکن عالم فطرت و مادیت میں، ہمارے زمان و مکان کے حساب میں ایک لمحے میں کوئی واقعہ رونما ہوا اور ختم ہو گیا چلا گیا۔ اس واقعے کو کون جاویدانی بنا سکتا ہے ؟ کون سی چیز اس واقعے کو جس کو عام آنکھیں حتی عالم حضور میں نہیں دیکھتی ہیں، ایسا بنا سکتی ہے کہ اس واقعے کے عالم غیب میں بھی اپنے دل کی آنکھوں اور بصیرت باطنی سے دیکھا جا سکے؟ وہ چیز ہے ہنر اور فن۔ ہنر کا یہ اثر ہے ، وہ یہ کام کر سکتا ہے۔
میں نے ایسے واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں کہ شاید مادی آنکھیں اس کا اداراک نہ کر سکیں لیکن بعد میں جب آپ فنکار اس کو تحریر کرتے ہیں یا ڈرامے کی شکل میں پیش کرتے ہیں یا داستان کی زبان میں بیان کرتے ہیں اور میں ان واقعات کا ایک بار پھر جائزہ لیتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ واقعی عجیب واقعات تھے اور اب ان کو نئے سرے سے سمجھنا شروع کرتا ہوں۔ بنابریں میری نظر میں ایک مسلمان فنکار کا کردار غیر معمولی طور پر ممتاز کردار ہوتا ہے۔
افسوس کہ فن و ہنرکا میدان ابھی آپ کو نہیں ملا ہے۔ انقلاب کا ایک معجزہ فنکاروں اور تاریخ انقلاب کے راویوں کی پرورش ہے۔ الحمد للہ آپ کی تعداد بھی (کافی) ہے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو تعداد کے لحاظ سے آپ پر ترجیح رکھتے ہیں، آپ سے آگے ہیں اور وسائل بھی ان کے اختیار میں ہیں۔ ان میں سے بعض فن کے لحاظ سے بھی سرشار ہیں لیکن دولت غیروں کے پاس ہے اور تیغ آپ کے دشمنوں کے ہاتھ میں ہے۔ انسان عموما فن کار کے مقابلے میں خود کو چھوٹا محسوس کرتا ہے۔ میں خود جب فنکاروں پر نظر ڈالتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ میرے مقابلے میں ان کا درجہ کتنا بلند ہے لیکن وہ فنکار جن کا ہنر غیر کے لئے ہوتا ہے اگرچہ ان کا فن اعلا ہو تا ہے اور ان میں سے بعض بہت ممتاز ہیں، لیکن مجھے ان کے ہنر میں اقدار نظر نہیں آتیں۔
پیسہ، دولت، قوت بازو، زبان گویا اور دیگر سرمایہ جو حق و صداقت اور انسانیت کے لئے نہ ہو، اس کی کیا حیثیت ہے؟ کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس وقت اسرائیل کے پاس سائنس و ٹکنالوجی ہے لیکن ایٹمی اسلحہ بنانے کے لئے ہے۔ کیا اس کی کوئی اہمیت ہے؟ نہیں، ان چیزوں کی اہمیت بعض پہلوؤں کو ملحوظ رکھنے جانے سے مشروط ہے۔ مطلقا اہمیت ان کو حاصل نہیں ہے۔ البتہ ایسی چیزیں بھی ہیں جو مطلقا اہمیت رکھتی ہیں۔ دینی بنیادیں، صحیح اور سچی اقدار کو مطلق بنا دیتی ہیں لیکن سائنس، صنعت اور ٹکنالوجی مطلق اقدار میں سے نہیں ہیں۔ ان کے سلسلے میں یہ دیکھنا ہوگا کہ ان سے کہاں کام لیا جاتاہے، کس کے اختیار میں ہیں، ان سے کس طرح استفادہ کیا جاتا ہے: فن و ہنر بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔
اگرچہ آپ کی تعداد ان فنکاروں کے لشکر کے مقابلے میں کمتر ہے تو بھی آپ کی اہمیت ان سے بہت زیادہ ہے۔ اگرچہ میں سمجھتا ہوں کہ آپ کی صحیح تعداد سے میں واقف نہیں ہوں، اس سلسلے میں اگر مناسب سمجھیں تو بعد میں مجھے مطلع کر دیں۔ ابھی ابھی وہ تفصیلی خط جس میں آپ حضرات نے میری نسبت محبت کا اظہار کیا تھا اس خط کے نیچے ایک ستون میں فنکاروں کے نام درج تھے، مجھے یاد آیا۔ اگرچہ میں ان میں سے بہت سے ناموں سے واقف نہیں تھا مگر ان کی تعداد کافی تھی۔ یقینا ہمارے پاس ماہر افرادی قوت بھی زیادہ ہے۔ انہیں پہچاننے کی ضرورت ہے۔ اوائل انقلاب میں بعض کہتے تھے کہ قحط الرجال ہے۔ ہم کہتے تھے کہ جہل الرجال ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم شخصیات کو نہیں پہچانتے۔
بہرحال آپ کا کام بہت اہم ہے۔ میں یہی عرض کرنا چاہتا تھا۔ اگرچہ آپ حضرات جانتے ہیں۔ اس راستے اور سمت میں زیادہ محنت اور کوشش کے ساتھ، مشکلات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے، بلند قدام اٹھاکے، اہداف کو نظر میں رکھ کے، خداوند عالم سے مدد اور نصرت طلب کرکے اور اخلاص کے ساتھ - بنیاد یہی اخلاص ہے - بتوفیق پروردگار اس راستے پر گامزن رہیں۔ میں بھی، جیسا کہ نے عرض کیا، واقعی آپ کے لئے دعاگو ہوں کہ خدا آپ کو توفیق عطا کرے اور آپ کی نصرت کرے۔ اس بات سے خوش ہوں کہ یہ طیب وطاہر سلسلہ ہمارے معاشرے میں ہے، خوش ہوں اور خدا سے دعا ہے کہ آپ زیادہ سے زیادہ کامیاب ہوں، آپ کی امید اور آپ کا حوصلہ بڑھے، آپ زیادہ جوش و جذبے کے ساتھ اچھے اور بنیادی کام کریں اور خدا کی نصرت سے رکاوٹوں کو دور کریں۔ انشاء اللہ تمام حضرات کامیاب و منصور ہوں۔ وہ برادران جو دیگر شہروں اور اضلاع میں ہیں اور اس جلسے میں نہیں آ سکے ہیں ان کو میرا سلام پہنچائیں۔
والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
1- ادارہ تبلیغات اسلامی کے شعبہ فن وہنر کے سربراہ 2- مفاتیح الجنان ، زیارت وارثہ ۔